ہفتہ, جولائی 27, 2013

کتاب ِامن کے تئیں مغرب کا طرزعمل اسلام دشمنی کا شاخسانہ


ابھی ہمارے سروں پر رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہے ،اس مہينے کو اس اعتبار سے بے انتہا فضیلت حاصل ہے کہ اسی ماہ مبارک میں رشد وہدایت کا سرچشمہ،علوم ومعارف کا خزینہ اور روحانی وجسمانی بیماریوں کا علاج قرآن کریم نازل ہوا جو فائنل اتھارٹی ہے ،جس کا تعلق زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے بلکہ آسمان کی بلندیوں سے ہے ،یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اللہ پاک نے اپنا کلام ہمارے ہاتھوں میں دے دی ہے ، جس کی عظمت کا کیا کہنا کہ اگر اسے پہاڑوں پر اتاردیا جاتا تو پہاڑاس کی ہیبت سے رائی ہوجاتے، دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جو اپنا آغاز پرزور دعوے سے کرتی ہے کہ یہ کتاب” لاریب“ ہے اوراس کی جملہ تعلیمات خالص علم کی بنیاد پر ہیں ۔
انسانیت کی رفعت وبلندی، عزت وسطوت ،اور دنیوی واخروی فلاح قرآن کی اتباع میں مضمر ہے ، یہ کوئی مجنون کی برنہیں بلکہ زمینی حقائق ہیںکہ اس کتاب نے عرب کی غیرمہذب، بادیہ پیما اور بوریہ نشینوں کو انسانیت کی معراج تک پہنچایا چنانچہ جہانگیری وجہاںبانی ان کے قدم چومنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پرچم چہاردانگ عالم میں لہرانے لگا لیکن جب امت مسلمہ نے قرآنی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کی ذلت ومسکنت اس کا مقدر بن گئی ،عالمی، ملکی،اور قومی ہر سطح پر ان کی ساکھ گھٹ گئی ، علامہ اقبال جب ایک ماہر طبیب کی حیثیت سے زوال امت کے اسباب کی تشخیص پر آئے تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کی واحد وجہ ان کا تارک قرآن ہونا ہے چنانچہ بانگ دراکی نظم جواب شکوہ میں فرماتے ہیں
حیدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر
اور تم خار ہوئے تارک قرآن ہوکر
جی ہاں! آج ہم خوار ہورہے ہیں تو محض اس لیے کہ ہم نے قرآن کے پیغام سے منہ موڑ لیا ہے ، کیا یہ المیہ نہیں کہ آج ہم میں سے بیشتر لوگ قرآن پڑھنا نہیں جانتے ، اور جو لوگ پڑھنا بھی جانتے ہیں انہوں نے اسے اپنی طاقچوں کی زینت بنارکھا ہے، اور جولوگ پڑھتے بھی ہیں تو ان کا پڑھنا محض تبرک کی خاطر ہوتا ہے ،یہ ایک افسوسناک معاملہ ہے کہ دنیا کی ہر کتاب سمجھ کر پڑھی جاتی ہے لیکن خالق ارض وسما کے کلام کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل الٹا ہوتا ہے،ہماری اکثریت کو کبھی توفیق نہیں ہوتی کہ انسانیت کے نام آنے والے کلام ربانی کے پیغام کو جانیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں جگہ دیں ۔ ظاہر ہے کہ جب ہم نے ہی کلام الہی سے پہلو تہی اختیار کی ہے تو غیر تو غیر ہیں ....لیکن پھر بھی دشمنان اسلام نے قرآن کی عظمت کا ادراک ہم سے کہیں زیادہ کیا اور اس کے آثار کو ملکوں اور قوموں سے نابود کرنے کی کوشش کی کیونکہ انہیں اس بات کا شدید خطرہ لاحق تھا کہ مبادا یہ امت قرآن کی طرف لوٹ آئے چنانچہ عہد وکٹوریہ کے وزیر اعظم مسٹر گلیڈ اسٹون نے قرآن مجید کا ایک نسخہ ہاتھوں میں اٹھاکر برطانوی دارالعلوم کے ارکان کو بتایا کہ ” جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود رہے گی یورپ مشرق پر قبضہ نہیں جماسکتا اور نہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔
چنانچہ اسی ذہنیت کے زیر اثر ان کی نارواکوششیں مختلف رنگ وروپ میں گل کھلاتی رہتی ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی حالیہ دنوں منظر عام پر آئی ہے ، 11 ستمبر کے حادثے کو لے کر اگلے ماہ کی اسی تاریخ کو فلوریڈا کے ایک عیسائی چرچ نے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کرنے  کا منصوبہ بنایا ہے اور میڈیا کے ذریعہ اس خبر کی اعلی پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے ۔
حالانکہ قرآن کا ادنی طالب علم جانتا ہے کہ یہ کتاب امن کا علمبردار ہے، جس کتاب کی تعلیم یہ ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کو بچانا ساری انسانیت کو بچانا ہے (المائدہ 32) آخر وہ دہشت گردی کی تعلیم کیوںکر دے سکتی ہے ۔
جس کتاب کا اعلان ہے کہ مذہب کے معاملے میں کوئی جبرواکراہ نہیں (البقرہ 256) آخر وہ کتاب تشدد پر کیسے ابھار سکتی ہے ۔ جس کتاب نے لکم دینکم ولی دین (الکافرون 6) کے ذریعہ ہرمذہب کے مانے والوں کو اپنے مذہب اور طریقہ کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار دیا ہے آخر وہ تنگ نظری کی داعی کیوں کر ہوسکتی ہے ۔ جس کتاب نے کسی مذہب کی عبادت گاہ کو منہدم کرنے یا اس پر غاصبانہ تسلط جمانے کو نا پسند کیا ہے  (الحج40) آخر وہ ناروا داری کی تعلیم کیوں کر دے سکتی ہے ۔ جس کتاب نے امن وامان سے رہنے والے غیرمسلموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور عدل وانصاف روا رکھنے کی تاکید کی ہے (الممتحنة 8) آخر وہ قطع تعلق کی دعوت کیوں کر دے سکتی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کو اپنے دل کا بھڑاس نکالنے کے لیے قرآن کریم کا نسخہ ہی کیوں نظر آیا ، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قرآن ہی ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ یہ کتاب ہی آج مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونک رہی ہے ، کیونکہ قرآن  ھدی للناس  (البقرہ 185) یعنی تمام انسانیت کے لیے رشد وہدایت کا سرچشمہ ہے اور اس کا اعجازمحض یہ نہیں ہے کہ یہ تا صبح قیامت ساری انسانیت کے لیے چیلنج ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اس کے اندر انسانیت کو بدلنے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔ آخر عمرفاروق رضى الله عنه جیسا سخت مزاج انسان کيوں کرپروانہ اسلام میں داخل ہوا ؟ ولید بن مغیرہ جیسا کٹر دشمن رسول کیوںکر قرآن پاک کے کلام الہی ہونے کا برملا اعلان کیا ، قبیلہ دوس کا طفیل بن عمروکیوں کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوا، حبش کا نجاشی بادشاہ کیوں کرقرآن کی حقانیت کا معترف ہوا ،یہ قرآن کا جادوئی اثر ہے جس نے پتھر دلوں کو موم بنا دیا اور آج بھی بنا رہا ہے اسی لیے دشمنان اسلام بوکھلاہٹ میں اس کتاب پر طرح طرح کا الزام ڈال رہے ہیں ،کبھی اسے انسانی کلام باور کرانے کی کوشش کرتے ہیںتو کبھی اس پر دقیانوسیت کالیبل چسپاں کرنے کی ناروا جسارت کرتے ہیںتو اب اسے تشدد کا داعی اور پیغامبر ثابت کرنے جرأت کی جا رہی ہے ۔
لہذا یہ ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کے ساتھ اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کریں، ساری انسانیت کی ہدایت کا ضامن کلام الہی ان کے ہاتھوں میں موجود  ہے ، گم کردہ راہ انسانیت کی رہبری اسی کتاب سے ہوسکتی ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیمات کو گھر گھر عام کریں، اسکے نہج پر اپنے گھر ،خاندان اور معاشرہ کی تربیت کریں،دنیا کی زندہ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم غیرمسلموں تک پہنچائیں ، قرآن کے تعارف پر مشتمل کتابچے تقسیم کیے جائیں،ظلمت ِ شب کومٹا نا ہے تو قرآن کی شمع جلانی ہوگی ،اسی کی روشنی میں انسانیت اپنی راہ طے کر سکتی ہے 
 مسلمانو! اٹھو قرآن کی عظمت کو چمکاؤ
  جہانِ بے اماں کو عافیت کے راز سمجھاو
 زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا
مٹے گی ظلمتِ شب اور سورج جگمگائے گا
مکمل تحریر >>

جمعرات, جولائی 25, 2013

آؤسجدے میں گریں اورلوح جبیں تازہ کریں


ابھی ہم سب رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں داخل ہونے والے ہیں ،یہ عشرہ پورے رمضان کا خلاصہ ہے ،اس کے دن روزہ رکھنے کے اوراس کی راتیں عبادت کرنے کی ہیں ،اس عشرے میں ہی وہ رات آتی ہے جسے قرآن مجید نے ہزار مہینوں سے افضل قراردیاہے ،جودراصل ایک طویل زندگی پانے والے انسان کی مدت عمر ہے ،جس میں فرشتے جبریل امین کی معیت میں قطار اندر قطارنازل ہوتے ہیں ،جس میں پورے سال کے لیے اجل اوررزق کے فیصلے ہوتے ہیں،جوطلوع فجر تک خیروسلامتی اور برکت کی رات ہوتی ہے ۔ یہ رات امت محمدیہ پر خالق کائنات کی طرف سے ہونے والی خصوصی عنایات میں سے عظیم عنایت ہے ،جس خوش نصیب کواس رات میں شب بیداری کی توفیق مل گئی گویا اس نے تراسی برس چارماہ سے زائد کا زمانہ کامل عبادت میں گذارا۔ہمارے حبیب کی زبانی جو اس شب کے برکات سے فیضیاب ہوا وہ واقعی کامیاب ہے اورجس نے کوتاہی کی وہ سب سے بڑا محروم انسان ہے۔ اس عشرے کا پیغام رجو ع الی اللہ،توبہ وانابت ،گریہ وزاری، نالہ نیم شبی اورآہ سحرگاہی ہے ۔ان دنوںمیں ایک مومن کے شب وروزکے معمولات بالکل بدل جانے چاہئیں کہ یہی سنت حبیب ہے ،اعتکاف کرنا چاہیے ،شب بیداری کرنی چاہیے اوراپنے تمام اہل خانہ کوبیدار رکھنا چاہیے ۔
صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہا نے جب ہمارے آقا سے اس رات کا وظیفہ پوچھا توآپ نے فرمایاتھا: یوںپڑھا کرو: اللھم انک عفوتحب العفو فاعفعنی ”اے اللہ! تومعاف کرنے والا ہے ،معافی کو پسند کرتا ہے ،پس تومجھے معاف کردے “۔گویا ان راتوںمیں بکثرت دعا اوراستغفار کا اہتمام کرناچاہیے۔
عزیز قاری ! دنیاکا یہ دستورہے کہ جب کسی کو کوئی ضرورت پیش آتی ہے تواس کی تکمیل کے لیے ایسے لوگوں کے پاس جاتا ہے جن سے اس کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ،لیکن کبھی تو اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور کبھی نامراد لوٹتا ہے البتہ جس ذات نے انسان کوبنایاہے ،اس پر اپنی بے پناہ نعمتیں کی ہیں اس کا دروازہ ہروقت ،ہرآن اور ہرلمحہ کھلا ہوا ہے ۔وہ کمالِ شفقت سے اپنے بندوں کوبلاتا ہے اِدھر اُدھر مت جاؤ ،دردرکی ٹھوکریں مت کھاؤ ادعونی اَستجب لکم ''ہم سے مانگوہم تمہیں دیں گے" ،ہمیں پکاروہم تمہاری پکار سنیں گے ،وہ ذات غنی ہے ، اس کے دربارسے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا ،اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ،اگرشروع انسانیت سے قیامت تک کے انس وجن ایک کھلے میدان میں جمع ہوکر اس سے اپنی مرادیں مانگیں ،اورہرایک کواس کے سوال کے مطابق عطاکردے تو اس سے اس کے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی کمی سوئی کوسمندر میں ڈال کرنکالنے سے سمندرکے پانی میں ہوتی ہے ۔دنیاوالے مانگنے سے ناخوش ہوتے ہیں لیکن اس کی شان کریمی دیکھو کہ جواس سے مانگتا ہے اس سے خوش ہوتاہے اورجو اس سے نہیں مانگتا اس سے ناخوش ۔ ایک بندہ جب تواضع وانکساری سے اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تواسے شرم آتی ہے کہ اپنے بندے کو خالی ہاتھ کیسے لوٹائے کیونکہ وہ بے پناہ حیاوکرم والا ہے ۔
وہ سمندر کی تہہ سے پکارنے والوں کی پکار کوبھی سنتا ہے ،خلوت میں اللہ کے ڈر سے گرنے والے آنسوؤں پر بھی نظر رکھتا ہے ،مظلوم کے نہاں خانہ دل سے نکلنے والی فریادکوبھی سنتا ہے اورشب دیجورمیں گریہ وزاری کرنے والے کی گریہ پر بھی دھیان رکھتا ہے۔ اس نے آدم علیہ السلام کی پکارسنی ہے ، ابراہیم علیہ السلام اورزکریا علیہ السلام کوبڑھاپے میں اولاد سے نوازاہے ،نوح علیہ السلام کی دعا قبول کی ہے ،ایوب علیہ السلام کی فریادرسی کی ہے ،یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی ہے، اپنے حبیب کی سنی ہے ،صدیق کی سنی ہے ،شہداءوصالحین کی سنی ہے ۔
  کہاں ہیں وہ مظلوم جن پر دنیا والوں نے ظلم کیا ہے ،کہاں ہیں وہ ضرورتمند جنہیں دنیا نے دھتکارا ہے ،کہاں ہیں وہ پریشان حال ،دل شکستہ اور بے کس جس نے ہرجگہ کی خاک چھانی ہے اللہ کا دروازہ ہروقت کھلا ہے ،اس کی باران رحمت ہمیشہ برستی ہے ،اس کے ہاں دعائیں رائیگاں نہیں ہوتیں ،وہ تو رات کے سہہ پہر میں سمائے دنیاپر اُتر کر اعلان کرتا ہے : ”ہے کوئی جو مجھے پکارے میں اس کی پکار سنوں، ہے کوئی جو مجھ سے مانگے میں اس کو دوں،ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ اسے معاف کردوں؟ “ مانگنے کا سب سے مناسب وقت آچکا ہے ،جس سے بھی کسی طرح کی کوتا ہی ہوئی ہے اس عشرے میں کمرہمت باندھ لے، روئے ،گڑگڑائے،آنسو بہائے کہ اگر صبح کا بھولا ہوا شام گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے 
       سرکشی نے کردئیے دھندلے نقوش بندگی
 آؤ سجدے میں گریں اورلوح جبیں تازہ کریں
                     صفات عالم محمد زبیر تیمی                             
 safatalam12@yahoo.co.in 

مکمل تحریر >>

تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں


 ان دنوں عالم اسلام جن نازک صورتحال سے گذررہا ہے وہ جگ ظاہر ہے، پاکستان میں بم دھماکے ،ڈرون حملے اورقتل وخونریزی کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے، رمضان کے مبارک دنوںمیں بھی خون مسلم کی ارزانی ہے ، اورہندوستان میں ہندوؤں کی متعصب تنظیموں کی پشت پناہی میں مسلم نوجوانوں کاانکاونٹر اورانہیں جیلوں کی سلاخوںمیں ڈالے جانے کا سلسلہ بھی تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔آرایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیمیں ہندوستان کے کونے کونے میں فرقہ وارانہ فسادات کراکر2014ءکے انتخاب کی تیاری میں مصروف ہیں، اپنی خبیثانہ ذہنیت اورشاطرانہ چال سے بڑا سے بڑا جرم کرتی ہیں اورالزام مسلمانوں کے سر ڈالتی ہیں ۔ فلسطین میں مسلسل اسرائیلی دہشت گردی جاری ہے،اوررمضان کے آغازسے ہی یہود کی سرکشی میں تیزی آچکی ہے ،قبلہ اول کی بنیادوںمیں کھدائی اس قدر کی جاچکی ہے کہ اندیشہ ہے کہ مسجداقصی کا ایک حصہ کسی بھی وقت زمین بوس ہوجائے ،عراق میں آئے دن قتل عام ہورہا ہے، سوریا میں نصیری حکومت اہل سنت کا صفایاکرنے پرکمربستہ ہے، مصرمیںتین دہائی تک ظالم وجابر ڈکٹیٹرحکومت کے ظلم وجبر سے تنگ آنے کے بعدانقلاب آیااورعوامی انتخاب کے ذریعہ جوحکومت بنی اس سے قوم کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی نظرآرہی تھیں لیکن دشمن گھات میں لگا تھا ، دسیسہ کاریاں کامیاب ہوئیں اوراس حکومت کا بھی تختہ پلٹ دیاگیا،ابھی مصرمیں فوج کی حکومت ہے،ڈاکٹرمرسی کے حامیوں کااحتجاج تاہنوز جاری ہے۔یہ ہیں وہ ناگفتہ بہ حالات جن سے قوم مسلم ان دنوں گذر رہی ہے ۔
 ہمیں سردست مصرکی موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنی ہے ، یہ زمینی حقائق ہیں کہ جس دن اخوان المسلمون کی حکومت بنی ہے اسی دن سے ڈاکٹرمرسی اسلام دشمن عناصر کے حلق کا کانٹا بن گئے،سیکولرمیڈیا ان کی معمولی کوتاہی کو پہاڑ بناکر پیش کرتا رہا ہے ، سیسی کوفوج کے کمانڈر کی حیثیت سے خودڈاکٹرمرسی نے نامزدکیا تھا تاہم فوج کا ہمیشہ حکومت کے ساتھ سوتیلاپن کا رویہ رہا ،ادھر مخالفین موقع کی تلاش میں تھے چنانچہ ملک شام کے موجودہ پس منظر میں گذشتہ ماہ جب ڈاکٹرمرسی نے عالم اسلام کے170 سرکردہ علمائے کرام ، دانشوران اورمفکرین کی ایک میٹنگ بلائی ،جس میں سب نے شام کے خلاف متفقہ قرارداد پاس کیا کہ سوریا میں علویوں کے خلاف جہاد وقت کا تقاضا ہے ۔پھرڈاکٹرمرسی نے اسی مجلس میں نہایت جرأت کے ساتھ بشار حکومت سے اپنے تمام تر سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ، اسی کے کچھ دنوں بعد چندغیرتمند نوجوانوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اورصحابہ کرام ؓکی اہانت کرنے والے چاررافضیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ،اس طرح کے واقعات نے دشمن کو موقع بہم پہنچایا،چنانچہ ان کے دلوںمیں اسلام دشمنی کا پکتا ہوا لاوا پھوٹ پڑا، اور جمہوری طرزپر منتخب حکومت کے خلاف سراپااحتجاج بن گئے ،مارچ شروع کردیا ،مظاہرے کئے بالآخر دشمن کی سوچی سمجھی پالیسی کامیاب ہوئی اورجس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت ڈاکٹرمرسی کومعزول کردیا گیا ،ابھی ڈاکٹر مرسی فوج کے قبضہ میں ہیں ،کہاں ہیں اب تک اس کی کوئی اطلاع نہ مل سکی ہے ، اخوان المسلمین کے سرکردہ لیڈران بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے ہیں، ڈاکٹرمرسی کے حامیوں کا مظاہرہ تاہنوز جاری ہے، 8جولائی کے مظاہرہ میں فوج نے مظاہرین پر نمازفجرکی حالت میں گولی چلادی جس میں سترسے زائدلوگ شہید ہوئے،اور تقریباً روزانہ مظاہرے ہورہے ہیں اوران میںمردوخواتین کا خون ہورہا ہے ۔
 اگر اس حادثے پر سنجیدگی سے غورکیا جائے تو اس میں یہودونصاری کی ملی بھگت اور اسلام دشمن عناصر کی کارستانی واضح طورپرنظرآئے گی ، لیکن پھر بھی اس حوالے سے مسلمانوںکی جماعتیں دو گروہوں میں بٹ چکی ہیں ، ایک طرف مرسی کے مؤیدین ہیں تو دوسری طرف مرسی کے مخالفین ہیں ، میں نہ تو مرسی کی تائیدکرنے بیٹھا ہوں نا ان کے مخالفین کوکوسنامیرا مقصد ہے تاہم اس طرح کے حادثے میں ملت کے آپسی اتحادکا فقدان امت مسلمہ لیے نیک فال ہرگزنہیں ہے،بلکہ خطرے کی گھنٹی ہے، ہمیں ڈاکٹر مرسی سے اختلاف ہوسکتا ہے ،ان کے نظریہ سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب اسلام کا نام لینے کی بنیاد پرکسی خاص جماعت کویرغمال بنایا جارہا ہو اوردشمن طاقتیں اس کا صفایہ کرنے پر تلی ہوں ایسے حالات میں عالم اسلام کا تحفظ برتنایا ان سے بے رخی اختیار کرنا یاان کے مقابلہ میں دشمن کا ساتھ دینا بزدلی کی علامت ہے اورمستقبل میں اس کا انجام بہرصورت بہتر نہیں ہوگا۔
 امت مسلمہ کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ ہم اپنے سارے اختلافات کوپس پشت ڈال کر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوتے، وحدت ویگانگت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتے کہ دشمن کو ہماری قوت وطاقت کاصحیح اندازہ ہوتالیکن ہم ہیں کہ اپنے ہی بھائیو ں کو دشمن کا لقمہ تر بنانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ دشمنوں نے ہردورمیں ’پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو‘ کے اصول کے تحت ہمیں اپنا یرغمال بنایاہے،ہماری سادہ لوحی اور اوروں کی عیاری سے ہر دورمیں ہمیں زک پہنچا ہے، ہمارا دشمن عیاری کی آخری حد پار کرچکا ہے ،وہ ہمیں نقصان پہنچانے کے لیے انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کرنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار ہے،مسلمانوں کے بیچ فرقہ وارانہ فسادات کرانے اورمختلف فرقوں کو آپس میں لڑانے کے لیے عالمی سطح پر منصوبہ بندی ہورہی ہے ، اس کے لیے بجٹ خاص کیاجارہا ہے اورہم ہیں کہ ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں ، مسلکی اختلافات میں الجھ کرہم نے انہیں اساس دین سمجھ رکھا ہے،اورہمارے اندر سے دین کی آفاقیت کا شعور نکلتا جارہا ہے۔ہمارے پاس چوٹی کے علماءپائے جاتے ہیں لیکن صدحیف کہ ان میں سے اکثر کی صلاحیتیں منفی شعور کو فروغ دینے میں صرف ہورہی ہیں، اس لیے اب ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا ،ہمیں اپنے دشمن کی سازش کو سمجھنا ہوگااور اپنی صفوںمیں اتحاد پیدا کرنی ہوگا ۔
توآئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ رمضان کے بابرکت ایام میں اپنے احوال کا جائزہ لیں گے رب کائنات سے لو لگائیں گے،اپنی کوتاہیوں پرنادم اورپشیمان ہوں گے ،اس کی جناب میں گڑگڑائیں گے،اورپھرقوم مسلم کے اتحاد کے لیے سنجیدہ کوشش شروع کردیں گے ۔
                                                           اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو ۔

  
مکمل تحریر >>

جمعہ, جولائی 19, 2013

رمضان كا پیغام بچوں كے نام

 ابھی آپ رمضان کے مبارک مہینہ سے گذر رہے ہیں، آپ نے اپنے ابو امی سے رمضان کی بابت بہت کچھ سنا ہوگا، آئيے ! آج ہم آپ کو مزید کچھ معلومات فراہم کررہے ہیں:
رمضان کے مہینہ میں جنت کے دروازے کھول ديے جاتے ہيں، جہنم کے دروازے بند کرديے جاتے ہيں، سرکش شیاطین قید کرديے جاتے ہيں، اورنیکیوں کے اجروثواب میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ چنانچہ سارے مسلمان اس ماہ مبارک میں روزہ رکھتے، قرآن کی تلاوت کرتے، تراویح کی نماز ادا کرتے اورفقراء ومساکین کی مواسات وغمخواری کرتے ہیں۔
 اس مہینہ میں ایک رات ایسی آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں (83 سال 4 مہینہ ) کی عبادت سے بہتر ہے جسے ہم شب قدر کہتے ہیں، یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ اس نے ایک رات کی عبادت کو 83 سال 4 مہینے کی عبادت سے افضل ٹھہرائی ہے جومدت ایک طویل عمر پانے والے انسان کی ہوتی ہے۔ یہ رات رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں (21، 23، 25، 27، 29) میں سے کسی ایک رات میں ہوتی ہے ۔اِس رات کو پانے کے ليے پیارے نبی صلي الله عليه وسلم رمضان کی آخری دس راتوں میں خود بیدار رہتے اور اپنے اہل خانہ کو بیدار رکھتے تھے ۔
 اس ماہ مبارک میں ہم آپ کے ليے بھی کچھ کرنے کے کام بتا رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ آپ اسے ضرور کریں گے :
 ابو اور امی کے ساتھ  ساتھ آپ بھی روزہ رکھیں، جس وقت ابو امی سحری کے ليے بیدار
 ہوں آپ بھی بیدار ہوجائیں اور سحری کھاکر اگلے دن کا روزہ رکھیں ۔
رمضان میں افطار کرانے کا بہت ثواب ہے ۔ اس ليے کبھی کبھی اپنے پاس روزے داروں کوبلاکر افطار ضرور کرائیں ۔
پیارے بچو! آپ نے مدینہ میں مسجد نبوی کا نام ضرور سنا ہوگا، رمضان کے مبارک دنوں میں افطار کے وقت وہاں کا منظر قابل دید ہوتا ہے، آپ ہی کے جیسے ننھے ننھے بچے اپنے ابو کے ساتھ افطار کا سامان لے کر بوقت عصرمسجد میں آجاتے ہیں، اور عصر کے بعد سے اذان تک افطارکرنے والوں کی تلاش میں مسجد سے باہر، مسجد کے اندر، وضوخانے میں ہرجگہ دوڑتے رہتے ہیں، جب کوئی ملتا ہے، با ادب اسے بلاکر اپنے پاس دسترخوان پر بیٹھاتے ہیں ۔
کیا آپ کو پتہ ہے، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
اس ليے کہ پیارے نبی صلي الله عليه وسلم نے فرمایاہے:
” جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا اسے ایک روزے دار کا ثواب ملتا ہے اور افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی “ ۔
 آپ نے جتنا قرآن یاد کیا ہے اسے خوب پڑھیں اوربار بار دہرائیں۔ وقت نکال کر قرآن کریم کی تلاوت بھی کریں کیوں کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ اِسی مہینہ میں اللہ پاک نے قرآن اتارا تھا ۔
 روزانہ ابّو امی خرچ کے ليے جوپیسے دیتے ہیں، ان میں سے کچھ پس انداز کرکے اپنے ہاتھ سے غریبوں کو بھی دیں کیوں کہ یہ مواسات وغمخواری کا مہینہ ہے ۔ اگر آپ کا کوئی دوست یا رشتہ دار مالی اعتبار سے کمزور ہے خواہ وہ کویت میں ہویا آپ کے ملک میں، ابو امی سے کہہ کران کی مالی اعانت کریں یا کم از کم عید کے موقع سے ان کے ليے کپڑے وغیرہ ضرور بنوادیں ، کیوں کہ
ہیں لوگ وہی دنیا میں اچھے

کام آتے ہیں جو دوسروں کے  
مکمل تحریر >>

جمعہ, جولائی 12, 2013

انسان غلطی کا پتلہ ہے


انسان غلطی کا پتلہ ہے، اس سے بارہاں غلطياں ہوتی ہيں ، اورکيوں نہ ہوں جبکہ انسان، نسيان سے نکلا ہے، بھول چوک اس کی شرست ميں داخل ہے ۔ پہلے انسان حضرت آدم و حوا عليہما السلام سے بھی غلطی ہوئی تھی ۔ اگر انسان ہے تو اس سے غلطياں ہوں گی ہی ۔ يہ تو فرشتوں کی صفت ہے کہ اُن سے غلطياں نہيں ہوتيں ۔
جس ذات رؤوف و رحيم نے انسان کی تخليق فرمائی تھی وہ جان رہا تھا کہ انسان غلطی کرے گا اِس ليے روز ازل سے ہرايک کے ليے توبہ کا دروازہ بھی کھول ديا، معافی مانگنے کی ترغيب دی، گنہگار بندوں کو پيار بھرے لہجے ميں معافی کا وعدہ ديا ۔
اس کا کرم ديکھو کہ ہررات سہ پہر ميں سماء دنيا پر اترتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ " ہے کوئی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے والا، کہ ہم اُس کے گناہوں کو معاف کر ديں..." ۔
اس کی دريا دلی ديکھو کہ فاسق وفاجر اور گناہوں ميں ڈوبے شخص پر بھی اپنی مغفرت کی برکھا برساتا ہے:
يا ابن آدم! إنک ما دعوتنی ورجوتنی غفرت لک علی ما کان منک ولا أبالی ، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرت لی غفرت لک ولا أبالی-
"اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے اميد وابستہ رکھے گا، تو تو جس حالت پر بھی ہوگا ميں تجھے معاف کرتا رہوں گا ، اورميں کوئی پرواہ نہ کروں گا ۔ اے ابن آدم اگر تيرے گناہ آسمان تک پہنچ جائيں پھر تو مجھ سے معافی طلب کرے، تو ميں تجھے بخش دوں گا اور ميں کوئی پرواہ نہيں کروں گا"۔
اس کی سخاوت ديکھو کہ وہ پکارتا ہے:
” ميرے بندو! تم رات دن غلطياں کرتے ہو اور ميں سارے گناہوں کو بخشتا ہوں، ہم سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرو ميں تمہارے گناہوں کو معاف کردوں گا “
اس کی شفقت ديکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو نااميد ہونے نہيں ديتا:
قل يا عبادی الذين أسرفوا علی أنفسھم لا تقنطوا من رحمة اللہ إن اللہ يغفرالذنوب جميعا إنہ ھو الغفور الرحيم.
آپ کہ ديجيے، اے ميرے بندو! جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کيا ہے اللہ کی رحمت سے نا اميد مت ہو، بيشک اللہ تعالی سارے گناہوں کو بخش دے گا، بےشک وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے"۔
جب رب غفور رحيم کی معافی کا ٹھاٹھيں مارتا ہوا سمندر بہتا ہے تو بندے کے سارے گناہوں کو بہاکر لے جاتا ہے گو وہ زندگی بھر گناہوں کے دريا ميں ڈوبا رہا ۔ اس وقت شيطان اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگتا ہے کہ ہائے ميری بربادی ! برسوں کی محنت اکارت گئی ، ہائے ميری ہلاکت! جس پر ساٹھ ستر سال تک وقت لگايا اسے چشم زدن ميں معاف کرديا گيا ۔
اس کی شان کريمی ديکھو کہ وہ معافی کے ليے بہانا ڈھونڈتا ہے، بنواسرائيل کی ايک فاحشہ عورت جس نے اپنی زندگی کے بيشتر ايام فسق وفجور اور جنسی انارکی ميں گذارا تھا ۔ ايک کتے کے پاس سے گذرتی ہے جو پياس کی شدت سے زمين ميں منہ رگڑ رہا تھا، اس کے دل ميں رحم آيا، کنويں ميں اُتری ،اپنے موزے کو پانی سے ترکيا، کنويں سے باہر آئی اور کتے کو سيراب کرديا ۔ اللہ تعالی کو اس کا يہ عمل اِس قدر پسند آيا کہ اس کے سارے گناہوں کو بخش ديا ۔
ايک آدمی راستے سے گذر رہا تھا کہ راستے ميں ايک خاردار ڈالی پڑی ديکھی ۔ اس نے کہا : بخدا ميں اسے ضرور مسلمانوں کے راستے سے دور کروں گا تاکہ اُنہيں تکليف نہ دے ۔ چنانچہ اُس نے اُسے اُٹھايا اور راستے سے ہٹا ديا۔ اللہ تعالی کو اُس کی يہ ادا پسند آگئی ، اُس کے گناہوں کو معاف کرديا اور اُسے آتش جہنم سے نجات دے دی۔
بندے سے جب کوئی فاش غلطی ہوجاتی ہے تو وہ معاشرے ميں سب کی نگاہوں سے گر جاتا ہے، اُسے اپنے وجود پر شرم آنے لگتی ہے ، وہ ذہنی الجھن اور پريشانی کا شکار ہوجاتا ہے ، بلکہ زمين اپنی وسعت کے باوجود اُس پر تنگ ہونے لگتی ہے ۔ ليکن جب ہی وہ اپنے خالق و مالک کےسامنے ہاتھ اُٹھاتا ہے ، شکستہ حال اور پراگندہ سر اپنے رب کو پکارتا ہے "يا رب يا رب" تو اُس پر اللہ تعالی کی رحمتيں جھوم کر برستی ہيں ۔ اللہ تعالی فرشتوں کو پکار کر کہتا ہے کہ فرشتو! ميرے بندے نے جان ليا کہ اُس کا کوئی رب ہے جو گناہوں پرمواخذہ کرتا ہے، اور گناہوں سے درگذر بھی کرتا ہے ۔ گواہ رہو! کہ ميں نے اپنے بندے کے گناہوں کو معاف کر ديا ۔ آخر بندے اور اللہ کے بيچ کون سی چيز حائل ہے ؟ ہمارے اور اللہ کے بيچ کوئی ترجمان نہيں ، کوئی پردہ حائل نہيں ، وہ توہمارے شہ رگ سے بھی زيادہ قريب ہے ۔
 پھراُس کی شان رحيمی ديکھو کہ وہ ہم سے توبہ کا سوال كرتا ہے ، شب و روز ميں دو مرتبہ اپنا ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ ہم توبہ كرليں:
إن اللہ يبسط يدہ بالليل ليتوب مسیئی النھار ويبسط يدہ بالنھار ليتوب مسئی الليل.
" اللہ تعالی رات ميں ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ دن ميں غلطی کرنے والا توبہ کرلے ، اور دن ميں ہاتھ پھيلاتا ہے تاکہ رات ميں غلطی کرنے والا توبہ کرلے"۔

ذرا تصور کرو! کيا وہ ہماری توبہ کا محتاج ہے ؟ کيا اسے ہماری عبادت کی ضرورت ہے ؟ نہيں ميرے بھائيو، ہرگزنہيں ! اگر پوری انسانيت بھی فاسق وفاجر ہوجائے تو اس کی بادشاہت ميں کوئی کمی نہيں آسکتی ۔ اور اگر پوری انسانيت بھی نيک وپرہيزگار بن جائے تو اس کی بادشاہت ميں کوئی زيادتی نہيں ہوسکتی ۔۔۔ ہاں وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔۔۔ ہماری نجات چاہتا ہے ۔۔۔ ہميں قطرہ آب سے پيدا کيا ، ہر طرح کی نعمتوں سے مالامال کيا ، اورمسلسل کر رہا ہے اور ہم ہيں کہ اس کے حکموں کو پامال کر رہے ہيں ليکن اس کا ظرف ديکھو کہ وہ بخشنے کے ليے قرار ہے
 صحيح حديث ميں آتا ہے کہ اللہ تعالی قيامت کے دن بندے کو اپنے قريب کرے گا،اس پر اپنا بازو رکھے گا ، اورآہستہ سے اس سے پوچھے گا جسے اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سن سکے گا :
" ميرے بندے ! تم نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کيا ؟ بندہ کہے گا : ہاں يا رب ۔ اللہ تعالی پھر پوچھے گا : ميرے بندے ! تم نے فلاں فلاں دن ، فلاں فلاں کام کيا ؟ بندہ کہے گا : ہاں يا رب ۔
يہاں تک کہ جب سارے عيوب کھل جائيں گے ، گناہوں کے پردے چاک ہو جائيں گے اور بندہ گھبڑا جائے گا تو رحيم و شفيق پروردگار فرمائے گا : عبدی سترتھا عليک فی الدنيا وھا أنا أسترھا عليک اليوم
"ميرے بندے ! ميں دنيا ميں تمہارے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا اور آج بھی اس پر پردہ ڈال دے رہا ہوں"۔ اِس طرح اللہ رب العالمين اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانپ لے گا اور اور اس کے گناہوں کو معاف کرکے جنت ميں جگہ نصيب کرے گا ۔
 جب اللہ رب العالمين اس قدر رحيم و شفيق ہے ۔ گناہوں سے درگذر کرنے والا ہے ۔ معافی کو پسند کرتا ہے توآخر ہم کيوں نا اپنے گناہوں سے معافی مانگ ليتے ۔ کيوں نا اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ، ابھی ہم نہايت عظمت و برکت والے ايام سے گذر رہے ہيں ، عہد نبوی ميں بنوقضاعہ کے دوشخصوں نے بيک وقت اسلام قبول کيا ان ميں سے ايک نے جام شہادت نوش کر ليا جبکہ دوسرے نے ايک سال بعد وفات پائی ۔حضرت طلحہ بن عبيداللہ رضي الله عنه نے اخير ميں وفات پانے والے کو خواب ميں ديکھا کہ وہ اپنے ساتھی سے پہلے جنت ميں داخل ہو چکے ہيں ، يہ منظرديکھ کر آپ کو بہت تعجب ہوا ، لوگوں کوبھی حيرت آنے لگی ۔ جب اللہ کے رسول سے اُس کا ذکر کيا گيا تو آپ نے فرمايا : أليس قد صام رمضان وصلی کذا وکذا رکعة صلاة سنة (رواہ أحمد وحسنہ الألبانی ) کيا ايسا نہيں ہے کہ اُس نے رمضان کے روزے رکھے اور سال بھر اِتنی اِتنی رکعات نمازيں ادا کی ۔ اور ايک دوسری روايت ميں يہ زيادتی آئی ہے کہ اُن دونوں کے بيچ ميں آسمان اور زمين کا فرق ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ ، ابن حبان )
سبحان اللہ ! ايک سال بعد وفات پاتے ہيں تو اپنے مجاہد ساتھی پر فوقيت لے جاتے ہيں ۔ کيوں ؟ اسلئے کہ انہوں نے مزيد ايک رمضان پايا ، اس کے روزے رکھے ، شب قدر پايا اس ميں قيام کيا ، اور سال بھر نماز ادا کرتے رہے ۔۔ اسلئے ميرے بھائيو اور بہنو ! يہ ايام ہمارے ليے غنيمت ہيں ، کتنے لوگ اِس سال رمضان سے پہلے وفات پا چکے ، اللہ تعالی نے اگر ہميں حيات بخشی ہے تواِن ايام کے برکات سے اپنے آپ کو محروم نہ رکھيں ۔
يہ بابرکت مہينہ بس چند دنوں کا مہمان رہ گيا ہے ، جس نے بھی کوتاہی کی ہے ، احکام الہی کو پامال کيا ہے ، وہ ابھی بھی لوٹ آئے ۔ اِن ايام ميں ہماری مغفرت نہ ہو سکی تو سمجھ ليں کہ ہم سارے خير سے محروم کر ديئے گئے ۔ يہ بات ميں نہيں کہتا بلکہ نبی رحمت کی زبان فيض ترجمان سے نکلی ہوئی ہے:
 من حرم خيرھا فقد حرم الخير کلہ ولا يحرم خيرھا إلا کل محروم.
 ’’جو شخص اِس رات کے خير سے محروم ہو گيا وہ تمام خير سے محروم ہوگيا اوراس رات کے خير سے وہی محروم ہو سکتا ہے جو واقعی محروم ہو ۔
اور رمضان کا آخری عشرہ تو مغفرت کا عشرہ ہی ہے ۔ تب ہی تو حضرت عائشہ صديقہ رضي الله عنها نے جب اللہ کے رسول سے پوچھا تھا کہ جب اس رات کو پاؤں تو کيا پڑھوں ؟ تو آپ نے فرمايا تھا : عائشہ اس دعا کا ورد کرتی رہو: اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی
" اے اللہ تو گناہوں کی مغفرت کرنے والا ہے ، مغفرت کو پسند کرتا ہے لہذا ہمارے گناہوں کو معاف کردے" ۔
گويا کہ عشرہ اواخر کا سب سے اہم کام استغفار ہے ۔ اللہ تعالی سے گناہوں کی مغفرت طلب کرنا ہے ۔ اپنے آقا کوديکھو کہ دن ميں سو سو بار استغفار کرتے ہيں ، کسی خاص مناسبت سے نہيں ، بلکہ ہر وقت ہرآن اور ہر لمحہ ، حالانکہ وہ معصوم تھے ، غلطيوں سے پاک تھے ، جبکہ ہم گناہوں ميں ڈوبے هوئے ہيں ، آئے دن گناہ پر گناہ کرتے جا رہے ہيں ، تو پھر آپ تصور کر سکتے ہيں کہ ہمارے ليے استغفار کس قدر ضروری ہے ؟
پھر استغفار کا فائدہ بھی تو ہميں ہی حاصل ہونے والا ہے ۔ لہذا
٭اگرآپ چاہتے ہيں کہ آپ کو ذہنی سکون ملے تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے وأن استغفروا ربکم ثم توبو إليہ يمتعکم متاعا حسنا إلی أجل مسمی (ھود 3)
" اور تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آوتو وہ ايک مدت خاص تک تم کو اچھا سامان زندگی دے گا" ۔
٭اگر آپ خوشحالی کے خواہاں ہيں اور جسمانی آفات و بليات سے نجات چاہتے ہيں تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے: ويا قوم استغفروا ربکم ثم توبوا اليہ يرسل السماء عليکم مدرارا ويزدکم قوة إلی قوتکم.
"اور اے ميری قوم کے لوگو اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف پلٹو وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزيد قوت کااضافہ کرے گا" ۔
٭اگر آپ اولاد کی نعمت سے محروم ہيں تو استغفار کو اپنا شعار بنائيے:
فقلت استغفروا ربکم إنہ کان غفارا ، يرسل السماء عليکم مدرارا ، ويمددکم بأموال و بنين ويجعل لکم جنات ويجعل لکم أنھارا. (نوح 10۔12)
ميں نے کہا : اپنے رب سے معافی مانگو بيشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشيں برسائے گا ، تمہيں مال اور اولاد سے نوازے گا ، تمہارے ليے باغ پيدا کرے گا ، اور تمہارے ليے نہريں جاری کردے گا ۔
ايک شخص کو اولاد نہ ہوتی تھی ، علاج ومعالجہ ميں کوئی کسر نہ اٹھارکھی ليکن کوئی فائدہ نہ ہو سکا ۔ آخرکار اُس نے کسی عالم سے پوچھا کہ کيا کروں ؟ انہوں نے کہا : کثرت سے استغفار کرو کيونکہ استغفار کرنے والوں سے اللہ تعالی کا يہ وعدہ ہے کہ ويمددکم بأموال وبنين (نوح 12) وہ تمہيں مال اور اولاد سے نوازے گا ۔ اس شخص نے کثرت سے استغفار کرنا شروع کرديا يہاں تک کہ اللہ تعالی نے اسے نيک اولادسے سرفراز فرمايا۔
 توآئيے! استغفار کوہم اپنا حرزجان بنائيں ، اورچلتے پھرتے، اٹھتے بيٹھتے، ہروقت، ہرآن اور ہر لمحہ اس کا اہتمام کريں۔ بالخصوص اس استغفارکا ورد کرنا نہ بھوليں جسے سيد الإستغفار کہا جاتا ہے۔ يہ وہ استغفار ہے کہ اگرکوئی اس کا اہتمام پورے يقين کے ساتھ دن ميں کرتا ہے اور شام سے پہلے اُس کی مو ت ہوجاتی ہے تووہ جنت ميں جائےگا ،اور اگرپورے يقين کے ساتھ رات ميں کرتا ہے اور صبح سے پہلے فوت پاجاتا ہے تووہ بھی جنت ميں جائے گا ۔۔ کيا آپ اِس استغفار کو جانتے ہيں ؟ استغفار يہ ہے : اللھم أنت ربی لا إلہ إلا أنت خلقتنی ، وأنا عبدک وأنا علی عھدک ووعدک ما استطعت ، أعوذبک من شرما صنعت، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ، فاغفرلی فانہ لا يغفرالذنوب إلا انت.
" ميرے اللہ ! تو ميرا رب ہے ، تيرے سوا کوئی معبود نہيں ، تونے مجھے پيدا کيا اور ميں تيرا بندہ ہوں ، جتنا بس ميں ہے تجھ سے عہد و پيمان کرتا ہو ں ، ميں نے جو کچھ کيا اس کے شر سے تيری پناہ چاہتا ہوں ،ميں اپنے اوپر تيری نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں ، اور ساتھ ہی اپنے گناہوں کا اقراربھی ۔ پس مجھے بخش دے ۔ تيرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہيں" ۔
 يہ دعا جن لوگوں کو ياد نہيں ہے اسے دعا کی کتابوں سے ياد کريں ، اپنے بچوں اور اہل خانہ کو ياد کرائيں اور بکثرت اِس کا اہتمام کريں ۔ اللہ تعالی ہميں اس کی توفيق دے ۔ آمين
مکمل تحریر >>

جمعرات, جولائی 11, 2013

اورتم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر


”جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجودرہے گی یورپ مشرق
پرقبضہ نہیں جماسکتا اورنہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔
 قرآن کریم رشدوہدایت کا سرچشمہ ،علم ومعرفت کا خزینہ اورجسمانی و روحانی بیماریوں کے لیے شفا،کامل ہے ، انسانیت کی رفعت وبلندی ، عزت وحکومت ،دینوی وآخروی سعادت اورقوم وملت کی تعمیر وترقی قرآن کریم کی اتباع میں مضمر ہے ،جب تک امت مسلمہ اس کتاب سے رہبری اور رہنمائی حاصل کرتی رہی ،دنیاوآخرت میں فوزوفلاح اورسعادت وکامرانی سے ہمکنار ہوئی ،اورجب اس نے اسے پس پشت ڈالا تو انحطاط وتنزلی ،ذلت وپستی اورشقاوت وبدبختی اس کامقدربن گئی ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے ۔
        وہ زمانے میں معززتھے مسلماں ہوکر     
   اورتم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
صدحیف! آج جب ہم قرآن سے مسلمانوں کی بے رخی کودیکھتے ہیں توکلیجہ منہ کوآتاہے ،اکثرلوگوں نے قرآن سے بے تعلقی برت رکھا ہے ، ایک مرتبہ سیف اللہ المسلول خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی کبرسنی میں مصحف اٹھایااور روتے ہوئے گویاہوئے : أشغلنا الجھاد عنک ”اللہ کے راستے میں جہاد نے ہمیں تجھ سے بے پرواہ کردیا“ ۔
عزیزقاری! خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کوجہاد نے قرآن سے بے پرواہ کردیاتھا ،لیکن ہمیں کس چیزنے اس کتاب سے بے پرواہ کررکھاہے ؟ آخری بار ہم نے قرآن کب ختم کیا تھا؟ہماری زندگی میں قرآن کااثرکیوں دکھائی نہیں دیتا؟ شاید ہم ہی ہیں جن کے متعلق سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم بروزقیامت اللہ کی جناب میں شکایت کریں گے:
 وقال الرسول یارب إن قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا (سورہ الفرقان 30)
”اوررسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کوچھوڑرکھاتھا“چھوڑنے کاکیامفہوم ہے ؟ قرآن کونہ سننا اوراس پر ایمان نہ لانا قرآن کا ہجر ان ہے،اس کے اوامر پرعمل اورنواہی سے اجتناب نہ کرنابھی قرآن کاہجران ہے ، دین کے ا صول وفروع میں اس کونظراندازکرکے کسی اورکتاب کوفیصل بنانا بھی قرآن کاہجران ہے ،اس کوسمجھنا اوراس کے مراد کی جانکاری حاصل نہ کرنی بھی قرآن کاہجران ہے اوردلوں کی مختلف بیماریوں کااس سے علاج نہ کرنا بھی قرآن کاہجران ہے ۔
صد حیف ! آج یہ سارا ہجران ہماری کی زندگی میں پایاجارہا ہے ،جولوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں لیکن دین میں مختلف قسم کی بدعات وخرافات کورواج دے رکھا ہے ،وہ فی الواقع قرآن پرایمان نہیں رکھتے ،گو کہ وہ ہزاربار اس کادعوی کریں اورزندگی بھر اس کی تلاوت کرتے رہیں ، جولوگ زنا،سود،قتل ناحق ،چوری ،دھوکہ ،چغلخوری اورفحش کلامی کے عادی ہیں ،آخران کاایمان قرآن پرکہاں ہوا؟جولوگ واجبات کوترک کرتے ہیں ،اورمامورات میں سستی برتتے ہیں، مثلانماز، روزہ، زکاة، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، صلہ رحمی ، اوریتیموں کی رعایت وغیرہ آخریہ قرآن کاہجران نہیں تواورکیاہے؟۔
عجیب بات یہ ہے کہ جتناہم قرآن کریم کی عظمت کاادراک نہ کرسکے اس سے کہیں زیادہ دشمنان اسلام نے اس کی اہمیت کوسمجھا اوراس کے آثارکو ملکوں اورقوموں سے نابودکرنے کی کوشش کی ،کیوں کہ انہیں اس بات کاشدیدخطرہ لاحق تھا ،کہ مبادایہ امت قرآن کی طرف لوٹ آئے ،چنانچہ عہد وکٹوریہ کے وزیراعظم مسٹر گلیڈااسٹون نے قرآن مجید کاایک نسخہ ہاتھوں میں اٹھاکر برطانوی دارالعلوم کے ارکان کوبتایا :
”جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجودرہے گی یورپ مشرق پرقبضہ نہیں جماسکتا اورنہ وہ بذات خود امن وامان سے رہ سکتا ہے“ ۔
فرزندان اسلام ! آج زمانہ پکارپکارکربلارہاہے کہ اے اسلام کے سپوتو!لوٹ آؤ اس کتاب کی طرف جس نے قوموں کی تقدیر کوبدلا،گلہ بانوں کو جہاں بان بنایا،ملکوں کوفتح کیا اورانسانی قلوب پرحکمرانی کی ،آؤ اس کتاب کی طرف جس نے صدیوں کے اختلافات کاخاتمہ کیا ، جانی دشمنوں کودوست بنایا، اورپتھردلوں کوموہ لیا، آؤاس کتاب کی طرف جس نے مورتی کے پجاریوں سے توحیدکاڈنکابجوایا،بھٹکے ہوئے آہوں کو حرم کاراستہ دکھایا،اورپیاسی انسانیت کو جام حیات پلایا۔کہاں گئے وہ لوگ جنہوں نے اس کتاب کو آویزہ گوش بنایاتھا؟ کہاں گئے وہ لوگ جن کی راتیں اس کی تلاوت میں بسرہوتی تھیں ؟ کہاں گئے وہ لوگ جن کی آنکھیں تلاوت قرآن سے اشکبار ہوتی تھی ؟
اگر آج بھی امت قرآن کے پرچم تلے اکٹھا ہوجائے اور اسے اپناحرزجان بنالے توعزت وشرف اوراقبال مندی ان کی کنیزبن جائے ،اوران کی سارے مشکلات حل ہوجائیں ۔ صحیح مسلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
 إن اللہ یر فع بھذا الکتاب أقوما ویضع بہ آخرین (رواه مسلم)
 ”اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے بہت سے لوگوں کوسرفرازفرمائے گا اوراسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا“۔تاریخ کے اور اق الٹ کردیکھئے تو اس حدیث کاحقیقی منظر آپ کے سامنے آجائے گا ،مسلمانوں کو اللہ تعالی نے ابتدائی چند صدیوں میں ہرجگہ فتح وکامرانی عطاکی کیو ں کہ وہ قرآن کے حامل اورعامل تھے ، اس پرعمل کی برکت سے وہ دین ودنیاکی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام وقوانین پرعمل کرنے کواپنی زندگی سے خارج کردیا،تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے ،آج بھی ہماری عظمت رفتہ کی بحالی ہوسکتی ہے تواسی قرآن کے ذریعہ ۔آج ہر شخص اپنی اپنی سمجھ کے مطابق بہتری اورافضلیت کامعیار بناتا ہے ،لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان نے سب سے بہتر انسان جانتے ہیں کسے بتایاہے ؟ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ( رواه البخاري في فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه (5027)
”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جوقرآن سیکھے اوردوسروں کوسکھلائے “ اللہ اکبر !یہ کسی شاعر ،کسی فلسفی ،اورکسی مفکر کی پرواز تخیل نہیں بلکہ اس صادق مصدوق کے الفاظ ہیں جن کے نطق سے وحی کے مقدس پھول جھڑاکرتے تھے ۔جی ہاں !تب ہی تو اللہ والوں نے قرآن کے سیکھنے اورسکھانے میں اپنی زندگی وقف کردی ۔
چنانچہ یہ عبدالرحمن السلمی رحمہ اللہ ہیں جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے لے کر حجاج بن یوسف کی امارت تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے رہے یعنی تقریبا 60سال سے زیادہ عرصہ تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی ،یہاں تک کہ نہایت ضعیف ہوگئے ، لوگوں نے اس کاسبب جانناچاہاتو آپ نے یہی حدیث سنائی ۔خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جوقرآن سیکھے اوراسے سکھائے “۔پھر کہا : ھذا الذی أقعدنی مقعدی ھذا ” اسی بشارت نے مجھے اتنے دنوں تک یہاں بیٹھائے رکھا“۔(صحیح بخاری )
امام ذہبی رحمہ اللہ سیراعلام النبلاءمیں ان کی بابت لکھتے ہیں ، ان کی موت کے بعد لوگوں نے انہیں خواب میں دیکھا توپوچھا کہ اللہ تعالی نے آپ کے ساتھ کیسامعاملہ کیا ؟انہوں نے جواب دیا: ”مسلمانوں کے بچوں کو سورہ فاتحہ سکھانے کے باعث اللہ تعالی نے میری مغفرت فرمادی۔“
قرآن کریم کی تلاوت کے اجروثواب کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے ،کہ اس کے ایک حرف پر دس نیکیوں کی بشارت دی گئی ہے ، سنن ترمذی کی ایک روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : 
من قرأ حرفا من کتاب اللہ ،فلہ بہ حسنہ، والحسنة بعشر أمثالھا ،لا أقول الم حرف ولکن الف حرف ،ولام حرف ،ومیم حرف (ترمذی ، فضائل القرآن 2835 وصححہ الالبانی فی صحیح الجامع 4669)
”جس شخص نے اللہ کی کتاب کاایک حرف پڑھا ،اس کے لیے ایک نیکی ہے ، اورایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے،میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ،بلکہ الف ایک حرف ہے،لام ایک حرف ہے،اورمیم ایک حرف ہے “۔یعنی الم تین حرفوں سے مرکب ہے ،لہذا اس کے پڑھنے والوکو 30نیکیاں ملیں گی۔
اگرآپ چاہتے ہیں کہ روزمحشر جس دن نفسی نفسی کاعالم ہوگا،اس دن آپ کے گناہوں کی معافی کی سفارش کی جائے توقرآن کریم کی تلاوت کریں، صحیح مسلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
إقرؤوا القرآن فانہ یأتی یوم القیامة شفیعا لأصحابہ  ( رواه مسلم)
”قرآن کثرت سے پڑھا کرو ،اس لئے کہ قیامت والے دن یہ اپنے پڑھنے والے ساتھیوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا“۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بہشت کے اعلی درجات کے حقدار بنیں توقرآن کریم حفظ کریں اوربکثرت اس کی تلاوت کرتے رہیں ، سنن ابی داؤد اورترمذی کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :
 یقال لصاحب القرآن اقرأ وارتق ورتل کماکنت ترتل فی الدنیا،فان منزلتک عند آخرآیة تقرأھا ( رواه الترمذي في فضائل القرآن (2838) وقال حسن صحيح ، وأبو داود في الصلاة (1252) ، وأحمد (6508) ، وابن حبان (766) ، وقال الأرناؤط إسناده حسن) 
”روزقیامت قرآن پڑھنے اوراسے حفظ کرنے والوں سے کہا جائے گا کہ ”قرآن پڑھتاجا‘اورچڑھتا جا“اوراس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کرجیسے تودنیامیں ترتیل سے پڑھتا تھا ،پس تیرامقام وہ ہوگاجہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی“۔
اگر آپ کاتعلق ایسے لوگوں سے ہے ،جوقرآن اٹک اٹک کرپڑھتے ہیں ،اوراثناءتلاوت جومشقت ہوتی ہے ،اسے برداشت کرتے ہیں ،تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ، رب کریم کافیضان کرم دیکھئے کہ ایسے لوگوں کواس مشقت کی وجہ سے دوگنا اجرملے گا ۔بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 الذی یقرأ القرآن وھو ماھر بہ مع السفرة الکرام البررة ،والذی یقرأالقرآن ویتتعتع فیہ وھو علیہ شاق لہ أجران۔( رواه البخاري في تفسير القرآن باب عبس وتولى (4937) ، ومسلم في صلاة المسافرين (1329)
”جوشخص قرآن پڑھتا ہے ،اوروہ (صحت کے ساتھ )قرآن پڑھنے میں ماہر ہے ،تووہ قیامت والے دن بزرگ نیکوکارفرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جوقرآن اٹک اٹک کرپڑھتا ہے اوراس کے پڑھنے میں اسے مشقت ہوتی ہے اس کے لیے دوگنااجرہے“۔
ابھی ہم پر رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہے ،اورآپ جانتے ہیں کہ رمضان قرآن کامہینہ ہے ،اسی مہینے میں قرآن کانزول ہوا اور جبریل علیہ السلام رمضان کی ہرشب آپ کے ساتھ قرآن کادوراکرتے تھے ،اورعام دنوں میں قرآن کے ایک حرف پردس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، تورمضان میں اس کے اجروثواب میں سترگنااضافہ کردیاجاتاہے ،اس طرح حساب لگائیں توماہ رمضان میں ایک پارہ ختم کرنے پرتقریبا4ملین نیکیاں ملتی ہیں ۔
اللہ اکبر ! کیااس کے باوجود بھی کوئی انسان ہوگاجویومیہ کم ازکم ایک پارہ بھی قرآن کی تلاوت نہ کرے ؟ اسی لیے اللہ والے اس مہینہ میں تلاوت قرآن کابکثرت اہتمام کرتے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رمضان میں روزانہ ایک ختم کرتے ،بعض سلف تین دن میں ،بعض سات دن میں اوربعض دس دن میں ایک ختم کرتے تھے ،امام شافعی رحمہ اللہ رمضان میں 60مرتبہ ختم کرتے تھے ۔اورقتادہ رحمہ اللہ ہمیشہ دس دنوں میں ،ماہ رمضان میں تین دنوں میں ،اورعشرہ اواخر میں ہرشب ختم کرتے تھے ،بعض سلف کاحال یہ تھا کہ جب رمضان آتا توحدیث کی خواندگی اوراہل علم کی مجالست ترک کردیتے اورمصحف سے قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے تھے ،اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ رمضان کی آمد پردیگرعبادتوں سے کنارہ کش ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول ہوجاتے تھے ۔
یہاں پر کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیداہوسکتا ہے ،کہ احادیث میںتین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، توآخر اللہ والوں نے تین دن سے کم میں قرآن ختم کیسے کیا ؟تواس کاجواب حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے یوں دیاہے ۔
”تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنے کی جوممانعت وارد ہوئی ہے ،اس کامطلب اس پر ہمیشگی برتناہے ،البتہ افضل اوقات مثلا ماہ رمضان اورافضل اماکن مثلامکہ جس میں غیراہل مکہ داخل ہوں توایسی صورت میں زمان و مکان کی فضیلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مستحب ہے“
لیکن اس کامطلب ہرگزنہیں کہ قرآن ختم کرنے کی فکر میں اسے کاٹ کر پڑھا جائے ،جیساکہ بعض حفاظ کرتے ہیں ،بلکہ یہ تو قرآن پر بہت بڑی زیادتی ہے ،اوراس کی عظمت کونہ سمجھنے کا شاخسانہ ۔سنیں اپنے رب کی :
 لوأنزلناھذا القرآن علی جبل لرأیتہ خاشعا متصدعامن خشیة اللہ (الحشر21)
”اگر ہم قرآن کریم کوکسی پہاڑ پراتارتے توتودیکھتاکہ خوف الہی سے وہ پست ہوکر ریزہ ریزہ ہوجاتا“۔
 اللہ اکبر !قرآن کی بلاغت وفصاحت ،قوت استدلال اورعظمت وشان ایسی کہ انسانی قلوب توکجابلند وبالاپہاڑ بھی اس کی ہیبت سے رائی ہوجائے ۔
لہذا تمام مسلمانو ں سے بالعموم اورحفاظ کرام سے بالخصوص ہماری استدعا ہے ،کہ ہم قرآن کریم کے ساتھ اپنے تعامل پرنظر ثانی کریں ،کتاب اللہ کی بکثرت تلاوت کریں ،اس پرغور کریں ،اس کی آیات سے عبرت ونصیحت حاصل کریں اورامت کے نونہالوں کی اسی منہج پرتربیت کریں ،اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یارب العالمین

مکمل تحریر >>

بدھ, جولائی 10, 2013

خوبصورتی کے لیے پلکوں کے بال اکھاڑنے اورانہیں سجانے کا کیا حکم ہے ؟

سوال:

خوبصورتی کے لیے پلکوں کے بال اکھاڑنے اورانہیں سجانے کا کیاحکم ہے ؟ آج کل یہ بہت عام ہوچکا ہے جبکہ میں نے سنا ہے کہ جائزنہیں ہے، اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں ؟

جواب:


پلکوں کے بال اکھاڑ کر انہیں سجانا جائز نہیں ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورت پر لعنت بھیجی ہے جو پلکوں کے بال اکھاڑتی ہے یا اکھڑواتی ہے ۔ اورہمیں رواج یا طریقہ کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ شریعت کو دیکھنا چاہیے، اگر شریعت میں کسی کام سے ممانعت آئی ہے تو فوراً  رک جانا چاہیے، اگر چہ ہم اس کے زمانہ سے عادی ہوں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : 
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ( سورة الأحزاب 36)
"اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا "
 جى ہاں! جب اللہ اوراس کے رسول کا فیصلہ ہوجائے تو مومن مردو عورت کے لیے اپنے کسی معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا ۔

مکمل تحریر >>