جمعہ, فروری 18, 2011

معراج کا تحفہ


مکہ کے پرآشوب ماحول میں دعوتِ محمدیہ کی کشتی ہچکولے کھارہی تھی ،محسن انسانیت ہرطرف سے کفارِ قریش کے نرغے میں تھے ، حضرت خدیجہ رضى الله عنها اور ابوطالب کی وفات نے مزید غم والم کو دوآتشہ کردیاتھا۔ ایسے ہمت شکن ماحول میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی دادرسی کی اوراسراءومعراج جیسے عظیم معجزے سے نوازا ۔حضورپاک  صلى الله عليه وسلم کوآپ کے جسم مبارک سمیت بُراق پر سوار کرکے حضرت جبریل  عليه السلام کی معیت میں مسجد حرام سے بیت المقدس تک سیر کرائی گئی ۔ اس کے بعد اسی شب آپ کو بیت المقدس سے آسمانِ دنیا پر،پھر وہاں سے یکے بعد دیگرے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا ،اس کے بعد آپ سدرة المنتہی تک لے جائے گئے ،پھر آپ کے لیے بیت معمور کو ظاہر کیاگیا۔ اس کے بعد حضرت جبریل عليه السلام نے آپ کو مالک عرش بریں کے دربار میں پہنچادیا،آپ اللہ تعالی سے اتنے قریب ہوئے کہ دو کمانوں کے برابریا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت اعلی وارفع اورگرانقدر تحفہ دیا،یعنی پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں،پھر حضرت موسیٰ عليه السلام کے مشورے سے اس میں تخفیف کرایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں باقی رکھیں ، اس کے بعد پکارا گیا : ”اے محمد! میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی،ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہوگا “۔ (بخاری 7517 مسلم162)
جو چیز جس قدر اہمیت رکھتی ہے اسی قدر اس کے لیے اہتمام کیاجاتا ہے،ذرا غورکیجئے کہ روزہ کا حکم فرش پر اُترا، زکاةکا حکم فرش پراُترا،حج کاحکم فرش پر اُترا اورشریعت کے سارے احکام فرش پر اُتارے گئے لیکن نماز کا تحفہ دینے کے لیے ربِ کائنات نے اپنے حبیب کو عرش پربلایا۔ کیوں؟ نماز کی عظمت ،اہمیت اورانفرادیت کے اظہار کے لیے کہ یہ ایک مسلمان کی پہچان ،حصولِ جنت کا ذریعہ اوررضائے الٰہی کا وسیلہ ہے ۔
٭نماز کلمہ شہادت کے اقرا ر کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی رکن ہے ،جو امیر وغریب ،بوڑھے اور جوان ، مردوعورت ،بیمار وتندرست سب پر یکساں فرض ہے ۔ کسی بھی حالت میں معاف نہیں ۔ حتی کہ ایک مریض اگر کھڑا ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے گا،اگر بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو پہلوپر لیٹ کر پڑھے گا ،اگر اس سے بھی عاجز ہو تو اشارے سے پڑھے گا ۔(بخاری 1057)خلاصہ یہ کہ جب تک عقل ساتھ دے رہی ہوترکِ نماز کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔ ہاں! ایک عذر ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے اس عذر سے مردوں کو عافیت بخشی ہے اور وہ ہے حیض ونفاس کا خون ۔
وفد طائف کے سردار نے جب قبول اسلام کے وقت اپنے وفد کے ہمراہ آپ ا سے ترکِ نماز کی درخواست کی تھی تو آپ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا: لاخیر فی دین لیس فیہ رکوع (ابوداؤد2635) ”اس دین میں کوئی خیر نہیں جس میں نماز نہ ہو “۔
 ٭نماز ہمارے آقا کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،جب آپ کو کسی طرح کی پریشانی لاحق ہوتی تونماز کی طرف جلدی کرتے (ابوداؤد 1319) اور سیدنا بلال صسے فرماتے أرحنا بھا یا بلال (رواہ الدارقطنی فی العلل615) ”بلال! اذان دو ،تاکہ نماز کے ذریعہ راحت ملے “
ہمارے آقا نے سخت ترین لمحات میں بھی دشمنوں کے حق میں بددعا نہیں فرمائی ،یہاںتک کہ اہل طائف جنہوں نے آپ کو لہولہان کردیا تھا ،ان کے حق میں بھی ہدایت کے کلمات کہے لیکن غزوہ احزاب میں جب کفارنے آپ کو جنگ میں مشغول کردیا اور آپ بروقت نماز ادا نہ کرسکے تو آپ نے آزردہ خاطری کے سبب ان کے خلاف بددعا فرمائی : ”اللہ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھردے جس طرح انہوں نے ہمیں نماز عصر سے باز رکھا“۔   (بخاری2729 مسلم1002)
 ٭ کوئی ایسی عبادت نہیں جس کی ادائیگی کو ترک کرنے پر بچے کومارنے کا حکم ہوا ہو سوائے نماز کے ۔ چنانچہ پیارے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز کی پابندی نہ کرنے پر ان کی پٹائی کرو“ ۔   ( ابوداؤد 495 وصححہ الالبانی )
 ٭قیامت کے دن حقوق اللہ میں سب سے پہلا سوال نماز کا ہوگا،اگر نماز درست نکلی توسارے اعمال درست اور اگر نماز خراب نکلی تو سارے اعمال بیکار ہوں گے ۔       (ترمذی 2616 وحسنہ الالبانی )
نماز کی اسی اہمیت کے پیش نظر آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی امت کو ہمیشہ اور باربا راس کی تاکید کی اوران لوگوں سے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایاجو نماز وں کے لیے حاضر نہیں ہوتے ۔ایک بار آپ نے ارشاد فرمایا کہ” جولوگ جماعت میں حاضر نہیں ہوتے میرا خیال ہے کہ ان کے گھروں کو جلاکر خاکستر کردوں۔“(بخاری 6712-612 مسلم1047 )
حیات مبارکہ کے آخری ایام میں جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم شدید کرب سے دوچار تھے ،لمحہ بہ لمحہ تکلیف بڑھتی جارہی تھی، آپ کو ایسی نازک حالت میں بھی فکر ہے تو بس نماز کی، چنانچہ  اپنے اصحاب کووصیت فرمارہے ہیں: الصلاة الصلاة وما ملکت ایمانکم ”نماز….نماز…. اورتمہارے زیردست“۔(احمد6/290صححہ الالبانی )
حضرت عمر فاروق رضى الله عنه امامت فرمارہے تھے ،آپ پر قاتلانہ حملہ ہوتاہے،عبدالرحمن بن عوف رضى الله عنه کا ہاتھ پکڑکر امامت کے لیے آگے بڑھادیتے ہیں،آپ کو آ غشتہ بخاک وخون گھر لایاگیا،آپ پر غشی طاری ہوگئی تھی ،جب افاقہ ہوا تو سب سے پہلے فرمایا: ھل صلی المسلمون ؟ ”کیامسلمانوں نے نماز پڑھ لی“،حاضرین نے کہا: ہاں! امیرالمو منین مسلمانوں نے نماز پڑھ لی ۔تب آپ نے فرمایا: ھا اللہ لاحظ فی الاسلام لمن ترک الصلاة ”اللہ کی قسم جس نے نماز ترک کردی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں “۔(رواہ مالک فی المو طا 51وابن ابن شیبة فی الایمان 103)
 پھر جب نماز کے لیے کھڑا ہوناچاہا تو زخم سے خون کے فوارے پھوٹنے لگے ،آپ نے عمامہ منگوایا ،اس سے اپنے سر کو باندھا پھر نماز ادافرمائی ۔ظاہر ہے ایسی زندگی سے کیا فائدہ جس سے احکامِ الٰہی میں کوتاہی آجائے 
اے طائرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی
 آج یہی نماز جو تحفہ معراج تھی ہمارے بیچ ناقدری کی شکار ہے ،اس کی عظمت سے اب تک ہماری اکثریت آگا ہ نہ ہوسکی ہے ،مؤذن پانچ وقت مسجد کے محراب سے نمازکے لیے بلاتا ہے لیکن ہماری اکثریت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی،ہم عشق رسولِ کے دعویدار ضرور ہیں لیکن نماز حو ہمارے آقا کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ہمیں اس کی چنداں پرواہ نہیں۔ مساجد کی کمی نہیں لیکن نمازی ندارد
 مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپناپُرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔