جمعرات, ستمبر 15, 2011

محترم محمد آصف ریاض صاحب كے نام

محترم محمد آصف ریاض صاحب ! 
سلام مسنون
آپ پابندی سے ہمیں اپنی تخلیقات روانہ کر رہے ہیں ، یہ آپ کی نوازش ہے ، بہت بہت شکریہ ، ہم چونکہ دینی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ، اور آپ بھی ہمارے ساتھ شریک ہیں ، اس لیے ہم آپ کے لیے محض دعا ہی کرسکتے ہیں ، اللہ تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے ۔ ہمیں قوی توقع ہے کہ آپ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ آمین
مجهےآ پ كى تحرير بيحد پسند آتى ہے كہ مختصر ہونے كے ساته ساته نہايت  دل آويزاورجامع ہوتى ہے،  وسيع فكراورگہرى  سوچ ليے ہوتى ہے- وحيدالدين خاں صاحب كا اسلوب  آ پ كى تحريرمیں نماياں دكهائى ديتا ہے-
 آپ کا  ای میل آپ کی کتاب کی طباعت کے تعلق سے موصول ہوا ، خبرسن کربيحد خوشی ہوئی ، اللہ مزید بال وپر عطا فرماے ۔ یہاں کویت میں اردو داں تو بہت ہیں، تاہم یہاں کے مکتبوں سے رابطہ کرنا ہوگا، کیونکہ انہیں کے واسطے سے آپکی کتاب یہا ں آسکتی ہے ۔ویسے پہلے کتاب چھپنے دیں ، پھرہم ان شاءاللہ اس کا ممکن ہوا تو تعارف کرائیں گے ۔ والسلام ۔ 
یارزندہ صحبت باقی
مکمل تحریر >>

غیرمسلموں میں اسلام کی دعوت کیوں؟


اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے جس کے مخاطب سارے انس وجن ہیں ، اورپیارے نبی صلى الله عليه وسلم  کی بعثت سارے عالم کے لیے ہوئی،آپ کے بعدگذشتہ تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا،اب شریعت محمدیہ کے علاوہ اورکوئی شریعت مقبول نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے “۔(آل عمران 19) دوسری جگہ ارشاد فرمایا:”جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اوروہ آخرت میںخسارہ اٹھانے والوںمیں سے ہوگا“۔ (سورہ آل عمران85 )“۔ اوررحمت عالم صلى الله عليه وسلم  کی بابت فرمایا: ”آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میںتم سب کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں“۔ (سورہ اعراف 158) خود پیارے نبی صلى الله عليه وسلم  نے بیان فرمایا : ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے ،وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا “۔ (صحیح مسلم )
  الحمدللہ کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی گرانقدر نعمت میںپل رہے ہیں ،اس نعمت کا صحیح اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے کبھی گمراہی کی تاریکی میں کچھ وقت بتایاہو،آج دنیا کی اکثریت اس نعمت سے محروم ہوکر خسارے کا سودا کررہی ہے ۔ ڈاکٹرز ہیں، انجینیرز ہیں ، فلاسفہ اوراعلی افسران ہیں،ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹنے والے سائنسداں ہیں، لیکن صدحیف انہیں خالقِ کائنات کا عرفان حاصل نہ ہوسکا ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی ہیں جہاںاسلام کی روشنی نہ پہنچ سکی ہے ۔
ایسے گم کردہ راہوں کے تئیں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے اسے ایک مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے فرض کیجئے کہ ایک نابیناراستے سے گزررہا ہے، بیچ راستے میں ایک گڑھا ہے جس میں اس کے گرجانے کا قوی اندیشہ ہے، یا ایک شیرخوار بچہ سامنے میں رکھے ہوئے شعلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور اتفاق سے آپ وہاں موجود ہیں،ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان دونوں حالات میں آپ کی دلی کیفیت کیسی ہوگی ؟ یہی نا کہ آپ فوراً اندھے کی طرف بڑھیں گے اور ہاتھ پکڑ کر اسے راستہ پار کرائیں گے اورشیرخوار بچے کو گودمیں اٹھالیں گے کہ مبادا شعلے کو ہاتھ میں پکڑ لے ۔ بالکل یہی مثال دوسری قوموں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کی ہے، ان کی گمراہی کے سامنے ہمارے دل میں دردمندی اور محبت کے وہی جذبات پیدا ہونے چاہئیں جوکنویں میں گررہے اندھے اورشعلے کی طرف لپکنے والے شیرخواربچے کودیکھ کر ہمارے دل میں پیداہوتے ہیں۔
 کیاآپ دیکھتے نہیں کہ اسی فکر اور لگن میں ہمارے حبیب نے  اپنی 23سالہ زندگی گزاری،انسانیت کے غم میں راتوں کی نیند اور دن کے آرام کو خیربادکیا ،ہروقت ،ہرلمحہ اورہرجگہ یہی فکر ستاتی رہی کہ انسانیت اس پیغام حق کو قبول کرلے ، آخر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  نے کوہ صفا پر چڑھ کر کس کو پیغام حق سنایاتھا؟ منڈیوں،میلوں اورحج کے ایام میں گھوم گھوم کر کس کو دعوت دیا کرتے تھے ؟ آپ صلى الله عليه وسلم  نے کسے دعوت دینے کے لیے طائف کا سفر کیا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم  نے مصعب بن عمیررضي الله عنه  کو یثرب کیوں بھیجا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم  نے مختلف مذاہب اورمختلف ممالک کے بادشاہوں کے پاس اپنے سفراءوفرامین کیوں بھیجے تھے ؟ ان سارے سوالات کا جواب ایک ہے کہ آپ نے اپنی دعوت کا ہدف ان گم کردہ راہوں کو بنایاتھا جودین فطرت سے منحرف ہوگئے تھے۔ آج بھی مسلمانوں کی اصلاح کے مقابل اسلام کی دعوت غیروں تک پہنچانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جس قدراس وقت تھی ۔ فرض کیجئے کہ آپ ڈاکٹر ہیں،آپ کے پاس دو مریض لائے جاتےہیں ،ایک کو سردی اور کھانسی کی شکایت ہے جبکہ دوسرے کا گلہ کٹ چکا ہے ایسے نازک مرحلہ میں بحیثیت ڈاکٹر آپ سب سے پہلے کس مریض کو ہاتھ لگائیں گے ؟ ظاہر ہے ایسے ہی مریض کوجس کا گلہ کٹ چکا ہے کہ اسے فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔
اگرآپ یہ سوچیں کہ پہلے مسلمانوں کو پورے طورپر دیندار بنادیں گے تب غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیں گے توایسا کبھی ہوگا ہی نہیں ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  کے زمانے میں بھی مسلمان اصلاح کے محتاج تھے لیکن آپ نے پوری توجہ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف مبذول نہ کی بلکہ اصلاح اور دعوت دونوں کوساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ ہردورمیں اصلاح کے ساتھ تعارف اسلام کا کام جاری رہناچاہیے۔
 برصغیرپاک وہند کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ بعد کے ادوارمیں مسلم بادشاہوں اورامراء نے اپنی سلطنت کومستحکم کرنے کی طرف پورازور دیا اور دین سے بے توجہی برتی جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ہندوانہ رسم ورواج اوربدعملی کے بیشمار مظاہر سامنے آنے لگے،اس وقت دینی غیرت رکھنے والے علماء اور داعیان دین نے مسلمانوں کی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کیں جن کی کوششیں واقعی قابلِ ستائش تھیں تاہم اس کا منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن ودماغ سے اسلام کی ہمہ گیریت کا احساس نکلتا گیا، وہ اس نکتے کوبھول گئے کہ برادران وطن بھی اسلام کے مخاطب ہیں،یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی جومعاشرے میں عام ہوئی حالانکہ اصلاح کے ساتھ ساتھ دعوت بھی ہونی چاہیے تھی ، تاہم ایسا نہ ہوسکا پھراس کا حتمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم داعی بننے کی بجائے رفتہ رفتہ مدعو بننے لگے ۔غیرقوموں نے مسلم معاشرے میں اپنے باطل عقائد کا پرچار شروع کردیا ،اگربرصغیرمیں دینی مدارس کی قابل قدرخدمات نہ ہوتیں تو اس مذہبی یلغار نے ہماری شناخت بھی مٹا دی ہوتی ۔
آج دورجدید کاچیلنج ہم سے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اپنے مخاطب کو پہچانیں ، اپنے منصب کاعرفان حاصل کریں کہ ہمیں انسانیت کی خاطر وجود میں لایا گیاہے۔ ہم انسانیت کے لیے رہبر اورقائد کی حیثیت رکھتے ہیں ،ہم داعی ہیں اوردوسری قومیں مدعواورمخاطب ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اسلام کی جس عظیم اوربیش بہا نعمت میں پل رہے ہیں اس سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں ،یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔اسے انجام دے کر ہی ہم کل قیامت کے دن کی پرشش سے بچ سکتے ہیں ۔
 توآ ئیے ہم عہدکرتے ہیں کہ اسلام کا پیغام گھر گھرپہنچائیں گے اوراسلام کی آفاقیت سے انسانوں کومتعارف کرائیں گے۔ رہے نام اللہ کا ۔
صفات عالم محمدزبیرتیمی
safatalam12@yahoo.co.in

مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 14, 2011

ميرے بارے میں


میری ابتدائی تعلیم علاقے کے مکتب مدرسہ ربانیہ اموامدینة الشیخ میں ہوئی ،وہاں سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علامہ ڈاکٹرمحمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کے قائم کردہ ہندوستان کے معروف ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ مدینة السلام چندنبارہ مشرقی چمپارن میں مسلسل آٹھ سال تک تعلیم حاصل کیا ، وہاں سے فراغت کے بعد چھ ماہ تک مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمت انجام دیا، اور چھ ماہ مادرعلمی جامعہ ابن تیمیہ میں بھی بحیثیت مدرس رہا،اسی اثناءجامعة الامام البخاری کشن گنج میں مدنیہ يونيورسٹى کے زیراہتمام ہندوستانی مدارس کے فارغین کے ليے منعقدہ ٹریننگ کورس میں حصہ لیا ،جس میں اچھے نمبرات حاصل کرنے کی بنیاد پر مدینہ یونیورسٹی میں اعلی تعلیم کے ليےمنظوری مل گئی ۔ چنانچہ مدینہ یونیورسٹی كےشریعہ فيكلٹى سے چارسالہ کورس کیا۔ پھر 2003 کے اواخر میں کویت کے معروف دعوتی ادارہ لجنة التعریف بالاسلام میں بحیثیت داعی کام کرنے لگا، جوسلسلہ تا ہنوز جاری ہے ۔ یہاں کی ذمہ داریاں کچھ اس طرح ہیں 
(۱) غیرمسلموں میں دعوت 
(۲) نومسلموں کی تربیت 
(۳) اسلامی کتابیں ،کیسٹس اور ویڈیوزتیارکرنا 
(۴) ماہنامہ ”مصباح“ کی ادارت 
(۵) ”ہندودھرم کا تعارف ،عقائد ، اور اسلوب دعوت “ پر کتاب کی تالیف 
(۶) ریڈیوکویت پر ہفتہ وار 50 منٹ کا دینی پروگرام
 (۷) ہندی،اردو،اور عربی بلوگز لكهنا ۔
اللہ تعالی ہم سب سے اخلاص كے ساته اپنے دین کا کام لیتا رہے ، اور حسن خاتمہ سے نوازے آمین یا رب العالمین

مکمل تحریر >>

میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں تو کیا والدین کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہوں ؟

سوال:

میرے والد فوت پاچکے ہیں اور میری والدہ باحیات ہیں ۔ میں عمرہ کرنا چاہتا ہوں تو کیا والدین کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہوں ؟ (حفیظ اللہ ، كويت )

جواب:

 آپ اپنے فوت شدہ والدکی طرف سے عمرہ کرسکتے ہیں ۔لیکن والدہ کی طرف سے نہیں کیونکہ وہ ابھی باحیات ہیں ۔  الا یہ کہ وہ سفرکرنے سے عاجز  ہوں تو ایسی صورت میں والدہ کی طرف سے بھی کرسکتے ہیں ۔ اور دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اُس نے اپنی طرف سے عمرہ کیا ہو۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, ستمبر 08, 2011

عمری برادران سے دو گذارش

مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری حفظہ اللہ استاذ دارالسلام عمرآباد سے نہ ہماری کبھی ملاقات ہے اور نہ شناسائی ۔البتہ ہم نے ان کے شاگردوں کوان کی خوبیاں بیان کرتے ضرور سنا ہے ۔ ماہنامہ راہ اعتدال میں ان کے مقالات ضرورپڑھے ہیں۔  بلکہ ذاتی طورپر میں مولانا کی تحریر پڑھنے کے لیے ہی راہ اعتدال کی کھوج میں لگا رہتا ہوں، یہاں تک کہ پرانے شمارے بھی مل جاتے ہیں تو ان میں مولانا کی تحریر تلاشنے لگتا ہوں۔  کسی کی شخصیت کو پہچاننے کے لیے برسہا برس درکار نہیں ہوتے ۔ چند منٹوں میں شخصیت پہچان میں آجاتی ہے۔ میں نے مولانا کو ان کی تحریروں سے پہچانا ہے، اوران کی تدریسی صلاحیتوں کی بابت سنا ہے ۔ آپ کو اللہ پاک نے بلا کی ذہانت دی ہے ، آپ کی شخصیت گوناگوں خوبیوں کی مالک ہے، عمری برادران سے ہماری گذارش ہوگی کہ ان کی صلاحیت کو دارالسلام تک محدود نہ رہنے دیں۔ آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، دنیا سمٹ کر گھر کی مانند ہوچکی ہے ۔ ان کے دروس کی ريکاڈنگ کا بندوبست کیا جائے، انہیں ذمہ داری دے کر ان سے علمی کام کرایا جائے، ان کے مقالات کوکتابی شکل میں چھاپا جائے ۔ مختلف مجالس میں راقم سطور كو ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی زبانی  ان كے حق ميں ستائشی کلمات سننے كا موقع ملا ہے ۔
مولانا ابوالبیان حماد صاحب علم، صلاحیت اورقابلیت میں بے مثال ہیں، زبان وادب میں استاذ سمجھے جاتے ہیں۔ میری نظر سے ان کے کئی شعری مجموعے بھی گذر چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی ایک شعری مجموعہ بازارمیں دستیاب ہے ۔ آپ کے کلام میں بلاکی چاشنی ہے ۔ حلاوت ہے اورادبی جواہرپارے ہیں۔ ان کے ایک نعتیہ کلام کا مجموعہ بھی منظرعام پرآچکا ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ آج اردوزبان میں شرکیہ نعت نے شہرت حاصل کررکھی ہے۔ صحیح نعت پر مشتمل ویڈیوزاورسی ڈیز تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملتیں ۔ ایسے حالات میں آخر کیوں نا مولانا کے نعتیہ کلام کو سی ڈیز اور ویڈیوز کی شکل دی جائے ۔ اچھے نعت خواں کی خدمت حاصل کرکے اس کی ریکارڈنگ ہواوراسے الکٹرونک میڈیا کی زینت بنایا جائے کہ یہ وقت کا فوری تقاضا ہے ۔
مکمل تحریر >>

تیمی اخوان کے نام


مادر علمی جامعہ امام ابن تیمیہ سے ہم سب دورضرور ہیں لیکن دل سے بہت قریب ہیں، جس جامعہ نے ہماری تربیت کی ہے ، پوسا پالا ہے، بولنے کا ڈھنگ سکھایا ہے ، تہذيب وشائستگى سے آراستہ كيا ہے. زندگی گزارنے کا گر بتلایا ہے، جس کے دامن میں ہم نے علم وآگہی کے موتی چنے ہیں آخرہم اسے کیسے بھلا سکتے ہیں۔ کیا کوئی اپنی ماں کو بھول سکتاہے ....ہمارے لیے جامعہ مادرعلمی ہی تو ہے ۔ جب کبھی کوئی پروگرام ہوتا ہے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش میں بھی جامعہ کے پروگرام میں شریک رہتا ۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا، یہ ہم سب کی مجبوریاں ہیں، ڈیوٹی کے تقاضے ہیں، دل مسوس کر رہ جاتا ہے ، اس بار چھٹی میں بھی گھریلو مسائل، والد صاحب کی بیماری اور وفات سے اس قدر مشغول رہا کہ جامعہ جانے کا موقع بھی نہ مل سکا ۔ جس کا احساس مجھے اب تک ہے ۔
ہمارے دوسرے تیمی اخوان جو جامعہ سے باہر ہیں ان سب کی خواہش ہوتی ہے کہ جامعہ کی سرگرمیوں سے آگاہ ہوتے رہیں۔ ماشاءاللہ دکتور محمد لقمان السلفی کے حسب ارشاد ویب سائٹ بھی تیار ہوچکا ہے ۔ جس پرجامعہ کے سلسلے میں اہم معلومات بھی فراہم کردی گئی ہيں ۔ البتہ ہرماہ اپڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم سب جامعہ کی تازہ خبروں سے مطلع نہیں ہوپاتے اور جامعہ کے دونوں آرگن الفرقان اور طوبی کے مطالعہ سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں راقم سطورنے محسوس کیا کہ ہم تیمی احباب ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں ، قریب رہ کر بھی دوری کا سماں دکھائی دیتا ہے ، میں نے غورکیا ، سوچا کہ کسی طرح ہم سب کا رابطہ استوار رہے. جامعہ سے ہم سب کا روحانی تعلق ہے،اس لیے ہم سب کو جامعہ کے مفاد میں سوچنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے ، آراءکا تبادلہ ہوتے رہنا چاہیے ، ایک دوسرے کے نجی حالات سے بھی واقفیت ہونی چاہیے ۔ رابطے کا آسان ذریعہ انٹرنیٹ سمجھ میں آیا چنانچہ میں نے صوت التیمی نام سے ایک بلوگ کھولا تاکہ اس بلوگ کی وساطت سے ہم ایک دوسرے سے ربط میں رہیں ۔ ہم سب ایک دوسرے کے علم سے استفادہ کریں اور دنیا کے کونے کونے میں ہماری آواز پہنچے ۔ میں اپنے ظرف کو جانتا ہوں ، اپنی صلاحيت سے اچھی طرح آگاہ ہوں، مجهے اپنی بے بضاعتي اور كم مائيگى كاپورا پورا احساس ہے من دانم کہ من آنم ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے تیمی احباب مجھ جیسے نہیں ہیں، ہر میدان میں گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں، اورہرجگہ اپنی پہچان رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں حسب سابق دکتورمحمد لقمان السلفی حفظہ اللہ کویت تشریف لائے تھے توایک شام ان کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا ، میرے ہمراہ برادرم کرم اللہ تيمي بھی تھے ، انہوں نے صوت التیمی کا دکتور کے پاس ذکر کیا تو دکتور بےحد خوش ہوئے ۔ دکتور کو ہم نے بارہا اپنے ابناءکی تعریف کرتے ہوئے پایا ہے ۔ ہرتیمی کے تئیں ان کا خیال نيك اورپاكيزه ہوتا ہے ، وہ ہم سب کوآگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ایک قلیل مدت میں تیمی برادران نے ہرجگہ اپنی پہچان بنائی ہے ۔ یہ دکتورکے اخلاص کا ثمرہ نہیں تو اور کیا ہے ....
ہم اس موقع سے اپنے سارے تیمی احباب کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں بالخصوص وہ تیمی احباب جن کے ساتھ جامعہ میں رہا، جن کی صحبت نے ہمارے لیے مہمیز کا کام کیا ،جن کی محبت اب بھی ستاتی رہتی ہے ، جن سے دور ضرورہیں لیکن دل بہت قریب ہے ، ہم ان سب کویادکرناچاہتے ہیں،اپنے دلی جذبات کی تسکین کے لیے ....اپنے نیک خواہشات کے اظہار کے لیے....اپنے اندر امڈتے جذبات ان تک پہنچانے کے لیے....کہ ہم سب جامعہ میں تھے توایک ماں کی اولاد لگتے تھے لیکن جامعہ سے نکلنے کے بعد زندگی کے تقاضوں نے ہم سب کو الگ الگ کردیا ، ہم سب اپنے اپنے میدان میں کام کرنے لگ گئے ، ایک دوسرے سے بہت حد تک روابط بھی کٹ گئے ، ہم جہاں گئے اور جس میدان میں گئے وہاں نئے ساتھی ملے اور ان کے ساتھ اپنے معاملات برتنے لگے ۔
لیکن جامعہ سے ہم سب کا جو روحانی رشتہ ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم سب جہاں کہیں بھی رہیں جامعہ کے مفاد میں سوچیں، جامعہ سے ہم سب کا قلبی رشتہ ہو، اسی مقصد کے تحت ہم نے بلوگ سروس شروع کی ہے ، ہم اپنے تمام تیمی اخوان سے گزارش كر تے ہیں کہ اس حقیرکی دعوت کو قبول فرمائیں، صوت التیمی کے توسط سے اپنی آوازدنیا کے سامنے پہنچاتے رہیں ، اگرکسی کو براہ راست شرکت میں دقت پیش آتی ہو تو وہ اپنے مقالات مجھے ای میل کردیں ، میں ان کی خدمت کرنے کے لیے ہروقت تیار ہوں، انہیں شامل اشاعت کرنے کی ذمہ داری لیتاہوں۔ الحمدللہ صوت التیمی کا مشاہدہ کرنے والے سعودی عرب،قطر،کویت اور ہندوستان میں موجود تیمی اخوان کے علاوہ مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں، بلوگنگ سسٹم دعوت کے ساتھ ساتھ ہماری قلمی تربیت کا بھی بہترین ذریعہ ہے، جوکچھ چاہیں اس پر لکھتے رہیں ۔
ایک اہم بات رہ گئی ‘ وہ یہ کہ ہم نے صوت التیمی میں ایک کالم خاص کیا ہے ہے” تعرف علی التیمیین “اس کے تحت ہم اپنے تیمی احباب کی زندگی کے اہم گوشوں ،ان کی موجودہ کارکردگی ،ان کی علمی وسماجی خدمات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں ، اس لیے ہمارے جو تیمی احباب یہ مکتوب پڑھیں وہ اپنا مختصر سوانحى خا كہ تيار كركے مجھے ای میل کردیں ۔ اپنے رابطہ کا پتہ بھی ارسال کریں ۔
ایک خاص گزارش ہندوستان میں موجود تیمی احباب سے ہے کہ ابنائے جامعہ یا مادرعلمی سے متعلق جو خبر بھی ہو اس سے مجھے آگاہ کردیا کریں ، بس ای میل کے ذریعہ ....ابھی جامعہ میں کانفرنس ہوئی ہے ، کویت کے وفد نے جامعہ کا دورہ بھی کیا ہے ، اس کی رپورٹ اگر صوت التیمی میں آجاتی تو کتنا اچھا تھا ، برادرم معراج عالم تیمی صاحب جو ابھی ہندوستان کے سفرپر ہیں ان سے ہم گزارش کرتے ہیں کہ جامعہ کی خبر صوت التیمی پر ضرور ڈالیں اور اس کام کے لیے کسی تیمی کو نامزد کرنے کے بعد ہی تشریف لائیں ۔ تاکہ ہم سب جامعہ کے حالات سے باخبر رہیں ۔ حالیہ دنوں میرے پاس برادرم اسماعیل تیمی، برادرم کرم اللہ تیمی، اور میرے ہم سبق زاہد انور تیمی سب کا میل اسی موضوع پر آیا ہے کہ آج کل جامعہ میں کانفرنس ہورہی ہے ۔ بہرکیف ہم سب دور رہ کر بھی جامعہ کے مشتاق رہتے ہیں ۔اللہ تعالی جامعہ کو دن دونی رات دوگونی ترقی عطا فرمائے ، حاسدین کی نظر بد سے بچائے اور چمن کے مالی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ کا سایہ تادیر دراز رکھے آمین یارب العالمین
یہ چند باتیں تھیں جو قلم برداشتہ تحریر میں آگئی ہیں ، مجھے پوری امید ہے کہ میری آواز صدابصحرا ثابت نہ ہوگی-
مکمل تحریر >>

میں ہوں اورمیرے صرف ایک ماموں ہیں

سوال:

ایک بہن نے میراث کا ایک مسئلہ پوچھاہے کہ میری والدہ کی وفات ہوچکی ہے، اب میں ہوں اورمیرے صرف ایک ماموں ہیں، نہ میرے پاس بھائی بہن ہیں اورنہ ہی ماموں کے پاس ….ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ 

جواب :

صورت مسئلہ میں اگر کوئی عورت مرتی ہے اور اپنے پیچھے صرف ایک بیٹی چھوڑتی ہے، اورایک بھائی چھوڑتی ہے ….اگر صرف اتنے ہی لوگ ہیں اور کوئی نہیں ہے …. تو ایسی صورت میں بیٹی کو آدھا حصہ ملے گا اورباقی بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے لے لیگا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ألحقوا الفرائض بأھلہا فما بقی فھو لأولی رجل ذکر (بخارى ومسلم )
 "یعنی اہل فرائض کو ان کے مقررہ حصے دو ،اس کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریب ترین مرد کو دو ۔"
 
مکمل تحریر >>

محمد جاويد كے نام

مامو جان! السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میرے چند سوالات ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) قرآن خوانی کرنا کیسا ہے ؟ (2) نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا کیا حکم ہے ؟ (3) نماز سے سلام پھیرنے کے بعد پیشانی پر ہاتھ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ (4) گردن کا مسح کرنا کیسا ہے ؟ (5) اگر کوئی تراویح پڑھاتا ہولیکن روزہ نہ رکھتا ہو تو کیا اس کے پیچھے تراویح پڑھنا صحیح ہے ؟  (محمدجاويد –  دہلى )
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
(1)  قرآن کا نزول زندوں کے لیے ہوا ہے مردوں کے لیے نہیں۔اورعبادات توقیفی ہوتی ہیں جن کے لیے دلیل چاہیے اوراس تعلق سے کوئی دلیل نہیں پائی جاتی، لہذا مردوں کے لیے قرآن خوانی نہیں كى جا سکتى ۔
(2)
نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔ خواه قرأت سرى ہو يا جہري ، " لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب"- ( بخارى ومسلم) تفصیل کے لیے مولانا صلاح الدین یوسف کی تفسیر احسن البیان میں سورہ فاتحہ کی تشریح کے ضمن میں بحث دیکھ لیا جائے ۔
(3)
نماز سے سلام پھیرنے کے بعد سر پر ہاتھ رکھنا بدعت ہے ۔ اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ”من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد “(بخاري ومسلم) جس کسی نے میری شریعت میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ مردود ہے “ ايساہى فتوی کبار علماء کمیٹی سعودی عرب سے صادر ہوا ہے- ۔
(4)
کسی بھی حدیث سے  ثابت نہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے گردن کا مسح کیا ہو ۔ البتہ ابوداؤد کی یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ إن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مسح رأسہ حتی بلغ القذال ” رسول اللہ نے گدی تک گردن کا مسح کیا“ تو اس حدیث کو علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
(5)
اسلام ہمیں حسن ظن کی تعلیم دیتا ہے ۔ اس بنیاد پر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ امام کے پاس کسی طرح کا عذر ہے جس کی بنیاد پر وہ روزہ نہیں رکھ رہا ہے ۔ اگر واقعی کوئی عذر نہ ہو تو ایسے حافظ کو تراویح کی نماز کے لیے مقرر کرنا صحیح نہیں ۔ امامت نہایت اعلی عہدہ ہے جس کا حقدار نیک ، متقی اور پابند شریعت ہونا چاہیے ۔ اس کے باوجود اگر ایسا کوئی شخص ہمارا امام بنا دیا گیا ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے ۔ صحابہ کرام نے حجاج بن یوسف کے پیچھے نمازیں پڑھیں جو سب سے بڑا فاسق اور ظالم تھا۔

مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 07, 2011

تفسیر آیت الکرسی


 اللّہُ لاَ اله اَّلا ہُوَ الحَیُّ الَیُّومُ لاَ تَاخذُہُ سِنَة وَلاَ نَومّ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الاَرضِ مَن ذَا الَّذِی یَشَفعُ عِندَہُ َّ الا باِذنہِ یَعلَمُ مَا بَینَ اَیدِیہِم َومَا خَلفَہُم وَلاَ یُحِیطُونَ بِشَیءٍ مِّن عِلمِہِ  الا بِمَا شَاء وَسِعَ کُرسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالارضَ وَلاَ یَودُہُ حِفظُہُمَا وَہُوَ العَلِیُّ العَظِيم (سورة البقرة 255  )
ترجمہ: 
"اللہ ہی معبودبرحق ہے جس کے سوا کوئی معبودنہیں،جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے،جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند،اس کی ملکیت میں زمین وآسمان کی تمام چیزیں ہیں، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے،وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اورجو اس کے پیچھے ہے اوروہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگرجتنا وہ چاہے، اس کی کرسی کی وسعت نے زمین وآسمان کو گھیر رکھا ہے،وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا اورنہ اکتاتا ہے، وہ تو بہت بلنداوربہت بڑا ہے۔") سورة البقرة255 (

تشریح: 
قرآن کریم کی ساری آیات میں سب سے بہتر،سب سے عظیم اور سب سے افضل آیت ’آیت الکرسی‘ ہے۔ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا :”ابوالمنذر! کیاتم جانتے ہو کہ قرآن کریم کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے ؟“ کہتے ہیں : میں نے کہا: اللہ اور اسکے رسول زیادہ علم رکھتے ہیں ۔آپ نے پھر پوچھا:”ابوالمنذر!کیاتم جانتے ہو کہ قرآن کریم کی کونسی آیت سب سے عظیم ہے ؟کہتے ہیں ،میں نے کہا: اللّہُ لا اله الا هو الحي القيوم تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اورفرمایا: ”ابوالمنذر! تجھے علم مبارک ہو “۔(مسلم)
جوشخص فرض نماز کے بعد اس کی تلاوت کرتاہے وہ دوسری نماز تک اللہ کے حفظ وامان میں آجاتاہے،بلکہ اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کا مستحق بن جاتاہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من قرأ آیة الکرسی دبرکل صلاة مکتوبة لم یمنعہ من دخول الجنة الا أن یموت ”جس نے ہرنماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا اسے جنت میں داخل ہونے سے موت ہی روک سکتی ہے ( نسائی ،وصححہ الالبانی فی صحیح الترغیب والترہیب 1595 )

یہ آیت جن وشیاطین کے شر کے سامنے ڈھال کی سی حیثیت رکھتی ہے ،شیخ الاسلام ابن تیمیة نے فرمایاکہ ”آیة الکرسی جادوگروں کے جادو اور شعبدہ بازوں کی شعبدہ بازی کے ابطال کے لیے مجرب نسخہ ہے “۔جوشخص اس آیت کا اہتمام کرتاہے شیطان کے شرسے دور ہو جاتا ہے اور اللہ کے حفظ وامان میں آجاتا ہے ،صحیح بخاری میں ابوہریرہ  رضى الله عنه کی مشہور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوصدقہ فطر کی نگرانی پر مامورکیا تھا ،ان کے پاس رات میں لگاتار تین روز تک ایک شخص آتا رہا اور صدقہ فطر سے چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا،لیکن ہررات اس نے اپنے فقروفاقہ کی شکایت کی تو ابوہریرہ ؓنے اس پررحم کھاتے ہوئے معاف کر دیا،تیسرے روز اس نے ایک نسخہ بتایاکہ جب تم بستر پرسونے کے لیے جاؤ توآیت الکرسی پڑھ لو ،صبح تک اللہ کی طرف سے تیری حفاظت ہوتی رہے گی اورشیطان تیرے قریب نہ آسکے گا ۔ ابوہریرہ رضى الله عنه نے جب یہ ماجر ا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أما إنہ قدصدقک وھوکذوب ” اس نے تجھ سے سچ کہا لیکن وہ جھوٹاہے“ پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تین روزتک تمہارے پاس جوشخص آتارہا وہ دراصل شیطان تھا ۔(بخاری ) گویاشیطان نے اعتراف کیا کہ اللہ کی جناب میں اس کے شر سے پناہ حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ آیت الکرسی ہے۔

اس آیت کریمہ کی اس قدر اہمیت وفضیلت اسی لیے ہے کہ یہ اللہ تعالی کی قدرت وعظمت،اس کی وحدانیت اور صفات جلال پر مبنی نہایت جامع آیت ہے ، شرح صحیح مسلم میں امام نووی رحمہ الله نے فرمایا: ”علماءکہتے ہیں کہ آیت الکرسی دوسری آیتوں سے ممتازاس لیے ہے کہ یہ اسماءوصفات کے بنیادی اصول الوہیت ،وحدانیت ،زندگی ،علم ،ملک،قدرت اورارادہ پر مشتمل ہے ،اوریہ سات چیزیں اسماءوصفات کی اساس ہیں۔“ اسی بنیادپر اس کو پڑھنے ،صبح وشام کے اوقات میں اسے اپنا وظیفہ بنانے،سوتے وقت اور پنجوقتہ نمازوں کے بعد اس کا اہتمام کرنے کی بیحد ترغیب دلائی گئی ہے ۔

 آیت الکرسی میں اللہ گکی ذات وصفات اورجلالت شان کا مکمل تعارف آگیا ہے ، آیت کا آغاز لفظ ’اللہ‘سے ہوا جس کا اطلاق اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے نہیں ہوسکتا،وہی اللہ عبادت کا مستحق ہے اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کی جاسکتی،اورعبادت ہروہ ظاہری وباطنی اقوال وافعال ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتاہے مثلاً نماز،روزہ ،حج ، زکاة،دعا،استغاثہ،رکوع،سجدہ،قربانی، نذرونیاز وغیرہ جنہیں صرف اللہ گکے لیے انجام دینا ضروری ہے ۔ اسکے علاوہ کسی اورکی عبادت نہیںکی جاسکتی،اسکے علاوہ کسی اورکو مشکل کشااورحاجت رواسمجھانہیں جاسکتا۔یہی وہ پیغام ہے جس سے نبی پاک ا اپنی دعوت کا آغاز کرتے ہیں اوراپنی حیات طیبہ کے آخری لمحات تک اسکی یاددہانی کراتے ہیں : ”یہودیوں اور عیسائیوں پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوںنے اپنے انبیاءکی قبروںکو سجدہ گاہ بنالیا“۔(بخاری ومسلم)
 اللہ ہی ہماری عبادت کا مستحق کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ خالق ہے،مالک ہے،رازق ہے،ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،اس کی زندگی ازلی ہے،جس کی نہ ابتداءہے نہ انتہاہے ،ہر چیز سے بے نیاز ہے ، اورہر مخلوق اس کی محتاج ہے،جن وانس اورفرشتے ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتے،جن وانس کی فرمانبرداری سے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا اوران کی نافرمانی سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوسکتا،ہر طرح کے کمال سے متصف ہے،یہ اس کا کمال ہے کہ اُسے نہ کبھی اونگھ آتی ہے اورنہ نیند ،جسے اونگھ اورنیندآتی ہو اسے تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے،بیماری اورموت سے دوچار ہوتا ہے اوراللہ کی ذات ایسے نقص سے بالاتر ہے۔زمین وآسمان میں جتنی چیزیں ہیں خواہ عاقل ہوںجیسے فرشتے،انسان اورجن یا غیرعاقل جیسے حیوانات،نباتات اورجمادات‘ سبہوں کو اسی نے پیدا کیا ،ہر ایک کو شمار کرر کھا ہے اور ان سب کاحقیقی مالک ہے۔ اس کی کمال عظمت ہے کہ اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیرکسی کو کسی کی سفارش کرنے کی جرات نہ ہوگی،اوراجازت کے بعد بھی سفارش ایسے ہی لوگوں کی کرسکتے ہیں جن کے عمل سے اللہ راضی ہوحتی کہ ہمارے حبیب ابھی ایسے ہی لوگوں کی سفارش کریں گے جو موحدین میں سے ہوں۔ وہی ماضی مستقبل اورحال کا علم رکھتا ہے ،ساری مخلوق کی حرکات وسکنات سے آگاہ ہے ،جنگل میں ایک پتا گرتا ہے اسے بھی وہ جان رہا ہے ،اورسمندرمیں مچھلیاں کیاکرتی ہیں اس پر بھی وہ نگاہ رکھے ہوا ہے ،وہ آنکھوں کی خیانت اوردلوں کے بھید سے بھی آگاہ ہے ۔ بندوں کو اتنا ہی علم حاصل ہوسکتا ہے جتنا وہ انہیں عطا کردے ،ہرطرح کی ایجادات واکتشافات اللہ کے عطا کردہ علم ہی کی رہین منت ہیں۔ اس کی کرسی آسمان وزمین کا احاطہ کئے ہوئی ہے ،اورآسمان وزمین کی اس قدرعظمت کے باوجودوہ اس کی حفاظت سے نہ تھکتاہے اورنہ اکتاتا ہے، اس کی ذات بہت بلنداوربہت بڑی ہے۔

اس آیت پر غورکرنے سے بندے کا ایمان تازہ ہوتا ہے،اس کا یقین مضبوط ہوتا ہے،اپنے رب سے اس کا تعلق مستحکم ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ خودکواللہ کے علم اوراس کی نگرانی میں پاتا ہے،اس طرح اس کے اندردین پراستقامت اورثبات قدمی پیدا ہوتی ہے ۔
مکمل تحریر >>