جمعہ, ستمبر 12, 2014

سورہ كہف كا پیغام


قرآن کی سورہ كہف جسے اگر کوئی ہر جمعہ پڑھتا ہے تو اس کے لئے اگلے جمعہ تک ایک نور روشن کر دیا جاتا ہے،  صحيح الترغيب: 736  
اس سورہ میں بنیادی طور پر چار قصوں اور چار قسم کے فتنوں کا ذکر کیا گیا ہے:
(1) غار والوں کا قصہ جس میں دین کا فتنہ پایا جاتا ہے۔
(2) دو باغ والے کا قصہ جس میں دولت کا فتنہ پایا جاتا ہے۔
(3) موسیؑ اور خضر ؑ کا قصہ جس میں علم کا فتنہ پایا جاتا ہے۔
(4) اور ذوالقرنین کا قصہ جس میں بادشاہت کا فتنہ پایا جاتا ہے. 
پھر قصوں کو بیان کرنے کے معا بعد اس کا علاج بھی بتا دیا گیا ہے، مثلا دین کے فتنے سے بچاؤ اچھی صحبت اختیار کرنے اور یوم آخرت کو یاد رکھنے میں ہے. (آیت 28-29)
مال کے فتنے سے بچاؤ دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور آخرت کو یاد رکھنے میں ہے. (آیت 45-46) 
علم کے فتنے سے بچاؤ عاجزی اختیار کرنے اور اپنے علم پر گھمنڈ کا اظہار نہ کرنے میں ہے. (آیت 69) 
اور بادشاہت کے فتنے سے بچاؤ اخلاص و للہیت اور آخرت کو یاد رکھنے میں ہے. (104-103) 
اور سورہ کے اخیر میں ہر طرح کے فتنوں سے بچاو کا خلاصہ یہ بتایا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے، اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اور یہ عبادت آخری رسول محمدﷺ کے طریقے کے مطابق ہو اپنی خواہش اور چاہت کے مطابق نہیں. 
مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 03, 2014

سستی اور کسلمندی کا علاج کیوں اور کیسے ؟

سستی اور کسلمندی انسانی سماج کا ایک ایسا مرض ہے جس کے آج زیادہ تر لوگ شکار ہیں. یہ بیماری کسی بھی انسان کے لئے محبوب نہیں ہو سکتی بالخصوص  جبکہ سستی اپنی حد کو پار کر جائے. اگر جسم میں کبھی کبھار سستی آ جاتی ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں کہ فطری معاملہ ہے کہ جسم کو کبھی کبھی آرام کی ضرورت پڑتی ہے. لیکن عیب کی بات یہ ہے کہ سستی ایک انسان کی شناخت ہی بن جائے. اس سے انسان کی شخصیت متاثر ہوتا ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ کاہلی کا عادی بنتا جاتا ہے تو پھر اس کے لئے اس سے چھٹكاڑا پانا بھی بڑا مشکل ہو جاتا ہے.
سست شخص کبھی بھی خود کو کسی مشکل کام کے لئے تیار نہیں کرتا، وہ بہانہ بناتا رہتا ہے کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکتا، یہ بہت مشکل ہے اور ایسا میں نے کبھی نہیں کیا وغیرہ.
اب سوال یہ ہے کہ کاہلی کا علاج کیوں کر ممکن ہے. اور وہ کون سے وسائل ہیں جن کو اپنا کر ہم سستی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں؟ آئیے ذیل میں ہم ان کی معلومات حاصل کرتے ہیں:
(1) خود کا سست ہونا قبول کریں:
اگر آپ سستی سے نجات حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے آپ کو ماننا پڑے گا کہ واقعی آپ سست ہیں. پہلا قدم یہ ہے کہ آپ سست ہونے کا اعتراف کریں تاکہ اس کا علاج ڈھونڈ سکیں.
(2) سستی کی وجہ تلاش کریں:
آپ کو خود سے پوچھنا ہے کہ آپ سست کیوں ہیں. کسلمندی کے کچھ ایسے اسباب ہوں گے جنہیں خود آپ ہی جان سکتے ہیں. کھلے دل سے اس کے اسباب کا پتہ لگائیں پھر اس کا علاج شروع کر دیں. آپ کو سوچنا چاہئے کہ سستی کی وجہ کتنے موقع کو آپ نے کھو دیا، اگر اس وقت سستی نہ کی ہوتی تو کس قدر قابل رشک زندگی گزار رہے ہوتے. واضح ہے کہ اس کے لئے آپ جن برے عادات کے عادی ہیں انہیں چھوڑنا ہوگا۔
(3) خود میں عزم پیدا کریں:
آپ کے اندر عزم آجانا چاہئے، زندگی میں اپنا ایک مقصد طے کریں اور اسے حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں. اس کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنے لئے چھوٹے چھوٹے اہداف طے کریں، جیسے کوئی کتاب اتنے دنوں میں پڑھ لینا. قرآن کی کوئی چھوٹی سی سورہ یاد کرنا وغیرہ. جب آپ اسے عملی شکل دینے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہوں انہیں فوری طور اپنے من سے Delete کر دیں. ایک عربی شاعر کہتا ہے:
اذا كنت ذا رأى فكن ذا عزيمة
فإن فساد الرأى أن تترددا
اگر تمہارے پاس کوئی خیال یا مقصد ہے تو عزم رکھنے والے بنو کیوں کہ خیال میں بگاڑ تب آتا ہے جب انسان تذبذب میں پڑ جاتاہے.
(4) اہداف کو حاصل کرنے کے لئے اپنے نفس کو لگام دیں:
جو کوئی بھی اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا اور اپنے اہداف کو پانا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو لگام دے، اپنے نفس پر کنٹرول کرے، اگر کسی نے نفس کو بہلانے کی کوشش نہیں کی تو سستی اس کی شناخت بنتی جائے گی. عربی کی ایک کہاوت ہے:
النفس كالطفل إن تهمله شب على
حب الرضاع وإن تفطمه ينفطم
نفس شیرخوار بچے کی طرح ہے کہ اگر تم اس کے تئیں کوتاہی کروگے تو وہ جوان ہو جائے گا پر دودھ پینے کی خواہش نہیں جائے گی، اور اگر اس کا دودھ چھڑاو تو دودھ چھوڑ دے گا.
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کو لگام دینے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں انہیں اللہ کی توفیق بھی ملتی ہے. اللہ نے فرمایا:
والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (سورة العنكبوت 69 )
رہے وہ لوگ جنہوں نے ہمارے راستے میں مل کر کوشش کی، ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھائیں گے.   
(5) خورد ونوش میں توازن اپنائيے:
 کبھی کبھی خورد ونوش کا زیادہ مقدار میں استعمال کرنا بھی سستی کی وجہ بنتا ہے. اس لئے خورد ونوش میں توازن اپنايے، تلي ہوئی اشیاء کی مقدار زیادہ نہ کریں، اور ہمیشہ کھانا محدود مقدار میں لیں، کیوں کہ پیٹ بھرنے سے جسم بھاری ہوتا ہے اور جب جسم بھاری ہوگا تو طبعی معاملہ ہے کہ سستی آئے گی.
(6) سونے میں سیرابی حاصل کریں:
24 گھنٹے میں 8 گھنٹے مسلسل سونے کی عادت ڈالیں، اگر اس سے زیادہ ہوا پھر بھی سستی آئے گی اور اگر اس سے کم ہوا تب بھی بدن میں کسلمندی چھائی رہے گی، سونے جاگنے میں توازن اپنانے کی ضرورت ہے. فجر کے بعد کچھ  وقت نکال کر ہری سبزی پر ٹہلنے کی عادت ڈالیں.
(7) اپنے کاموں کی ایک فہرست بنالیں:
 اپنے کاموں کی ترجیحی بنیادوں پر ایک فہرست بنا لیں، وہ لسٹ آپکے جیب میں ہو یا ٹیبل پر جہاں بار بار اپني نظر جاتی ہو اور آپ اسے دیکھتے ہوں۔
(8) خود کی ایمانی تربیت کریں:
اگر آپ اللہ والوں کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ راتوں کو بہت کم سوتے تھے لیکن اس کے باوجود دن میں بالکل چست رہتے تھے، وجہ یہ تھی کہ ان کا تعلق اپنے رب سے نہایت گہرا اور پختہ تھا، اس لئے اللہ سے آپ کا تعلق مضبوط ہونا چاہئے، اس کے لئے کچھ کام کرنے ضروری ہیں:
ذکر کا اهتمام : سستی اور کاہلی کو دور کرنے میں صبح و شام کے اذکار کلیدی رول ادا کرتے ہیں.
وضو کا خیال رکھیں: اور ہر نماز کے لئے اگر ممکن ہو سکے تو تازہ وضو کریں اور وضو کے بعد دو رکعت نمازپڑھ لیں، اس سے شیطان کا دباؤ کمزور ہوگا.
پانچ وقت کی نمازوں کی مسجد میں حاضر ہوکر اپنے وقت پر پابندی: خاص طور پر فجر کے بعد کا وقت برکت اور بھلائی کا وقت ہے. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو صبح میں برکت دی گئی ہے. صبح کی نماز کے بعد تازہ ہوا لینے سے بہت سے امراض سے نجات ملتی ہے اور بدن میں چستي آتی ہے.
شب بیداری کی عادت ڈالیں کہ رات میں جگ کر نماز پڑھنا جہاں اللہ سے قربت کی علامت ہے تو دوسری طرف یہ جسم سے بیماریوں کو دور کرتا ہے.
اللہ تعالی سے عاجزی اور محبت کے ساتھ دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں سستی اور کوتاہی سے بچالے. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سستی اور کسلمندی دور کرنے کے لیے ہمیں یہ دعا بھی سكھا دي ہے:
اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن، وأعوذ بك من العجز والكسل، وأعوذ بك من الجبن والبخل، وأعوذ بك من غلبة الدين، وقهر الرجال،
اے اللہ، میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر اور دكھ سے، لاچاری اور سستی، بذدلي اور کنجوسی سے، اور لوگوں کے تسلط اور غلبہ سے.
مکمل تحریر >>

ہفتہ, جون 28, 2014

رمضان کا پیغام رجوع الی اللہ


ماہ شعبان ختم ہونے کوہے اوررمضان کی آمدآمدہے ،وہ رمضان جس کے لیے اللہ والے چھ مہینہ پہلے سے تیاری کرتے تھے ،وہ رمضان جس کے لیے صالحین آنکھیں بچھائے رکھتے تھے ،کیوں کہ یہ مہینہ نہایت بابرکت مہینہ ہے ،یہ مہینہ سارے مہینوں کا سردارہے ،جس میں قرآن کا نزول ہوا ،جوروزہ اورقیام کامہینہ ہے ،جس میں بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،جہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں ،اورسرکش شیاطین قیدکردیئے جاتے ہیں ۔جس کی ہر رات اعلان ہوتا ہے کہ” اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے پیچھے ہٹ “۔ اوراس کی ہررات اللہ تعالی گردنوں کو جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے ۔ (ترمذی ، ابن ماجہ )
یہ مہینہ مغفرت ورحمت اورجہنم سے آزادی کامہینہ ہے ،یہ مہینہ صبروشکیبائی ،مواسات اورغمخواری کامہینہ ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں درجات بلند ہوتے ہیں ،نیکیوں کااجروثواب بڑھادیاجاتاہے ،اورگناہوں کاحوصلہ شکنی ہوتی ہے، اس مہینہ میں ایک ایسی رات ہے جوہزارراتوں سے بہتر ہے ،جواس کے خیرسے محروم رہا وہ واقعی محروم ہے ۔(نسائی ، بیہقی ، حسنہ الالبانی )
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہم نے اس بابرکت وباعظمت مہینے کے لیے کیاتیاری کررکھی ہے ؟کیاہم نے اس بابرکت مہینے کی آمدسے پہلے اپنے دلوں کاجائزہ لیا؟کیاہم نے اپنے نفس کااحتساب کیا ؟کیاہم نے اپنے آپ پر غور کیاکہ ہم کس حال میں ہیں ؟ اورکیاکررہے ہیں ؟ ایساتونہیں کہ ہم گناہوں میں ملوث ہیں ؟ ایساتونہیں کہ ہم احکام الہی سے بغاوت کررہے ہیں ؟ آخرہم رمضان سے پہلے اپنے مال کاجائزہ کیوں نہیں لیتے کہ وہ حرام کاہے یاحلال کا ؟ اپنی زبان کی خبر کیوں نہیں لیتے کہ اس کا کیسے استعمال ہورہا ہے ؟اپنے کان کی تفتیش کیوں نہیں کرلیتے کہ وہ جائزسنتاہے یاناجائز ؟اپنی نگاہوں کا محاسبہ کیوں نہیں کرلیتے کہ وہ حلال کی طرف دیکھتی ہے یاحرام کی طرف ،
کیاہم نے رمضان کی آمد سے پہلے غور کیا کہ ہمارے تعلقات دوسروں کے ساتھ کیسے ہیں ؟ہم اپنے اہل وعیال کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ؟ہم اپنے والدین کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ؟ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ؟ہم اپنے تابع کام کرنے والوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے اللہ تعالی کوپسند ہے ؟
آج المیہ تویہ ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل ایک تاجر اپنے خام مال فروخت کرنے کی تیاری کرتاہے،ایک ملازم اپنی ملازمت میں تن آسانی کے وسائل ڈھونڈتا ہے ،اورایک شہوت پرست شہوت رانی کے اسباب اختیارکرتاہے ،رمضان کایہ بابرکت مہینہ ایک نعمت غیر مترقیہ ہے ،یہ ہمیں پیغام دے رہاہے کہ اے اولاد آدم غفلت سے بازآجاؤ ،اپنی فطرت کی طرف لوٹ آؤ،اب بھی سنبھل جاؤ،اورگناہوں سے توبہ کرلو۔
ظالم ابھی ہے فرصت توبہ نہ دیرکر
وہ بھی گرانہیں جوگراپھر سنبھل گیا
اللہ کی ذات توغفورالرحیم ہے ،وہ توبہ کرنے والوں کوپسند کرتا ہے :ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین(سورة البقرة 222)”بلا شبہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ توبہ کرنے والوں اورپاک صاف رہنے والوں کوپسند کرتاہے“۔
اللہ تعالی کی شان کریمی دیکھئے کہ اس نے اپنانام ہی” التواب “یعنی بندوں کی توبہ قبول کرنے والا بتایاہے ،چنانچہ فرمایا: واناالتواب الرحیم(سورة البقرة 160) ”اورمیں توبہ قبول کرنے والااوررحم کرم کرنے والاہوں “۔
وہ چوبیس گھنٹے اپنے بندوں کی توبہ کامنتظررہتاہے ،اورصبح وشام اپناہاتھ پھیلاتاہے ،تاکہ معافی کے طلبگار توبہ کرلیں، صحیح مسلم کی روایت ہے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان اللہ یبسط یدہ باللیل لیتوب مسیءالنھار، ویبسط یدہ بالنھار لیتوب مسیءاللیل حتی تطلع الشمس من مغربہا”اللہ تعالی رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو برائی کرنے والا(رات کو)توبہ کرلے اوردن کوپھیلاتاہے تاکہ کوگناہ کاارتکاب کرنے والا (دن کو)توبہ کرلے (یہ سلسلہ اس وقت تک جاریرہے گا )جب تک سورج غروب سے طلوع نہ ہو “۔(صحیح مسلم 2759)
وہ اپنے گنہگار بندوں کو رحمت وشفقت بھرے لہجے میں پکارتاہے : قل یعبادی الذین أسرفواعلی أنفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا انہ ھوالغفورالرحیم وأنیبوا الی ربکم وأسلموا  لہ من قبل أن یاتیکم العذاب ثم لاتنصرون(الزمر53 54)
 ”اے میرے وہ بندو!جواپنی جانوں پر زیادتی کربیٹھے ہو ،اللہ کی رحمت سے ہرگزمایوس نہ ہونا ،یقینااللہ تمہارے سارے گناہ معاف فرمادے گا،وہ بہت ہی معاف فرمانے والا اورنہایت مہربان ہے،اورتم اپنے رب کی طرف رجوع ہوجاؤاوراس کی فرمانبرداری بجالاؤ اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آجائے اورپھرتم کہیں سے مددنہ پاسکو“۔
رب کریم کی رحمت انسانی تصورسے بالاترہے ،سمندرکے چھاگ سے زیادہ گناہ کرنے والا بھی جب اپنے گناہوں پر شرمسار ہوکر اس کے سامنے جھکتاہے تواللہ تعالی اس کی بات سنتاہے اوراسے اپنے دامن رحمت میں پناہ دیتاہے ۔
سنن ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا : قال اللہ تعالی یاابن آدم انک مادعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ماکان منک ولا أبالی، یاابن آدم لوبلغث ذنوبک عنان السما ، ثم استغفرتنی غفرت لک ولاابالی، یاابن آدم ،انک لوأتیتنی بقراب الارض خطایاثم لقیتنی لاتشرک بی شیئا لأتیتک بقرابھا مغفرة (ترمذی 3540 والجامع الصغیر 6065 ) ”اللہ تعالی فرماتاہے ،اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتارہے گا اورمجھ سے امید وابستہ رکھے گا تو توجس حالت پر بھی ہوگا میں تجھے معاف کرتا رہوں گا اورمیں کوئی پرواہ نہیں کروں گا ،اے ابن آدم !اگرتیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے معافی طلب کر تو میں تجھے بخش دوں گا اورمیں کوئی پرواہ نہیں کروں گا ،اے ابن آدم !اگرتوزمین بھر گناہوں کے ساتھ میرے پاس آئے ،پھرتومجھے اس حال میں ملے کہ تونے میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرایاہو ،تومیں بھی اتنی مغفرت کے ساتھ تجھے ملوں گا جس سے زمین بھرجائے “۔
اورپچھلی قوم کاوہ شخص جس نے ننانوے خون کیاتھا ،پھرراہب کوقتل کرکے سوافرادکا قاتل بن چکا تھا ،اس کے پاس کوئی بھی نیک عمل نہیں تھا لیکن تائب ہوکر نیک لوگوں کی بستی میں جارہاتھا تاکہ ان کے ساتھ عبادت میں لگ سکے ،راستے میں موت کاپیغام آپہنچا ،رحمت اورعذاب کے فرشتے باہم جھگڑنے لگے کہ ہم روح قبض کریں گے تو ہم روح قبض کریں گے لیکن صرف احساس گناہ اورغلطی پر شرمسار ی کے باعث رحمت الہی کامستحق ٹھہرا اوررحمت کے فرشتے نے اس کی روح قبض کی ۔(صحیح مسلم 2766)
توبہ کادروازہ کھلاہے اللہ تعالی کے سامنے اپنے گناہوں کااعتراف کیجئے صرف اسی کے سامنے اپنی عاجزی ،بے کسی اورخطا کاری کااظہار کیجئے کیوں کہ فوزوفلاح کاایک ہی دروازہ ہے ،جواس دروازے سے دھتکاراگیاوہ ہمیشہ کے لیے ذلیل اورمحروم ہوگیا،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سرورکائنات ہوتے ہوئے بھی اسی درکے بھکاری تھے ،انہیں جوعظیم مرتبہ ملاتھا اسی درسے ملاتھا ،ذراانہىں دیکھئے تو سہی کیافرمارہے ہیں :یاایھاالناس توبوالی اللہ واستغفروہ فانی أتوب الی اللہ وأستغفرہ فی کل یوم مائة مرة (مسلم 2702) ”اے لوگو! اللہ کی طرف توبہ کرواوراس سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرومیں بارگاہ الہی میں روزانہ سومرتبہ توبہ کرتاہوں “۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے پرجس قدر رحیم وشفیق ہے اس قدر ایک ماں بھی اپنے بچے پررحیم وشفیق نہیں ہوتی ،آپ کے توبہ واستغفار سے اللہ تعالی کو جوخوشی نصیب ہوگی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیفیت کوایک مثال کے ذریعہ واضح کردیا ہے ،ایک شخص لق ودق صحرامیں اونٹ پرسوارہوکر سفرکررہاہو ،کچھ دیرکے لیے ایک درخت کے نیچے آرام کی خاطر لیٹ جاتا ہے ،نیندسے بیدارہوتاہے کہ اونٹ جس پر اس کے خوردونوش کاسامان لداہواتھا غائب ہوچکاہے ،وہ شخص چاروں طرف اس بے آب وگیاہ صحرامیں اونٹ کوڈھونڈڈھونڈ کرمایوس ہوجاتاہے ،پھروہ زندگی سے بے آس ہوکر کسی درخت کے نیچے موت کے انتظار میں لیٹ رہتاہے ،وہ شخص اسی فکرمیں تھا کہ اچانک اونٹ آپہنچتا ہے جس پر ساراسامان لداہواہے ،اب تصور توکرىں کہ اس کو کیسی خوشی نصیب ہوگی ۔(صحیح مسلم 2747 صحیح الجامع 5030)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال دیکر فرمایاکہ بندہ جب توبہ کرتاہے تواللہ تعالی کواس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی خوشی زندگی سے مایوس اس شخص کواپنااونٹ دیکھ کر اورپاکرہوسکتی تھی ۔
لہذا ہمارے وہ بھائی اوربہن جواب تک گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ،توبہ واستغفار کے ذریعہ رمضان کااستقبال کریں ،سچے دل سے اپنے گناہوں کی معافی کے خواہاں ہوں ،سارے گناہوں سے چھٹکاراحاصل کریں ،جس کاطریقہ یہ ہے کہ تنہائی میں بیٹھ کرکاغذاورقلم ہاتھ میں لیں ،اپنے سارے گناہوں کودرج کریں ،پہلے کبیرہ گناہوں کی فہرست بنائیں ،اس کے بعد صغیرہ گناہوں کی ،تاکہ آپ کوحقیقی معنوں میں اندازہ ہوجائے کہ آپ کتنے گناہوں میں ملوث ہیں ،پھرپہلے کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ کی کی نشاندہی کریں اوراس گناہ کے اسباب کی تشخیص کریں کہ آخرکونسی چیزاس گناہ کے ارتکاب کاباعث بن رہی ہے ،ایساتونہیں کہ اس کاسبب فرصت وبیکاری ہے یانفسانی خواہشات یا برے دوستوں کی رفاقت،یاشیطانی وساوس ،ان اسباب میں سے جوسبب بھی آپ کے گناہ میں ملوث ہونے کاباعث بن رہاہوسب سے پہلے اس سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کریں ،اوراس گناہ کاکوئی متبادل مباح وسیلہ بھی اختیار کریں پھرگناہ سے رہائی پانے کی مدت کابھی تعین کرلیں، اس طرح آپ دھیرے دھیرے حسب ترتیب سارے گناہوں سے چھٹکاراحاصل کرسکتے ہیں ۔
مکمل تحریر >>

ہفتہ, مئی 10, 2014

اسلام میں انسانیت کی نجات ہے

شیخ نبیل عوضی

ایک روز میں IPC میں بیٹھا تھا، گرمی کا موسم تھا، ایک آدمی اسلام قبول کرنے کے لیے آیا، اس کا حال ان دیگرلوگوں کا سا تھا جو بحمداللہIPC میں داخل ہوکر اسلام کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ آدمی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ....
داعی نے پوچھا: آخر آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قبول اسلام کے بعد آپ کو سکون کا احساس ہورہا ہے ؟۔
آدمی کا جواب تھا: معاملہ اس سے بھی بڑا ہے، ....میرے ماں اور باپ ....“ ؟ 
داعی نے پوچھا: آپ کے ماں اورباپ کا کیا ہوا ؟
آدمی نے کہا: میرے والدین اسلام میں داخل ہونے سے پیشر فوت پاگئے، ان کا انجام کیا ہوگا؟ میں نے الحمدللہ اسلام تو قبول کرلیا اورمجھے میرے رب نے گمراہی سے بچا لیا تاہم میرے والدین اسلام کا تعارف حاصل کرنے سے پہلے ہی راہی ملک عدم ہوگئے ۔
نومسلم روتا رہا اورہم سب سے پوچھتا رہا کہ ”بھائیو! خدارا مجھے بتاؤ کہ میرے ماں اورباپ کا ذمہ دار کون ہو گا جو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان تک اسلام نہ پہنچ سکا، اللہ پاک نے مجھے تو نجات دے دی لیکن میرے والدین .... اس کا کیا حل ہے ؟ ان کے لیے میں کیا کرسکتا ہوں؟
سوال بڑا سخت تھا....اس حالت میں مجھے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی وہ حدیث یاد آگئی جب کہ آپ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے کہا تھا: میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہیں ملی تاہم میں نے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت مل گئی “۔
انسان متاثر ہوتا ہے اور اپنے ماں باپ کے بارے میں سوچتا ہے....آج اربوں انسان اسلام سے کوسوں دور ہیں، انسانوں کے رب کی نہیں انسانوں کی عبادت کرتے ہیں، مسلمان دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہیں، بقیہ پانچ حصے دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہیں، کتنے بتوں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے گایوں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے پتھروں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے اللہ کے وجود کے منکر ہیں۔ ہم نے ان کے لیے کیا کیا اور ان کے تئیں کیا ذمہ داری نبھائی؟ اللہ تعالی نے اس امت کی بابت فرمایا ہے : ”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کئے گئے ہو، نیکی کا حکم دیتے ہواوربُرائی سے روکتے ہو“۔ جی ہاں ! تم بہترین امت ہو....کس کے لیے برپا کئے گئے ہو....؟ لوگوں کے لیے برپا کئے گئے ہو۔ ہم مسلمانوں کو غیروں پر فضیلت اس وجہ سے حاصل ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔
میں اس نومسلم کے آنسوؤں کا منظر بھول نہیں سکتا ....اس کے سوال کی آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔
آخر ان ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کا ذمہ دار کون ہے جو روزانہ مر رہے ہیں، جن کی اکثریت اللہ پر ایمان نہیں رکھتی؟ اللہ تعالی نے فرمایا:
”جوشخص اسلام کے علاوہ کسی اوردین کا متلاشی ہوگا وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا “ ۔
 بروزقیامت چند لوگ آئیں گے اورکہیں گے : ”اے ہمارے پروردگار!میرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا“۔ اگر ہم نے ان تک اسلام کی دعوت پہنچائی ہوگی تو ہم پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا:
” اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”امّتِ وَسَط “بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو “۔
 یہ اس وقت جبکہ ہم تبلیغ کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے ہوں گے ....لیکن اگر کسی شخص نے اسلام کی تبلیغ نہیں کی، نصیحت نہیں کی اور لوگوں کو اللہ کا دین نہیں سکھایا تو آخر ان پر کیسے گواہ بن سکے گا۔  کل قیامت کے دن وہی لوگ کہیں گے :
 میرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا....میرے پاس کوئی داعی نہیں آیا....میرے پاس کوئی مبلغ نہیں آیا....میرے پاس کوئی ناصح نہیں آیا.... میرے پاس کوئی معلم نہیں آیا....میرے پاس نیکی کا حکم دینے والایا بُرائی سے روکنے والا نہیں آیا....کوئی ایسا انسان نہیں آیاجو ہمیں کلمہ توحید سکھا سکے ۔
یہ آدمی ....اپنے ماں اورباپ پر حسرت سے رو رہا ہے، اورآج کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے والدین پر حسرت سے روتے ہیں ؟ ہم اگرچاہیں تو.... ہر منٹ میں ایک انسان کو کفرپر مرنے سے بچا سکتے ہیں۔
توآئیے !ہماری منزل ہے.... رسالت محمدیہ کی آفاقی تعلیمات جملہ انسانوں تک پہنچانا تاکہ ان کو انسانوں کی عبادت سے نکال کرانسانوں کے رب کی عبادت کرنے والوں میں شامل کیا جاسکے ۔ ( مترجم: صفات عالم ، ماہنامہ ’البشری ‘ شمارہ اکتوبر سے ترجمہ )
مکمل تحریر >>

جنت کی راہ

جودة الفارس

بابول ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہندومذہب کا پیروکارتھا، ڈرائیور کی حیثیت سے ایک کویتی گھرانے میں کام کرنے کے لیے آیا، اور IPC کی زیارت کرکے اسلام کا تعارف حاصل کیا۔ بالآخر اللہ پاک نے اس کا دل اسلام کے لیے کھول دیا چنانچہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا اوراپنا نام بلال رکھا۔
پھرحسب روایت IPC میں نومسلموں کے لیے مختص دروس میں حاضر ہونے لگا۔ اس نے دین سیکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی اور اپنی ذات سے عہد لیا کہ برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے خود کو تیار کرے گا، اس طرح اس کی خواہش رنگ لائی اور وہ IPC میں معاون داعی کی حیثیت سے کام کرنے لگا، مسلسل محنت جاری رکھی یہاں تک کہ IPC کے امتیازی دعاة میں اس کا شمار ہونے لگا۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ”اگر اللہ تعالی تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو راہِ راست پر لادے تو تمہارے لیے سرخ اونٹ سے بہتر ہے “ اوردوسری روایت میں ہے ”....دنیا وما فیہا سے بہتر ہے “ ۔
اس داعی کا قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ IPC میں اس کی ملازمت کے پانچ سال کے اندر ایک ہزار لوگوں نے اس کے ہاتھ پراسلام کی سعادت حاصل کی ۔ مبارک ہو‘ اسے یہ بے پناہ اجروثواب۔
شیخ بلال کا قصہIPC کے ہزاروں نومسلموں کے قصوں میں سے ایک ہے جو ہمیں عہد نبوی، عہد صحابہ اور ان کے ما بعد سنہرے ادوار کی یاد دلاتے ہیں، اور کیوں نہ دلائیں کہ آپ دیکھیں گے کہ ایک شخص IPC میں داخل ہوتا ہے پھر کلمہ شہادت کی گواہی دینے کے بعد نمازیوں کے بیچ سے نکلتا ہے تو خوشی کے آنسو اس کے چہرے پر چھلک رہے ہوتے ہیں۔
امسال IPC کا شعار ہے : الدعوة مسئولية...بلغها معنا. ’تعارف اسلام.... ہماری ذمہ داری ہےاس کے فروغ میں ہمارا ساتھ دیجیے‘۔ جی ہاں! اللہ کی قسم اس سے بڑھ کر ذمہ داری اور کیا ہوسکتی ہے، دعوت‘ انبیاء و رسل اور صالحین کا طریقہ کار رہا ہے۔ اور یہ علی الاطلاق ساری ملازمتوں میں سب سے افضل ملازمت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 ”اس شخص کی بات سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے ....“۔
برادرعزیز! اگر آپ کسی غیرمسلم کو جانتے ہیں تو فوراً ہم سے رابطہ کریں ہمارے پاس غیرمسلموں کی زبان میں مختلف دعوتی وسائل اور ان کی زبان میں بات کرنے والے دعاة موجود ہیں ۔ (ترجمہ : صفات عالم تیمی ) 
مکمل تحریر >>

نومسلموں کے جذبات کا خیال کیجئے

 کل شام ایک گارڈن میں کچھ فیملی کے ساتھ تفریح کے لیے گئے تھے ، تلگو زبان کے ایک قدیم نومسلم بلال بھائی جن کے ہاتھ پر ہزار سے زائد غیرمسلموں کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ”نومسلموں اورمسلمانوں کے بیچ موجود کھائی “ کے حوالے سے عرض کررہے تھے :
  •  میں اپنے دوست کی شادی میں اس کی دعوت پر مع اہم خانہ شریک ہوا ، میں نے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ ميرے بیوی بچے تلگوزبان میں بات کرتے ہیں اردوزبان نہیں جانتے، گھرکی عورتوں نے ایک جگہ ميرے بچوں کو بٹھا دیا، وہاں بیٹھی دیگرخواتین اردو زبان میں ان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے آپس میں ہنس مذاق كر رہی تھیں کہ دیکھو نا تلگو زبان کی عورت مسلمان ہوئی ہے کچھ تعلق رہا ہوگا ان دونوں کا آپس میں۔ جب طنز حد سے زیادہ ہوا تو میری بیوی نے اس عورت پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ اب کیا تھا شادی کی ساری خوشی پھیکی پڑگئی ۔
  • دیپاولی کا دن تھا، سماج کے سارے بچے پٹاخے پھوڑ رہے تھے، میرے دو کم عمر بچے پٹاخے خریدنے کے لیے بضد تھے، اور رو رہے تھے، میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹے! یہ ہمارا تہوار نہیں ہے، لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے اوراصرار بڑھتا گیا تو بالآخر بازار جاکر میں نے انہیں پٹاخے خریدا دئیے لیکن تاکید کی کہ آج نہیں کل بجانے ہیں ۔ بچے مان گئے، لیکن اسی وقت ايک دينى جماعت کے ذمہ دار کا فون آیا کہ میرا ایک لڑکا ڈاکٹر کے ہاں اڈمٹ ہے، میں اپنے بچوں کے ساتھ ملنے گیا ، تو انہوں نے كہا كہ پٹاخے سے اس نے اپنے دونوں ہاتھ جلا لیا ہے ۔ میرے بچے سن رہے تھے، کہنے لگے : وہ مسلمان ہیں پھر بھی پٹاخے پھوڑتے ہیں اورہمیں آپ منع کیوں کر رہے ہیں ۔ وہاں مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔
  • میں اپنے بڑے بیٹے عمر کی شادی اردو زبان جاننے والی کسی مسلم لڑکی سے کرنے کا خواہشمند ہوں تاکہ گھر کا ماحول بدل جائے لیکن تلاش بسیار کے باوجود مجھے رشتہ اس لیے نہیں مل رہا ہے کہ میری فیملی تلگو زبان سے تعلق رکھتی ہے، لوگ مجھے لڑکی دینے سے جھجھک محسوس کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وہ نومسلم ہے ہم کیسے اس پر اعتماد کریں ۔
  • میرے ایک استاذ میرے تعلق سے کسی کے سامنے کہہ رہے تھے کہ بلال اگر ٹھیک ہوتا تو کم ازکم اپنے بچوں کو بلاکر عمرہ بھی تو کراسکتا تھا ، سوال یہ ہے کہ کیا وہ میری پریشانی کو جانتے ہیں، میرے سارے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ابھی تو ان کے اخراجات صحیح طریقے سے مکمل نہیں ہوپا رہے ہیں ایسے میں ہم فیملی کو آخر عمرہ کے لیے کیسے بلا سکتے ہیں۔ میری اہلیہ ہمیشہ کہتی ہے کہ جب بچے تعلیم مکمل کرلیں گے تو ہم سب حج کو جائیں گے ۔

میں نے ان کے جذبات کی قدر کی اوراسلام اورمسلم سماج کے فرق کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم نے مسلمانوں کا دین نہیں اپنایا ہے اللہ کا دین اپنایا ہے، اگر آپ مسلم سماج کی طرف دیکھیں گے تو واقعی آپ کو مایوسی ہوگی، ہمیں مسلمانوں کو نہیں دیکھنا ہے، اسلامی تعلیمات کو دیکھنے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سارے مسلمانوں سے بدظن ہوجائیں، الحمد لله آج بھی مسلمان دوسری قوموں کی بنسبت اخلاق وکردار میں اچھے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں اورنومسلموں کے بیچ دوری کی تو صدحیف کہ مسلم سماج کی اکثریت نے اسلام کو اپنی جاگیر سمجھ ركها ہے جس کے باعث نومسلموں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے باوجود معاملات میں سوتیلاپن کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں نومسلموں کی تربیت کی ضرورت ہے وہیں مسلم سماج کے بعض خاندانی مسلمانوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ مسلم سماج میں ضم ہونے والے نومسلموں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں ۔
 اسلام کا شعوررکھنے والے مسلمان ایسے خاندانی مسلمانوں کو دیکھ کر بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ان کی جہالت کا نتیجہ ہے تاہم نومسلموں کو اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا، اس لیے قبول اسلام کے شروع ایام میں مسلم سماج کے باشعور لوگوں سے ہی نومسلموں کا تعارف کرانا چاہیے ۔اوردیندار لوگوں کے بیچ ہی ان کو رکھنا چاہیے تاکہ وہ کچھ حد تک اسلام کو عملی شکل میں دیکھ سکیں ۔ جب وہ اسلام کو اچھی طرح سمجھ لیں گے تو خود انہیں” اسلام اورمسلمان “ کا فرق سمجھ میں آجائے گا ۔
ہم نے بلال بھائی کو سمجھایا کہ اسلام قربانی چاہتا ہے، قدم قدم پر قربانی کی ضرورت ہے، دعوت کی راہ اگر خاردار ہے تو اس کے بعد کا مرحلہ صبر کا متقاضی ہے، اور صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے، کبھی بھی آپ اسلام کو مسلمانوں میں کھوجنے کی کوشش نہ کریں چاہے وہ کتنا بڑا عالم ہی کیوں نا ہو۔اوراگر کوئی آپ کی غیبت کرتا ہے یا آپ کی عیب جوئی کررہا ہے تو وہ اصل میں آپ کو اپنی نیکیاں دے رہا ہے اس سے آپ کو خوش ہونا چاہیے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ کی کسی نے غیبت کی تو انہوں نے ایک طبق کھجور ان کی خدمت میں بھیجا اور عرض کیا کہ :
میں نے سنا ہے کہ آپ نےمجھے اپنی نیکیوں کا ہدیہ دیا ہے میری خواہش ہوئی کہ بدلے میں کچھ پیش کروں، اس لیے میرا یہ ہدیہ قبول کیجئے گوکہ یہ ان کا متبادل نہیں بن سکتے ۔
راقم سطورکا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے ایک نومسلم ڈاکٹر کی کئی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرائی، ہر مجلس میں زیادہ تر جماعتی اختلافات پر گفتگو اور ذمہ داران کی عیب جوئی ہوتی رہی، ایک بارملاقات کے بعد نومسلم ڈاکٹر نے اپنے دل کی بات بتادی کہ کہ مجھے اکثرمجلسوں میں زیادہ تر اختلافات سننے کو ملے ایسا کیوں؟ میں نے اپنے انداز سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ۔ 
بہرکیف نومسلموں کے جذبات کی رعایت بہت ضروری ہے اوران کی زندگی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پچھلے دنوں عمرہ کے سفرمیں مدینہ منورہ جانے کا شرف حاصل ہوا، ایک روز ڈاکٹر معراج عالم تیمی کے ہمراہ ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے ان کے دولت خانہ پر گئے، دعوت کے موضوع پر گفتگو چل رہی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ آج دعوتی مراکز کے سب سے اہم کام کرنے کے یہ ہیں کہ وہ نومسلموں کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی طرف دھیان دیں، جب تک ان کے معاشرتی مسائل حل نہیں ہوتے دعوت کا کام ناقص رہے گا۔


مکمل تحریر >>

بلند ہمتی

صفات عالم محمدزبیرتیمی 


عن حسین بن علی رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان اللہ تعالی یحب معالی الامور واشرافھا ویکرہ سفسافھا  صحیح الجامع للالبانی ،حدیث رقم 1890
ترجمہ: حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی بلند اورمعززکاموں کو پسند فرماتا ہے اورگھٹیا کاموں کو ناپسند کرتا ہے ۔
تشریح : ایک مومن بلندہمت ہوتا ہے،وہ پست ہمتی سے کوسوں دور رہتا ہے ،اس کی نظر اعلی اوراشرف کاموں پر ہوتی ہے،وہ گھٹیاکاموں کے پیچھے نہیں لگتا، وہ بیکار اور لایعنی کاموں میں اپنے اوقات ضائع نہیںکرتا، وہ کم پر راضی نہیں ہوتا جبکہ زیادہ کا حصول ممکن ہو، ہمارے لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اولوالعزمی اوربلندہمتی کا بہتریں نمونہ ہے جنہوں نے کفروشرک کی شب تاریک میں تنہا دعوت کا آغاز کیا تھا ،ہرطرف سے مخالفت ہوئی،ہرطرح سے مشق ستم بنایاگیا لیکن آپ کی ہمت مزید دوبالا ہوتی گئی یہاں تک کہ جان جان آفریں کو سپردکردی ۔
ایک انسان کا حقیقی امتیاز اس میں نہیں ہے کہ اس نے کس قدر عمریںپائیں بلکہ حقیقی امتیاز اس میں ہے کہ اس نے اس مدت میںدین کے لیے کتنا کام کیا اورکس حدتک دین کی خدمت انجام دی۔بندہ مومن کامطمح نظر دنیاکے بجائے آخرت ہوتاہے،اس لیے وہ دنیا کے معاملے میں کم پرقناعت کرسکتا ہے لیکن آخرت کے معاملے میں اس کی نگاہ ہمیشہ بلند ہوتی ہے،یہی وہ نکتہ تھا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:” جب تم اللہ پاک سے جنت کاسوال کروتو جنت الفردوس مانگو“….چنانچہ آپ کے عالی ہمت اصحاب نے اس نکتہ کو بخوبی اپنی عملی زندگی میں جگہ دی۔
٭ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ محض ڈھائی سال تک حکومت کرتے ہیں لیکن اس مختصر مدت میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی اورقرآن کریم کو یکجا کرکے دوبارہ امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیتے ہیں۔
٭  حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ساڑھے دس سال کی مدت ِخلافت میںشمال سے لے کر جنوب تک اورمشرق سے لے کر مغرب تک اسلام کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی دو سپرپاور طاقتیں روم وایران اسلامی خلافت کے زیرنگیں ہوجاتی ہیں۔
٭ سعدبن معاذرضی اللہ عنہ جو 30سال کی عمر میں اسلام قبول کرتے ہیں اور36سال کی عمرمیں وفات پاجاتے ہیں ،محض چھ سال کی مدت میں انہوں نے آخر کونسی نیکی کرلی کہ ان کی موت پرعرش الہی لرزنے لگتا ہے۔
٭ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے صرف ڈھائی سال تک حکومت کی لیکن اس مدت میں انہوں نے حکومت کے نظم ونسق کوایسا مثالی بنادیا کہ خلفائے راشدین کی یاد تازہ ہونے لگی ۔
جی ہاں! ایک مسلمان اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،اسے انسانوں کے لیے وجودمیں لایاگیا ہے ،اب اگروہ سستی کرنے لگ جائے اورکاہلی کا شکارہوجائے تو انسانیت کی رہبری کون کرے گا ؟ افسوس کہ آج ہماری نئی نسل پست ہمت اور کام چور بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے اعلی کردارکے حامل اورنمایاں کارکردگی انجام دینے والے افراد مسلم معاشرے میں کم ہوتے جارہے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ زیر نظر حدیث کے مطابق مسلم معاشرے کے افراد کی ذہن سازی کی جائے تاکہ وہ زندگی کے ہرمیدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں ۔

مکمل تحریر >>