جمعرات, ستمبر 13, 2012

ایڈیٹر ہماراسماج اردو كے نام

برادرگرامی قدر ڈاكٹرخالد انور صاحب
ایڈیٹر ہماراسماج اردو
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے آپ بخیر و عافیت ہوں بحمد اللہ ہم سب بھی خیریت سے ہیں۔
راقم سطور روزنامہ”هماراسماج “ کا  روز اول سے قارى  ہے ۔خبروں كے حسن انتخاب اور اداريہ کی دلآویزی نے مجھے اس کا گرویدہ بنایا ہے ۔ منجھے ہوئے صحافيو ں کی منجھی ہوئی تحریریں ہر روز باصرہ نواز ہوتی ہیں ۔ فنی اعتبار سے بھی روزنامہ ايك  معیار كا حامل  ہے  ۔ اللہ تعالی آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی کاوشوں کو بارآور فرماتے ہوئے انھیں قبول کرے،البتہ اسلاميات پر بهى تحريريں ہميشہ شائع ہوتى رہنى چا ہئيں، يہ ميرى گذارش ہوگى -
آپ سے ملاقات کیے ایک عرصہ ہوگیا ، میں بارہا آپ کو یا د کرتا رہتا ہوں ، متعدد باردہلی آنے کا اتفاق ہوا لیکن میری بے حسی کہیے کہ آپ سے ملاقات کا شرف حاصل نہ کرسکا ۔ حالانکہ آپ کی محبت میرے دل میں ہے ۔ اس بار موقع ملا تو ان شاء الله شرف باريابى ہوگی.  يار زنده صحبت باقى 
والسلام

مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 12, 2012

زنا بالجبر کا واحد حل اسلام ہے

ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی ایک چلتی بس میں وحشی درندوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئی طالبہ کی موت پر الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں تاہنوز بحث جاری ہے ،اس درمیان مبصرین ، سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں کی عجیب وغریب رائیں سننے اور پڑھنے کوملیں، کوئی مجرمین کو سخت سے سخت سزا سنانے کی مانگ کررہا ہے ،تو کوئی ایسی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے جس کی بنیاد پر کسی کو ایسے جرم کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ، کوئی اس طرح کے ملزمین کو نامرد کرنے کی تجویز پیش کررہا ہے ،کوئی خواتین کے تنگ لباس پرپابندی کی مانگ کررہا ہے تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تنظیمیں اسے اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر الٹے مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی دعوت دے رہی ہیں ،یہ بحثیں ابھی جاری ہی ہیں کہ اسی اثناءعصمت دری کے بعد قتل کے کئی دیگرواردات سامنے آئے ہیں،اور آتے ہی رہیں گے،یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے، جب تک کہ انسان اپنے خالق ومالک کے دئیے ہوئے نظام کی طرف لوٹ نہ آئے کہ صانع ہی اپنی مصنوعات کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھتا اوراسے استعمال کرنے کا بہترین طریقہ بتا سکتا ہے ،بعینہ خالق ہی مخلوق کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہے، اوراس کی طبیعت سے ہم آہنگ قانون اورضابطہ بنا سکتا ہے ،اس لیے جب ہم بحیثیت مسلمان اس مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کا حل صرف اورصرف اسلام ہی دکھائی دیتا ہے، اورمجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے نام نہاد مبصرین جورائے زنی کررہے ہیں وہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ یہ محدود انسانی سوچ کا نتیجہ ہے اور رائے دینے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے خالق کی پہچان نہیں رکھتے اور اس کے نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں.
جبکہ اسلام دین فطرت ہے ،اس کی جملہ تعلیمات انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہیں ، چنانچہ اسلام نے مردوعورت کے تئیں فطری نظام یہ پیش کیا کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں ،اور ان کی دنیوی واخروی کامیابی کے اصول بھی ایک ہیں، البتہ مرد وں اور عورتوں میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ نازک بھی ہیں اس لیے اِس کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، طبعی طور پر ہم اس نزاکت کو سمجھتے ہیں،اسی لیے اگر ایک شریف باحیا اور باپردہ لڑکی سڑک سے گذر رہی ہو ،اسی کے پیچھے دوسری لڑکی چل رہی ہے جو بے پردہ ہے ،شوخ اور تنگ لباس زیب تن کی ہوئی ہے تو اوباش لڑکے ظاہر ہے کہ پہلی لڑکی کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں گے جبکہ دوسری لڑکی کو گھوڑ گھوڑ کردیکھیں گے ، اس سے چھیڑخوانی بھی کرسکتے ہیں ، کیونکہ نگاہ ہوس فتنہ انگیز حسن کا مشاہدہ کرچکی ہے ۔
آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا لڑکا شام چاربجے گھر سے بازار جاتا ہے اور دس بجے رات میں لوٹتا ہے تو آپ کو کسی طرح کی فکرمندی لاحق نہ ہوگی ،اس کے برخلاف اگر آپ کی جوان لڑکی چار بجے بازار جاتی ہے اور دس بجے رات سے پہلے بازار سے لوٹ کر نہیں آتی تو آپ پریشان ہوجائیں گے ،کرب واضطراب کی کیفیت طاری ہوجائے گی،اورذہنی الجھنیں چاروں طرف سے گھیرلیں گی کہ یہ فطرت کی آواز ہے۔ اسی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اسلام عورت کو معاشی جدوجہد سے آزاد کرکے مردکے سر عورت کی معاشی ذمہ داری ڈالتا ہے اوراس طرح دونوںکا دائرہ کارمتعین کرتا ہے کہ مردکو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اورعورت کو گھر کی ملکہ اورچراغ بن کر رہنا ہے کیونکہ اسی میں اس کی رونق ہے ، اس کے باوجود عورت اگر اپنے ذوق اوررجحان کے مطابق اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی کام کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں ڈالتا ،لیکن عورت بہرصورت پردہ ہے اس لیے اس کا حسن پردہ میں ہی جھلکتا ہے ۔
پھراسلام نے خواتین کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے ایسی سنہری ،ہمہ گیر اور ہمہ جہت تعلیم دی کہ اگرانسان اسے عملی زندگی میں جگہ دے تو سماج اورمعاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے اور جرائم خودبخود ختم ہوجائیں ۔ اس سلسلے میں اسلام سب سے پہلے دل کی نگہداشت پرزور دیتے ہوئے اس میں اللہ پاک پر پختہ یقین واعتماد کو بحال کرتا ہے جو سمیع وبصیر ہے ،جو دلوں کے سربستہ رازوں اورآنکھوں کی خیانت سے بھی آگاہ ہے ،جس کی نگرانی سے انسان ایک لمحہ کے لیے بھی نکل نہیں سکتا ،جس نے اس پر اپنے اطاعت شعار فرشتوں کو بھی مقررکررکھاہے جو اس کی ایک ایک حرکت کا ریکارڈ تیار کررہے ہیں،کل قیامت کے دن اس کی زبان پرمہر ڈال دی جائے گی اوراس کے وہ اعضاء وجوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے جنہیں لذت پہنچانے کے لیے دنیا میں غیرت الہی کو چیلنج کیا کرتاتھا ،پھر وہ زمین جہاں پر کام ودہن کا سامان فراہم کیاتھا کل قیامت کے دن اس کی حریف بنی کھڑی ہوگی ۔

یہ احساس پیدا ہونے کے بعد انسان ایک ذمہ دار ہستی بن جاتا ہے، اس کے دل میں ایک پولس چوکی بیٹھ جاتی ہے،جو ہمہ وقت اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے، یہ فطری بات ہے کہ انسان کے اندرجب کسی گناہ کاداعیہ پیدا ہوتا ہے تووہ انسانوں کی نگاہ سے بالکل روپوش ہوکر گناہ کرتا ہے کہ مبادا اگرکوئی دیکھ لے تو ہماری سبکی ہو گی،اب ظاہر ہے کہ جس اللہ کے ساتھ وہ معاملہ کررہا ہے اس کی نگاہ سے وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی چھپ نہیں سکتا ،ایسی صورت میں اس کے اندراللہ کے حکم کو پامال کرنے کی قطعاً جرات پیدا نہیں ہوسکتی ،اوراگرنفس امارہ کے بہکاوے میں کبھی چوک ہوگئی تواس کا ضمیر اس کو فوراً ملامت کرتا ہے ،بالآخر وہ توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے رب کی مغفرت کا طلبگار ہوتاہے، اسی احساس کی بنیادپر بیداری ضمیر کا ایسابے نظیرنمونہ سامنے آتا ہے کہ ماعز اسلمی اور غامدیہ جیسے لوگ جن سے خلوت میں زنا ہوگیاتھا کشاں کشاں دربار نبوت میں حاضرہوتے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے لیے سزاکا مطالبہ کرتے ہیں ،یہاں تک کہ انہیں سنگسا رکردیا جاتا ہے ۔ اس احساس کے نمونے جہاں تاریخ کے درخشاں صفحات پر سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ملتے ہیں وہیں آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے پاکیزہ نفوس پائے جاتے ہیں ۔

چند ماہ قبل کا واقعہ ہے کہ امریکہ کی ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیاں اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہوئیں، اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔لیکن عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام نے نکلتے ہی فوراً پولس کو فون لگایا، پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا، تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، لیکن اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ (روزنامہ العربیہ13مئی2012)
جی ہاں! جب دل میں اللہ کا خوف اوراپنے رب کے پاس جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو عفت وعصمت کے ایسے ہی نمونے دکھائی دیتے ہیں کہ حسن وجمال کی پیکر دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن اس کو یہ کہتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا کہ ’مجھے اللہ کا ڈر ہے ۔ ‘
دل کو بدلنے اوراس میں اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دوسرانظام یہ نافذ کیا کہ زنا کے محرکات پر بھی روک لگادی اورایسے احتیاطی تدابیر تجویز کیے کہ زنا تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے ، چنانچہ اسلام نے مردوخواتین دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ،عورتوں کے لیے خاص حکم یہ دیا گیا کہ وہ گھر میں استقراراختیار کریں ،اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو پردے کا پورا خیال رکھیں ،اپنی زینت وزیبائش کا اظہار نہ کریں،کسی غیرمحرم مرد سے بات کرتے وقت لہجہ میں لچک نہ ہو بلکہ روکھاپن پایاجائے کہ مبادا کوئی بیمار دل غلط توقع قائم کربیٹھے ،اورنہ اجنبی مردسے خلوت اختیار کریں ، نہ محرم کے بغیر سفر کریں ۔ پھر اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی اوراس کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دورکرتے ہوئے ایسی شادی کو بابرکت قرار دیا جس میں اخراجات بہت کم ہوں، ازدواجی زندگی میں الفت ومحبت کا ماحول بنے اس کے لیے شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینے کا حکم دیا گیا ، اور شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ایسی پاکیزہ تعلیمات دی گئیں کہ ازدواجی زندگی جنت نظیر بنی رہے ۔ اوربیوی کے علاوہ کسی دوسری خاتون کی طرف قطعاً اس کا دھیان نہ جائے ۔
ان ساری تدابیر کے باوجود چونکہ فحاشی میں بذات خود وقتی لذت ہے ،اور معاشرے میں بیمار طبیعتیں پائی جاتی ہیں جن کے لیے نصیحت اورتدابیر کوئی کام نہیں دیتیں ،ایسے وقت اگر اسلام نے محض دل کی تربیت اور احتیاطی تدابیر پر اکتفا کیا ہوتا اورخبیث طبیعتوں کے لیے سزا مقررنہ کی گئی ہوتی تواسلام کی تعلیم آفاقیت پر مبنی نہیں ہوسکتی تھی ،اسی لیے انسانی فطرت سے ہم آہنگ اس مذہب نے حدود الہی کو پامال کرنے والوں کے لیے سخت سے سخت جسمانی سزا مقرر کی ، چنانچہ زناکار مردوخواتین اگر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے رجم کا حکم دیا گیا، اوراگر غیرشادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی کی سزا تجویز کی گئی ۔ اور اس کی تنفیذ کے حوالے سے حکم یہ دیاگیا کہ رنگ ونسل اورامیری وغریبی کی تمیز کے بغیر ہر مجرم کو مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں سزا دی جائے تاکہ حاضرین کے لیے نشان عبرت ہو اوربعد میں کسی کو ایسی شرمناک حرکت کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا:
 وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیَاة یَا اولِی الاَلبَابِ (سورة بقرہ 179)
” اور اے اہل ِعقل! (حکمِ) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے“۔
یہ ہے اسلام کا وہ آفاقی نظریہ جوبالکل ماڈرن اوراپٹوڈیٹ ہے ،ہرزمانے اورہرجگہ اورہرحالت میں اس نظام پر عمل کرکے خوشگوار زندگی گذاری جاسکتی ہے ،جبکہ موجودہ زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریکیں منظرعام ہر آئی ہیں ان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عرباینت،فحاشی اوربے راہ روی کو انسانی معاشرے میں اعلی پیمانے پر فروغ دیاجائے ،ان کا مطالبہ ہے کہ مردوعورت دونوں کو ایک میدان میں کام کرنے کی بالکلیہ اجازت ہونی چاہیے اس کے بغیر ان کے درمیان مساوات باقی نہیں رہتا ، اوریہ نعرہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ دیا ہوا ہے جو مغرب سے اٹھا اورپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ورنہ مشرقی تہذیب میں عورت پردے کی عادی تھی ،یہاں تک کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں پردے کا حکم آیا ہے اورآج تک غیرمسلموں کے بعض مذہبی گھرانوں میں اس کا رواج چلا آرہا ہے ،خود مغرب جو عیسائیت کی دہائی دیتا ہے ان کے مذہب میں مریم علیہا السلام کو باپردہ پیش کیاجاتا ہے ،لیکن برا ہو سرمایہ دارانہ نظام کا جس نے دھرم اورروایت سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنادیا،اوراپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے تجارتی اشتہارات میں عورتوں کے حسن کا خوب خوب استعمال کیا، اور خود عورتوں نے اپنی عزت کی نیلامی کو بسروچشم قبول کرلیا ۔
  اب میں پوچھناچاہتا ہوں آزادی نسواں کی تنظیموں سے جو سوداگروں کے فریب میں مبتلا ہیں کہ اس آزادی نے آپ کو کیا دیا، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں لیکن مغربی ممالک میں بھی سوائے چند کے آپ کو سربراہی حاصل نہ ہوسکی ،ہاں !آپ کے جسم کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا،سرمایہ داروں نے آپ کے حسن کا خوب خوب استعمال کرکے اپنی تجارت کو فروغ دیا،شہوت پرستوں نے آپ کو ننگا کرکے شہوت کی آگ بجھائی ،پھر جب یہ فتنہ انسانی معاشرے میں آیا تو آپ پر جنسی زیادتی عام ہونے لگی ، زنابالجبر کے واردات کثرت سے ہونے لگے ،چنانچہ امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہرپانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے ،رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی ، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ہندوستان کے ایک تازہ جائزے میں برطانوی خبررساں ایجنسی نے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اوسطا ہر 20 منٹ بعد کسی نہ کسی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خبرکے مطابق 2011ءمیں بھارت میں ریپ کے واقعات کی تعداد 24 ہزار 206 رہی۔اورپاکستان میں پچھلے ایک سال میں زنابالجبر اوراجتماعی زیادتی کے 827 واقعات منظرعام پر آئے ہیں ۔ اس لیے ہمیں کہنے دیاجائے کہ آج اگردنیامیں زنا بالجبر کے واردات سامنے آتے ہیں تو یہ دراصل استعماری دنیاکا شاخسانہ اورفطرت سے بغاوت کانتیجہ ہے ، قدم قدم پر شہوت کو ہوا دینے کے سامان مہیا کئے گئے ہیں ،الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے عورت کو کم سے کم لباس میں پیش کررہا ہے ،خودلڑکیاں شوخ اور تنگ لباس زیب تن کئے اٹکھیلیاں کرتیں نگاہ ہوس کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں ۔
ایسے حالات میں اگر کوئی کہے کہ ہم آگ جلائیں گے لیکن اطراف کی چیزیں نہیں جلنی چائییں، سونا اور ہیرے جواہرات عوامی مقامات پر رکھے رہیں گے ان کی چوری نہیں ہونی چاہیے ،گھر کا دروازہ کھلارہے گا گھرکا سامان محفوظ رہناچاہیے ، مٹھائیاں کھلی رہیں گی ان پر مکھیاں نہیں لگنی چاہئیں ،تو ایسا خیال دیوانے کا بر تو ہوسکتاہے ، عقلمند ی کی علامت نہیں ہوسکتی ۔


بہرکیف یہ بہترین موقع ہے دعاة اورمبلغین کے لیے کہ موجودہ حالات میں آزادی نسواں کے علمبرداروں اورغیرمسلموں کے سامنے مثبت اندازمیں اسلام کے معاشرتی نظام کی آفاقیت بیان کریں کہ یہی نظام دراصل عفت وعصمت کا رکھوالا، انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور پرسکون معاشرے کا ضامن ہے ۔اورجب تک انسانیت اپنے رب کے دئیے ہوئے نظام حیات کی طرف لوٹ کر نہ آئے گی پریشانیاں گھر ی رہیں گی ، عفت وعصمت کا خون ہوتا رہے گا اورجرائم دن بدن بڑھتے ہی رہیں گے ۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, ستمبر 06, 2012

لیکچر سننے کے لیے غیرمسلم کا مسجد میں داخلہ

 

سوال :

کیا دعوت پر مشتمل لیکچر سننے کے لیے غیرمسلم کے لیے جائز ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہو؟


جواب :

جی ہاں! جائز ہے جبکہ مامون ہوں کہ غیرمسلم مسجد کو گندہ نہ کریں گے۔ کیونکہ یہ داخلہ مصلحت کے حصول کے لیے ہے جس سے مسجد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیرمسلم کے لیے مسجد میں کسی طرح کی اصلاح وترمیم کے لیے داخل ہونا اورٹھہرنا جائز ہے ۔ کیونکہ اس میں مسجد کی مصلحت ہے، اسی طرح لیکچر سننے کے لیے بھی جانا جائز ہے جو ممکن ہے کہ اس کی ہدایت کا سبب بن جائے ۔ خود اللہ کے رسول انے ثمامہ بن اثال کو مسجد ہی میں باندھا تھا ۔ 

مکمل تحریر >>

بہن اسماء کے نام

 بہن اسماء! سلام مسنون
سب سے پہلے ہم آپ کے دینی جذبہ کی قدر کرتے ہیں کہ آپ نے ہم سے رابطہ کرکے رہنمائی حاصل کرنی چاہی ۔ اللہ پاک یہ دینی جذبہ باقی رکھے ۔ فضائل درود شریف ، فضائل استغفار ، اسماءحسنی کے متعلق ہمارے پاس تو مستقل کتابيں دستیاب نہیں ہيں ۔ البتہ میں آپ کو اس سلسلے میں فرصت سے کچھ مواد فراہم کرسکتا ہوں۔ میں ذرا مشغول تھا جس کی وجہ سے بروقت جواب نہ دیا جاسکا۔اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔  
پرانی دینی کتابوں کے متعلق آپ کا سوال ہے تو اگر ممکن ہوکہ کسی کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان سے استفادہ کرے تو کر سکتی ہیں بشرطیکہ کتابیں مستند ہوں ۔اگر ان سے استفادہ نہ کیا جاسکتا ہو تو انہیں مشین سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیں ۔ یا  زمین میں دفن کردیں یا جلاکر خاکستر کر دیں ۔ یا نہر و سمندر وغیرہ میں ڈال دیں تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو ۔
 آپ نے کچھ ویب سائٹس کے بارے میں جاننا چاہا ہے، اس تعلق سے ہم بتائیں گے کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا ویب سائٹ اور ان کی باتیں بھی مستند ہوتی ہیں ۔ اسی طرح آپ مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے بھی استفادہ کرسکتی ہیں 
 آپ نے کہا کہ کیاچاروں امام برحق ہیں ۔ ائمہ یہ چار ہی نہیں تھے ،ایسے بہت سارے علماءگذرے جنہوں نے اپنے دورمیں علم کی خدمت کی لیکن چار ائمہ کے دبستان فکرمشہور ہوئے ،ان سب کی کوشش حق تک پہنچنے کی تھی، کسی نے جان بوجھ کر حق کی مخالفت نہیں کی، لیکن حق ایک ہی ہوتا ہے ،متعدد نہیں ۔ اورہرایک نے یہی بات کہی کہ جب میری بات قرآن وحدیث سے ٹکراجائے تو اسے دیوار پر مار دو، اس لیے اب معیار قرآن وحدیث ہوگا ائمہ نہیں ہوں گے ۔ اس لیے ان ائمہ کی طرف نسبت کوئی عیب کی بات نہیں لیکن جن کی بات قرآن وحدیث سے زیادہ قریب ہے اس کی پیروی ہونی چاہیے ۔ خلاصہ یہ سمجھیں کہ سارے ائمہ کا احترام ہوناچاہیے ۔البتہ معیار قرآن وحدیث ہو، نہ کہ کسی امام کی بات، اگر حدیث کچھ کہہ رہی ہو اورامام کی بات کچھ تو حدیث کے سامنے آمنا صدقنا کہیں ۔یہی مسلمان کی شان ہونی چاہیے ۔ 
 اردو زبان میں کئی کتابوں کاآپ نے حوالہ دیا جو آپ کے پاس ہے یا جسے آپ زیرمطالعہ رکھنا چاہتی ہیں ۔اس تعلق سے عرض ہے کہ آپ دارالسلام ریاض کی مطبوعات (اردو ہو یا انگریزی ) حاصل کریں ،ان کا مکتبہ کویت میں بھی دستیاب ہے، ان کی کتابیں مستند اورمعلومات افزا ہوتی ہیں ۔ مثلاً منہاج المسلم شیخ ابوبکر جابر جزائری، فتاوی برائے خواتین ، فقہی مسائل : ڈاکٹر صالح الفوزان، الرحیق المختوم  شیخ صفی الرحمن مبارک پوری، یہ اچھی کتابیں ہیں جن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 
  جہاں تک دین پر استقامت کی بات ہے، تو اس کے لیے سب سے بہتر قرآن کی تلاوت ہے، عرب سے زیادہ اجڈ اور گنوار قوم دنیا میں کوئی نہیں تھی، لیکن قرآن نے ان کو بدل کر دنیا کا قائد بنایااور تہذیب وسلیقہ سے آراستہ کیا ۔ آج بھی یہ وہی کتاب ہے جو اس وقت تھی ،البتہ فرق اس کے ساتھ معاملہ کرنے کا ہے جس کی وجہ سے قرآن اپنا اثر نہیں دکھا رہا ہے ۔ قرآن انقلابی کتاب ہے ،قرآن تبدیلی لانے والی کتاب ہے ،لیکن تب جب ایک آدمی خود کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے خود کو تیار کرے گا۔ جہاں ثبات قدمی کے لیے نیک لوگوں کی صحبت ضروری ہے ،اچھی کتابوں کا مطالعہ ناگزیر ہے ،دین کے احکام کو بجالانا اہم ہے ،وہیں  قرآن کی تلاوت ضروی ہے ۔ لیکن تلاوت ویسے نہیں جیسے ہم عام طور پر کرتے ہیں بلکہ ایسے کہ ان کا اثر ہم پر پڑے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے کچھ کرنا ہوگا ۔ کیا کرنا ہوگا؟
دن یا رات میں ایک بار قرآن کی تلاوت ضرور کریں،تلاوت سے پہلے مسواک کرلیں، وضو کرکے پرسکون جگہ پر بیٹھیں جو شوروہنگامہ سے بالکل خالی ہو ، سریلی آواز سے تلاوت شروع کریں اور تجوید کی رعایت کریں ۔ اگر قرآن کی زبان نہ سمجھتى ہوں تو ترجمہ قرآن کے ساتھ ہی تلاوت ہو، اوراس کے معانی سمجھتى جائیں، شروع میں آیت کے مفہوم کو سمجھ لینا کافی ہے، گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ورنہ ذہن منتشر ہوجائے گا ۔جب ایسی آیت سے گذرہو جو دل پر اثراندازہورہی ہو تو اس سے مرور کرام نہ کریں بلکہ بار بار اس کا اعادہ کریں کیوں کہ یہی وہ انفعالی کیفیت ہے جو ہمیں تلاوت قرآن سے مطلوب ہے، اوریہی انسان کے اندر تبدیلی لانے کاسبب بنتی ہے ۔ جب ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں، یا رسائل وجرائد کا مطالعہ کرتے ہیں تومقصد محض الفاظ کی خواندگی نہیں ہوتا بلکہ ہم اس کے پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ کے پیغام کو جو عربی میں ہمارے پاس ہے کیوں سمجھنے کے لیے سنجید ہ کوشش نہیں کرتے جس پیغام کے اندر انقلاب لانے اور تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔   

والسلام 
مکمل تحریر >>

رشتے دار کی عورتوں سے مصافحہ کرنا كيا شرعی ناحیہ سے جائز ہے ؟

سوال:

بعض مناسبتوں میں ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ رشتے دار کی عورتوں سے مصافحہ کیاجاتا ہے اوراسے عیب نہیں سمجھا جاتا ۔ کیا ایسا شرعی ناحیہ سے جائز ہے ؟ 

جواب:

مصافحہ اگرمحرم عورتوں سے کررہے ہوں جیسے ماں، بہن، بیٹی، بیوی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی اوربھانجی وغیرہ تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، بلکہ اچھا ہے، لیکن اگر غیرمحرم عورتوں سے مصافحہ کررہے ہوں چاہے وہ آپ کی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں تو یہ جائز نہیں ہے ۔ چاہے عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی ہوں اورچاہے مصافحہ کرنے والا جوان ہو یا بوڑھا ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إنی لا أصافح النساء (مؤطأ  للإمام مالك ، ومسند احمد)
"میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا "۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ سختی کے ساتھ فرمایاکہ :
 لأن یطعن فی رأس أحدکم بمخیط من حدید خیر لہ من أن یمس إمراة لا تحل لہ (طبرانى ، بيهقى )
" اس کے سر میں لوہے کے دھاگے سے مارا جائے یہ بہتر ہے اس بات سے کہ وہ ایسی عورت سے مصافحہ کرے جس سے مصافحہ کرنا اس کے لیے جائز نہیں ۔"
اورایک مسلمان سماج کی روایت کا پابند نہیں ہوتا بلکہ دین کا پابند ہوتا ہے ۔اگر کہیں پر ایسی روایت ہے تو اسے ختم کرنے اوروہاں کے مردوں اور عورتوں میں اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 05, 2012

کہاں گیے اسلام کا درد رکھنے والے ؟

 آج مسلمان ہر میدان میں کس قدر پچھڑتے جا ر ہے ہیں اس كا اندازه ہم سب كو بخوبى ہے، تعلیمی میدان ہو ، تجارتی میدان ہو، سیاسی میدان ہو ہر جگہ ان کی نمائندگی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ سب سے بڑھ کر ہم مختلف گروہوں ، جماعتوں اور فرقوں میں بٹ کر اپنے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں، حالانکہ ہماراخالق ومالک ایک ہے، ہمارا دین ایک ہے ، ہمارا نبی ایک ہے ، ہمارا قبلہ ایک ہے ، آج تقریبا 155 ممالک میں مسلمان ہیں ، اور ہر چوتھا ایک مسلم ہے ، اگرآج ہم بیدار ہوجائیں تو يقين ركهيں كہ ساری انسانیت اسلام کو گلے لگا لے گى، آج عیسائی مشینریاں ، اسلام دشمن تحریکیں ، اور ہندوؤں کی متعصب تنظیمیں گویا اسلام مخالفت پر کمر بستہ ہوچکی ہیں ، اور زہر کو تریاق بناکر انسانیت کے سامنے پیش کر رہی ہیں ….کہاں گیے اسلام کے سپوت ؟ کہاں گیے اسلام کا درد رکھنے والے ؟ کیا کوئی ہے جو ان گزارشات پر کان دھرے ؟ مجهے قوى اميد ہے كہ ميرى آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہوگى 
مکمل تحریر >>