جمعرات, جون 27, 2013

اسلام مخالف رجحانات اور اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت

اسلام کی آفاقیت کوسبوتاژکرنے کے لیے ہردورمیں اسلام دشمن عناصرنے دو بنیادی حربے استعمال کیے ۔ شبہات اور شہوات اسلام کے تئیں نت نئے شبہات پیدا کیے اور شہوات کو برانگیختہ کرنے والے وسائل کی ترویج واشاعت کی ۔ البته جب سے دنیا گلوبلائزیشن کے دورمیں داخل ہوئی ہے یہ کوششیں مزید دو آتشہ ہوگئی ہیں ، وہ اچهي طرح جانتے ہیں کہ دنیا میں اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو ان کے اہداف کی تکمیل میں سنگ راہ بناہوا ہے ،یہ انسان کو عالمی اخوت کی لڑی میں پروسکتا ہے ان کی بے مہار زندگی پر لگام کس سکتا ہے ،مغربی آقاؤں کی غلامی کی بجائے خدائے واحد کے سامنے سب کے سروں کو جھکا سکتا ہے ۔

اسلام کی عالمی مقبولیت نے مغرب کو ایسی جنونی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ اس پر بندھ باندھنے اوراپنے اہداف کی تکمیل کے لیے شبہات اور شہوات دونوں کو بھرپور طریقے سے کام میں لا رہے ہیں چنانچہ شہوات کو ہوا دینے کے لیے انٹرنیٹ اورٹیلیویژن پرایسے فحش ،برہنہ اور اخلاق باختہ پروگرام پیش کررہے ہیں جنہیں دیکھ کر باغیرت انسان شرم سے پانی پانی ہوجائے ۔اس پرطرہ یہ کہ اسے تہذیب نو، فیشن اور فنون لطیفہ کا نام دیاجاتاہے اور اس کی مخالفت کو رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، مشرقی ممالک‘ جہاں اخلاقیات کا چلن تھا آج ان کا اخلاق بھی دیوالیہ ہوچکا ہے، شرم وحیاکی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں، خود کو ترقی یافتہ کہلانے کے زعم میں مغرب کی ہرپکار پرلبیک کہاجارہا ہے ۔ اسی مرعوبیت کا نتیجہ ہے کہ قدیم تہذیب وثقافت کا علمبردارملک ہندوستان کے ایک ہائی کورٹ نے پچھلے سال ہم جنس پرستی کے حق میں فیصلہ سنایاتھا تو حالیہ دنوں سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ فیصلہ دے کر اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا ہے کہ مرد اور عورت کا بغیر کسی رشتے کے ساتھ رہنا کوئی جرم نہیں ہے  ع   محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
حالانکہ عفت وعصمت کی قدر اورآزادانہ جنسی تعلق کی مذمت سارے ادیان ومذاہب نے کی ہے اور اسلام نے زنا تو کیا اس کے قریب جانے سے بھی منع کیا اور اسے ایسا جرم قراردیا کہ غیرشادی شدہ مردوعورت کی سزا سو سو کوڑے مقررکیے تو شادی شدہ مردو عورت کی سزا سنگسار تجویزکی ہے ۔
ایک طرف تو شہوات کا امڈتا ہوا سیلاب نظر آرہا ہے تودوسری طرف اسلام کی آفاقیت کو مجروح کرنے کے لیے آئے دن طرح طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں کبھی اسلام کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ باور کرایا جاتا ہے تو کبھی کلام الہی کی بے حرمتی کی جسارت کی جاتی ہے ، کبھی رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کا اہانت آمیز کارٹون شائع کرکے مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑکیا جاتا ہے ،کبھی اسلا م اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور بنیادپرست گردانا جاتاہے ،کبھی حجاب کو رجعت پسندی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے تو کبھی عبادت گاہوں اورمساجد کی پامالی کرکے مسلمانوںکی دل آزاری کی جاتی ہے۔
حالیہ دنوںمساجد کو دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے برطانیہ نے بڑی بے باکی کامظاہرہ کیا کہ برطانوی فوج نے نشانہ بازی کے مشق کے لیے مساجد کے ماڈلس استعمال کیے (روزنامہ منصف حيدرآباد 9 اپریل 2010) گویا اس کے ذریعہ وہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مساجد امن وامان کی جگہ نہیں بلکہ دہشت گردی کے اڈے ہیں مسلم تنظیموں کے احتجاج پروزارت دفاع نے روایتی انداز میں معافی نامہ جاری کردیا کہ اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں تھی ۔ جی ہاں! یہی انداز ہوتا ہے اسلام دشمنوں کا کہ اپنا ہدف بھی حاصل کرلو اور معصوم بھی بن بیٹھو، اسی کو کہتے ہیں سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے
عزیز قاری !شبہات اور شہوات کی یہ دوپالیسی ایک عرصہ سے اپنائی جارہی ہے‘ جواسلام کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ، اسلام کے راستے میں رکاوٹ اس لیے ہے کہ اسلام انسانیت کا مذہب ہے ، یہ ہرانسان کے لیے ویسے ہی ضروری ہے جس طرح آب ودانہ ‘ اورشبہات وشہوات کا اسیر انسان اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی طرف کیوں کر دھیان دے گا یہی وجہ ہے کہ عہدنبوی میں گانے والیوں کی خدمت حاصل کرکے اسلام کی طرف میلان رکھنے والوں کے کام ودہن کا سامان فراہم کیا جاتا تھا اورآج بھی عالمی طاقتیں اس شیطانی گرکو استعمال کرکے انسانیت کو اسلام سے دور رکھنے میںسرگرم ہیں ۔لیکن جہاں اس پالیسی کے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیںوہیںمثبت اثرات بھی پڑے ہیں ،اس کا ایک پہلو تشویشناک ہے تو دوسرا پہلو خوش آئندبھی ۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اس سے ہماری نئی نسل بُری طرح متاثرہوئی ہے ، فکری ارتداد عام ہوتی جارہی ہے، شہوت پرستی کا عفریت ہرجگہ دندناتا پھررہا ہے ،مسلم معاشرے میں مغرب زدہ افراد پیدا ہو رہے ہیں جوبسااوقات خالق کائنات کے اتارے ہوئے نظام حیات پربھی زبانِ طعن دراز کرنے سے نہیں چوکتے۔اللہ ان سب کوہدایت دے آمین ۔

اور اس پالیسی کا مثبت پہلویہ ہے کہ اسلام کے تعلق سے پھیلائے گئے مختلف شبہات نے مغرب کو اسلام کے مطالعہ کے لیے مجبور کیا ہے،ان کے اندر اسلام کی بابت جاننے کا تجسس پیدا ہورہاہے ، اسلام کی پُرامن اور پاکیزہ تعلیمات سے متاثر ہوکراسلام کوگلے لگارہے ہیں ۔آج مغرب میں مسلمانوں کی تعداد کافی بڑھتی جا رہی ہے ، مردوں کی بنسبت عورتوں کے قبول اسلام کی شرح میںاضافہ ہورہا ہے کیوںکہ ان کو محسوس ہونے لگاہے کہ مغرب نے ان کواپنی جنسی ہوس کی تکمیل کا ایک ذریعہ سمجھاہے۔ اسی طرح جنسی آزادی کے نتیجہ میںجو خطرناک جسمانی ونفسیاتی امراض پیداہورہے ہیںیہ بھی ان کے قبولِ اسلام کا بنیادی محرک بن رہاہے   ع

طلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی


 صفات عالم محمد زبير تيمي

مکمل تحریر >>

نئی نسل کی اسلامی تربیت عصرحاضر کی ناگزیر ضرورت ہے


 آج امت مسلمہ نت نئے فتنے کا شکار ہوتی جا رہی ہے ، ہرطرف سے اس پر فکری یلغار ہورہاہے ، اس کی شناخت مٹانے کی کوششیں ہورہی ہےں، پچھلے چند سالوںسے صہیونی تحریکیں، عیسائی مشینریاں اورمتعصب ہندو تنظیمیں مسلمانوں کی نئی نسل پرخصوصی توجہ مرکوز کر رہی ہيں۔ کیوں کہ وہ بخوبی جانتی ہیں کہ بچے کا ذہن سادہ کاغذ کی مانند ہے اس پر جو کچھ بھی لکھ دیا جائے نقش ہوجاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے بعض کوردہ علاقے میں ہندوؤں کی متعصب تنظیمیں بعض دینی مدارس کی سرپرستی کر رہی ہیں اورہماری قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ہمارے بچے مفت میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ عیسائی مشینریوں نے دنیا کے چپہ چپہ میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں جہاں کا ماحول اورنصاب تعلیم کچھ ایسا رکھاگیا ہے کہ بچے اپنے اسلامی اقدار وروایات کو بالکل فراموش کرجاتے ہیں بلکہ کہیں کہیں پسماندہ علاقوں کے غریب بچوں کوعصری تعلیم کے نام پرعیسائیت کی کھلی تعلیم دی جاتی ہے ، یہ کسی ایک ملک کا حال نہیں بلکہ اکثر ممالک میں نئی نسلوں کے اندرارتدادی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس کا شعور تک نہیں ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں مراکش سے مغربی ممالک کے بیس سے زائد پادریوں کو ملک بد رکیا گیا کیوں کہ ان پادریوں نے وہاں کے مسلم یتیم اور غریب بچوں کو پرسکون اور خوشحال زندگی کا جھانسا دے کر عیسائی بنایا تھا، بپتسمہ دے کر ان کے گلے میں صلیب ڈال دی تھی اوروہاں مقیم مغربی ممالک کے بے اولاد جوڑوں میں ان کی بولی لگائی گئی تھی اور کچھ کو یہ پادری زبردستی رسمِ عبادت بجالانے پر مجبورکررہے تھے کہ اسی اثناءحکومت کے اہلکاروںنے انہیں گرفت میں لے لیا اور مراکش کی وزارت خارجہ نے فوری طور پرانہیں ملک بدر کرکے وہاں کی عیسائی مشینریوں کوخبردار کیا کہ مراکش حکومت کسی کو بھی اسلام سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دے گی ۔ (سہ روزہ دعوت7 مئی 2010م)

رپورٹ کے مطابق ایسا ہی کچھ حال عراقی بچوں کا ہورہا ہے ، عیسائی مشینریاں سارے عراق میں دندناتی پھر رہی ہیں ،جن بچوں کے والدین جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ایسے بچوں کو اغوا کرکے انہیں باضابطہ عیسائی مذہب میں داخل کرلیا جاتا ہے ۔ عیسائی مشینریوں کی یہ حالیہ رپورٹ ہے ورنہ خود اپنے وطن برصغیر پاک وہندکے بعض علاقوں اورامریکی تسلط کے بعد افغانستان کے حالات کا تجزیہ کریں تو کلیجہ منہ کو آتاہے، عیسائیوں نے خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے مسلمانوں اور ان کے بچوں کو بُری طرح اپنا آلہ کار بنا لیا ہے اور بنارہے ہیں، کچھ علاقوں میں قادیانیت کا ارتدادی فتنہ بھی زوروں پر ہے ۔ رہے وہ علاقے جہاں اصلاحی کوششیں ہورہی ہیں وہاں گو ارتدادی فتنوں کو پنپنے کا موقع نہیں مل پا رہا ہے تاہم حکومت کی سرپرستی میں چل رہے اداروں کے نصاب تعلیم کا اسلامی عقائد سے متصادم ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل غیرمحسوس طریقے سے اسلامی اقدار وروایات سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ یہ محض کہنے کی بات نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں کہ آج کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ الا من رحمہ اللہ دینی اعتبار سے مفلوج ہوتا جا رہا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ امت کا درد رکھنے والے علماءاور اسلام کے جیالوں نے برصغیرپاک وہند میں دینی مدارس کا جال بچھایا جن کے زیراثر آج الحمدللہ اس خطہ میں اسلامی تشخص باقی ہے، اگر مسلمانوں میں دینی رجحانات نہ ہوتے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت پر دھیان دینے کا جذبہ نہ ہوتا تو ہماری نئی نسل کا جو حال ہوتاوہ اللہ ہی پناہ ۔

ہمارا دشمن اس قدر جری ہوچکا ہے کہ ایک طرف تو مسلم بچوں کو ارتدادی فتنے میں مبتلا کررہاہے تودوسری طرف ان کی کوشش ہے کہ اپنی نئی نسل میں ایسے نصاب تعلیم کوفروغ دیا جائے جس میںاسلام اور مسلمانوں کودہشت گرد، بنیادپرست،رہزن اور قاتل گردانا گیا ہو ‘ تاکہ اسلام سےعداوت بچپن ہی سے ان کی گھٹی میں رچ بس جائے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ حالیہ دنوں امریکہ سے ایک بک سیریز ”ورلڈآف اسلام “ کے نام سے منظرعام پر آیا ہے جو دس چھوٹی چھوٹی رنگین کتابوں پر مشتمل ہے، جسے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا ہے ، عرب خبررساں ادارے ”اسلام آن لائن“ کے مطابق ان کتابوں کے مصنفین کٹّریہودی ہیںاور مذکورہ دس کتابیں امریکی سکولو ںکے ابتدائی دس درجات میں پڑھائی جائیں گی تاکہ امریکی بچوں کو کم عمری سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے اصل کردار کی حقیقت کا اندازہ ہو سکے ۔

ان میں سے ایک کتاب ریڈیکل اسلام(بنیادپرست اسلام) کے عنوان سے لکھی گئی ہے جس کے سرورق پر مشین گن بنایا گیا ہے اور پورے ٹائٹل پرخون ہی خون نظر آرہا ہے ، اندرونِ کتاب بھی مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند ثابت کیا گیا ہے ۔ ”ہسٹری آف اسلام “ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو چہاردانگ عالم میںاپنی طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلایااور اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے غیرمسلموں کو تہہ تیغ کیا ۔تقریباًیہ ساری کتابیں بچوںکے سامنے اسلام اور مسلمانوںکے تعلق سے بھیانک تصویر پیش کرتی ہیں،جب ایسی کتابیں بچوں کو پڑھائی جائیں گی تو ظاہر ہے کہ ان کے ذہن ودماغ میںاسلام اور مسلمانوں کے تئیں بچپن ہی سے ایک طرح کی نفرت بیٹھ جائے گی ۔

اس موقع سے ہمیں اپنے منصب اور مقام کو پہچاننا ہوگا ۔ ہم وہ قوم ہیں جنہیں دوسری قوموں کے لیے رہبر بنایا گیا تھا ،ہمارے سروں پر اقوام وملل کی امامت وقیادت کا تاج رکھا گیا تھا ، ہمارا کام تھا گم کردہ راہ انسانیت کو سوئے حرم لے جانا.... لیکن صدحیف آج ہم قائد بننے کی بجائے دست نگربن چکے ہیں، داعی بننے کی بجائے مدعو بن چکے ہیں۔ہماری ہمت پست ہوچکی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ دین کے بازار میں ان کھوٹے سکوں کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

بہرحال فی الوقت عرض مدعا یہ ہے کہ آج چونکہ ہمارے اکثر بچے اوربچیاں عصری درسگاہوں میں زیرتعلیم ہیں جن کا نصاب تعلیم مغربی طرز کا ہے یا کم ازکم اس کے ماحول پر مغربیت کی چھاپ ہے ۔ ایسے نازک حالات میں اگر ہم نئی نسل کی دینی تربیت میں غفلت برتتے ہیں تو مستقبل میں اس کے نہایت لرزہ خیز نتائج سامنے آئیں گے،لادینیت کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب پر بندھ باندھنے کے لیے آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سکولوں اور کالجز میں زیرتعلیم مسلم بچوں کی طرف خصوصی دھیان دیں ۔ اپنی نئی نسل کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی بہرہ ور کریں ، اسلام کی آفاقی تعلیمات سے انہیں روشناس کرائیں ، ویسے بھی دین کی بنیادی تعلیم ہرمسلمان مردوعورت پر فرض ہے، کم ازکم اس حد تک تو بچوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرنا ہر والدین کا دینی واخلاقی فریضہ ہے ۔

ابھی گرمائی تعطیلات کا موسم آرہا ہے، یہ سکولوں میں زیرتعلیم بچوں کی دینی تربیت کا سنہراموقع ہے ، دوماہ میں دینیات پر مشتمل گرمائی کورسیز چلائے جا سکتے ہیں ، الحمدللہ کویت میں بعض مسلم کمیونٹیاں سمر کیمپ کا اہتمام کرتی بھی ہيں جس میں بچوں کے لیے مختلف ثقافتی پروگرامزکے ساتھ ساتھ دینی تربیت کا اچھا خاصا نظم ہوتا ہے،ایسے کیمپ سے بچوں کے اندر دینی شعور پیدا ہوگا،ان کے مزاج اور طبیعت میں تبدیلی آئے گی ،اچھی صحبت نصیب ہوگی اور وہ ہرطرح کی فضولیات سے بھی بچ جائیں گے ۔ امید کہ بچوں کے والدین ایسے کیمپ سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔
 صفات عالم محمد زبير التيمى
مکمل تحریر >>

آپ نے اپنے دین کے لیے کیا کیا؟


آج باطل پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اُتر چکا ہے اور اپنے ژولیدہ افکار وخیالات کو فروغ دینے کے لیے ہرطرح کے وسائل بروئے کارلا رہا ہے، بالخصوص انٹرنیٹ کی دنیا میں فیس بک ، ٹویٹر، بلوگز، یوٹیوب اورمختلف ویب سائٹس کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوا دینے میں لگا ہوا ہے، ہم بحیثیت مسلمان جانتے ہیں کہ وہ باطل کے داعی ہیں، اور ہم حق پر ہیں ، ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس کی تابعداری دنیامیں کامیابی اورآخرت میں نجات کا ضامن ہے، ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس کی راہ میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کی گئی ہیں.
اسی دین کے لیے آدم عليه السلام تھکے تھے، نوح عليه السلام  نے ساڑھے نو سو سال تک محنت کی تھی، ابراہیم عليه السلام  کو آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا، اسماعیل عليه السلام  کی گردن پر چھری چلی تھی، یوسف عليه السلام  کو سستے داموں بیچا گیا تھا اور وہ چند سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے تھے، زکریا عليه السلام  کو آری سے چیرا گیا تھا، یحیی عليه السلام کو ذبح کیا گیا تھا، ایوب عليه السلام نے سختیاں جھیلیں تھیں، موسی عليه السلام نے بنواسرائیل کے اکڑپن کو برداشت کیا تھا ، عیسی عليه السلام  کو سولی پر چڑھانے کی تدبیریں کی گئیں تھیں، اورآخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے مسلسل 23 سال تک اذیتوں کا سامنا کیا تھا۔ اسی دین کے لیے آپ کو ساحر، کاہن اور دیوانہ کہا گیا تھا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے تھے، آپ کی گردن مبارک پر اونٹ کی اوجھڑیاں ڈالی گئی تھیں ، آپ نے پتھر کھایا تھا ،اسی دین کے لیے آپ کو گھرسے بے گھر کیا گیا تھا، آپ نے لڑائیاں لڑیں تھیں، آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے، اور بھوک کی شدت سے شکم مبارک پر پتھر باندھا تھا، پھر صحابہ کرام اور ہر دور میں اللہ والوں نے اس دین کے لیے جان ومال کی قربانیاں پیش کیں، تب جاکر یہ دین ہم تک محفوظ شکل میں پہنچا ہے۔
اس دین حق کی خدمت جن وانس تو کجا دنیا کی ساری مخلوق کررہی ہے ، اور اپنے وجود سے اسلام کی شہادت دے رہی ہے ۔ معمولی سا پرندہ ’ ہُدہُد‘ کے کردار پر غور کر کے دیکھ لیجئے : سلیمان عليه السلام  کو اللہ پاک نے جن وانس اورچرند وپرند سب پر اختیار دے رکھا تھا ،ایک دن ’ ہُدہُد‘ نام کا ایک پرندہ ان کی اجازت کے بغیر کہیں چلا گیا ، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آکر اس نے جذبات بھرے لہجے میں رپورٹ پیش کی کہ میں ملکِ سبا سے آرہا ہوں جہاں کی حکمراں ایک خاتون ہے، میں نے اسے اور اس کی قوم کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے ، شیطان نے انہیں گمراہ کر رکھا ہے، اسی لیے اللہ کو چھوڑ کر شمس پرستی میں لگے ہوئے ہیں ....پھر سلیمان عليه السلام  کا دعوتی مکتوب لے کر ملکہ سبا کی خدمت میں پہنچا ، ملکہ سبا نے سلیمان عليه السلام سے ملاقات کی ، بالآخر پوری قوم کے ساتھ ملکہ سبا اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے۔
 یہ ایک پرندے کا کردارہے ، جس کے اندر شرک کا منظر دیکھ کر دینی غیرت جاگ رہی ہے ، پھر شمس پرست قوم تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے پریشان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ پرندے کی یہ ذمہ داری نہیں ہے، یہ ذمہ داری تو ہماری اورآپ کی ہے۔ ہمارے وجود کا مقصد ہی دوسروں کی رہنمائی ہے، ہم بہترین امت محض اس لیے قرار دئیے گئے ہیں کہ ہم خیر کے داعی اور دین کے سپاہی ہیں۔ اب ہم ذرا دل کو ٹٹولیں! اورمن سے پوچھیں! کہ آخرہم نے اپنے دین کے لیے کیا کیا ، ہم اپنے شب وروز کے معمول میں سے دین کے لیے کتنا وقت نکال پاتے ہیں، دنیا کے لیے جوہماری منصوبہ بندی اور پلاننگ ہوتی ہے اس کا کتنا حصہ ہم دین کے لیے دے رہے ہیں۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج ہماری اکثریت صبح سے لے کر شام تک دنیاوی زندگی کے تقاضوں میں لگی رہتی ہے ، ہم دین کی خدمت کے لیے سو بہانے بناتے ہیں، ہم کل قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کیا جواب دیں گے جب وہ ہم سے ان لوگوں کی بابت پوچھے گا جن تک دین نہ پہنچ سکا تھا، یا وہی لوگ ہماری گردن پکڑ کر اللہ کے دربار میں پیش کریں گے کہ خدایا ! اس نے ہم تک حق نہیں پہنچایا .... اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا؟ کونسا چہرہ لے کر اپنے نبی سے روبرو ہو سکیں گے جن کی 23 سالہ زندگی اس دین کے لیے وقف تھی....؟
تو پھر سستی کب تک اورغفلت کیوں کر، کمرہمت باندھیں ، فروعی اختلافات میں الجھ کر علم کا استحصال نہ کریں، ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں ، کرنے کے کام بہت ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ اللہ کس سے کون سا کام لے لے ،اس لیے خود کو حقیر نہ سمجھیں، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ، قوم کو آپ کی سخت ضرورت ہے، آپ دین کے لیے جوبھی خدمت پیش کرسکتے ہیں پہلی فرصت میں اس کے لیے خود کو تیارکریں ، کیا آپ کو اس خبر پر تعجب نہیں ہے کہ جرمن کے میونخ شہر میں ایک نوجوان لڑکے نے کاروں کے پہیے کا بڑا اشتہاری بورڈ دیکھا جس پر لکھا گیاتھا: ”آپ یوکوہاما ٹائر کو نہیں جانتے....‘ ‘! اس مسلم نوجوان نے اسی اعلان کے بازوں میں قیمت دے کریہ اعلان شائع کرایا:
 ”آپ اسلام کو نہیں جانتے .... اگر جاننے کے خواہشمند ہیں تواس نمبر پر رابطہ کریں....“ پھر کیا تھا ہرطرف سے اُسے فون آنے لگا ،اور محض ایک سال میں ایک ہزارمردوخواتین نے اس کے ہاتھ پراسلام قبول کیا ۔ یہ دیکھ کر مخیرحضرات نے اس کی خدمت میں مالی تعاون پیش کیا جس سے اس نے ایک مسجد بنائی، دعوتی سینٹر قائم کیا اورتعلیم گاہ تعمیر کی ۔
آئیے! ہم بھی آپ کو ایک دعوتی ٹول دیتے ہیں، اگر ممکن ہوسکتا ہو تو اپنی ذاتی گاڑی پر یہ اعلان آویزاں کریں: ”آپ اسلام کو نہیں جانتے....جاننے کے خواہشمند ہیں تو ہمیں روکنے میں جھجھک محسوس نہ کریں“ پھر دیکھیں، اس کا کیا اثر ہوتا ہے، اگر آپ داعی کی حیثیت سے خود کو پیش نہیں کرسکتے تو کم ازکم دعوتی لٹریچرز تقسیم کرنے میں ہمارا ساتھ تو دے سکتے ہیں ، یہ رسالہ جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، کیا آپ کو پتہ ہے کہ اسے آپ تک پہنچا نے میں ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیا آپ نے کبھی اپنا محاسبہ کیا کہ اس رسالےنے ہمیں کیا دیا ہے ، کیا آپ نے اسے پڑھنے کے بعد دوسروں تک بھی پہنچانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے ، پھرجنہوں نے آپ تک اسے پہنچایا ہے وہ بھی تو آپ ہی کے جیسے ایک ملازمت پیشہ آدمی ہیں، آخر آپ کے حصے میں یہ کام کیوں نہ آسکا، تصور کریں کہ اگر ایک رسالے کے ذریعہ اللہ پاک نے کسی کو ہدایت دے دی توآپ کے لیے یہ عمل دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ لہذا ہرطرح کے تحفظات کو بالاتر رکھتے ہوئے دین کی خدمت کے لیے ہمارا ساتھ دیجئے ۔ ہمیں آپ کے فون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔
           صفات عالم محمد زبير تيمي

مکمل تحریر >>

صدحیف! ہمارے جسم کا ایک حصہ لہولہان ہے


جب کسی ملک میں ظلم وزیادتی عام ہونے لگتی ہے اوراستبداد کاجادو سرچڑھ کربولنے لگتا ہے توافراد میں اشتعال انگیزی کا ردعمل طبعی طور پر پیدا ہوتا ہے ، اس کی واضح مثال بعض عرب ممالک میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ ہے جو تا ہنوزجاری ہے ، تونس، لیبیا،مصر اوریمن میں زبرست مظاہرے ہوئے ،جن کے زیراثر کتنی حکومتوں کے تختے الٹ دئیے گئے تو کتنی حکومتیں قطارمیں ہیں اوردیریاسویرضرور منہ کی کھائیں گی۔ انہیں حکومتوں میں سے ایک ملک شام بھی ہے جس کا معاملہ عام ممالک کی بنسبت کئی اعتبارسے مختلف ہے ، پہلی بات تویہ کہ یہ سرزمین انبیاءو رسل کامرکز ومدفن ہے ،یہ حشر ونشر کی سرزمین ہے ،یہ مقدس اورمبارک سرزمین ہے ،یہ خیروبرکت اور غنائم کی سرزمین ہے ،جواہل ایمان کا گھرہے ،جس سرزمین پر بسنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
 تاریخ گواہ ہے کہ اس سرزمین کے مسلم سورماؤں نے صلیبی درندوں کے سامنے ہمیشہ پامردی کا مظاہرہ کیا اورسربکف رہے ،لیکن سقوط خلافت کے بعدجب اس خطہ میں مغرب کی دراندازی ہوئی اور استعمارنے اپنا پنجہ جمایا تو یہ حکومت فرانس کی تحویل میں آگئی ، مغرب کو اگر خوف ہے تو اسلام سے اور اسلام کے جیالوں سے، اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت نصیری یا علوی فرقے کا انتخاب کیا،یہ حضرت علی رضى الله عنه کی عبادت کے قائل ہیں،ان کے مطابق اللہ سات زمانوں میں سات صورتوں میں ظاہر ہوا، اس کا پہلا ظہور حضرت آدم عليه السلام کی صورت میں تھا اور آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم اور حضرت  علی رضى الله عنه کی صورت میں۔ اسی طرح تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں، ان کے مطابق حضرت محمد صلى الله عليه وسلم، حضرت علی رضى الله عنه اورحضرت سلمان فارسی رضى الله عنه الوہیت کے تین روپ ہیں جو ایک ہی وقت میں جلوہ گر ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ایسی فکر کے حامل افراد مسلمانوں سے خار نہ کھائیں گے تو اورکیا کریں گے ۔ اوردشمن اس اختلاف سے پوری طرح آگاہ تھا ،اس لیے شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انہیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد علوی مذہب کے ایک فرد نے حکومت کا باگ ڈورسنبھالا،حکومت سنبھالتے ہی پلاننگ کے تحت اس نے سنی مسلمانوںکے ساتھ سوتیلا برتاؤ کرتے ہوئے ظلم وزیادتی شروع کردی ، 1980 میں جب سنی مسلمانوں نے احتجاج کیا تواس کا نتیجہ تقریباً تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ خون آشام علوی دستوں نے حماس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا۔ باپ کی موت کے بعد جب بیٹے نے گدّی سنبھالی،توباپ کی روایت پرقائم رہتے ہوئے سنی مسلمانوں کی ایک ایک حرکت پر قدغن لگایا،دعوت پر روک لگادی ، اسلامی کتابوں پر پابندی ڈالی ،قبرپرستی کو فروغ دیا ، علویوں کے لیے حکومت کے خزانے کھول دئیے اورسنی مسلمانوں کو ہر سہولت سے محروم رکھا ۔اورزبان پر ایسی پابندی ڈالی کہ کسی کی ہمت نہ تھی کہ حکومت کے خلاف ایک لفظ نکال سکے ،اورجب کبھی کسی نے زبان کھولی حکومت کے خفیہ دستوں نے اغوا کرکے ان کوایسی انسانیت سورزسزائیں دیںکہ انسانیت سرپیٹ کررہ گئی۔ جب ظلم وستم اپنی انتہا کوپہنچ گیا اورصبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو پچھلے سال مارچ میں چند سنی بچے سڑکوں پراحتجاج کے لیے نکلے کہ ان کو جینے کا حق دیاجائے ،ان کے ساتھ انسانوں کا سا سلوک کیاجائے اورانہیں مذہبی آزادی دی جائے تو اس پاداش میں فوجی دستوں نے انہیں گرفت میں لے لیا ،جب ان کے سرپرست اپنے بچوں کی رہائی کے لیے ان کے ہاں گئے تو نہایت گندی زبان استعمال کرتے ہوئے ان سے کہا گیا ”جاؤ! دوسرے بچے پیدا کرلو ،اگرطاقت نہیں تو ہمارے پاس اپنی عورتوں کو بھیج دو....“۔ استغفراللہ
 مختلف انسانی حقوق کے اداروں اور شام حکومت مخالف کارکنوں کے مطابق سوری فوج اب تک کی کاروائی میں10,000 سے زائد مسلمانوں کو شہید کرچکی ہے۔ شام میں سنی مسلمان تقریباً 80%ہیں جبکہ علویوں کی تعداد محض 8 فیصد ہے لیکن سیاہ وسفید کے مالک ہونے کی وجہ سے سنی مسلمانوں کا جینا دوبھرکررکھا ہے۔ حرمین شریفین سے لے کر  عالم اسلام کی اکثرمساجد میں دعائیں ہورہی ہیں،عالم اسلام کے حکمراں اس انسانیت سوز حرکت کی مذمت کرچکے ہیں،اقوام متحدہ نے بھی ظلم روکنے کی تاکید کردی ہے لیکن حکومت اب تک بربریت روکنے کے لیے تیار نہیں ۔
ایسے سنگین حالات کا مقابلہ ایمان کے ذریعہ ہی کیاجاسکتا ہے ، ہردورمیں اہل ایمان کی آزمائش ہوئی ہے ،صحابہ کرام سے بڑھ کرشدائدوتکالیف اور مشکلات کاسامناکسی نے نہیں کیاحالانکہ وہ اس امت کے افضل ترین انسان تھے ،اس لیے ہم ان یتیموں،بیواؤں اورنہتے مسلمانوں سے کہنا چاہیں گے کہ اللہ آپ کے لیے کافی ہے ،آپ کاشعار”لیس لنا الا اللہ “قابل رشک ہے ، صبروشکیبائی سے کام لیں، ہرتنگی کے بعدآسانی ہے،آپ کی آہیں ضرور رنگ لائیں گی،انقلاب ضرور آئے گا ،شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہوتا، اللہ پاک توان کو شہادت کے مقام پر فائزکرناچاہتا تھا۔ پھرہم اپنے عزیز قاری سے عرض کریں گے کہ ہمارے جسم کا ایک حصہ لہولہان ہے ، کرب والم سے کراہ رہا ہے ،ان سے اپنی اخوت وبھائی چارگی کا مظاہرہ کریں ، ہمدردی وغم خواری میں ایک جسم ہونے کا ثبوت دیں ،ان کے لیے خاص دعائیں کریں،اورممکنہ حدتک ان کے لیے مالی تعاون پیش کریں ۔
آئیے! عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ مولائے کریم شام کے مسلمانوں کی بالخصوص اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی بالعموم حفاظت فرما، ان کے حالات درست فرمادے ،اور چہاردانگ عالم میں اسلام کو غلبہ نصیب فرما ۔ آمین یارب العالمین۔ 

صفات عالم محمدزبیرتیمی

مکمل تحریر >>

اظہارِ خیال کی آزادی یا مسلمانوں کی دلآزاری


پچھلے دنوں عالمی سطح پر کئی ایسے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں جو اسلام ، قرآن  یا نبی اسلام کی اہانت اورہتک آمیزی سے متعلق ہیں ۔ پہلا واقعہ افغانستان کا ہے جہاں نیٹوافواج نے قرآن پاک کاایک نسخہ نذر آتش کیا،مسلمان جب سیخ پا ہوئے اور احتجاج کیا تومگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے روایتی معافی مانگی اوراقوام متحدہ نے افسوس کا اظہار کیا ۔ دوسرا واقعہ سعودی عرب کا ہے، مغربی تہذیب پرفریفتہ 23سالہ سعودی کالم نگارحمزہ کاشغری نے سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر نبی پاک صلى الله عليه وسلم کے خلاف اپنی منافقانہ ذہنیت کا برملا اظہار کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے استعمال کئے، جس کی پاداش میں سعودی حکومت نے کاشغری کوگرفت کرکے اس کے خلاف محاکمہ کا اعلان عام کیا تواس نے سعودی عرب سے راہ فرار اختیارکرکے ملیشیا میں پناہ لینا چاہی، لیکن ملیشیا حکومت نے اسے حراست میں لے کر سعودی حکومت کے حوالے کردیا ہے۔ تیسراواقعہ ہندوستان کا ہے،گزشتہ ماہ متنازعہ ناول نگار ملعون سلمان رشدی کو راجستھان کے جے پورسالانہ ادبی میلے میں دعوت دینے کا پلان بنایا گیا، مسلمانوں کے احتجاج پرملعون رشدی کا دورہ بھارت تو منسوخ کردیا گیا، لیکن میلے کے منتظمین نے مسلمانوں کے جذبات کوبھڑکانے کے لیے سلمان رشدی کی ثناخوانی کی اور اس کی خباثت پر مبنی شرانگیزکتاب ”شیطانی آیات “کے بعض اجزاء پڑھ کر سامعین کو سنایا۔
 ان تینوں واقعات کا موضوع تقریباً ایک ہے اور وہ ہے اظہار خیال کی آزادی کا ڈھونگ رچاکر مخصوص طبقے کی دل آزاری، افسوس کہ اس طرح کے واقعات انٹرنیٹ کی سہولت یابی اور سوشل ویب سائٹوں فیس بک اورٹوئٹر وغیرہ کی دستیابی کی وجہ سے زیادہ عام ہونے لگے ہیں ۔ چنانچہ آج انٹرنیٹ پر اس قبیل کی بیشمار ایسی تحریریں ، تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جن سے مخصوص طبقے کی دل آزاری ہوتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آزادی کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ اور اظہار خیال کی آزادی کے حدود کیا ہیں ؟ عام معاملات میں اللہ تعالی نے انسان کوپوری آزادی دی ہے،جو چاہے کھائے، جو چاہے پہنے،جہاں چاہے جائے،جو کام چاہے اختیارکرے، جو چاہے خریدے اور جو چاہے بیچے ، جس چیز کی چاہے تحقیق اورکھوج کرے۔اور زبان وقلم کے ذریعہ آزادانہ طریقے سے اپنے مافی الضمیرکی ادائیگی کرے۔ لیکن ان ساری آزادیوں کے باوجود دنیا کے تمام دانشوروں کا ماننا ہے کہ انسان کو پورے طورپر آزادی نہیں دی جا سکتی ،کیونکہ اگرزندگی کے تمام معاملات میں پورے طورپر آزادی دے دی جائے تو نظام دنیا درہم برہم ہوجائے گا ۔ اسی لیے دنیاوی قوانین میں آزادی کو بے مہار نہیں رکھا گیا بلکہ اسے محدود دائرے میں استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔ کیا کسی ملک کا حکمراں یہ برداشت کرے گا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی ایک آدمی اس کی حکومت کو چیلنج کرے ؟کیا کوئی حکومت یہ معاف کرے گی کہ اس کا کوئی شہری وہاں کے قانون کامذاق اڑائے ؟ یا اپنے قول وعمل سے عدالت کے وقار کو مجروح کرے یا اس کے کسی فیصلے کو خاطرمیں نہ لائے ۔؟ جواب ظاہر ہے کہ قطعاًاس کی اجازت نہیں مل سکتی،اورجوکوئی اس قبیل کے کسی جرم کاارتکاب کرے گا وہ ملک کا باغی
سمجھاجائے گا اورباغی کی سزاتمام مہذب ملکوں اور مہذب قوانین میں موت ہے۔
اب ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ وہ خالق کائنات....جس نے اس دنیا کو سجایا ، سنوارا اورہرطرح کی مخلوق سے آباد کیا، پھر انسان کوقطرہ آب سے پیدا کیا، گود سے لے کر گورتک اس پراپنی نعمتیں نچھاورکیں،انبیاءورسل کے ذریعہ اپنے پیغام کو کھول کھول کر بیان کیا ، اسے زندگی گذارنے کے لیے قرآن پاک کی شکل میںایک نظام حیات دیا،اورنمونہ کے طورپر اپنے آخری نبی ا کو رول ماڈل بنایا۔ اب اگرکوئی طالع آزما اٹھے اور اپنے خالق ومالک اورمنعم حقیقی کی زمین پر رہتے ہوئے،اسی کی پیدا کردہ روزی کو کھاتے ہوئے ،اسی کی ہوامیں سانس لیتے ہوئے اس کے آئین و قوانین سے بغاوت شروع کردے،اس کی اُتاری ہوئی آخری کتاب یااس کے بھیجے ہوئے آخری رسول کے تئیں نازیبا کلمات استعمال کرنے لگے یا ان کی بے حرمتی پراُترآئے تو کیا یہ بغاوت نہیں....؟
اسی لیے اسلام نے انسان کوہرطرح کی آزادی دی ہے ،لیکن اس آزادی کو اللہ اور اس کے احکامات کے تابع کر دیا ہے بالکلیہ آزاد نہیں چھوڑا،اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: وماکان لمؤمن ولامؤمنة اذا قضی اللہ ورسولہ أمرا أن یکون لھم الخیرة من أمرھم ۔(الاحزاب 36)”اور (دیکھو) کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑے گا ۔ “
 اللہ اور اس کے رسول نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے روک دیا ان سے رک جانا ہی آزادی کا صحیح استعمال ہے. لہذا ایک شخص کو یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اللہ کے اوامرسے لاپرواہی برتے یا اس کے منہیات کو پامال کرنے لگے۔ آزادی کے نام پر دین کا مذاق اڑانا، اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں نازیباکلمات استعمال کرنا،یا قرآن کی بے حرمتی کرناایسا جرم ہے کہ جس کی اجازت دنیاوی قوانین نہیں دیتے،چہ جائیکہ مذہبی قوانین دیں۔اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کی دل آزاری کریں،ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں،ان کے مذاہب کو برا بھلا کہیں، آزادی کی بھی کچھ حدود ہیں، اس پر بھی کچھ پابندیاں ہیں۔ اگر اس آزادی سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے یا اس کی توہین ہو رہی ہے تو اس کی اجازت نہیں ہے۔
 لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی کہ ایسا بیان دینے والوں کا نوٹس لیاجائے،ان کی مذمت کی جائے اور وضاحتی بیان دیئے جائیں اور بس بلکہ ایسے نازک حالات میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ حسب استطاعت اسلام کی آفاقی تعلیمات سے خود کو سنوارے،اپنے بچوں میں اسلامی اسپرٹ پیدا کرے، معاشرے کے اندر دینی رجحان کو پروان چڑھائے،اورغیرمسلموں کے سامنے اسلام کا عمدہ نمونہ پیش کرے۔ پھر مسلم حکومتوں،اسلامی تنظیموں اورملت کے دردمندوں کی ذمہ داری ہے کہ پہلی فرصت میں عالمی سطح پر ایسے آئین منظورکرائیں جن کی روشنی میں کسی سرپھرے اور خودسر کو مذہبی رہنماؤں کے خلاف زبان وقلم کا استعمال کرنے کی جرأت نہ ہوسکے ۔ 
صفات عالم محمد زبیرتیمی

مکمل تحریر >>

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


ہماری اکثریت دوسروں کی خدمات کا اعتراف بہت کم کرتی ہے، ہمارے بیچ مثبت سوچ کے حامل افراد خال خال نظرآتے ہیں، جبکہ منفی ذہن رکھنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں، اگر اعتراض کرنے، بیجا نقدوتبصرہ کرنے اوربال کی کھال نکالنے کا معاملہ آئےتواس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے گی۔ لیکن جب خدما ت کے اعتراف اور کارناموں کی تحسین وستائش کا معاملہ آئے تو اکثر لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔
آج ہم اپنے معاشرے میں رول ماڈل کے فقدان کا رونا روتے ہیں، ہمیشہ ہماری یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے والے عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کے سامنےعملی پیکر اورکردار کے غازی دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ شکایت صد فیصد بجا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے معاشرے کے باہمت اوراعلی سوچ کی حامل شخصیات سے کم ازکم اپنی نئی نسل کو متعارف کرایا، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے بیچ سے کتنے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افرادچلے گئے لیکن ان کی زندگی کے روشن پہلو ہماری نئی نسل کے سامنے نہ آ سکے ۔
انہیں باہمت اوراعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات میں سرزمین کویت کی ایک گمنام شخصیت ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کی ہے، جو تقریباً گذشتہ ایک ماہ سے صاحبِ فراش ہیں، آپ عالم اسلام کے معروف داعی اورجمعیة العون المباشر کے مؤسس ہیں، آپ کی زندگی میں سارے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور عصری تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے بالخصوص بہت بڑاپیغام ہےکہ وہ جہاں اورجس میدان میں رہیں اسلام کے سپوت بن کر رہیں، اسلام کے غلبہ کے لیے فکرمند رہیں، اوراسلام کی خدمت کے لیے ایک لمحہ بھی فروگذاشت نہ کریں۔
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک خوشحال گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے ۔ گھرکی مالی حالت اچھی تھی اوراسکولرشب بھی ملتا تھا پھربھی شب وروزمیں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کوآرام پسندی اورآسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کوترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے ۔
میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر بحال کئے گئے ، جہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے ۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ ایک مرتبہ افریقی ممالک کے دورہ کا موقع ملا جہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا ۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں30سال کی طویل مدت گذاری ، اس عرصہ میں8500000 لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 590 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7ریڈیواسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلزبنائے ۔ دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے ۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے ۔
متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار قریب تھا کہ جان سے ہاتھ دھوناپڑے ۔ دوسری بارعراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا ۔ ذیابطيس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے، دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی، دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، یہ ساری کاوشیںجنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
”جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں.... اورظاہرہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاؤں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ “
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموںکی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیررقم کو افریقی بچوں کی تعلیم  پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے ۔
عزیزقاری! جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
 آئیے !عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کو شفائے عاجلہ کاملہ نصیب فرما ئے اور ان کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین ۔ پھرموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدردعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں۔

صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in


مکمل تحریر >>

افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ


اسلام ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام بن کرآیاہے ، اس کی آفاقی تعلیمات میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے سارے مسائل کا مکمل حل موجودہے ، اس میں انسانی فطرت اوراس کے تقاضے کی پوری رعایت رکھی گئی ہے تاکہ انسان چاہے وہ جس ملک، جس زمانے اورجس قبیلے سے تعلق رکھتا ہو‘اس کے گہوارہ میں امن وسکون اورسعادت کی زندگی گذار سکے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سامان گوکہ بیش قیمت اورگراںمایہ ہو اگراس کی تشہیر مطلوبہ طریقے سے نہ کی گئی توصارفین کی نظروں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، بلکہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ لوگ اسے فرسودہ اورازکاررفتہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صد حیف آج یہی صورتحال تقریباً اسلام کی ہے، چنانچہ ایک طرف عالمی میڈیا جہالت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر اسلام پرمختلف قسم کے اعتراضات کئے جارہاہے، تودوسری طرف خودہماری نئی نسل کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف بھانت بھانت کے سوالات پیدا ہورہے ہیں، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہوکہ ہم شاید اپنی قوم سے بدظنی کے شکار ہیں یا ان کی کوششوں کی ناقدری کررہے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے،ہمیں اپنی قوم کے باہمت نوجوانوں پرفخر ہے، تاہم جس حدتک ہمارے پاس افراد ہونے چاہیے تھے نہیں ہیں، جب ہم اپنے حلقے میں ہوتے ہیں تو خوش فہمی کے شکار ہونے لگتے ہیں کہ ماشاءاللہ ہمارے پاس دین کی خدمت کرنے والے احباب کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میںبے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے ۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
 یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمؤمنین عمرفاروق رضى الله عنه نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی أعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیںبلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے ۔اس
کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے ۔ اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوںکے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو،اوراللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا دو ، یا اس کی کسی پریشانی کودور کردو،یا اس کا       قر ض ادا کردو ،یا اس کی بھوک مٹادو، میں کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلوں‘ یہ میرے لیے مسجد (نبوی ) میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے بہتر ہے “۔     (رواہ الطبرانی فی الکبیرو حسنہ الالبانی فی الصحیحة 906)
 یہ ہے ایک سچے مسلمان کا حقیقی خدوخال جو ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے ، جوشجرسایہ دار ہوتا ہے جس کے سایہ سے خاص وعام سب کویکساں فائدہ پہنچتا ہے ۔ لیکن جب ہم قوم مسلم کا عمومی تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ آج ہماری اکثریت اپنی ذات کے خول میں گم ہے ، ہمیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ، اورجہاں اسلامی تشخص کا مسئلہ ہو وہاں ہماری بے حسی اس قدربڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی پہچان تک کھوبیٹھتے ہیں بالخصوص جب کثیرمذہبی معاشرے میں کسی منصب اورعہدے پر فائز کردئیے جائیں توہماری بے حسی مزید دوآتشہ ہوجاتی ہے،بسااوقات روشن خیالی اوررواداری کے نام پر اپنے دین وایمان تک کا سودا کربیٹھتے ہیں۔ ہماری ذات سے اپنی قوم کو فائدہ کم پہنچتا اوردوسروں کو زیادہ پہنچتا ہے ۔
 دوسری جانب کفارومشرکین قوم پروری میں پیش پیش اوراپنے باطل مذہب کے فروغ میں تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔عالمی سطح پراہل باطل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوادینے کے لیے ان سارے وسائل کوبروئے کار لا ہی رہے ہیں جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔جب ملکی اورقومی سطح پر ان کی کوششوں کا جائزہ لیں توشہر، قصبہ اوربستی کا وہ کو ن سا علاقہ نہیں ہے جہاں عیسائی مشینریز اورقادیانیت کی ارتدادی سرگرمیاں جاری نہ ہوں۔ ایک عیسائی کو اس کا باطل مذہب اتنا پیار اہے کہ ملازمت سے فارغ ہوتے ہی کلیسا کی ایما ء پربائبل بغل میں دبائے عوامی مقامات پرپہنچتا ہے ، اورجہاں موقع ملا بائبل کی تعلیم شروع کردیتا ہے ،گھر گھر عیسائی لٹریچر پہنچاتا ہے ، کمپنیوں میں اپنے افراد پر کڑی نظر رکھتا ہے ۔ ایک پاکستانی نومسلم نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ وہ وفرہ کے علاقے میں ہرہفتہ غذائی اشیاء کے ساتھ بائبل تقسیم کیا کرتا تھا ۔ قوم پروری کی طرف دھیان دیں توایک غیرمسلم جب کہیں برسرروزگارہوتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں اس کے ہم مذہب زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچ سکیں۔
کویت میں راقم سطورنے ہندوستان کے ہندوؤں کو بھی قریب سے دیکھا ہے ، وہ اپنی اجتماعیت بحال رکھنے کے لیے خاص علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، مذہبی شعارکی ادائیگی کے لیے روزانہ اکٹھا ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے تنگ دستوں کے لیے ماہانہ رقم جمع کرتے ہیں۔
اب ذرا دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ہے ؟ کس حدتک ہم نے اپنی قوم کے بارے میں سوچا ہے؟ کس حدتک ہم نے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے؟ آخر ہم کیسے خود کوآفاقی پیام کا علمبردار کہہ سکتے ہیں؟ ؟؟

بیدارہوئی جاتی ہے دنیا کی ہرایک قوم
افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ


مکمل تحریر >>

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے


آج سے تقریباً چارہزارسال پہلے بابل کی سرزمین پر‘ پروہت گھرانے میں ایک بچہ جنم لیتا ہے ، کفروشرک کی گھٹاٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولنے والے اس بچے نے سن شعورکوپہنچنے کے بعد قوم کی دیرینہ روایت کواپنا لیا ہوتا تو آج اس کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا لیکن اس نے فطرت سے بے پناہ عزم وہمت اوربلند حوصلگی پائی تھی ۔ مخالفتوں کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ باپ کوسمجھایا، قوم کو سمجھایا، بادشاہ وقت تک توحید کا پیغام پہنچایا لیکن ان کا دل بنجر تھا، ان کا ضمیر مرچکاتھا، اس لیے خیرخواہ ہی کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگئے، دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا ، گھر سے بے گھر کیا، پوری زندگی سفراورہجرت میں گزاری لیکن معاشرے سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ معاشرتی زندگی میں جھانک کردیکھیں تو ایسی جاں نثاری وفداکاری کا مظاہرہ کیا کہ خالق کائنات کو اس کی ایک ایک ادا بھا گئی۔ پھر کیا تھا ؟ رب کائنات اسے اپنا خلیل بنا لیتاہے، سارے انسانوں کے ”امام “کا خطاب عطاکرتا ہے ، اوران کی ذریت میں نبوت ورسالت کاسلسلہ جاری کردیتاہے یہاںتک کہ آفاقی پیغام کے لیے خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم کی بعثت انہیں کے نسل سے ہوتی ہے ۔ آج خانہ کعبہ، مقام ابراہیم، حج، قربانی، صفا ومردہ کی سعی، آب زمزم اوررمی جمرات امت مسلمہ کے لیے ابراہیمی یادگاریں ہیں۔
 اب سوال یہ ہے کہ آخر کیوں اللہ پاک نے ان کی یاد کو دوام بخشا اوران کوپوری دنیا والوں کے لیے صبح قیامت تک نمونہ بنادیا‘ یہ ایسا نکتہ ہے کہ جسے کسی صورت میں نظر انداز کرنا مناسب نہیں، بالخصوص اس وقت جبکہ آج دنیا کی اکثریت گو علمی ، تمدنی اورمادی اعتبار سے بہت آگے جا چکی ہے تاہم دینی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بہت پستی کی شکارہے ۔ ان گم کردہ راہوں کوراہ دکھانے کے لیے اب کوئی نبی یا رسول آنے والا نہیں، یہ ذمہ داری امت مسلمہ کے ہرفرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانیت تک اس پیغام کو پہنچائے کیونکہ اسلام وراثتی مذہب نہیں بلکہ دعوتی مذہب ہے، اسلام نسبت کا نام نہیں بلکہ دل کے یقین کا نام ہے ۔
جی ہاں! ابراہیم عليه السلام  کی سبق آموززندگی میں آج کے نوجوانوں کویہ پیغام ملتا ہے کہ وہ اپنے اندر عقابی روح پیدا کریں، وہ شاہین صفت بنیں ، وہ اسلام کے علمبردار بنیں، ابراہیم عليه السلام نے عین شباب میں دعوت کی ذمہ داری اٹھائی تھی، آج بھی وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے نوجوان دین کی دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں کہ دعوت کے اولیں مخاطب ہمارے نوجوان ہی ہیں۔
 یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی میں اس کے نوجوانوں کا کلیدی رول ہوتاہے ، اسلام بھی اقصائے عالم میں نوجوانوں کے عزم راسخ ، یقیں محکم، عمل پیہم اور اعلی کردارکی بدولت پھیلا۔ کم عمری میں اسامہ بن زید رضى الله عنه  کا سپہ سالاربننا، زید بن ثابت رضى الله عنه کا جامع قرآن ہونا، مصعب بن عمیررضى الله عنه کا پہلا سفیربننا،بلال حبشی رضى الله عنه کا موذن رسول ہونا اور سلمان فارسی رضى الله عنه کامتلاشی حق بننا اسلام میں نوجوانوں کے گرانقدر کردار کوواضح کرتاہے۔ اسی طرح عقبہ بن نافع ، طارق بن زیاد ، موسی بن نصیر، اور محمدبن قاسم جیسے اسلام کے جیالے اورسورما نوجوان ہی تو تھے جنہوں نے گلش اسلام کی آبیاری کی اورچہاردانگ عالم میں اسلام کا جھنڈا لہرایا۔
عصرحاضرمیں اسلام دشمن عناصر نے اس نکتہ کو بخوبی سمجھا ہے اوراپنے اہداف کی تکمیل کے لیے نوجوانوں کوتیار کررہے ہیں، آج ہندوازم کی مختلف تنظیمیں نوجوانوںکی رہنمائی میں اسلام کے خلاف سرگرم ہیں ،آرایس ایس ، شیوسینا، بجرنگ دل اوروشوہندپریشد نے اپنے نوجوانوں کی ایسی ذہن سازی کی ہے کہ اسلام کی مخالفت ان کی رگ وریشے میں پیوست ہوچکی ہے، عیسائی مشینریاں نوجوانوں کو خصوصی تربیت دے کر میدان میں اتار رہی ہیں ، وہ جس میدان میں کام کررہے ہوں عیسائیت کی تبلیغ اپنی اولیں ذمہ داری سمجھتے ہیں ، الحمدللہ چند دہائیوں سے نوجوانان ملت میں بھی یہ شعور پیدا ہوا ہے اورجن مسلم نوجوانوں کی صحیح خطوط میں تربیت ہوئی ہے وہ اسلام کی خدمت میں رات دن ایک کررہے ہیں، ایسے نوجوانوں کو دیکھ کریقیناً آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن جس حد تک اس سمت میں توجہ دینے کی ضرورت تھی تاہنوز نہیں دی گئی ہے، نتیجہ ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت پست ہمت ،کاہل اور کام چور بنتی جا رہی ہے ، ان کی قوت فکر وعمل سلب ہوتی جا رہی ہے ۔
آج ضرورت ہے کہ ہم نوجوانوں کی صحیح سمت میں تربیت کریں،چاہے وہ جس میدان میں ہوں پہلے انہیں اسلام کا داعی بنائیں، اس طوفان بلاخیز میں اسلام کی سچی اور خالص تعلیمات انسانیت تک پہنچانے کے لیے یہ وقت کی پہلی پکار اوراولیں ضرورت ہے ۔ جب تک ہمارے نوجوان کوہساروں کا سا عزم لے کر میدان عمل میں نہ اتریں گے تب تک ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت نہیں کرسکتے۔ امید کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو گی اور دعوت وتربیت کے  ذمہ داران اور نوجوانان ملت ان گزارشات پر کان دھریں گے۔رہے نام اللہ کا
صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in
مکمل تحریر >>

آہ ! صومالیہ


پچھلے چند مہینوں سے براعظم افریقہ کا تاریخی ملک صومالیہ شدید قحط اور خشک سالی سے دوچار ہے ، جس سے ایک کروڑ افراد متاثر ہیں ، 20 لاکھ افرادغذائی مواد کی کمی اور بھوک سے تڑپ تڑپ کرمرچکے ہیں، جن میں29ہزار بچے شامل ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق صومالیہ کی یہ خشک سالی گذشتہ نصف صدی کی سب سے بڑی آفت ہے، اگربھرپورغذائی امداد کی فراہمی نہ ہوسکی تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ صورتحال کسی انسانی المیے کوجنم دے ۔
صومالیہ ہی وہ سرزمین ہے جہاں اسلام کا سایہ مدینہ منورہ سے پہلے پہنچا ، جس نے اولیں مہاجرین کواپنی آغوش میں پناہ دی تھی، حبشہ کا ساحل جو آج صومالیہ کے ساحلی شہر زیلہ کا حصہ ہے، یہی وہ مقام تھا جسے صحابہ کرام نے پناہ گاہ بنائی تھی اورصومالیہ کا حالیہ درالحکومت موگادیشو مشرقی افریقہ میں اسلام کا ایک مرکز بنا تھا، آج 99 فیصدمسلم آبادی پرمشتمل اس سرزمین کاشماردنیا کے غریب ترین ملک میں ہورہا ہے ۔ اورقحط ایسی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ مررہے ہیں ایسا بھی نہیں ہے کہ اس ملک میں قدرتی ذخائر کی کمی ہو ، تیل یورینیم ، گیس اور سونے کے ذخائر آج بھی اس ملک میں پائے جاتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ آج یہ ملک ایسی خستہ حالی کا شکار ہے ، یہ ایسا نکتہ ہے جس سے پردہ اٹھائے بغیر رہا نہیں جاتا ، گوکہ عالمی برادری اس بھوک مری کو خانہ جنگی اور خشک سالی کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے لیکن حقیقت کچھ اوربھی ہے ۔ مغرب نے جب استعماری منصوبہ کے تحت عالم اسلام میں قدم رکھا تو قدرتی ذخائر سے مالامال مشرقی افریقہ کے اس ملک کو بھی اپنے استعماری پنجے میں دبوچے بغیرنہ رہے ، اور خوان یغما سمجھتے ہوئے برطانیہ ، اٹلی اورفرانس تینوں ممالک بھوکے بھیڑیوں کے جیسے اس پرٹوٹ پڑے، صومالی سورماؤں کی مزاحمت کے بعد استعماری افواج نے ملک توچھوڑدیا تاہم ”پھوٹ ڈالو حکومت کرو “کی پالیسی اپناتے ہوئے صومالیہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ہی نکلے، پھراس خطے کی ثروت کو اپنے اختیار میں رکھنے کے لیے زراعت کا ایسا نظام رائج کرایا کہ ان کی زمینیں مخصوص کیمیکلز کی بنیاد پر زراعت کی بعض چیزیں ہی کاشت کرسکتی ہیں، پھر ان کی کاشت کی ہوئی اشیاء کو سستے داموں خرید کر عالمی منڈیوں میں مہنگے داموں میںبیچنے کی ٹھیکیداری بھی لے لی، اس طرح صومالیہ سمیت افریقہ کے اکثر ممالک رفتہ رفتہ غربت کا شکارہوتے گئے۔ اقبال نے كہا تها
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
ایک طرف مغرب کے ٹھیکیداروں کی یہ سامراجی پالیسی پورے شدومد سے کام کررہی تھی تودوسری طرف صومالیہ کی قوم مسلم آپسی خانہ جنگی میں ایسی دھت ہوگئی کہ اس کی متحدہ قوت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ۔ آپسی خانہ جنگی کے نتیجہ میں گذشتہ اٹھارہ سال سے اب تک پانچ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں ،تین لاکھ بیس ہزار لوگ ملک میں بے گھر ہوچکے ہیں اورتاہنوز خانہ جنگی کایہ سلسلہ جاری ہے ۔
 ادھرصومالیہ پر قدرت کی سخت مار بھی پڑی ہے۔ صومالی معیشت کا دارومدارچونکہ گلہ بانی اور زراعت پر تھا اور دونوں کا گہرا تعلق بارش سے ہے ، اورچارمواسم میں بارش بالکل نہیں ہوئی جس کے باعث کھیتیاں خشک ہونے لگیں، پیداوار ختم ہوگئی، حیوانات مرنے لگے، نتیجتاً اموات عام ہوگئیں، آج بھوک کی شدت سے بچے اور بوڑھے تڑپ تڑپ کر مررہے ہیں، کتنے پیاس کی شدت سے مررہے ہیں کہ پانی پچاس کیلومیٹر کا فاصلہ طے کیے بغیر دستیاب نہیں، تعلیمی ادارے اور درسگاہیں ہیں بند ہوچکی ہیں، جنوبی صومال، شمالی کینیا، اورجنوبی ایتھوپیا کے علاقے قحط سالی سے زیادہ متاثرہیں ۔ دنیا کے کونے کونے بالخصوص خلیجی ممالک سے تعاون مل رہا ہے لیکن اموات کی شرح پر قابوپانا مشکل ہے کیونکہ آبادی کے تناسب سے تعاون میں ابھی بھی بہت کمی ہے ، ایک وقت کے کھانے کی قیمت محض پندرہ فلس ہے جوآٹا تیل اورنمک پر مشتمل شوربا سے عبارت ہوتا ہے ۔
عزیزقاری ! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں کویت کی سرزمین پر خوشحال اور فارغ البال رکھا ہے ، ہم اللہ تعالی کی عظیم نعمت میں پل رہے ہیں، اس نعمت کا تقاضا ہے کہ ہم اللہ پاک کا شکرادا کریں اور ان نعمتوں کی قدرکریں، اسراف اورفضول خرچی سے بال بال پرہیز کریں، ہمارے دسترخوان پر جتنے کھانے برباد ہورہے ہیں ان سے کتنے غرباءومساکین کی کفالت ہوسکتی تھی، کیاخبرکہ کل ہماری بھی حالت وہی ہوجائے جو ہمارے کلمہ شریک صومالی بھائیوں اور بہنوں کی ہے، ہم الکٹرونک اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ ان بھائیوں کی بدحالی اورفاقہ کشی کے واقعات آئے دن دیکھتے اور سنتے بھی ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارے دل میں اسلامی اخوت کا احسا س پیدا ہوناچاہیے، وہ ہمارے ہی جسم کا ایک عضوہیں جوصدحیف معطل ہوتے جارہے ہیں، ہمیں ان کے درد کی ٹیس محسوس ہونی چاہیے ، کیاہم نے کبھی اس حدیث پر غورکیا : ” مومن کی مثال ایک دوسرے سے محبت، ہمدردی اوررحم دلی کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح ہے جس کا کوئی ایک عضومبتلائے درد ہو تو اس کی وجہ سے پورا جسم بخاراوربے خوابی کا شکار ہوجاتا ہے “۔ (مسلم)
جی ہاں! مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، صومال میں اگر کوئی مسلمان بھوک اور پیاس کی شدت سے مررہا ہے تو ہم بھی اس کے ذمہ دارہوںگے ، کل قیامت کے دن اللہ تعالی ہم سے فرمائے گا :” اے ابن آدم! میں بھوکا تھا تونے مجھے کھانا نہیں کھلایا،اے ابن آدم! میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا....“ اس لیے اپنے دینی بھائیوں کی آہوں اورسسکیوں پرکان دھریں، ان کی مصیبت کا احساس کریں، کویت کی رفاہی کمیٹیاں ان کے لیے چندہ جمع کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں، جتنا میسر ہوسکتا ہو صومالی بھائیوں کے لیے اپنی حلال کمائی سے ضرورنکالیں، معمولی رقم کوحقیرنہ سمجھیں، آپ کی نظرمیں معمولی ہوسکتی ہے لیکن اللہ کوکیفیت مطلوب ہے کمیت نہیں، اگرآپ ایک انسان کی جان بچالیتے ہیں توگویا آپ نے ساری انسانیت کوزندگی عطا کی۔ زمین والوں پر رحم کریںآسمان والا آپ پر رحم کرے گا۔ رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی یہ بشارت سنیں:
”جس مومن نے اپنے مومن بھائی کو پیاس میں پانی پلایا اللہ تعالی اسے قیامت کے دن مہربلب جام پلائے گا ، اورجس مومن نے اپنے مومن بھائی کو بھوک میں کھانا کھلایا اللہ پاک اسے بہشت کے پھل سے کھلائے گا اور جس مومن نے کسی مومن کو ننگاپن میں کپڑا پہنایا اللہ تعالی اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا “۔ (مسنداحمد)
صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in

مکمل تحریر >>

چشمِ باطن جس سے کھل جائے وہ جلوہ چاہیے


امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ کا ملعون پادری جوایک عرصہ سے قرآن سوزی کامنصوبہ بنارہاتھا بالآخرگذشتہ دنوں مجمع عام میں قرآن سوزی کی حرکت کرہی گذرا، اس پر طرہ یہ کہ اسی مجلس میں بڑی بے باکی کے ساتھ آئندہ رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کا مجرمانہ اعلان بھی کردیا۔ پھراس کے بعد عیسائی مشنری چینل ’الحقیقة‘پرقرآن کریم کے تئیں عالمی محاکمہ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ملعون پادری اوراس کے ہمنواؤں نے قرآن، اسلام اورصاحب قرآن کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا اور ہماری پوری قوم خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی ۔

ادھرمغرب نے اس شیطانی حرکت کو آزادی رائے کانام دے کرملعون پادری سے کوئی تعرض نہیں کیا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنے کی کھلی آزادی دے دی ، حدتویہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کے خلاف زبانیں کھولیں اورمظاہرے کیے انہیں بنیاد پرست کے نام سے مطعون کیا گیا۔

اسلام اوراہل اسلام کے تئیں مغرب کے دلوں میں بغض وحسد کی جو چنگاریاں بھڑک رہی ہیں اس کی وجہ ظاہروباہرہے، آج مغربی ممالک میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، گذشتہ بارہ سال کے اندر صرف ریاستہائے امریکہ میں بارہ ہزار مساجد کی تعمیرعمل میں آچکی ہے، ایک اعدادوشمار کے مطابق 11ستمبر کے بعد سے سالانہ بیس ہزار سے زائد امریکی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ نوواردان اسلام‘ اسلامی تعلیمات کا بیحد التزام کرتے ہیں اورداعی کی حیثیت سے معاشرے میں ابھر کر آتے ہیں۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو ملعون پادری اورعالمی صہیونیت کی نیند حرام کیے ہوئی ہے کہ وہ اپنی پیشانی کی آنکھوں سے اپنے گھرمیں اسلام کی بالادستی دیکھ رہے ہیں۔ اسلام اوراہل اسلام کے تئیں اگرمغرب کی یہی ایک کارستانی ہوتی تو مسلمانوں کو صبرکی تلقین کرکے معاملے کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا جاتا جبکہ یہاں صورتحال تو یہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ان کے بنیادی اہداف میں شامل ہے ۔

اس لیے آج ضرورت ہے کہ صہیونیت کے مکروہ چہرے سے پردہ اٹھایا جائے جو ہر زمانے میں نیا چولا بدلتی رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب اس نے مستشرقین کی کھیپ تیار کرکے اسلام اوراس کی تعلیمات پر رکیک حملے کیے ، پھر استعماری منصوبہ کے تحت اسلامی ملکوں میں قدم رکھا،جب عالم اسلام میں بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو ”پھوٹ ڈالوحکومت کرو“کی پالیسی اپنائی،اورجب مشرق وسطی میں پٹرول کے ذخائر سامنے آئے توان پر للچائی نگاہ ڈالتے ہوئے اپناتسلط جمانے کے لیے سارے حربے استعمال کئے اورتاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیبیاکی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے ۔

ایک طرف مشرق وسطی کوسیاسی ،جغرافیائی ،اورمذہبی سطح پر بیرونی مداخلت کا سامنا ہے تو دوسری طرف اس کی داخلی سلامتی خطرے میں ہے۔ ابھی گذشتہ دوماہ قبل عالم عرب میں احتجاج کی جو لہرچلی تھی جس کے ذریعہ متعددآمراور ڈکٹیٹرحکمرانوں کو قصر اقتدار چھوڑ کربھاگنا پڑاتھا اب اس کے پس پردہ کتنے ناگ ہیں جو پہلے بل میں گھسے تھے،موقع سے فائدہ اٹھاکر پھن پھیلائے ڈسنے کوتیار ہیں۔ حالات بہت سنگین ہیں اوردشمن بڑے شاطر اورچالباز ہیں، ایسی نازک صورتحال میں جہاں خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے حقیقی دوست اوردشمن کی شناخت کریں، آئندہ کے لیے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہرمیدان میں افرادسازی کا کام شروع کریں، سائنس وٹیکنالوجی اورعصری علوم کے معیاری مراکز قائم کریں اورنئی نسل کو حریف کے شانہ بشانہ چلنے کا گر سکھائیں تاکہ ہمیں دشمن سے استغنا حاصل ہوسکے ۔ اسی طرح دینی مراکز، دعوتی اداروں اور مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ آپس میں متحد ہوکر قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں دعوت اوراصلاح دونوں محاذوں پر منظم طریقے سے کام کا آغازکریں مبادا کہ دین کے بازار میں کھوٹے سکوں کی تشہیر کرنے والے نام نہاد دھرم پرچارک ہماری نئی نسل کے ذہن کو پراگندہ کردیں ۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اب غفلت کا وقت نہیں رہا، اگرآج غفلت کی توکل تاریخ ہمیں ہرگز معاف نہ کرے گی ۔

ہماری ایک بہت بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم دوسروں کوفوراً موردالزام ٹھہراتے ہیں”حکومتیں خاموش ہیں،جماعتیں کوئی کام نہیں کرتیں، مسلمان ایسے ہیں‘ مسلمان ویسے ہیں“ یہ اور اس طرح کی بیشمار باتیں ہماری مجلسوں کی زینت ہواکرتی ہیں، لیکن کبھی ہمیں توفیق نہیں ملتی کہ خود اپنے آپ میں جھانک کردیکھیں ،اپنا احتساب کریں ،قرآن پاک کی بے حرمتی کا مسئلہ ہو یا رسول پاک صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کاقضیہ‘ ایسے حالات میں ہم ضرور احتجاج کرتے ہیں اوراپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن کیا واقعی قرآن کریم کے ساتھ ہمارا سلوک اور پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کے ساتھ ہمارا رویہ اطمینان بخش ہے ، یہ ایسا سوال ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، جب تک ہم اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع نہ کریں گے تب تک اسلام کی سربلندی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ قرآن کو اپنا حرزجان بنائیں، اُس کی تلاوت اورفہم وتدبر ہمارے روزانہ کے معمولات میں شامل ہوجائے، پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی سیرت کا مطالعہ ہماری زندگی کا لازمی عنصر بن جائے ، قرآن وحدیث کی تعلیم کو اپنے گھر میں عام کریں، اس کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کریں، اِن تعلیمات کی روشنی میں اپنے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں اورجولوگ اب تک ان آفاقی تعلیمات سے محروم ہیں ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں ۔ایسا کرکے ہی ہم حقیقی معنوں میں قرآن کی عظمت کو بحال کرسکتے ہیں اورنبی پاک صلى الله عليه وسلم کے شیدائی ہونے کا حق ادا کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین
صفات عالم محمدزبیر تیمی 
مکمل تحریر >>

اسلام کے فروغ سے گھبراہٹ کیوں ؟


اسلام ایک آفاقی مذہب ہے،اس کی تعلیمات انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ اس ذات کا اتارا ہوا دین ہے جو خالقِ کائنات اورمالکِ ارض وسما ہے ۔ جس طرح ایک کمپنی کوئی سامان تیار کرتی ہے تواس کے استعمال کرنے کا طریقہ بھی بتاتی ہے بعینہ جب خالق کائنات نے اس کرہ ارضی کو نوع بنوع مخلوقات سے سجایا پھران میں انسان کو اشرف المخلوفات بنایا تو سب سے پہلے اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ انسان کو اس نئی جگہ پر بسنے اور زندگی گزارنے کا طریقہ بتایاجائے چنانچہ اسی ضرورت کی تکمیل کے لیے اللہ پاک نے ہردوراورہرعلاقے میں انبیاءورسل کو بھیجاجنہوں نے انسانوں کومقصد تخلیق سے آگاہ کیا اورزندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا البتہ ان کا پیغام ان کی قوم اوران کے زمانے تک محدود تھا۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں دنیا اپنی پوری جوانی پرپہنچ گئی تواللہ پاک نے جہاں کے لیے وہ آخری پیغام بھیجا جوانسانیت کی رہبری کا ضامن اورمکمل نظام حیات پرمشتمل تھا، جس کا نعرہ تھا وحدتِ ا لہٰ اور وحدتِ آدم، یعنی ساری انسانیت کا خالق ومالک ایک ہے اور سارے انسان ایک ہی ماں باپ ’آدم وحوا‘ کی اولاد ہیں۔ یہ فطرت کی آواز تھی، اس لیے سعید روحوں نے اس پر لبیک کہا اور بلاتفریق رنگ ونسل ایک مقصد، ایک جذبہ اور ایک نصب العین پر اکٹھا ہوگئے اورہوتے ہی گئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کرجنوب تک اسلام کا پھریرا لہرانے لگا ۔اسلام اپنی فطری صداقت کی بنیاد پر ساری دنیا میں پھیلا ہے اورآج تک پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ موجودہ حالات میں بھی جبکہ مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہوچکی ہے اور دعوت کا جذبہ سرد پڑچکا ہے دنیا میں اسلام کا فروغ بڑی تیزی سے ہورہا ہے، اس وقت دنیا کے تمام مذاہب میں لوگوں کی تعداد گھٹ رہی ہے اوراسلام کے ماننے والوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سےعالمی میڈیا کی نیند حرام ہوچکی ہے، ان دنوںمغربی میڈیامیں عالمی سطح پرمسلمانوں کی شرحِ آبادی میں اضافہ باعث تشویش بنا ہوا ہے۔ فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارہ نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ، پھر اس سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کے 20 سالوں میں بین المذاہب اضافہ کا تقابل کرتے ہوئے تخمینہ لگا یاہے، اس تخمینہ کے بعد وہ اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ 2030ءمیں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی ۔ یعنی مسلمان اس وقت دنیا کی کل آبادی میں26.4 تک پہنچ جائیں گے جبکہ اِس وقت عالمی سطح پرمسلمانوں کا تناسب 23.4 فیصد ہے ۔ مغرب کی بے چینی کا اندازہ محض اس سروے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اسلام کے فروغ سے کتنا خوف زدہ ہے، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اسلام آیا تو ان کی چودھراہٹ جاتی رہے گی، اسلام کوفروغ ملا توانہوں نے حکومت ،تجارت، سرمایہ داری اورنام نہادآزادی کی جو فلک بوس عمارتیں تعمیر کررکھی ہيں دھڑام سے گرجائيں گی۔
اس رپورٹ کے آنے کے بعد ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیمیں جواسلام دشمنی میں رات دن ایک کرتی ہیں کب پیچھے رہتیں ، ہندوپاک کے مسلمانوں کے تئیں قیاس آرائیاں اور تخمینے کرنے لگیں ہیںاور بڑبڑانا شروع کردیا ہے کہ مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی آبادی پربروقت روک لگانے کی ضرورت ہے ،اس کے لیے ہندوؤں کو جگایا جارہا ہے اوریہ واویلا مچایاجارہا ہے کہ عالمی سطح پر تمام مذاہب کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو مسلمانوں کی اس مذہبی سیاست پر لگام لگانا ہوگا اور اس کے لیے جنگ کی نوبت بھی آئے تو پیچھے نہیں ہٹناہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جماعت کے ایسے ہی جذباتی بیانات ہوتے ہیں محض اسلام دشمنی کی خاطر اور ہندوستان کو ہندو راشٹرقرار دینے کے لیے ۔ اسلام امن وشانتی کا دھرم ہے اور ہم مسلمان ہیں، اس لیے ہم جذباتی باتیں نہیں کرتے البتہ دعوت کی ذمہ داری یا د دلاتے ہوئے اس نکتے پر بحث کرنا چاہتے ہیں کہ آخر کیوں مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں کمی آتی جارہی ہے ؟ اس سوال کا جواب ہندوستان کے معروف سِکھ صحافی، ادیب اور دانشور خشونت سنگھ نے ایک ماہ قبل اپنے ایک مضمون میں دے دیا ہے ، انہوں نے خود سوال کیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ؟ پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اسلام میں صداقت ہے ۔(روزنامہ ”منصف “ حیدرآباد)
جی ہاں! اسلام انسانی فطرت سے ہم آہنگ مذہب ہے ،توحید کا داعی ہے ،مساوات کا پیکر ہے ، عدل وانصاب کا خوگر ہے ، امن وعافیت کا سرچشمہ ہے ،اخلاقیات کا جامع ہے اور معاملات میں یکتا ہے غرضیکہ اسلام محاسن اور خوبیوں کاحسین گلدستہ ہے ۔ اسلام کی بدولت انسانیت نے علمی ،صنعتی،سائنسی ،تمدنی،سماجی اورمعاشرتی ترقی کی ہے ، یہی یورپ جو آج ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اور کائنات کی تسخیر کا دعوی کررہا ہے کل تک عہد ظلمت میں ٹامک ٹوئیے مار رہا تھا اوراُس وقت مسلمان علم وحکمت کے تاجدارسمجھے جاتے تھے ۔
آج دنیا نے گوکہ بڑی ترقی کرلی ہے تاہم ترقی کے باوجود تنزلی کی طرف جارہی ہے ،ہرسطح پر زبوںحالی کی شکار ہے ، انسانوںکے حقوق پامال ہورہے ہیں ،عدل وانصاف کا خون ہورہا ہے ، دنیا فتنہ وفساد اور اضطراب سے بھری پڑی ہے ،مساوات کے نام پر انسانیت کا استحصال ہورہا ہے ،آزادی نسواں کے نام پرجنسی انارکی کو فروغ دیا جارہا ہے ،ان ساری خرابیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا اسلام سے منہ موڑ کرجی رہی ہے۔
پچھلے دنوں کناڈا سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے A World Without Islam ”دنیااسلام کے بغیر“اس کے مصنف گراہم فلر ہیں جو سعودی عرب، ترکی، لبنان ، شمالی یمن،اور افغانستان میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اعلی افسرکی حیثیت سے بیس سال سے زائد عرصہ خدمت انجام دے چکے ہیں اورمشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ انسانیت کے لیے اسلام کو رحمت ثابت کرناچاہتے ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں ”یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ موجودہ عالمی مسائل کا سبب اسلام ہے۔
اسلام ہرطرح کی بے راہ روی پر قدغن لگاتاہے ،اور ایسا معاشرہ وجود میں لاتا ہے جو عدل وانصاف کا پیکر ہو،امن وشانتی کا گہوارہ ہوجس کے سایہ تلے انسان امن اورراحت محسوس کرے ، اس لیے مغرب یا ان کے ہمنوا ممالک یاتنظیموں کو مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح آبادی سے قطعی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

مکمل تحریر >>

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے


نومبراوردسمبر کا مشترکہ شمارہ پیش خدمت ہے، رسالے کی اشاعت کے دوسال ہوچکے ہيں،اس کا پہلا شمارہ نومبر2008 میں منظرعام پر آیا تھا، تب سے مسلسل اللہ کی توفیق سے یہ شائع ہورہا ہے، جس وقت رسالے کی اشاعت کا خاکہ تیارکیا گیا ہم نے اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ قوم مسلم میں دعوتی شعورپیدا کرنے کو اپنی اولیں ترجیحات میں شامل کی، کیونکہ ایک طرف اسلام کی آفاقیت اور دورجدید کے تقاضوں کے سامنے قوم مسلم کی بے حسی ہمارے ضمیر کو کچوکے لگا رہی تھی تو دوسری جانب رسالہ لجنة التعریف بالاسلام کا نقیب اور ترجمان تھا جس کا بنیادی مقصد غیرمسلموں کے بیچ اسلام کا تعارف عمدہ اسلوب اورجدید ٹکنالوجی کی روشنی میں کراناتھا،چنانچہ ہر شمارے میں ایسے مقالات شائع کیے جو ہمارے خواب کو شرمندہ تعبیرکرسکیں-

آج پچیسواں شمارہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اپنا احتساب کرنے بیٹھے ہیں کہ کیا ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے اورکیا ہمیں مسلمانوں کی ذہن سازی کرنے میں کامیابی مل سکی ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو ہمارے قارئین ہی کرسکتے ہیں البتہ ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بڑی حد تک ایسے افراد تیار کرلیے ہیں جو اسلام کی آفاقیت کو سمجھتے ہیں، قوم مسلم کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں، دعوت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،دعوتی لٹریچر اور رسالوں کی تقسیم میں ہمارا بھرپور تعاون کرتے ہیں، ہمیں دعوت کے لیے کتنے ایسے دیوانے ملے ہیں جو کرایے کی ٹیکسی سے اردو رسالے کارٹون کے کارٹون لے جا کرلوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ڈیوٹی کے تقاضے ہیں ،ذاتی مصروفیات ہیں ، گھریلومسائل ہیں لیکن انہوں نے دعوت کی لذت حاصل کرلی ہے،اپنی ذمہ داری کا شعور پا لیا ہے ، اپنے اعلی مقام کو پہچان لیا ہے،اپنے منصب کی معرفت حاصل کرلی ہے ۔

لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت تاہنوزفرقہ بندی اورفروعی اختلافات میں پھنس کر اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت سے ناآشناہے ، ہم انسانیت کے رہبر اور قائد بناکر بھیجے گئے تھے،اگر ہم نے اپنا آغوش وا کیا ہوتا تودنیا ہماری ہوسکتی تھی،آج بھی انسانیت پیاسی ہے ،آب حیات کی متلاشی ہے ،افسوس کہ جام حیات پلانے والے نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جام شیریں کے نام پرانسانیت کو زہریلاشراب پلایاجارہاہے، قادیانیت اورعیسائیت کو فروغ دینے کے لیے ہرممکن وسائل استعمال کئے جارہے ہیں، قادیانی اور عیسائی مبلغین دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر دین کے بازارمیں اپنے کھوٹے سکوں کی خوب خوب تشہیر کررہے ہیں ۔ ان کے اہل ثروت اور مالیاتی ادارے ارتدادی مہم پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں-

جب وہ باطل کے پرچار میں جان ومال کھپا رہے ہیں تو ہمیں حق کے فروغ کے لیے کس قدر محنت، لگن اور جذبے کی ضرورت ہے اس کا اندازہ ہر شخص لگا سکتا ہے ۔ اسلام کے سپوت جہاں کہیں بھی ہوں اورجس میدان میں ہوں انہیں اسلام کاصحیح نمائندہ بننا ہوگا، اپنے قول ،عمل اور کردارسے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا ہوگی ۔ کویت کی سرزمین دعوت کے لیے نہایت سازگار ہے ، یہاں مسلم وغیرمسلم تارکین وطن کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ، ہم يہاں ملازمت کے لیے ضرور آئے ہیں لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں بھی ہوپہلے مسلمان ہوتا ہے اس کے بعد ملازم ،اسلام کے فروغ میں تارکین وطن کا کلیدی رول رہا ہے ، تاریخ بھی گواہ ہے کہ مسلمان تاجروں کے اخلاق سے متاثر ہوکربے شمار ملکوں اور قوموں نے اسلام کو گلے لگایا ہے ، آج بھی مغربی ممالک میں قبول اسلام کی شرح میں جونمایاں اضافہ ہورہاہے، اس کے پیچھے تارکین وطن کی محنت اور لگن کا بڑادخل ہے-

اس مناسبت سے میں اپنے قارئین کو سرزمین کویت کے ایک تارک وطن کا قصہ سنانا چاہوں گا جنہوں نے ملازمت کے لیے ترک وطن نہیں کیا بلکہ محض دعوت کے لیے کیا ہے ۔ تیس سال کے عرصہ میں چالیس ممالک کے اندر پچاس لاکھ سے زائد افراد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ، یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے،انہیں ہم ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کے نام سے جانتے ہیں جوکویت کی ایک مشہور رفاہی جمعیت ”جمعیة العون المباشر“ کے بانی اور مؤسس ہیں جو پیشے کے اعتبار سے الصباح ہاسپیٹل میں طبیب تھے لیکن جسمانی علاج کرنے کی بجائے روحانی علاج میں لگ گئے ، وزارة الاوقاف کویت کی طرف سے بحیثیت مندوب جب افریقی ممالک کا ایک بار دورہ کیا تو وہاں عیسائی مشینریز کی سرگرمیوں اورارتدادی مہم نے ان کی دینی غیرت کو للکارا، بالآخر علاج ومعالجہ اور کویت کی آرام پسند زندگی کو چھوڑ کر افریقی ممالک کے شہروں، دیہاتوں اور کوردہ علاقوں میں گھوم گھوم کر دعوت کا کام کرنے لگے، کتنے پادریوں اور عیسائی مبلغوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورعیسائیت کی تبلیغ چھوڑ کر اسلام کے فروغ میں لگ گئے ۔ ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ متعدد بار ان پر حملہ کیا گیا ،اغوا کرنے کی کوششیں ہوئیں ،ذیابیطس کے مسلسل مریض ہیں،تین بارسراوردل کا دورہ پڑا ، لیکن جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف ہے نہ بیماری کا احساس۔ اس مرد مجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“ ۔

مجھے یاد آتا ہے میں نے ماہنامہ راہ اعتدال کے کسی شمارہ میں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا کچھ ایسا ہی بیان پڑھا تھا ،انہوںنے جامعہ دارالسلام عمرآباد کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ مجھے پچھلے دنوں ایک نومسلم کا مکتوب موصول ہوا جس میں اس نے تمام مسلم برادری کو کوستے ہوئے لکھاہے کہ جب میں کسی مسلمان کو دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے اس کا چہرہ نوچ لوں، کیونکہ انہوںنے مجھے اسلام اس وقت بتایا جب کہ میرے والدین فوت پاگئے،اگر اسلام کی آفاقی تعلیمات مجھ تک والدین کی حیات میں پہنچی ہوتیں تو میرے والدین جہنم سے بچ سکتے تھے ۔

اللہ اکبر ! یہ باتیں جہاں دل دہلا دینے والی اور ضمیر میں ہلچل مچادینے والی ہیں وہیں ہمارے سمند ہمت کے لیے تازیانہ بھی ، میری آپ سے گزارش ہے انہیں دوبارہ اور سہ بارہ پڑھیں اور اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھیں ،اپنا جائزہ لیں کہ ہم بحیثیت مسلمان کس حدتک دین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ، ہرشخص اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر دین کی خدمت کرسکتا ہے، ابھی ہم سال نو کا استقبال کرنے والے ہیں،نئے سال کی آمد سے قبل اگلے سال کے لیے اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں اور دعوت کو اس میں سرفہرست جگہ دیں ،اگر آپ قلم کارہیں تواپنی سنجیدہ تحریر سے دین کی خدمت کریں،اگرآپ مقررہیں تو اپنی شیریں بیانی سے دین کی خدمت کریں، اگر آپ صحافی ہیں تو میدان صحافت میں دین کی خدمت کریں ،اگر آپ انٹرنیٹ اور الکٹرونک میڈیا سے واقفیت رکھتے ہیں تو آلات جدیدہ کے ذریعہ دین کی خدمت کریں ،اگر آپ مالدار ہیں تواپنے پاکیزہ مال سے دین کی خدمت کریں،حتی کہ اگرآپ ایک رسالہ بھی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں تویہ بھی دین کی عظیم خدمت ہوگی۔ ہمیں ہر میدان میں دعوت کے شہسواروں کی ضرورت ہے ،ہم جس قدر افرادی قوت کے مالک ہوںگے اسی قدر دعوت کو فروغ ملے گا ، اس رسالہ کو اپنے لیے دعوت سمجھیں ،یہ رسالہ آپ کاہے،اور آپ کے دینی جذبات کا ترجمان ہے ، پس وپیش نہ کریں، کمرہمت باندھیں اوردعوت کے فروغ میں جس طرح کا بھی تعاون پیش کرسکتے ہوں‘فوراً ہم سے رابطہ کریں ۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔

مکمل تحریر >>