بدھ, مئی 29, 2013

اللہ تعالی کہاں ہے ؟

سوال:   اللہ کہاں ہے ۔ (شاہد – شویخ، كويت)


جواب:
 اللہ پاک ساتوں آسمان کے اوپر عرش پر مستوی ہے ۔ قرآن میں سات آيتيں ايسى ہيں جن میں الله تعالى كے عرش پر مستوى ہونے كا ذكر ہے.مثلا اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ثم استوی علی العرش (سورہ اعراف 54، سورة الحديد 4، سورة السجدة 4، سورة الفرقان 59، سورة الرعد 2، سورة يونس 3 ) 
" پھر عرش پر قائم ہوا
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
الرحمن علی العرش استوی  ) طہ /5   
"رحمان عرش پر مستوی ہے"
اسی طرح اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ایک لونڈی کے ایمان کی جانچ کرنے کے لیے اس سے پوچھا کہ أین اللہ ؟ اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : فی السماء۔ اللہ آسمان میں ہے ، پوچھا : میں كون ہوں؟ تو اس نے كہا: آپ الله كے رسول ہيں، تب آپ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : أعتقھا فإنھا مؤمنة "اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے" ۔ ( مسلم)
گویا کہ اللہ تعالی ہرجگہ نہیں اور نہ ہی ہمارے دل میں ہے بلکہ اللہ تعالی عرش پر ہے البتہ اس کا علم ہرجگہ ہے یعنی عرش پر ہوتے ہوئے ہرچیز پر وہ نگاہ رکھے ہوا ہے ۔
مکمل تحریر >>

بدھ, مئی 15, 2013

سامنے میں سونے والے کے پاس نماز


سوال: 

اگرکوئی آدمی سامنے میں سو رہا ہو تو کیا وہاں نماز کی ادائیگی کی جا سکتی ہے ؟ (ہدایت ۔ فحاحیل، کویت )

جواب:

سامنے میں سونے والے کے پاس نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم گھر میں نماز ادا کرتے تو بسااوقات حضرت عائشہ رضى الله عنها آپ کے اور قبلے کے بیچ ہوتی تھیں ۔ جب سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو اپنا پیر سمیٹ لیتیں ۔ اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو اپنا پیر پھیلا لیتی تھیں ۔ (بخاری )


مکمل تحریر >>

تجھ سا كوئى نہ ديكها


ہرقوم اورمذہب میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ہرمذہب اپنے ماننے والوں کو اچھے اخلاق کا پیکر بنانا چاہتا ہے ۔ قوموں اورملکوں کی ترقی میں بھی اخلا ق کا بنیادی رول ہے ۔ قومیں اپنے اخلاق کی بنیاد پر باقی رہتی ہیں اگران کا اخلاق جاتا رہا تو وہ خودبخود مٹ جاتی ہیں ۔ آج ہم اسی اخلاق کے بارے میں بات کریں گے ….لیکن یہ اخلاق ہوں گے ایک نبی کے …. اورایسے نبی کے جن کو صرف عربوں کے لیے نہیں….صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ….بلکہ پوری انسانیت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ ….جن کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ۔ جن کے اخلاق کی گواہی خود اللہ پاک نے دی:
وَإِنّكَ لَعَلَىَ خُلُقٍ عَظِيمٍ  (القلم 4 )  
" آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں" ۔
چنانچہ آپ جب اس نبی کے اخلاق کا مطالعہ کریں گے تو واقعی پائیں گے کہ ان کے جیسا اخلاق کا مالک انسان نہ كبهى دهرتى پر پیدا ہوا اورنہ كل قيامت كے دن تك ہوسکتا ہے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی نشوونما یتیمی کے سایے میں ہوئی، اس کے باوجود آپ ہوش سنبھالتے ہیں اعلی اقدار کے دلدادہ ہوگئے ۔ صلہ رحمی کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے، بیکسوں کی دست گیری کرتے ۔ نیکی ، پاکبازی ، امانت داری اور سچائی میں مشہور تھے ۔ لوگوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے اند رحد درجہ کی خاکساری اور انکساری تھی ، آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے ،اپنے کپڑے خود سیتے، اپنی بکری خود دوہتے اور اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے ۔ کوئی ملتا تو اسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے ، یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذر ہوتا تو آپ ان کو بهى سلام کرتے، مصافحہ کے لیے بھی پہلے ہاتھ بڑھاتے، اوراپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھینچتے جب تک کہ وہ خود کھینچ نہ لے ۔ کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت قبول کرتے ، آپ صلى الله عليه وسلم کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے خادم کو کبھی اُف تک نہ کہا ۔ نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی مارا ۔ نہ بیوی کو نہ نوکر کو …. آپ کی ذات عفو ودرگذر کا نمونہ تھی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا …. یہاں تک کہ مکہ پر فتح پانے کے بعد ان دشمنوں کی بھی عام معافی کا اعلان کردیا جنہوں نے مسلسل اکیس سال تک ستایا، پریشان کیا، جانیں لیں اورجینا دوبھر کردیا تھا ۔
آپ صلى الله عليه وسلم نہایت حیادار اورپست نگاہ تھے ۔ پردہ نشین کنواری دوشیزاؤں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا لیکن اس کے باوجود رہبانیت اور جوگی پن کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب آپ کی خدمت میں سائل آجاتا تو اسے کبھی "نا" میں جواب نہ دیتے تھے ۔

زہدواستغنا اس قدر کہ آپ کا گھر نہایت تنگ ہے ۔ بستر ایسا ہے کہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی ہے ۔عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہ آتی ۔ یہ زہد کوئی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا ۔ مسند احمد اورترمذی کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترے رب نے میرے لیے یہ پیش کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا پہاڑ بنادے ۔ میں نے کہا :
لا یا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما (مسند احمد، سنن ترمذى)
" نہیں میرے رب میری خواہش یہ ہے کہ ایک دن کھانے کو ملے اورایک دن بھوکا رہوں۔" لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک مزاج اور رہبانیت پسند تھے ۔ آپ دنیا سے بے پرواہ ضرور تھے لیکن تارک دنیا نہیں تھے ۔ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے اورفرماتے:
خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی ۔(سنن ترمذى)
" تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہواور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔"
مکمل تحریر >>

منگل, مئی 14, 2013

دوده شريک بہن سے شادى كا حكم

سوال:
میری ماں نے میری خالہ کی لڑکی کو دودھ پلایاتھا، ابھی وہ جوان ہوچکی ہے، اورمیرے ایک بھائی سے اس کی شادی لگ رہی ہے، لیکن سوال یہی آگیا ہے کہ ماں نے ان کو بچپن میں دودھ پلایاتھا، اب کیا کیا جائے ؟

جواب:


جس طرح نسب کی وجہ سے حرمت ثابت ہوتی ہے، اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی حرمت ثابت ہوتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب. رواه البخاري.
”نسب سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے وہی رضاعت سے بھی ثابت ہوتی ہے “۔ اس لیے آپ کی ماں نے اگر آپ کی خالہ زاد بہن کو بچپن میں پانچ گھونٹ یا  اس سے زیادہ دودھ پلایاہے، تو اب وہ آپ سب کے لیے رضاعی بہن ہوگئی، اس بنیاد پر کسی صورت میں آپ کے بھائی سے اس کی شادی نہیں ہوسکتی ۔ یہاں پر اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ عام طورپر اس سلسلے میں کوتاہی پائی جاتی ہے مسلم سماج میں اور رشتے کے بچوں کو دودھ پلا دیا جاتا ہے، جس کا نتیجہ بعد میں افسوس کے سوا اورکچھ حاصل نہیں ہوتا جب رشتہ کرنے کی بات آتی ہے ….
مکمل تحریر >>

بدھ, مئی 08, 2013

اللہ تعالی نے وراثت میں لڑکی کو لڑکے کا نصف کیوں دیاہے ؟

سوال :

اللہ تعالی نے وراثت میں لڑکی کو لڑکے کا نصف کیوں دیاہے ،لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر کیوں نہیں دیاگیا ؟ 

جواب:

سوال بہت اچھا ہے، واقعی اس طرح کی غلط فہمیاں آج میڈیا میں بھی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہیں ۔ سب سے پہلے ہم آپ سے عرض کرنا چاہیں گے کہ اسلام انصاف پسند مذہب ہے، اس میں زندگی کے کسی بھی شعبہ کے اندر انسانوں پر ظلم ہوتا۔ عورت کی وراثت کا مسئلہ ہی لیجئے ،زمانہ جاہلیت میں عورت کو کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی، وہ وراثت سے عورتوں کو کوئی حق نہیں دیتے تھے ۔ لیکن اسلام نے عورتوں کا حق رکھا : ہاں! مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کا حصہ آدھا رکھا گیا ۔ یہ تقسیم انصاف پر مبنی ہے، اس میں ظلم کا دور دور تک شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ ؟ کیوں اور کیسے ؟اسلام نے عورتوں کے اخراجات کی ساری ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے اور عورت کو گھر کا ملکہ بنایاہے، اس طر ح مرد کو اس کا معاشی کفیل بناکر عورت کو معیشت کے بارے میں سوچنے سے بالکل فارغ کردیا ہے ۔ مرد پر اپنی بیوی کے علاوہ کمزوروالدین کا بھی بوجھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ مردہی عورت کو مہر کی شکل میں مبلغ بھی دیتا ہے ۔عورت کو اپنے باپ، بھائی ،بیٹے اورشوہر سے وراثت بھی ملتی ہے جبکہ اس کا اپنا کوئی خرچ ہی نہیں ہے ۔ اگر عورت کو آدھا کی بجائے برابر دیا جاتا تو یہاں ناانصافی ہوتی کہ مرد سارے اخراجات مہیا کررہا ہے اور عورت چپ چاپ بیٹھ کر اس کے برابر حصہ لے رہی ہے ۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتا کہ عورت پر بھی معاشی ذمہ داری ڈالی جائے ۔ جو اسلام کی فطری تعلیم کے خلاف ہے ۔
بلکہ اسلام کے نظام وراثت میں بعض صورتوں میں مرد اورعورت کو برابر برابر ملتا ہے ۔ جیسے اگر میت کے پاس اولاد ہوتو ماں باپ دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا ۔ اوربعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ بھی ہوسکتا ہے جیسے اگر کسی کے پاس بیٹی ایک ہو اور بھائی دو ہو تو بیٹی آدھا لے گی اور بھائی آدھا میں سے نصف نصف لیں گے ۔
مکمل تحریر >>

جس عورت كى دنیا میں شادی نہ ہوئی تھی اس کے لیے جنت میں کیا ہے ؟

سوال:

جب جنت میں مرد حضرات داخل ہوں گے تو ان کو حورملیں گی، لیکن اگر عورت داخل ہوگی اوردنیامیں اس کی شادی نہ ہوئی تھی تو اس کے لیے کیا ہے ؟

جواب: 


اللہ تعالی نے جنت کی خوبی بتاتے ہوئے فرمایا
وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَدَّعُونَ ( فصلت: 31)
"تمہارے لیے اس میں وہ ساری چیزیں ہیں جن کی تمہارا نفس خواہش کرے گا اور تمہارے لیے وہ ساری چیزیں ہیں جنہیں تم طلب کروگے" ۔
 اس آیت سے ہی جواب مل جاتا ہے کہ عورتوں کے لیے بھی جنت میں ان کے شوہر کا انتظام کیاجائے گا ، اگر ان کی دنیا میں شادی نہ ہوسکی تھی، یاشادی تو ہوئی تھی لیکن اگر شوہرجنت میں نہ جاسکا تو ایسی صورت میں ان کی خواہش کے مطابق…. ایسے جنتی مردوں سے ان کی شادی کردی جائے گی جو دنیا میں شادی شدہ نہیں تھے ….

مکمل تحریر >>

کسی کی وفات کے موقع سے مجلس میں ایک منٹ کے لیے خاموشی کا اعلان

سوال:

 کسی کی وفات کے موقع سے مجلس وغیرہ میں ایک منٹ کے لیے فلاں کے نام پر خاموشی کا اعلان ہوتا ہے، اورواقعی سب لوگ ایک منٹ کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں خاموشی کے ساتھ۔ اس کا کیاحکم ہے؟ ۔

جواب:

اسلام ایک مکمل نظام ہے، اس میں زندگی کے ہرگوشہ سے متعلق آپ کو رہنمائی ملے گی، کسی گوشہ کو اسلام نے تشنہ نہیں رہنے دیا، کسی کی وفات کی خبر ملے تو اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم انا للہ وانا الیہ راجعون کہیں ۔اورمردے کی مغفرت کے لیے دعا کریں ۔ لیکن ایسا نہ کرکے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی کسی مردے کے نام پر ایک منٹ کے لیے خامو ش ہونا اسلامی طریقہ کے منافی عمل ہے ۔اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد  (مسلم) "جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہیں ہے تو وہ مردود ہے" ۔ اس طرح کی مجلس میں شرکت کرنا گویا غیرقوموں کی مشابہت اختیار کرناہے اور حدیث پاک ہے :من تشبہ بقوم فھومنھم  (ابوداؤد) "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے" ۔
مکمل تحریر >>

اگرکسی نے عزت بچانے کے لیے خودکشی کی تو کیا یہ غلط ہے ؟

سوال: 

خود کشی کا کیاحکم ہے اوراگرکسی نے عزت بچانے کے لیے خودکشی کی تو کیا یہ بھی صحیح نہیں ہے ؟ مثال کے طورپرکسی عورت کی عزت پر حملہ ہورہا تھا اس سے پہلے اس نے خودکشی کرلیا ۔ تو کیا وہ گنہگارہوگی ۔ 

جواب:

اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور اس کی روزی کی بھی ضمانت لے لی ہے، وہ اپنے آپ کا مالک نہیں ہے، بلکہ کسی ایک عضوکا بھی مالک نہیں ہے، اس کا ایک ایک عضو اللہ کا عطا کردہ ہے ۔اب اگر اللہ کے عطا کئے ہوئے جسم کو ہلاک کرلیتا ہے تو ظاہر ہے وہ مجرم ٹھہرے گا ۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا گلا گھونٹ کر خودکو مارتا ہے، وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا، اورجو برچھے یا تیر وغیرہ سے اپنے آپ کو مارتا ہے وہ جہنم میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو مارتا رہے گا ۔
اب اگر یہی کام عزت بچانے کے لیے بھی کیاجاتا ہے تو یہ اقدام صحیح نہیں ہے، کیوں کہ اگر زنا پر مجبورکردیا گیا تو اس وقت عورت کا کوئی قصور نہیں ہے وہ گنہگار نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر حد جاری ہوگا کہ وہ مجبور تھی ۔ لیکن اس سے بچنے کے لیے خود کو قتل کرنا صحیح نہیں ہے ۔ اوراگر اس طرح کا کوئی حادثہ پیش آتا ہے کہ کسی عورت کے ساتھ عصمت دری ہوئی ہے تو مسلمانوں اورقوم کے ذمہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچائیں ۔

مکمل تحریر >>