بدھ, جولائی 04, 2012

جنت میں جنتیوں کی عمر کتنی ہوگی ؟

سوال:

جنت میں جنتیوں کی عمر کتنی ہوگی اورکیا ان کی عمر میں اضافہ بھی ہوگا ؟ 

جواب:


جنت میں جنتیوں کی عمریں33سال کی ہوں گی جیساکہ اس سلسلے میں صحیح حدیث کے اندر بتایا گیاہے. (ترمذى)  اوریہی عمر مردکی بھی ہوگی اورعورت کی بھی، کیونکہ یہ عمر جوانی کی پختگی کی عمر ہے ۔ اورپھر جنتیوں کی عمر میں اضافہ نہیں ہوگا ۔

مکمل تحریر >>

عالمی ماحولیاتی تبدیلی : ذمہ دار کون؟



خالق کائنات نے اس عالم رنگ وبو کو نہایت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر پیدا کیا ہے، یہاں کی ہرچیز بامقصد، باہدف اورانسانی ضرورت کے عین مطابق ہے، کوئی بھی چیزبیکار، عبث اور نکمی نہیں، پھرپروردگارنے ان نعمتوں کو انسان کے تابع اور مسخر کردیا کہ وہ جیسے چاہے اور جس انداز میں چاہے انہیں اپنے کام میں لائے، اس کے لیے انسان کو عقل کی لازوال نعمت سے مالا مال کیا گیا۔ اسی نعمت عقل کی بنیاد پرآج کے اس ترقی یافتہ دورمیں انسان نت نئی چیزیں ایجاد کر رہا ہے، ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے ، زہرہ ومریخ اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹ رہا ہے۔
یہ ساری تسخیری صلاحیتیں اپنی جگہ‘ لیکن انسان کو قطعا اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تسخیر کائنات کے زعم میں مبتلا ہوکرنظام کائنات سے چھیڑخانی کرنے لگے، اگر ایسا کرتا ہے تواس کا منفی رد عمل سامنے آئے گا، نظام کائنات بگڑے گا، جس کے نتیجہ میں زندگی اجیرن ہوگی، جان ومال کی تباہی ہوگی، اور بحروبر میں اضطراب پیدا ہوگا ۔
 کرہ ارضی کی موجودہ صورتحال کودیکھ کرآج کل یہی کچھ اندازہ لگ رہا ہے۔ جنگلات کی صفائی، درختوں کی کٹائی، اور توانائی کے بے جا استعمال سے ماحولیاتی بگاڑپیدا ہوا ہے، زمین کادرجہ حرارت بڑھاہے، اور موسمی تبدیلی آئی ہے۔ اگراس پرقابونہ پایا گیا توآئندہ سالوں میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔

 سائنس داں کہتے ہیں کہ فضائی کرہ قائمہ کے بالائی حصے میں 33- کیلو میٹر کے فاصلے پر اوزون کی ایک پرت ہے جو غلاف کی طرح ہے، یہ پرت گویا سورج کی روشنی کے لیے ایک فلٹراورچھلنی کی مانند ہے جو سورج سے آنے والی ہلاکت خیز اور خطرناک حد تک گرم شعاؤں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ نیچے زمین پر پہنچ کر

جانداروں میں کینسر اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی۔ آج یہی کچھ ہوا ہے.... کارخانوں ، فیکٹریوں، اور فضامیں گردش کرتے جہازوں سے جو دھواں نکل رہا ہے اور گیس خارج ہو رہا ہے وہ گولوں کی شکل میں تبدیل ہوکر اوزون کی اس پرت سے ٹکراتے ہیں، جس کے باعث اس پرت میں جگہ جگہ شگاف پڑچکے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کسی وقت یہ پرت بالکل ختم ہی ہوجائے، اس کے نتیجہ میں آبی ذخیرے بالکل خشک ہو سکتے ہیں، اس درجہ

حرارت کی بنیاد پر سمند رمیں موجود بڑے بڑے گلیشیر پگھلنے لگے ہیں اور ان کا پانی سمندر کے پانی میں مل کر سطح آب میں اضافہ کر رہا ہے ۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو چند سالوں میں دنیا کے ساحلی شہر غرق آب ہوجائیں گے، اور 2050 ءتک زمین بھی ختم ہوجائے گی ۔

سروں پر منڈلارہے ان سنگین خطرات نے عالمی رہنماؤں اور سائنس دانوں کی نیند خراب کررکھی ہے، اس کے ازالہ کے لیے پچھلے کئی سالوں سے عالمی سطح پر مذاکرات ہورہے ہیں، سیمینار اور سمپوزیم ہورہے ہیں، بین الاقوامی کانفرنسیں ہورہی ہیں، ابھی ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہینگ میں اس قبیل کا بین الاقوامی اجلاس اختتام پذیر ہوا ہے، اس کانفرنس کوبھی مبصرین نتائج کے اعتبار سے غیراطمینان بخش قرار دے رہے ہیں،  واقعہ یہ ہے کہ نقصاندہ گیس کا اخراج ترقی یافتہ ممالک زیادہ کرتے ہیں، جبکہ خسارہ زیادہ تر ترقی پذیرممالک کا ہورہاہے۔ ایسی صورتحال میں جب تک ترقی پذیرممالک کوخاص مراعات نہیں ملتی وہ سمجھوتے کو کیسے تسلیم کرلیں گے ؟

 بہرکیف اس سے قطع نظر کہ کس حد تک اس خطرے پرکنٹرول پانے کا اتفاق ہوتا ہے ہمیں سردست اس سوال پر غور کرنا ہے کہ آخر اس موسمی تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے ؟ اور اس سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟ کیوں کہ اس کا تعلق براہ راست ہم سے ہے ۔

قرآن کریم نے بحر وبر میں فساد واقع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے،  تاہم اس کا ذمہ دار حضرت انسان ہی کو ٹھہرایا ہے ،(الاعراف 54) ۔ پھر اس نے ہرچیز کے استعمال میں اعتدال وتوازن کی تاکید کی ہے اوراسراف وفضول خرچی کو شیطانی عمل قرار دیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
 ”اسراف مت کرو‘بیشک وہ (اللہ تعالی) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“ (الأنعام141  ) 
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
 ” جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی ونسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے “ (البقرة205
یہ آیت گوکہ ایک خاص پس منظر میں اتری ہے تاہم اس حکم میں وہ سارے لوگ داخل ہوں گے جو ان مذموم صفات کے حامل ٹھہریں گے۔  ذرا آیت پر باریکی سے غور کیجئے کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین میں فساد مچانے اور حرث ونسل کو تباہ کرنے کے بیچ ربط قائم کیا ہے ۔ کیا جنگلات کا صفایا، توانائی کے استعمال میں تجاوزجس کے باعث جانوں کی ہلاکت ہورہی ہے حرث ونسل کی تباہی نہیں ؟ اگرقرآنی تعلیمات کے مطابق فطری اشیاء کواپنی جگہ رہنے دیا جاتا، اور گیس کے اخراج میں اعتدال و توازن برتا گیا ہوتا توانسانیت کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایک مسلمان یہاں پر یہ سبق حاصل کرتا ہے کہ انسان کے لیے امن وسکون فطری نظام کی تابعداری میں ہے ۔اس لیے اسے چاہیے کہ انسانی مصلحتوں کی خاطر نظام کائنات کو اپنی قدرتی رفتار پر برقرار رہنے دے اور ارضی وسماوی آفات کے وقوع سے پہلے کتاب الہی میں اس کا حل ڈھونڈے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک طرح کا الٹی میٹم ہے کہ انسان فطرت کی طرف لوٹ آئے۔

مکمل تحریر >>

منگل, جولائی 03, 2012

جتنا ہی دباؤ گے اتنا ہی یہ ابھرے گا

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جو ناگفتہ بہ صورتحال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، بالخصوص برما، شام ، فلسطین، افغانستان، کشمیر اورآسام میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وبربریت اور درندگی کاجو ننگا ناچ ناچا جارہا ہے وہ جگ ظاہر ہے ،لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ روزاول سے حق وباطل کا معرکہ چلا آرہا ہے ، اس معرکہ میں وقتی طور پر اسلام کو زک پہنچا ہے ،مسلمانوں نے چوٹیں کھائی ہیں، لیکن یہ تاریکیاں ہمیشہ نہ رہی ہیں نہ رہیں گی ، ہر دورمیں حق کو بالآخر غلبہ نصیب ہوا اور باطل نے منہ کی کھائی ہے، اس لیے آج بھی ہمیں پورایقین ہے کہ باطل جس قدربھی سرچڑھ کربولے پسپا ہوکر رہے گا۔
ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ دین حق ہے اسے اس لیے برپا کیا گیا ہے تاکہ پوری دنیا میں پھیلے، انسانیت کی رہنمائی کرے ، شروع انسانیت سے آج تک خالق کائنات کا یہی دستور رہا ہے ، پہلے انسان آدم ں کی اولاد دس صدیوں تک توحید پر قائم رہی ، پھر ان میں شرک درآیا تو اللہ پاک نے ان کی ہدایت کے لیے انبیاءورسل کو بھیجا۔ ہر دورمیں انبیاءآتے رہے،اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے رہے ،جن لوگوں نے حق کو اپنایا ان کو سربلندی حاصل ہوئی اور جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ان کو ذلت ورسوائی نصیب ہوئی۔ قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط ، فرعون ، قارون، ہامان ، شداداوران جیسی دیگرمردود اقوام محض اس لیے برباد ہوئیں کہ انہوں نے حق کا انکار کیا تھا اورباطل کی پشتیبانی کی تھی ۔
سب سے اخیرمیں اللہ پاک نے محسن انسانیت صلى الله عليه وسلم کو ساری انسانیت کا رہبر وقائد بناکر بھیجا ، جس وقت محمد عربی  صلى الله عليه وسلم  نے کفروشرک کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں توحید کی شمع جلائی تھی، پوری دنیا اسے اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانے کے لیے کمربستہ ہوگئی تھی، جن سعید روحوں نے اسلام قبول کیا تھا، اُن کو ظلم وستم کی چکی میں پیسا گیا، آپ صلى الله عليه وسلم کوپاگل اوردیوانہ کہا گیا،آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے،آپ کا اورآپ کے ماننے والوں کا معاشرتی بائیکاٹ کیاگیا، چراغِ نبوت کو بجھانے کی ہرممکن کوشش کی گئی، وطن سے نکلنے پر مجبور کیا گیا، اللہ کے حکم سے اپنے گھرباراور املاک کوچھوڑکرمدینہ میں پناہ لے لی، پھر بھی ظالموں کو چین نہ آیا اور ہر سال آپ کے خلاف محاذ برپا کرتے رہے ، کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئی رہی ہوگی کہ یہی چراغ ایک دن آفتاب بنے گا اوراس کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہوگی۔ اُس وقت یہ بشارت کہ اسلام مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک پھیلے گا،اورقیصروکسری کی سپرپاورحکومتیں اسلام کے زیرسایہ آجائیں گی خواب وخیال کی باتیں تھی، محمد صلى الله عليه وسلم ایک طرف اوردنیائے کفروشرک دوسری طرف،ہمارے دنیاوی پیمانے کے مطابق اسلام کا خاتمہ ہوجانا چاہيے تھا کہ داعی ایک تھا اور مخالفت پرکمربستہ پوری دنیا تھی، معرکہ احزاب میں کفر کے سارے قبائل اسلام کے خلاف متحد ہوکر اکٹھا ہوچکے تھے ، سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ اسلام اور اہل اسلام کا خاتمہ کردیاجائے ،لیکن اسلام مخالف طاقتیں وہاں بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکیں اوراسلام پھیلتا ہی رہا، یہ محاذآرائی مسلسل21 سال تک چلتی رہی ۔تعجب کی بات ہے کہ 21سال کے طویل عرصہ  کے بعدیہی خون کے پیاسے اسلام کے سایہ تلے جمع ہوگئے ،اوراسلام کے فروغ میں اپنی پوری توانائیاں صرف کرنے لگے،چندسالوں کے بعد نبی پاکصلى الله عليه وسلم کی وفات ہوتی ہے تو اسلام کو غلبہ اورشوکت حاصل ہوچکی تھی، وفات نبوی  صلى الله عليه وسلم کے فوراً بعد مرتدین کا فتنہ سراٹھایااورایک طرف کئی جھوٹے دعویدارانِ نبوت پیدا ہوئے تودوسری طرف کچھ لوگوں نے زکاة کی ادائیگی سے انکار کردیا، لیکن یہ فتنہ بھی چند دنوں میں فرو ہوگیا۔  پھرسن 35 ہجری میں صحابہ کرام کے بیچ اختلافات رونما ہوئے اورکئی فتنوں نے جنم لیا تو اندیشہ پیدا ہونے لگا کہ اسلام کی بالادستی ختم ہو جائے گی، لیکن مرورایام کے ساتھ پھراسلام کی شوکت بحال ہوئی، اورخلافت بنوامیہ اور خلافت بنوعباسیہ میں بہت ساری خامیوں کے باوجود اسلام کا جھنڈا لہراتا ہی رہا۔ پھر وہ دن بھی آیاکہ سن656 ہجری میں تاتاریوں کا حملہ ہوا تو اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ، مسلمانوں کے خون سے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا،اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیاگیا، اورمسلمانوں پر ایسی سراسیمگی طاری ہوئی کہ ایک تاتاری عورت کسی مسلمان کو باہر گذرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس سے کہتی ہے رک جاؤ ابھی میں تلوار لے کر آتی ہو ں، وہ گھر سے تلوار لے کرآتی ہے تب تک یہ مسلمان سہما ہوا وہیں کھڑا رہتا ہے، اورنہایت بے دردی سے اس کا سر قلم کرتی ہے ۔ ایسی ذلت اور سراسیمگی کی حالت کو مسلمان پہنچ گئے تھے لیکن تاریخ نے دیکھا کہ وہی فاتح تاتا رمفتوح قوم کے دین کو گلے لگارہی ہے ، اورپاسباں مل رہے ہیں کعبہ کو صنم خانے سے ،چنانچہ ایک بار پھر اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا ہے، اورسن 720ہجری میں خلافتِ عثمانیہ پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گرہوتی ہے، اور1341ہجری تک اپنی فتح کا جھنڈا لہراتی رہتی ہے، یہاں تک کہ یہودونصاری کی ملی بھگت سے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اوران کے کٹھ پتلی مصطفی کمال اتاترک نے حکومت کا باگ ڈورسنبھالا تو بھرے مجمع میں حجاب کوپیروں تلے رونددیا، قرآن کی بے حرمتی کی،عربی زبان پر پابندی عائد کردی ، مدارس ومساجد پرقدغن لگادیا، اوراسلام کے سارے نشانات کو مٹانے کی کوشش کی ۔ لیکن اب تک اسلام کا پرچم ساری دنیامیں لہرارہا ہے اورقیامت کے دن تک لہراتا رہے گا۔
عزیزقاری !یہ تاریخی سلسلہ جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے دل لگی کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے کہ حق وباطل کے معرکہ میں وقتی طورپر مسلمانوں کو گزند پہنچا ہے لیکن مسلمانوں نے وہاں پست ہمتی کا مظاہر نہیں کیا بلکہ صبرو شکیبائی کا دامن تھامے ہوئے اسلام کی بالادستی کے لیے لڑتے رہے بالآخر اسلام کو غلبہ نصیب ہوا ۔ اورکیوں نہ نصیب ہو کہ اس دین کے استحکام اورفروغ کی ضمانت اس کے نازل کرنے والے نے لے رکھی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
” وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے ۔“  (سورة التوبة 33)
جی ہاں ! یہ دین‘ دنیا کے کونے کونے میں پھیلنے اور سارے باطل ادیان پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے ،اورہوکر رہے گاکہ یہ وعدہ ‘اِس دین کواُتارنے والی ذات احکم الحاکمین کا ہے۔ 
اسی طرح اللہ پاک ہمیشہ اہلِ ایمان کومادی ومعنوی قوت بہم پہنچاتا رہاہے اورپہنچاتا رہے گاکہ اس کا اعلان ہے :”اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناان کی مدد کی جائے گی، اورہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا“۔ (سورة الصافات 171۔173) 
دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:  وكان حقا علينا نصر المؤمنين (سورة روم47) ”اورہم پر یہ حق تھا کہ مومنوں کی مدد کریں “۔ 
اہل ایمان سے اللہ گ کایہ وعدہ بھی ہے کہ :
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
”تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیکی کا کام کیاہے ،اللہ تعالی وعدہ کرچکا ہے کہ انہیں زمین کی خلافت عطافرمائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو عطا فرمایاتھا جو ان سے پہلے تھے ،اوربیشک ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ قائم کردے گاجسے ان کے لیے وہ پسندکرچکاہے ، اوران کے ڈر اورخوف کو امن وسکون میں بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔“(سورة النور 55)
 ان آیات میں اللہ پاک نے دوٹوک انداز میں بیان فرمادیا ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب اور سربلند رہے گا اور اہل ایمان ہردورمیں فتحیاب اور کامیاب رہیں گے۔
ہمیں اس بات پربھی سوفیصد یقین ہے کہ اہل باطل جس قدر مالی اورجسمانی طاقتیں صرف کریں ان کی ناکامی یقینی ہے ۔ اللہ پاک نے فرمایا: 
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ (سورة انفال36)
 ”بیشک کفار اپنا مال اس لیے خرچ کررہے ہیں کہ اللہ کے راستے سے روکیں، تو یہ لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے لیے حسرت کا سبب بن کر رہ جائے گا، پھر وہ شکست کھاجائیں گے ۔ “
کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج باطل قوتیں مسلح ہوکرمیدان میں اترچکی ہیں ، شہوات کوہوا دینے کے لیے اربوں ڈالرخرچ کررہی ہیں، الکٹرونک میڈیا کے ذریعہ اس نے گھر گھر رسائی حاصل کرلی ہے، اسی طرح عسکری اورفکری جنگ میں اپنی پوری توانائیاں صرف کررہی ہیں، صرف اس لیے کہ اسلام کو مٹا دیاجائے،لیکن اسلام مٹنے کے لیے نہیں بلکہ کفر کومٹانے کے لیے آیاہے،یہ ان کی خام خیالی ہے، ”یہ دین وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہوتی ہے اوردنیاکا کوئی گھر ایسا نہ رہے گا جہاں اسلام کی بالادستی قائم نہ ہو “۔
ایک وقت وہ بھی آنے والا ہے جس کی طرف ہمارے حبیب  صلى الله عليه وسلم نے اشارہ کردیا ہے کہ مسلمان یہودیوں سے برسرپیکارہوں گے اوران کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کردیں گے ، آپ  صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا:” مسلمان یہودیوں کا صفایا کردیں گے ، یہاں تک کہ ایک یہودی اگرکسی پتھر اور درخت کی اوٹ میں روپوش ہوکر پناہ لینا چاہے گا توپتھراور درخت بولے گا :
 ” اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے ، آؤ اور اِسے قتل کردو۔ سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہیں بولے گا) کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے“۔ (مسلم)
ایک مسلمان کو سو فیصد یقین ہونا چاہیے کہ مستقبل اسلام کا ہوگاکہ یہ دین حق ہے اور اسکے ماسوا جتنے ادیان ومذاہب ہیں وہ سب باطل ہیں ۔یہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ دین ہےجو انسانی مصالح کی رعایت کرتا ہے۔ زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے، اس کی تعلیمات دین اوردنیا کی ساری ضرورتوں کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے ، انسانوں نے جہالت وضلالت کے جو فلسفے بنائے ایک عرصہ گذرنے کے بعد اپنے آپ مرگئے ،لیکن اسلام نے جن حقیقتوںکی طرف بلایا وہ حقیقتیں برسہا برس گذرنے کے باوجود اٹل ہیں ۔اس نظام کے سامنے انسانوں کے خودساختہ قوانین دم توڑ چکے ہیں ،اشتراکیت کو دیش نکالا دیا جاچکا ہے ، سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں سے انسانیت جوجھ رہی ہے ، وضعی قوانین انسانی مسائل کوحل کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں، اب دنیا ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو اسے اس  جہنم زارنظام سے نکالے اور یہ مسیحا اسلامی نظام حیات ہے ۔ آج پوری دنیا بالخصوص یورپ اورامریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلجیکا میں2025 تک پہلا مذہب اسلام ہوگا،جرمن حکومت کی رسمی رپورٹ کے مطابق صرف 2006 میں چارہزارلوگوں نے اسلام قبول کیا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں آپ کی پسندیدہ کمیٹی IPC کویت میں غیرمسلم تارکین وطن روزانہ15سے 20 کی تعداد میں اسلام قبول کرتے ہیں، اور پچھلے رمضان میں بارہ سوسے زائد مردوخواتین نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ 
خلاصہ یہ سمجھیں کہ آج دنیا اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے ،اورغیرمسلموں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ وہ ایسی شاخ نازک پر اپنا آشیانہ بنائے ہوئے ہیں جو ناپائیدار ہے،جس کا کچھ لوگ اعتراف بھی کررہے ہیں ،ہمارے پاس IPC میں کتنے غیرمسلموں نے اپنے غیرمسلم دوستوں کو لاکر اسلام قبول کرایا ہے،جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ میں اپنے نجی معاملات کے باعث اسلام قبول نہیں کررہا ہوں لیکن اسلام کو دین حق سمجھتا ہوں،اس لیے میری خواہش ہے کہ کم ازکم میرا دوست اسلام کی نعمت سے مالامال ہوجائے ۔ اسی قبیل کا ایک واقعہ ڈاکٹر ناصربن سلیمان العمرنے بیان کیا ہے کہ بعض دعاة دعوتی مہم پر افریقہ گئے ، ان سے کہا گیا کہ اس ملک میں دعوتی کام کرنے کے لیے ملک کے فلاں عہدے دار سے اجازت لینی ہوگی ، چنانچہ دعاة ذمہ دار کے پاس گئے ،وہ عیسائی تھا،اس سے گفتگو کی کہ اگرآپ کی اجازت ہوتو ہم آپ کے ملک میں اسلام کے امن وسلامتی کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں....،ذمہ دارنے کہا: جاؤکل آنا ،جب کل ہوکر دعاة پہنچے توذمہ دار نے اجازت نامہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک چیک بھی حوالے کیا ،دعاة نے دریافت کیا: اجازت نامہ توآپ نے عطا کردی لیکن یہ چیک کیسا ہے ؟ عیسائی ذمہ دار نے کہا : مجھے یقین ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے ، اس لیے میری خواہش ہے کہ اس میں میرا بھی ایک حصہ شامل ہوجائے ۔
سبحان اللہ ! اس عیسائی کو اندازہ لگ گیاتھا کہ مستقبل اسلام کا ہے لیکن آج کتنے مسلمان ہیں جن کو اسلام کے مستقبل پر شک ہے ،بلکہ بعض کو اسلام کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا ہے ،ایسے میرو جعفرسے ہر دور میں اسلام کونقصان پہنچا ہے،جن کی ہمیں ضرورت نہیں،ہمیں تو ایسے مرد مجاہد کی ضرورت ہے جو اسلام کی بالادستی کے لیے اپنی جان ومال کی قربانیاں پیش کریں،اگر ہم نے یہ کام ترک کردیا تو اللہ پاک ایسی قوم کو وجود بخشے گاجو اس کے دین کو پوری دنیامیں غالب کرکے رہے گی کہ یہ اس کا وعدہ ہے ۔

مکمل تحریر >>