جمعہ, جنوری 24, 2014

رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کى تين امتیاز ى خصوصيات


رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے سامنے جو پیغام پیش کیا وہ آفاقی پیغام ہے جوہرانسان ،ہرقوم اورہرقبیلہ کی یکساں رہنمائی کے قابل ہے ، وہ پیغام جس کی بنیادپرہردوراورہرزمانے میں متمدن ملک اورصالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے:

 وحدت الہ کا تصور:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اللہ کی عبادت اوربندگی کی طرف انسانوں کوبلایاوہ سارے انسانوں کارب ہے، وہ ساری مخلوق کاخالق ومالک ہے ،آپ نے اللہ تعالی کونہ تین میں کاایک بتایاجیساکہ عیسائیوں کانظریہ ہے ،نہ اسے انسانی شکل میں ماناجیساکہ ہندؤں کاعقیدہ ہے ،بلکہ لوگوں کواللہ کی وہی پہچان بتائی جواللہ تعالی نے اپنی حقیقی پہچان بتائی ہے:
 قل ھواللہ أحد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا أحد (سورة الاخلاص)
”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے ،اللہ بے نیاز ہے،نہ اس سے کوئی پیداہوااورنہ وہ کسی سے پیداہوا،اورنہ اس کا کوئی شریک ہے “ ۔
غرضیکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو جس اللہ کی عبادت کی طرف بلایاوہ صرف مسلمانوں کا اللہ نہیں بلکہ پوری انسانیت بلکہ ساری مخلوق کاخالق ومالک ہے چنانچہ قرآن اعلان کرتاہے:
یا أیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون (سورة البقرة 21)
”اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو،دوسروں کے رب کی نہیں ۔کون رب؟ الذی خلقکم ”جس نے تجھے پیداکیا“ یعنی جس اللہ نے تجھے پیداکیا،اورتجھے ہی نہیں بلکہ تجھ سے پہلے لوگوں کوبھی پیداکیا،لہذاعبادت بھی اسی ایک اللہ کی ہونی چاہئے ۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہماری پیشانی کی قدرکرتا ہے کہ اِسے صرف اسی ایک اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ جوہمارا پیدا کرنے والاہے ،ہم سے پہلے لوگوں کا پیدا کرنے والا ہے ،جس نے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، سورج چاند بنائے ، پانی برسایا اور ہر طرح کی پیداوار نکال کر ہمارے لیے رزق بہم پہنچایا ، اور ہم پر ہرطرح کی انعامات کی توپھر عبادت بھی توصرف اسی ایک اللہ کی ہونی چاہیے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا :
فلاتجعلوا للہ أندادا وأنتم تعلمون (سورة بقرة 22)
"جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ"
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی عبادت کے ساتھ اپنی عبادت کابھی حکم دیاہوتا توہم کہہ سکتے تھے ،کہ اسلام صرف عربوں کادین ہے ، اورایسی صورت میں اسلام اوردیگرمذاہب میں کوئی فرق نہ رہ جاتا لیکن دعوت محمدی کی امتیازی شان یہی ہے کہ اس میں توحیدباری تعالی کاخالص تصورپایاجاتاہے،یہاں تک کہ اگرکسی نے اللہ کے نبی کے اندرہلکی سی الوہیت بھی مان لیا تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ،اسی لیے اسلام میں سب سے عظیم گناہ شرک کوقراردیاگیا ہے،یہی وہ گناہ ہے جس کی معافی اللہ کے ہاں نہیں ہے،اللہ تعالی نے فرماتاہے :
 إن اللہ لایغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء (سورہ النساءآیت نمبر 48)
" اللہ تعالی شرک کومعاف نہیں کر سكتا اورشرک کے علاوہ باقی جتنے گناہ ہیں اگرچاہے تو معاف کرسكتا ہے"

 وحدت آدم کا تصور :

دعوت محمدی کی دوسری آفاقی خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو ایک مقصد ایک ہدف اور ایک نصب العین پر جمع کیا ، رنگ ونسل کے فرق کو مٹاکر ساری انسانیت کو ایک کردیا،سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیا ،جن کے بیچ کوئی بھیدبھاؤ،نسلی تعصب اورامتیاز نہیں ،آپ نے ہرطرح کی لسانی ،قبائلی ،اورملکی تقسیم کومٹایا اورسارے انسانوں کوایک ماں باپ کی اولادقراردیا ،قرآن کریم یہ تعلیم دیتاہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں، سب کانسب ایک ہے ،لہذاایک انسان کودوسرے انسان پرنسبی یاقبائلی بنیاد پرکوئی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی قرآن میں اللہ تعالی فرماتاہے :
 یا أیھا الناس إنا خلقناکم من ذکروأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا إن إکرمکم عنداللہ أتقاکم (سورہ حجرات آیت نمبر11)
"اے لوگوں ! ”ہم نے تم سب کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا یعنی تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو ایک ماں باپ کی اولاد ہو ،اورہم نے تمہیں خاندانوں اورقبیلوں میں اس لیے تقسیم کردیاہے ،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو ، ورنہ تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ بزرگ وہ ہے جوزیادہ پرہیزگارہو“۔
جس دین میں انسانوں کومختلف نسلوں اورگروہوں میں بانٹ دیاگیاہووہ دین کسی صورت میں آفاقیت کاحامل نہیں ہوسکتا، اسی لیے نبی خاتم نے سب سے پہلے نسلی بھیدبھاؤکی لعنت کودورکرنے کی طرف توجہ دیا، یہاں تک کہ حجة الواع کے موقع پر سوالاکھ صحابہ کرام کے مجمع کوخطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”سنو! کسی عربی کوکسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں ہے ،اورنہ کسی عجمی کوعربی پر،نہ کسی گورے کوکسی کالے پر،نہ کسی کالے کوگورے پرکوئی فضیلت حاصل ہے ،ہاں اگرفضیلت وبرتری کاکوئی معارہوسکتاہے ،تووہ تقوی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں عداس نینوائی ،بلال حبشی، سلمان فارسی،صہیب رومی، ضمادازدی،طفیل دوسی، ابوذرغفاری، ابوعامراشعری،اسامہ نجدی ،کرزفہری اورعدی طا ئی،سب پہلوبہ پہلو بیٹھے نظرآتے ہیں ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی بنیاد پرجس معاشرے کی تشکیل کی تھی اس میں ہرقوم اورہرنسل کے لوگ جمع ہوگئے تھے ،اسلام نے سب کوآپس میں بھائی بھائی بنادیاتھا،اونچ نیچ اورچھوت چھات کانام ونشان مٹ چکاتھا،یہ وہ افاقی تعلیم ہے جو صرف مذہب اسلام میں پائی جاتی ہے ۔

 مکمل نظام حیات کی طرف رہنمائی :

رسالت محمدی کی تیسری آفاقی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، زندگی گزارنے کا طریقہ ہے ،زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کرتی ہے ،عقائد، عبادات، معاملات ،اخلاقیات ، معاشرت ومعیشت اور حلال وحرام غرضیکہ ہر شعبہ حیات میں اس کی جامع تعلیمات ملتی ہیں،اور اس تعلیم کی معنویت یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی کمی اوربیشی کی کوئی گنجائش نہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
”آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا،تم پر اپنی نعمت تمام کردی ،اورتمہارے لیے اسلام کوبحیثیت دین کے پسند کرلیا۔ ( سورة آل عمران 3)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتعلیمات پیش کیں ان کاتعلق انسان کے جملہ شعبہ حیات سے ہے ،چاہے ان کاتعلق روحانی زندگی سے ہو ،یا اخلاقی زندگی سے ،سیاسی زندگی سے ہویا اقتصادی زدگی سے ،انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی زندگی سے ، دنیامیں اسلام ہی ایسادین ہے ،جوایک نظام حیات رکھتاہے ،اس کے علاوہ دنیامیں کوئی اوردین نہیں ہے ،جوآپ کومکمل نظام حیات یعنی سسٹم آف لائف دیتاہو ،دیگرمذاہب میں دین نام ہے ،عبادت کے چندرسوم بجالانے کا ، رہامسئلہ اجتماعی زندگی کا،سیاسی زندگی کا،معاشی زندگی کا ،اورعدالتی نظام وقوانین کاتواس کامذہب سے کوئی تعلق نہیں ،جبکہ اسلام پورے کے پورے نظام حیات پرحاوی ہے ،چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ہمیں نمازروزے اورحقوق اللہ کی ادئیگی کاحکم دیا تووہیں بندوں کے حقوق بجالانے کی بھی تلقین کی ،ماں باپ، بیوی بچوں ،رشتہ داروں اورپروسیوں، عالم وجاہل ،مسلم غیرمسلم اورحاکم ورعایا سب کے حقوق،یہاں تک کہ جانور وں تک کے حقوق بتایا ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صحت کے آداب ،لباس کے آداب ،ملاقات کے آداب،سلام کے آداب ،گفتگوکے آداب ،مہمان کے آداب،میزبان کے آداب،مجلس کے آداب،کھانے پینے کے آداب،سونے جاگنے کے آداب،رشتے کے آداب،سفرکے آداب غرضیکہ زندگی کے سارے آداب سکھایا۔
 محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دی مثلاصبروتحمل ،ایثاروقربانی ،عدل وانصاف ،شفقت ورحمت ،شرم وحیا،احسان وبھلائی ، صدق وصفا،جودوکرم ،اورسخاوت وفیاضی وغیرہ ،اوربرے اخلاق سے منع کیا مثلاشروفساد،ظلم وزیادتی ،بغض وحسد ،دھوکہ دہی ،خودپسندی ،غروروتکبر،بخل وکنجوسی ،بے شرمی وعاجزی اورجھوٹ ودروغ گوئی ،وغیرہ ۔
 محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر طرح کے جائز کاروبا اورحلال تجارت کاحکم دیا، اورکاروبار میں جھوٹ ، رشوت ، سود، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اورقرض لے کرکھاجانا وعیرہ سے سختی کے ساتھ منع کیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح ،طلاق ، خلع، مصاہرت ، حضانت،اوررواثت کے احکام بتائے توجنایات کے حدود، قضاوکورٹ کے مسائل ،تعزیرات کے احکام،قاضی کی ذمہ داریوں حاکم وقت کے فرائض ملکی وبین الاقوامی اصول وقوانین سب کو کھول کھول کربیان کیا ۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔