منگل, اپریل 09, 2013

جمعہ کے روز ہرقدم پر سال بھر روزے اورقیام کا اجر

 فضائل اعمال کی سب سے عظیم حدیث يعنى جمعہ کے روز ہرقدم پر سال بھر روزے اورقیام کا اجر

اوس بن اوس رضى الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللهعليہوسلم نے فرمایا :
جس شخص نے جمعہ کے روز غسل کرایا اورخود غسل کیا، اورنماز کے اول وقت میں مسجد آیا،چل کرآیا سوارنہیں ہوا، امام سے قریب بیٹھ کرغور سے خطبہ سنا اوراس دوران کوئی لغوحرکت نہیں کی تو اسے ہر قدم پرایک سال کے روزوں اورایک سال کے قیام کا ثواب ملے گا “۔( ابوداود:345، ابن ماجہ :1087 و صححہ الألبانى(
امام سخاوی فرماتے ہیں:
”اس حدیث کے علاوہ کوئی اورحدیث نہیں جانتا جو کم عمل پر زیادہ سے زیادہ ثواب عطاکرنے والی ہو“۔
سبحان اللہ ! سال بھر لگاتار روزہ رکھنے اورشب بیداری کرنے کا اجروثواب معمولی ایک قدم پر حاصل ہورہاہے ۔ جی  ہاں! معمولی ایک قدم پر سال بھر عبادت کرنے کا ثواب مل رہا ہے جس کے دن روزہ سے گذرے ہوں اوراس کی راتیں قیام میں گذرری ہوں،کیا کوئی انسان ایک روزکے لیے بھی اس طرح کی عبادت گذاری کی ہمت پاسکتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوبیس گھنٹہ تک لگاتا رعبادت میں لگے رہنا ممکن نہیں ۔ جبکہ اللہ رب العالمین اسے معمولی ایک قدم پر ایک دن نہیں بلکہ سال بھر تک ایسی عبادت گذاری کا اجروثواب عطا فرما رہے ہیں۔ توہم مسجد میں آنے کے لیے کتنے قدم رکھتے ہوں گے اس کا اندازہ لگائیں پھر دیکھیں کہ ہم کتنے اجروثواب کے حقدار بنے ہیں ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے دل کو ٹٹولا اورمن سے پوچھا کہ کیا واقعی ہمارے نامہ اعمال میں یہ ثواب لکھے جارہے ہیں ….؟
مکمل تحریر >>

بدھ, اپریل 03, 2013

کسی کے مرنے کی تاریخ پر ہرسال دعوت کی جائے تو کیا یہ جائز ہے


سوال:
کسی کے مرنے کی تاریخ پر ہرسال دعوت کی جائے تو کیا یہ جائز ہے-    ( شاہد ۔ شویخ )
جواب:
کسی کے مرنے کی تاریخ پر ہرسال دعوت دے کر کھلانا پیارے نبی ا اور آپ کے پیارے ساتھیوںسے ثابت نہیں ۔ اللہ کے نبی  صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آپ کے کتنے عزیز کی وفات ہوئی، آپ کی ہردلعزیز بیوی خدیجہ رضى الله عنها  بھی فوت پائیں ۔ لیکن آپ نے اُن کا فاتحہ یا چالیسواں یا دسواں یا ساتواں نہیںمنایا ۔ اللہ کے نبی ا نے زندگی کے سارے شعبے میں ہماری رہنمائی کردی ہے ۔ اب بتائیں کہ کیا یہ چیزیں اِتنی بڑی تھیں کہ قرآن وحدیث میں نہیں آسکتی تھیں ؟ اورہمارے لیے اسوہ حسنہ پیارے نبی ا ہیں  لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللَّہِ اسوَة حَسَنَة   (سورة احزاب 21) ” تمہارے لیے پیارے نبی کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“ ۔اس لیے اگر ہم وہ کام کریں جسے پیارے حبیب نے نہیں کیا یا کرنے کا حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہوگا ۔اللہ کے رسول ا نے فرمایا : مَن احدَثَ فِی اَمرِنَا ھٰذَا مَالَیسَ مِنہُ فَھُوَ رَد (بخاری ومسلم )”جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے“ ۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے مَن عَمِلَ عَمَلاً لَیسَ عَلَیہ ِ اَمرُنَا فَھُوَ رَدّ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جوہماری شریعت کے مطابق نہیں وہ مردود ہے “۔ ہاں مردے کو ثواب پہنچانا ہے تو اُن کے لیے صدقہ وخیرات جتنا چاہیں کریں لیکن کوئی دن یا کوئی وقت خاص کرکے نہیں ۔ اسی طرح ان کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائیں بھی کریں ۔

مکمل تحریر >>

عورت کے لیے لوہا كى انگوٹھی کا استعمال جائز ہے یانہیں ؟

0
سوال : عورت کے لیے لوہا كى انگوٹھی  کا استعمال جائز ہے یانہیں ؟

جواب :
مرد چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے سونے کا نہیں جبکہ عورت چاندی اورسونے دونوں کا استعمال کرسکتی ہے ۔ رہا لوہے کی انگوٹھی کا مسئلہ تو اس سلسلے میں ایک قول تو یہ ہے کہ جائز ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا جبکہ اس کے پاس بیوی کو مہر دینے کے لیے کچھ نہیں تھا:
التمس ولو خاتما من حدید (بخارى مسلم )
"ایک انگوٹھی تلاش کرکے لاؤ چاہے لوہے کی کیوں نہ ہو"۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ لوہے کا استعمال جائز نہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں لوہے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا :
 مالی أری علیک حلية أھل النار (أبوداؤد، ترمذى)
 "کیا بات ہے کہ میں تیرے ہاتھ میں جہنمیوں کا زیوردیکھ رہا ہوں"۔ جبکہ جمہور اہل علم نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس لیے راجح یہی ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے البتہ افضل ہے کہ نہ پہنا جائے ۔ اس سلسلے  میں عورت اورمرد دونوں کا حکم ایک ہوگا۔
مکمل تحریر >>

جنت کے وارث



والذین ہُم لأمانَاتہم وعَہدہم راعُون، والذین ہُم علی صلواتہم یُحافظون أولئک ہم الوارثون، الذین یرِثون الفردوس ہُم فیہا خالدُون ( المومنون ۸۔۱۱ )

ترجمہ : جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرتے ہیں، جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی وارث ہیں جو فردوس کے وارث ہوں گے ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔

تشریح : سورة المومنون کی ابتدائی دس آیات میں جنت کے وارث ہونے والوں کے آٹھ  صفات بیان کيے گيے ہیں(1) نمازوں میں خشوع وخضوع (2) لغویات سے پرہیز (3) زکاة کی ادائیگی (4) شرمگاہو ں کی حفاظت (5) امانتوں کا پاس ولحاظ (6) ایفاے عہد (7) نمازوں کی نگہبانی ۔
 پھربتایا گیاکہ ان مذ کورہ صفات کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہوں گے، جو بہشت کی پرکیف نعمتوں کے حقدار بنیں گے ۔ جنت بھی جنت الفردوس  جو جنت کا اعلی حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں ۔
زیرنظر آیات میں ادائیگی امانت، ایفاے عہد اور نمازوں کی محافظت جيسے تین اہم صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ امانت کی ادائیگی اور وعدے کا لحاظ رکھنا مومنوں کی خاص علامت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو امانت دار نہیں اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں اور جو وعدہ کر کے پورا نہیں کرتا اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔  مومن کی یہ خوبی ہے کہ جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتا خواہ اس میں اس کا کتنا بھی نقصان ہو جائے۔ امانت صرف رقم یا کوئی چیز ہی نہیں ہوتی بلکہ بات اور مجلس بھی امانت ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کا قرب اور کامیابی حاصل کرنے کے ليے امانت اور وعدے کا لحاظ کیاجائے۔ امانت میں خیانت اور وعدہ پورا نہ کرنا منافق کی علامت ہے۔
مومن جس سے جو بھی وعدہ کرتا ہے اسے پورا کرتا ہے اس ليے کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ وعدے پورے کرو۔ امانت اور وعدے کی پاسداری کے ساتھ  ساتھ  مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نماز کی حفاظت کا مفہوم یہ ہے کہ پانچوں نمازیں مقررہ اوقات پر سنت نبوی کے مطابق ادا کرنا ، جو اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کرتے۔ ان کے ليے اللہ نے جہنم کی ویل وادی میں داخلے کی خبر دی ہے یا انہیں ہلاکت سے ڈرایا ہے۔ امانت میں خیانت نہ کرنے والے اور اپنے کيے ہوئے وعدے کا پاس کرنے والے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ان کے ليے جنت میں داخلے کی بشارت کے ساتھ ساتھ یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جنت میں ایسی ایسی نعمتیں ہیں جن کا تصور بھی ذہن میں نہیں آیا۔ اس مقام پر ہمیشہ رہنا بڑی ہی سعادت کی بات ہے۔

لیکن افسوس کہ آج یہ صفات مسلمانوں کی اکثریت سے عنقا نظر آتی ہیں، کہاں گئی امانت کی ادائیگی ؟ کہاں گیا ایفاے عہد؟ اور کہاں گئی نمازوں کی محافظت؟  کسی سے امانت لے لی اور ٹال مٹول کرتے رہے، کسی سے معاملہ کرلیا اور نظرانداز کرتے رہے،  وعدہ کرلیا اور وعدہ خلافی میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ۔ ہم تو مسلمان ہیں نا ....ہماری ایک پہچان ہونی چاہيے، ہمیں دوسروں کے ليے نمونہ بننا چاہيے، آج غیرمسلم ہمیں معاملات میں کوتا ہ سمجھ  کر ہی اسلام سے متعلق شک میں مبتلا ہیں، اسلام مکمل نظام حیات ہے، اسے پوری طرح زندگی میں اتارنے کی ضرورت ہے ،


مکمل تحریر >>

منگل, اپریل 02, 2013

برڈ فلو


             الھيئة العامة لشئون الزراعة والثروة السمکية                  
(ادارہ عامہ برائے زراعتی امور اور ماہی ذخائر) 

  ايمرجنسی سنٹر
                           ادارة الصحة الحيوانية، الری، الکويت                       

برڈ فلو نہايت تيزی سے پھيلنے والی ايک بيماری ہے جو پرندوں کو لاحق ہوتی ہے، اور وہ  انفلوئنزا وائرس کا سبب بنتی ہے،اس بيماری کی دو شکليں ہوتی ہيں : يا تو نہايت کم تناسب اور محدود دائرے ميں لاحق ہوتی ہے يا شديد نقصاندہ اور جلد پھيلنے والی ہوتی ہے جو پرندوں کی بھاری تعداد کو متاثر کرتی ہے ۔
 اب تک ”برڈ فلو وائرس“  سخت نقصاندہ ثابت ہوا ہے جو انسانوں کو بھی لاحق ہو جاتا ہے، انسانوں کو لاحق ہونے والا وائرس 5ہزار اور 7 ہزار نوعيت کا ہوتا ہے

کيا مرغی کے گوشت اور اس سے بنی ہوئی اشياء کے استعمال کا مشورہ ديا جا سکتا ہے ؟

مرغی کا گوشت اور اس سے بنی ہوئی اشياء کھائی جاسکتی ہيں بشرطيکہ اسے مناسب اور محفوظ طريقے سے رکھا گيا ہو، اور 70 فيصد درجہ حرارت يا اس سے زيادہ پر خوب پکايا گيا ہو، تاکہ وائرس کا اثر زائل ہو سکے ۔

اس بيماری کو پھيلنے سے روکنے کے ليے کونسی کاروائياں درکار ہيں ؟

(1) وبائی اماکن سے پرندوں اور اس سے بنی اشياء کی درآمدگی اور پرندوں سے متعلقہ سامان کے استعمال پر پابندی.
(2) آبی چڑيوں کے ساتھ مرغيوں اور خاص طور پر بطخ کو پالنے سے احتراز.
(3) باغيچے کے اندر پرندوں کی گھيرابندی تاکہ اسے بری پرندے اور باہر سے آنے والے پرندوں کے اختلاط سے بچايا جاسکے۔
(4) باغيچے ميں حفاظتی کاروائی کے ٹھوس اقدامات ۔
(5) اشخاص، ٹرالياں، پرندے، اور اس کے لوازمات کے نقل وحمل سے اجتناب ۔
(6) محفوظ پرندوں کو بيمار پرندوں سے الگ رکھنے کا انتظا م اور ان کے درميان زبردست فاصلہ تاکہ بيماری اور وائرس کو روکا جا سکے۔

 بيماری کے وقوع کے بعد لازمی کاروائياں:

(1) انفلوئنزا برڈفلو کی ايمرجنسی کميٹی کو اس نمبرپر فوری اطلاع ديں           
(2) پرندوں، ٹراليوں، اور باغيچے ميں کام کرنے والوں کے نقل و حمل سے پرہيز کريں، اور حفاظتی کپڑے کا استعمال کريں۔
(3) تحفظاتی نظام کی مکمل جانکاری رکھيں
(4) بيماری کی سنگينی کا انديشہ ہوتے ہی بيمار پرندوں، ان کے فضلات،  چارے، سبہوں کو نذر آتش کرديں۔

برڈ فلو سے اپنے آپ کو کيسے بچائيں؟

(1) بيمار مرغی کے قريب جانے، اس سے نکلنے والی غلاظتوں، اور گندے پنجروں کے قريب ہونے سے بچيں ۔
(2) پرندوں کو چھوتے وقت موزے اوردستانوں کا استعمال کريں اور دونوں ہاتھوں کو صابون وغيرہ سے اچھی طرح دھوليں ۔
(3) پرندوں کے شکار سے اجتناب کريں کيوں کہ وہ بيماری سے متاثر ہو سکتے ہيں ۔

بيماری کی تشخيص کيسے ممکن ہے؟

(1)بيماری کی تشخيص دراصل حالات کی مکمل جانکاری، اور پوشيدہ عوارض سے پوری آگہی پر موقوف ہے۔
(2) بيماری کی مکمل اور صحيح تشخيص وائرس کو جاننے اور اس کو پرکھنے کے بعد ہی کی جاسکتی ہے ۔

تشخيص کی خاطر کونسی چيزيں بطور نمونہ بھيجی جائيں؟

(1) بيمار يا مرے ہوئے پرندے۔
(2) ليد يا نرخرہ يا ناک ۔
(3) خون تقريبا ۲ مل
(4) مذکورہ چيزوں کو کسی خاص صندوق، ٹيوب يا پلاسٹک کے تھيلوں ميں رکھ کر مضبوطی سے بند کر ديں، اور برڈفلو کے ايمرجنسی سنٹر ادارة الصحة الحيوانية (ادارہ برائے مويشی صحت) رای ميں بھيج ديں۔

وہ اشخاص جنہيں خصوصی طور پر محتاط رہنا چاہئے:

(1) مرغيوں کے فارم اور کھال اتارنے کی جگہوں ميں کام کرنے والے لوگ۔
(2) گھريلو اور بری پرندوں بالخصوص آبی پرندوں اور بطخ کو پالنے پر مامور اشخاص۔
(3) جانوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ۔

برڈ فلو کی بيماری کيسے پھيلتی ہے ؟

(1) پرندے اپنے لعاب، ناک اور پائخانے کے راستے سے نکلنے والے فضلات کے ذريعہ وائرس کو باہر کرتے ہيں ، لہذا يہ بيماری براہ راست يا بالواسطہ طور پر فضائی گرد و غبار کو سونگھنے اور غبار آلود غذا کے استعمال سے پھيلتی اور عام ہوتی ہے ۔
(2) مائی اور مہاجر پرندے اس وائرس کو ايک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہيں۔
(3) انسانوں ميں يہ بيماری پرندوں کے ذريعہ ہی آتی ہے، يہ ايک انسان سے دوسرے انسان ميں منتقل نہيں ہوتی۔

 پرندوں ميں مرض کو کيسے پہچانيں گے؟

(1) نہايت قليل مدت ميں پرندوں کے اندر مرنے کی زيادتی، کمزوری کھانسی، اور چھينک کی شکايت اور بکثرت آنسووں کا بہنا وغيرہ۔
(2) سر اور پيشانی پر پانی کا جمع ہوجانا۔
(3) کلغی، حلق کے گوشت، اور پنڈلی کا نيلا يا سرخ پڑجانا، پيچش کاہونا، اعصاب ميں رعشہ اور اضطراب، اور انڈا دينے کی صلاحيت ميں کمی کا پيدا ہونا۔

مکمل تحریر >>