اتوار, جنوری 26, 2014

اسلام ميں آزادى كا تصور

 ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آزاد رہے اور اس کی آزادی کو کوئی چیلنج كرنے والا نہ ہو، اسی قدرتی جذبہ کا احترام کرتے ہوئے اسلام نے انسان کو مکمل طور پر آزادی دی ہے.
آزادی کی اہمیت کا صحیح تجربہ وہی کر سکتا ہے جو آزاد فضا میں زندگی گزارنے کے بعد غلامی کی زنجيروں میں جكڑا ہوا ہو. اسی ليے اسلام نے آزادی پر بہت زور دیا، مولانا ابوالکلام آزاد رحمه الله لکھتے ہیں:

"انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کا بنيادى مقصد ہے." (تحريك آزادی صفحہ 14 )
مولانا دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
"اسلام نے ظاہر ہوتے ہی یہ اعلان کیا کہ حق طاقت نہیں بلکہ خود حق ہے، اور اللہ کے علاوہ کسی کے لئے مناسب نہیں كہ وه اس کے غلاموں کو اپنا تابع اور غلام بنائے." ( قول فيصل صفحہ 50)
مولانا آزاد نے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے صرف دو ہی راستے اپنانے کی دعوت دی ہے، آزادی یا موت، چنانچہ وه بے باکی سے کہتے ہیں:
"انسانوں کے برے رویے سے کسی کی تعلیم کی حقیقت نہیں جھٹلائى جا سکتی. اسلام کی تعلیم اس کى كتاب میں موجود ہے. وہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں رکھتی کہ آزادی کھو کر مسلمان زندگی گزارے. مسلمانوں کو مٹ جانا چاہیے.تیسرا راستہ اسلام میں کوئی نہیں" ( قول فیصل، 63-64)

عام کاموں میں انسان آزاد ہے:

 اللہ نے انسان کو عام کاموں میں پوری آزادی دی، جو چاہے کھائے، جو چاہے پہنے، جہاں چاہے جائے، جو کام چاہے اپنائے، جو چاہے خریدے اور جو چاہے بيچے. اس آزادی میں عورت اور مرد برابر ہیں، شادی بیاہ میں بھی مرد اور عورت آزاد ہیں کہ جن سے چاہیں شادی کریں یہاں تک کسی لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کی شادی بھی نہیں کی جا سکتی. اسی طرح ہر قسم کے سائنسی اكتشافات کی آزادی ہے کہ جس چیز کی چاہے تحقیق کرے.
اسلام نے انسان کو آزادی ضرور دی ہے لیکن اس آزادی کو اللہ اور اس کے احکامات کے تابع کر دیا ہے بالکل آزاد نہیں چھوڑا. اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
 وما كان لمؤمن ولامؤمنة إذا قضى الله ورسوله أمرا أن يكون لهم الخيرة من أمرهم - (الأحزاب 36)
"اور (دیکھو) کسی مومن مرد اور مومن عورت کے ليے اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی معاملے کا کوئی حق باقی نہیں رہتا . "
 اس لئے اللہ اور اس کے رسول نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے روک دیا ان سے رک جانا ہی آزادی کا صحیح استعمال ہے. لہذا ایک شخص کو یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اللہ کے اوامرسے لاپرواہی برتے یا اس کى منہيات کو پامال کرنے لگے. آزادی کے نام پر دین کا مذاق اڑانا، اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں برے الفاظ کا استعمال کرنا  اور اسلام کے کسی حکم کو دل سے نا پسند کرنا جائز نہیں. بلکہ ایسا کرنے والا  اسلام کے دائره سے نکل جاتا ہے. اسی طرح اگر مرد اور عورت زنا کے ليے آپس میں راضی ہو جائیں تو زنا جائز نہیں ہو جاتا. اور اگر سود کا  لین دین کرنے والے آپس میں راضی ہوں تو سود جائز نہیں ہو سکتا-

اصل غلامى كس كى ہونى چاہيے؟

اللہ کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ اس کی مخلوق کسی اور کی غلامی میں رہ کر زندگی گزارے. وجہ یہ ہے اللہ خالق ہے تو وہ اپنی ہر مخلوق سے غلامی کا مطالبہ اپنے آپ کے ليے کرتا ہے اور اپنے غلاموں کو اپنی غلامی میں دیکھنا چاہتا ہے. کیونکہ اس نے پوری كائنات کو پیدا ہی نہیں کیا ہے بلکہ ان كا منعم حقيقى بھی ہے. اور ان سب کى حفاظت بھی کر رہا ہے. جب اسی نے دنیا کو رچايا،  اسی نے ہر طرح کے احسانات کیے، وہی دنیا کو چلا رہا ہے اور دنیا کی مدت مکمل ہونے کے بعد وہی دنیا کو تباہ بھی کرے گا تو انسان کو قدرتی طور پر اسی کی غلامی میں رہنا چاہئے. اور اس کے علاوہ  ہر قسم کی غلامی کو رد کر دینا چاہيے.

اللہ کی غلامی میں آ جانے کے بعد ایک انسان ہر طرح کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے.جليل القدر صحابى رسول حضرت ربعى بن عامر رضى الله عنه نے شاه فارس رستم كو اللہ کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہا تھا: 
الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة الله ومن ضيق الدنيا إلى سعتها ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام
"ہمیں اللہ نے اس لیے بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو انسان کی پوجا سے نجات دلا کر اللہ کی عبادت کی طرف، دنيا كى تنگى سے كشادگى كى طرف اور مذاہب کے جور وظلم سے اسلام کے انصاف كى طرفلائیں".
جب مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضى الله عنه کے بیٹے نے ایک مصری کى بغیر کسی وجہ کے پٹائی کی تو مصری نے اس وقت کے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضى الله عنه کے پاس اس کی شکایت کی، خلیفہ نے گورنر اور ان کے بیٹے کو مدینہ بلایا، پھر مصری سے کہا :میرے سامنے تم گورنر کے بیٹے سے ویسے ہی بدلہ لے لو، جس طرح اس نے تمہاری پٹائی کی ہے. پھر فرمایا :
متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا
"تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا".
علی رضى الله عنه نے فرمایا:
لا تكن عبد غيرك وقد جعلك الله حراً  -
" اللہ نے تجھے آزاد پیدا کیا ہے اس لئے کسی اور کی غلامی قبول مت کر ."

دور جديد  میں غلامی کی مختلف شكليں:

 دنيا جب ترقی کے دور میں داخل ہوئى تو غلامی کی مختلف شكليں ظاہر ہونے لگیں. اسلام دشمنوں نے آزادی کے نام پر غلامی کے بہت سارے طریقے عام کئے تاکہ لوگ ان کے خيالات سے متفق ہو جائیں پھر وہ جیسے چاہیں لوگوں کو پھیرتے رہیں. اس طرح آزادی کے نام پر غلامی کے تصور کو پھیلایا جانے لگا. لہذا کچھ لوگ خواہشات کے غلام بن گئے کہ خواہشات ہی انہیں حركت دینے لگی، اٹھانے بٹھانے لگی. کچھ لوگ روپيے پیسے کے غلام بن گئے کہ دین سے بے پرواہ ہو کر دنیا کمانے میں پوری طرح مصروف رہنے لگے. کچھ لوگ منشیات کے ایسے غلام بن گئے کہ اپنی جوانی اور دولت تک کو گنوا بیٹھے.
یہ کہنا کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر جو چاہو كرو،  یہ خیال بالکل غلط ہے. کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سگریٹ پینا حرام اس ليے ہے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچتى ہے، اب اگر کوئی تنہائی میں سگریٹ پیتا ہے تو اسے اجازت دی جانی چاہیے. کوئی بند کمرے میں اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو اسے صحیح سمجھنا چاہئے …
اللہ کی قسم! یہ شیطانی فريب ہے. انسان تنہائی میں بھی آزاد نہیں ہوتا، وہاں بھی اللہ کی نگرانی اس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کے دائیں بائیں کندھوں پر فرشتے نگرانی کر رہے ہوتے ہیں.

بندھوا مزدورى:

آزادى كا استحصال كرنے والى ايك بهيانك رسم بندھوا مزدورى بهى ہے جو آج تک دنیا میں چلی آ رہی ہے، بھارت اور پاکستان سميت دنیا کے مختلف علاقوں  میں بندھوا مزدوری کی یہ بری رسم ایک سنگين مسئلہ کے طور پر موجود ہے. اس بارے میں اسلام نے وہ اصول دیئے جن سے بندھوا مزدوری کے خاتمہ میں مدد ملتی ہے:
سب سے پہلے اسلام نے ظلم سے روک دیا. اسی طرح اسلام کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے. اسلام میں زندگی کا لطف کسی خاص ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ سارے انسان چونکہ اللہ کے بندے اور آدم و حوا کی اولاد ہیں اس لئے زندگی کے لطف سے محظوظ ہونا ہر ایک کا حق ہے. اول کسی آزاد انسان کو اس کی آزادی سے محروم کرنا جائز نہیں. نہ یہ جائز ہے کہ کسی انسان کو زبردستی روک لیا جائے یا اس سے اس کی مرضی کے خلاف کام لیا جائے. بلکہ اسلام نے تو مزدوروں کے ساتھ حسن معاملہ کی تاکید کی. مزدور کا پسینہ سوکھنے سے پہلے مزدوری دینے کا حکم دیا. (ابن ماجہ) اس بات کا بھی حکم دیا کہ مزدوری پوری پوری دی جائے اس میں کوئی کمی نہ کی جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "میں ایسے شخص کے خلاف قیامت کے دن حريف بن کر کھڑا ہوں گا جو کسی مزدور کو مزدوری پر رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے لیکن اس کی مزدوری (پوری پوری) نہ دے “. (بخاری) اسلام نے اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ مزدور سے مزدوری طے کر کے ہی کام لیا جائے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: " جو کوئی کسی مزدور کو مزدوری پر رکھے تو چاہئے کہ اس کی مزدوری کو پہلے بتادے." (آثارالسنن) یہ تعليم اس ليے دی گئى تاکہ مالدارو ں كے اندر سے استحصال کی ذہنیت ختم ہو-
مکمل تحریر >>

جمعہ, جنوری 24, 2014

رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کى تين امتیاز ى خصوصيات


رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے سامنے جو پیغام پیش کیا وہ آفاقی پیغام ہے جوہرانسان ،ہرقوم اورہرقبیلہ کی یکساں رہنمائی کے قابل ہے ، وہ پیغام جس کی بنیادپرہردوراورہرزمانے میں متمدن ملک اورصالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے:

 وحدت الہ کا تصور:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اللہ کی عبادت اوربندگی کی طرف انسانوں کوبلایاوہ سارے انسانوں کارب ہے، وہ ساری مخلوق کاخالق ومالک ہے ،آپ نے اللہ تعالی کونہ تین میں کاایک بتایاجیساکہ عیسائیوں کانظریہ ہے ،نہ اسے انسانی شکل میں ماناجیساکہ ہندؤں کاعقیدہ ہے ،بلکہ لوگوں کواللہ کی وہی پہچان بتائی جواللہ تعالی نے اپنی حقیقی پہچان بتائی ہے:
 قل ھواللہ أحد اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا أحد (سورة الاخلاص)
”اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے ،اللہ بے نیاز ہے،نہ اس سے کوئی پیداہوااورنہ وہ کسی سے پیداہوا،اورنہ اس کا کوئی شریک ہے “ ۔
غرضیکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو جس اللہ کی عبادت کی طرف بلایاوہ صرف مسلمانوں کا اللہ نہیں بلکہ پوری انسانیت بلکہ ساری مخلوق کاخالق ومالک ہے چنانچہ قرآن اعلان کرتاہے:
یا أیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون (سورة البقرة 21)
”اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو،دوسروں کے رب کی نہیں ۔کون رب؟ الذی خلقکم ”جس نے تجھے پیداکیا“ یعنی جس اللہ نے تجھے پیداکیا،اورتجھے ہی نہیں بلکہ تجھ سے پہلے لوگوں کوبھی پیداکیا،لہذاعبادت بھی اسی ایک اللہ کی ہونی چاہئے ۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہماری پیشانی کی قدرکرتا ہے کہ اِسے صرف اسی ایک اللہ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ جوہمارا پیدا کرنے والاہے ،ہم سے پہلے لوگوں کا پیدا کرنے والا ہے ،جس نے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، سورج چاند بنائے ، پانی برسایا اور ہر طرح کی پیداوار نکال کر ہمارے لیے رزق بہم پہنچایا ، اور ہم پر ہرطرح کی انعامات کی توپھر عبادت بھی توصرف اسی ایک اللہ کی ہونی چاہیے، اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا :
فلاتجعلوا للہ أندادا وأنتم تعلمون (سورة بقرة 22)
"جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ"
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی عبادت کے ساتھ اپنی عبادت کابھی حکم دیاہوتا توہم کہہ سکتے تھے ،کہ اسلام صرف عربوں کادین ہے ، اورایسی صورت میں اسلام اوردیگرمذاہب میں کوئی فرق نہ رہ جاتا لیکن دعوت محمدی کی امتیازی شان یہی ہے کہ اس میں توحیدباری تعالی کاخالص تصورپایاجاتاہے،یہاں تک کہ اگرکسی نے اللہ کے نبی کے اندرہلکی سی الوہیت بھی مان لیا تووہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ،اسی لیے اسلام میں سب سے عظیم گناہ شرک کوقراردیاگیا ہے،یہی وہ گناہ ہے جس کی معافی اللہ کے ہاں نہیں ہے،اللہ تعالی نے فرماتاہے :
 إن اللہ لایغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشاء (سورہ النساءآیت نمبر 48)
" اللہ تعالی شرک کومعاف نہیں کر سكتا اورشرک کے علاوہ باقی جتنے گناہ ہیں اگرچاہے تو معاف کرسكتا ہے"

 وحدت آدم کا تصور :

دعوت محمدی کی دوسری آفاقی خصوصیت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انسانوں کو ایک مقصد ایک ہدف اور ایک نصب العین پر جمع کیا ، رنگ ونسل کے فرق کو مٹاکر ساری انسانیت کو ایک کردیا،سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیا ،جن کے بیچ کوئی بھیدبھاؤ،نسلی تعصب اورامتیاز نہیں ،آپ نے ہرطرح کی لسانی ،قبائلی ،اورملکی تقسیم کومٹایا اورسارے انسانوں کوایک ماں باپ کی اولادقراردیا ،قرآن کریم یہ تعلیم دیتاہے کہ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں، سب کانسب ایک ہے ،لہذاایک انسان کودوسرے انسان پرنسبی یاقبائلی بنیاد پرکوئی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی قرآن میں اللہ تعالی فرماتاہے :
 یا أیھا الناس إنا خلقناکم من ذکروأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا إن إکرمکم عنداللہ أتقاکم (سورہ حجرات آیت نمبر11)
"اے لوگوں ! ”ہم نے تم سب کوایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا یعنی تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو ایک ماں باپ کی اولاد ہو ،اورہم نے تمہیں خاندانوں اورقبیلوں میں اس لیے تقسیم کردیاہے ،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو ، ورنہ تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ بزرگ وہ ہے جوزیادہ پرہیزگارہو“۔
جس دین میں انسانوں کومختلف نسلوں اورگروہوں میں بانٹ دیاگیاہووہ دین کسی صورت میں آفاقیت کاحامل نہیں ہوسکتا، اسی لیے نبی خاتم نے سب سے پہلے نسلی بھیدبھاؤکی لعنت کودورکرنے کی طرف توجہ دیا، یہاں تک کہ حجة الواع کے موقع پر سوالاکھ صحابہ کرام کے مجمع کوخطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ”سنو! کسی عربی کوکسی عجمی پرکوئی فضیلت نہیں ہے ،اورنہ کسی عجمی کوعربی پر،نہ کسی گورے کوکسی کالے پر،نہ کسی کالے کوگورے پرکوئی فضیلت حاصل ہے ،ہاں اگرفضیلت وبرتری کاکوئی معارہوسکتاہے ،تووہ تقوی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں عداس نینوائی ،بلال حبشی، سلمان فارسی،صہیب رومی، ضمادازدی،طفیل دوسی، ابوذرغفاری، ابوعامراشعری،اسامہ نجدی ،کرزفہری اورعدی طا ئی،سب پہلوبہ پہلو بیٹھے نظرآتے ہیں ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی بنیاد پرجس معاشرے کی تشکیل کی تھی اس میں ہرقوم اورہرنسل کے لوگ جمع ہوگئے تھے ،اسلام نے سب کوآپس میں بھائی بھائی بنادیاتھا،اونچ نیچ اورچھوت چھات کانام ونشان مٹ چکاتھا،یہ وہ افاقی تعلیم ہے جو صرف مذہب اسلام میں پائی جاتی ہے ۔

 مکمل نظام حیات کی طرف رہنمائی :

رسالت محمدی کی تیسری آفاقی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، زندگی گزارنے کا طریقہ ہے ،زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کرتی ہے ،عقائد، عبادات، معاملات ،اخلاقیات ، معاشرت ومعیشت اور حلال وحرام غرضیکہ ہر شعبہ حیات میں اس کی جامع تعلیمات ملتی ہیں،اور اس تعلیم کی معنویت یہ ہے کہ اس میں کسی طرح کی کمی اوربیشی کی کوئی گنجائش نہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
”آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا،تم پر اپنی نعمت تمام کردی ،اورتمہارے لیے اسلام کوبحیثیت دین کے پسند کرلیا۔ ( سورة آل عمران 3)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتعلیمات پیش کیں ان کاتعلق انسان کے جملہ شعبہ حیات سے ہے ،چاہے ان کاتعلق روحانی زندگی سے ہو ،یا اخلاقی زندگی سے ،سیاسی زندگی سے ہویا اقتصادی زدگی سے ،انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی زندگی سے ، دنیامیں اسلام ہی ایسادین ہے ،جوایک نظام حیات رکھتاہے ،اس کے علاوہ دنیامیں کوئی اوردین نہیں ہے ،جوآپ کومکمل نظام حیات یعنی سسٹم آف لائف دیتاہو ،دیگرمذاہب میں دین نام ہے ،عبادت کے چندرسوم بجالانے کا ، رہامسئلہ اجتماعی زندگی کا،سیاسی زندگی کا،معاشی زندگی کا ،اورعدالتی نظام وقوانین کاتواس کامذہب سے کوئی تعلق نہیں ،جبکہ اسلام پورے کے پورے نظام حیات پرحاوی ہے ،چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاں ہمیں نمازروزے اورحقوق اللہ کی ادئیگی کاحکم دیا تووہیں بندوں کے حقوق بجالانے کی بھی تلقین کی ،ماں باپ، بیوی بچوں ،رشتہ داروں اورپروسیوں، عالم وجاہل ،مسلم غیرمسلم اورحاکم ورعایا سب کے حقوق،یہاں تک کہ جانور وں تک کے حقوق بتایا ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صحت کے آداب ،لباس کے آداب ،ملاقات کے آداب،سلام کے آداب ،گفتگوکے آداب ،مہمان کے آداب،میزبان کے آداب،مجلس کے آداب،کھانے پینے کے آداب،سونے جاگنے کے آداب،رشتے کے آداب،سفرکے آداب غرضیکہ زندگی کے سارے آداب سکھایا۔
 محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دی مثلاصبروتحمل ،ایثاروقربانی ،عدل وانصاف ،شفقت ورحمت ،شرم وحیا،احسان وبھلائی ، صدق وصفا،جودوکرم ،اورسخاوت وفیاضی وغیرہ ،اوربرے اخلاق سے منع کیا مثلاشروفساد،ظلم وزیادتی ،بغض وحسد ،دھوکہ دہی ،خودپسندی ،غروروتکبر،بخل وکنجوسی ،بے شرمی وعاجزی اورجھوٹ ودروغ گوئی ،وغیرہ ۔
 محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہر طرح کے جائز کاروبا اورحلال تجارت کاحکم دیا، اورکاروبار میں جھوٹ ، رشوت ، سود، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی اورقرض لے کرکھاجانا وعیرہ سے سختی کے ساتھ منع کیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح ،طلاق ، خلع، مصاہرت ، حضانت،اوررواثت کے احکام بتائے توجنایات کے حدود، قضاوکورٹ کے مسائل ،تعزیرات کے احکام،قاضی کی ذمہ داریوں حاکم وقت کے فرائض ملکی وبین الاقوامی اصول وقوانین سب کو کھول کھول کربیان کیا ۔ 
مکمل تحریر >>

جمعرات, جنوری 23, 2014

رسالت محمدی کی عالم گیریت

 زیرنظرمضمون میں ہماری گفتگو چار نکات پر مشتمل ہوگی جس کی روشنی میں ہرکہہ ومہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگاکہ رسالت محمدی ایک عالم گیراور آفاقی دعوت ہے :
پہلا نکتہ : تاریخی حیثیت سے ساتویں صدی عیسوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ۔
دوسرانکتہ : جغرافیائی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے لیے سرزمین مکہ کاانتخاب ۔
تیسرانکتہ : قرآن کریم اوراحادیث نبویہ کی حفاظت کی ضمانت۔
چوتھانکتہ : مذہبی کتابوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی پیشین گوئیاں ۔
ساتویں صدی عیسوی میں ہی نبی اکرم کی بعثت کیوں ؟
آخرساتویں صدی عیسوی میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیوں ہوئی؟ اس سے پہلے کیوں نہ ہوئی؟ آخرایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاکے بھیجنے کی کیاضرورت تھی ؟ کیوں نا اللہ تعالی نے شروع انسانیت کے وقت ہی رحمت عالم کو پیدا کردیا اورانہیں مکمل ضابطہ حیات دے کربھیج دیا؟ جب آپ اس نکتے پرغور کریں گے توآپ کوخودبخود سمجھ میں آجائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتویں صدی میں آنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے تھے وہ کیسے ؟
 اللہ تعالی کایہ نظام ضرورتھا کہ پوری انسانیت کوایک اللہ،ایک رسول اورایک ہی نظام حیات کے ذریعہ ایک پلیٹ فارم پرجمع کردیاجائے تاکہ سارے بھیدبھاؤ دورہوجائیں لیکن شروع میں ایسا کرنا ممکن نہ تھا ، کیونکہ لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں بٹے ہوئے تھے، ان میں آپسی میل جول نہ تھا،ان کی زبانیں بھی الگ الگ تھیں ،اس وقت ایک ملک سے دوسرے میں آمدورفت کے ذرائع بھی محدود تھے،کہیں دوملکوں کے بیچ میں سمندر تھا توکہیں پہاڑ،کہیں چٹیل میدان تھا توکہیں جنگل ،جن کاپارکرنااس وقت کے آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا ، ایسی حالت میں ایک ہی نبی کاپوری انسانیت کی ہدایت ورہبری کرنا ممکن نہیں تھا ،اسی لیے اللہ تعالی نے ہرملک اورہرقوم میں الگ الگ نبی اوررسول بھیجا تاکہ لوگوں کی ہدایت کاکام بآسانی ہو سکے ۔
اوردوسری بات یہ ہے کہ اس وقت انسانی عقل بھی محدود تھی ،واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کی ترقی اس طرح ہوئی ہے ،جس طرح ایک بچے کی ہوتی ہے کہ بچپن سے سن شعور ، اورسن شعور سے جوانی ،ایسی حالت میں انہیں جامع نظام حیات نہیں دیا جاسکتا تھا،اسی لیے اللہ تعالی نے مریض کی طاقت کے مطابق دوا کاانتخاب کیا اورانسانیت کو اتنے ہی احکامات دیئے جن کی وہ طاقت رکھتی تھی ، یہی پیشین گوئی عیسیٰ علیہ السلام نے کی تھی : ”مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے مگر ان سب باتوں کو تم برداشت نہ کرسکوگے لیکن جب روح حق آئے گا توتم کوسچا ئی کی راہ دکھائے گا “۔ ( یو حنا باب 16درس 12)
اس تفصیل سے معلوم یہ ہوا کہ انسانیت ساتویں صدی عیسوی سے پہلے تک اس قابل نہیں تھی کہ اسے مکمل نظام حیات دیاجاسکے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں حالات سازگارہوچکے تھے ،انسانی عقل ودماغ میں وسعت آچکی تھی،آمد ورفت کے ذرائع بہت حدتک میسر ہوگئے تھے ، مختلف قوموں میں لکھنے پڑھنے اوراجنبی زبانوں کے سیکھنے کارجحان عام ہوگیا تھا ،تجارت اور کاروبار میں ترقی کے ساتھ ساتھ قوموں میں آپسی تعلقات قائم ہوچکے تھے،چین اورجاپان سے لیکر یورپ اورافریقہ کے ممالک تک بری اور بحری سفر وں کی شروعات ہوچکی تھی ، اس طرح وہ دوری اورجدائی جوپہلے قوموں کے بیچ پائی جاتی تھی ،دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی اوریہ ممکن ہوگیا کہ اسلام کی ایک ہی تعلیم اورایک ہی نظام حیات ساری انسانیت کے لیے بھیجا جائے ،کسی شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا   

جہاں کے واسطے ایک آخری پیام آیا
جی ہاں ! یہ تھا آخری پیام پوری انسانیت کے نام ۔جواس وقت آیاجبکہ انسانیت اپنی پوری جوانی پہ آچکی تھی ،اب قیامت تک کوئی پیام آنے والا نہیں ہے ۔
جغرافیائی حیثیت سے آپ کی بعثت کے لیے سرزمین مکہ کاانتخاب
 سرزمین مکہ عالمی دعوت کے لیے نہایت موزوں تھی ، اس لیے کہ یہ ملک ایشیا اورافریقہ کے ٹھیک وسط میں واقع ہے، اوریورپ بھی یہاں سے بہت قریب ہے ، اورآج جغرافیائی تحقیق نے یہ ثابت کردیاہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بری حصہ کے بالکل وسط میں واقع ہے ، اس تحقیق کاسہرا ایک مسلمان سائنس داں ڈاکٹرحسین کمال الدین کے سرجاتاہے ۔سن 1977عیسوی میں ڈاکٹرحسین کمال الدین نے سمت قبلہ کی تعیین کے لیے ایک کامپس تیارکرنے کے ارادہ سے کرہ ارضی کاایک جدید جغرافیائی نقشہ تیار کیا اورتحقیق شروع کی ، اپنی ابتدائی تحقیق میں پہلی لکیڑ کھینچا ، اوراس پر پانچ براعظموںکا نقشہ بنایاتو غیرارادی طورپر ان کے سامنے یہ تحقیق ظاہر ہوگئی کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بالکل وسط میں واقع ہے ۔
 اورجب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے بری حصہ کے بالکل وسط میں واقع ہے تو اس ناحیہ سے ضرور ت تھی کہ مکہ مکرمہ جیسی مرکزی سرزمین ہی عالمی رسالت کاگہوارہ بنے تاکہ اس کاپیغام پوری دنیا میں بآسانی پھیل سکے ۔
سرزمین مکہ کی دوسری خصوصیت جس کی طرف مولانامودودی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ عرب ہر طرح کی برائیوں میں لت پت ہونے کے باوجود بہادر تھے ،نڈرتھے ،سخی اوردریادل تھے ،اورعالمی رسالت کی نشرواشاعت کے لیے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی، پھران کی زبان بھی عربی تھی جس کے اندر لطافت اور شیرینی کے ساتھ ساتھ ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ مختلف معانی کوکم سے کم الفاظ میں سمولے ، اورآخری کتاب الہی کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی ۔
اس سرزمین کی تیسری خصوصیت جس کی طرف ڈاکٹر التفات احمد نے اشارہ کیا ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت نہیں تھی جودعوت اسلامی کی راہ میں مزاحم بنتی، کیوں کہ آپ سے پہلے انبیاءورسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک میں بھی وہ بھیجے گئے ،سب سے پہلے اس ملک کے بادشاہوں نے ان کی مخالفت کی کہ مبادا ان کی حکومت چھن جائے یہاں تک کہ کسی کوقتل کردیاتو کسی کوجلاوطنی پرمجبوری کیا،جب کہ مکہ مکرمہ کی حالت اس کے بالکل برعکس تھی ،پورے مشرق وسطی میں عرب ہی وہ دیش تھا ،جہاںکوئی راجانہیں تھا ،وہاں ہرقبیلے کی اپنی اپنی سر داری تھی ،پھراللہ کی عنایت یہ بھی ہوئی کہ اس نے آپ کومکہ کے سب سے معزز قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب کے گھر پیدافرمایا کہ اپنے پرائے کوئی آپ کی مخالفت کی جرأت نہ کرسکیں ،اس بنیادپرآخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوپورا موقع مل گیا کہ محض 23سال کی مدت میں پورے عرب میں اسلامی حکومت کی تعمیر کرسکیں، غرضیکہ سرزمین مکہ سے دعوت محمد ی کاآغاز اس کی آفاقیت کی واضح دلیل ہے ۔
کتاب وسنت کی معجزانہ حفاظت
رسالت محمدی کی آفاقیت کی ایک دلیل کتاب وسنت کی معجزانہ حفاظت کااہتمام بھی ہے ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام پوری انسانیت کے نام تھا ،اس لیے ضرورت تھی کہ آپ کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کاپورابندوبست کیا جائے ،انبیاورسل کی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے ماننے والوں نے ان کے مرنے کے بعد کلام الہی میں ردوبدل کردیا،خاتم النبیین کی بعثت کے وقت یہ بہت بڑا سوال تھا کہ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والانہیں تھا ،اگر کلام الہی میں تبدیلی واقع ہوگئی تو قیامت تک دنیاتاریکی میں بھٹکتی رہے گی ،ظاہر ہے کہ اس کے لیے زبردست انتظامات کی ضرورت تھی ۔چنانچہ اللہ پاک نے اس سلسلے میں متعددانتظامات کیا:
پہلا انتظام : اب تک رسولوں پرجوکتابیں اتری تھیں وہ صحیفے کی شکل میں بیک وقت اتری تھیں ،لیکن آخری کتاب کے تعلق سے اللہ تعالی نے اس نظام کوبدل دیا اور23سال کی لمبی مدت میں موقع اورمناسبت سے آپ پرقرآن کواتاراتاکہ لوگ اسے بآسانی لکھ لیں ،سمجھ لیں اورسینوں میں محفوظ کرلیں ،اس طرح قرآن کریم حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پوری طرح سے محفوظ کرلیاگیا۔
دوسراانتظام : اس کتاب کی حفاظت انسانوں کے سرنہیں رکھا بلکہ اس کی ذمہ داری خود لے لی چنانچہ فرمایا : انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون (سورہ الحجر 9) ”ہم نے ہی ذکریعنی قرآن کریم کواتاراہے ،اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “۔
تیسرا انتظام :اللہ تعالی نے قرآن کریم کو معجزہ بنادیا: یعنی اللہ تعالی نے اس کاایسااسلوب رکھا کے پوری انسانیت بھی مل کر اس کے اسلوب میں ایک آیت بھی بنانا چاہے تونہ بناسکے ۔
چوتھاانتظام: قرآن کریم کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اورآپ کی احادیث کی حفاظت کے لیے بھی ایسے جہابذہ کوپیدافرمایاجنہوں نے اس کام کوبحسن وخوبی انجام دیا، محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن سے لے کر آخری وقت تک جوکچھ کیا اوربولاان کے ساتھیوں نے اسے یادکیااورکچھ لوگوں نے اسے لکھا، پھربعد کی نسلوں تک پہنچایا ،جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے ،پھر سننے والوں نے دوسروں کو سنایا یہاں تک کہ اسے لکھ دیاگیامثلافلان نے فلاں سے کہااورفلاں نے فلاں سے کہاکہ میں نے اپنے کانوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے ،جن لوگوں کے ذریعہ یہ حدیثیں دوسروں تک پہنچتی ہیں انہیں راوی کہتے ہیں ، مورخین نے ان راویوں کے پورے حالات لکھا ہے، اگران میں کوئی جھوٹا تھا یاان کی یاداشت کمزورتھی،ان کے ذریعہ سے بیان کی گئی احادیث کو ردکردیاگیا،اس اہتمام کی بنیاد ی وجہ یہی تھی کہ یہ دین عالم گیر دین تھا جسے قیامت کے دن تک انسانیت کی رہنمائی کافریضہ انجام دینا تھا۔
 مذہبی کتابوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی پیشین گوئیاں
رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقیت کی ایک بنیادی دلیل یہ بھی ہے کہ پچھلی کتابوں میں آپ کی آمدکی بشارت دی گئی ہے ،کہیں آپ کے نام کی صراحت کے ساتھ توکہیں آپ کے صفات کاذکرکرکے ۔قرآن کریم نے بھی تورات وانجیل میں آخری نبی کی بشارت کے وجود کی تائیدکی ہے، اللہ تعالی نے فرمایاہے : الذین یتبعون الرسول النبی الأمی الذی یجدونہ مکتوباعندھم فی التوراة والإنجیل ”وہ اس رسول کی اتباع کرتے ہیں ،جونبی امی ہیں جس کے اوصاف کووہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہواپاتے ہیں “ بلکہ خود عیسی علیہ السلام نے آپ کی آمد کی خوش خبری سنائی اورپیشین گوئی کی ہے ،چمانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: وإذ قال عیسی ابن مریم یا بنی اسرائیل إنی رسول اللہ إلیکم مصدقا لما بین یدی من التوراة ومبشرا برسول من بعدی اسمہ أحمد اورجب عیسی علیہ السلا م نے کہا ”اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں “ میں تورات کی تصدیق کرتاہوں جومجھ سے پہلے تھی اورتمہیں ایک رسول کی بشارت دیتاہوں جومیرے بعد آئے گاجس کا احمد ہوگا ۔
(سورہ صف آیت نمبر7) یہی بشارت عیسی علیہ السلام انجیل یوحناباب 16درس 7میں کچھ یوں دیتے ہیں ''میں اب جارہا ہوں،اگرمیں نہیں جاؤں گا تووہ مددگاریعنی فارقلیط نہیں آئے گا، میں چلاگیا تو اسے تمہاری طرف بھیج دوں گا، جب وہ آے گا توسب جہاں والوں کوگناہ پرتنبیہ کرے گا " ۔ انجیل کے اس جملہ میں بالکل واضح اندازمیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی خوشخبری دی گئی ہے ،یونانی زبان میں مددگارکی جگہ فاقلیط لفظ کا استعمال ہواہے ،جس کامعنی ہوتاہے احمد یعنی بہت تعریف کیا ہوا، یاقابل تعریف ،اور آپ ہی نے شروفساد کے سمندرمیں تیرتی ہوئی انسانیت کوخدائے واحدپرجمع کیا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی بشارت تورات وانجیل کے علاوہ دیگر قدیم مذہبی کتابوں میں بھی وارد ہوئی ہے ،اگرچہ ان کتابوں کے من عنداللہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ۔چنانچہ گوتم بدھ نے موت کے وقت اپنے شاگرد ننداکوکان میں ایک نئے بدھ کے آنے کی خبردی تھی جس کانام میتری ہوگا۔ اورمیتری کامعنی ہوتاہے محمد-
ہندومذہب کی کتابوں میں بھی آپ کاذکرملتاہے ،چنانچہ ویدوں میں 31مقامات پرنراشنس کے نام سے نام سے آپ کاتذکرہ کیاگیا ہے ،
نراشنس لفظ نراورآشنس سے مل کربناہے ،نرکامطلب ہوتاہے انسان اورآشنس کامطلب ہوتاہے تعریف کیاہوا،یعنی وہ انسان جس کی تعریف کی گئی ہواوریہی معنی محمد کابھی ہوتاہے ۔
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ہندومذہب میں کلکی اوتارکی آمدکاانتظارہورہاہے ،جوہندومذہب کے مطابق سب سے آخری اوتار ہوں گے ،ان کے صفات بھی مذہبی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں ،تحقیق سے پتہ چلتاہے کہ وہ آخری اوتاریانبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،چنانچہ کلکی اوتارکی تاریخ ولادت کاذکر کلکی پران ادادھیائے 2شلوک 15میں اس طرح آیا ہے :”جس کے جنم لینے سے دکھی مانوتاکاکلیان ہوگا ،اس کاجنم مدھوماس کے شمبھل پکچھ اورربیع فصل میں چندرماکی بارہویں تیتھی کوہوگا ،اورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بھی 12ربیع الاول کوہوئی ،اور آپ ہی نے سسکتی ہوئی انسانیت کوجام حیات پلایا ،اسی طرح شری مدبھگوت مہاپوران ادھیائے 12۔۔کھنڈ 2-۔اورشلوک 18 میں آپ کی جائے پیدائش اورماں باپ کانام بھی ذکرکیاگیاہے ،چنانچہ کلکی اوتارکی جائے پیدائش شمبھل بتایاگیاہے (شمبھل ) کالفظی معنی ہوتاہے امن وسکون کاگھریعنی دارالامن اورمکہ جہاں آپ کی پیدائش ہوئی اسے عربی میں دارالامن کہاجاتاہے ،۔
کلکی کے باپ کانام (وشنویش) بتایاگیاہے ،وشنویش دولفظوں سے مرکب ہے ،وشنواورویش وشنوکامعنی ہوتاہے اللہ اوریش کامعنی ہوتاہے بندہ یعنی اللہ کابندہ اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کانام بھی عبداللہ تھا جس کامطلب ہوتاہے اللہ کابندہ ۔کلکی ماں کانام سومتی بتایاگیاہے ،جس کامطلب ہوتاہے شانتی اورنرم طبیعت والی اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ماں کانام آمنہ تھا ،جس کامطلب ہے شانتی والی ۔
ڈاکٹروید پرکاش اپادھیائے نے اپنی کتاب ”کلکی اوتار محمدصلی اللہ علیہ وسلم “ اورڈاکٹر ایم اے شری واستونے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوربھارتی دھرم گرنتھ میں،کلکی اوتار اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صفات کاتقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ آج ہندودھرم میں جس کلکی اوتارکاانتظارکیاجا رہاہے ،وہ آچکے اور وہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
بلکہ ہندو مذہبی کتابوں میں بعض جگہ پرآپ کانام کی صراحت کے ساتھ آپ کی اتباع کولازمی قرار دیاگیاہے ،چنانچہ یجرویدادھیائے 18اشلوک 31میں آیاہے:
" ویداحمدعظیم انسان ہیں ،سورج کے مثل اندھیرے کودورکرنے والے ،انہیں کوجان کرآخرت میں کامیاب ہواجاسکتاہے ،اس کے علاوہ کامیابی تک پہنچنے کاکوئی دوسراراستہ نہیں " ۔
سبحان اللہ ! کس قدرصراحت کے ساتھ آپ کے آنے کی خبردی گئی ہے ،اور آپ کی اطاعت کوہی نجات کاضامن بتایا گیا ہے،غرضیکہ مذہبی کتابوں میں آپ کی آمدکی پیشین گوئی کامطلب اس کے علاوہ اورکچھ نہیں کہ آپ کی بعثت پوری انسانیت کے لیے ہوئی تھی ، خود اللہ نے کہا:وما ارسلناک الارحمة للعالمین ”ہم نے آپ کوسارے جہاں کے لیے رحمت بناکربھیجاہے“ ۔

مکمل تحریر >>

اتوار, جنوری 19, 2014

اسلام رنگ ونسل کے فرق کو مٹاتا ہے


بعض اہل قلم جب اس موضوع پر لکھتے ہیں تو بالعموم ”اسلام دین مساوات “ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ،حالانکہ اسلام عدل وانصاف کا مذہب ہے ،مساوات کا قائل نہیں ،کیونکہ اس سے لازم آئے گا کہ مسلم اور کافر، مرد اورعورت سب کے احکام برابر ہوں، اور ان کے بیچ برابری اورمماثلت پائی جائے ،حالانکہ شریعت نے دونوں کے احکام میں تفریق کوملحوظ رکھا ہے ،ہاں! مسلم اورغیرمسلم ،مرداورعورت بعض احکام میں برابر ضرور ہیں تاہم اس لفظ کا استعمال علی الاطلاق نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ”اسلام دین مساوات “ کی بجائے ”اسلام دین عدل “ کا استعمال کیاجائے۔

اس حوالے سے شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ شرح العقیدہ الواسطیہ ( 1/180۔181) میں لکھتے ہیں :
” کچھ لوگ ’عدل ‘ کی جگہ ’مساوات ‘ کا استعمال کرتے ہیں ، جوکہ غلط ہے ، مساوات نہیں کہا جاسکتا ،کیونکہ مساوات کا تقاضا ہے دوچیزوں کے بیچ برابری کر نا ، حالانکہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں کے بیچ تفریق ہو، اسی ظالمانہ پروپیگنڈہ کی بنیاد پر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مردوعورت کے درمیان کیا فرق ہے ؟ مردوخواتین کے درمیان مساوات کا نعرہ لگانے لگے ، یہاں تک کہ کمیونزم نے یہ کہاکہ حاکم اورمحکوم ،بادشاہ اوررعایا کے درمیان کوئی فرق نہیں ،کسی کی کسی پر حکومت نہیں چل سکتی ،حتی کہ باپ بیٹے پر حکومت نہیں چلا سکتا ۔ لیکن جب ہم عدل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مفہوم ہوتا ہے ہرمستحق کو اس کا حق ادا کرنا ، اس سے کوئی ممانعت لازم نہیں آئے گی ، اورعبارت بھی صحیح ہوجائے گی ، اسی لیے قرآن کریم میں کسی جگہ نہیں آیا کہ  إن اللہ یأمر بالتسویة کہ اللہ تعالی تم کو مساوات کا حکم دیتا ہے بلکہ یوں آیا ہے:  إن اللہ یأمربالعدل  ”اللہ تعالی تمہیں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے “۔ اس لیے جنہوں نے کہا کہ’ اسلام دین مساوات ہے‘ انہوں نے کذب بیانی کی بلکہ ’اسلام دین عدل وانصاف‘ ہے ۔ “

اس دنیا میں جوچیزیں قدیم زمانے سے عالم گیر فساد کاباعث بنی ہیں ان میں ایک ہے رنگ ،نسل، زبان، وطن اورقومیت کاتعصب وغیرہ ، ہردورمیں انسانوں نے اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دائرے زبان کی بنیاد پرکھینچے ہیں ،کبھی جغرافیائی خطے کی بنیاد پر کھینچے گئے ،توکبھی رنگ ونسل کی بنیاد پرکھینچے گئے ،اوربات یہیں پرختم نہ ہوئی بلکہ غیروں کے ساتھ نفرت، عداوت اورظلم وستم کی بدترین شکلیں بھی اپنائی گئیں ،اورصد حیف کہ آج بھی نسلی امتیاز ات میں کمی نہ آئی ہے ،لیکن اسلام جوفطری مذہب ہے ، خالق کائنات کااتارا ہوا دین ہے جوساری انسانیت کی ہدایت کاضامن ہے، اس نے کسی طرح کی لسانی یا نسلی تفریق کو برداشت نہیں کیا، سارے مذاہب میں محض اسلام کوخصوصیت حاصل ہے کہ وہ اخوت با ہمى  کا ایک عالمی تصور پیش کرتا ہے ،اسلامی  اخوت    کسی خاص قوم یاکسی خاص علاقے کے لیے نہیں بلکہ وہ آزادی اور اخوت کاایک عالمگیر پیغام ہے،اسلام نے زبان وقوم، رنگ ونسل اورعلاقائیت کے تمام نسلی امتیازات کو مٹادیا اورساری انسانی برادری کوایک کنبہ قراردیا- اللہ تعالی کاارشادہے :
 یا أیھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء (سورة النساء 1 ) 
”اے لوگوں ! اپنے رب سے ڈروجس نے تجھے ایک جان سے پیداکیااوراسی سے اس کاجوڑا پیدا کرکے ان دونوں سے مرداورعورتیں کثرت سے پھیلادیئے“۔
اس آیت میں انسان کی شروعات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ انسان کی ابتداءصرف ایک آدمی سے ہوئی ہے ،اوراسی سے اس کی شریک حیات بھی بنائی گئی ،یہ دنیاکے پہلے انسان ہیں جن کو کچھ لوگ آدم اورحوا کہتے ہیں توکچھ لوگ منواورشتروپا اورکچھ لوگ ایڈم اورایو ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب انسان کی پیدائش ایک ہی ماں باپ سے ہوئی ہے تومختلف قبائل اوربرادریوں میں بٹنے کی حکمت کیاہے ؟ تواس کاجواب اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں دے دیاہے :
 یا أیھا الناس إناخلقناکم من ذکرو أنثی وجعلناکم شعوباوقبائل لتعارفوا إن أکرمکم عنداللہ أتقاکم (سورة الحجرات 11)
 ”اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیداکیااورپھرتمہاری قومیں اوربرادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ،جوتمہارے اندرسب سے زیادہ پرہیزگارہے ،یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے “۔
یعنی اللہ نے تم کوکنبوں اورقبیلوں میں اس لیے بانٹاہے تاکہ تم میں کابعض بعض کے خاندان کی پہچان کرسکے اوراپنے آباءواجداد کے علاوہ دوسروں کی طرف اپنا انتساب نہ کرے، یہ مطلب نہیں ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے پرفخرجتاؤ ،فرق وامتیاز کا دعوی کرو اور دوسروں پراپنی برتری ثابت کرو ۔
مذكوره آیت کی تفسیر میں مولانا سیدابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ نے نہایت پتے کی بات کہی ہے: آپ لکھتے ہیں :
اس مختصرسی آیت میں اللہ تعالی نے تمام انسانوں کومخاطب کرکے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں :
ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے،ایک ہی مرد ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے،ایک ہی الله تمہارا خالق ہے ، ایسانہیں ہے کہ مختلف انسانوں کومختلف خداؤں نے پیداکیاہو،ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو،ایسابھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا اچھے مادے سے بنے ہوں اورکچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یاگھٹیامادے سے بن گئے ہوں - ایک ہی طریقے سے تم پیداہوئے ہو ، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کے طریق پیدائش الگ الگ ہوں۔ اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو یہ بھی نہیں ہواہے کہ ابتدائی انسانی جوڑے بہت سے رہے ہوں ،جن سے دنیاکے مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیداہوئی ہوں "۔
گویا کہ بنی نوع انسان میں چارطرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے ،ان کاپیداکرنے والاایک ہے ،ان کامادہ پیدائش ایک ہی ہے اوران سب کانسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتاہے ، یہ تو پہلاوصول ہوا۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے تمہارا قوموں اورقبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امرتھا، ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پرسارے انسانوں کاایک ہی خاندان تونہیں ہوسکتا تھا،نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیرتھاکہ بے شمار خاندان بنیں اورپھرخاندانوں سے قبائل اوراقوا م وجود میں آجائیں مگراس فطری فرق کاتقاضایہ ہرگزنہیں تھاکہ اس کی بنیاد پراونچ اورنیچ ،شریف اورکمین ،برتر اورکمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں بلکہ یہ توباہمی تعارف اورتعاون کی فطری شکل تھی مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیزکواللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کاذریعہ بنایاتھا ،اسے تفاخراورتنافرکاذریعہ بنالیاگیا،اورپھرنوبت ظلم وعدوان تک پہنچادی گئی ۔
تیسرے یہ کہ انسان اورانسان کے درمیان فضیلت اوربرتری کی بنیاد اگرکوئی ہے اورہوسکتی ہے تووہ صرف اخلاقی فضیلت ہے ،کیوں کہ کسی شخص کاکسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہوناایک اتفاقی امرہے ،جس میں اس کے ارادہ وانتخاب کاکوئی دخل نہیں ہے، لہذاکوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کوکسی پرفضیلت حاصل ہو،اصل چیزجس کی بناپرایک شخص کودوسروں پرفضیلت حاصل ہوتی ہے وہ ہے تقوی ،نیکی پرہیزگاری اورپاکیزگی وغیرہ- ایساآدمی خواہ کسی نسل کسی قوم ،اورکسی ملک سے تعلق رکھتاہو،اپنی ذاتی خوبی کی بناپر قابل قدرہے ،اورجس کاحال اس کے برعکس ہووہ بہرحال کمتردرجے کاانسان ہے ،چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہویامغرب میں ۔
عزیزقاری ! یہ توقرآن کاتصوراخوت تھا،اب آئیے ہم آپ کے سامنے اس تصورکاعملی نمونہ پیش کرتے ہیں ،بعثت نبوی سے پہلے عرب سماج بھی دوسرے ملکوں کے جیسے تین حصوں میں بٹا ہوا تھا،عربی ،عجمی،اورغلام ،آپ صلى الله عليہ وسلم نے جب انسانوں کوایک اللہ کاپیغام سنایا،توحید کی دعوت دی ،اوربتایاکہ سب انسان ایک ہی ماں باپ کی اولادہیں،اس لیے رنگ ،نسل اورقبیلے کی بنیادپرکسی طرح کی تفریق نہیں کی جاسکتی ، یہ فطرت کی آوازتھی جوکانوں تک پہنچی تو فوراانہوں نے اس پکار پر لبیک کہا، صدیوں سے ذہن و دماغ میں جمی ہوئی چھوت چھات کی لعنت ختم ہوگئی،عرب کاغلام جوآج کے شودھروں سے بھی نیچاتھا،اسلامی سماج کا یہ اثرہواکہ وہ اسلامی سماج میں برابر کا ایک باشندہ بن گیا ،اورنسلی امتیازکے سارے تصورات مٹ گئے ۔ 
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی

 کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست۔
اس اسلامی معاشرے میں ہرقوم اورہرنسل کے لوگ جمع ہوگئے ،اسلام نے سب کوآپس میں بھائی بھائی بنادیا،اونچ نیچ اورچھوت چھات کا نام ونشان مٹ گیا-
یہ حضرت بلال رضى الله عنہ ہیں، حبشہ کے تھے، شکل وصورت میں نہایت کالے تھے،ان کے پاس کوئی صنعت وحرف بھی نہیں تھی،اسلام قبول کرنے سے پہلے انسانوں میں بھی ان کاشمارنہیں ہوتاتھا ،لیکن جب اسلام قبول کرکے اسلامی معاشرہ میں ضم ہوتے ہیں توانہیں ایسامقام حاصل ہوتاہے کہ بڑے بڑے شرفائے عرب ان کواپنی بیٹی دینا موجب عزت سمجھتے ہیں ، امیرالمؤمنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ انہیں سید کہہ کرپکارتے ہیں .
حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوپکارتے ہیں توآپ انہیں لبیک کے ساتھ جواب دیتے تھے ،جونہایت احترام کاکلمہ ہے-
اسی طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ کو دیکھئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ غلام تھے ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پرواہ کیے بغیران کی شادی اپنی پھوپھی زادبہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کردی، ہجرت کے اولیں دور میں جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انصار ومہاجرین کے درمیان مواخاة کرائی توآپ کے آزاد کردہ غلام زید رضی اللہ عنہ ،اورآپ کے چچا دونوں بھائی بھائی قرارپائے -
اس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کوغزوہ موتہ میں فوج کاکمانڈر بناکربھیجا پھران کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روم کے محاذ پر جانے والے ایک ایسے لشکر کاسپہ سالار بنایا جس میں مہاجرین وانصار کی اکثریت شامل تھی ،جن میں ابوبکراورعمررضی اللہ عنہما بھی تھے ،جب حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم واصل بحق ہوئے اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس فوج کوروانہ کرنا چاہا توحضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو کمانڈرباقی رکھا، جب فوج کوالوداع کرنے کے لیے مدینہ سے باہرنکلے تودنیانے دیکھا کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ پیدل چل رہے ہیں،اورحضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سواری پرسوارہیں ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی جیش اسامہ میں شامل تھے،آپ کوخیال آیاکہ اگروہ رک جاتے تواچھا تھا،اس لیے پوچھتے ہیں: ”اگرآپ مناسب سمجھیں توعمرفاروق رضی اللہ عنہ کومیری مددکے لیے مدینہ ہی رہنے دیں “.
سبحان اللہ !ذراالفاظ پرغورکریں ”اگرآپ منا سب سمجھیں توعمرفاروق کومیری مددکے لیے مدینہ ہی رہنے دیں “ یہ مقامات کتنے بلند ہیں ۔اتنے بلند کہ الفاظ ان تک پہنچنے سے قاصرہیں ۔
اسلامی اسٹیٹ میں سب سے اونچامقام خلیفہ کو دیا جاتا ہے ،خلیفہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مرتے وقت تک کہا تھا: ”اگرآج حذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو میں انہیں کوخلیفہ بناتا“
سالم کی غلامی نے ان کے احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دیا، اوریہی عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہیں ،جوعرب وعجم کے بادشاہ ہیں ،بیت المقدس تشریف لے جارہے ہیں ،ان کے ساتھ ان کاغلام تھا اورسواری ایک ہی تھی ،جس پرباری باری کبھی آپ سوارہوتے تھے اورکبھی آپ کاغلام ۔   
لگایا تھا مالی نے ایک باغ ایسا 

 نہ تھاجس میں چھوٹابڑا کوئی پودا
عزیزقاری ! اسلام دین اخوت ، دين عدل ہے،اس کے مظاہرشریعت کے ایک ایک حکم میں دیکھے جا سکتے ہیں ، اسلام کے ارکان اربعہ پرہی غور کرکے دیکھ لیں ۔نماز ،روزہ ،حج،اورزکاة ہرحکم میں آپ کواخوت اور عدل کے نمایاں مظاہرملیں گے.
مساجد میں پانچ وقت کی نمازوں کے اندر امیروغریب،کالے اورگورے ،مالک اورنوکرسب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکرنمازاداکرتے ہیں ۔  
ایک ہی صف میں کھرے ہوگئے محمودوایاز 

   نہ کوئی بندہ رہانہ کوئی بندہ نواز
روزہ امیروغریب خاص وعام ہرایک پریکساں فرض ہے ،شام کوہرامیروغریب ایک ہی دسترخوان پرجمع ہوتے ہیں اورافطارکے ذریعہ برابرى  کاعملی نمونہ پیش کرتے ہیں ۔
زکاة ہرصاحب نصاب کے لیے سال میں ایک مرتبہ اداکرنی ضروری ہے ،جس کے ذریعہ فقراءومساکین کے ساتھ مواسات وغمخواری ہوتی ہے ،اوربرابرى کاعملی مظاہرہ دیکھنے کوملتاہے ۔
اسی طرح حج  اخوت  کاعالمی مظہرہے ،تمام دنیاکے مسلمان ایک ہی وقت ،ایک موسم ،ایک ہی حالت ،ایک ہی جگہ، ایک ہی لباس میں ،اورایک ہی خداکے دربار میں ،حاضرہوتے ہیں ،جہاں تمام امتیازی تفرقے مٹ جاتے ہیں ۔
امریکہ میں افریقی نسل کے لوگوں کامشہورلیڈرمیلکم ایکس مسلمان ہونے کے بعد جب حج کوگیاتواس نے دیکھاکہ ایشیائى،یورپ ،افریقہ،امریکہ ہرجگہ،ہرنسل اورہررنگ کے مسلمان ایک ہی لباس میں ،ایک الله کے گھرکی طرف جارہے ہیں،ایک ساتھ کعبے کاطواف کررہے ہیں،ایک ہی ساتھ نمازاداکررہے ہیں،اورایک ہی زبان میں لبیک لبیک کہہ رہے ہیں ،ان میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے تووہ بول اٹھا:”یہ ہے رنگ اورنسل کے مسئلے کاحل“۔
عزیزقاری ! آج نسلی امتیازات نے انسانیت کومختلف ٹولیوں میں بانٹ رکھاہے ،انسانیت سسک رہی ہے ،ظلم وستم سے کراہ رہی ہے، اوراپنے مسیحا کوپکار رہی ہے ،ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے نظام مساوات کواپنے سماج اورمعاشرے میں عام کریں ،اورغیروں کو اس سے آگاہ کریں ،اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے یارب العالمین 
مکمل تحریر >>

اسلام دین عدل ہے


اسلام عدل وانصاف کامذہب ہے ،اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کامعاملہ کرنا چاہتا ہے چاہے مسلم ہو یاغیر مسلم ، مرد ہو یاعورت ،اپنا ہویا پرایا ،حاکم ہو یامحکوم ،ہرحال میں انصاف کاحکم دیتاہے:
 ان اللہ يأمربالعدل والإحسان ( سورة النحل 90 )
"بے شک اللہ تعالی عدل اور انصاف کرنے کا حکم دیتاہے "-  
واقسطوا إن اللہ یحب المقسطین (سورہ الحجرات آیت نمبر9)
”اورانصاف کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے “-
بسااوقات ایسا ہوتاہے کہ اگرایک شخص کوکسی سے دشمنی ہوتی ہے تواس کے ساتھ جانبداری برتنے لگتا ہے اوراپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کربیٹھتا ہے ،اس موقع پر یہ تنبیہ فرمائی گئی کہ:
 ولایجرمن کم شنآن قوم علی أن لاتعد لوا اعدلوا ھوأقرب للتقوی (سورہ المائدہ آیت نمبر 8)
”دیکھو ! کسی قوم کی دشمنی تجھے اس بات پرآمادہ نہ کرے ،کہ تم عدل سے پھرجاؤ ،عدل کرویہی بات تقوی سے زیادہ قریب ہے “۔
عزیزقاری ! عدل وہ صف ہے جسے برتنا بہت مشکل ہے ،بالخصوص اس وقت جبکہ ذاتی مفادات سامنے آرہے ہوں، رشتہ داروں کے خلاف فیصلہ جارہا ہو ایسے وقت میں اگرایک شخص کے اندر خوف الہى نہ ہوتووہ بہرصورت جانبداری برت سکتا ہے ،تب ہی توانصاف کرنے والے محبوب ربانی بنتے ہیں،اورمختلف اعزازات وانعامات کے حقدار ٹھہر تے ہیں- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 المقسطین عند اللہ علی منابرمن نورالذین یعدلون فی حکمھم وأھلیھم وماولوا (صحيح مسلم )
”انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نورکے منبروں پرہونگے جواپنے اہل وعیال اورحکمرانی میں انصاف کرتے ہوں “۔
اور سات طرح کے لوگ قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ میں ہوں گے جس دن اللہ کے سایہ کے علاوہ کوئی دوسراسایہ نہ ہوگا ان میں سب سے پہلے درجہ میں ہیں وہ امام جو انصاف پرورہوں ۔( بخارى و مسلم )

اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کاہاتھ کاٹ ديتا:

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہردور میں اس پرعمل کیا ،انصاف کے معاملے میں اپنوں اورغیر وں کی کوئی پرواه     نہ کی ۔ دامن انصاف ہاتھ سے جانے نہیں دیا ،خودجب آپ پیغمبر اسلام صلى الله عليہ وسلم کی زندگی میں جھانک کر دیکھیں گے تووہ ہرجگہ آپ کوپیکر انصاف دیکھائی دیں گے-
زمانہ نبوت میں قبیلہ بنومخزوم کی ایک خاتون چوری کرلیتی ہے،دربار رسالت سے حکم جاری ہوتاہے کہ چوری کے جرم میں خاتون کادایاں ہاتھ کاٹ دیاجائے ،خاتون معززگھرانے کی ہے،خاندان بنومخزوم کے لیے یہ فیصلہ شرم وندامت کاباعث تھا ،بنومخزوم کے ذمہ داروں نے آپس میں طے کیاکہ اگراس کی جگہ کوئی جرمانہ عائدہوجائے توجگ ہنسائی نہ ہو ۔ لیکن جرأت کسے تھی کہ سرورکونین سے بات کرے ، بالآخر قبیلہ کے معززلوگوں نے دربار رسالت کے چہیتے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ جاکر سفارش کریں ،حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حاضرہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ قبیلہ بنومخزوم بے قرار و اشک بار ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ فاطمہ بنومخزومیہ کاہاتھ نہ کٹے، اس کے عوض اورکوئی سزاتجویز فرمادیں ۔یہ سن کرسرکار دوعالم  صلى الله عليہ وسلم  کا چہرہ سرخ ہوگیا ارشاد فرمایا: یاأسامہ أتشفع فی حد من حدوداللہ "اے اسامہ ! یہ تیری جرأت ہے، میں تجھ سے پیار اورشفقت کابرتاؤ اس لیے نہیں کرتا کہ تواللہ کے کسی حد میں رکاوٹ بنے:
 والذی نفس محمد بیدہ لو سرقت فاطمہ بنت محمد لقطعت یدھا ( متفق عليه )
"سنو! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کاہاتھ کاٹنے سے بھی گریز نہ کرتا“ جواب سن کراسامہ سہم گئے اورعرض کیا: یا رسول اللہ میں اپنے الفاظ واپس لئے لیتا ہوں، ویساہی بہترہے جواللہ اوراس کے قانون کا تقاضا ہے ۔
جی ہاں ! یہ دربار رسالت ہے ،یہاں شریف اورکمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ،یہاں حقوق سب کے لیے یکساں ہیں، نہ غریب کا حق مارا جائے گا اور نہ مالدارکے ساتھ جانب داری کامعاملہ ہوگا ، کیوں ؟اس لیے کہ اسلام دین عدل ہے، دین انصاف ہے، عدل کا پیغام ہے-

 ماروجس طرح اس نے تمہیں مارا تھا:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب مسلمانوں نے مصرپرفتح پائی توحضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہما کو وہاں کاگورنربنایا گیا،ایک مرتبہ ان کا صاحب زاده ایک مصری سے الجھ گیااورغصہ سے مصری پرچند کوڑے برسادیا،مصری نے خلیفہ سے شکایت کی دھمکی دی ،صاحب زادے نے اپنے باپ کے اونچے عہدے کونظر میں رکھتے ہوئے سوچاکہ اس معمولی انسان کی شکایت سے اسے کیانقصان ہوگا ؟ اس نے کہہ دیا کہ تم جس سے چاہوشکایت کرو میراکوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ،میں ایک شریف زادہ ہوں ،مصری نے اس واقعے کی شکایت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کردی ،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے گورنرصاحب کو اوران کے صاحب زادہ دونوں کو اپنے پاس بلایااورللکارتے ہوئے کہا : تم نے لوگوں کوکب سے غلام بنا رکھاہے جبکہ ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، اس کے بعد مصری کواپنا چابک دیتے ہوئے فرمایا: 
اضربہ کما ضربک وأخذله كما أخذلک
"ماروجس طرح اس نے تمہیں مارا تھا ،ذلیل کرو جیساکہ اس نے تمہیں ذلیل کیاتھا"-
قبطی نے اپنابدلہ چکاناشروع کردیا،بدلہ چکاتے ہی وہ اسلام کے عدل وانصاف کاایساقائل ہواکہ فورااسلام کے دامن میں پناہ لے لی ۔

عمر !تم نے انصاف کیا اس لیےاطمینان سے سورہے ہو:

جب فیصلہ میں عدل ملحوظ رکھاجاتا ہے تونفوس میں سکون واطمینان پھیلتاہے ،سماج اورمعاشرے میں ان کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں،امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کادورخلافت ہے،قیصربادشاہ روم آپ کے پاس اپنا ایک قاصد بھیجتاہے، وہ مدینہ میں آیا توپوچھا :تمہارابادشاہ کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا :ہمارابادشاہ نہیں ہے بلکہ ہمارا تو امیرہے اوروہ شہرسےباہرگیا ہواہے،چنانچہ وہ شخص تلاش میں نکلا : دیکھتاہے کہ مسلمانوں کاامیرریت پردرہ سرہانے رکھ کرسویا ہواہے ، قاصدنے جب امیرالمومنین کو اس حالت میں دیکھا تواس کے دل پررقت طاری ہوگئی ،اورکہنے لگا : یہ شخص کہ دنیاکے بادشاہ جس سے کانپ رہے ہیں ،اس اطمینان سے اکیلاسویا ہوا ہے ،عمر تم نے انصاف کیا اس لیے تم سکون واطمینان سے سورہے ہو ۔

اسی کے ذریعہ آسمان وزمین کی بادشاہت قائم ہے:

جب انصاف قائم ہوتاہے ،توسماج اورمعاشرہ امن وامان کاگہوارہ بن جاتاہے ،اسلام کے نظام عدل میں کبھی مسلم اور غیر مسلم کے بیچ تفریق نہیں کی گئی جس  پر پورى اسلامى تاریخ شاہد ہے ،کبھی اسلام میں مذہبی اختلافات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ غلط برتاؤ نہیں ہوا، یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نظام عدل کی گواہی دشمنوں نے بھی دی ،حضرت عبدا للہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما یہودیوں کے پاس حکم بناکر خیبربھیجے گئے تھے، یہودخیبرنے آپ کو مال کی رشوت پیش کی کہ مبادا ہمارے اوپرزیادتی کربیٹھیں، یہ دیکھ کرآپ نے فرمایاتھا: 
لایمنعنی حبی لرسول اللہ وبغضی منکم أن أعدل فیکم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میری محبت اورتجھ سے میرابغض اس بات سے مانع نہیں کہ میں تمہارے ساتھ عدل نہ کروں“ یہ سن کر یہودیوں نے کہا :
بھذا قامت السماوات والأرض
 "اسی کے ذریعہ آسمان وزمین کی بادشاہت قائم ہے – "
جی ہاں ! اسلامی عدالت کے سامنے نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان ،نہ یہودی ہے نہ عیسائی ،اورنہ عربى  نہ عجمى سب کے لیے یکساں سلوک ،یکساں ضابطہ اور یکساں قانون کے تابع ہیں ، غرضیکہ اللہ والوں نے اسلام کے نظام عدل کو نافذکیا تو شیراوربکری ایک گھاٹ پرپانی پینے لگے -

محمودغزنوی نے شہوت پرست بھانجے کا سرقلم کیا :

بعد کے ادوارمیں بادشاہوں کی زندگی میں ہمیں عدل کا نمونہ ملتاہے، سلطان محمودغزنوی رحمہ اللہ کوہم سب جانتے ہیں ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے دربارمیں انصاف حاصل کرنے کے لیے حاضرہوااورسلطان محمود سے تنہائی میں فریاد کی کہ میں ایک غریب انسان ہوں ، ایک مدت سے آپ کے بھانجا نے یہ طریقہ اختیارکررکھاہے کہ وہ ہررات ہتھیارسے لیس ہوکرمیرے گھرآتاہے اورمجھے چابک سے مارکر باہرنکال دیتاہے ،اورپھروہ تمام رات میری بیوی کے ساتھ ہوس پوری کرتاہے ۔
اس شخص کی آپ بیتی  سن کرسلطان محمود کے دانتوں تلے انگلی آگئی، وہ رونے لگا اورکہاکہ ”میری اس گفتگو کا کہیں ذکرنہ کرنا“ اورجب وہ بدبخت تمہارے گھرآئے اوراس جرم کاارتکاب کرے توہمیں بلاتاخیرخبرکرکردینا ۔درباریوں سے بھی تاکیدکردی کہ یہ شخص جب بھی میرے پاس آناچاہے، بلاروک ٹوک آنے دینا،بہرکیف جب تیسری رات سلطان کابھانجا عادت کے مطابق اس کے گھرآیا تواس نے سلطان کوخبرکی ، سلطان تلوار لیے فورا اس کے ساتھ آیاکیادیکھتاہے کہ بھانجا غریب کی بیوی کے ساتھ ہم آغوش ہے ،اورشمع اس کے پلنگ کے سرہانے جل رہی ہے ، سلطان نے شمع بجھایااورایک ہی وارمیں اس کاسرتن سے جداکردیا۔
اورمعا بعدپانی منگوا کر پیا اورکہا:
" جب تم نے روداد الم سنائی اسی وقت میں نے عہد کرلیاکہ جب تک تمہارے ساتھ پورا انصاف نہ ہوگا اس وقت تک نہ کھاناکھاؤں گا نہ پیاس بجھاؤں گا"-
ایسے ہی عظیم کارناموں سے آج زندہ ہے محمودغزنوی کانام ۔

قاضى نے اپنے قاتلبیٹے کے قصاص کا فيصله سنايا : 

حق کی خاطرخونی رشتہ کے پرواہ نہ کرنے کاہمیں ایک دوسرا واقعہ یاد آرہا ہے جوبصیرت افروزبھی ہے ، اورعبرت آموزبھی،بنوامیہ کے دورخلافت میں محمد بن علی ایک پایہ کے عالم گزرے ہیں ، یہ قرطبہ میں جج کے عہدہ پرفائزتھے، ان کاایک لڑکاتھا جس کانام عبداللہ تها،عبداللہ کوحکومت کی طرف سے کچھ جاگیردارملی تووہ قرطبہ سے نکل کر اسپین چلاگیا ،وہاں جاکروہ دنیوی عیش وعشرت کا شکار ہوگیااوراسپین کی ایک عیسائی خوبصورت دوشیزہ "عذرا"سے عشق کربیٹھا،لڑکی بھی اسے چاہتی تھی ، وہ اپنے خاندان والوں سے فرار ہوکرعبداللہ کے پاس آگئی،اس کا ساراخاندان عبداللہ کادشمن ہوگیا،انہوں نے یہ طے کیا کہ عبداللہ کوقتل کرڈالیں ،عبداللہ نادم ہونے کی بجائے ان کے مقابلہ کے لیے کمربستہ ہوگیا،اورایک دن موقع پاکر "عذرا"کے باپ کوقتل کر ڈالا ۔اس قتل پر سپاہیوں نے بہت شورہنگامہ کیا اورعبداللہ کوگرفتارکرکے حکومت کے اعلی جج محمدبن علی کے پاس فیصلے کے لیے بھیجا۔جوحقیقت میں قاتل کے باپ تھے ،مقدمہ کی سماعت کے لیے قاضی صاحب عدا لت میں بیٹھے ہوئے ہیں ،قاضی صاحب نے سراٹھایا اورعبداللہ سے پوچھا کہ تم اس مقدمہ کے بارے میں کیاکہنا چاہتے ہو ؟عبداللہ نے جواب دیا:محترم ابوجان !ابھی وہ اتنا ہی کہہ سکا تھا کہ قاضی صاحب نے نہایت گرجدار آواز میں ڈانٹا اورکہاکہ یہاں تم اپنے باپ سے باتیں کرنے کے لیے نہیں لائے گئے ہو، یہ کمرہ عدالت ہے یہاں قرابت کے الفاظ مت استعمال کرو ۔اس پرعبداللہ نے نہایت عاجزی سے کہا :قاضی صاحب میں عدالت سے رحم کی درخواست کرتا ہوں،جانتے ہیں : قاضی صاحب کا جواب کیاتھا؟ قاضی صاحب نے بلندآواز میں فرمایا:
 اسلام کے قانون چھوٹے بڑے سب کے لیے برابرہیں، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:  قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ،اگرمیری لاڈلی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تومیں اس کابھی ہاتھ کاٹ دیتا،پھر اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں بھی اسی نبی کاادنی ترین خادم ہوں ،اگرچہ میرے دل میں میرے اکلوتے بیٹے کی بیحد محبت ہے ،لیکن میں انصاف کوپامال نہیں کرسکتا عبداللہ پرقتل کاحکم ثابت ہوچکاہے ،اس لیے اسے سزائے موت سناتا ہوں الایہ کہ مقتول کے اولیاء دیت لینے پرراضی ہوجائیں.
مقتول کے وارثوں نے دیت لینامنظورنہیں کیا لہذافیصلہ کے مطابق عبداللہ کوسزائے موت دے دی ۔
یہ ہے اسلام عدل وانصاف کاعلم بردار... جوحق کے معاملے میں نہ رشتے داروں کی پرواہ کرتاہے ،نہ اپنوں کاخیال ، ہاں! اگراس کو کسی چیز سے مطلب ہے توحق کی تائید اورصاحب حق کی حمایت خواہ اس کاتعلق کسی بھی نسل ،قوم اورفرقے سے ہو ۔
اخیرمیں اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ ہمیں عدل وانصاف کاپیکربنائے اوردین عدل پرثابت قدم رکھے ۔ آمین یارب العالمین 
مکمل تحریر >>