جمعہ, مارچ 11, 2011

IPC کے شب وروز


ڈاکٹر ذاکر نائک کا دعوتی لکچر کویت میں

مارج کے دوسرے ہفتہ میں عالمی شہرت یافتہ داعی  اور اردو وانگریزی چینل پیس ٹی وی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ذاکر نائک وزارة الاوقاف کویت کی خصوصی دعوت پر انٹر ویوکے لیے کویت تشریف لائے تھے ۔ اس مناسبت سے دکن مسلم کمیونٹی کے زیراہتمام گلف یونیورسٹی کے ہال میں تعلیم یافتہ غیرمسلموں کے لیے ڈاکٹر ذاکرنائک کا ایک لکچر رکھا گیا جس میں آپ نے ”قرآن اور جدیدسائنس “ کے موضوع پر لکچر دیا آپ نے فرمایاکہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے بلکہ ہدایت کی کتا ب ہے ، اس کتاب میں چھ ہزار سے زائد آیا ت ہیں جن میں ایک ہزار سے زائد آیات کا تعلق سائنس سے ہے ۔ کائنات کی وسعت پزیری ، فنگرپرنٹ ، پہاڑوں کی تخلیق کی حکمت اور انسانی تخلیق کے مختلف ادوار پر سیر حاصل گفتگو کی اور پروگرام کے اخیر میں حسب معمول غیرمسلموں کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دئیے ۔

 شیخ احمد مراد رضا کا لکچر
ماہ گذشتہ IPC نے سعودی عرب میں ایک عرصہ سے مقیم شیخ احمدمراد رضا کے ایک دعوتی لکچر کااہتمام کیا جس سے IPC کے تمام دعاة نے استفادہ کیا ۔ شیخ رضا نے کہا ” دعوت انبیائی کام ہے جسے وظیفہ اورنوکری سمجھ کرنہیں بلکہ اللہ کا کام سمجھ کر اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دینا چاہیے“ ۔ آپ نے دعوت کوکامیاب کرنے کے لیے فرمایا:” سب سے پہلے مخاطب کا دل جیتنے کی ض رورت ہے“۔
آپ نے نومسلموں کے خانگی مسائل اور اپنے رشتے داروں کو اسلام پیش کرنے کے تئیں موجودہ حالات میں پیش آنے والی مشکلات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : ” نومسلموں کو ہمیشہ تاکید کی جائے کہ اپنے قریبی رشتے داروں اورماں باپ کو اسلام کی دعوت پہنچانے میں جلدی نہ کریں بلکہ قبول اسلام کے بعد ان کے سامنے اسلامی اخلاق کااعلی نمونہ پیش کریں اور جب سفرپر جائیں تو ان کے لیے معمول سے زیادہ قیمتی تحفہ وغیرہ لے کرجائیں ، والدہ کے سرکو بوسہ دیں ،ان کا ہاتھ چومیں اور انہیں بتائیں کہ یہ آداب میں نے مسلمانوں سے سیکھے ہیں ۔اس کے بعد انہیں موت کی یاد دلاتے ہوئے توحید ،رسالت اورآخرت کا پیغام سنائیں ان شاءاللہ ہدایت ملے گی اور کسی طرح کے مسائل بھی پیدا نہ ہوں گے “۔
دعاة کے لیے دعوتی ٹریننگ کورس
IPC نے دعاة کے دعوتی تجربات میں جدت لانے کے لیے سعودی عرب کے معروف داعی ڈاکٹر ناجی العرفج کودعوت دے کربلایا اور دعاة کے لیے ایک دعوتی ٹریننگ کورس منعقدکیا۔ آپ نے پاور پوائنٹ کے ذریعہ ”غیرمسلموں کے سامنے اسلام کا تعارف : قدم بقدم “ کے موضوع پر نہایت وقیع اورمعلومات افزا لکچر دیا۔ آپ نے فرمایا:” دعوت کے میدان میںسب سے پہلے مدعو کا دل جیتنے کی ضرورت ہے“،اس ضمن میں آپ نے دلوںپر قابو پانے کے چند وسائل کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ غیرمسلموں کے سامنے چندمعروف اسماءومصطلحات کی وضاحت ضرورکی جائے مثلاً اسلام میں اللہ کا تصورکیا ہے ؟ محمد صلى الله عليه وسلم  کون ہیں؟ قرآن کیا ہے ؟ مسلم کسے کہتے ہیں ؟ اسلام کیا ہے ؟ وغیرہ
 آپ نے فرمایا کہ غیرمسلم کے سامنے اسلام کے محاسن بیان کیے جائیں اور اس کے جمالیاتی پہلووں پر روشنی ڈالی جائے۔مثلاً (1) اسلام میںتوحید کا تصور اور دیگرادیان سے اس کا موازنہ  (2) سکون وطمانیت (3) مساوات اور عدل وانصاف (4) اعتدال وتوازن (5) اسلامی بھائی چارہ (6) مکارم اخلاق وغیرہ
 آپ نے مزیدفرمایا: مدعو سے کہاجائے کہ اسلام ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیتا ہے مثلاً اللہ کون ہے ؟ خالق کون ہے ؟ ہم کیوں پیدا کیے گئے ؟ ہم کس کی عبادت کرتے ہیں ؟ موت کے بعد کیا ہوگا ؟ انسان کا اخروی انجام کیا ہوگا؟۔ وغیرہ
 اسی طرح آپ نے تاکید کی کہ مختصر طورپر مدعو کے سامنے ارکان اسلام اور ارکان ایمان کا تعارف کرایا جائے، نیز غیرمسلموں کی مذہبی کتابوں میں توحید ورسالت اور یوم آخرت کا جو ذکر ہے اورنبی پاک صلى الله عليه وسلم  کی آمد کی پیشین گوئیاں کی گئی ہيں انہیں بھی بیان کیاجائے ۔
اخیر میں آپ نے فرمایا کہ داعی کوچاہیے کہ اپنا تعلق اللہ سے مضبوط رکھے اور مدعو کی ہدایت کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہے ۔
کلونجی : طب نبوی اورطب جدید کی روشنی میں
IPC نے الھیئة العالمیة للاعجاز العلمی فی القرآن والسنة کے تعاون سے ڈاکٹر عبدالعزیز الجفری کاایک لکچر رکھا جس سے IPC کے جملہ مرد وخواتین داعیان دین نے استفادہ کیا ۔ آپ نے اپنے لکچر میں کلونجی کے طبی فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ آج سے ساڑھے چودہ سوسال پہلے نبی امی صلى الله عليه وسلم  نے فرمایاتھا: علیکم بھذہ الحبة السوداءفان فیھا شفاء لکل داء الا السام (رواہ البخاری )
 ”کلونجی کو(بطور علاج )لازم پکڑوکیونکہ اس میں موت کے سوا ہر بیماری سے شفا ہے “۔ آج یہ بات جدید تحقیقات نے بھی ثابت کردی ہے۔ اوراس پردنیا بھر میں ہزاروں مطالعے اور تحقیقات جاری ہیں۔ آپ نے فرمایا:اب تک کی گئی تحقیق کے مطابق کلونجی کینسر،ایچ آئی وی ایڈز، ذیا بیطس، بلڈ پریشر اور ہائپر کولیسٹرول وغیرہ کے علاج میں انتہائی مو ثر پایاگیاہے۔ آپ نے فرمایاکہ کلونجی کے استعمال سے مریضوں کی قوتِ مدافعت میں زبردست اضافہ دیکھا گیا، اسی طرح کلونجی معدہ اورپیٹ کے امراض ، یادداشت میں کمی، رعشہ، دماغی کمزوری، فالج اور افزائش دودھ کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ آپ نے یہ بھی کہا : کلونجی کا سفوف نصف سے ایک گرام تک صبح نہار منہ اور رات کو سونے سے قبل شہد کے ساتھ استعمال کر لیا جائے تو بہت مفید ہے۔ اخیر میں آپ نے فرمایا: کلونجی کے استعمال میں یہ امر پیش نظر رہے کہ یہ طویل عرصہ اور زیادہ مقدار میں استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس میں کچھ مادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوسکتے ہیں۔
پروگرام کے اخیر میں آپ نے قرآن وحدیث کے سائنسی معجزات سے متعلقہ متعدد ویب سائٹس کے پتے نوٹ کرائے جن میں چند اہم یہ ہیں :
 www.eajaz.org.com   www.elnaggarzr.com
www.drchamsipasha.com
مکمل تحریر >>

بدھ, مارچ 09, 2011

کھلتی کليوں کی حفاظت کيجئے


اگراللہ تعالی نے آپ کو اولاد جيسی نعمت سے مالامال کر رکھاہے،  توآپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے گلشن حيات کے ان کھلتی کليوں کی نگہبانی کريں، ايسی نگہبانی کہ ہميشہ شگفتہ رہيں اور ان ميں کمہلاپن نہ آنے پائے ۔ اگر يہ کلياں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہيں تو زہے خوب، تاہم ان کی دينی وروحانی تربيت کی طرف دھيان دينے کی اشد ضرورت ہے، عصری تعليم کے ساتھ  ساتھ ان کے دينی تعليم کا بھی اہتمام ہونا چاہيے ، بفضلہ تعالی کويت کے ہرعلاقے ميں مساجد کے اندر حفظ قرآن کے حلقے پائے جاتے ہيں، جن کی کارگزارياں قابل ستائش ہيں، اور خوش آئند بات يہ ہے کہ بيشتر والدين اپنے بچوں کے تئيں ذمہ داری کا شعور رکھتے ہيں، اور اس کی طرف خاطرخواہ پيش رفت فرمارہے ہيں۔ اللہ تعالی انہيں مزيد بال وپرعطا فرمائے آمين۔ تاہم گھرکا ماحول بھی دينی ہونا چاہيے تاکہ بچوں کی روحانی تربيت ہوتی رہے کيوں کہ آج کے يہی بچے کل کے معمارِقوم وملت بننے والے ہيں۔

اگرآپ کے بچے آپ کی آنکھوں سے دور ہيں تو ان کی تربيت کی ساری ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے ،بچوں کی تربيت ميں ماں کا کليدی رول ہوتا ہے، تاہم قدم قدم پر باپ کے سايہ کی ضرورت پڑتی ہے، اگر وطن سے دور ہونے کے باعث بچے آپ کے سايہ شفقت سے محروم ہيں تو کم ازکم فون پر ان سے باتيں کرتے رہيں، انہيں ماں کی اہميت کا احساس دلاتے رہيں، اور ماں کو بھی بچوں کی تربيت پر خصوصی دھيان دلائيں۔
ليکن حقائق يہ بتاتے ہيں کہ بيشتر تارکين وطن اقتصادی حالت اچھی ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی تربيت ميں ناکام ثابت ہورہے ہيں، جس کے باعث ان کے بچے زندگی کے ميدان ميں پيچھے رہنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحراف کے شکار ہو جاتے ہيں، حالاں کہ ہونا يہ چاہئے تھا کہ اگروہ  وطن سے دور ہيں تو بيوی کو بچے کی دينی تربيت کرنے اور انہيں بُری صحبت سے دور رکھنے کی بار بار تاکيد کرتے رہتے۔
پرديسی بھائی! ماں اگرتعليم يافتہ اور ديندار ہوتو بچوں کی خاطرخواہ تربيت کرسکتی ہے، تاريخ ميں کتنی ايسی مائيں ملتی ہيں جن کی کوششوں سے ان کے بچے کاميابی کے بامِ عروج تک پہنچے۔
سفيان ثوری رحمه الله کی ماں اپنے فقروفاقہ کے باوجود ان کی تعليم کے ليے سوت کات کات کررقم جمع کرتی تھيں تاکہ يکسوئی کے ساتھ علم حاصل کرسکے، گاہے بگاہے نصيحت بھی کرتی تھيں ايک مرتبہ ماں نے فرمايا:
”بيٹا! جب تم دس حرف لکھ  چکوتو يہ غورکروکہ کيا تمہاری خشيت، برد باری اور وقار ميں اضافہ ہوا؟  اگرايسا نہ ہوسکا تو سمجھ لوکہ يہ علم تيرے ليے نقصاندہ ہے، نفع بخش نہيں“۔
اوريہ امام مالک رحمه الله کے استاد ربيعہ الرای رحمه الله ہيں جوابھی بچے تھے تو ان کے والد تيس ہزاردينار انپی بيوی کے پاس چھوڑکرپرديس کسی مہم پر نکل گئے، نيک بيوی ساری رقم ربيعہ کی تعليم وتربيت ميں صرف کرکے انہيں علامہ  زماں بناديتی ہے۔ جب ايک عرصہ کے بعد باپ گھرپہنچتا ہے تو يہ ديکھ  کراللہ کا شکربجالاتاہے کہ بيٹا مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔  

بچپن ميں بچہ کورا کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر جونقش ڈالا جاتا ہے ثبت ہوجاتا ہے۔  جب ان قيمتی لمحات ميں لاپرواہی برتی جاتی ہے تو بچوں کے اندر شروفساد کا در آنا يقينی ہوجاتا ہے۔  بعض دفعہ بچے جب غلطی کرتے ہيں تو مائيں بچوں کو متنبہ کرنے کی بجائے شاباس کہتی ہيں نتيجة بچہ غلطی کو اچھا سمجھ  کرسرانجام دينے لگتا ہے اور يہی عادت بچے کو جوانی کے بعد غلط راستے پر ڈال ديتی ہے:

خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثريا می رود ديوار کج
”اگرمعمار پہلی اينٹ ٹيڑھی رکھ دے تو ثريا تک بھی ديوار چلی جائے ٹيڑھی ہی ہوگی“۔ لہذا والدين کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی علمی وروحانی تربيت کواپنا اوليں فريضہ سمجھيں :
٭  بچپن سے ہی بچوں کے اندر دينی روح پيدا کريں، انہيں شہادتين کی صحيح ادائيگی، اور اس کے معانی ومفاہيم سے آگاہ کريں۔
٭ بچہ ہويا بچی دونوں کے ليے نماز کی تعليم وتربيت کی ابتداء بچپن ہی سے کرديں، بچے جب سات سال کے ہوجائيں توانہيں نماز کا حکم ديں، اور دس سال کے ہوجائيں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کی سرزنش کريں، اور ان کا بستر الگ کرديں۔(احمد)
٭ بچوں کو گالی گلوچ، لعن طعن اور فضول وگھٹيا قسم کی باتوں سے خبردار کرتے رہيں اور قولی وعملی اعتبار سے انہيں سچائی کا عادی بنائيں۔
٭ بچی کو بچپن ہی سے اپنے جسم کوڈھانپ کر رکھنے کی تلقين کريں تاکہ بلوغت کی عمرکوپہنچنے تک وہ ساتر لباس پہننے کی عادی ہوچکی ہو۔
٭ اپنی اولاد کے احوال پر باريکی سے نظر رکھيں‘ ان کے دوست کون ہيں؟ ان کے گھر کے باہر کی مصروفيات کيا ہيں؟  ان کے اکثراوقات کن کے ساتھ گذرتے ہيں؟ ان کی آمد و رفت کہاں کہاں ہوتی ہے؟ وغيرہ وغيرہ۔
٭ اپنے بچوں کے ليے نمونہ بنيں اور اپنے گفتار وکردار پر دھيان رکھيں ورنہ:
 إذَا کَا نَ رَبُّ البَيتِ بِالطَّبلِ ضَارِباً
 فَلَا تَلُمِ الاَولَادَ فِيہِ عَلٰی الرَّقصِ
”جب گھرکا مالک طبلہ بجا رہاہو تو اس ميں بچوں کے رقص کرنے پرانہيں ملامت مت کرو“ ۔
کيوں کہ بچوں کی نظرميں اچھائی وہ ہوتی ہے جسے والدين انجام ديتے ہيں اور ہروہ چيز ان کی نگاہ ميں گھٹيا ہوتی ہے جس کے ارتکاب سے وہ احتراز کرتے ہيں۔
مجھے اس مناسبت سے ايک بچے کا وہ جواب ياد آرہا ہے جس نے دروازے پر دستک دينے والے کسی قريبی رشتہ دار کے ليے دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا: 
”چچاجان! ابّوجان نے کہا ہے کہ کہہ دو ابّوگھر پر نہيں ہيں “....۔ 
ديکھا آپ نے !کتنی معصوميت کے ساتھ بچے نے اپنے باپ کے جھوٹ کو رشتے دار کے سامنے ہوبہونقل کرديا اور باپ کی سبکی ہوئی۔

مکمل تحریر >>

منگل, مارچ 08, 2011

محترم عزیز الرحمن صاحب كى الوداعى تقریب میں راقم سطورکے جذبات

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ الوداعی تقریب ہے جو  محترم بھائی عزیز الرحمن صاحب کو اپنے وطن لوٹنے کی مناسبت سے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد كى گئی ہے ۔ یوں تو آئے دن لوگ كويت آتے ہیں اور ایک مدت گزار کر اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں ۔ جنہیں کوئی نہ آتے وقت جانتا ہے نہ جاتے وقت، سوائے ان اشخاص کے جو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے هو تے هيں ۔ لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو جہاں جاتی ہیں اپنے علم ، اپنے اخلاق ،اپنے کارناموں اور خدمت خلق کی وجہ سے ایک چھاپ چھوڑتی ہیں ۔ ہمارے بزرگ ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں آتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہی اہل ایمان کی پہچان ہے، کہ وہ جہاں بھی رہے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بن کے رہے ۔
         جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں            
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
 میں محترم بھائی عزیز الرحمن صاحب  سے بہت قریب رہا ہوں، میری اور ان کی ایک ہی سال آئی پی سی میں بحالی ہوئی تھی ،ایک آفس میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ان کے ساتھ ایک روم میں رہنے اور ایک ساتھ کھانے پینے کا بھی اتفاق ہوا،اس بیچ میرے لیے وہ بیک وقت ایک مشفق بھائی اور مربی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ،خود مجھ پر بھی ان کا اعتماد رہا اسی لیے جب کبھی عربی زبان میں انہیں کسی طرح کی ترجمانی کی ضرورت ہوئی مجھے ہی اس کا شرف حاصل ہوا ۔اب وہ ہم سے جدا  ہورہے ہیں اس طویل عرصہ میں میں نے ان کی زندگی کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے ، میں نے انہیں عام لوگوں سے تین باتوں میں بالکل مختلف پایا ۔
پہلی بات  یہ کہ میں نے انہیں حسن اخلا ق کا پیکرپایا، بڑے اخلاق مند، ملنسار، ہنس مکھ اور کشادہ طبیعت لگے ، میں نے انہیں علماء کا احترام کرنے میں بھی پیش پیش دیکھا ، تعصب اور تنگ نظری سے بالکل دور ہر عالم دین کی قدر کرتے تهے ، یہ صفت بہت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔
 دوسری اہم خوبى  جو میں نے ان کے اندر دیکھی وہ ہے وقت کی پابندی ۔ ہرکام اپنے وقت پر کرنا ، اکثر لوگ اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ فجر کی نماز کے وقت بیدار ہوتے، مسجد میں نماز کے لیے جاتے، فجر کے بعد چہل قدمی کرتے، فجر کے بعد سونا ان کے معمول میں نہیں تھا ۔ ڈیوٹی کے لیے وقت پر پہنچتے، ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد وقت پر نکلتے ، مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے ڈیوٹی میں تاخیر ہوئی ہوالا یہ کہ کوئی سخت ضرورت پیش آجائے ۔
تیسری خوبى جو سب سے اہم خوبى ہے جس کی طرف بالعمو م تارکین وطن دھیان نہیں دیتے یا دیتے بھی ہیں تو بہت كم لوگ  كامياب ہو پا تے ہیں، وہ ہے اولاد کی تربیت :آپ نے اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلائی ضرور ہے لیکن دینی تعلیم سے سنوارنے کے بعد ….یہی وجہ ہے کہ آج ان کا فرزند عتیق جو اگرچہ ایک انجنیر کی حیثیت سے کویت میں کام کررہا ہے، لیکن اپنے باپ کا سراپا نمونہ دکھے گا ۔ پنج وقتہ نمازوں کا پابند، نیک اور اخلاق مند ہے ۔ الله اسے دين پر ثابت قدم رکھے. آمين . یہ تین صفات خاص طور پر میں نے عزیز بھائی کے اندر پائی ہيں۔

0
مکمل تحریر >>