منگل, مارچ 08, 2011

محترم عزیز الرحمن صاحب كى الوداعى تقریب میں راقم سطورکے جذبات

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ الوداعی تقریب ہے جو  محترم بھائی عزیز الرحمن صاحب کو اپنے وطن لوٹنے کی مناسبت سے خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد كى گئی ہے ۔ یوں تو آئے دن لوگ كويت آتے ہیں اور ایک مدت گزار کر اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں ۔ جنہیں کوئی نہ آتے وقت جانتا ہے نہ جاتے وقت، سوائے ان اشخاص کے جو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے هو تے هيں ۔ لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو جہاں جاتی ہیں اپنے علم ، اپنے اخلاق ،اپنے کارناموں اور خدمت خلق کی وجہ سے ایک چھاپ چھوڑتی ہیں ۔ ہمارے بزرگ ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں آتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ یہی اہل ایمان کی پہچان ہے، کہ وہ جہاں بھی رہے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بن کے رہے ۔
         جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں            
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
 میں محترم بھائی عزیز الرحمن صاحب  سے بہت قریب رہا ہوں، میری اور ان کی ایک ہی سال آئی پی سی میں بحالی ہوئی تھی ،ایک آفس میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ان کے ساتھ ایک روم میں رہنے اور ایک ساتھ کھانے پینے کا بھی اتفاق ہوا،اس بیچ میرے لیے وہ بیک وقت ایک مشفق بھائی اور مربی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ،خود مجھ پر بھی ان کا اعتماد رہا اسی لیے جب کبھی عربی زبان میں انہیں کسی طرح کی ترجمانی کی ضرورت ہوئی مجھے ہی اس کا شرف حاصل ہوا ۔اب وہ ہم سے جدا  ہورہے ہیں اس طویل عرصہ میں میں نے ان کی زندگی کا بہت قریب سے مطالعہ کیا ہے ، میں نے انہیں عام لوگوں سے تین باتوں میں بالکل مختلف پایا ۔
پہلی بات  یہ کہ میں نے انہیں حسن اخلا ق کا پیکرپایا، بڑے اخلاق مند، ملنسار، ہنس مکھ اور کشادہ طبیعت لگے ، میں نے انہیں علماء کا احترام کرنے میں بھی پیش پیش دیکھا ، تعصب اور تنگ نظری سے بالکل دور ہر عالم دین کی قدر کرتے تهے ، یہ صفت بہت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔
 دوسری اہم خوبى  جو میں نے ان کے اندر دیکھی وہ ہے وقت کی پابندی ۔ ہرکام اپنے وقت پر کرنا ، اکثر لوگ اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ فجر کی نماز کے وقت بیدار ہوتے، مسجد میں نماز کے لیے جاتے، فجر کے بعد چہل قدمی کرتے، فجر کے بعد سونا ان کے معمول میں نہیں تھا ۔ ڈیوٹی کے لیے وقت پر پہنچتے، ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد وقت پر نکلتے ، مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان سے ڈیوٹی میں تاخیر ہوئی ہوالا یہ کہ کوئی سخت ضرورت پیش آجائے ۔
تیسری خوبى جو سب سے اہم خوبى ہے جس کی طرف بالعمو م تارکین وطن دھیان نہیں دیتے یا دیتے بھی ہیں تو بہت كم لوگ  كامياب ہو پا تے ہیں، وہ ہے اولاد کی تربیت :آپ نے اپنے بچوں کو عصری تعلیم دلائی ضرور ہے لیکن دینی تعلیم سے سنوارنے کے بعد ….یہی وجہ ہے کہ آج ان کا فرزند عتیق جو اگرچہ ایک انجنیر کی حیثیت سے کویت میں کام کررہا ہے، لیکن اپنے باپ کا سراپا نمونہ دکھے گا ۔ پنج وقتہ نمازوں کا پابند، نیک اور اخلاق مند ہے ۔ الله اسے دين پر ثابت قدم رکھے. آمين . یہ تین صفات خاص طور پر میں نے عزیز بھائی کے اندر پائی ہيں۔

0

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔