اتوار, نومبر 22, 2009

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟

”اسلام کتنا عمدہ دین ہے کاش کہ اس کے افراد بھی ویسے ہوتے ۔“
 ایک نومسلم خاندان کے پاکیزہ جذبات پر مشتمل یہ تحریر ہے جسےپڑھ کرجذبات میں ہلچل مچ جاے گى، آنکھیں اشک بار ہوجائیں گی اورسوچنے پرمجبور ہوں گے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ….؟
 ”میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیاتها کہمیں ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے، اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے محض اس وجہ سے دور تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھى اوراپنے نام سرکاری کاغذات بهى تيار كرالى تھى، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی۔“

گذشتہ دنوں سفر ہندوستان کے دوران اپنے علاقہ کے مختلف قصبات اور شہروں میں دعوتی پروگرامز رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، بہار کی راجدھانی پٹنہ میں السلام ایجوکیشنل اینڈویلفیر فاونڈیشن کے زیراہتمام یہاں کی متعدد مساجد میں خطاب کرنے کا موقع ملا ، ایک روز نماز فجر کے بعد درس قرآن سے فارغ ہوئے تو ایک چالیس سالہ باریش شخص سے ملاقات ہوئی،درس سورہ عصر کی تشریح پر مشتمل تھا جس میں دعوت پر زور دیا گیا تھا اس سے وہ کافی مثاثر تھے ،کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ باطل آج اپنی فکر کو پھیلانے میں نہایت چست دکھائی دے رہا ہے لیکن دین حق کے ماننے والے بالکل سست ہوچکے ہیں ۔ ہم نے ان کی بات پر حامی بھرى اوران کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ اسلام کوآپ جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے جو سونے والوں کو بیدار کریں ،کہنے لگے : مولانا: میرے بارے میں اللہ رب العالمین سے خاص دعا کریں کہ گھر میں ایمان آجائے ؟میں نے کہا : کیا مطلب ! گھر کے افراد دین سے دور ہیں ؟ کہنے لگے : ابھی دین میں تو آئے ہی نہیں ہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے چند سالوں قبل اسلام قبول کیا ،اس اثناء اہل خانہ اور بچوں کے سامنے اسلام پیش کر نے کی پورى کوشش کی لیکن کچھ اسباب تھے جس کے باعث وہ اسلام کے قریب نہ آسکے ،لیکن ابھی وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں اور ایک مولانا نے اگلے ہفتہ ہمارے گھر آکر اہلیہ کو کلمہ تلقین کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔میں نے انہیں مبارکباد دی ،اور پوچھا کہ کیا آپ کی اہلیہ اسلام سے بالکل مطمئن ہیں ،کہنے لگے : ہاں ! وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں ،میں نے کہا: تو پھر ایک ہفتہ کی مہلت کیوں؟ اگر مناسب سمجھیں تو آج ہی ان کو کلمہ پڑھادیاجائے ۔ چنانچہ اتفاق ہواکہ رات میں بعدنماز عشاء ان کے گھر جاکر اہلیہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کردی جائے۔ حسب وعدہ نماز عشاء کے بعد مل گئے ،اس طرح ہم محترم محمدافتخارصدیقی اور مولانا حبيب الرحمن عالياوى کی معیت میں ان کے گھر گئے ،اہلیہ عیسائی مذہب پر تھیں،ہم نے سب سے پہلے ان کی باتیں سنیں جن سے اندازہ ہوا کہ وہ اسلام کو پسند کرتی ہیں اورشوہر کے قبول اسلام کے بعد اسلام کا مطالعہ بھی کیا لیکن ایک مسلمان کے غلط رویہ سے اسلام سے متنفر تھیں،انہوں نے کہا کہ :
“میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیا تهاکہمیںان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے ،اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے دور محض اس وجہ سے تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھی اور اپنے نام سرکاری کاغذات بنا لیے تھے، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی ، لیکن اللہ کی شان کہ گذشتہ رمضان میں اس کے دل میں غلطی کا احساس ہوا بالآخر میرے والد کے پاس آکر معافی مانگا اور گذارش کی کہ چلیں ہم وہ زمین آپ کے نام کردیتے ہیں،اس طرح وہ زمین میرے والد کی تحویل میں آگئی،اب مسلمانوں کے تئیں میرے والد کے ذهن میں جو بدظنی تھی جها ں اس میں کمی آئی وهيں میں بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگی،اور شوہر کے ساتھ کچھ روزے بھی رکھے،لیکن اب تك اسلام کی توفیق نہ مل سکی تھی….“
میں ان کی باتیں بغور سن رہا تھا ،جذبات میں ہلچل مچ رہى تھى، اور اس بات پر رونا آرہا تھا کہ آج ہمارے بعض مسلم بھائی کس طرح اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ میں نے متعدد مثالوں کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی آفاقیت اورمسلمانوں کے طرزعمل کے بیچ فرق کو سمجھیں، اس کے بعد اسلام کا تعارف کراتے ہوئے عیسائی عقیدے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ پیش کیا، پھر ان کے چند سوالات تھے جن کے تشفی بخش جوابات دیئے گئے تو وہ قبول اسلام کے لیے مطمئن ہوگئیں،بالآخر اسی وقت ان کو کلمہ شہادت پڑھا دیاگیا ۔
قبول اسلام کے بعد ہم نے انہیں مبارکباد دی ، اور کچھ احکام بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اب آپ کو پنجوقتہ  نماز یں پڑھنی ہے ،کہنے لگیں کہ ہاں بالکل اس کے لیے تیار ہوں ،البتہ فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونا مشکل ہے ، ہم نے پوچھا کہ آپ کتنے بجے بیدار ہوتی ہیں ، کہنے لگیں: چھ بجے ،ہم نے کہا : اسی وقت فجر کی نماز ادا کرلیں، (کیونکہ نومسلموں کے سامنے احکام پیش کرنے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا بیحد ضروری ہے)۔
اس مجلس میں ہم نے اب تک نومسلمہ کی زبانی اپنے شوہر کی بہت ساری خوبیاں سنیں،اس سے پہلے ہم نے خود اسماعیل بھائی کے دینی جذبات سن رکھے تھے ،اس لیے مناسب سمجھا کہ ان سے بھی گفتگو کرلی جائے،چنانچہ ہم نے موصوف کے قبول اسلام کا قصہ سنا اوراس سے متعلقہ باتیں کیں ، ذیل کے سطورمیں ہم ان سے ہوئی طویل گفتگو کا خلاصہ پیش کررہے ہیں :

سوال :سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں ؟
جواب :میرا پیدائشی نام جولین فرانسس داس ہے ، البتہ قبول اسلام کے بعد میں نے ’اسماعیل‘ نام اختیار کیا ہے  ، جنوب ہند بنگلور کے ایک رومن کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، اسی مذہب پر رہا ، یہاں تک کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسرروزگار ہوا تو بنگلور چرچ آف کرائسٹ جو بنگلور میں عیسائیوں کی نہایت سرگرم تنظیم ہے ، انہوں نے مجھے دعوت دی ،میں ان کے پاس جانے لگا ، پادری اپنی نگرانی میں میری تربیت کرنے لگا یہاں تک کہ ایک روز میں ان کے ہم مذہب ہوگیا اور ان کی دعوت کو فروغ دینے میں پورى تندہى سے لگ گيا۔

سوال :آپ کس پیشے سے منسلک ہیں ؟
جواب: میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں،فی الحال ایک انٹرنیشنل کمپنی میں سلائی کی نگرانی پر مامور ہوں۔ کمپنی کی طرف سے مختلف ممالک اور شہروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ،ان دنوں پٹنہ میں رہنا ہو رہا ہے ۔

 سوال : آپ کے قبول اسلام کا سفر کیسے شروع ہوا ؟
جواب :یہ کوئی 1992ء کی با ت ہے ، جس دکان میں کام کرتا تھا وہ ایک مسلمان کی دکان تھی ، اس نے ایک روز مجھے احمد دیدات صاحب کی کتاب لاکر دی، جس میں عیسائیت اوراسلام کا موازنہ کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی گئی تھی ،میں نے جب کتاب پڑھى تو یہ پہلا موقع تھا جب اسلام سے متاثر ہوا اوراپنے مذہب کی بابت شک میں پڑگیا، کتاب کى پشت پر مطبوعات کی فہرست دیکھی جس میں ساوتھ افریقہ کے دعوتی مرکز کا پتہ دیا گیا تھا ، میں نے ان کو خط لکھاکہ مجھے فلاں فلاں کتابیں چاہئیں ،اللہ پاک ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ فوراً انہوں نے مجھے مطلوبہ کتابیں ارسال کردیں ، میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا،اب میں چرچ جاتا تو پاسٹر سے مختلف طرح کے سوالات کرتا،شاید وہ مجھے بھانپ گیا تھا کہ میں اس کے عقیدے پر کاری ضرب لگا رہا ہوں،وہ مجھے تجسس کی نگاہ سے دیکھنے لگا،بالآخر چرچ سے مجھے برخواست کردیا گیا۔
1995ء میں میری کمپنی نے مجھے دہلی منتقل کیا ،ایک روز جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں سے نماز کی ایک کتاب خریدی اور نماز کی دعائیں وغیرہ سیکھنا شروع کردیا،اب تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ،لیکن نماز میں مجھے عجیب طرح کا سکون ملتا تھا اس لیے نماز شروع کردی ، ماہ رمضان آیا تو روزے بھی ركھے ۔
اسی اثناء کمپنی نے مجھے انڈونیشیا منتقل کردیا، میں احمد دیدات صاحب کا عقیدت مند بن گیا تھا، انٹرنیٹ پر ان کا پروگرام پابندی سے دیکھتا۔اسی طرح قرآن کی تلاوت بہت شوق سے سنتا تھا ، ایک دن قاری صداقت علی کی آواز میں قرآن کی تلاوت مع ترجمہ سن رہا تھا ، تلاوت سورہ رحمن کی تھی ،سورہ کا پیغام میرے دل کو چھو گیا،مجھے سورہ بہت پسند آئی ،اوراسے میں نے یاد کرنا شروع کردیا،روزانہ دو آیتیں یاد کرتا بالآخر چند ہفتوں میں پوری سورہ یاد کرلی ۔

سوال :قرآن سے آپ کی دلچسپی کی وجہ ؟
جواب:قرآن سے میری دلچسپی کی واقعی اہم وجہ ہے ، مجھے غصہ بہت آتا تھا ،یہاں تک کہ میں اپنی بیوی پر بھی بہت غصہ كرتا تھا،لیکن ایک روز قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچا کہ جنت کے حقدار وہ لوگ بنیں گے جو چند صفات سے متصف ہیں ان میں سے ایک صفت جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اورلوگوں کے ساتھ عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں، (سورہ آل عمران ۴۳۱) یہ آیت میرے لیے نیک فال ثابت ہوئی، میں اسکے بعد خود کو تربیت دینے لگا کہ غصہ نہیں کروں گا،یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ پر کنٹرول کرلیا،(بیوی جو شریکِ گفتگو تھی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اندر یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھی کہ بالکل نرم مزاج بن گئے ، اب ان کو کچھ بھی بول دو غصہ نہیں آتا )۔

 سوال :ہاں! تو ابھی آپ اپنے قبول اسلام سے پہلے کا قصہ سنا رہے تھے کہ آپ نے سورہ رحمن کو اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی یادکرلیاتھا ۔ پھرقبول اسلام کی سعادت کیسے نصیب ہوئی ؟
جواب: جی ہاں! ایک روز کی بات ہے ،میرے ایک انڈونیشین دوست نے مجھ سے کہا کہ تم کو میں اسلام سے بہت قریب دیکھتا ہوں، تم اسلام قبول کیوں نہیں کر لیتے ، میں نے اس سے سارا ماجرا سنا دیا اورکہا کہ واقعی مجھے اسلام پسند ہے لیکن ایک بہت بڑی رکاوٹ میرے سامنے یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو اسلام سے بہت دور دیکھتا ہوں ، میری پیدائش کلکتہ میں ہوئی ،جس علاقہ میں رہتا تھا وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی ،ان کا سارا عمل اسلام کے خلاف تھا ،میں قرآن میں کچھ پڑھتا ہوں اور مسلمان کچھ اور نظر آتے ہیں، آخر میں ویسا مسلمان کیوں بنوں ؟۔
انڈونیشا کا میرا دوست دیندار تھا ،وہ مجھ سے بہت قریب ہوگیا،اپنے گھر لے جاتا اور اسلام کی بہت ساری معلومات فراہم کرتا، اس نے مجھے ایک روز سمجھایاکہ تم مسلمانوں کے مذہب کو قبول نہیں نا کر رہے ہو ،اللہ کے دین کو اپنا رہے ہو….پھر سارے مسلمان ویسے نہیں ہوتے ، تمہیں چاہیے کہ اگر اسلام سمجھ میں آگیا ہے تو کلمہ شہادت کی گواہی دے کر مسلمان بن جاؤ ،بالآخر اس کی ترغیب پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔

سوال: قبول اسلام کو کتنے سال ہوگئے ؟
جواب : مکمل چار سال ہوگئے ۔

سوال :اسلام میں آپ کو سب سے زیادہ کونسی چیز پسند ہے ؟
جواب: اسلام میں سب سے زیادہ مجھے قرآن پسند ہے ، میں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ ایک مرتبہ ختم کیا ہے ،اور دوسری چیز جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے وہ اسلام کا طریقہ عبادت یعنی نماز ہے ،ہر مسلمان کے لیے پنجوقتہ نمازوں کی پابندی ضروری ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ بھی منطقی اور معقول ہے۔ جب کہ عیسائی مذہب میں ہفتہ میں ایک دن چرچ جانا ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے لیے ۔

 سوال: آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی طرف دعو ت دینے میں کیا رول ادا کیا ؟
جواب : شروع سے میری پوری کوشش رہی کہ گھر والے اسلام قبول کرلیں ،تاہم حکمت کے پیش نظر میں نے شروع میں اہلیہ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا ، جب بعد میں ان کو اطلاع مل گئی تو انہیں دعوت دینا شروع کردیا، چونکہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں تحفظات تھے جس کی وجہ سے لیت ولعل سے کام لیتی رہی، تاہم میں مایوس نہیں تھا، تہجد کی نماز میں اللہ پاک سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا تھا ۔ الحمدللہ آج ان کو ہدایت مل گئی ۔

سوال :کیا آپ تہجد کا اہتمام بھی کرتے ہیں ؟
جواب : اللہ کا شکر ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے مجھے نمازتہجد کی توفیق مل رہی ہے ۔اذان سے پہلے بیدار ہونا میرا معمول بن چکا ہے ۔ الحمدللہ

سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب : ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے ،بیٹا گیارہ سال کا اور بیٹی نو سال کی ہے ۔ دونوں بنگلور میں پڑھتے ہیں ۔

سوال : آپ دعوت کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں ؟
جواب: میں ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، روزانہ بذریعہ ای میل مجھے صحیح بخاری سے منتخب احادیث موصول ہوتی ہیں تلاوت قرآن کے معاً بعد انہیں پڑھتا ہوں، اس طرح اب تک میں نے چارسو احادیث یاد کرلی ہیں، اس کے بعد مستقل آدھا گھنٹہ عیسائی دوستوں کو تعارف اسلام پر مشتمل مواد ارسال کرنے اوران کے سوالات کے جوابات دینے میں لگاتا ہوں۔

سوال : آپ ایک عرصہ سے مسلمان ہیں جبکہ آپ کی اہلیہ نے آج اسلام قبول کیا ہے ،اوردونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں،اس مدت میں آپ کی اہلیہ کبھی آپ کی ادا اورآپ کے معمول سے ناراض نہیں ہوئیں ؟
جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شروع میں اہلیہ کو اپنے اسلام کی اطلاع نہیں دی تھی ،جب ان کو میرے اسلام کا پتہ چلا تو کوئی خاص ناراضگی ظاہر نہیں ہوئی کہ میرے اندر غيرمعمولى نرمى آچکى تھى ،اوران کے ساتھ معاملہ میں پہلے سے بہتر بن گیا تھا ۔

سوال : (اسماعیل بھائی کی اہلیہ جو شریک گفتگو تھیں ان سے سوال ) آپ بتائیں کہ جب آپ کو اسماعیل بھائی کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو آپ کو کیسا لگا؟
جواب :مجھے رنج اس بات سے نہیں ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے بلکہ رنج اس بات پر ہوا کہ انہوں نے مجھے بتائے بغیر یہ فیصلہ کرلیا۔ اس پرطرہ یہ کہ جب کبھی ان کے ہمراہ کہیں جانا ہوتا ،ہمارے بیچ سے نکل جاتے اورکچھ دیر کے بعد لوٹتے،جب تک ہم ان کے لیے پریشان ہو جاتے تھے ، پوچھنے پر تشفى بخش جواب نہیں مل پاتا، یہ طریقہ مجھے بہت خراب لگا، بعدمیں پتہ چلا کہ ان کا ہمارے بیچ سے نکلنا نمازکے لیے ہوتا تھا۔
اسی طرح اسلام قبول کرنے کے بعد سونے سے قبل قرآن سننے کی ان کی عاد ت سی بن گئی تھی ، کمپیوٹر میں ڈاون لوڈ تلاوت کھول دیتے اور سنتے رہتے ، یہاںتک کہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ، اس سے میں پریشان ہوجاتی تھی بلکہ بسا اوقات نیند نہ آنے کی وجہ سے باہر نکل جاتی  تھی ،اب تک ان کا یہی معمول ہے ،البتہ اب اس سے مانوس ہوچکی ہوں،اور مجھے بھی قرآن سننا اچھا لگنے لگا ہے ۔

 سوال :مسلمان بھائیوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ صحیح اسلام کو اپنائیں ،اپنا عقیدہ ٹھیک کریں ،اس کے بعد پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں ،مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ مسجد قریب ہونے کے باوجود لوگ نمازکے لیے حاضرنہیں ہوتے ،اور اپنے گھروں میں بیٹھے ٹیلیویژن کے اسکرین پر فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
 ہمیں چاہیے کہ مثالی مسلمان بنیں جیسے صحابہ کرام کی درخشاں اور مثالی زندگی کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ جس طرح انہوں نے اسلام کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح ہمیں بھی اسلام کے فروغ کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ عیسائیوں کو دیکھیں کہ دعوت کے میدان میں کس قدر چست ہیں ،ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد بائیبل ہاتھ میں دبائے عوامی مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور جب موقع ملا،بائبل پڑھ کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔دعوت کے کام میں پلاننگ ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔

محترم قارئین!آپ نے اسماعیل بھائی اوران کی اہلیہ کے قبول اسلام کا قصہ پڑھا اوران کے جذبات سے واقف ہوئے ،اس میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے، نصیحت ہے کہ ہم خودکو اسلام کا نمونہ بنائیں اورغیرمسلموں کے لیے نمونہ بنیں،کیاپتہ کہ شاید ہم کسی شخص کے قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہوں۔

                                                                                          صفات عالم محمد زبیرتیمی
مکمل تحریر >>

اتوار, نومبر 15, 2009

کیا آپ ...؟


[1] کیا آپ کی زندگی احساسِ بندگی کے ساتھ گذر رہی ہے ؟
[2] کیا آپ نے سنن ونوافل کے ساتھ تکبیر تحریمہ کا ہتمام کیا ہے ؟
[3] کیا آپ نے نماز کے بعد مسنون اذکاراور مختلف اوقات کی دعاوں کا اہتمام کیا ہے ؟
[4]  کیا آپ نے صلوة اللیل اور صیام تطوع کی کوشش کی ہے ؟
[5]  کیا آپ تدبر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے ہیں ؟
[6]  کیا آپ نے عدل،احسان اور صلہ رحمی کا اہتمام کیا ہے ؟
[7]  کیا آپ نے غیبت ، بدظنی،استہزاءاور لایعنی باتوں سے پرہیز کیا ہے ؟
[8]  کیا آپ نے ریاکاری ، شہرت پسندی اور کبر سے بچنے کی کوشش کی ہے ؟
[9] کیا آپ نے ذریعہ معاش میں حلال وحرام سے بچنے کی تمیز کی ہے ؟
[10]  کیا آپ نے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کیا ہے ؟
[11]  کیا آپ نے کسی مصیبت زدہ انسان کی خدمت کی ہے ؟
[12]  کیا آپ نے نیک لوگوں کے ساتھ رہنے اور بُرے ساتھیوںسے بچنے کی کوشش کی ہے ؟
[13]  کیا آپ نے اپنے اہل وعیال اور دینی بھائیوں کی اصلاح کی کوشش کی ہے ؟
[14] کیا آپ نے کسی غیرمسلم بھائی کو اسلام کی دعوت دی ہے ؟
[15] کیا آپ نے دینی معاشرہ کی تشکیل کے ليے اجتماعی جد وجہد میں حصہ لیا ہے ؟
[16] کیا آپ نے ہر عمل کے ساتھ رضائے الہی اور آخرت طلبی کو مدنظر رکھا ہے ؟
[17] کیا آپ نے موت ، قبراور آخرت کو یاد کرکے توبہ واستغفار کیا ہے ؟
[18] کیا آپ ہمیشہ ہدایت واستقامت کے ليے دعا کرتے ہیں ؟ ۔


مکمل تحریر >>

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

جس وقت یہ شمارہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچے گا آپ عید قرباں کی عظیم یادگار منا نے کی تیاری کررہے ہوں گے ، ہرسال حجِ بیت اللہ اورعید قرباں کی مناسبت سے روایتی اندازمیں سنتِ ابراہیمی کا اعادہ توضرور ہوتاہے تاہم اس تابناک اور درخشندہ زندگی میں ملک وقوم ، فرد ومعاشرہ اور خاندان کے ليے عبرت ونصیحت کا جوجامع پیغام دیاگیا ہے اس کی طرف ہمارا دھیان بہت کم جاتا ہے ....
مکمل تحریر >>

حج كى فضيلت

عَن أبِی ھُرَیرَةَ رضي الله عنه سَمِعتُ رَسُولُ اللّٰہِ ُّ صَلٰی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم یَقُولُ: مَن حَجَّ فَلَم يرفُث وَلَم يَفسُق رَجَعَ کَيومِ وَلَدَتہُ أمُّہ  (رَوَاہُ البُخَارِی وَمُسلِم)

ترجمہ :
 سیدنا ابوہریرہ رضى الله عنه کا بیان ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صَلٰی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّم  کو فرماتے ہوئے سنا ”جس نے حج کیا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گوياآج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے“ ۔(بخاری ومسلم)
تشریح : پیش نظر حدیث میں حاجی کے ليے اس انعام کا تذکرہ کیا گیا ہے جس سے وہ حج کے بعد سرفراز کیا جاتا ہے ، البتہ انعام کے ليے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ حج کے دوران دوباتوں سے دور رہا
٭ شہوانی فعل
٭ فسق وفجور کاارتکاب
قرآن کریم میں بھی حج کی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ فَمَن فَرَضَ فِیھِنَّ الحَجَّ فَلَارَفَثَ وَ لَا فُسُوقَ وَلَاجِدَالَ فِی الحَجِّ کہ حج میں ”رفث ،فسوق اور جدال“ سے اجتناب کیا جائے ۔ 
اب سوال یہ ہے کہ ان امور کاخصوصیت کے ساتھ ذکر کیوں ہوا؟
تواِس کا جواب یہ ہے کہ حج میں ان چیزوں سے اکثر سابقہ پڑتا ہے ، دورانِ حج احرام کی پابندیوں کی وجہ سے عورت کو چہرہ ڈھکنے کی اجازت نہیں ،اس لیے ساری عورتیں اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں، مناسک ِحج کی ادائیگی کے وقت بسااوقات ٹکڑا جانے کی بھی نوبت آجاتی ہے ، ایسے حال میں اللہ کا ڈر دل میں بیٹھائے رہنا اور کسی عورت پر غلط نگاہ نہ ڈالنا حج کا اہم تقاضا ٹھہرا ۔
پھراس مناسبت سے لڑائی جھگڑے کے اسباب بھی پیدا ہوجاتے ہیں ،مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والوں،مختلف طبائع کے لوگوں اور مختلف تہذیب وثقافت کے حامل اشخاص سے معاملہ کرتے وقت اونچ نیچ کا ہونا یقینی ہے ،بسااوقات آپ نے کوئی کام صحیح سمجھ کر کیا جبکہ وہی کام دوسرے کے مزاج کے خلاف ہوگیا ایسی صورت میں لڑائی جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے لیکن آپ نے صبروضبط سے کام لیتے ہوئے اپنے بھائی کی غلطی کومعاف کردی توبڑا اہم کام کیا۔
غرضیکہ ایک حاجی جب ایسے عظیم منسک کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے آپ کو شہوانی وجنسی فعل، جنگ وجدال اور فسق وفجور کی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھتا ہے تو اُس کے حق میں یہ خوش خبری سنائی جارہی ہے کہ جب وہ حج کرکے گھر لوٹتا ہے تو وہ بالکل دودھ کا دھلا ہوجاتا ہے ۔ اس کی حالت نوزائیدہ بچے کی سی ہوتی ہے ۔ گویا وہ نئی زندگی کی شروعات کر رہا ہوتا ہے ۔ظاہر ہے جو شخص گناہوں سے اس طرح پاک ہو جس طرح کہ اپنی پیدائش کے دن تھا آخر اس کے دخولِ جنت میں کونسی چیز مانع ہوسکتی ہے ۔ تب ہی تو فرمایا گیا : اَلحَجُّ المَبرُورُ لَیسَ لَہ جَزَاء اِلّا الجَنَّة (احمد) ” حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں “ ۔
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں گناہ کا کام نہ کیا گیا ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ حج کے بعد حاجی کے اندر نیکیوں کی رغبت پیدا ہوجائے اور وہ بُرائیوں سے کنارہ کش رہنے لگے ۔
اتنی عظیم بشارت کے ہوتے ہوئے اگر حاجی اللہ تعالی کے اِس انعام کا حقدار نہ بن سکے تو واقعی معاملہ قابلِ افسوس ہوگا ، اس ليے حجاجِ بیت اللہ کو چاہےے کہ وہ اپنے حج کو ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھیں ۔


مکمل تحریر >>

حج كى فرضيت

وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ البَیتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَیہِ سَبِیلاً وَمَن کَفَرَ فاِنَّ اللہ غَنِیّ عَنِ العَالَمِینَ (سورہ آل عمران ۷۹)

ترجمہ : اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالی ( اُس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے “۔

تشریح : حج اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے بنیادی رکن ہے جس کی فرضیت ۹ھ میں ہوی، اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے 10 ھ میں ایک ہی حج (حجة الوداع) کیا جبکہ چار عمرے کيے۔
حج کن پر فرض ہے ؟  اس کے شرائط کیا ہیں ؟ مذکورہ آیت میں اسی کا بیان ہے ۔شیخ صالح الفوزان اس ضمن میں لکھتے ہیں:
”اس آیت کریمہ سے کلمہ  عَلَی سے حج کی فرضیت واضح ہوتی ہے ۔ نیز آیت کے آخری کلمات وَمَن کَفَرَ فَانَّ اللہ غَنِیّ عَنِ العَالَمِینَ میں تارک حج کو کافر قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے بھی حج کی فرضیت اور اس کی تاکید خوب واضح ہوتی ہے ....بنا بریں جو شخص حج کی فرضیت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ بالاجماع کافر ہے “ (فقہی احکام ومسائل (الملخص الفقہی  )
آیت کریمہ میں فرضیت حج کے لےے استطاعت کی شرط رکھی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ :
٭مسلمان آزاد،عاقل اور بالغ ہو ۔
٭آدمی کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ بیت اللہ تک آنے جانے کا اور وہاں کے قیام وطعام کا خرچ برداشت کرسکے ۔ حضرت انس رضى الله عنه کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے پوچھا گیا کہ استطاعت کا کیا مفہوم ہے تو آپ نے فرمایا: ”سفرخرچ اور سواری “ (دارقطنی)
٭راستہ پُرامن ہو اور جان ومال کا خطرہ نہ ہو ۔ (الفتح الربانی ۱۱۲۴۔۳۴)
٭عورت کے ليے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو مثلاً شوہر ، باپ،بیٹا،چچا،ماموں وغیرہ۔ ”کسی مومنہ عورت کے ليے جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن رات کا سفر کرے “(مسلم)
جس شخص کے اندر مذکورہ بالا شرائط پائے جارہے ہوں اس پرزندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہے ۔
اگر کسی کو مالی استطاعت تو حاصل ہو البتہ جسمانی طور پر مجبور ہو تو اُس کے لےے ضروری ہے کہ کسی کو اپنی طرف سے حج کرنے کے لےے روانہ کرے ، اِسی کو حجِ بدل کہتے ہیں۔سیدنا ابن عباس ص کا بیان ہے کہ حجة الوداع کے موقع سے قبیلہ خثعم کی ایک خاتون نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے باپ پر حج فرض ہوچکا ہے لیکن وہ اس قدر بوڑھا ہے کہ سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا کیا میں اس کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ا نے فرمایا: ”ہاں“۔(بخاری مسلم)
اور جب قدرت حاصل ہوجائے تو حج فوراً کرلینا چاہےے اس میں تاخیر نہیں کرنی چاہےے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے :
  جس شخص کا حج کرنے کا ارادہ ہو وہ جلدی حج کرلے ‘کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بیمار پڑجائے یا اس کی کوئی چیز گم ہوجاے “ (مسنداحمد)
جس نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا اس کے تعلق سے بہت سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ حضرت علی رضى الله عنه فرماتے ہیں کہ:
” جس نے قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کیا اس کے لےے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر“ ۔ (مناسک الحج لابن باز)

اور حضرت عمر رضى الله عنه کہاکرتے تھے کہ:
”   میں نے ارادہ کیا کہ ان شہروں میں اپنے آدمی بھیجوں جو پتہ لگائیں کہ جن لوگوں پر حج فرض ہے اور انہوں نے حج نہیں کیا ہے اُن پرغیرمسلموں سے لیاجانے والاٹیکس ( جزیہ) نافذ کردوں، وہ مسلمان نہیں، وہ مسلمان نہیں“ ۔ (سنن سعیدبن منصور)
مکمل تحریر >>

قربانی كے مسائل و احكام

قربانی دینے والا بال مونڈ لے تو؟

سوال:
مجھے قربانی دينی ہے اور ميں نے بھول کربال مونڈ ليا ہے کيا مجھ پر کوئی کفارہ لاز م ہے ؟
جواب :
جو قربانی کرنا چاہے اس کے لئے ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن اور جلد مےں سے کوئی بھی چےز کاٹنی جائز نہےں ہے کےونکہ نبی اکرم ا نے اےسا کرنے سے منع فرماےا ہے ام سلمہ ؓ بےان کرتی ہےں کہ رسول اکرم ا نے فرماےا ”جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہوجائے اور تم مےں کسی اےک کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اپنے بال اور جلد مےں سے کچھ بھی نہ کاٹے (مسلم)
اور جو کوئی قربانی کرنے کا عزم رکھتا ہو اور بھول کر ےا غلطی اور جہالت سے اپنے بال ےا ناخن ےا جلد وغےرہ مےں سے کچھ کاٹ لے تو اس پر کچھ نہيں اسلئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے بھول چوک اور خطا معاف کردی ہے ۔ اور جو شخص عمدا اورجان بوجھ کر ايسا کرتا ہے اسے اللہ تعالی کے ہاں توبہ واستغفارکرنی چاہيے، اِس کے علاوہ اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔

عورت کے ليے حج میں محرم کا ہونا شرط ہے

سوال: ميری والدہ بوڑھی ہوچکی ہيں اور حج کرنا چاہتی ہيں ليکن ان کے شہر ميں ان کا کوئی محرم نہيں ہے ،محرم کی تلاش ميں بڑی رقم خرچ ہونے کا انديشہ ہے اس لئے وہ کيا کريں گی؟

جواب : آپ کی والدہ پر حج نہيں ہے اسلئے کہ عورت کے لئے خواہ وہ جوان ہو يا بوڑھی بغير محرم کے حج کرنا جائز نہيں ہے ، اگران کو محرم مل جائے تو وہ حج کرے گی اوراگروہ حج کئے بغيرفوت کرجاتی ہے تواس کے مال سے حج بدل کراديا جائے، اور اگرکوئی شخص خود اپناخرچ کرکے اس کی طرف سے حج کردے تويہ بھی اچھی بات ہے ۔

میت کے ترکہ سے حجِ بدل کرادینا واجب ہے

سوال: ايک شخص بغير حج کئے مرگيااس نے يہ وصيت کی کہ اس کے مال سے حج کراديا جائے توکيا يہ حج بدل صحيح ہوگا؟

جواب : اگرکوئی ايسا مسلمان جس پر حج واجب تھا اور وہ بغيرحج کئے دنيا سے چلا گيا تواس کے مالِ متروک سے حج بدل کرادينا واجب ہے خواہ اس نے حج کی وصيت کی ہويا نہيں۔ اور دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے ليے شرط يہ ہے کہ حج بدل کرنے والا خود اپنا حج کرچکا ہو تبھی اس شخص کا بھی حج صحيح ہوگا اور اس ميت سے وجوب حج ساقط ہوگا۔

زیارت مسجدِ نبوی
سوال: بعض حاجيوں کاخيال ہے کہ اگر ان ميں سے کوئی مسجد نبوی کی زيارت سے محروم رہ جائے تو اس کاحج ناقص رہ جاتاہے، کيا يہ خيال صحيح ہے؟

جواب :مسجد نبوی کی زيارت فقط سنت ہے واجب نہيں ہے، نہ ہی حج سے اس کا کوئی تعلق ہے ، بلکہ مسجد نبوی کی زيارت عام دنوں ميں بھی سنت ہے ايام حج کی کوئی خصوصيت نہيں۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:  ”تين مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفرزيارت درست نہيں ،مسجد حرام، ميری مسجد اور مسجد اقصی“ (متفق عليہ)
دوسری جگہ ارشاد ہے ”مسجد حرام کے علاوہ ميری اس مسجد ميں ادا کی گئی ايک نماز (دوسری کسی بھی مسجد ميں ادا کی جانے والی) ہزارنمازوں سے بہتر ہے “ (متفق عليہ)

قربانی کے جانوروں کی عمریں

سوال: کتنی عمر کے جانور کی قربانی جائز ہے ؟

جواب :قربانی اور ہدی کے جانور کے ليے شرط يہ ہے کہ ايک سال کا بھيڑيا، دو دانت کا بکرا ہو اور ہرقسم کے عيوب سے پاک ہو ۔ نبی صلى الله عليه وسلم  کے فرمان کے مطابق ” چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہيں ہے ، ايسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو ، اور ايسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو اور ايسا بيمار جانور جس کی بیماری عياں ہواور اتنا لاغر کہ اس کی ہڈی نماياں ہوجائے “ (اس حديث کو اصحاب السنن نے صحيح سند کے ساتھ روايت کی ہے ) رہا سوال اندھے جانور کا تو بدرجہ اولی جائز نہيں ہے ۔
اسی طرح عضباء ( يعنی سينگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ) جانور کی قربانی جائز نہيں ہے ،اس ليے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے اس کی قربانی کرنے سے منع فرمايا ہے ۔

مُردوں کی طرف سے قربانی جائز ہے

سوال: کيا قربانی کرنے والا اپنی قربانی ميں مردہ کو شريک کر سکتا ہے ؟

جواب :قربانی کرنے والے کے لئے قربانی کے جانور ميں اپنے زندہ اور مردہ والدين يا اپنی بيوی يا بچوں کوشريک کرنا جائز ہے، چونکہ نبی صلى الله عليه وسلم دومينڈھا قربانی کرتے تھے ايک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی آل کی طرف سے اور آل کے مفہوم ميں بيوی اور اولاد شامل ہيں۔

عورت قربانی کا جانور ذبح کرسکتی ہے

سوال: کيا عورت کے ليے قربانی کاجانورذبح کرنا جائز ہے ؟

جواب : عورت مرد کی طرح قربانی کا جانور ذبح کرسکتی ہے ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے يہ صحيح سند کے ساتھ ثابت ہے، مرد کی موجودگی ميں بھی عورت ذبح کر سکتی ہے ، اس کے ليے مرد کا نہ ہونا شرط نہيں ہے ۔

حاجی کے ليے حدود حرم میں ہی قربانی دینا ضروری ہے

سوال: میرے والد محترم حج پر گئے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ میں نے وہاں قربانی نہیں کرنا تم نے میری طرف سے ادھر پاکستان میں قربانی کرنا ہے۔ کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

جواب : باہر سے جو لوگ حج کرنے کے ليے جاتے ہیں وہ حج تمتع کرتے ہیں، یعنی عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دیا جاتا ہے پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھا جاتا ہے ، اس درمیانی عرصہ میں جو احرام کی پابندیوں سے آزادی ملتی ہے‘ اس کے عوض قربانی دی جاتی ہے۔
یہ قربانی ہماری اس قربانی سے مختلف ہوتی ہے جو لوگ عیدالاضحی کے موقع پر کرتے ہیں۔ صورت مسولہ میں حج کرنے والے کو وہاں حدود حرم میں ہی قربانی کرنا ہو گی ۔

غیرمستطیع بھی قربانی کا ثواب حاصل کرسکتا ہے

سوال:جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہوں ، کیا کسی طریقہ سے وہ قربانی کا ثواب حاصل کر سکتا ہے ؟

جواب :جس شخص کا قربانی دینے کا ارادہ نہ ہو ، اس کے ليے بال یا ناخن کاٹنے کی ممانعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ قربانی کا ثواب لینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عید کے دن بال اور ناخن کاٹ لے اور زیر ناف کے بال صاف کر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا : ” تم عید کے دن اپنے بال اور ناخن تراش لو ، اپنی مونچھیں کاٹ لو اور زیر ناف کے بال صاف کر لو اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ تیری مکمل قربانی ہو جائے گی۔ “ ( مستدرک حاکم 223 ج 4 ) اگرچہ اس روایت کے متعلق کچھ محدثین نے کلام کی ہے تاہم یہ حسن درجہ کی حدیث ہے اور قابل استدلال ہے۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ, نومبر 14, 2009

وجود باری تعالی کے دلائل

زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں۔ اگر اللہ ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے‘ اور اگر اللہ موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیزبے معنی اور بے مقصد ہے۔ لیکن اسلام میں اہمیت اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کو حاصل نہیں‘ بلکہ اللہ کی الوہیت کو حاصل ہے ۔ تاہم دین بیزاری اور الحاد کے اس دور میں کچھ ایسے کورچشم بھی ہیں جو آفاق وانفس کے بے شمار دلائل سے آنکھیں موند کروجود باری تعالیٰ کا انکار کربیٹھتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کو ہم کیسے مطمئن کرسکتے ہیں ؟ اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے : یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں،یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے۔
مکمل تحریر >>

جیسی کرنی ویسی بھرنی


ایک مرتبہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا ، سامنے بھنی ہوئی مرغی بھی رکھی ہوئی تھی۔ اچانک ایک فقیر نے دروازے پر آ کر صدا لگائی .... وہ شخص دروازے کی طرف گیا اور اس فقیر کو خوب جھڑکا۔ فقیر یونہی واپس چلا گیا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصے بعد یہ شخص خود فقیر ہو گیا ، سب نعمتیں ختم ہو گئیں۔ بیوی کو بھی طلاق دے دی ، اس نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ یہ میاں بیوی اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور بھنی ہوئی مرغی سامنے تھی کہ کسی فقیر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میاں نے بیوی سے کہا :یہ مرغی اس فقیر کو دے آؤ ، چنانچہ وہ مرغی لے کر دروازے کی طرف گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ فقیر اس کا پہلا شوہر ہے۔ خیر.... مرغی اسے دے کر واپس لوٹی تو رو رہی تھی.... میاں نے پوچھا : کیوں رو رہی ہو ؟ بولی: فقیر تو میرا پہلا میاں تھا ....غرض پھر سارا قصہ اسے سنایا جو ایک فقیر کو جھڑکنے سے پیش آیا تھا۔ اس کا میاں بولا : ” خدا کی قسم وہ فقیر مَیں ہی تھا۔ “
مکمل تحریر >>

روشنی کی کرن


'' لوگ تنقید کیوں پسند نہیں کرتے ، دراصل تنقید انہیں کوتاہی کا احساس دلاتی ہے اور کوئی آدمی اپنے آپ کو کوتاہ باور نہیں کرناچاہتا ۔ اس لےے تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلے اس کی خوبیوں کا تذکرہ کریں اور مخاطب کو احساس دلائیں کہ آپ کی نظر اس کے روشن پہلووں پر ہے ، خامیاں خوبیوں کے مقابلے میں نمک کے برابر ہے ۔"

''غلطی کرنے والے کو مریض سمجھیں جسے علاج کی ضرورت ہوتی ہے ، اچھا طبیب وہی ہے جسے مریضوںکی صحت کی فکر ان سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔"

"اگرکوئی خیرخواہی کے باوجود غلطی کی اصلاح نہیں کرتا ہے تو اس کا نام دشمنوں کی فہرست میں درج نہ کریں ، حتی الامکان معاملات کو وسیع الظرفی سے لیں ۔ "

"شہد کی مکھی کا طرزعمل اپنائیں جو میٹھے پر بیٹھتی اور کڑوے سے کتراتی ہے ، گھریلو مکھی کی طرح نہ ہو ںجو ہمیشہ زخموں کی تلاش میں رہتی ہے ۔"

 ( زندگى سے لطف اٹهائيے : دكتور محمد العريفي ) 
مکمل تحریر >>

بدھ, نومبر 04, 2009

شريک حيات اور پرديسى زندگی


اگر آپ ازدواجی زندگی کے ميدان ميں قدم رکھ چکے ہيں تو آپ پر اپنے اہل خانہ کے تئيں بےشمار ذمہ دارياں عائد ہوتی ہيں۔ اگر آپ کی رفيقہ حيات آپ کے ہمراہ ہيں تو اس نعمت پر اللہ کا شکر بجا لائيں کہ اس ذات نے ترک وطن کے باوجود آپ کے ذہنی وقلبی سکون کا سامان بہم پہنچايا البتہ ان کی دينی تربيت کا خاص خيال رکھيں، پنج وقتہ نمازوں کی ادائيگی کا حکم ديں، مساجد ميں منعقد ہونے والے ہفتہ واری اجتماعات ميں خود شريک ہوں اور اہل خانہ کواپنے ہمراہ لے جائيں، ان کے ليے گھر ميں ترغيب وترہيب اور دينی احکام سے متعلق کتابوں کی چھوٹی لائبريری رکھيں تاکہ موقع بموقع ان کتابوں کا مطالعہ کرتی رہيں اوران کا دين سے تعلق مضبوط رہے۔ اگر آپ کی شريک حيات آپ کے ملک ميں ہيں تو ان کے تعلق سے چند باتوں کاخيال رکھنا ازبس ضروری ہے:

٭ ان کی رہائش کا انتظام ايسی جگہ کريں جو بالکل مامون ومحفوظ ہو جہاں ان کے محرم رہتے ہوں، اگرآپ کے گھرپرمشترکہ طرز رہائش ہے جہاں غيرمحرم مردوں کی آمدورفت ہوتی رہتی ہے تووہاں بہرصورت احتياط برتنے اورپردے کا خاص اہتمام کرنے کی ضرورت ہے کيوں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے : 
[ اَلحَموُ المَوتُ]   (صحيح بخاری) ”ديور موت ہے“۔

٭ ان کے اخراجات اور نان ونفقہ کے ليے ہميشہ پيسے بھيجتے رہيں اورکسی کا دست نگرہرگز نہ بننے ديں گووہ ميکے ميں ہوں ۔

٭جس طرح آپ کواجنبيت کااحساس ہوتاہے اسی طرح آپ کی شريک حيات بھی آپ سے دور رہنے کے باعث تنہائی محسوس کرتی ہيں لہذا بذريعہ فون ہميشہ ان سے رابطہ رکھيں، ان کے جذبات کی قدر کريں، ان کے صبروشکيبائی کاشکرادا کريں، اور ان سے خوش دلی اورشگفتہ مزاجی کے ساتھ باتيں کريں ۔

٭ دور رہ کر بھی ان کی دينی تربيت کرتے رہيں،  پنج وقتہ نمازوں کی پابندی،  قرآن کريم کی تلاوت، نفلی روزے کے اہتمام اور نفع بخش کتابوں کے مطالعہ پر ابھارتے رہيں، بسااوقات ان کے ليے تحفے تحائف بھی بھيجتے رہيں اور تنہائی ميں ہميشہ اللہ رب العزت سے دعا کرتے رہيں کہ:
 ”بارالہا ! ہمارے اہل وعيال کی حفاظت فرما اور جدائی کے غم کو ہلکا کردے“ ۔ آمين



مکمل تحریر >>

اتوار, اکتوبر 25, 2009

امام کعبہ کا پیغام ضیوف الرحمن کے نام

شیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس امام وخطیب ”مسجد حرام “ مکہ مکرمہ
اللہ کے بندو! ہرسال ان ایام میں امت مسلمہ ایسی عظیم الشان مناسبت کا استقبال کرتی ہے،جس کے لیے مومن کا دل بیتاب رہتا ہے ۔ جس کی طرف نگاہیں مرکوزاورگردنیں دراز رہتی ہیں، جس کی آمد پرمسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ دراصل خانہ کعبہ میں فریضہ حج کی ادائیگی ہے، جہاں مقامات مقدسہ ہیں، مشاعر مشرفہ ہیں،جو مہبط وحی ہے، منبع رسالت ہے، جہاں سے ساری دنیا میں ایمان کا نورجگمگایا، جہاں پر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، رحمتیں اترتی ہیں، لغزشوں سے درگذرکیا جاتاہے،درجات بلند کیے جاتے ہیں، گناہوں کومٹادیا جاتا ہے، اور رب دو جہاں کی سخاوت عام ہوتی ہے۔
جیساکہ بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرمایا”حج مبرور کابدلہ جنت ہی ہے “ ۔ اور بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کی ایک دوسری روایت ہے، اللہ کے رسول صلی الله علیه وسلم نے فرمایا ”جس نے حج کیا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گویاآج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے “۔ بیت اللہ کے حاجیو! خانہ کعبہ کا قصد کرنے والے اگرحج کے فوائد اور اس کے اثرات سے مستفید ہوناچاہتے ہیں اوراللہ تعالی نے حاجیوں کے لیے جو اجروثواب اور فضل وانعام طے کررکھا ہے اس سے بہرہ ور ہونے کے خواہاں ہیں توان کے لیے ضروری ہے کہ اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں شرعی منہج اور نبوی طریقہ کا التزام کریں ۔ حج کے چند شروط اور ارکان ہیں ، چند واجبات اور مستحبات ہیں، چند اصول وآداب ہیں جن کی رعایت نہایت ناگزیر ہے ۔
اے اللہ کے بندو! اے عازمین حج ! اے وہ لوگو !جنہوں نے جنگلات اور بے آب وگیاہ مقامات کو پار کیا ہے ، مختلف فضاوں اورسمندروں کی خاک چھانی ہے، مشکلات کاسامنا کیا ہے ، مشقتیں برداشت کی ہیں ، اپنے اموال واولاد اور وطن کو خیرباد کیا ہے آپ کی خدمت میں یہ جامع نصیحتیں ہیں، نفع بخش مختصرکلمات ہیں، بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ آپ اس عظیم عبادت کی تیاری کر رہے ہیں ۔
پہلی نصیحت: اُس اساس کواپنائیں جس پر حج اور دیگرتمام عبادات کا دار ومدارہے یعنی توحید باری تعالی ، عبادت کے سارے اعمال کواسی کے لیے خالص کرنا ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا :آپ فرما دیجیے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا مرنا ، یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“ ( الانعام ) حج کے مقاصد وفوائد میں سب سے عظیم مقصد وفائدہ توحید باری تعالی کا اقرار اور شرک سے اجتناب ہے۔ ارشاد ربانی ہے :”اور جبکہ ہم نے ابراہیم کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقررکردی ، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا “ ( الحج 26) لہذا بندے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ضروریات کی تکمیل ، مشکلات سے نجات ، اور مریضوں کی شفا کے لیے صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی پناہ طلب کرے جو معاملات کی تدبیر، شروروفتن کو دور کرنے اور زمانوں کو بدلنے کا مالک ہے ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اللہ رب العالمین بےزار ہے اس شرک سے جو مشرکین اس کے ساتھ ٹھہراتے ہیں۔
دوسری نصیحت: اپنے سارے اعمال خالص اللہ تعالی کی رضا کے لیے انجام دیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :” خبردار! اللہ تعالی ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے “(الزمر3) نہ ریاکاری ہونی چاہئے اور نہ نام ونمود اور نہ ہی اللہ سے ہٹ کر غیراللہ کی طرف توجہ خواہ وہ اشخاص ہوں، یا بینرز یا اصول ومناہج جو اس اصل کے منافی ہوں۔
تیسری نصیحت: رسول پاک صلی الله علیه وسلم کی اطاعت وتابعداری کولازم پکڑیں۔ اللہ تعالی کے اوامر کو بجا لائیں اور آپ کی سنت کو حرزجاں بنالیں کیونکہ آپ صلی الله علیه وسلم کا خود ارشاد ہے ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں وہ مردود ہے“ (مسلم) اور حج کے تعلق سے فرمایا : ”ہم سے حج کے مناسک سیکھ لو“ (مسلم)
چوتھی نصیحت : اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں، اس کی اطاعت کے اعمال بجا لائیں، اور عمل صالح کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں بالخصوص اس وقت جب کہ افضل ترین زمان ومکان اکٹھا ہوجائے” اور اپنے ساتھ زاد سفر رکھ لیا کرو‘ سب سے بہترزادِ راہ اللہ تعالی کا ڈر ہے “ ( البقرة 197) ذکر ، دعاء، تلاوت قرآن ، تلبیہ ، نماز، اور نیکی واحسان کا بکثرت اہتمام ہونا چاہیے۔
پانچویں نصیحت: فریضہ حج کی عظمت کا احساس دل ودماغ پر طاری رکھیں: نہ تو یہ کوئی بری سیاحت ہے ، نہ کوئی فضائی تفریح ، اور نہ ہی اسے تقلید وعادت اور نقل کے طور پر انجام دیا جاتا ہے بلکہ یہ ایمانی سیاحت ہے جس کی فضا بلند معانی اور نیک مقاصد سے لبریز ہوتی ہے ، یہ ایمانی و فکری آلودگیوں اور منہجی واخلاقی مخالفتوں سے دور رہ کر توبہ وانابت ، رجوع الی اللہ اور صراط مستقیم کے التزام کا سنہری موقع ہے-
چھٹی نصیحت : اس بیت عتیق اور مبارک سرزمین کی عظمت وشان کا دل میں احساس ہو، یہاں خون نہیں بہایا جا سکتا،اس کے درخت اکھاڑے نہیں جا سکتے، یہاں کے شکار بھگائے نہیں جا سکتے، یہاں کی گمشدہ اشیاء اٹھائی نہیں جا سکتیں سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرنا چاہتاہو۔ (بخاری ومسلم ) يہاں درخت،شکار،انسان،اور حيوان خوف اور اذيت سے بالکل محفوظ ہوتا ہے ”اس میں جو آجاے امن والا ہوجاتا ہے“ (آل عمران 97) ۔ اس جگہ ايسے اعمال انجام ديناجائز نہيں جومقاصد شريعت اور منہج اسلام کے منافی ہوں،يہاں صرف اللہ تعالی ہی کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے، يہاں صرف توحيد کا شعار ہی بلند کيا جا سکتاہے، يہاں اللہ اور يوم آخرت پر ايمان رکھنے والوں کے ليے جائز نہيں کہ مسلمانوں کو تکليف دے، يا امن وامان سے رہنے والوں کو خوفزدہ کرے،يا حج کے اعمال سنت نبوی کے خلاف بجالائے ارشاد باری تعالی ہے: ”جوبھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اُسے دردناک عذاب چکھائیں گے“ (الحج 25)
ساتويں نصيحت : مسائل حج سے آگاہی حاصل کرکے حج کی تياری کریں، اور جس مسئلے ميں اشکال پيدا ہو اس کی بابت اہل علم سے دریافت کرلیں،کيونکہ جہالت کی بنياد پر اللہ تعالی کی عبادت کرنی يا سنت ِنبوی کے خلاف حج کے اعمال بجا لانا جائز نہيں۔ يہ ايسا معاملہ ہے جس کا حاجيوں کو کافی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔
آٹھويں نصيحت: گناہوں اور معاصی سے کلی اجتناب کریں: اللہ تعالی نے فرمايا: ”حج میں اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ،گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے“ ۔ (البقرہ 197) طاعات کی انجام دہی پر نفس کو آمادہ کریں،اور منکرات سے خود کو دور رکھیں خواہ ان کی نوعيت جيسی بھی ہو۔
نويں نصيحت : حج کو خالص کرنے اور ان تمام امور کو بجا لا نے کی سعی کریں جن سے آپ کے حسنات زیادہ ہوں، اور حج کے مناسک مکمل ہوسکیں۔ جن میں سرفہرست نیک دوست کا انتخاب اور پاکیزہ وحلال کمائی ہے جوکہ قبولیت حج کا سبب ہے
دسویں نصیحت : مکا رم اخلاق ، اور شرعی آداب سے مزین ہوں اور گفتار وکردار، ہاتھ یا زبان سے بندگانِ خداکو اذیت نہ پہنچائیں۔ کیونکہ حج ایک ایسا مدرسہ ہے جو صبروتحمل ، تعاون باہمی اورایثار وقربانی جیسے پاکیزہ اخلاق ، عمدہ خصائل، نیک عادات اوراعلی اوصاف کی تعلیم دیتا ہے۔
امت کے پاسبانو! یہ نہایت ناگزیر ہے کہ خانہ کعبہ کے حجاج اس عظیم فریضے کو سمجھیں ، اپنے دلوں میں اِن وصیتوں کو اُتاریں، اور اپنے کردار کے ذریعہ اِن کا عملی نمونہ پیش کریں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ ایمان وعمل ،اتحاد واتفاق، صبر وشکر ،آپسی تعاون وبھائی چارگی ، اور اجتماعیت وبالادستی کے اسباق کو دہرائے اور یہ سب کے سب اس عظیم فریضے کے آثار وثمرات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فرمان لِیَشہَدُوا مَنَافِعَ لَہُم میں جمع کردیا ہے ۔
مکمل تحریر >>

بدھ, اکتوبر 07, 2009

عادت کو عبادت بناليں


اسلامی طرز زند گی کی سب سے اہم خوبی يہ ہے کہ اس ميں روح اور مادہ دونوں ميں توازن ملحوظ رکھا گيا ہے، نہ روحا نيت کا ايسا غلبہ ہو کہ رہبانيت اختيار کرلے اور نہ ماديت کا ايسا زور ہو کہ دنيا پرستی آجائے، اس فارمولے کو ذہن ميں بيٹھا کرذراسوچيں کہ کويت ميں آپ چند سالوں کے ليے مقيم ہيں، ايک دن آپ کو اپنے وطن عزيز لوٹنا ہے، ترک وطن کی حلاوت يا کڑواہٹ يہيں رہ جائے گی، ہاں اگر کوئی چيز آپ کے ساتھ جانے والی ہے تو وہ ہے آپ کے اعمال خواہ نيکی کی شکل ميں ہوں يا بدی کی شکل ميں، لہذا جہاں کہيں بھی رہيں اپنے مقصد حيات سے غافل نہ ہوں اوراپنے رب کی مرضيات کو ہمہ وقت پيش نظر رکھيں ۔
اس دنيا ميں يوں تو کماتے سب لوگ ہيں تاہم جو چيز ہميں غيروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اسلام۔ اسلام نے محنت و عمل کو عبادت کا درجہ ديا ہے۔ ليکن کب؟ جبکہ ہماری نيت خالص ہو۔ لہذاعادت کو عبادت ميں تبديل کرنے کی کوشش کريں، مطلب يہ کہ آپ ايک مقررہ وقت سے مقررہ وقت تک ڈيوٹی ضرورکرتے ہيں، يہ آپ کے روزانہ کی عادت ہے اگر بوقت ڈيوٹی يہ نيت ہو کہ اس کے ذريعہ ہم حرام خوری سے بچ جائيں گے اورحلال کمائی سے اپنے بيوی بچوں کی پرورش کريں گے تو آپ کی يہ عادت عبادت بن جائے گی، تب ہی تو پيارے نبی صلى الله عليه وسلم نے ہميں يہ بشارت سنائی ” تم رضاءإلہی کی نيت سے جو کچھ خرچ کرتے ہو اس پر تجھے اجر ملتا ہے حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بيوی کے منہ ميں ڈالتے ہو“ (بخاری ) اور امام طبرانی نے حضرت کعب بن عجرہ سے يہ روايت نقل کيا ہے کہ ايک مرتبہ اللہ کے رسول اور آپ کے صحابہ کرام کا گذر ايک ايسے شخص سے ہوا جو بڑی محنت ومشقت کر رہا تھا، صحابہ کرام نے کہا : يا رسول اللہ !کاش اس آدمی کی محنت اللہ کے راستے ميں ہوتی؟  آپ نے فرمايا :
اگر وہ محنت و مشقت اپنے معصوم بچوں کے ليے کر رہا ہے تواس کا يہ عمل اللہ کے راستے ہی ميں ہے اور اگر اپنے عمررسيدہ والدين کے ليے کر رہا ہے توبھی اللہ کے راستے ميں ہے اور اگر اپنے نفس کے ليے کر رہا ہے پھر بھی اللہ کے راستے ميں ہی ہے۔ ہاں البتہ اس کی يہ جدوجہد اگر فخر ومباہات اور رياکاری کے ليے ہے تو اس کی محنت دراصل شيطان کے ليے ہے۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ, اکتوبر 03, 2009

افسوس گیا نورچراغِ سحری کا

ابھی چند ايام قبل ہم نے ماہ رمضان کے بابرکت دنوں اور اُس کی نورانی راتوں کو الوداع کيا ہے ، يہ دراصل ايک ماہ کا ريفريشر کورس تھا جس کے اثرات گيارہ مہينوں تک ہم پر باقی رہنے تھے ، رمضان ہمارے احوال کی اصلاح کے ليے آیا تھا  روزہ ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کے ليے آیا تھا ،لیکن کیا ایسا ہوسکا ؟.... کیا ہم نے رمضان سے کچھ سبق سیکھا ؟ واقعی کچھ پاک طینت نفوس نے رمضان سے خوب خوب فائدہ اٹھایا، نیکیوں سے اپنا دامن مراد بھرا اور اب تک نیکی کی راہ پر گامزن ہیں ۔
 اللہ تعالی انہیں مزید توفیق عطافرمائے ۔آمین تاہم مسلم معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو رمضان کے پيغام کو سمجھ نہیں پاتے، رمضان میں روزہ رکھتے ہیں ،شب بیداری کرتے ہیں،قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں،صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور رمضان کے جاتے ہی اپنی سابقہ روش پر لوٹ آتے ہیں، ادھرہلالِ عيد طلوع ہوا اور ادھر محارم کی بے حرمتی ہونے لگی ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ وہ مسجدیںجو نمازیوں کی کثرت سے تنگ دامانی کا شکوہ کر رہیں تھیں آج اس کی کشادہ عمارتیں انہیں دیکھنے کے ليے ترس رہی ہیں، قرآن کريم جس میں ان کے رات ودن بسر ہوتے تھے آج طاقوں کی زينت بن چکاہے ،سحری کے وقت کی چہک پہک خوابیدگی کی نظر ہوچکی ہے ، فلمی نغمے اور موسيقی کے رسيا اپنی پہلی حالت پر لوٹ چکے ہیں ۔
مکمل تحریر >>

سود خور ملعون ہے

 ترجمہ : حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله عنه کابیان ہے کہ:” حضورصلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے اور اس کی لکھا پڑھی کرنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ( یہ سب گناہ میں ) برابر ہیں “۔ (مسلم)
تشریح : زیرنظر حدیث میں ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی گئی ہے جو سودی کاروبار میں کسی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں اور لعنت بھیجنے والے وہ شخص ہیں جو انسان تو کجاجانوروں اور چرند وپرند تک کے ليے رحمت بناکر بھیجے گيے تھے ۔ اور جنکے اخلاق کریمانہ کی گواہی خود خالق کائنات نے دی تھی کہ ” آپ اخلاق کے اعلی معیار پر فائز ہیں “ اس کے باوجود آپ نے ایسے لوگوں پر لعنت بھیجا ۔اس کا رازآخر کیا ہوسکتاہے ؟ 
 اسلام نے اپنا اقتصادی نظام ایک خاص عقیدے پر قائم کیا ہے کہ مال کا مالک اللہ تعالی ہے اور انسان کو اس پر وقتی ملکیت دی گئی ہے۔لہذا وہ اپنے مال میں سے سماج کے ان فقراء و مساکین کا بھی حق نکالے جو معاشی جدوجہد میں پیچھے رہ گےے ہیں، اسی لےے اسلام میں زکاة کی فرضیت عمل میں آئی اور صدقات وخیرات کی ترغیب دی گئی ، جس سے لوگوںمیں ہمدردی وغمخواری کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بنا رہتا ہے ۔ جبکہ سود ‘ سود لینے والے کے اندر خود غرضی وانانیت پیدا کرتی ہے ، چنانچہ وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کی فکر نہیں کرتا، اسی طرح سود معاشرے کے افراد میں عداوت ودشمنی پیدا کرتا ہے، جس سے معاشرے میں فساد وبگاڑ جنم لیتا ہے جبکہ اسلام باہم میل محبت اور اتفاق واتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے ۔
 اسی وجہ سے قرآن وحدیث میں سودکی اس قدر سخت مذمت بیان کی گئی ہے کہ جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔چنانچہ اللہ اوراسکے رسول نے سود خورسے جنگ کا اعلان کيا ہے :
”اگر تم سودخوری سے باز نہيں آتے تواللہ اور اسکے رسول کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے“۔
سودخور سود کی رقم استعمال کرکے گويا اپنی ماں سے زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
”سود کے تہتر دروازے ہيں ان کا سب سے ہلکا گناہ يہ ہے کہ جيسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے“ (حاکم)۔
اور مسند احمد کی روايت ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے يہ بھی فرمايا :
 ”سود کا ايک درہم جسے ايک آدمی جانتے بوجھتے کھاتا ہے اللہ تعالی کے نزديک 36 زنا سے بھی بد تر ہے“ ۔
 حضرت ابو ہريرہ رضي الله عنه سے روايت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا :
”معراج کی رات ميرا گزر ايک ايسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے پيٹ گھرکی مانند تھے جس ميں سانپ بھرے تھے اور باہر سے نظر آرہے تھے ۔ ميں نے جبريل امين سے کہا : يہ کون لوگ ہيں ؟ تو جبريل نے جواب ديا : يہ سود خور لوگ ہيں“ ۔ (احمد اور ابن ماجہ )

خلاصہ یہ کہ سود ایک معاشرتی ، سماجی اور دینی جرم ہے جو نہایت خطر ناک ہے ، لوگوں میں عداوت ودشمنی کا سبب بنتاہے اور باہم تعاون وہمدردی کی روح کا خاتمہ کرتا ہے ۔اس لےے مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ ایسے اداروں میں کام کرنے سے پرہیز کریں جو سودی کاروبار کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں لعنت سودی کاروبار کے گواہ اور لکھنے والے پر بھی کی گئی ہے ۔
مکمل تحریر >>

مال واولاد : متاع فریب ہے

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا ﴿الكهف: ٤٦﴾

ترجمہ : ”مال واولاد تو دنیا کی ہی زینت ہے البتہ باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور اچھی توقع کے ليے بہت بہتر ہیں“ ۔ (سورة كهف 46)

تشریح:
 اس آیت کریمہ میں ان اہل دنیا کا رد ہے جو اپنے مال ودولت ، آل واولاد اور قبیلہ وخاندان پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالی نے ایسے لوگوں سے فرمایا کہ تم ان چیزوں پر فخر مت کرو ، یہ تو دنیائے فانی کی عارضی زینت ہیں ۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی اسی ليے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل تو وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں ۔ باقیات صالحات( باقی رہنے والی نیکیاں) کون سی یا کون کون سی ہیں ؟

 کسی نے نماز کو ، کسی نے تحمید وتسبیح اور تکبیر وتہلیل کو اور کسی نے بعض اور اعمال خیر کو اس کا مصداق قرار دیاہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے ۔ تمام فرائض وواجبات اور سنن ونوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ منہیات سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے جس پر عند اللہ اجر وثواب کی امید ہے (تفسیراحسن البیان )
مشرکین مکہ کے اصحاب جاہ ومرتبہ عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس وغیرہ اپنے مال ودولت ، آل واولاد اور خاندانی وجاہت کے سامنے نہتے مسلمانوں کو حقیر سمجھتے اور ان پر اپنا رعب داب بیٹھانے کی کوشش کرتے تھے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اُن کی اس خام خیالی کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ تم جو نہتے مسلمان سلمان فارسی ، خباب بن ارت اور صہیب رومی وغیرہ پر نظر حقارت ڈالتے ہواور دنیاوی جاہ ومنصب کے گھمنڈ میں مبتلا ہو گيےہو سمجھ لو کہ یہ دنیاوی زینتیں متاع فریب ، وقتی اور چند روزہ ہیں،یہ چیزیں تم کو آخرت میں کچھ کام نہ دیں گیں ۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو مال ودولت کے نشہ میں غرباءومساکین کو خاطر میں نہیں لاتے او ران کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اللہ تعالی نے يہی حقیقت سمجھانے کے ليےسورہ کہف میں ایک باغ والے کا قصہ بیان کیا ہے جس میں مست مئے پندار ہوکر متکبرانہ دعوی کرنے والوں کے لےے عبرت ونصیحت کا سامان ہے ،
 قصہ کچھ یوں ہے :
دو ساتھی تھے جن میں سے ایک کو اللہ پاک نے انگوروں کے دو باغ دے رکھا تھا ، باغ ہرے بھرے اور شاداب تھے اور پھلوں سے لدے تھے جبکہ اس کا ساتھی تہی دست تھا ، ایک دن باغ والے نے اپنے ساتھی کے اوپر فخر جتاتے ہوئے کہا کہ ”میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور جتھے کے اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط ہوں “ پھرڈھٹائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر قیامت ہوئی بھی تو وہاں بھی حسن انجام میرا مقدر ہوگا ۔ اس کے مومن ساتھی نے اُس کی متکبرانہ باتیں سن کر اُسے نصیحت کی کہ تم اللہ کی ناشکری کیوں کر رہے ہو ، تجھے تو ماشاءاللہ لاقوة الا باللہ کہنا چاہےے تھا ، اگرمجھے مال واولاد میں اپنے سے کم دیکھ رہے ہو ، بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے اور اس پر آسمانی عذاب بھیج دے تو یہ چٹیل اور چکنا میدان بن جائے چنانچہ ہوا ایسا ہی کہ اس کا سارا کا سارا باغ ہلاکت کی نظر ہوگیا اور وہ کفِ افسوس ملتا رہ گیا ۔
 بہرکیف! انسان کو مال ودولت ، آل واولاد ، اور قبیلہ وخاندان پر فخر نہیں کرنا چاہےے ، کیونکہ یہ چیزیں دنیائے فانی کی متاع فریب ہیں ، آخرت میں جو چیزکام آنے والی ہے وہ ہے اللہ اور اسکے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنا ۔ 


مکمل تحریر >>