جمعہ, اکتوبر 08, 2010

بابری مسجد اراضی ملکیت : حقائق اور ہماری ذمہ داریاں


 شدت سے انتظار کرتے کرتے بالاخر وہ دن آہی گیا جس دن بابر کی تاریخی یادگاربابری مسجد کی قسمت کا فیصلہ سنادیا گیا ، اورمسجد کی اراضی قانون ،اصول اورتاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض آستھا کی بنیاد پر تین حصوں میں بانٹ دی گئی ،دوحصہ کے مالک ہندو ٹھہرائے گئے تو ایک حصہ مسلمانوں کی تحویل میں کیا گیا گویا یہ کسی جائیدادکی تقسیم کا معاملہ تھا جس کے ذریعہ دوفریق کو منانا مقصود ہو ،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلہ نے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،ایک عام آدمی کو نفسیاتی کرب اور ذہنی الجھن میں مبتلا کردیا ہے،مسلمان تومسلمان انصاف پسند ہندومؤرخین اور دانشور بھی اس فیصلہ پر انگشت بدنداں ہیں،ہندوستان کی مشہور مؤرخ رومیلا تھاپر نے اس فیصلہ کو سیاسی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں،جب کسی زمین کو ہڑپ لینا ہوتو فسطائی تنظیمیں اسے کسی مقدس شخصیت کا جنم استھان قرار دیں گی ، اس طرح فیصلہ ان کے حق میں چلا جائے گا۔
یہ تبصرہ ہے ایک غیرمسلم مؤرخ کا ،اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈال کر دیکھئے، توسیعی ذہنیت کے علمبردار یہ فرقہ پرست عناصر اسلام اور اہل اسلام کوایک لمحہ کے لیے دیکھنا نہیں چاہتے ،کیونکہ ان کی جڑ یہودیت سے ملنے لگی ہے ، یہ صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ نہیں ہے‘ وشوہندوپریشد نے کاشی اور متھراسمیت تین ہزار مسجدوں کی لسٹ تیار کررکھی ہے جن کے بارے میں وہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیںکہ تمام مساجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 3 اکتوبر کے اخبارات میںمذکورہ تنظیم نے بیان دیا ہے کہ مسلمان متھرا اور بنارس کی مساجد سے دستبردار ہوجائیں۔ اس کے لیے انہوں نے باضابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اورادھر ہمارے بعض بھولے بھالے دانشور ہیں جوہندومسلم اتحاد، قومی یکجہتی اور نام نہاد حب الوطنی کے نام پر مسجد سے دست برداری کا راگ الاپ رہے ہیں، کچھ منافقین نے تو رام مندر کی تعمیر کے لیے پندرہ لاکھ روپئے کے عطیہ کا اعلان بھی کرڈالا تھا، مسلمانوں کے آستین میں چھپے ہوئے یہ سانپ ہیں جو اس طرح کی ہذیان گوئی کرتے رہتے ہیں،ہمیں کہنے دیا جائے کہ اگر ہم نے فرقہ پرست عناصر کی بروقت نوٹس نہ لی ، اوران کے ہر فیصلے پر ایسے ہی سر جھکاتے گئے تو ہندوستان میں ہمارا عرصہءحیات تنگ کردیا جائے گا ،صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ رہتا تو ہم اسے انگیز کرلیتے لیکن اب مسائل پہ مسائل اٹھیں گے ،یہ ہندوستان میں ہمارے مستقبل کا مسئلہ ہے،ہمارے تشخص کا سوال ہے، مسلمان عزت کی زندگی گزارتا ہے ذلت کی نہیں ، اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ ہم اپنے مقدسات کو غیروں کے حوالے کردیں ،اورہم کون ہوتے ہیں ان کے حوالے کرنے والے ،یہ تو اللہ کے گھر ہیں ،یہ توحید اور شر ک کا مسئلہ ہے ۔ حالات بہت نازک ہیں،یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب حل وعقد مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اوردانشمندانہ طریقے سے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں،انصاف پسند غیرمسلم ماہرین قانون سے بھی مشورہ کریں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
پھر اگر اس دستبرداری کی کوئی قانونی حیثیت ہو تی تو ایک بات تھی، جس رام کی جائے پیدائش کے نام پر فسطائی طاقتوں نے 6دسمبر1992ء میںبابری مسجد کوشہید کیا تاریخی حقائق سے کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام کی کوئی نشانی تھی۔ گذشتہ دنوں جب بابری مسجد کا معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ میں تھا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے روزنامہ منصف میں ایک مضمون لکھا تھا”ایک مظلوم عدالت کے کٹہرے میں “ جس میں انہوں نے تاریخی شواہد اور حقائق کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ بابری مسجد کا رام کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں،اور بابر کو ظالم وجابر ٹھہرانا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ کیسے ؟ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود بھی تھا یا نہیں، تو بڑے بڑے ہندو دانشوروں نے کہا ہے کہ رام جی دراصل ایک افسانوی اور دیومالائی کردار ہے کسی حقیقی شخصیت کانام نہیں ہے ، اگرمان لیاجائے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود تھا اور وہ اجودھیا میں پیدا ہوئے تو سوال یہ ہے کہ اجودھیا سے کون سا علاقہ مراد ہے، آثارقدیمہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایم وی کرشنا راؤ نے ثبوتوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ اصل اجودھیا ہریانہ کا مقام ”بناؤلی“ ہے جبکہ دوسری طرف رامپور کے ایک پنڈت جی نے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ دعوی کیا ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے،بعض مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ رام کی سلطنت کی جگہ اجودھیا کے بجائے بنارس ہے ،ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں اجودھیا کا ذکر ملتا ہے لیکن اجودھیا کس مقام پر تھی اور رام جی کہاں پیدا ہوئے بالمیکی کے رامائن کے مطابق اجودھیا ساڑھے تیرہ میل کے فاصلے پر تھی اور مشرقی سمت میں تھی جبکہ آج کا اجودھیا لب سمندر اور مغربی سمت میں واقع ہے ۔ پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ1902 ء میں رام جی کی جائے پیدائش کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کافی تحقیق کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایاکہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو ، ان میں سے ایک کانام رام جنم استھل اور دوسرے کا نام رام جنم بھومی ہے اور یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں ۔ بابری مسجد پانچ سو سال سے وہاں موجود ہے ،تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے بڑے مؤرخین گذرے ہیں ،بڑے بڑے رام بھکت پیداہوئے لیکن کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ پھرجس کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے اس کا مزاج بھی تو ویسا ہونا چاہیے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بابر مذہبی رواداری کا قائل تھا ،ہندو پنڈتوں سے بہت عقیدت سے پیش آتاتھا ،یہاں تک کہ بابر نے اپنے وصیت نامہ میں گاؤکشی سے منع کیا ہے تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ۔ پروفیسر سری واستو نے اپنی پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ بابر پر الزامات اس کی شخصیت اور کردار سے قطعی میل نہیں کھاتے ۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج کادور آیاجنہوں نے پھوٹ ڈالوحکومت کروکی پالیسی کے تحت جہاں اپنے بطن سے مرزاغلام احمد قادیانی کو جنم دیا تودوسری طرف تاریخی حقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا جس میں مسلم سلاطین پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہندوقوموں کو جبراً مسلمان بنایا اور ان کی مذہبی یادگاروں کومسجد میں تبدیل کردی تاکہ ایک طرف دنیا کوباور کرایا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر سیاست کی کرسی پر براجمان رہیں۔
بہرکیف یہ چند حقائق تھے جنہیں اس مناسبت سے پیش کرنانہایت ناگزیر تھا تاکہ ہماری نئی نسل تاریخی شواہداور موجودہ حالات سے باخبر رہے ،جہاں تک پیش آمدہ مسئلے سے نمٹنے کا سوال ہے تو اس کے لیے ملت کے قائدین موجود ہیں جو اپنی دور اندیشی سے مناسب فیصلہ کریں گے البتہ انفرادی طور پر ہرمسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ حالات سے سبق سیکھے اور مساجد سے ہماری اکثریت کاجو تعلق ٹوٹ چکا ہے اسے مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے دعوی میں سچے ثابت ہوسکیں ۔اسی طرح غیرمسلموں میں دعوت کرنے کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ گم کردہ راہ انسانیت کو بتایاجاسکے کہ انہوں نے جس شاخ نازک پراپنا آشیانہ بنارکھا ہے ہوا کا ایک جھونکا اسے زمین بوس کرنے کے لیے کافی ہے ۔
مکمل تحریر >>

جمعہ, اکتوبر 01, 2010

مجلس کا سب سے لذیذ گوشت

وَلَا یَغتَب بَّعضُکُم بَعضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُم ان یَاکُلَ لَحمَ اَخِیہِ مَیتاً فَکَرِہتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ تَوَّاب رَّحِیم ( الحجرات 12 )

ترجمہ: اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے‘ تمہیں تو گھن آئے گی۔ اللہ سے ڈروبیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
تشریح : زیرنظر آیت کریمہ میں اللہ پاک نے زبان کی آفات میں سے ایک خطرناک آفت غیبت سے منع کیا ہے ۔ غیبت کیا ہے ؟ ایک مرتبہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم  نے اپنے اصحاب سے پوچھا: تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جو اسے برا لگے، لوگوں نے پوچھا : اگرمیرے بھائی میں وہ عیب ہے جو میں بیان کررہاہوں تو؟ آپ نے فرمایا:اگراس کے اندر واقعتاً وہ عیب پایا جاتا ہے تب ہی توغیبت ہے ، اگراس کے اندر وہ عیب پایا ہی نہیں جاتا تب تویہ بہتان ہے“۔ (مسلم)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ پاک نے غیبت سے روکتے ہوئے اس کی قباحت اس انداز میں بیان کی ہے جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ایک ایسے انسان کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو، مردارکاگوشت کھاناخود ہی گھناونی بات ہے جس سے ہر انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے ، پھر گوشت بھی کسی مردار جانور کا نہیں بلکہ انسان کا اور انسان بھی کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا بھائی ، تصور کریں کہ کسی کاسگا بھائی اسکے سامنے مرا پڑا ہو اوروہ اس کے گوشت کو نوچ نوچ کرکھا رہا ہو ‘ دل دہلا دینے والی مثال بیان کرکے اللہ تعالی نے اس جرم کی قباحت کی طرف اشارہ کیا ہے   
لیکن صد حیف آج ہماری مجلسو ں کا سب سے لذیذ گوشت یہی سمجھا جاتا ہے ،مزے لے لے کر اپنے سگے اورمردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کرکھاتے اور ڈکار لگاتے ہیں، ہمیں اس میں اتنا لطف ملتاہے کہ باربارکھانے کے باوجود طبیعت نہیں اکتاتی،منہ سے مردے کا خون ٹپک رہا ہوتا ہے ، گھناونی بدبو آرہی ہوتی ہے لیکن خمارایسا کہ اترنے کانام نہیں لیتا۔ العیاذ باللہ ۔ اورظاہر ہے جس کی دنیا میں ایسا ذائقہ دار گوشت کھانے کی عادت بن گئی ہو ‘آخرت میں اس سے کیونکرمحروم رکھا جائے گا لیکن وہاں تو کوئی انسان ملے گا نہیں کہ اس پر حملہ کرے ، اس لیے اپنا ہی چہرہ نوچتا پھرے گا اس حدیث پرغورکیجیے :
”معراج کی شب میرا گذر ایک ایسی قوم سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، میں نے جبریل امین سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی غیبت کرتے تھے “۔(ابوداود)
حضرت صفیہ رضي الله عنها  پست قد تھیں ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضي الل عنها  نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے کہہ دیاکہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لیے کافی ہے۔( مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے)نبی کریم نے فرمایا: 
لقد قلت کلمة لو مزجت بماء البحر لمزحتہ۔ (ترمذی)
”تونے ایسی بات کہہ دی کہ اگر اسے سمندرکے پانی میں ملادیا جائے توساراپانی گدلا ہوجائے “۔
توآئیے آج ہی سے یہ عہد کریں کہ ہم سب کسی صورت میں اپنے مردہ بھائی گا گوشت نہ کھائیں گے یعنی کسی کی غیبت ہرگز نہ کریں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین
مکمل تحریر >>