جمعرات, مارچ 18, 2010

طبع آزاد پر نماز ِفجر بھاری ہے

عن جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ إن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم قال: من صلی الصبح فھو فی ذمة اللہ ....(مسلم )

ترجمہ :حضرت عبداللہ بن جندب رضى الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی امان میں آجاتاہے.... “۔ ( مسلم) 

تشریح: نماز اسلام کا ستون اور اسکی اساس ہے جو شب وروز میں پانچ بار فرض ہے ، پنجوقتہ نمازوں میں سب سے زیادہ اہمیت نماز فجر کی ہے جس وقت ایک آدمی نیند کی آغوش میں ہوتا ہے،بستر کو چھوڑنا اس پر گراں گزرتاہے ، تاہم ایک بندہ مومن جب اپنے بستر پر جاتا ہے تو اس احساس کے ساتھ کہ اپنے پالنہار کی بندگی کے لیے صبح میں بیدار ہونا ہے چنانچہ اُسے توفیق الہی نصیب ہوتی ہے اور عین اس وقت جبکہ مؤذن”نماز نیند سے بہترہے ‘ نماز نیند سے بہترہے“ کی پکار لگا رہا ہوتا ہے‘ یہ نرم نرم بستر کو بالائے طاق رکھتاہے ،نیند کی لذت اور طبیعت کے آرام کو خیرباد کہتا ہے،باوضومسجد کا رخ کرتا ہے اورجماعت سے نماز ادا کرتا ہے ۔ چنانچہ رحمت الہی اسے ڈھانپ لیتی ہے ،وہ اپنے مالک کی پناہ میں آجاتا ہے اور پورا دن اللہ کی نگہبانی میں گذارتا ہے۔ سبحان اللہ !کیا مقام ہے اس بندہ مومن کا کہ دن کا آغاز اپنے رب کی نگہبانی میں کررہا ہے ، پھروہ تازہ دم ہوتا ہے ، چست اور پاکیزہ طبیعت بن جاتا ہے ۔

اس کے برعکس جوشخص ٹی وی کے فحش پروگراموں کا مشاہدہ کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، نہ اللہ کا نام لیا نہ سوتے وقت کے اذکار کا اہتمام کیا‘ نتیجہ ظاہر ہے کہ شیطان اس پر قابو پا لیتاہے ، تھپکیاں دے دے کر سورج نکلنے تک سلائے رکھتاہے۔ چنانچہ جب وہ طلوع آفتاب کے بعدبیدار ہوتا ہے توخبیث طبیعت اور سست وکاہل بن جاتا ہے ۔اللہ کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اوردن بھراللہ کی امان سے محروم رہتا ہے ۔
 اب ہمیں اپنامحاسبہ کرنا ہے کہ ہم کس حد تک نماز فجر کی محافظت کررہے ہیں ،جس نماز سے اللہ کی امان حاصل ہوتی ہے ،طبیعت کو شادابی ملتی ہے ،جس نماز پرجنت میں داخلہ اورجہنم سے نجات موقوف ہے ، جس نماز سے دیدار الہی نصیب ہوگی،ایسی نماز سے اکثریت کی لاپرواہی المیہ نہیں تواورکیاہے....جب انسان کی پکار ہوتی ہے ،اور ڈیوٹی کا وقت آتا ہے تو ہم پوری مستعد ی کے ساتھ سڑکوںپر پر پِل پڑتے ہیںخواہ چاربجے صبح ہی کیوں نہ ہو ،تاہم جب اللہ کی پکار ہوتی ہے تو ہم بے پروا ہ خواب خرگوش میں مست رہتے ہیں ،ایسا کیوں؟
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
 ظاہر ہے کہ یہ فکرآخرت میں کمی کا نتیجہ ہے ،اللہ کی گرفت سے جب انسان مطمئن ہوجاتا ہے تو اس کے احکام کو پامال کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا ، اس لیے سب سے پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ہم سے بہت بڑی کوتاہی ہو رہی ہے پھر ہلکی سی عزیمت درکار ہے ،نمازِ فجر کی پابندی آسان ہوجائے گی ۔
 سوتے وقت مسنون اذکار کا اہتمام کرلیں ،سونے سے قبل نمازفجر کے لیے بیداری کا پختہ ارادہ ہو ، رات کو سویرے سونے کی عادت ڈالیں، بیدار کرنے کے لیے الارم گھڑی کا استعمال کریں یا کسی ساتھی کو جگانے کی تاکید کردیں اور گناہوں سے دوری اختیار کریں۔
 اللہ تعالی ہم سب کو نمازِفجر کا پابند بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
مکمل تحریر >>

انسان خسارے میں ہے

والعصر إن الإنسان لفي خسر إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر  (سورة العصر)

ترجمہ :زمانے کی قسم !بے شک انسان گھاٹے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور ایک دوسرے کو ( ایمان اور عمل صالح کی ) نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “ ۔

تشریح : یہ سورہ بے پناہ اہمیت کی حامل اور عظمت والی سورہ ہے ۔ امام شافعی رحمه الله  فرماتے ہیں” اگر لوگ اس سورہ کوبغورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کے لیے یہی سورہ کافی ہے“۔
 امام ابن قیم رحمه الله  مفتاح دار السعادة میں اس سورہ کی تشریح کرتے ہوے فرماتے ہیں :
 ” یہ سورہ چار باتوں پر مشتمل ہے ۔ سب سے پہلی بات علم ، جس سے حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے ، مومن جانتا ہے کہ اللہ حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کا رسول حق ہے ، اس کی ملاقات حق ہے ، فرشتے حق ہیں، انبیاءحق ہیں، جنت حق ہے، جہنم حق ہے ، پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے اور علم عمل اور تعلیم پر صبر کرتا ہے ۔ یہ (علم ،عمل،تعلیم اورصبر) چارچیزیں ہوئیں ‘ جب انسان ان کو مکمل کرلیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی تکمیل کرلیتا اور دوسروں کوبھی مکمل کرنے والا بن جاتا ہے “۔
 چنانچہ اللہ پاک نے اس سورہ میں زمانے کی قسم کھاکر کہاکہ اس دنیا میں سارے انسان گھاٹے ،خسارے اور ٹوٹے میں ہيں۔ زمانہ تین طرح کا ہوتا ہے ماضی حال اور مستقبل ‘ گویا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سارے انسان خسارے میں تھے ،خسارے میں ہیں اور خسارے میں رہیں گے ۔ تاہم اس خسارے اور گھاٹے سے صرف وہی لوگ محفوظ ہیں جو ان چار صفات کے حامل ہیں۔
 (۱) (۲) اللہ پر پختہ ایمان ، اوراس ایمان کے مطابق عمل صالح : ایمان کے ساتھ عمل ہرانسان سے مطلوب ہے ، ایمان اور عمل دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے ،ایمان کی تصدیق عمل ہی کرتا ہے،اور عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازم ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مختلف مقامات پر دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ” جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا، وہی لوگ جنتی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے“ ( البقرة : ۲۸) اس معنی کی متعدد آیات آئی ہیں-
 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی     
یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے
 (۳)حق کی وصیت :ایمان وعمل کے بعد اس امت کی بنیادی صفت ایمان وعمل کی طرف دعوت ہے،اوراسی بنیاد پر اس امت کو خیرامت کا لقب دیا گیا ہے کہ یہ امت محض اپنی اصلاح پراکتفانہیں کرتی بلکہ افراد اورمعاشرے کی اصلاح کی بھی فکرمند ہوتی اوراس کے لیے بے چین رہتی ہے۔ ( آل عمران :110 )
 (۴)صبر کی وصیت : دعوت واصلاح کا کام بڑا صبرآزماہوتا ہے ،اس راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ کانٹوں سے مقابلہ کرنا پڑتاہے ،اس لیے دعوت کی راہ میں آنے والی مصیبتوں اورپریشانیوں کوخندہ پیشانی سے انگیز کرنابندہ  مومن سے مطلوب ہے ۔ جس شخص کے اندر یہ چار صفات پیدا ہوگئے حقیقت میں وہی کامیاب ہے ۔
مکمل تحریر >>

کھانا کھاتے وقت سلام کا جواب دینا


سوال: کیا کھانے کے بیچ سلام کرنا جائز ہے اور اگر کوئی سلام کرے تو کیا اس کا جواب دینا چاہیے ؟ ۔ (سید انتظار۔ کویت)

جواب: جی ہاں! کھانا کھاتے وقت سلام کرنا جائز ہے اور اگر کوئی سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب بھی دینا چاہیے ۔ کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگوں کی زبانوں پر یہ جومشہور ہے کہ لا سلام ولا کلام علی الطعام کہ” کھاتے وقت سلام یا کلام نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ مقولہ ہے جو لوگوں میں رائج ہوگیا ہے ۔

اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کھانے کے بیچ بات کرناثابت ہے ۔ ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه وسلم  کے پاس گوشت پیش کیا گیا آپ نوچ نوچ کرتناول فرمانے لگے ، اسی اثناء فرمایا : ”میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا “ پھر آپ نے شفاعت کی طویل حدیث بیان کی ۔ (بخای ومسلم)

اس کے علاوہ بھی کئی احادیث سے کھانے کے بیچ بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔جب اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم  سے کھانے کے بیچ بات کرنا ثابت ہے تو سلام کرنا بدرجہ اولی صحیح ہونا چاہیے۔ بلکہ احادیث میں نماز پڑھنے والے شخص کو بھی سلام کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور بحالت نماز سلام کا جواب دینے کا طریقہ یہ بتا یا گیاکہ اس کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا جائے گا ۔

بعض فقہاء نے کھانے کے بیچ سلام کرنے سے جو منع کیا ہے وہ اس صورت میں جبکہ لقمہ منھ میں ہو‘ مبادا کہ جواب دینے سے نقصان پہنچ جائے ۔اگرکوئی ایسی حالت میں سلام کرتا ہے تو جواب دینا فوراً ضروری نہیں ۔ ہاں اگر وہ کھانا کھا رہا ہے لیکن لقمہ منھ میں نہیں ہے توسلام کیا جائے گا او رجواب دینا بھی ضروری ہوگا ۔


مکمل تحریر >>

بدھ, مارچ 10, 2010

ایڈیٹر ماہنامہ مجلہ طوبی کے نام


برادرگرامی قدر جناب ظل الرحمن التیمی حفظہ اللہ
ایڈیٹر ماہنامہ مجلہ طوبی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج عالی بخیر ہوگا
مادرعلمی میں کانفرنس کی بابت سنا ، لیکن اس کی رپورٹ نیٹ سے متعلقہ اخبار وغیرہ میں پڑھنے کو نہ مل سکی ، اگر رپورٹ دستیاب ہو تو مجھے صرف ای میل کردیں ۔ نوازش ہوگی ۔آج ایک اہم بات آپ سے یہ عرض کرنی ہے کہ آپ نے طوبی کے دائرہ کو اتنا محدود کررکھا ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے افراد اس سے استفادہ کرہی نہیں سکتے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ جامعہ کا ویب سائٹ تیار ہے ، نیٹ پر صفحہ خریدا جا چکا ہے، اور سالانہ رقم کی ادائیگی بھی ہو رہی ہے، پھر رسالے کا مادہ ساراکا سارا آپ کے پاس تیار بھی ہے توپتہ نہیں دقت کیا ہوتی ہے ۔ ہرماہ اپلوڈ کرنا ہے اور بس ، ہندوستانی مدارس بالعموم اس سمت میں توجہ نہیں دے رہے ہیں ،حالانکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ، آج تعلیم یافتہ طبقہ اپنے اکثر اوقات نیٹ پر گزار رہا ہے، ایسے لوگوں کو ہم کیوں محروم کریں-
ایک دوسری بات یہ کہ پی ڈی ایف کا سسٹم اب نہیں چل رہا ہے، اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل نیٹ پر موجود ہونے کے باوجود وہ گوگل یا سرچنگ کى سروس میں نہیں آتا جس کی وجہ سے اس کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ، افسوس کہ اب تک اردو روزنامے بھی نیٹ پر اسی طریقے سے ڈالے جا رہے ہیں، روزناموں کی بات کچھ دیر کے لیے چل بھی سکتی ہے کہ ان کی افادیت وقتی ہوتی ہے جبکہ دینی مجلات کا معاملہ ایسا نہیں ہے ،ان کی افادیت ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے،اس لیے یونی کوڈ میں آنے چاہئیں ۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی سرچ کرکے متعلقہ موضوع تک بآسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے جبکہ پی ڈی ایف میں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ان پیج ٹو یونیکوڈ کی سروس آج دستیاب ہے ،اگر ٹائیپنگ صحیح طریقے سے کی جائے تو ہوبہواسے یونیکوڈ میں بدلا جاسکتاہے ۔ میں بھی توکویت سے اردومیں ماہنامہ مصباح نکالتا ہوں ‘الحمدللہ اسے یونی کوڈ میں نیٹ پر بھی ڈالا جارہا ہے ،اس میں کوئی خاص وقت بھی نہیں لگتا ہے ۔ اس کے جو مادے میرے پاس تیار ہوتے ہیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اندر خود سے سب کو نیٹ پر ڈال دیتا ہوں ۔ آپ دیکھیے دارالعلوم دیوبند والوں نے اچھی خاصی پیش رفت فرمائی ہے ، ان کے سارے فتاوے،اور ماہنامے یونی کوڈ میں دستیاب ہیں، آج المیہ یہ ہے کہ شیعوں ،قادیانیوں اور قبرپرستوں نے نیٹ پر دین کی خدمت کے نام سے زہر اگل رکھا ہے اور ہم ہیں کہ حق بات کو مٹھی میں بند کیے ہوئے ہیں ، جب میں اردو میں کسی موضوع سے متعلق سرچ کر رہاہوتا ہوں تو اکثر گمراہ فرقوں کے مقالات سامنے آجاتے ہیں ، گویانیٹ پر باطل کاپرچار حق کے نام سے ہورہا ہے ۔
ممکن ہےکسی بھائی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ آپ لوگوں کے پاس وقت ہے اس لیے آپ لوگ ایسا کرلیتے ہیں ،ہم سب کی ذمہ داریاں الگ ہیں نیٹ پرجانے کا موقع نہیں،نیٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں، اس کے لیے مادی تعاون بھی درکارہے ....یہ سارے اشکال اپنی جگہ بجا ہيں لیکن اگر نیٹ کی اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو ہم ضرور اس کی طرف پیش رفت فرمائیں ۔ الحمدللہ میرے پاس روم میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، لیکن میرا بهى وقت بہت تنگ ہوتاہے، آفس کی پوری ڈیوٹی نبھانا ، تن تنہا رسالے کا پورا کام کرنا، دروس کی تیاری کرنی ، ریڈیو کے ہفتہ وار  پروگرام کی تیاری ....اسے وہی سمجه سکتا ہے جس نے عملی طور پر برتا ہو۔ خلیج میں لوگ صرف رسمی ڈیوٹی سے پریشان رہتے ہیں جبکہ میرے ساتھ یہ ساری ذمہ داریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کا بہت کم وقت ملتا ہے،لیکن سوچتاہوں کہ مشغولیت ہی سے تو شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے لگا ہوا ہوں۔ جہاں تک مادی تعاون کا مسئلہ ہے تو اگر عزم محکم ہو تو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔
 میں بنیادی طور پر بذریعہ نیٹ غیرمسلموں میں کام کررہا ہوں ،ٹیم ورک کی اہمیت کے پیش نظر میں نے کوشش کرکے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد جمع کرلی ہے جو نیٹ پر اچھا خاصا کام کررہے ہیں ،ایک وقت تھا کہ ہندی میں نیٹ پر دعوتي آرٹيكل  لکھنے والا ایک بھی نہیں پایا جاتا تھا آج الحمدللہ درجنوں نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں ،اس تعلق سے میں سے ہندوستان کے کتنے لوگوں سے رابطہ کیا تو اکثر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ وقت نہیں ہے ......، بھئی ! آپ جو کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ تو سب کے پاس پہنچ نہیں رہی ہیں....اور آج نیٹ پر غیرمسلموں کا تعلیم یافتہ طبقہ ہروقت موجود رہتا ہے ، بیک وقت لاکھوں اشخاص تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، جبکہ اسلام کے دشمن اسلام کے خلاف روزانہ لکھ رہے ہیں ۔ ہم سب نے پچھلے سالوں سے جو کام شروع کیاہے اس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں،غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے جس نے ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیموں کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔اب ان کو احساس ہونے لگا ہے کہ ہماری گرفت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ورنہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اردو میں خود لکھتے ہیں اور خود پڑھتے ہیں۔
معاف کیجیے گا، بات ذرا طول پکڑ گئی بلکہ موضوع سے ہٹ گئی ....میں عرض یہ کررہا تھا کہ آج اردو زبان میں نیٹ پر کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے، اس لیے مجلہ طوبی کا تازه شماره نیٹ پر بروقت لانے کی کوشش کریں اور یہ یونیکوڈ میں ہونا چاہیے اس کے لیے جس طرح کا تعاون درکار ہو مجھے میل کردیں ....
اللہ تعالی آپ کو، آپكے اہل خانہ اور تمام احباب کو صحیح سلامت رکھے آمین

آپ کا خیراندیش بھائی
صفات عالم محمدزبیرتیمی
مکمل تحریر >>