جمعرات, اکتوبر 13, 2011

رمضان کے بعد مومن كى زندگى؟


ابھی ہم کچھ دنوں قبل رمضان کا بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے تھے ، رمضان بہاريں لٹاتا ہوا آيا اور چلا بھی گيا ، ايسا ہی انسان کا سارا مستقبل ہے ، بے تابی سے اُس کا انتظار ہوتا ہے يہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے ،پھر چند دنوں ميں گذر بھی جاتا ہے ۔ يہی حال انسان کی زندگی کا بھی ہے ۔ ايک دن اُسے موت کا جام پينا ہوگا اور دنيا کو ہميشہ کے لئے الوداع کہنا ہوگا ۔
رمضان ہميں اِسی موت کی ياد دلانے کے لئے آيا تھا ، اللہ تعالی نے داد دہش اور انعام ميں زيادتی کر دی تھی تاکہ انسان نےکيوں کی لالچ ميں آخرت کی تياری کے لئے کمربستہ ہوجائے ۔ اللہ تعالی نے روزے کا مقصد يہی بتايا تھا کہ ”لعلکم تتقون “ تاکہ تيرے اندر اللہ کا ڈر پيدا ہوجائے ۔ يہ ريفرےشر کورس تھا جس کے اثرات ہم پر گيارہ مہينے رہنے تھے ۔
واقعی کچھ نيک بخت روحوں نے رمضان سے خوب خوب فائدہ اٹھايا اوراب تک نيکی کی راہ پرگامزن ہيں۔ اللہ تعالی اُنہيں دين پر ثابت قدم رکھے آمين ۔ ليکن صدحيف مسلم معاشرے ميں اکثريت اُن لوگوں کی ہے جو رمضان ميں عبادت کر ليتے ہيں اور بس ۔ ہلال عيد طلوع ہوا اورعيد کی تياری ميں لگ گئے ،پھربھول گئے کہ کوئی مہينہ تھا جس ميں رحمت ورضوان کی برسات ہو رہی تھی، پنج وقتہ نمازوں پر پانی پھرگيا، قرآن کريم طاقوں کی زينت بن گيا، صدقات وخيرات کا نام ونشان مٹ گيا، روزے کا اتہ پتہ نہيں رہا، غيبت وچغلخوری تکيہ کلام بن گيا، فريب ودغا ، بے ايمانی ،دھوکہ دہی ،سود خوری ، رشوت خوری اورحرام خوری کابازار پھر گرم ہوگيا، نغمہ وموسيقی کے دھن شروع ہوگئے، ٹيليويزن پر عريانیت کا مشاہدہ ہونے لگا، حقوق پامال ہونے لگے ، مسجديں ويران ہونے لگيں اور ميکدے آباد ہونے لگے ۔ غرضيکہ جوجيسا تھا اپنی حالت پر لوٹ آيا۔ علامہ اقبال نے اِسی کا رونا رويا تھا   
           غرہ شوال اے نور نگاہ روزہ دار
             آکے تھے تيرے لئے مسلم سراپا انتظار
         تيری پيشانی پہ تحرير پيام عيد ہے
          شام تيری کيا ہے صبح عيش کی تمہيد ے

شاعرمشرق علامہ اقبال چند بندوں کے بعد ہماری حالت زار کا ہلال عيد سے شکوی کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ اے ہلال عيد
     اوج گردوں سے ذرا دنيا کی بستی ديکھ لے 
     اپنی رفعت سے ہمارے گھرکی پستی ديکھ لے
     قافلے ديکھ ‘ اور ان کی برق رفتاری بھی ديکھ
  رہرو درماندہ کی منزل سے بےزاری بھی ديکھ
     ديکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
    اے تہی ساغر ! ہماری آج ناداری بھی ديکھ
     فرقہ آرائی کی زنجيروں ميں ہيں مسلم اسير
      اپنی آزادی بھی ديکھ اُن کی گرفتاری بھی ديکھ

  كامل اطاعت كا نام اسلام ہے:

کيا اسلام نام ہے سال ميں ايک مہينہ عبادت کا ؟ کيا اسلام کا مطلب ہے موقع اور مناسبت سے اُسے اپنالو اور بس ؟  کيا اسلام فقط رمضان کے روزے اور جمعہ وعيدين کے اہتمام کا نام ہے ؟ افسوس آج بعض اسلام کے ماننے والوں نے کچھ ايسا ہی سمجھ رکھا ہے ۔۔ جس طرح عيسائی ہفتہ ميں ايک دن چرچ کو جاتے ہيں ، ويسے ہی کچھ فرزندان اسلام ہفتہ ميں ايک دن مسجد چلے جاتے ہيں اورطرفہ تماشا يہ کہ اپنے آپ کو پکا مسلمان ثابت کرتے ہيں ۔ نہيں ميرے بھائيو ہرگز نہيں ،
 اسلام يہ نہيں ہے۔ ہم جس اللہ کی عبادت کرتے ہيں وہ ہميشہ سے ہے اور ہميشہ رہے گا ،اُس نے ہميں اِس دنيا ميں امتحان کے لئے رکھا ہے ، يہ دنيا دار العمل ہے ،آخرت کی کيتی ہے ، جب آنکھيں بند ہوجائيں گی توذہن کے سارے پردے کھل جائيں گے ،انسان تمنا کرے گا کہ اے کاش ہميں کچھ نيکی کرنے کا موقع مل جاتا ، ہمارے گناہ مٹاديئے جاتے ليکن اُس وقت عمل کا موقع نہيں ہوگا ، موقع جا چکا ہوگا حتی اذا جاءاحدھم الموت قال رب ارجعونی لعلی اعمل صالحا فيما ترکت.
" حتی کہ جب ان ميں سے کسی کو موت آئے گی تو وہ کہے گا : اے ميرے رب مجھے واپس بھيج ، تاکہ اس دنيا ميں ‘ جسے ميں چھوڑ آيا ہوں ‘ نيک عمل کروں " 
 موت ديکھ کرجب آنکھو ں کے پردے ہٹ جائيں گے تو تمنا کس چيز کی کريں گے ؟ اس چيز کی نہيں کہ بار الہا ذرا مہلت دے دے اپنی بيويوں ،اپنے محلات اور اپنے املاک سے لطف اندوز ہولوں بلکہ تمنا اِس بات کی کريں گے کہ بارالہا! ہميں نيک عمل کرنے کا موقع دے دے ۔۔کيا ہی اچھی تمناہے ۔۔ ليکن کيااُس وقت موقع مل جائے گا ؟ مالک عرش بريں کا جواب ہوگا: ہرگز نہيں موقع جاتا رہا، کلا انھا کلمة ھو قائلہا ومن ورائھم برزخ الی يوم يبعثون(المومنون 99۔100) بےشک يہ ايک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے ۔اور اُنکے آگے پردہ ہے اُس دن تک جب وہ دوبارہ اٹھائے جائيں گے

ipc سے منسلک ايک صاحب تھے معلا الشمری، مہينہ ہوا ڈيوٹی کے لئے نکلے، راستے ميں گاڑی اکسيڈنٹ کرگئی اور وہ جائے حادثہ پر اللہ کو پيارے ہوگئے، اُن کے گھروالوں پر يہ خبربجلی بن کر گری ہوگی، ہفتہ دو ہفتہ تک اُن کی ياد تازہ رہی ہوگی۔ ابھی اُن کے گھر والے عام حالت پر آچکے ہونگے ۔۔۔ ہاں اگر کسی چيز ميں کمی رہ گئی ہے تو اُن کے اعمال ہيں ، يہی اُن کے ساتھ گئے ہيں ورنہ سب اُن کو بھول چکے ۔ ويسے وہ نيک تھے ، پنج وقتہ نمازوں کے پابند تھے، سموار اور جمعرات کو روزہ رکھنا اُن کا معمول تھا، خدمت خلق ميں پيش پيش رہتے تھے ۔ اسلئے ہميں اميد ہے کہ اللہ تعالی کے پاس اُن کا انجام اچھا ہوگا ۔
اب ہم اپنے دامن ميں جھانک کر ديکھيں ۔ رمضان چلا گيا ، اگر ہم نے اطاعت الہی سے کنارہ کشی اختيار کرلی ہے اورايسی ہی حالت ميں ہماری موت آجائے توہم کيسے اللہ کو ہم اپنا چہرہ دکھا سکيں گے ؟
يہ سستی جو رمضان کے بعد ہم پرچھاجاتی ہے اِس کا محرک دراصل شيطان ہوتا ہے ، وہ ہميں دھوکہ ديتا ہے کہ تم نے بہت نيکياں کمالی ، اب ذرا موج مستی کر لو ، رنگ ريليا ں کر لو ۔ کيونکہ وہ نہيں چاہتا کہ ہم اللہ کے فرمانبردار بن سکيں، وہ نہيں چاہتاکہ ہم جنت کے حقدار بن سکيں ، ٹھيک ہے ہم نے نيکياں جمع کرلی ہيں ليکن کيا کبھی سوچا کہ وہ قبول بھی ہوئی ہيں يا نہيں ؟

قبوليت اعمال كى نشانياں:

نيکيوں کی قبوليت کى کچھ علامات ہيں
٭اُن ميں سب سے پہلے شکر کا جذبہ پايا جانا ہے ، اللہ تعالی کی اِس توفيق پر اُس کا شکر ادا کرنا کہ اُس نے ہميں برکات رمضان سے فيضياب ہونے کا موقع ديا جبکہ کتنے لوگ اِس سے محروم رہے ، کتنے لوگ رمضان سے پہلے فوت پاگئے ۔
٭ پھر دل ميں ہميشہ يہ کھٹکا رہے کہ ايسا نہ ہو ہمارے اعمال رد کر دئيے جائيں کيونکہ اللہ تعالی نيک لوگوں کے اعمال ہی قبول کرتا ہے، ہم نے اللہ پر کوئی احسان نہيں کيا ، بلکہ اپنی نجات کا سامان تيار کيا ہے اسلئے ہميں قبوليت کی بھی فکر کرنی ہے يہی حال اصحاب رسول کا تھا عبدالعزيز بن ابی رواد کہتے ہيں:
 "ہم نے صحابہ کرام کو پايا کہ وہ عمل صالح کی انجام دہی ميں خوب خوب کوشش کرتے جب نيکيوں سے دامن مراد بھر ليتے تو اُن کے اندر يہ فکر لاحق ہوجاتی کہ ايا اُن کے اعمال مقبول ٹھہرے يا رد کر ديئے گئے "۔ 
فضالہ بن عبيد ؒ کہا کرتے تھے:
”اگر ميں جان لوں کہ اللہ تعالی نے ہم سے رائی کے دانہ کے برابر بھی قبول کر ليا ہے تو يہ ميرے لئے دنيا و ما فيھا سے بہتر ہوگا کيونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے انما يتقبل اللہ من المتقين بيشک اللہ تعالی نيک لوگوں سے ہی قبول کرتا ہے ۔
يہاں پر ہميں اپنے دل کا جائزہ لينے کی ضرورت ہے ، کيا نيک اعمال کی انجام دہی کے بعدہمار ے دل ميں قبوليت کا کھٹکا لگا ہوا ہے ؟۔ اگر نہيں۔۔ تو آج ہی سے يہ دعا شروع کر ديں کہ بار الہا تو ہمارے عملوں کو قبول کر لے گوکہ ميں اُس کا مستحق نہيں ليکن تو دريا دل ہے ، 

 شوال کے روزوں كا اهتمام كريں :

رمضان ضرور گيا ہے ليکن عمل کا زمانہ موت تک باقی ہے ، اگر رمضان کا روزہ جا چکا تو نفلی روزے پورے سال باقی ہيں بلکہ شوال کے چھ روزے ابھی باقی ہيں صحيح مسلم ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے من صام رمضان ثم اتبعہ ستا من شوال کان کصيام الدھر جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو يہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے
وہ کيسے ؟ جی ہاں صحيح حديث ميں بتايا گيا ہے کہ ايک نيکی کا اجر کم ازکم دس گنا ہے ، اس کے مطابق ايک مہينے رمضان کے روزے دس مہينہ روزہ رکھنے کے برابر ہونگے ، اُس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے جائيں تو چھ دہائی کے ساٹھ يعنی دو مہينہ کے برابر ہوگئے ۔ دس اور دو بارہ ۔ يوں گويا اسے پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوا۔اور جس کا يہ معمول ہو جائے گويا اُس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ، افسوس کہ يہ نفلی روزے ہمارے سماج سے ختم ہوتے جا رہے ہيں، اور اِن کا اہتمام صرف عمردراز عورتيں ہی کرپاتی ہيں ضرورت ہے اِس کی طرف توجہ دينے کی ۔
 اسی طرح سموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا مسنون ہے سنن ترمذی ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے تعرض الاعمال يوم الاثنين والخميس ، فاحب ان يعرض عملی وانا صائم سوموار اور جمعرات کو اللہ تعالی کے ہاں اعمال پيش کئے جاتے ہيں پس ميں اِس بات کو پسند کرتا ہوں کہ ميرا عمل جب بارگاہ الہی ميں پيش کيا جائے تو ميں روزے دار ہوں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنها فرماتی ہيں کہ اللہ کے رسول سموار اور جمعرات کے روزے کا بطورخاص اہتمام فرماتے تھے ۔
اور آپ نے اپنے تين اصحاب حضرت ابوہريرہ ، حضرت ابوذر اور حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنھم کو وصيت کی کہ ايام بيض يعنی ہجری مہينے کی ہر 13، 14، 15، کو روزہ رکھا کريں اور آپ نے فرمايا صوم ثلاثة ايام من کل شھر صوم الدہر کلہ (متفق عليہ) ہر مہينے تين دن کے روزے رکھنا سارا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔
آج بھی الحمد للہ عربوں ميں سموار و جمعرات کے روزے اور ايام بيض کے روزوں کا خاصا اہتمام پايا جاتا ہے ، خود کويت ميں اکثر گھرانوں کے مرد وخواتين ان دنوں کے روزوں کی پابندی کرتے ہيں ۔ کويتی معاشرہ کے ساتھ  جن لوگوں کا ربط و ضبط رہتا ہے وہ اچھی طرح اسے جانتے ہوں گے ۔ دورجانے کی ضرورت نہيں ابھی ہمارے سامنے جو ريکارڈننگ انجنير بيٹھے ہمارا پروگرام ريکارڈ کر رہے ہيں ۔۔ وہ سموار اور جمعرات کے روزوں کی ہميشہ پابندی کرتے ہيں ،حالانکہ وہ ايک عام ساونڈ انجنيرہيں جب کہ ہم اپنے برصغير پاک وہند ميں ديندار گھرانوں تک ميں اِس کا اہتمام نہيں ديکھتے ۔ ضرورت ہے ہمارے سماج ميں جو سنتيں مردہ ہو چکی ہيں انہيں ازسرنو زندہ کيا جائے ۔ بالخصوص ہم جيسے تارکين وطن جو اہل وعيال اور بيوی بچوں سے دور ہيں انہيں تو روزہ پہلی فرصت ميں رکھنا چاہئے ۔ روزہ جہاں رضاءالہی کا سبب ہے وہيں جنسی خواہش کو دبانے ميں اکسير کی حيثيت رکھتا ہے ۔اللہ کے رسول نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے روزے کا ہی فارمولہ پيش کيا چنانچہ آپ نے فرمايا:
يا معشر الشباب من استطاع منکم الباءة فليتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم يستطع فعليہ بالصوم فانہ لہ وجاء.
 "اے نوجوانوں کی جماعت ! تم ميں جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے کيونکہ يہ نگاہوں کو پست رکھتی ہے اور شرمگاہ کی حفاطت کرتی ہے ۔ اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اُسے روزہ رکھنا چاہئے کيونکہ روزہ کسرشہوت کا باعث ہے"۔
اسلئے ہميں چاہئے کہ سموار وجمعرات کے روزے بالخصوص ايام بيض کے روزوں کا ممکنہ حد تک اہتمام کريں ،کيونکہ ايام بيض کے روزے خواہشات کو دبانے اور ذہنی سکون لانے ميں کليدی رول ادا کرتے ہيں ۔اس کا ثبوت ہميں سائنس دانوں کی تحقيق سے ملتا ہے ۔، اس تحقيق کی تفصيل کيا ہے آئيے سب سے پہلے اِسے جانتے ہيں۔

 ايام بيض کے روزوں ميں معجزہ نبوی:

آج سائنس نے يہ تحقيق پيش کی ہے کہ جب چاند اپنے اوج کمال کو پہنچ جاتا ہے تواِس مدت ميں انسانی جسم بھی اس سے متاثر ہوتا ہے ،چنانچہ ديگر ايام کی بنسبت ان دنوں انسان کے اندر جذباتيت آجاتی ہے، اشتعال انگيزی پيدا ہوجاتی ہے، خواہشات ميں ابال آنے لگتا ہے اور جرائم وحوادث کی کثرت ہوجاتی ہے اسی مدت ميں يعنی13/14/15 کو اللہ کے رسول نے ہمارے ليے روزے کا فارمولہ پيش کيا اور ہم جانتے ہيں کہ روزہ انسانی جذبات کو کنٹرول ميں رکھنے ميں بنيادی کردار ادا کرتا ہے ۔ اس حيثيت سے ايام بيض کے روزے آج ہمارے لئے معجزہ کی حيثيت رکھتے ہيں ۔

ڈاکٹر محمد علی البار نے اپنے ويب سائٹ khayma.com www. پرايک امريکی ماہر علم نفسيات ڈاکٹر ليبرکا قول نقل کيا ہے کہ ”چاند کے اوج کمال پر پہنچنے اور تشددانہ کاروائيوں ميں اضافہ ہونے کے بيچ گہرا ربط و تعلق ہے ۔نشہ آور اشياء کے رسيا،جرائم پيشہ افراد اور تشدد پسندوں کی تخريبی کاروائيوں ميں زيادتی ہوجاتی ہے۔وہ دماغی اور عقلی سنجيدگی سے عاری ہوجاتے ہيں۔
نيز سروے اور بذريعہ رائے شماری حاصل شدہ بيانات، شفاخانوں ميں واردات کے دفاتراور پوليس چوکيوں کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر جرائم اور اکسيڈنٹس ايام بيض ميں رونما ہوتے ہيں ۔ نفسياتی پريشانيوں کے شکار اور عمر رسيدہ مرد وخواتين بھی ان دنوں ميں زيادہ متاثر ہوتے ہيں اسی طرح وقوع طلاق اور بڑے بڑے جھگڑوں کا تناسب ان دنوں ميں بڑھ  جاتا  ہے ۔
اب سوال يہ ہے کہ چاند کے اوج کمال کو پہنچنے اور انسانی نفسيات ميں تبديلی واقع ہونے کے بيچ آخر کيا تعلق ہے ؟
تواس سلسلے ميں سائنس کہتی ہے کہ جس مدت ميں چاند مکمل ہوتا ہے اُس مدت ميں اس کے اثرات زمين پر ہويدا ہوتے ہيں اور زمين اور انسا نی جسم کے بيچ بھی گہرا تعلق پايا جاتا ہے اس تعلق سے ڈاکٹر ليبر کہتے ہيں کہ انسانی جسم بالکل سطح زمين کی مانند ہے جس کی بناوٹ 80 فيصد پانی اور باقی سخت مادوں سے ہوتی ہے ۔ مطلب يہ کہ انسانی جسم اور زمين کا آپس ميں گہرا تعلق پايا جاتا ہے خود اللہ تعالی نے فرمايا کہ وبداخلق الانسان من طين السجدة ۷ اور اس نے تخليق انسان کی ابتداء مٹی سے کی اور ظاہر ہے کہ مٹی زمين ہی کا حصہ ہے تو جس طرح چاند کے اثرات زمين پرپڑتے ہيں اسی طرح انسانی جسم پر بھی پڑتے ہيں ۔ انسانی جسم اور زمين پر چاند کے اثرات اس وقت انتہا کو پہنچ جاتے ہيں جب کہ چاند اپنے اوج کمال پر ہوتاہے۔ اور يہی مدت ايام بيض کی ہے چنانچہ ان دنوں ميں سمندروں کے اندرمدوجزر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور انسان پر اس کے اثرات اشتعال انگيزی، قلق واضطراب اور ذہنی کشيدگی کی صورت ميں ظاہر ہوتے ہيں۔ زمين سے متعلق اس کی مثال ديکھنی ہو تو آپ سمندر کے کنارے جاکرديکھ سکتے ہيں کہ سمندرکا مد وجزر ان دنوں ميں اپنی انتہا کو پہنچ چکاہوگا ۔ اور انسان سے متعلق اس کی مثال ديکھنی ہوتو پوليس چوکيوں ، کورٹ وکچہری کا دورہ کرکے يا روزنامہ اخبار کا مطالعہ کرکے ديکھ سکتے ہيں کہ جرائم ، خودکشی، اکسيڈنٹ کے واردات ان دنوں ميں بکثرت ہوتے ہيں ۔
يہيں پر ہميں ايام بيض کے روزوں ميں معجزہ نبوی کا عکس دکھائی ديتا ہے ۔ آپ نے ان دنوں کے روزے کا حکم دے کر دراصل اس تشدد پسندی، اشتعال انگيزی اورجنسی ابال کا علاج فرمايا جو ان دنوں ميں انسان کے اندر پيدا ہوتے ہيں ۔ اس طرح روزہ ايک شخص کے اندر سکون وراحت اور طمانينت کا سبب بنتا ہے کيونکہ روزہ جہاں ايک طرف عبادت ہے ، باعث اجر وثواب ہے وہيں بچاؤہے، سعادت ہے،رحمت ہے، اور باعث صحت وعافيت ہے ۔
غرضيکہ اگر رمضان چلاگيا تو نفلی روزے ابھی باقی ہيں۔ہميں چاہئے کہ سموار وجمعرات کے روزوں اورايام بيض کے روزوں کا بطورخاص اہتمام کريں ۔

شب بيدارى كا اهتمام كريں :

اسی طرح اگررمضان کا قيام جا چکا تو سال بھرقيام الليل مشروع ہے ۔ شب بيداری کرنے والے اللہ کے محبوب ہيں اللہ کے رسول نے شب بيداری کی ترغيب دی ہے ۔ آپ نے فرمايا افضل الصلاة بعدالمکتوبةالصلاةفی جوف الليل فرض نماز کے بعد افضل نماز نصف شب کی نماز ہے ۔
اللہ کے رسول نے يہ بھی فرمايا کہ اللہ تعالی ہرشب جبکہ رات کا تہائی حصہ باقی رہتا ہے سماء دنيا پر اترتا ہے اور پکارتا ہے ہے کوئی جو ہميں پکارے اور ميں اس کی پکار کا جواب دوں ؟ ہے کوئی جو ہم سے مانگے اور ہم اسے عطاکريں ؟ ہے کوئی جو ہم سے مغفرت طلب کرے اور ميں اس کے گناہوں کومعاف کردوں  

پنج وقتہ نمازوں اور سنتوں کی پابندی كريں :

اسی طرح پنج وقتہ نمازوں کی پابندی جب تک جان ميں جان ہے ہرمسلمان بالغ مرد وعورت پر فرض ہے بشرطيکہ کوئی شرعی عذر نہ ہو ۔ يہ گنتی ميں يوں توپانچ ہيں تاہم ثواب کے اعتبار سے پچاس وقت کی نمازيں ہيں ۔ان کی پابندی پردنيا وآخرت کے بھلائی کی ضمانت دی گئی ہے اورانہيں ضائع کرنے پر دنيا وآخرت ميں خسارے کی وعيد سنائی گئی ہے ۔

پھراللہ تعالی نے دن ورات ميں 12 رکعت سنتيں مشروع کی ہے ۔ظہرسے پہلے چاررکعت، ظہرکے بعد دو رکعت، مغرب کے بعد دورکعت، عشاء کے بعد دو رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت ۔ ان سنتوں کی پابندی کرنے والوں کی بابت اللہ کے رسول نے فرمايا :
مامن عبدٍ مسلمٍ يصلی للہ کلَّ يوم ثنتی عشرة رکعة تطوعا غيرفريضة اِلابنی اللہ لہ بيتا فی الجنة (مسلم)
"جومسلمان بندہ اللہ کے لئے فرض نمازوں کے علاوہ روزانہ بارہ رکعتيں سنت ادا کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت ميں گھر بنا ديتا ہے"۔
 کہاں ؟ جنت ميں ۔۔ سبحان اللہ ! کيا بشارت ہے ! جنت ميں گھر ۔ وہ گھر جس کی ايک اينٹ سونے کی اور دوسری اينٹ چاندی کی ہوگی اور جس کی کشادگی تا حد نگاہ ہوگی ۔
ذرا آپ تصور کرو کہ جب آپ دنيا ميں اينٹ اور سيمنٹ کا گھر بنانا چاہتے ہو تو آپ کو سالوں سال منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے ، اپنی کمائی کا اچھا خاصہ حصہ جمع کرنا پڑتا ہے ۔ تب جاکرآپ کا گھر تيار ہوپاتا ہے اور وہ بھی اينٹ اور پتھر کا گھرجس کی پيمائش محدود ہوتی ہے ۔جہاں چند سال بتانے ہيں اور بس جبکہ اللہ رب العالمين شب وروز ميں بارہ رکعت سنتوں کی ادائيگی پر تيرے لئے بہشت ميں سونے اور چاندی کا گھر بناتا ہے، جس کی وسعت تا حد نگاہ ہوگی ۔ اور جسکی نعمتيں دائمی ہوں گی ۔
اگر ايک انسان اس نکتے کو ہر لمحہ ذہن نشيں رکھے توکيا تصور کرسکتے ہيں کہ وہ سنتوں کی ادائيگی ميں کوتاہی کرے گا ؟ نہيں اور ہرگز نہيں ليکن بات يہ ہے کہ اکثر انسانوں پر ماديت کا غلبہ ہوچکا ہے ۔ اس ليے وہ جس چيز کو اپنی نگاہوں سے ديکھتے ہيں محض اسے ہی حقيقت سمجھتے ہيں:
 بل تؤثرون الحياة الدنيا والآخرة خيروأبقی﴿ الاعلی 16۔17 )
" بلکہ تم دنيا کی زندگی کو ترجيح ديتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے" ۔ توپھر ديکھتے کيا ہيں ؟ آج ہی سے کمرہمت باندھئے ! اور عہد کيجئے کہ کبھی ہم سے سنتيں فوت نہ ہوں گی ۔
اگر ہم نے نماز وتر کی پابندی کی تو وتر اب بھی باقی ہے ۔ يہ تو سنت مؤکدہ ہے آپ  کے قول وفعل سے ثابت ہے بلکہ بعض علماء نے اسے واجب قرار ديا ہے جس کے ترک پر انسان گنہگار ٹھہرتا ہے امام احمد بن حنبل ؒ  فرماتے ہيں : من ترک الوترعمدا فھو رجل سوءلاينبغی ان تقبل لہ شھادة جو شخص جان بوجھ کر وتر کی نماز ترک کرديتا ہے وہ بُرا آدمی ہے اس کی گواہی قبول کرنی مناسب نہيں ۔

قرآن كو حرز جان بناليں :

رمضان ميں ہم نے قرآن کريم کی تلاوت کی اوراسے اپنا حرزجان بنائے رکھا تو رمضان کے بعد براہ کرم اسے طاقوں کی زينت نہ بنائيں۔ قرآن نسخہ شفا ء ہے ، قرآن مشعل ہدايت ہے ، قرآن دنيوی فلاح  کا ضامن ہے ۔ قرآن ايسا محفوظ قلعہ ہے جو ہميں برائيوں سے بالکل دور رکھتا ہے لہذا اس سے اپنا تعلق مضبوط رکھيں۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ آپ روزانہ ايک آدھ پارہ  کی تلاوت کريں ۔ آپ کے ساتھ روزی روٹی کے مسائل ہيں ، ملازمت کی ذمہ دارياں ہيں اسلئے کچھ وقت نکال کر ايک صفحہ ہی سہی ضرور پڑھيں۔ اگر اتنا بھی وقت نہيں نکال سکتے تو آپ جيبی سائز کامصحف اپنے پاس رکھيں ، ڈيوٹی کے لئے جاتے اور آتے وقت تلاوت کرليں ، ميں سمجھتا ہوں کہ اگر ايسا کيا تو ہم روزانہ ايک پارہ کی تلاوت کر سکتے ہيں ۔ميں اپنے ايک ساتھی کو جانتا ہوں جوتلاوت قرآن کے لئے الگ سے کوئی وقت نہيں نکالتے بلکہ ڈيوٹی کے لئے جاتے وقت اور ڈيوٹی سے لوٹتے وقت صرف قرآن کی تلاوت کرتے ہيں اس طرح وہ ايک مہينہ ميں ايک مرتبہ قرآن ختم کر ليتے ہيں واقعہ يہ ہے کہ ہمارے کتنے اوقات بے فائدہ ضائع ہوجاتے ہيں ،اور ہم سب کواس کا احساس تک نہيں ہوتا ،آج اکثر لوگ وقت کی تنگی کا شکوہ کرتے ہيں ميں کہتا ہوں کہ ہمارا وقت بہت کشادہ ہے ، اللہ والوں نے اتنے ہی اوقات ميں ہزاروں صفحات قلمبند کئے ہيں حقيقت يه ہے کہ ہم نے خود وقت کو تنگ کيا ہوا ہے ۔ گپ بازی ميں ہمارے کتنے اوقات ضائع ہوجاتے ہيں ،ہمارے وقتوں کا اکثر حصہ سونے کی نذر ہوجاتا ہے ۔

ايك واقعه : عبدالملک قاسم نے لکھا ہے کہ ايک تارک وطن تھا، سعودی عرب ميں مقيم، برکے علاقے ميں معمولی ملازمت کرتا تھا ، وطن سے آيا تو قرآن کريم پڑھنا بھی نہيں جانتا تھا ليکن اس کے اندر قرآن سيکھنے کی لگن تھی چنانچہ اس نے اپنی محنت سے قرآن پڑھنا سيکھ ليا پھر چندہی سالوں ميں اس نے پوراقرآن حفظ کر ليا ۔ سبحان اللہ ! آخر وہ بھی تو کمانے کے لئے آيا تھا نا! جی ہاں ! ليکن اس نے وقت سے فائدہ اٹھايا ، اپنے مقصد زندگی سے آگاہی حاصل کی ۔ سوچا کہ قرآن ہمارے پروردگار کا کلام ہے اگر اس سے محروم رہ گيا تو دنيا کے سارے خير کس کام کے ؟
لہذا ہم بھی کمرہمت باندھيں !اگر ہم ميں کوئی قرآن مجيد پڑھنا نہيں جانتا ہے تو اسے سيکھنے کی کوشش کرے ،اگر کوئی پڑھنا جانتا ہے توحفاظ کرام کے پاس بيٹھ کر تجويد سيکھنے کی کوشش کرے ، قرآن کريم کے پيغام کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اگر يہ بھی نہيں ہو سکتا تو قرآن سيکھنے والوں پر خرچ کريں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفيق بخشے۔

صبر كى تعليم پر جمے رھيں :

رمضان ميں ہم نے صبر کی تعليم پائی ہے ۔ اطاعت پر صبر کيا ،بحالت روزہ بھوک اور پياس کا احساس ہوا ليکن کھانے کا ايک لقمہ يا پانی کا ايک قطرہ بھی منہ تک جانے نہ ديا ، سونے کا دل کرتا تھا ليکن شب بيداری کا اہتمام کيا ، قرآن کريم کی تلاوت کی ، مال سے محبت تھی ليکن ہم نے خرچ کيا ۔ يہ دراصل اطاعت پر صبر تھا اب بھی اسے باقی رکھنا ہے ۔

اسی طرح ہم نے رمضان ميں گناہوں پر صبر کيا، روزہ رکھ کر غيبت نہيں کی  چغلخوری نہيں کی ، دوسروں کو دھوکہ نہيں ديا، حرام کمائی سے پرہيز کيا ، ٹيليويزن پر عريانيت کے مشاہدہ سے بچے رہے ، عورتوں کی طرف نظر اٹھاکر نہيں ديکھاتو اب بھی اس خوبی کو باقی رکھنا ہے کيونکہ ہم تاحيات امتحان گاہ ميں ہيں، ہم مرتے دم تک اللہ کابندہ اور اس کے غلام ہيں اور بندہ کا کام ہوتاہے اپنے مالک کی اطاعت و تابعداری کرنااور اس کی نافرمانی سے بال بال پرہيزکرنا ۔

اطاعت پر ثابت قدم  کيسےرھيں:

اب سوال يہ ہے کہ ہمارے اندراطاعت پر ثابت قدمی کيسے پيدا ہوگی ؟ تو اس سلسلے ميں پہلی بات تو يہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دين پر ثبات قدمی کی دعا کريں ۔ بلکہ ہم نماز کی ہر رکعت ميں سورہ فاتحہ کے اندر اللہ تعالی سے ہدايت کی دعا کرتے ہيں اھدنا الصراط المستقيم اے اللہ ہميں سيدھا راستہ دکھا ۔ بس ضرورت ہے اسے سمجھنے کی ۔
نيک لوگوں کی صحبت اختيار کريں اور بُرے ساتھيوں سے بالکل دور رہيں کيونکہ وہ انسان نما شيطان ہيں جو آپ کے لئے خير کی راہ ميں رکاوٹ ثابت ہوتے ہيں ۔ مساجد ميں منعقد ہونے والے ہفتہ واری اجتماعات ميں ضرور شريک ہوں اورعلماء ربانی کے خطابات اور تقارير سنتے رہيں۔ اللہ تعالی ہم سب کو دين پر ثابت قدم رکھے ۔ 

مکمل تحریر >>

بدھ, اکتوبر 05, 2011

میں مسلمان کیوں ہوا ؟

کناڈا کے ایک متعصب عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے ٹونی کے قبول اسلام کی داستان جس نے مسلمانوں کو عیسائی بنانا چاہا تھا تاہم اللہ تعالی نے اسے اسلام کی ہدایت دے دی ۔

میری پیدائش ایک دیندارعیسائی گھرانے میں ہوئی، اس گھرانے کے بیشتر افراد چرچ کی خدمت میں کام کرتے تھے، جس کے باعث چرچ سے ان کا اچھا تعلق بندھا ہوا تھا ۔ میرے اہل خانہ کی حد تک میرے باپ ایک طویل عرصہ تک خادم کنیسہ رہے، میری ساری بہنوں نے عیسائی اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور میری ایک بہن نے ایک عیسائی مبلغ سے شادی بھی کی ہے ۔

ریڈیوپر اسلام کی غلط تصویرکشی:

سب سے پہلے میں نے اسلام کی بابت اپنی گاڑی کی ریڈیوں پر سنا، اس وقت میں16سال کی عمر کا تھا، پروگرامر مسلمانوں سے متعلق بات کرتے اور ان کا تعارف کراتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا :
مسلمان ایسی قوم ہے جو چاند کی پوجا کرتی ہے اور وہ اپنے نبی محمد کی پوجا کرتی ہے، اسی طرح اس کالے پتھر کی بھی پوجا کرتی ہے جو سعودی عرب میں پایا جاتا ہے جسے کعبہ کہتے ہیں ۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس نے اسلام کوقدامت پسند مذہب قرار دیا اور کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردوقدامت پسند بناتا ہے ۔ کمزو روں کی مدد نہیں کرتا بلکہ اس سے سختی سے پیش آتا ہے اور نہ بڑوں کی تعظیم کرنا سکھاتا ہے، نہ چھوٹوں پر شفقت کی تعلیم دیتا ہے، اور نہ مریض ویتیم کی مدد کرتا ہے، اسلام میں خاتون کو بھی کوئی حق حاصل نہیں ۔
پھر پروگرامر نے دعوی کیا کہ وہ مذہب اسلام کا ماہر ہے اور اس نے19سال کا عرصہ اسے سیکھنے میں لگایا ہے ۔
اس پروگرام کو سننے کے بعد میری رائے یہ بنی کہ اسلام وہ مذہب ہے جس میں محض طاقت ور کو زندہ رہنے کا حق ہے اور اس میں طاقت ور کمزور کو نگل جاتا ہے ۔
اسی وقت میرے دل میں یہ فکر پیدا ہوئی کہ میں ۔۔۔بنوں اور تاکہ مسلمانوں کو عیسائیت کی طرف دعوت دوں ۔ اسی وقت سے میں انجیل پڑھنے لگا اور مسیحیت کا گہرائی سے مطالعہ شروع کردیا ۔ جب میں 21 سال کی عمر کا ہوا تو اس کی طرف زیادہ سے زیادہ دھیان دینے لگا ۔

 11 ستمبر کا حادثہ:

جب 11 ستمبر کا واقعہ پیش آیا تو میں مسلمانوں کو اسلام سے عیسائیت کی طرف منتقل کرنے کے ليے کمرکس کے ان کی مدد کرنے لگا،  کیوں کہ میڈیا ان کو اس شکل میں منظرعام پر لاتی تھی کہ خون کی ہولی کھیلنے کے پیاسے ہیں اور دماغی توازن کھو چکے ہیں وہ محض اپنے معبودوں کے تقرب کے ليے معصوم جانوں کو ذبح کرنا جانتے ہیں ۔
اس وقت کناڈا میں ہرمیدان میں مسلمانوں کے خلاف بدنامی، اہانت، اور تذلیل آمیز رویہ اپنایا جا رہا تھا، ہر مسلمان مسلم ہونے کے باعث گردن زدنی کا مستحق تھا،  سڑکوں سے گزرتے ہوئے لوگ ان پر تھوکتے تھے، اور بیشتر لوگ 11ستمبر کے مسئلے کو لے کر مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے ۔
میرے اردگرد کے اکثر لوگ  مسلمانوں کو ناپسند کرتے تھے تاہم میں ان کی مدد کرنے کا متمنی رہتا، اسی وجہ سے 11ستمبر کا واقعہ میرے ليے ایک طرح سے حوصلہ افزا ثابت ہواکہ میں اسلام کو جانوں اور عیسائیت پر مہارت حاصل کروں تاکہ مسلمانوں سے بحث کرسکوں اور ان کے سوالات کا جواب دے سکوں، یہيں سے میں نے پہلے سے زیادہ د لچسی سے نہایت گہرائی کے ساتھ انجیل کا مطالعہ شروع کردیا ۔ اس وقت میرے سامنے ایک ایسی حقیت کا انکشاف ہوا جو میرے ليے انوکھی بات تھی وہ یہ کہ انجیل میں حقیقت تثلیث کا کہیں وجود نہیں، انجیل میں اللہ ایک ہے، تین نہیں ۔ میں نے پایا کہ اکثر مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ ایک  ہے ۔
میں کسی صورت میں باور نہیں کرسکا کہ عیسی علیہ السلام اللہ ہیں یا اللہ کے بیٹا ہیں کیوں کہ خود عیسائیوں میں اس مسئلے سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن عیسی علیہ السلام نے انجیل میں خود کہا ہے کہ اللہ ان سے بڑا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انسان ہیں ، رب کی مدد کے بغیر ان کے اندر کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے سارے معجزات اللہ پاک کی طرف سے تھے نہ کہ خودآپ کی طرف سے ۔
میرے تعجب میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب کہ میں نے انجیل میں یہ پایا کہ انبیاء اللہ تعالی کے ليے نماز پڑھتے تھے اور سجدہ کرتے تھے، یہ بات پیدائش 173میں مذکور ہے:
 " ابراہیم سجدہ کے ليے چہرہ کے بل جھک گئے "
مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پرہوا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسی طریقہ سے نماز پڑھتے تھے:
”تب یسوع ان سے تھوڑی دور جاکر زمین پر منہ کے بل گرا اور دعا کی “  ( متی 26 - 39 )
مجھے اس بات پرتعجب تھا کہ سارے انبیاء مسلمانوں کے طریقہ کے مطابق نماز پڑھتے تھے جبکہ میں نے چرچ میں نماز کا طریقہ یہ سیکھا تھا کہ اپنا ہاتھ اپنے چہرے کے آمنے سامنے رکھوں اور آسمان کی طرف دیکھوں، میں سوچنا کہ آخر ایسا کیسے ہوگا آخر عیسائی لوگ انبیاء کے طریقے کے مطابق نماز کیو ں نہیں پڑھتے ؟ ۔

بکہ اور مکہ کہاں ہے:

میں نے انجیل میں یہ عبارت بھی دیکھی جس سے متحیر رہ گیا:
” وہ لوگ اپنے دل میں نغموں کے ساتھ  جو تیری ہیکل میں آتے ہیں بہت مسرور ہیں ‘ یہ لوگ وادی بکہ ‘جسے خدا نے جھرنے جیسا بنایا ہے (سے ) گذرتے ہیں“ ۔(زبور84 5۔6 )
میں چرچ میں اپنے استاذ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ بکہ کہا ں ہے ؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کی جگہ کو کوئی نہیں جانتا تاہم وہ صحرائی جگہ پر واقع ہے ۔
اخیر میں مجھے اس بات کا پتہ چل گیا کہ یہ سرزمین دراصل مکہ ہے جس کا مسلمان ہر سال حج کرتے ہیں چنانچہ میرے اندر یہ ولولہ پیدا ہوا کہ مسلمانوں کے بکہ کی طرف حج کرنے اور عیسائیوں کے نہ کرنے کے اسباب کاسراغ لگا سکوں۔
میں نے انجیل ہی میں ایک دوسرا فقرہ دیکھا جس میں دوسرے نبی کے آنے کا ذکرہے:
 ” موسیٰ نے کہا:  خدا وند سینائی سے ان لوگوں پر شعیر سے چمکتی   ہوئی روشنی کی طرح ، فاران پہاڑ سے چمکتی ہوئی روشنی کی طرح اور انگنت فرشتوں کے ساتھ اور اپنے بغل میں ليے ہوئے زورآور سپاہیوں کے ساتھ آیا “ (استثناء3   32)
فاران یہ موجودہ سعودی عرب ہے اورجن صحابہ کے ہمراہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کیا ان کی تعداد دس ہزار تھی۔
اسی طرح انجیل میں عیسیٰ علیہ السلام نے ذکر کیا ہے :
”اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں وہ یہ کہ خدائی باد شاہت تم سے چھین لی جائے گی ، اس خدائی باد شاہت کو خدا کی مرضی کے مطابق کام کرنے والوں کو دی جائے گی “          (متی ۱۲ - ۳۴)
 جب میں نے ان بشارتوں پر غور کیا تو پایا کہ یہ بشارتیں صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر منطبق ہوتی ہیں ۔

ترجمہ قرآن کا مطالعہ:

 میں مسجد گیا تاکہ قرآن کریم کا ایک نسخہ خرید سکوں، وہاں میری ملاقات امام مسجد سے ہوئی جوصومالیہ کے تھے، انہوں نے مجھے مفت میں انگریزی ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ دیا۔ اس سے پہلے میرا یہ عقیدہ تھا کہ قرآن کریم کی کوئی اہمیت نہیں، غلطیوں سے پُر ہے ، جسے ساتویں صدی میں ایک عربی نے لکھا تھا ۔ جب میں قرآن پڑھنا شروع کیا تو مجھے چار عظیم آیتوں نے بہت متاثر کیا
٭آیت الکرسی (اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم....) اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہو چکا ہے اسے سب معلوم ہے۔ اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں اور وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے (بقرہ : 255)
٭ لا اکراہ فی الدین .... دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے (بقرہ: 256)
٭وقالوا کونوا ھودا او نصاری ”کہتے ہیں کہ يہود ونصاری بن جاؤتو ہدایت پاؤگے ، تم کہوبلکہ صحيح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے ۔ ۔ (بقرہ: 135۔ 136)
٭ماکان ابراہیم يھودیا ولا نصرانیا....”ابراہیم (عليہ السلام) تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے بلکہ وہ تو یک طرفہ خالص مسلمان تھے اور شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے “۔             (آل عمران 67)
یہ مبارک آیتیں میری زندگی میں تبدیلی لانے کا نقطہ آغاز بنیں، ملت ابراہیمی کیا ہے ؟ ابراہیم علیہ السلام کا راستہ کیا تھا ؟ وہ یکسو مسلم کیسے تھے ؟
ان آیات نے میرے سابقہ سارے شبہات دور کردیے جو انجیل کے مطالعہ کرنے سے میرے ذہن ودماغ میں پیدا ہوئے تھے، اب میں سمجھ گیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کا راستہ وہی ہے جسے لے کر آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے، پھر مطالعہ کے بعد مجھے پورا اطمینان حاصل ہوگیا کہ اسلام ہر طرح کے عیب ونقص سے پاک ہے اور جو کچھ اسلام کی بابت مغربی میڈیا بیان کرتی ہے وہ سب افواہ ہے ۔
اسی کے بعد میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا اورامام مسجد کے پاس جاکر ان سے عرض کیا: میں نے زندگی کے بیشتر اوقات عیسائیت میں گزارے ، الف سے یا تک انجیل پڑھی اور اس کی تحقیق کی، ایسا ہی میں نے قرآن کے ساتھ  کیا کہ میں اسے بھی الف سے یا تک پڑھ گیا، میں نے دونوں میں آسمان وزمین کافرق پایا، میں نے پایا کہ قرآن کریم ایسی کتا ب ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی، یہ آسمان والے کی کتاب ہے اہل زمین کے نام ، اور اس میں ذرہ برابر تحریف واقع نہیں ہوئی ہے لہذا میں چاہتاہوں کہ ابھی مسلمان بنوں ، چنانچہ میں نے مسجد میں اسلام قبول کرلیا ۔
میں نے فیصلہ کیا کہ اپنانام نہ بدلوں اور بدستور ٹونی برن ہی رہنے دو ں کیوں کہ صحابہ کرام نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام نہیں بدلا سوائے دو حالتوں کے
٭ اگر نام میں شرک کی بُوپائی جاتی ہو ۔
٭اگر نام بُرا یا قبیح ہو ۔
میرے اسلام قبول کيے دو سال ہوچکے ہیں، فی الحال کویت میں مقیم ہو ں تاکہ دینی تعلیمات سے بہرہ ور ہوسکوں اور عربی زبان بھی سیکھ  سکوں، مزید یہ کہ ipc کے شعبہ انگریزی میں بحیثیت داعی کام کررہا ہوں، میں نےipc کواس کے غیرمسلموں میں دعوت کے تئیں طویل تجربات کی وجہ سے اختیار کیا ہے تاکہ يہاں رہ کر غیرمسلموں میں دعوت سے متعلق تجربات حاصل کرسکوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی پوری زندگی دین اسلام کے پیغام کوپوری دنیا میں پھیلانے کے ليے وقف کردوں۔
حالیہ دنوں میں نے اپنا ایک نیٹ کھولا ہے جس پر تعارف اسلام سے متعلق مواد دستیاب ہے ،اس کا پتہ يوں ہے:
www.ashadu.com

اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے اور دین پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین   

مکمل تحریر >>