جمعہ, اپریل 15, 2011

نمازمیں بُرے خیالات کا آنا

سوال:

جب میں نماز شروع کرتا ہوں تو نماز میں بُرے خیالات آنے لگتے ہیں ،اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ میری نمازیں بھی چھوٹنے لگی ہيں حالانکہ پہلے میں پنجوقتہ نمازوں کا پابند تھا ؟    (عبدالعلیم ۔ اندلس، کویت )

جواب: 

سب سے پہلے آپ یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ آپ کی نمازوں کے فوت ہونے کی بنیادی وجہ گناہوں اور معاصی کا ارتکاب کرناہے یہ ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ شیطان بندے کو بآسانی اپنا یرغمال بنا لیتا ہے اور اسے شعور بھی نہیں ہوتا ، اسی طرح ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ کے فحش پروگرام دین سے دوری پیدا کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں ۔ اور جب ایک آدمی گناہ کرتا ہے تواس کا براہ راست اثر دل پر پڑتا ہے جوانسانی جسم کا مرکزی عضو ہے، اگر یہ ٹھیک رہا تو جسم کی ساری کارگزاریاں ٹھیک رہتی ہیں اور اگر یہ خراب ہوگیا تو جسم کی ساری کارگزاریاں خراب ہو جاتی ہیں ۔
اور ہرشخص اپنے دل کا حال بذات خود اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے ہم آپ کو ناصحانہ مشورہ دیںگے کہ پہلی فرصت میں اپنے دل کا جائزہ لیں اس میں جو بُرے خیالات بیٹھے ہیں انہیں کھرچنے کی کوشش کریں،نماز اللہ تعالی سے مناجات اور سرگوشی ہے اورسرگوشی کی لذت آخر گنہگار بندے کو کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ آگ اور پانی دونوں ایک ساتھ اکٹھا ہوجائے ….؟
اگر ہم گناہوں سے باز آجائیں ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگیں اور موت کو ہروقت ذہن میں تازہ رکھیں توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری یہ حالت برقرار رہے جس سے فی الوقت دوچار ہیں۔پھر اس کے بعد نماز کی ادائیگی بے حد آسان ہوجائے گی اور ذہن میں بُرے خیالات بھی راہ نہ پائیں گے ۔
بہرکیف نماز میں بُرے خیالات سے بچنے کے لیے تین باتیں دھیان میں رکھیں :
(1) جب نماز کے ليے کھڑے ہوں تو اللہ کی عظمت وجلال کو دل پرطاری کرلیں کہ ہم ایک عظیم ہستی کے سامنے کھڑے ہیں، جب بندہ اللہ اکبر کہتا ہے تو آخر یہی اعتراف کرتا ہے نا کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں ۔
(2) نماز کے اذکار واوراد، سورتوں اور دعاؤں کے معانی کو ذہن میں ازبر رکھیں اور پڑھتے وقت ان کے معانی پر بھی غورکریں ۔
(3) اس کے باوجود بھی اگر وسوسہ بدستورقائم ہے تو اللہ کے رسول انے اس کا خاص علاج بتادیا ہے کہ نماز کی حالت میں اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دیں اور شیطان رجیم سے پناہ مانگیں ۔حضرت عثمان بن ابی العاص ص کا بیان ہے میں نے کہا: یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  شیطان میرے اور میری نماز کے بیچ حائل ہوجاتا ہے اور میری قرأ ت کومجھ پر خلط ملط کردیتا ہے ، آپ نے فرمایا :
 ذَاکَ شَیطَان یُقَالُ لَہ خَنزَب فَاِذَا أحسَستَہ فَتَعَوَّذ بِاللّٰہِ مِنہ وَاتفِل عَلیٰ یَسَارِکَ ثَلاثاً
”یہ شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے ، جب ایسا احساس پیدا ہو تو اس (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنے بائیں جانب تین بار تھوک دو “ حضرت عثمان بن ابی العاص ص کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ اللہ تعالی نے میری شکایت دور کردی ۔ (صحیح مسلم)

مکمل تحریر >>

جمعرات, اپریل 14, 2011

زکاة کے احکام


 
سوال: زکاة کاحکم کیا ہے اورزکاة کانصاب کیاہوگا ؟ بالخصوص سونے کی زکاة کیسے نکالی جاے گی ؟       (زکریا ۔ سالمیہ، کویت )

جواب: زکاة اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے جس کی ادائیگی ہرصاحب استطاعت اور مالک نصاب پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے ۔ اس کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں سے اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضى الله عنه نے اعلانِ جنگ کیا تھا ۔
زکاة چار چیزوں پر واجب ہوتی ہے (1) سونے چاندی اور نقدی سکے (2) تجارتی سامان (3) مویشی (4) اور زرعی پیداوار۔
سونا اگر 85 گرام یا اس سے زیادہ ہو اور چاندی 595 گرام یا اس سے زیادہ ہو، پھر اس پر سال گذر جائے تو اس میں چالیسواں حصہ واجب ہے ۔ یہی حساب نقدی سکوں اورتجارتی سامان کابھی ہوگا کہ اگریہ 85 گرام سونے کی قیمت کے برابر ہوجائیں اور ان پر سال گزرجاے توان کی بھی زکاة نکالنی واجب ہے ۔
مویشیوں میں وجوب زکاة کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ مقررہ نصاب کو پہنچ جائیں، ان پر سال گزرجائے ،وہ سال کے اکثر حصہ چرتے ہوں اور باربرداری کے لیے نہ رکھے گئے ہوں۔ واضح ہوکہ 5سے کم اونٹوں میں زکاة نہیں، 30 سے کم گایوں میں زکاة نہیں، اور 40 سے کم بکریوں میں زکاة فرض نہیں ہے ۔
زرعی پیدا وار کے لیے سال گزرنا ضروری نہیں ہے ،جب فصل تیارہو‘زکاة فرض ہے بشرطیکہ غلہ پانچ وسق یعنی 653 کیلوگرام تک پہنچ جائے۔ اگر کھیت کو بارش یا چشموں کے پانی نے سیراب کیا تو دسواں حصہ اور اگر آلات اور مشینوں سے سیراب کیا گیاتو بیسواں حصہ زکاة فرض ہے ۔

مکمل تحریر >>

بدھ, اپریل 13, 2011

گناہ کرنے سے پہلے سوچ لو

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں، مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله  نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: ”جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو “۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو‘ جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔ آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا…. ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟ آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔ آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔ آدمی نے کہا: وہ تو سب کودیکھ رہا ہے ،اس سے ہم کہاں چھپ سکتے ہیں۔ ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے پھر اسی کی نافرمانی کرے ‘جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟ آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔ آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قطعاًقبول نہ کرے گا۔ ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟ آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: پھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔ آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوںاوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزار دی 

مکمل تحریر >>

منگل, اپریل 12, 2011

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب


تجلیات کے اس کالم میں آج ہم اُس دھرتی کی تصویرکشی کرنے بیٹھے ہیں جس پر ہمارے آباءواجداد نے دس سو سالوں تک حکومت کی ،اُسے سجایا سنوارا اور سونے کی چڑیا بنایا، جب اس دھرتی پرسیاہ فام انگریزوں کا تسلط ہوا تو قوم مسلم کے سورماؤں نے اپنی جان ومال کی قربانیاں پیش کیں، دارورسن کے پھندے چومے ،اور تن کے گوروں اور من کے کالوں سے وطن عزیز کو آزاد کرایا ۔
 آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد جمہوریت کے سایہ تلے چند سالوں تک مسلمانوں کا وقار بحال رہا لیکن رفتہ رفتہ اس ملک پر اعلی طبقوں کا قبضہ ہوتا گیا‘جو اسلام واہل اسلام سے خارکھاتے تھے،اب کیا تھا ؟ فسطائی ذہنیت کا لاوا پھوٹنے لگا،فرقہ واریت کے اژدہے پھن پھیلانے لگے ، ہندتو کے نعرے بلند ہونے لگے ، ہندواحیاء پرستی کے جذبے سے ان کی فسطائی تنظیمیں سرگرم ہوگئیں ۔ یہی چند مٹھی بھر جماعت ہے جو60 ساٹھ سالوں سے مسلمانوں کے ناک میں دم کیے ہوئی ہے ،اگر یہاں کی اکثریت جمہوریت پسندنہ ہوتی تو نہ جانے کب یہ مسلمانوں کا بستر گول کردیے ہوتے ، یہودی ذہنیت کی حامل اس قوم نے ملک کے کونے کونے میں سیکڑوں مسلم کش فسادات کرائے جن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں ہم تو حال کا تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود اس قوم نے اقلیتی طبقوں کے خلاف کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔

خواتین ریزرویشن بل :

حالیہ دنوں راجیہ سبھا نے خواتین ریزرویشن بل پاس کردیا ہے جس کے مطابق 33 فیصد خواتین ریزرویشن کی حقدار ہوںگی ،یہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستوں کی ایک خطرناک سازش ہے ، پچھلے دنوں کچھ اسلام پسند مسلمانوں کوایوان میں نمائندگی ملی تواس سے ان کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ اگر مسلمانوںاوراقلیتی طبقہ کے لوگوں کو یوں ہی موقع ملتا رہا تو یہ سیاست پر حاوی ہوجائیں گے ۔اس لیے کسی طرح اس بل کو پاس کرانا ضروری سمجھا ، ریزرویشن کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی فی الحال جوبرائے نام نمائندگی پائی جاتی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی ۔ ظاہر ہے کہ جن حلقوں سے مسلم لیڈروں کے جیتنے کی توقع کی جا سکتی تھی وہ حلقے خواتین کے لیے خاص کردیے جائیں گے ، جیسا کہ پنچایتوں میں اس کا تلخ تجربہ ہوچکا ہے ، اگرایسا ہوا توان مخصوص حلقوں سے اونچے طبقے کی خواتین ہی پارلیمنٹ میں نمائندہ بن کر آئیں گی کیونکہ مسلم خواتین کاتو سیاست میں کوئی عمل دخل ہے نہیں.... اس طرح مسلمانوں کو سیاست سے پوری طرح واک آؤٹ کردیا جائے گا....پھر مسلمانوں کے مسائل حکومت کے پاس پیش کرنے والا بھی کوئی نہ بچے گا۔ یہ ہے فرقہ پرستوں کی سوچی سمجھی پلاننگ جسے کانگریس بھی منوانے پر تلی ہوئی ہے ۔

 تعلیمی اداروں کے خلاف سازش :

آزادی کے بعد مسلم قائدین نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیمی ادارے قائم کیے جوبرابرفرقہ پرستوں کے نشانے پر رہے،دینی مدارس پردہشت گردی کے الزامات تراشے گئے،اس میں کامیابی نہ مل سکی تو مرکزی مدرسہ بورڈ کی پلاننگ ہونے لگی جب یہاں بھی منہ کی کھانا پڑی تو اقلیتی کردار کے عصری تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ میں اکثریتی فرقہ کے طلبہ وطالبات کو خوب سے خوب جگہیں دی جانے لگیں ،جس ادارے کو مسلم علماءوقائدین نے اپنے خون پسینے سے سینچا تھا انہیں اکثریتی طبقہ کے طلبہ وطالبات کی آماجگاہ بنادیا جائے تو کیا یہ اپنے گھر میں حصہ داربنانے کی بات نہ ہوگی ؟ حالیہ دنوں مسلم قائدین اس سلسلے میں پُرامن احتجاج کررہے ہیں اور حکومت سے ۰۵ فیصد کی حصہ داری کا حق مانگ رہے ہیں ....

دوہرا معیار :

بنگلہ دیش کی شاتم رسول مصنفہ تسلیمہ نسرین جس نے اسلام اور مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اب تک کرتی آرہی ہے اسے فن اور فنکار کی حمایت کے نام پر گذشتہ دس سالوں سے حکومت نے پناہ دے رکھا ہے لیکن جب عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ مقبول فدا حسین نے ہندومورتیوں کی ننگی تصویریں بنائیں (جسکی توہین کے وہ خود عادی ہیں جبکہ اسلام کسی کے معبود کی توہین کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ) تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ،اس کے سر کی بولی لگائی جانے لگی ،اس کے لیے زمین تنگ کردی گئی ،اور راتوں رات جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا،عرصہ سے وطن لوٹنے کی منت سماجت کے باوجود جب کوئی شنوائی نہ ہوئی تو چنددنوں قبل حکومت قطر نے اس عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ کواپنے ملک کی شہریت عطا کرکے اس کے فن کی قدر کی ہے ۔
 پس چہ باید کرد: یہ ہیں حالیہ چند مثالیں جن سے ایک خاص طبقے کی ذہنیت طشت ازبام ہوکر سامنے آتی ہے،اوراسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے عزائم کسقدر خطرناک ہیں ۔لیکن ہم مسلمان ہیں ، ہمیں اپنے اسلام پر فخر ہے ، ہم میں کا ہرفرد ایک ذمہ دار ہستی ہے ، اس لیے ہمیں ظلمت شب سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں 

تندی بادمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

ہمیں شاہین صفت بننا ہے ، اپنے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا ہے ، نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ، برادران وطن میں دعوتی کاز کو وسعت دینی ہے ، مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھنا ہے اور متحد ہوکر اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت کرنی ہے .... ہمت سے بولو ان شاء اللہ

        
مکمل تحریر >>