پیر, جنوری 21, 2019

درخشاں انجم تیمی: کچھ یادیں کچھ باتیں


صفات عالم تیمی


گذشتہ کل معمول کے مطابق نماز فجر کے بعد اہل خانہ کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر پڑھا، اس دوران خالی پیٹ کی روزانہ کی دوائیں لیں، اور اہلیہ سے کہا کہ درخشاں کی خبر نہیں لیا؟ ۔ اہلیہ نے فورا موبائل اٹھایا، واٹس اپ کھول کر "فیملی گروپ" سے درخشاں کا ایک تازہ پیغام دکھایا جس کا اس نے عنوان دے رکھا تھا: I LoVe My Mother پیغام پڑھتے ہی جذبات سے بے قابو ہوگیا، پھر کچھ ہی دیر بعد اسی گروپ میں میرے خالہ زاد نے خبر ڈالی کہ درخشاں وفات پاگئی، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ اندوہناک خبر سنتے ہی ایسا لگا کہ ہمارے بدن پر بجلی گر گئی ہو۔ دعائے مغفرت کی اور اپنے درد کو چھپایا لیکن اب تک بار بار ہماری آنکھیں وقفہ وقفہ کے ساتھ بھیگ جا رہی ہیں، اب جبکہ درخشاں انجم کو نم آنکھوں سے سپرد خاک کیا جا چکا ہے ہم دعا گو ہیں کہ بار الہا اس کی مغفرت فرما، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور اسے جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرما۔ لیکن اس کے تئیں میرے کچھ جذبات تھے جنہیں آپ سے شئیر کرنا مناسب سمجھا۔
درخشاں انجم کی ولادت شیوہر ضلع کی تاریخی بستی اموا مدینۃ الشیخ میں تقریبا تیس سال قبل ایک دیندار گھرانے میں ہوئی تھی، مولانا ابو طالب سلفی کی بڑی بیٹی تھی اور چندنبارہ مولانا شمعون مدنی کی بہو تھی، اور میرے ننہالی رشتے میں آتی تھی، میری نانی اور اس کے نانا دونوں سگے بھائی بہن تھے، لیکن ہمارا ننیہالی رشتہ اس قدر مضبوط ہے کہ درخشاں کو سگی بہن کے جیسے سمجھتا رہا۔
درخشاں انجم بچپن سے بڑی ذہین وفطین تھی، سلیقہ مند تھی اور شرم وحیا کی پیکر بنی رہتی تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے جب درخشاں انجم ابھی چھوٹی عمر کی تھی، شروع کے درجات میں پڑھتی تھی، میں مدینہ یونیورسٹی سے چھٹی پر گھر آیا تھا، اموا جانے کا اتفاق ہوا، ممانی جو میری ساس ہوئیں، ایک گلاس پانی دے کر درخشاں انجم کے ہاتھ میرے پینے کے لیے بھیجنا چاہا تو درخشاں مارے شرم کے مجھے پانی دینے نہیں گئی، لیکن اس کو اس کا اتنا احساس ہوا کہ باضابطہ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک رقعہ ارسال کیا جس میں اس نے مجھے لکھا تھا کہ بھائی جان مجھے معاف کیجیے گا، نہایت سلیقے کا خط تھا، الفاظ نہایت جچے تلے تھے، مجھے خط کے مشتملات کو پڑھ کر بیحد خوشی ہوئی تھی کہ بچی آگے چل کر بہت کچھ کر سکتی ہے۔
درخشاں انجم کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا بالآخر اس کا داخلہ جامعہ امام ابن تیمیہ کے معھد خدیجۃ الکبری میں ہو گیا، کلاس میں اچھے نمبرات حاصل کرتی تھی، اردو ادب سے اس کا خاصا لگاؤ تھا، اردو ناول خوب پڑھتی تھی، زبان میں بہت نکھار آگیا تھا، نہایت سلیقہ مند اور نستعلیق تھی، ہر جگہ اس کی شہرت تھی، فراغت سے پہلے ہی بہت سے رشتے آنے لگے تھے، لیکن مولانا شمعون صاحب کے لڑکے احمد سے اس کا رشتہ طے ہوگیا، بالآخر گھر والوں نے فراغت سے پہلے ہی شادی کردی، لیکن تعلیمی سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ معہد خدیجۃ الکبری سے فارغ ہوگئی، شادی کے بعد لگاتار چار بچے ہوئے، بچوں کی تربیت اور نگہداشت میں پورے طور پر لگ گئی، گھر کا کام کاج کرتی، اسی اثناء سرکاری ٹیچر کے امتحان میں شریک ہوئی اور اس کا بحیثیت ٹیچر سلیکشن ہوگیا، چنانچہ نوکری کرنے لگی، گھر کا کام کرتی، سکول جاتی، بچوں کی دیکھ ریکھ کرتی، بھاگ دوڑ میں صحت کا خیال کم کیا، دھیرے دھیرے کمزوری کا احساس ہونے لگا، بخار شروع ہوا تو چھوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا، شوہر نے ادھر ادھر دکھایا، شروع میں مرض کی صحیح تشخیص نہ ہوسکی، دراصل وہ ڈھائی سال قبل دق وسل کے عارضہ کی شکار ہو گئی تھی، جس کا بروقت علاج ہونا چاہیے تھا، جو بعد میں ایم ڈی آر کی شکل اختیار کر گیا تھا، اور دھیرے دھیرے پھیپھڑا کو کھائے جا رہا تھا، جب بیماری بڑھتی گئی تو میرے خالو مولانا ابوطالب سلفی ان کو دلہی لے کر آگئے، سرکاری ہاسپیٹل میں چیک اپ کرایا گیا، اور دوا شروع کردی گئی، لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی، ڈیڑھ دو سال تک علاج چلا لیکن ریزلٹ ہمیشہ نیگیٹو ہی آتا رہا۔
ادھر درخشاں انجم تیمی کی ماں جو رشتے میں میری خالہ ہوئی، سخت بیمار رہنے لگی، بیماری کی شروعات سینہ میں زخم سے ہوئی، درخشاں انجم کی بیماری میں الجھنے کی وجہ سے اپنی صحت پر بھی ٹھیک سے دھیان نہ دے سکی اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہی زخم کینسر کی شکل اختیار کر گیا، اللہ کی شان کہ دلہی ایمس میں جانچ کرانے پر پتہ چلا کہ آپریشن سے بیماری ٹھیک ہو سکتی ہے، چنانچہ آپریشن ہوا، پہلے سے حالت بہتر ہے، لیکن آپریشن پورے طور پر کامیاب بھی نہیں ہے دوسرا آپریشن ابھی ہونا باقی ہے۔ احباب سے دعا کی درخواست ہے۔
بہرکیف ماں بیٹی دونوں بیمار رہنے لگی، ابو طالب خالو دلہی کی ایک مسجد میں امامت کراتے ہیں، معمولی تنخواہ پاتے ہیں، لیکن ہمت نہیں ہاری، دونوں کا علاج کراتے رہے، گذشتہ کل خالہ کو کیمو چڑھانے کی تاریخ تھی، خالو خالہ کو لے کر ہاسپیٹل گئے ہوئے تھے، اور گھر پر درخشان اپنی چچازادی کے ساتھ تھی، اچانک خون کی قے آنا شروع ہوئی۔ اور کچھ ہی دیر میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔
درخشاں انجم سے آخری ملاقات پچھلے سال ہوئی تھی، چونکہ راقم سطور خود ایک سال سے بیمار ہے، ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق ہر چار مہینہ پر چیک اپ کرانے پٹنہ جانا ہوتا ہے، پچھلے سال اہلیہ کا ارادہ ہوا کہ دلہی ہوتے ہوئے پٹنہ جائیں گے اور درخشاں انجم اور خالہ سے ملاقات کریں گے۔ چنانچہ دلہی میں ایک رات کے لیے ابوطالب سلفی کے ہاں قیام کیا اور ملاقات کی، صبح میں ہماری فلائٹ تھی، ہمیں الوداع کرنے کے لیے سب لوگ باہر آئے، درخشاں انجم نے ہمیں نم آنکھوں سے الوداع کیا، اس کے آخری الفاظ اب تک ہمارے جذبات میں ہلچل مچا رہے ہیں "بھائی جان! ہمارا گناہ قصور معاف کریں گے"۔
درخشاں انجم صبر وشکیب کی پیکر اور قناعت پسند خاتون تھی، قناعت پسندی کی یہ صفت ابوطالب سلفی نے اپنے تمام بچوں میں پیدا کی ہے، ان کی آمدنی کم ہے لیکن بچوں کے لباس پوشاک اور رہن سہن میں بڑی نفاست پائی جاتی ہے، ان کے گھر کا ایسا رکھ رکھاؤ ہوتا ہے کہ کسی کو ان کی خستہ حالی کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔ درخشاں انجم کے علاوہ ان کے پاس ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹے کا نام اسد اللہ ہے جو جامعہ سلفیہ میں زیر تعلیم ہے امسال فارغ ہوگا، بڑا ذہین اور محنتی ہے، کم عمری سے ہی شاعری کرتا ہے، مجھے اس کے بہتر مستقبل کی امید ہے۔ بیٹی گلفشاں انجم ہے جو جامعہ سنابل دلہی میں زیر تعلیم ہے، بڑٰی ذہین و فطین بچی ہے وہ بھی فراغت کے سال میں ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت پر خاص دھیان دیں، ان میں صبر وشکیب اور قناعت پسندی کے صفات پیدا کریں اور انہیں سکھائیں کہ برے حالات کا ہمت کے ساتھ کیسے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ بلندیاں ایسے ہی لوگوں کو ملتی ہیں جو برے حالات سے ہمت نہیں ہارتے بلکہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔
درخشاں انجم جس بیماری سے مسلسل دو سال سے جوجھ رہی تھی اس کا احساس مجھے اچھی طرح ہے کہ میں خود اس بیماری کا شکار ہوں اور لگاتار ایک سال سے دوائیں لیتا آ رہا ہوں، ایم ڈی آر ٹی بی کی دوائیں اتنی سخت ہوتی ہیں کہ بسااوقات دل کرتا ہے کہ ان دواؤں کو کچرے کے ڈبہ میں ڈال دیں اور اللہ کے بھروسے جینے لگیں، لیکن اللہ نے بیماری اتاری ہے تو اس کی دوا بھی اتارا ہے، بندہ مومن کو چاہیے کہ ابتلاء وآزمائش میں صبر وشکیبائی کا دامن تھامے رہے اور علاج سے کنارہ کش نہ ہو۔ بیماری کتنی بھی مایوس کن کیوں نا ہو اللہ کی ذات سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، درخشاں انجم بیماری کے دنوں میں ہمیشہ ہمارے رابطے میں رہی، دینی سوالات کرتی رہی، حلال وحرام اور شبہات کے بارے میں بڑٰی محتاط تھی، اپنے بچوں کو دین کا داعی بنانے کی خواہش مند تھی، کبھی بیماری کی شدت سے پریشانی ہوتی تو اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمندی کا اظہار کرتی کہ میرے بعد میرے ننھے ننھے بچوں کا کیا ہوگا، میں اسے سمجھاتا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، ہر انسان کو اس دنیا سے جانا ہے، اللہ کی ذات سے پر امید رہیں اور آپ کے بچوں کا محافظ آج بھی اللہ ہے اور کل بھی رہے گا۔ اب جبکہ وہ اس دار فانی سے جدا ہوچکی ہے بچوں کی ساری ذمہ داری احمد کے سر آتی ہے کہ وہ ان کے مستقبل کے لیے فکر مند رہے اور اس کی ماں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوشاں ہوجائے۔
بیماری کے دنوں میں بھی واٹس اپ کے فیملی گروپ پر کچھ نا کچھ پوسٹ اور تبصرہ کرتی رہی، اس کے تبصرے ہمیشہ دعوتی شعور اور دینی حمیت کے حامل ہوتے تھے، اہلیہ بار بار اس کے تبصرے دکھا رہی ہے اور میری آنکھیں انہیں دیکھ دیکھ کر نم ہو رہی ہیں۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


مکمل تحریر >>

منگل, جنوری 01, 2019

موسم سرما



امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا بات ہے کہ تہجد گذاروں کے چہرے منور ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: لأنَّهم خلوا بالرحمن فأعطاهم من نوره "اس لیے کہ انہوں نے رحمن سے خلوت اختیار کی تو اللہ نے ان کو اپنے نور میں سے عطا فرما دیا"۔
مشہور تابعی طاووس بن کیسان رحمہ اللہ رات کے تیسرے پہر ایک آدمی سے ملاقات کے لیے اس کے گھر آئے، اور اس کے دروازے کو دستک دیا: اہل خانہ نے اطلاع دی کہ ابھی وہ سو رہے ہیں۔ امام طاؤوس رحمہ اللہ کو بہت تعجب ہوا کہ وہ ایسے وقت میں وہ کیسے سو رہے ہیں، کیا کوئی انسان ایسے وقت میں سوتا ہے؟
عزیز قاری! ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ گھنٹوں جاگ کر عبادت کریں، اذان فجر سے پانچ دس منٹ پہلے تیار ہوجائیں، کچھ نمازیں پڑھ لیں، دعائیں کرلیں، کہ یہ وقت پانے کا وقت ہے، حاصل کرنے کا وقت ہے۔ کیونکہ ایسے وقت ہمارا رب سمائے دنیا پر اتر کر پکار رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا کہ ہم اسے عنایت کریں، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ ہم اس کی دعا قبول کریں، ہے کوئی اپنے گناہوں کی معافی چاہنے والا کہ ہم اس کے گناہوں کو معاف کردیں۔ ( بخاری مسلم (

مکمل تحریر >>