جمعرات, جون 27, 2013

صدحیف! ہمارے جسم کا ایک حصہ لہولہان ہے


جب کسی ملک میں ظلم وزیادتی عام ہونے لگتی ہے اوراستبداد کاجادو سرچڑھ کربولنے لگتا ہے توافراد میں اشتعال انگیزی کا ردعمل طبعی طور پر پیدا ہوتا ہے ، اس کی واضح مثال بعض عرب ممالک میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ ہے جو تا ہنوزجاری ہے ، تونس، لیبیا،مصر اوریمن میں زبرست مظاہرے ہوئے ،جن کے زیراثر کتنی حکومتوں کے تختے الٹ دئیے گئے تو کتنی حکومتیں قطارمیں ہیں اوردیریاسویرضرور منہ کی کھائیں گی۔ انہیں حکومتوں میں سے ایک ملک شام بھی ہے جس کا معاملہ عام ممالک کی بنسبت کئی اعتبارسے مختلف ہے ، پہلی بات تویہ کہ یہ سرزمین انبیاءو رسل کامرکز ومدفن ہے ،یہ حشر ونشر کی سرزمین ہے ،یہ مقدس اورمبارک سرزمین ہے ،یہ خیروبرکت اور غنائم کی سرزمین ہے ،جواہل ایمان کا گھرہے ،جس سرزمین پر بسنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
 تاریخ گواہ ہے کہ اس سرزمین کے مسلم سورماؤں نے صلیبی درندوں کے سامنے ہمیشہ پامردی کا مظاہرہ کیا اورسربکف رہے ،لیکن سقوط خلافت کے بعدجب اس خطہ میں مغرب کی دراندازی ہوئی اور استعمارنے اپنا پنجہ جمایا تو یہ حکومت فرانس کی تحویل میں آگئی ، مغرب کو اگر خوف ہے تو اسلام سے اور اسلام کے جیالوں سے، اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت نصیری یا علوی فرقے کا انتخاب کیا،یہ حضرت علی رضى الله عنه کی عبادت کے قائل ہیں،ان کے مطابق اللہ سات زمانوں میں سات صورتوں میں ظاہر ہوا، اس کا پہلا ظہور حضرت آدم عليه السلام کی صورت میں تھا اور آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم اور حضرت  علی رضى الله عنه کی صورت میں۔ اسی طرح تثلیث کا عقیدہ رکھتے ہیں، ان کے مطابق حضرت محمد صلى الله عليه وسلم، حضرت علی رضى الله عنه اورحضرت سلمان فارسی رضى الله عنه الوہیت کے تین روپ ہیں جو ایک ہی وقت میں جلوہ گر ہوئے۔ ظاہر ہے کہ ایسی فکر کے حامل افراد مسلمانوں سے خار نہ کھائیں گے تو اورکیا کریں گے ۔ اوردشمن اس اختلاف سے پوری طرح آگاہ تھا ،اس لیے شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انہیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد علوی مذہب کے ایک فرد نے حکومت کا باگ ڈورسنبھالا،حکومت سنبھالتے ہی پلاننگ کے تحت اس نے سنی مسلمانوںکے ساتھ سوتیلا برتاؤ کرتے ہوئے ظلم وزیادتی شروع کردی ، 1980 میں جب سنی مسلمانوں نے احتجاج کیا تواس کا نتیجہ تقریباً تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ خون آشام علوی دستوں نے حماس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا۔ باپ کی موت کے بعد جب بیٹے نے گدّی سنبھالی،توباپ کی روایت پرقائم رہتے ہوئے سنی مسلمانوں کی ایک ایک حرکت پر قدغن لگایا،دعوت پر روک لگادی ، اسلامی کتابوں پر پابندی ڈالی ،قبرپرستی کو فروغ دیا ، علویوں کے لیے حکومت کے خزانے کھول دئیے اورسنی مسلمانوں کو ہر سہولت سے محروم رکھا ۔اورزبان پر ایسی پابندی ڈالی کہ کسی کی ہمت نہ تھی کہ حکومت کے خلاف ایک لفظ نکال سکے ،اورجب کبھی کسی نے زبان کھولی حکومت کے خفیہ دستوں نے اغوا کرکے ان کوایسی انسانیت سورزسزائیں دیںکہ انسانیت سرپیٹ کررہ گئی۔ جب ظلم وستم اپنی انتہا کوپہنچ گیا اورصبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو پچھلے سال مارچ میں چند سنی بچے سڑکوں پراحتجاج کے لیے نکلے کہ ان کو جینے کا حق دیاجائے ،ان کے ساتھ انسانوں کا سا سلوک کیاجائے اورانہیں مذہبی آزادی دی جائے تو اس پاداش میں فوجی دستوں نے انہیں گرفت میں لے لیا ،جب ان کے سرپرست اپنے بچوں کی رہائی کے لیے ان کے ہاں گئے تو نہایت گندی زبان استعمال کرتے ہوئے ان سے کہا گیا ”جاؤ! دوسرے بچے پیدا کرلو ،اگرطاقت نہیں تو ہمارے پاس اپنی عورتوں کو بھیج دو....“۔ استغفراللہ
 مختلف انسانی حقوق کے اداروں اور شام حکومت مخالف کارکنوں کے مطابق سوری فوج اب تک کی کاروائی میں10,000 سے زائد مسلمانوں کو شہید کرچکی ہے۔ شام میں سنی مسلمان تقریباً 80%ہیں جبکہ علویوں کی تعداد محض 8 فیصد ہے لیکن سیاہ وسفید کے مالک ہونے کی وجہ سے سنی مسلمانوں کا جینا دوبھرکررکھا ہے۔ حرمین شریفین سے لے کر  عالم اسلام کی اکثرمساجد میں دعائیں ہورہی ہیں،عالم اسلام کے حکمراں اس انسانیت سوز حرکت کی مذمت کرچکے ہیں،اقوام متحدہ نے بھی ظلم روکنے کی تاکید کردی ہے لیکن حکومت اب تک بربریت روکنے کے لیے تیار نہیں ۔
ایسے سنگین حالات کا مقابلہ ایمان کے ذریعہ ہی کیاجاسکتا ہے ، ہردورمیں اہل ایمان کی آزمائش ہوئی ہے ،صحابہ کرام سے بڑھ کرشدائدوتکالیف اور مشکلات کاسامناکسی نے نہیں کیاحالانکہ وہ اس امت کے افضل ترین انسان تھے ،اس لیے ہم ان یتیموں،بیواؤں اورنہتے مسلمانوں سے کہنا چاہیں گے کہ اللہ آپ کے لیے کافی ہے ،آپ کاشعار”لیس لنا الا اللہ “قابل رشک ہے ، صبروشکیبائی سے کام لیں، ہرتنگی کے بعدآسانی ہے،آپ کی آہیں ضرور رنگ لائیں گی،انقلاب ضرور آئے گا ،شہیدوں کا خون ضائع نہیں ہوتا، اللہ پاک توان کو شہادت کے مقام پر فائزکرناچاہتا تھا۔ پھرہم اپنے عزیز قاری سے عرض کریں گے کہ ہمارے جسم کا ایک حصہ لہولہان ہے ، کرب والم سے کراہ رہا ہے ،ان سے اپنی اخوت وبھائی چارگی کا مظاہرہ کریں ، ہمدردی وغم خواری میں ایک جسم ہونے کا ثبوت دیں ،ان کے لیے خاص دعائیں کریں،اورممکنہ حدتک ان کے لیے مالی تعاون پیش کریں ۔
آئیے! عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ مولائے کریم شام کے مسلمانوں کی بالخصوص اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی بالعموم حفاظت فرما، ان کے حالات درست فرمادے ،اور چہاردانگ عالم میں اسلام کو غلبہ نصیب فرما ۔ آمین یارب العالمین۔ 

صفات عالم محمدزبیرتیمی

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔