اتوار, اپریل 27, 2014

لوگوں سے بے نیازی

جو شخص دوسروں کی چیزوں سے بے نیاز ہو وہ عزت دار اور بارعب زندگی گذارتاہے اور جس کا دل دوسروں کی چیزوں میں الجھا ہوا ہو وہ ذلت اوراہانت کی زندگی گذارتا ہے۔ اور جس کا دل اللہ کے ساتھ بندھا ہوا ہو اور اللہ سے امید لگائے بیٹھا ہو ، اللہ سے اپنی مرادیں مانگتا ہو ،اللہ کے علاوہ کسی اورپر بھروسہ نہ رکھتا ہو ، اس کے لیے اللہ تعالی دنیا وآخرت میں کافی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
 ألیس اللہ بکاف عبدہ (الزمر : 36) 
 ”کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں“۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا:
 ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (الطلاق : 3) 
”جوشخص اللہ پربھروسہ کرے گا اللہ اس کے لیے کافی ہوگا“۔ اور توفیق محض اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔ 
                                       (دکتورعبدالرزاق عبدالمحسن البدر (
مکمل تحریر >>

شیخ نادر! واقعی آپ ایک نادر انسان تھے

 خالدعبداللہ السبع ( کویت(
نگراں عمومی سہ ماہی مصباح

کویت کی معروف شخصیت اوررفاہی کاموں کے شہسوار شیخ نادر النوری 18 اپریل 2014 کو وفات پاگئے، آپ عبداللہ النوری ویلفیر ٹرسٹ کے سرپرست تھے، لجنة التعریف بالاسلام کے بانیان میں آپ کا شمار ہوتا تھا، اوراس کی ادارتی کمیٹی کے رئیس بھی رہ چکے تھے، نہایت ہردلعزیز اورمرنجان مرنج طبیعت کے حامل تھے ۔ذیل کے سطور میں موصوف کے تئیں سہ ماہی رسالہ مصباح کے نگراں عمومی شیخ خالد عبداللہ السبع کی تحریرکا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :

شیخ نادر النوری اس دارفانی سے کوچ کرگئے، ایک عبقری شخصیت ہم سے رخصت ہوگئی، اللہ پاک بال بال ان کی مغفرت فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین ۔جن لوگوں نے شیخ نادر النوری کو قریب سے دیکھا ہے وہ یقینا جانتے ہوں گے کہ شیخ نادر یقینا ایک نادر انسان تھے، اسم بامسمی تھے، اسلامی دعوت اوردینی کاموں میں نادر تھے، عبادت واطاعت میں نادر تھے، تواضع وانکساری میں نادر تھے، جب وہ لجنة التعریف بالاسلام کی ادارتی کمیٹی کے رئیس تھے تو مجھے بہت قریب سے ان کے دعوتی جذبہ، ان کی ہمت وعزیمت اوران کے تواضع وانکساری کودیکھنے کا موقع ملا۔ آپ کے اندر حد درجہ کا تواضع پایا جاتا تھا، تمام لوگوں کی باتیں سنتے اورسب کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جب وہ مجھ سے کسی کام کے متعلق دریافت کرنا چاہتے تومجھے اپنے آفس میں نہیں بلاتے بلکہ وہ خود میرے آفس میں آتے اورانکساری کے ساتھ میرے سامنے کی کرسی پر بیٹھ کر بات کرتے تھے۔
ایک مرتبہ مجھے نومسلموں کے قافلہ حج میں ان کے ہمراہ حج کرنے کا شرف حاصل ہوا، میں مناسک حج کی ادائیگی میں ان کی ہمت اور چستی دیکھ کر دنگ رہ گیا، ایسی ہمت اور چستی جس کا مظاہرہ شاید نوجوانوں کے بس کی بات نہیں لیکن میرا تعجب اس وقت جاتا رہا جب انہوں نے حج کے اس سفرمیں ایک شب بیان کیا کہ پہلے وہ اپنی اہلیہ ام عبداللہ کے ہمراہ پیدل چل کر سارے مناسک حج کی ادائیگی کیاکرتے تھے ۔
دعوتی سرگرمیوں سے آپ کی ایسی دلچسپی تھی کہ آپ کویت میں موجود مسلم کمیونٹیز کے پروگراموں میں بڑے شوق سے شرکت کرتے تھے بلکہ ان سے منسلک افراد آپ کو روحانی باپ تصور کرتے تھے، مجھے یاد آتا ہے کہ میں مسلم کمیونٹی کے جس پروگرام میں حاضر ہوا وہاں آپ کو موجود پایا، آپ ان کی ہمت افزائی کرتے، ان کے تئیں اپنے جذبات بیان کرتے اور انہیں اپنی قیمتی نصیحتوں سے نوازتے تھے۔
ابوعبداللہ! آپ کے بعد آپ کی یاد بہت آئے گی، اللہ پاک سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں آپ کے ساتھ جنت الفردوس میں اکٹھا فرمائے کہ ہم سب بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں ۔ 
(ترجمانی : صفات عالم تیمی ) 
مکمل تحریر >>

ہفتہ, اپریل 05, 2014

برے دوستوں کو ڈیلیٹ کیجئے

دوستی انسان کی فطری ضرورت ہے ،مردہو یا عورت ہرایک کو اپنے جنس موافق سے دوستی ہوتی ہے ، ایک مردکے پاس جب دوست ہوتاہے یا ایک عورت کے پاس جب سہیلی ہوتی ہے تووہ آپس میں ایک دوسرے سے اپنے دل کی باتیں کر پاتے ہیں،ان کے ساتھ ان کا بہتر وقت گذرپاتا ہے ۔ کبھی دوستی بالمشافہ ہوتی تھی ،اب بالواسطہ دوستی کی ریت عام ہوچکی  ہے ،فیس بک ،ٹویٹر،اسکائپ اوروائبرجیسے سوشل میڈیا کے ذریعہ دوستی  کوزیادہ فروغ مل رہا ہے ۔  
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک آدمی اپنے دوست کے طریقہ پر ہوتا ہے ،اگراس کا دوست اچھا ہوگا تو وہ بھی اچھا ہوگا اوراگر اس کا دوست برا ہوگا تو وہ بھی برا ہوگا ، اسی لیے کہتے ہیں ”مجھے بتادوکہ تمہارادوست کون ہے میں بتادوںگا کہ تم کون ہو ۔“جی ہاں! ایک آدمی اپنے دوست کے خیال ورجحان اورذوق ومزاج کے مطابق ہوتا ہے ،اس نکتے کی وضاحت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں کردی ہے: الرجل علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل (سنن ابی داؤد،سنن ترمذى) ”ایک آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا ایک آدمی کو دیکھ لیناچاہیے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے“ ۔
ایک شرابی سے پوچھیں کہ وہ شراب نوشی کیسے شروع کیا ؟ ایک فحش کار سے پوچھیں کہ اسے فحش کی لت کیسے لگی ، ایک مجرم سے پوچھیں کہ اس کے جیل میں جانے کا سبب کیا بنا ، ایک نشہ خورسے پوچیں کہ اسے نشہ کی عادت کیسے لگی ،سب کا جواب ایک ہی ہوگا کہ بری صحبت نے اسے یہاں تک پہنچایاہے۔
اچھی یا بری صحبت سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے بچے ہوتے ہیں کیونکہ بچپن اورنوجوانی کی عمر میں ان کو دوست واحباب سے زیادہ سابقہ پڑتا ہے ،اورواقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کوبری صحبت سے بہت کم بچاپاتے ہیں حالانکہ ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں پر ان کے ماں باپ ،بڑے بھائی بہنواوررشتے داروں کا اثر صرف چالیس فیصد ہوتا ہے ،60 فیصد اثر اس پر اس کے دوستوں کا ہوتا ہے ۔ دوست اچھا ملا تو بچہ بھی اچھا بنے گااوردوست برا ملا تو بچہ بھی برا بنے گا ۔
کوئی اگر یہ دعوی کرے کہ میں برے لوگوں کے ساتھ ہوں لیکن ان کی برائی کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا ،میں کہتا ہوں وہ جھوٹا ہے ۔ ایسا ہونہیں سکتا کہ ایک آدمی بروں کے ساتھ رہتا ہو اوروہ اچھا سے اچھا بن کر رہے ،اس لیے اگر ہم برے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ اِس کا انجام ہمیں دنیامیں بھی بھگتنا ہوگا اورآخرت میں تو جہنم کے عذاب کی شکل میں بھگتنے والے ہی ہیں ۔بری صحبت اپناناگویابرے انجام کو اپناناہے ۔ اگر ساتھی اچھا ہوگا تو آخرت میں ہمارا انجام اچھا ہوگا اوراگر ساتھی برا ہوگا تو آخرت میں ہمارا انجام برا ہوگا ۔ توآئیے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے قارئین میں کتنے بھائی ایسے ہیں جو جرأت سے یہ کہہ سکیں کہ آج سے میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے برے دوستوں سے علیحدگی اختیار کرلوں گا اورکتنی بہنیں ایسی ہیں جو جرأت سے یہ کہہ سکیں کہ میں آج سے میں وعدہ کرتی ہوں کہ بری سہیلیوں سے الگ ہوجاؤں گی ۔
پھرآپ کے لیے اس میں جھجھک کس بات کی جبکہ آپ نے جو غلط سنگت اپنارکھی ہے اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ آپ کو سعادت مل سکے ،آپ کو خوشی اورسکون حاصل ہوسکے ،سوال یہ ہے کہ نہیں کیا سعادت برے لوگوں کی صحبت میں ہے ،انٹرنٹ پر فحش مناظر کے مشاہدے میں ہے ، فحش کاری اورشباب وکباب کے اڈے میں ہے ؟ نہیں اور ہرگزنہیں ۔ سعادت کاخالق ہم اورآپ نہیں بلکہ ہمارامالک ہے ،توپھر ہمیں بتائیے کہ کیاوہ چاہے گا کہ سعادت ایسے لوگوں کو دے دے جو اس کے نافرمان ہیں ؟۔ نہیں بلکہ اللہ سعا دت سے ان کو نوازتا ہے جو اس کے فرمانبردار ہیں ۔
پھریہاں محض دنیوی خوشی کا معاملہ نہیں ہے آخرت کی نجات اسی سنگت پرموقوف ہے ، اوریہ اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب آپ بری صحبت چھوڑیں گے ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ میں نیک بننا چاہتا ہوں، میں برائی سے کنارہ کش ہونا چاہتا ہوں، میں نمازی بننا چاہتا ہوں،لیکن نہیں بن پاتا ۔ جانتے ہیں کیوں نہیں بن پاتے ؟ ارادہ تو ہے اوردل میں برائی کا احساس بھی ہے تاہم بری صحبت نہیں چھوٹی جس کے باعث نیک اعمال کا انجام دینا یا برائی سے کنارہ کش ہونا ممکن نہیں ہورہا ہے ۔
آپ نے صحیح بخاری کی وہ معروف حدیث ضرور سنی ہوگی کہ سو آدمیوں کا قاتل جب ایک عالم سے مسئلہ پوچھتا ہے کہ کیا میرے لیے توبہ ہے تو عالم جواب دیتا ہے کہ ہاں !تیرے لیے توبہ ہے ،تیری توبہ کے راستے میں آخر کون حائل ہوسکتا ہے ۔البتہ تم جس علاقے میں رہتے ہو اسے چھوڑکرفلاں جگہ چلے جاؤ جہاں نیک لوگ رہتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ رہ کر عبادت کرسکو۔ دیکھا آپ نے ....یہ ہے صحیح رہنمائی اور اچھی صحبت کا اثر ۔ صحبت اچھی ہوگی تو آپ اچھے بن سکیں گے ،صحبت اچھی نہیں ہوگی تو لاکھ چاہنے کے باوجود آپ اچھا نہیں بن سکتے ۔
توآئیے کمر ہمت باندھیے ،کاغذ اورقلم ہاتھ میں لیجئے اوراپنے دوستوں کی لسٹ تیار کیجئے ،ان میں جو فالتو قسم کے دوست ہوں،جو آپ کا وقت برباد کرتے ہوں ، جوآپ کو برائیوں پر آمادہ کرتے ہوں، جو نماز روزے کے پابند نہیں ،ان کو اپنے دوستوں کی لسٹ سے ڈيلیٹ کردیجئے ۔ اورایک دو آدمی سے دوستی رکھئے جو نماز ی ہوں، جو نیک ہوں، جو آپ کو بھلائی کی رغبت دلا سکیں ،جو برائی سے آپ کوروک سکیں ،جو اچھے اخلاق کے پیکر ہوں،جو سمجھدار اور دانا ہوں بیوقوف نہ ہوں ، ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہوگی تو آپ دنیا میں اچھے راستے پر چلیں گے اورکل قیامت کے دن اللہ پاک کا سایہ نصیب ہوگا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اورسایہ نہ ہوگا ،پھرآخرت کے سارے مراحل آسان ہوتے جائیں گے ۔  

مکمل تحریر >>