جمعہ, ستمبر 25, 2009

کسب حرام سے پرہيز کريں

 پرديسی بھائی !
 آپ اپنی کمائی کا ہر وقت جائزہ ليتے رہيں، اس ميں حرام کی آميزش ہرگز نہ آنے پائے، آج کل بليک ميلروں، اسمگلروں، رشوت خوروں، اورديگر حرام خوروں نے، کويت کے پاکيزہ اور صاف ستھرے ماحول کو گندہ کيا ہوا ہے ايسے جرائم پيشہ عناصر کا وجود مسلم معاشرہ کے ليے ناسور کی حيثيت رکھتا ہے، ايسے لوگوں کا سراغ لگانا اور حکومت کو ان کے حرکات سے مطلع کرنا ہماری اخلاقی، اجتماعی اور دينی ذمہ داری ہے۔ يہ تو ايک رہا۔ پھر ايک مسلم تو احکام الہی کا پابند ہوتا ہے، اس کا شعار کسب حلال ہونا چاہئے، اس کے بيوی بچوں کے منہ ميں ہميشہ حلال اور پاکيزہ لقمہ جانا چاہئے۔ جبکہ حرام خور اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہے، ايسے شخص کی نہ دعائيں قبول ہوتی ہيں اور نہ اس کے صدقات و خيرات بارگاہ الہی ميں پہنچتے ہيں اور جس آدمی کا گوشت حرام سے تيار ہوا ہو وہ آتش جہنم کا مستحق ہے۔ اس ليے جولوگ حرام پيشہ سے منسلک ہيں يا ان کے پيشے ميں حرام کی آميزش ہے انہيں اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے عمل سے باز آجانا چاہئے۔
اللہ تعالی کا وعدہ ہے:

وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ 

  ”اور جو شخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے ليے چھٹکارے کی شکل نکال ديتا ہے اور اسے ايسی جگہ سے روزی ديتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو“ ۔ (سورة الطلاق 2۔3 )



مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 16, 2009

موبائل فون کے آداب

اللہ تعالی نے ہم سب کو بے شمار، انگنت اور لامتناہی نعمتوں سے نواز رکھا ہے جن سے ہم آئے دن فائدہ اٹھا رہے ہيں.... ان ساری نعمتوں ميں سب سے عظيم نعمت.... اسلام کے بعد.... عقل ہے ، اسی عقل کی بنياد پر ہم نئی نئی چيزيں ايجاد کر رہے ہيں ، کبھی ہم نے سوچا کہ يہ عقل کہاں سے آئی ؟ يہ علم کس نے عطا کيا ؟ اللہ تعالی نے آج سے چودہ سو سال پہلے حرا کی پہلی وحی ميں يہ بات کہہ دی تھی وَعَلَّمَ الِانسَانَ مَا لَم يعلَم " کہ انسان کو وہ سب کچھ سکھايا جس کا اُسے پہلے علم نہيں تھا ، يہ اس ذات باری تعالی کا کرم واحسان ہے کہ اس نے ہميں وہ سکھايا جو ہم نہيں جانتے تھے ۔چنانچہ انسان اللہ تعالی کی عطا کردہ اِسی نعمتِ عقل کی بنياد پرآج نئی نئی چيزيں ايجاد کر رہا ہے ۔ جن سے انسانی زندگی ميں آسانياں پيدا ہو رہی ہيں اور انسان زمين پر موجود اللہ تعالی کی بے پناہ نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز ہو رہا ہےذرا ....اير کنڈيشن کی آسانی ديکھيے کہ ايک شخص سخت گرمی ميں بھی اپنے گھر ميں آرام وراحت کی سانس ليتا ہوتا ہے ہيٹر کی سہولت ديکھيے ....کہ آدمی کراکے کی ٹھنڈی ميں بھی اپنے روم کو گرم کيے رہتا ہے ۔فريج کی نعمت کوديکھيے ....کہ جس ميں انسان مہينوں تک خورد ونوش کے سامان محفوظ رکھتا ہے، اسی طرح آمد ورفت کے ذرائع ميں آسانياں ....کہ انسان گھنٹوں ميں کہا ں سے کہاں پہنچ جاتا ہے حالانکہ ايک وقت تھا کہ لوگ لمبی لمبی مسافت.... پيدل چل کر.... طے کرتے تھے ۔ اُسی طرح آلات جديدہ کمپيوٹر،انٹرنيٹ ،اور ٹيليويزن کی سہولتيں بھی ايک طرح کی نعمت ہے ....بشرطيکہ ....ان کا استعمال صحيح طريقے سے کيا جائے
محترم قارئين! انہيں ايجادات واختراعات ميں سے ايک نئی ايجاد.... موبائل فون بھی ہے ۔ جسکے بغير آج ہمارا جينا مشکل ہے ....موبائل فون کے دستياب ہونے کی وجہ سے لوگوں کے اندر بہت ساری آسانياںپيدا ہو گئی ہيں ، اِس سے وقت اور مال ميں بچت ہوتی ہے ، انسان سفر کی مشققتوں سے بچ جاتا ہے ، اپنے دوست يا قريبی رشتہ دار سے متعلق کوئی بات پہنچی ، فوراً موبائل فون ڈائل کيا اور حالات کی جانکاری لے لی ، چاہے وہ دنيا کے کسی بھی کونے ميں رہ رہا ہو ۔ حالانکہ ابھی دس بيس سال پہلے تک ہميں اپنے رشتے داروں کے حالات جاننے کے ليے خطوں کا سہارا ليناپڑتا تھاجس کے ليے مہينوں انتظار کرنے پڑتے تھے ، تب جاکر ہميں خط ملتا تھا اور حالات سے واقفيت ہوتی تھی ۔ الحمدللہ آج ايسی کوئی پريشانی نہ رہی بلکہ آج حال يہ ہے کہ ہر شخص کے ہاتھ ميں موبائل فون دکھائی ديتا ہے ۔ الحمدللہ علی ہذہ النعمة

ليکن کبھی ہم نے سوچا کہ ان ساری نعمتوں کے ملنے کے بعد ايک مسلمان کی دلی کيفيت کيسی ہونی چاہئے ؟.... ياد رکھيں .... ہم سے ايک ايک نعمت کے بارے ميں کل قيامت کے دن پوچھا جانے والا ہے لتسالن يومئذ عن النعيم .... تم سے قيامت کے دن نعمتوں کے بارے ميں ضرور سوال کيا جائے گا ۔ يہ اے سی ....يہ ہيٹر.... يہ فريج .... يہ گاڑياں.... يہ ہوائی جہاز .... يہ کمپيوٹر ....يہ انٹرنيٹ .... يہ ٹيليويزن .... اور يہ موبائل فون .... اِن ساری سہولتوں کے بارے ميں ہم اللہ کے سامنے جوابدہ ہيں ۔ اس ليے بحيثيت مسلمان ہميں سوچنا ہے .... غور کرنا ہے .... کہ ہم کس حد تک اِن نعمتوں کا استعمال اللہ کے بتائے ہوئے طريقے کے مطابق کر رہے ہيں ۔اگر اِن نعمتوں کا استعمال اللہ تعالی کی نافرمانی ميں ہوا ....تو کل قيامت کے دن اللہ کی گرفت بہت سخت ہوگی
محترم قارئين ! روز قيامت کی جوابدہی سے اگر ہم بچنا چاہتے ہيں توہميں اِن ساری نعمتوں کو اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے ہونگے ۔....يہ تو ايک رہا....پھراسلام نے زندگی کے ہر شعبے ميں ہماری رہنمائی کی ہے ،اور اِسکے آداب بتايا ہے ۔ايک مسلمان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے ہر شعبے ميں اُن آداب کی پاسداری کرے ، تو موبائل فون کے استعمال کرتے وقت بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانيں ۔ اب سوال يہ پيدا ہوتاہے کہ موبائل فون سے متعلق آداب کيا ہيں ؟ تو ليجئے پيش خدمت ہےچند آداب-

٪اس سلسلے ميں سب سے پہلا ادب يہ ہے کہ فون کرنے سے پہلے نمبرجانچ کر ليناچاہئے کہ واقعی يہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ايسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے ليے ناگواری کا باعث بن جائيں اگر کبھی غير شعوری طور پر ايسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے ميں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ”معاف کيجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گيا “۔

٪ فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کيا جائے ، مثلاً جب بات کرنا شروع کريں تو کہيں السلام عليکم ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام عليکم کہے کيونکہ سلام ميں پہل کرنا بہتر ہے ۔ بالعموم لوگ فون کرتے ہيں ، يا اٹھاتے ہيں تو کہتے ہيں ”ہلو “ ”ہلو“ يہ اسلامی ادب کے خلاف ہے ۔ اسلام نے ہميں يہ تعليم دی ہے کہ جب ہم کسی سے مليں تو کہيں السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، اس حکم کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا .... پھر ايک بات يہ بھی ہے کہ” ہلو“ کہنے کی وجہ سے جہاں ايک طرف غيروں کی مشابہت لاز م آتی ہے وہيں ايک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے ، امام بخاری نے الادب المفرد ميںحضرت ابوہريرہ رضي الله عنه سے بيان کيا ہے کہ ايک آدمی اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پا س سے گذرا تو اس نے کہا السلا م عليکم آپ نے فرمايا : اِسے دس نيکياںمليں ، .... دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ آپ نے فرمايا : اِسے بيس نيکياںمليں، ....تيسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ، آپ نے فرمايا : اِسے تيس نيکياںمليں ۔
محترم قارئين ! اس حديث کو سامنے رکھ کر ذرا غور کريں کہ اگر ہم فون پر اسلامی طريقہ کو اپنائيں اور السلام عليکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہيں تويہاں ہم صرف فون کرنے پرتيس نيکيوں کے حقدار ٹھہرتے ہيں ۔اب اِسی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہيں کہ ايک آدمی ”ہلو “ کہنے کی وجہ سے کتنی نيکيوں سے اپنے آپ کو محروم کر ليتا ہے ۔ پھرايک مسلمان کے ليے مناسب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے سارے معاملات ميں اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم اور آپ کے اصحاب کو اپنااسوہ اور نمونہ بنائے ۔ سفيان ثوری رحمه الله نے بہت پتے کی بات کہی ہے اِنِ استَطَعتَ ان لا تُحِکَّ رَاسَکَ اِلا بِاثَرِ فَافعَل اگر تمہارے ليے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر کی بنياد پر ہی اپناسرکھجلاؤتو ايسا کر گذرو ۔ مفہوم يہ ہے کہ ايک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنياوی امور سے ہی کيوں نہ ہوسنت نبوی کا آئينہ دار ہونا چاہئے ........ ہاں! تو ميں آج سے اميد کرتا ہوں کہ ہمارے جوسامعين فون پر ” ہلو“ کہنے کے عادی ہيں وہ اِس سے بچيں گے اور سلام کے ذريعہ گفتگو کی شروعات کريں گے ۔

٪فون پر بات کرنے کا تيسرا ادب يہ ہے کہ سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کراياجائے کہ....” ميں فلاں بول رہا ہوں“ ....الا يہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان ميں آجاتی ہو.... ايسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہيں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی نے فون پر بات کريں گے تو پوچھنے لگتے ہيں کہ....” آپ نے مجھے پہچانا ؟“....اِس سے آدمی حرج ميں پڑجاتا ہے اگر کوئی صراحة کہہ ديا کہ....” نہيں“.... تو ليجئے! اب خيريت نہيں رہی....اُسے کوسنا شروع کرديں گے....کہ آپ تو بڑے آدمی ہيں ....ہميں کيسے پہچانيں گے....حالانکہ ايسی کوئی بات نہيں ہوتی ۔ وہ بندہ دل کا صاف ہوتا ہے ....اور يہ بات سن کر اُسے تکليف ہوجاتی ہے .... يہ کہنا بھی غلط ہے کہ انہوں نے ميرا نمبر محفوظ نہيں رکھا ۔ ميں کہتاہوں ....حسن ظن سے کام ليں،.... ہوسکتا ہے اسکے سيٹ ميں جگہ خالی نہ ہو۔ پھراِس انداز ميں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ،،،،، نام بتانے ميں آخر کيا جاتا ہے ۔ بخاری ومسلم کی روايت ہے حضرت جابربن عبداللہ رضي الله عنه کہتے ہيں کہ ميں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس آيا اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمايا : کون....؟ ميں نے کہا: ”انا “ يعنی ميں ہو ں ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نکلے تو يہ کہہ رہے تھے ” انا انا “ ميں ميں گوياکہ آپ نے اس طرح کے جواب کونا پسند فرمايا ۔ کيونکہ ”ميں “ کہنے سے کوئی بات سمجھ ميں نہيں آتی ،آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک ديں گے اور آپ اُن سے پوچھيں کہ ....”کون“ ؟.... تو کہيں گے ....”ميں“....بھئی ! ”ميں“ کہنے سے کيا سمجھ ميں آئے گا ....نام بتاو....لہذا فون کرنے والے کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ حرج ميں نہ پڑے اور فوراً پہچان لے۔

٪فون پر بات کرنے کاچوتھاادب يہ ہے کہ جس کو فون کر رہے ہوں اس کے احوال کی رعايت کريں ، ممکن ہے ايک آدمی اپنے کسی ذاتی کام ميں مشغول ہو، يا وہ ايسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے ليے مناسب نہ ہو.... ايسی صورت ميں اگر جواب نہ ملا ، يا جواب ميں جلد بازی پائی گئی ، يا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا.... توفون کرنے والے کو چاہئے کہ وہ جسے فون کيا ہے اُس کے تئيں حسن ظن رکھے اور اس کے ليے عذر تلاش کرے۔.... اُسی طرح جسے فون کيا گيا ہے اُس کے ليے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ايسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا تو ياتو وہ موبائل کو سائلنٹ ميں رکھ دے ،پھر بعد ميں عذر پيش کرتے ہوئے ری کال کرے .... يا وہ جلدی سے بتا دے کہ وہ ايسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہيں دے سکتا ....يہ دل کی صفائی کا اچھا طريقہ ہے ۔
پھرRing دينے ميں اعتدال وتوازن کو ملحوظ رکھناچاہئے ، کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارRing ديتے ہيں .... يہ نہيں سوچتے کہ ہمارا ساتھی مريض تو نہيں ....کسی ضروری ميٹنگ ميں تو نہيں....بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہيں....اورجلدبازی ميں اوٹ پٹانگ بول ديتے ہيں .... اس مناسبت سے مجھے ايک واقعہ ياد آرہا ہے ....ميرے ايک قريب ترين ساتھی نے مجھے ايک مرتبہ فون کيا ۔ ميں اُس وقت نماز ميں تھا....اور ميرا موبائل سائلنٹ ميں تھا ، جب ميں نے نماز سے فارغ ہوکر موبائل ديکھا تو اُس ميں 10مس کال تھے اور ايک ايس ايم ايس تھا جس ميں لکھا تھا ” اگر آپ کو ميرا فون کرنا گراں گزرتا ہے تو اشارہ کرديں ۔ رب کعبہ کی قسم ! ميں آپ کو کبھی فون نہ کروں گا “ ديکھا ! يہ جلد بازی کا نتيجہ ہے .... انہوں نے فوراً خيال کيا کہ ميں جان بوجھ کر جواب نہيں دے رہا ہوں حالانکہ حقيقت کچھ اور تھی ۔ ميں نماز ميں تھا ۔ لہذا جلدبازی ميں کوئی بات نہ کہنی چاہئے جس سے بعدميں سبکی ہو ....
اُسی طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پرہميشہ حسن ظن رکھنا چاہئے۔

٪فون پر بات کرنے کا پانچواں ادب يہ ہے کہ فون کرنے کے ليے مناسب وقت کا انتخاب کياجائے ، ہروقت ايک انسان فون کا جواب دينے کے ليے تيار نہيں رہتا ، کبھی اس کی گھريلو مشغوليت ہوتی ہے ، کبھی وہ اپنے کام ميں مشغول ہوتا ہے ۔ بالخصوص ايسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خيال رکھنا بہت ضروری ہے جن کے اوقات بہت قيمتی ہوتے ہيں۔ کتنے لوگ دير رات ميں فون کرتے ہيں جس وقت ايک آدمی سويا ہو تا ہے.... ظاہر ہے اِس سے نيند خراب ہوتی ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو ايسا عمل سخت ناگوار گذرتا ہے ۔ لہذا فون کرنے کے ليے مناسب وقت کی رعايت بہت ضروری ہے ۔

٪ فون پربات کرنے کا چھٹا ادب يہ ہے کہ فون کرنے کی مدت کا بھی تعين رکھنا چاہئے ۔ کتنے ايسے لوگ ہيں جو فون کرنے بيٹھتے ہيں تو گھنٹوں تک باتيں کرتے رہتے ہيں ، ايک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے ميں تفريط سے کام نہيں ليتا ۔ آج پوری دنيا عالمی اقتصادی بحران سے جو دوچار ہے.... اُس کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ سرمايہ دار طبقہ غيرضروری اشياءميں پانی کے جيسے اپنے پيسے بہا رہا ہے ۔ حالانکہ اُسی کے گھرکے بازو ميں اس کا پڑوسی نان شبينہ کو ترس رہا ہوتا ہے ۔ فون کے استعمال ميں بھی لوگ بےحد تفريط سے کام لے رہے ہيں ۔ فون پر ہمارے جتنے پيسے برباد ہو رہے ہيں اگر اس ميں سے ہلکی سی کٹوتی کرليںتو ميں سمجھتا ہوں کتنے غريبو ں کا بھلا ہو سکتا ہے ....بہرکيف عرض کرنا يہ ہے کہ فون پر ہذيان گوئی ، بيکار گفتگو، اور ضياع وقت سے پرہيز کرنا چاہئے، فون ضرورت کے تحت استعمال کيا جائے ....اُسے طفلِ تسلی نہ بنايا جائے

٪فون کے آداب ميں سے ساتواں ادب يہ ہے کہ جب مسجد ميں داخل ہوں تو موبائل فون بند کرديں يا سائلنٹ ميں کرديں ۔ تاکہ فون کے رِنگ سے نمازيوں کی نماز متاثر نہ ہو ۔ اگر لاعلمی ميں موبائل فون کھلا رہ گيا اور بحالت نماز کال آگئی تو فوراً موبائل بند کر دينا چاہئے ۔ گرچہ آپ نماز ميں ہوں۔اس ميں کوئی حرج نہيں۔ بلکہ بند کرنا ضروری ہے کيونکہ اس سے لوگوں کی نمازيں متاثر ہوتی ہے۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہيں کرتے اور مسجد ميں دوسروں کی نمازيں خراب کرتے رہتے ہيں ۔ ايسا کرنا بالکل غلط ہے ۔ اور جہالت کا آئينہ دار ہے اسی طرح وہ آدمی جو موبائل فون بند کرنا بھول گيا اُسے معذور سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پيش نہيں آناچاہئے ۔ کيا ہم ديکھتے نہيںسرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا اسوہ کياتھا....؟ ايک ديہاتی آتا ہے اور مسجد نبوی کے ايک کونہ ميں پيشاب کرنے بيٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہيں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم انہيں منع کر ديتے ہيں پھر جب وہ پيشاب سے فارغ ہو جاتا ہے تو آپ ايک بالٹی پانی منگواتے ہيں اورحکم ديتے ہيں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا ديا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہيں فانما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرن "تم آسانی کرنے کے ليے بھيجے گئے ہو سختی کر نے کے ليے بھيجے نہيں گئے ۔

٪فون کے آداب ميں سے آٹھواں ادب يہ ہے کہ اگر آپ معززشخصيات کی مجلس ميں بيٹھے ہوں.... اور اُسی بيچ کال آجائے تو مناسب يہ ہے کہ ايسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر ديا جائے ۔ اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائيں ، پھر بات کريں ۔بڑوں کی مجلس ميں بيٹھے ہوئے فون کا جواب دينے لگنا مناسب نہيں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے بشرطيکہ اجازت لے لی جائے ۔
٪فون کے آداب ميں سے نواں ادب يہ ہے کہ بات ہلکی آواز ميں کرنی چاہئے ، بشرطيکہ سنی اور سمجھی جا سکتی ہو۔ کچھ لوگ جب فون پربات کرتے ہيںتو اس قدر بلند آواز ميں بات کرتے ہيں کہ گويا وہ فون کے ذريعہ نہيں بلکہ ڈاٹرکٹ اپنی بات ہندوستان يا پاکستان يا کويت ميں اُس شخص تک پہنچانا چاہتے ہيں۔ حالانکہ فون پر درميانی آواز ميں بات کريں تو اچھی طرح سنی جاسکتی ہے ۔جتنا زيادہ تيز آواز ميں بوليں گے اُتنی ہی بات سمجھ ميں نہيں آتی -
٪ فون کے آداب ميں سے دسواں ادب يہ ہے کہ موبائل فون عام جگہوں پر نہ رکھے جائيں ، کيونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا اُسے اٹھاکر استعمال کرنے لگے يا بچے کسی ايسے شخص کو فون لگا ديں جنہيں فون نہيں کرنا چاہئے تھا ۔ يا ہوسکتا ہے کہ اُس ميں کسی طرح کے راز کی بات ہو جسے دوسروں کا جاننا پسند نہ کرتے ہوں، يا ايسے ايس ايم ايس يا فوٹوز ہو ں جو آپ کے اہل خانہ کے ہوں اور دوسرا غلط نظريہ سے اُسے ديکھنے اور سوچنے لگے ۔ اِن سارے شبہات سے بچنے کا واحد طريقہ يہ ہے کہ موبائل فون ہر جگہ نہ رکھا جائے ۔ اُسی طرح ايک شخص کو چاہئے کہ دوسرے کا موبائل فون اُس کی اجازت کے بغير استعمال نہ کرے اور اگر اجازت ملنے پر استعمال کرتا بھی ہے تو اُسی حد تک جس حد تک اُسے اجازت ملی ہے ۔

٪ فون کے آداب ميں سے گيارہواں ادب يہ ہے کہ گھر ميں گارجين کے رہتے ہوئے نوجوان بچيوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے، اِس سے بچيوں ميں بے راہ روی کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں ۔ آپ جس قدر بھی سوچيں کہ ہماری بچی عفت شعار ہے ليکن اِس کا کيا کريں گے کہ آج شيطان کے چيلے ہر طرف دندناتے پھر رہے ہيں۔ عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔ لہذاايسی صورت ميں ہم کيسے مطمئن ہوسکتے ہيں....بلکہ مردوں کی موجودگی ميں عورتيں فون نہ اٹھائيں ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھايا جا سکتا ہے اِس سے کسی کو اختلاف نہيں ليکن اِس تعلق سے دھيان رکھنے کی بات يہ ہے کہ
عورتيں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ ميں بات نہ کريں ايسا نہ ہو کہ بيمار دل انسان کسی طرح کا غلط خيال دل ميں بيٹھا لے ۔ ذرا غور کيجئے کہ اللہ تعالی نے نبی کی بيويوں کو حکم ديا کہ جب وہ دوسروں سے بات کريں تو دبی زبان ميں بات نہ کريں: ان اتقيتن فلاتخضعن بالقول فيطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاً معروفاً" اے نبی کی بيويو!.... اگر تم پرہيزگاری اختيار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل ميں روگ ہو ‘ وہ کوئی خيال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔۔ حالانکہ انکے حال پرغورکرکے ديکھيے کہ وہ عہد نبوت ميں تھيں، اور لوگوں کی ماو ں کی حيثيت رکھتی تھيں ، اُنکے تئيں کسی کے دل ميں غلط خيال بيٹھ نہيں سکتا تھا.... اُس کے باوجود يہ حکم ديا جا رہا ہے ۔ اب اِسی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہيں کہ ہماری بہينيں اور بيٹياں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو سکتی ہيں ۔ ہميں يہ باور کرنا چاہئے کہ شريعت دراصل فطرت کی آواز ہے....فطری طور پر عورت کی آواز ميں دلکشی، نرمی، اور نزاکت پائی جاتی ہے .... اِسی ليے عورتوں کو يہ حکم ديا گيا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ايسا لب ولہجہ اختيار کيا جائے جس ميں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھاپن ہو‘ تاکہ کسی بدباطن کے دل ميںبُرا خيال پيدا نہ ہو۔

اُسی طرح سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے نہ ديا جائے ۔ اگر بچے ہوشيار بھی ہوں تب بھی انہيںپہلے فون اٹھانے کا طريقہ سکھائيں ۔ اُسکے بعد انہيں اٹھانے کی اجازت ديں ۔ بسااوقات ايسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کريں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز ميں بات کرتا ہوتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہيں سمجھ پاتا ۔ ....کچھ خبيث طبيعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتيں بھی معلوم کرنے لگتے ہيں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج يہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ ديا جائے ۔

٪فون سے متعلق ايک آخری نکتہ نوٹ کرنے کا يہ ہے کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو ريکارڈ کرنا ياموبائل کی آواز سب کے سامنے آن کردينا تاکہ دوسرے اسے سنيں ۔ غلط ہے بلکہ يہ ايک طرح کی خيانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہيں کوئی فون کرتا ہے تو اس کی آواز کو رکارڈ کرنے لگتے ہيں يا آواز کھول ديتے ہيں تاکہ حاضرين اس کی گفتگو سنيں ۔ايسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ايسا نہيں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے ليے مفيد ہو تو ايسی صورت ميں آواز کھولنے ميں کوئی حرج نہيں ۔ علامہ ڈاکٹر بکر ابوزيد رحمه الله اپنی کتا ب ”ادب الھاتف “ ميں لکھتے ہيں: لايجوز لمسلم يرعی الامانة ويبغض الخيانة ان يسجل کلام المتکلم دون اذنہ وعلمہ مھما يکن نوع الکلام دينيا او دنيويا ”ايسامسلمان جوامانت کی رعايت کرتا ہو اور خيانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے ليے قطعاً جائز نہيں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغير ريکارڈ کرلے خواہ گفتگو جس نوعيت کی ہو۔ دنيوی ہو يا دينی جيسے فتاوی اور علمی مباحث وغيرہ “


محترم قارئين ! موبائل فون کے آداب سے متعلق يہ تھيں چند باتيں !!! جنہيں سرسری طور پر ہم نے بيان کيا ہے .... اخير ميں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہميں زندگی کے ہر معاملے ميں دينی بصيرت عطا فرمائے آمين يا رب العالمين

مکمل تحریر >>

امانت مں خيانت

وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ( آل عمران 161) 

ترجمہ :
جو شخص خيانت کرے گا وہ خيانت کردہ چيز کو قيامت کے دن لے کر آئے گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ديا جائے گااور وہ ظلم نہ کيے جائيں گے“( آل عمران)

تشريح:
 اگر کسی کو امانت کا مال سونپا گيا ہے تواس کا فرض بنتا ہے کہ مال کو صحيح مصرف ميں استعمال کرے ،اگر اس نے غلط سلط حساب کر کے امانت ميں خيانت کی تو اُسے ياد رکھنا چاہيے کہ کل قيامت کے دن خيانت کردہ چيزوں کو اپنے کمر اور پيٹھ پر لادے ہوئے اللہ کے دربار ميں حاضر ہوگا ۔

 اس سلسلے ميں بخاری ومسلم کی ايک طويل حديث ہے جس ميں آيا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ايک دن وعظ فرمايا اوراس ميں خيانت کا ذکر خصوصيت سے کيا نيزاس کی شناعت بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ جس نے دنيا ميں جو کچھ خيانت کی ہوگی ‘ اسے اپنے گردن ميں لادے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوگا، آپ سے سفارش کی درخواست کرتے ہوئے کہے گا يارسول اللہ ! ميری امداد فرمائيے۔ آپ اس وقت صاف جواب دے ديں گے لَا املِکُ لَکَ شيئا قد أبلغتك ميں تيرے ليے کسی چيز کا مالک نہيں ہوں‘ نہ تيری امداد کر سکتا ہوں ، دنيا ميں ميں نے تجھے يہ بات پہنچا دی تھی۔
اور صحيح بخاری کی روايت ہے ايک مرتبہ آپ کے ايک خادم نے غنيمت سے ايک چادر چرالی تھی ، جہاد ميں تير لگنے سے شہيد ہو گيا ، لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارکباد دی کہ جنت مبارک ہو يعنی شہيد ہو گيا جنت ميں جائے گا ۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
” ہرگز نہيں خدا کی قسم ! جس چادر کو خيبر کی جنگ ميں اس نے چراياہے اور وہ تقسيم نہيں ہوئی تھی وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے“ ۔
يعنی ايک چادر کی خيانت کی وجہ سے وہ دوزخ ميں گيا ۔ جب لوگوں نے يہ وعيد سنی تو ڈر کے مارے ايک صاحب اٹھے اور چمڑے کے ايک يا دو تسمے لاکر آپ کی خدمت ميں پيش کردی آپ نے فرمايا : ”يہ ايک يا دو آگ کے تسمے ہيں“ ۔
آج مسلم معاشرے ميں خيانتيں بالکل عام ہوتی جا رہی ہيں، آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو اپنے بھائيوں کو دھوکہ دے کر ان سے پيسے اينٹھتے ہيں ۔ آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو قرض کے بہانے دوسروں سے پيسے ليتے ہيں اور فرار ہوجاتے ہيں کيا ہميں اللہ کا ڈر نہيں ؟ يہ نہ سمجھيں کہ جےسے چاہيں پيسے بٹور ليں اس کی کوئی پوچھ گچھ ہونے والی نہيں ؟ جن جن لوگوں کو چکما دے کر ان کا مال کھائے تھے کل قيامت کے دن سارے لوگ دعويدار بن کر ہمارے سامنے آئيں گے ، اس دن پيسے تو ہوں گے نہيں کہ دعوےداروں کو چکا سکيں تاہم نيکياں ہوں گی ، چنانچہ ہماری ايک ايک نيکی دعويداروں کو دے دی جائے گی ، جب نيکياں ختم ہو جائيں گی اور دعويدار باقی رہ جائيں گے تو دعويداروں کے گناہوں کو لے کرہمارے سر پر تھوپ ديا جائے گا ۔ پہاڑوں جيسی نيکياں لے کر آئے تھے ليکن ابھی گناہوں کا پتلہ بن کر رہ گئے چنانچہ فرشتے کو حکم ہوگا کہ اسے دبوچ کر جہنم کی کھائی ميں پھينک دو.... يہی ہے حقيقی افلاس ۔
مکمل تحریر >>

الله كا رنگ

صِبْغَةَ اللَّه وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَه صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ﴿ البقرة  ١٣٨﴾

ترجمہ : (اے يہود ونصاری ) اللہ کا رنگ اختيار کرلو ، اور اللہ کے رنگ سے اچھا کون سا رنگ ہو سکتا ہے اور ہم اُسی کی بندگی کرتے ہيں ۔
تشريح :
اللہ کے رنگ ميں مفسرين کے مختلف اقوال ہيں :
ايک قول يہ ہے کہ اِس سے مراد اللہ کا دين ہے اور اُس کی وجہ يہ ہے کہ بعض عيسائی اپنے بچوں کو پيلے رنگ ميں رنگتے تھے اور کہتے تھے کہ يہ اُن کے ليے تطہير ہے اور اب وہ عيسائيت ميں داخل ہوگيا ۔ اللہ تعالی نے فرمايا کہ اللہ کے رنگ کو طلب کرو اور وہ دينِ اسلام ہے يعنی دين اِسلام کو قبول کرلو-
 دوسرا قول : يہ ہے کہ اللہ کے رنگ سے مراد اللہ کی فطرت ہے يعنی جس فطرت اور خلقت ميں اللہ تعالی نے انسان کو پيدا کيا ہے اُس فطرت کو اپنالو اور خودتراشيدہ نظاموں کو چھوڑ دو ۔
تيسرا قول يہ ہے کہ اِس سے مراد اللہ تعالی کی سنت ہے ۔ يعنی اللہ کے طريقے کو اپنالو ۔اِس آيت کی تفسير ميں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ فرماتے ہيں :
” يہود ونصاریٰ کا دستور تھا کہ جب وہ کسی آدمی کو اپنے مذہب ميں داخل کرنا چاہتے يا اپنے بچوں کو ايک خاص عمر ميں پہنچنے کے بعد يہوديت يا نصرانيت کی تلقين کرتے تو کہتے کہ ہم نے اِس پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا ديا ۔ عيسائيوں نے اِ س کے ليےايک زرد پانی ايجاد کيا تھا جس ميں وہ اپنے بچوں کو اور ہراُس شخص کوجو اُن کے مذہب ميں داخل ہونا چاہتا تھا ‘ غسل ديتے تھے جسے عربی ميں صبغة اور اردو ميں بپتسمہ کہتے ہيں ۔ اِس آيت کريمہ ميں اللہ تعالی نے نزول قرآن کے زمانے کے يہوديوں اور عيسائيوں کی ترديد کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا يہ عمل کوئی معنی نہيں رکھتا ، اور اللہ کے نزديک اُس کی کوئی حيثيت نہيں ، اصلی رنگ تو اللہ کا رنگ ہے اور وہ دين ِاسلام ہے ۔ اس ليے تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعيال کو اسلام کے رنگ ميں رنگو ، اور اُس کو اپنی زندگی ميں جاری وساری کرو کيونکہ جس طرح رنگ کپڑے کے ہر جزو ميں پيوست کر جاتا ہے اُسی طرح اسلام اپنے ماننے والے کی حالت کو يکسر بدل ديتا ہے “ (تيسيرالرحمن لبيان القرآن ۔ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی )
غرضيکہ اِس آيت کريمہ ميں اللہ تعالی نے يہود ونصاری کے مروجہ عقيدے بپتسمہ کی ترديد کی ہے اور اُنہيں کہا ہے کہ اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے يعنی دين فطرت ہے ۔اِس دينِ فطرت کے سايہ تلے آجاؤ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور ميں اپنی اپنی جماعت کو دعوت دی اور يہی دعوت حضرت موسیٰ اور حضرت عيسیٰ عليہماالسلام کی بھی رہی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمايا:
” بيشک اللہ تعالی کے نزديک دين اسلام ہی ہے “ (آلِ عمران 19) 
دوسری جگہ فرمايا :

 ”جوشخص اسلام کے سوا اور دين تلاش کرے ‘ اُس کا دين قبول نہ کيا جائے گا اور وہ آخرت ميں نقصان پانے والوں ميں ہوگا “ (آل عمران 85)
مکمل تحریر >>

منگل, ستمبر 15, 2009

عالمی اقتصادی بحران کا حل اسلام ميں ہے



گذشتہ دنوں جب رياستہائے امريکہ ميں معاشی بحران کی آگ لگی تو چندلمحوں ميں اسکی لپيٹ سے پوری دنيا جھلسنے لگی ،کتنی اقتصادی منڈياں اورعالمی تجارت گاہيں چاروں شانے چت ہوگئيں ، کھربوں ڈالرکا نقصان ہوا،کتنے عالمی بنک بند ہوگئے ،کتنے اصحاب ثروت قلاش بن گئے گويا يہ کوئی سونامی تھا جو اکثر اقتصادی منڈيوں کو بہالے گيا ۔ اس حادثے کے زيراثر کتنے لوگ عقلی ديواليہ پن کے شکار ہوچکے ہيں ،کتنے لوگوں نے خودکشی کرلی ہے ،کتنے لوگ غم والم کی تاب نہ لاکر جان سے ہاتھ دھو بيٹھے ہيں ۔ اورايک سروے کے مطابق عالمی منڈيوں سے جڑے تقريبا 75فيصد اشخاص نفسياتی امراض کے شکار ہيں اور اس ميں مزيداضافہ کا امکان ہے۔ (عالمی ادارہ برائے صحت ) ۔
 بحيثيت مسلمان ہمارے لئے اس حادثے ميں درس ہے ، عبرت ہے ، نصيحت ہے۔ يہ اقتصادی بحران دراصل اس سودی کاروبار کا حتمی نتيجہ ہے جس پرآج سرمايہ دارانہ نظام قائم ہے ، واقعہ يہ ہے کہ جب دنياکااقتصادی نظام سودی کاروبار پر چلنا شروع ہوجاتا ہے تو اس کی تباہی يقينی ہوجاتی ہے ۔ کيونکہ” سود اقتصادی زندگی کے لئے ايڈز کی مانند ہے جو اس کی دفاعی قوت کو گھن لگا ديتا ہے اور اسے ہلاکت وبربادی کے گڈھے ميں جا گراتا ہے “ يہ پيغام ہميں قرآن کريم نے آج سے چودہ سو سال پہلے دوٹوک انداز ميں دياتھا: ”اللہ تعالی سودکو مٹاتا ہے اور صدقات وخيرات کو بڑھاتا ہے“ ۔ ( البقرہ 276) چنانچہ اشتراکی نظام کے دم توڑنے کے بعد سودی کاروبار پر مبنی سرمايہ دارانہ نظام کے سنگين نتائج عالمی معاشی بحران کی شکل ميں ہميں کچھ يہی سبق دے رہيں ہيں
ديکھو اسے جو دےدہ عبرت نگاہ ہو ۔
اب دنيا کے لئے اس بحران سے نکلنے کا واحد علاج اسلامی مالياتی نظام کی تطبيق ہے جو سودی کاروبار سے بالکل خالی اور زکاة کے حيرت انگيزنظام پر منحصر ہے جس سے اقتصاديات ميں پوری ترقی ہوتی ہے اور معاشرے سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ تاريخ شاہد ہے کہ جب زکاة کا نظام نافذ ہوا تو حضرت عمربن عبدالعزيزؒ کے عہدمبارک ميں اصحاب اموال اپنے مالوں کی زکاة لےکرنکلتے تھے کہ کوئی مستحق مل جائے ليکن تلاش بسيارکے باوجود کوئی مستحق نہ ملتا تھا۔
آج مغرب کوبھی اس بات کا احساس ہونے لگاہے کہ سرمايہ داری کے بھنور سے انہيں اسلامی اقتصادی نظام ہی نکال سکتاہے چنانچہ مغربی ممالک کے بعض مبصرين اقتصادی ميدان ميں اسلامی نظام ماليات کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہيں ۔ يورپ کی ايک ماہراقتصاديات خاتون ”سواتی تانيجا“لکھتی ہيں ”امريکہ کامعاشی بحران اسلامی اقتصادی نظام کے لئے سنہری فرصت ہے جو سودی کاروبارسے بالکل خالی ہے“ اورمجلہ” تچاليز “کے ايڈيٹر نے لکھاہے ”اگر ہماری استثمارکاری کے ذمہ داران نے قرآن کريم کی تعليمات کا احترام کيا ہوتا اور ان کی روشنی ميں اقتصادی نظام مرتب کی ہوتی تو ہم اس بحران کے شکار نہ ہوتے “ ظاہرہے کہ موجودہ وضعی نظام محدود انسانی عقل کی پيداوارہے جس ميں کھوٹ کا درآنا يقينی ہے جبکہ اسلامی نظام حيات خالق کائنات کا اُتارا ہوا وہ فطری نظام ہے جو مخلوق کے طبائع ورجحانات سے بخوبی آگاہ ہے ۔
 موجودہ صورتحال ميں اسلامی نظام معيشت کی تنفيذکامطالبہ گوکہ جزوی شکل ميں ہو دراصل اسلام کے غلبہ کا اعلان ہے اوراس ميں اسلامی اقتصاديات کے ماہرين کے لئے زريں موقع ہے کہ وہ دنيا کے سامنے اسلام کے مالياتی نظام کی تفاصيل پيش کريں اوراسلامی معاشيات کے نفاذ کا مطالبہ کر نے والوں کو اسلام کے مالياتی نظام سے واقف کرائيں ۔
علماءاور داعيان اسلام کے لئے بھی سنہری فرصت ہے کہ وہ اسلام کو ايک مکمل نظام حيات کی شکل ميں پياسی دنياکے سامنے پيش کريں اورانہيں احساس دلائيں کہ آج بھی انسانيت کے سارے مسائل کا حل اسلام ميں ہے ۔
سودی بنکوں کی ترقی پر فريفتہ دنيا کے لئے بھی اس ميں سامانِ عبرت ہے کہ وہ سود کی ظاہری چمک دمک سے دھوکہ نہ کھائيں، بظاہراس ميں ترقی دکھائی ديتی ہے ، مال ميں ترقی، کار وبار ميں ترقی ، آل واولاد ميں ترقی ليکن يہ نگاہوں کو خيرہ کرنے والاسراب ہوتا ہے جس کاخميازہ اقتصادی بحران کی شکل ميں ديريا سوير بھگتنا پڑتاہے ۔
٭٭٭
ماہ دسمبرکا تازہ شمارہ آپ کے سامنے ہے ، کويت کی سرزمين پراس مجلہ کا اجراءاردو داں حلقوں کے لئے نيک فال ہے جس کے لئے ہم اللہ کی توفيق کے بعد ذمہ داران ipc کے احسان شناس ہيں جنہوں نے ہماری ضرورت کومدنظر رکھتے ہوئے اردو ماہنامہ کے اجراءکی اجازت مرحمت فرمائی ہے ۔
عزيز قاری! يہ مجلہ آپ کا ہے، اور آپ کی فکرکا ترجمان ہے، اس کے توسط سے آپ اپنی فکر ديگر قارئين تک پہنچا سکتے ہيں ،ہماری آپ سے گذارش ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ ليں، خود مستفيد ہوں اوردوسروں تک پہنچاکرثواب دارين حاصل کريں۔ يہ شمارہ آپ کو کيسا لگا ؟ ہميں ضرورمطلع فرمائيں،ہم آپ کے گرانقدر تاثرات اورمفيد مشوروں کے منتظرہيں۔


مکمل تحریر >>

اسلامی تعليمات کا خلاصہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے

آج امت مسلمہ تاريخ کے نہايت نازک دورسے گذر رہی ہے ،اسلام دشمن طاقتيں ہر طرف سے ان پر حملہ آور ہيں،ان کے اقدار و روايات اور تشخص کو مٹانے کے درپے ہيں،کہيں انکے دينی شعائر کو طنز وتعريض کا نشانہ بنايا جارہاہے تو کہيں دہشت گردی اور تخريب کاری کے نام پرانہيںخوف زدہ اور ہراسا ں کيا جارہاہے گويا دہشت گردی، سفاکيت اور بنياد پرستی مسلمانوں کی نشانی بن چکی ہے ۔ جہاں کہيں تخريبی کاروائی ہوئی شک کی سوئی فورا مسلمانوں کی طرف گھما دی جاتی ہے۔ حالانکہ اسلام دين رحمت ہے، ساری مخلوق کے لئے امن وامان کا پيغام ہے،اس کی خميرہی ميں سلامتی پوشيدہ ہے، يہ محض دعوی نہيں بلکہ زمينی حقائق گواہ ہيں کہ آج سے 14 سوسال پہلے جب انسانيت زندگی کی آخری سانسيں لے رہی تھی،لوگ ايک دوسروں کے خون کے پياسے تھے،لوٹ ماراور ظلم وطغيان کے رسيا تھے ۔ ايسے پرآشوب وقت ميں رحمت عالم صلى الله عليه وسلم جب نظام رحمت لے کر آتے ہيں تو25سال کی مختصر مدت ميںساراجزيرہءعرب امن وامان کا گہوارہ بن جاتاہے، جانوں سے کھيلنے والے جان کے محافظ بن جاتے ہيں،پرديسيوں کو لوٹنے والے ان پر سب کچھ لٹانے کے لئے تيار ہوجاتے ہيں
اور ايسا امن پسند سماج وجود ميں آتاہے کہ رسول رحمت کی پيشين گوئی کے مطابق ايک عورت تنہا قادسيہ سے صنعا تک سفرکرتی ہے اور اس سے کوئی تعرض نہيں کرتاہے۔آج بھی دين اسلام کے ماننے والے اس دھرتی پرامن وامان کے پيغامبر ہيں ،کيونکہ انکے وجود کا مقصد دنيا ميں قيام امن ہے،وہ امن کے قيام کے لئے جيتے ہيں اور اسی کے لئے مرتے ہيں ۔ ان کی کتابِ ہدايت ميں انسانی جان کا احترام اس قدر ملحوظ ہے کہ کسی فرد کے قتل ناحق کو پوری انسانيت کا قتل قرار ديتا ہے ۔ ” جو کوئی کسی انسان کو جبکہ اس نے کسی کی جان نہ لی ہو يا زمين ميں فساد برپا نہ کيا ہو ، قتل کرے تو گويا اس نے تمام انسانوں کو قتل کرڈالا اور جو کوئی کسی ايک جان کو (ناحق قتل ہونے سے ) بچائے‘ تو گويا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی“ ۔ (سورہ مائدہ آيت نمبر 32 ) يہ امت جس بنی کواپنی جان سے زيادہ عزيزسمجھتی ہے وہ ساری انسانيت کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔(الانبياء 107) يہ انہيں کی تعليم ہے کہ ”جو کوئی اسلامی مملکت ميں رہنے والے غيرمسلم کو قتل کرديتا ہے ‘ وہ جنت کی ہوا تک نہ پائے گا “ بخاری ايک نبی رحمت نہيں بلکہ سارے انبياءکی تعليمات کا خلاصہ قيام امن تھا ليکن ہر دور ميں ان کے خلاف جو جماعت کمربستہ ہوئی وہ دہشت گردوں کی جماعت تھی ۔ آج بھی باطل قوتيں پوری دنياميں اسلام کے غيرمعمولی فروغ کوديکھـ کر پريشان ہيں کہ مبادا ہماری نئی نسل اسلام کے پيام امن کو اپنالے جس سے ہماری پاپائيت جاتی رہے ۔ چنانچہ وہ دہشت گردانہ کاروائياں انجام ديتے خود ہيں ليکن بدنام مسلمانوں کوکرتے ہيں، ايسی نازک صورتحال ميں امت مسلمہ کے باشعور افراد کونہايت دورانديشی سے کام لينے کی ضرورت ہے ، ہماری طرف سے کوئی ايسی جذباتی حرکت نہيں ہونی چاہئے جس سے غيروں کو انگشت نمائی کا موقع ملے ۔ رہے نام اللہ کا
مکمل تحریر >>

سالِ نو کا پيغام

ابھی ہم عيسوی تقويم کے مطابق 2009 اورہجری تقويم کے مطابق 1430 ميں داخل ہوچکے ہيں۔ واقعہ يہ ہے کہ سالِ گذشتہ عالم انسانيت کے ليے بالعموم اورامت مسلمہ کے ليے بالخصوص نہايت کربناک رہا ،عالمی اقتصادیات ميں ايسی آگ لگی کہ اس کی شرر انگيزی تاہنوز جاری ہے، سيلابوں اور زلزلوں کی شکل ميں قدرتی آفات آئے، علاقائيت اور نسل پرستی کے شيطان نے کتنے شب خون مارے، دہشت گردی کے عفريت نے ايسی تباہی مچائی کہ انسانيت چينخ اٹھی ،اور حاليہ دنوںفلسطين ميں اسرائلی وحشيوں نے ايسی درندگی کا مظاہرہ کيا کہ دانتوں تلے انگلياں آگئيں، نہ جانے کہاں گئی انسانيت؟ کہاں گئی شرافت ؟ اورکہاں گئيں حقوق انسانی کی علمبردارتنظيميں؟۔
ليکن سوال يہ ہے کہ ہم کب تک اپنی پستی کا رونا روتے رہيں گے اور دوسروں کے سرالزام تھوپتے رہيں گے ؟ شايد قصورہمارا بھی تونہيں؟ کبھی ہم نے اپنا محاسبہ بھی کيا ؟ سال نو کی آمد ميں خود احتسابی کی دعوت ہے ۔ يہ محض ايک سال کا جانا اور دوسرے سال کا آنا نہيں بلکہ ہماری عمر سے ايک سال کم ہوا ہے ، اب ہم اپنے آپ کا جائزہ ليں کہ ہم کہاں ہيں؟ کيا کررہے ہيں؟ اور کيا کرنا چاہيے تھا ؟ ۔
مکمل تحریر >>

کيا بڑی بات تھی ہوتے جو

پچھلے دنوں ہندوستان کی ايک فرقہ پرست تنظيم نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دينے کے ليے يہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ”مسلمان ہندوستان کو دارالحرب کہنا چھوڑ ديں اور ہندووں کو کافر نہ کہا جائے“۔ ميں نے اِسے دعوت کا سنہرا موقع سمجھا اور اپنے ہندی بلوگ پر اس کا مثبت جواب ديا ‘جس ميں ڈاکٹر ذاکر نائک کا حوالہ بھی موجود تھا ۔ متعدد لوگوں نے مثبت تبصرے کيے ، ليکن ان ميں ايک صاحب نے اس پر اپنا ريويو يو ں ڈالا ” آپ اسی ذاکر نائک کی بات کر رہے ہيں ....نا ....جن کا فلاں جگہ پر پروگرام تھا ‘ تو مسلمانوں نے اُسے رکوا ديا ‘ فلاں جگہ پر آنا طے تھا تو مسلمانوں نے ان کے خلاف احتجاج کيا عزيزقاری ! اس ريويو پرذرا ہم سنجيدگی سے غور کريں اور سوچيں کہ امت مسلمہ کے آپسی اختلافات کس قدر سنگين صورتحال اختيار کرچکے ہيں کہ غيرقوميں بھی اس پر تبصرہ کرنے لگی ہيں ....آخر ہم اسلام کی آفاقيت کو لوگوں کے سامنے کيسے پيش کر سکيں گے ؟ ....کيسے ہم خير امت کی ذمہ داری نبھا سکيں گے .... ؟ ہم فکرونظر ميں کسی سے اختلاف کرسکتے ہيں ليکن اِس کا مطلب يہ نہيں کہ اس اختلاف کو اس قدر ہوا ديں کہ برادران وطن کو اسلام کی صداقت پر شک ہونے لگے اور اسلام کی اشاعت متاثر ہوجائے۔
مکمل تحریر >>

شعلوں سے محبت اس نے کيا


وہ ايک سليم الفطرت انسان تھا.... اپنے معاشرے کی بُرائيوں سے بےزار ہوکر کسی پہاڑی گوشہ ميں تنہائی اختيار کئے ہوا تھا ....شايد کسی غيبی ہدايت کا منتظر تھا جو اُسے منزل کا پتہ دے سکے .... اس نے اپنی پيشانی کی آنکھوں سے انسانيت کو سسکتے بلکتے اور وحشيانہ زندگی گزارتے ہوئے ديکھا تھا ....اس نے اپنے سامنے انسانيت کی کشتی کو بيچ بھنور ميں ہچکولے کھاتے ہوئے ديکھا تھا ....اس سے رہا نہ جا رہا تھا....اس کا دل تڑپ رہا تھا .... مچل رہا تھا کہ کوئی نا خدا مل جائے جو اس نَيا کو ساحل سمندر لگائے .... اچانک بنی نوع انسان پر رحم وکرم کی بارش ہوئی اور اسی انسان کو مسيحابنا ديا گيا ۔ اب کيا تھا ؟ کراہتی انسانيت کو مسيحا مل چکا تھا ....وہ زخموں پر مرہم ڈالنے کا بيڑا اٹھا ليتا ہے ، دہکتی اور سلگتی ہوئی آگ ميں کودنے والوں کا کمر پکڑ پکڑ کر نکال رہا ہے ، کيا دن اور کيا رات ہروقت اُسے انسانيت کی فکر ستا رہی ہے ، اچھے اخلاق کی تعليم ديتا ہے ، بُرے اخلاق سے روکتا ہے ،گلی، کوچہ اور بازار ہر جگہ ہانکے پکارے بولتا جا رہا ہے ” اے لوگو! اللہ والے بن جاؤ کامياب ہوجاؤگے .... “۔ پاکيزہ نفوس اس کی دعوت پر لبيک کہتی ہيں ، لوگ ساتھ آتے جا رہے ہيں اور قافلہ بنتا جا رہا ہے .... ليکن بُرا ہو جاہلی تعصب اور اندھی تقليد کا جس نے اکثريت کو راہ حق کا مزاحم بنا ديا، وہ ہاتھ دھوکر اس کے پيچھے پڑجاتے ہيں ، اس کے کاز کو ناکام بنانے کے ليے ہر حربہ استعمال کرتے ہيں ....
يہ ايک دن اور دو دن کا معاملہ نہ تھا .... مسلسل اکيس سال تک اُسے مشق ستم بنايا، اُسے پاگل ،کاہن اور ساحر کہہ کر مطعون کيا ، اس کے گردن پر اونٹ کی اوجھڑياں ڈالیں ، اس کے راستے ميں کانٹے بچھائے ، اس کے گھر کے دروازے پر عفونتيں پھينکیں ، اس کے ماننے والوں کو روح فرسا تکليفيں دیں ،اس کا معاشرتی بائيکاٹ کيا ، ايک موقع سے آواروں نے اس پر ايسی سنگ باری کی کہ پورا بدن لہولہان ہوگيا اور بيہوش ہوکرگرپڑا ، اس کے قتل کی سازشيں کیں، اسے اپنے جانثاروںسميت وطن عزيز کو خيربادکہنے پرمجبورکيا ، ملک بدرکرنے اورانکی جائدادوں کو ہڑپ لينے کے باوجود انہيں چين سے رہنے نہ ديا اور مسلسل آٹھ سال تک انکے خلاف محاذآرائیاںقائم رکھیں۔اب تک اکيس سال کا طويل عرصہ گذر چکا ہے اور حالات بدستور پُرآشوب ہيں ، ليکن اکيس سال کے بعد وہی انسان جب اپنے دس ہزار جانثاروں کے ہمراہ اپنے مادر وطن ميں فاتح کی حيثيت سے داخل ہوتا ہے تو سارے دشمنوں کو اپنے سامنے پاتا ہے ، اکيس سال تک دہشت گردی مچانے والوں ، امن وامان کا خون کرنے والوں اور اپنے جانثاروں کے قاتلوں کو اپنے قبضہ ميں پاتا ہے ، اگروہ چاہتا تو اُن مجرمين کو کيفرکردار تک پہنچا سکتا تھا ليکن قربان جاؤ اس انسان کے رحم وکرم پرجس نے اپنے جانی دشمنوں کے حق ميں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا : کسی سے کوئی شکايت نہيں آج تم سب آزاد ہوسبحان اللہ ! يہ کيسا انسان ہے جو گالياں سن کر دعائيں دے رہا ہے، پتھر کھا کر گلدستہ پيش کررہاہے ، خون کے پياسوں کو جام حيات پلارہاہے ؟ جی ہاں! يہ ہيں ہمارے نبی رحمت عالم ، تاجدارمدينہ اورمحسن انسانيت کی ذات مبارکہ مطہرہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم وَبَارِک عَلَيہِ جو اپنے سينے ميں سارے جہاں کا درد رکھتے تھے۔ جن کا فيض انسان تو کجاحيوان و نباتات اور جمادات تک کے ليے عام تھا ۔ يہی وہ رحم وکرم تھا جس نے اسلام کے ليے پوری دنيا ميں جگہ بنايا چنانچہ فتح مکہ جس ميں آپ کے جانثاروں کی تعدادمحض دس ہزار تھی‘ دو سال کے بعد آپ حجة الوداع کے ليے نکلتے ہيں توشمع اسلام کے پروانوں کی تعداد ڈيڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ پھر وہ دن آيا کہ ساری تاريکياں کافور ہو گئيں ، ہدايت کا چراغ جلنے لگا ، انسانيت اسلام کے سايہ ميں پناہ لينے لگی اور چند ہی سالوں ميں اسلام کا پرچم مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک لہرانے لگا ۔آج انسانيت جس پُرفتن دور سے گذر رہی ہے ،جس طرح معاشرے سے امن وامان رخصت ہوتا جا رہا ہے اورہرسُودہشت گردی کی فضا چھائی ہوئی ہے ايسے کشيدہ حالات ميں شديد ضرورت ہے کہ ہم بحيثيت مسلمان رحمت عالم صلي الله عليه وسلم کی زندگی کا مطالعہ کريں کيونکہ اللہ تعالی نے آپ کی پوری زندگی کو ہمارے ليے اسوہ حسنہ قرار ديا ہے اورہميں ساری مخلوق کے ليے رحمت کا پرتوبناياہے ۔ پھرعام انسانی نقطہ نظرسے بھی سيرت نبوی کے مطالعہ کی سخت ضرورت ہے کيونکہ آج دنيا جن عالمی مسائل ميں گھری ہوئی ہے اُن کا علاج بھی نظامِ مصطفوی ميں پوشيدہ ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے محمد صلي الله عليه وسلم نے محض تئيس سال کی مختصر مدت ميں مردہ انسانوں کے اندر زندگی کی روح پھونک دی تھی اور زندگی کی کاياپلٹ دی تھی آج بھی وہ دورآسکتاہے بشرطيکہ ہم شريعت محمدی کی بالا دستی کو قبول کرنے کے ليے تيار ہوجائيں ۔

صفات عالم محمد زبير تيمى
مکمل تحریر >>

وہ علم نہیں زہرہے احرار کے حق ميں


ابھی ہم اکيسويں صدی عیسوی سے گذر رہے ہیں ، یہ صدی ایجادات کی صدی کہلاتی ہے ، عقل ودماغ کے عروج کی صدی کہلاتی ہے ، لوگ چاند پر کمندیں ڈال رہے ہيں، سائنسی ایجادات کا فےضان ہماری مٹھی ميں ہے ، ہرمیدان میں ترقی ہی ترقی دکھائی دے رہی ہے ، ليکن افسوس اِسی صدی ميں مہذب اور ترقی يافتہ کہلانے والے لوگوں کے ایسے ایسے واقعات منظرعام پرآنے لگے ہیں جنہیں سنکر جانوروں کی دنيا ياد آجاتی ہے ، عقل ماتم کرنے لگتی ہے، دماغ چکرانے لگتا ہے اور باربارہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ لوگ عقل رکھتے ہوئے ايسا سب کچھ کيوں کررہے ہيں؟ پچھلے دنوں اخباربینی کے دوران میری نظر سے تين ايسے واقعات گزرے جنہیں پڑھ کر ميں دم بخود رہ گیا ۔
(1) ايک شخص نے اپنے ہردل عزيز بیٹے کوجان سے مار ڈالا کيونکہ کسی تانترک نے اُسے بتايا تھا کہ اگر تم نے اپنے بچے کو قتل کرديا تو بہت جلد مالدار ہوجاوگے -يہ واقعہ ہندوستان کی رياست آسام کا ہے ۔
(2) ايک باپ اپنی ہی بيٹی کے ساتھ نو سال تک جنسی زيادتی کرتا رہا کيونکہ اُسے جيوتشی نے يہ مشورہ ديا تھا کہ اگر اپنی معاشی بدحالی دور کرنا چاہتے ہو‘ تو اُس کا ايک ہی علاج ہے کہ اپنی بيٹيوں کو اپنی ہوس کا شکار بناو۔ اور خود باپ نے اپنی ايک دوسری جوان بیٹی کو تانترک کے حوالے کياجو اُسی کے گھرميں اس بچی کی عصمت دری کرتا رہا ۔ يہ واقعہ عروس البلاد ممبئی کا ہے
(3) چار بھائيوں نے راتوں رات دولت حاصل کرنے کے چکر ميں تانترکوں کے کہنے پر اپنی ماں کو بے رحمی سے قتل کردیا ۔ اُن چاروں بھائيوں کو کسی جيوتشی نے يہ بات کہہ دی تھی کہ اُن کے گھر ميں خزانہ موجود ہے.... مگر اسے حاصل کرنے کے ليے اپنی ماں کی بلی دینی ہوگی ۔ تعجب خيزبات يہ ہے کہ چاروں بھائی تعليم يافتہ تھے‘ اُن ميں سے ایک ایم بی اے، دوسرا انجینئراور باقی دو‘ بارہويں جماعت کے طالب علم تھے ۔ يہ واقعہ ہندوستان کی راجدھانی دہلی کا ہے۔
     ایک عام آدمی جب ایسے واقعات کو سنتا اور پڑھتا ہے تو ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کیا آج بھی اِس دھرتی پر چلنے پھرنے والے ایسے لوگ ہیں جو اربابِ بصیرت اور تہذب یافتہ کہلانے کے باوجود جانوروں کی سطح سے نیچے اُترچکے ہیں .... لیکن اگر اِن واقعات کا صدور اُس قوم سے ہو رہاہو جو 33کروڑ دیوتاوں کے سامنے سرٹیکتی ہو ، ہر کنکر کو شنکر مانتی ہو اور شرمگاہ تک کو عقیدت سے پوجتی ہو ‘ تو یہ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی ۔ کیوں کہ جب ایک قوم اپنے خالق اور منعمِ حقیقی سے بے وفائی کر سکتی ہے اور پنڈتو ں اور جوگیوں کو خدائی کا درجہ دے سکتی ہے تو اپنی روزمرہ کی زندگی میں اُنکے حکموں کو عملی جامہ پہنانے میں کیوں کر جھجھک محسوس کرے گی ۔جی ہاں! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج تک ہندوقوم پر اِس خاص طبقے کا ایسا رعب طاری ہے کہ علم وتحقیق کے اِس دورمیں بھی اُن کی باتیں پتھر کی لکیر سمجھی جاتی ہیں چنانچہ یہ جوگی اور تانترک جیسے چاہتے ہيں اس قوم کی عقل سے آج کھلواڑ کررہے ہیں ۔اور یہ سب صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ اُن کا ایمان اللہ پر نہیں ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ جب انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک سے کٹ جاتا ہے ‘ تو وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے ، ہرچیز سے ڈرتا ہے ، یہاں تک کہ اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھاتا ہے ، اپنے ہی جیسے انسان کو نفع ونقصان کا مالک بنا بیٹھتا ہے ،اُس کے سامنے سرٹیکتا ہے اور مادہ پرستی کے رنگ میں ایسا رنگ جاتا ہے کہ اُس کے اندر سے اچھے اور بُرے کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔ وہ انسان نما جانور بن جاتا ہے .... یہاں تک کہ اُسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ جان کی اہمیت کیا ہوتی ہے اور عزت وناموس کیا چیز ہے ؟۔
بہرکیف جب اِس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو اِس سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ ہم جس دین کے علمبردار ہیں اُس میں اس طرح کے خرافات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ اِس کی تعلیم خالص توحید پر مبنی ہے ۔چنانچہ آج سے چودہ سوسال پہلے نبی رحمت نے انسانیت کے سامنے جوپیغام پیش کیا تھا اُس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اللہ کے علاوہ کوئی ذات نفع ونقصان کی مالک نہيں ،اُسی سے مانگا جائے ، اُسی سے لو لگایا جائے ، اُسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جائے ، نیزآپ نے نجومیوں ،جیوتشیوں اور کاہنوں کا پول کھولتے ہوئے اپنی امت کو خبردار کردیا کہ ”جوشخص کسی نجومی کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کی بابت پوچھا تو اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی “ (مسلم) اور ایک دوسری جگہ فرمایا : ” جوشخص کسی کاہن کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو اُس نے محمد(صلى الله عليه وسلم) پر اُتاری گئی شریعت کا انکار کیا “ (ابوداود) ایسا اس وجہ سے کہ مبادااِس امت کا وہی حال ہوجائے جو آج کفارومشرکین کا ہورہاہے۔
لیکن صدحیف ! وہ امت جس کی پہچان توحید سے ہوتی تھی ‘ آج ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اس کے اندر بھی مختلف قسم کی توہم پرستياں پائی جاتی ہيں ۔ امتحان میں کامیابی حاصل کرنی ہو.... یا ....من پسند کی شادی ،.... شوہر کو قبضہ میں کرنا ہو ....یا.... دشمنوں کو ناکام بنانا .... ہر کام کے ليے عاملوں اورجيوتشيوں سے رجوع کيا جاتا ہے، جعلی عاملوں کا سب سے آسان شکار عورتیں ہوتی ہيں ، واقعہ يہ ہے کہ خواتین مردوں سے کئی گنا زیادہ توہم پرست ہوتی ہیں ، اس ليے عامل حضرات اُن کو اپنے چنگل ميں پھنسانے کے ليے طرح طرح کے ڈرامے کرتے ہيں ۔اور یہ بھولی بھالی عورتیں شوہر کے خون پسینے کی کمائی ایسے عاملوں کے حوالے کر دیتی ہيں‘ جو حقیقت میں فراڈ ہوتے ہيں جن کا کام ہی رنگ بازی اور ٹھگی کرکے دولت کمانا ہوتا ہے ۔
آج وقت کا تقاضاہے کہ سادہ لوح عوام کواِس فتنے کی خطرناکی سے آگاہ کیاجائے جواس کے ایمان کا سودا کررہاہے، اس کے ليے سب سے پہلے ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگوں کواللہ تعالی کی ذات وصفات اور اُس کی عظمت سے واقف کرایاجائے ،لوگوں کے سامنے اُن جعلی عاملوں، جیوتشیوں اور نجومیوں کا پول کھولا جائے اوراُن سے رجوع کرنے پر شرعی وعيدیں بتائى جائیں، منصوبہ بندی کے ساتھ عقائد پرمشتمل کتابچے اور پمفلٹ تیار کرکے لوگوںمیں تقسیم کیا جائے اور اُن کے شبہات کے ازالہ کے ليے خاص مجلسیں منعقدکی جائیں۔جب تک عقیدے کی اصلاح نہ ہوگی اصلاحِ معاشرہ کا خواب شرمندہ تعبيرنہیں ہوسکتا ۔


مکمل تحریر >>

دشمن کی عياری بھی ديکھ

پچھلے دنوں غزہ ميں اسرائيلی بربريت کا جو ننگا ناچ ناچا گےا اور جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی يہ اسرائيل کے اسلام دشمنی کی زندہ مثال ہے۔اسرائيلی ٹينکوں، بموں اور ميزائيلوں کی موسلادھار بارش نے تقريباً تيرہ ہزار مسلمانوں کو شہيد کرديا ہے اور پانچ ہزار سے زائد زخمیوں کوکراہنے پرمجبورکياہے۔ ان بيواوں، يتيموں اور مظلوموں کی آہ وبکا کے ذکرسے آنکھيں اشک بار ہوجاتی ہيں ، دل پھٹنے لگتا ہے اور جگرقاش قاش ہوا چاہتا ہے ۔
ليکن اسرائيلی دہشت گردی کا يہ سانحہ کوئی نيا نہيں ہے ، اسرائيل کا 60سالہ دوراقتدار گواہ ہے کہ اس نے ہرموڑ پر انسانی حقوق کوپامال کيا ہے بلکہ ہميں کہنے ديا جائے کہ يہود کی تاريخ روزاول سے بے وفائی ، غداری اور فريب کاری سے پُرہے ۔پوری انسانی تاريخ ميں شايد ايسی قوم پيدا نہ ہوئی ہو جس نے اللہ کی بے پناہ نعمتوں کو پانے کے باوجود مسلسل بدعہدی ، ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ اپنائی ہو چنانچہ ان پر اللہ تعالی کے عبرتناک کوڑے برسے ، بھانت بھانت کی آفتيں آئيں، مغضوب وملعون ٹھہرے اور کتنے جانوروں کی شکل ميں بدل ديئے گئے ۔ پھرہردور ميں زمانے کے ہٹلر نے ان پرايسے ايسے مظالم ڈھائے کہ جنہيں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہيں، در در کی ٹھوکريں کھائی ، پھربھی ان کی شرست نہ بدلی ۔
مرورايام کے ساتھ جب اسلام کا آفتاب يثرب کی وادی ميں طلوع ہوا تويہودگويا اسی دن سے ہاتھ دھوکراسلام کے پيچھے پڑ گئے ،آپ کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو توڑا ، مسلمانوں کی اذيت کا باعث بنے ، اسلام کے شاداب پودے کو بيخ وبن سے اکھاڑ پھينکنے کے ليے مختلف قبائل کواکساکر آپ کے خلاف ميدان جنگ ميں اُتارا ، جب انکے پيروں سے زمين کھسکتی نظر آئی توعبداللہ بن سبا اور اس کے ہم مشرب لوگوں نے نفاق کا لبادہ اوڑھ ليا تاکہ اندر سے امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردياجائے ؛جمل وصفين کے معرکے ، حضرت عثمان ؓ وحضرت علی ؓ  کی شہادت اوراسلام ميں مختلف فرقوں کاظہور ‘ يہ سب يہودی ذہنيت ہی کا شاخسانہ ہے ۔
شيطان کے بعد منظم پلاننگ، منصوبہ بندی اور عياری کے ساتھ کام کرنے والی قوم اگر دنيا ميں ہے تو وہقوم يہود “ہے ،انکے عزائم ہميشہ جواں رہتے ہيں ، ان کا خواب ہے پوری دنيا کو اپنے تابع اور مسخر کرنا ، جس کی صراحت انہوں نے سن1897 ءميں سوئزرلينڈ ميں منعقدہ يہودی عالمی کانفرس کے دستاويز بنام ” صہيونی حکماءکے سياسی پروٹوکول“ ميں واضح انداز ميں کی ہے ۔يہی وجہ تھی کہ يہوديت کے نبض شناس سيدنا عمربن خطاب ؓ نے جب فتح بيت المقدس کے بعد اہل ايليا سے معاہدے کے شرائط طے کی تھی ‘تو ان ميں ايک شرط يہ رکھی تھی کہ بيت المقدس ميں نصرانيوں کے ساتھ کوئی يہودی رہائش اختيار نہيں کرے گا ۔
يہ شرط خليفہ ثانی کی دور انديشی اور دانشمندی پر مبنی تھی کہ مبادا يہوداپنی شاطرانہ چال کے ذريعہ اس سرزمين کوسياسی بازےگری کا آلہ کار بنالے۔چنانچہ تاريخ بتاتی ہے کہ تيرھويں صدی عيسوی تک ايک يہودی بھی فلسطين ميں نہ تھا، سن  1267ءميں پہلی بار دو يہودی آئے ، اس کے بعد سے ہی فلسطين ميں يہوديوں کی آمد شروع ہوگئی اور ہم غفلت وبے حسی کی چادر تانے سوئے رہے ۔ پھر جب سن 1887 ءميں فلسطين پر قبضہ کرنے کے مقصد سے ”صہيونی تحريک “ تشکيل دی گئی تو يہود کے سرمايہ داروں نے اس تحريک کی پشت پناہی کی، مکار يہوديوں نے منہ مانگی قيمتيں دے کر مسلمانوں کی زمينيں خريدی، محلات بنائے ، يہوديوں سے ارض فلسطين کی طرف ہجرت کرنے کی التجا کی گئی بالآخر جب زمين زرخيز ہوگئی تو اسرائيل نے14مئی 1948ءميں مسلمانوں سے غصب کی ہوئی زمين پرصہيونی رياست کی داغ بيل ڈال دی ۔ جس نے نہ جانے اب تک کتنے بچوں کو يتيم بناياہے ، کتنی بيويوں کو رانڈ کيا ہے ، کتنی دوشيزاوں کے سہاگ لوٹے ہيں اورکتنی ماوں کی ممتا کا خون کيا ہے ليکن اسرائيل کی يہ بربريت محض ايک وسيلہ ہے، منزل نہيں۔منزل تو وہ ہے جس کا ذکر اسرائيلی پارليامنٹ کی عمارت کی پيشانی پرکيا گيا ہے ” اے اسرائيل تيری حديں نيل سے فرات تک ہيں “ جی ہاں! اسرائيل کا نصب العين پوری دنيا کو اپنے زيرنگيں کرناہے ، ليکن اس کے عزائم ميں مصر سے لے کر شام اور مدينہ منورہ سميت حجاز سرفہرست  ہيں جس کی شروعات مسجد اقصی کے انہدام اور اس ميں ہيکل سليمانی کی تعمير کی پاليسی سے ہے ۔ اس خواب کوشرمندہ تعبير کرنے کے ليے مختلف تيارياں کی جا چکی ہيں اب صرف وقت کا انتظار ہے ۔
بيت المقدس عام مساجد کے جيسے نہيں بلکہ اس سے ہمارا ايمان اور عقيدے کا تعلق ہے ، اس سے ہميں ويسی ہی محبت ہونی چاہئے جيسی محبت حرمين شريفين سے ہے کيونکہ يہ روئے زمين پر بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے ، مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، جہاں سے حضور پاک صلى الله عليه وسلم کو معراج کرايا گيا تھا ، جس ميں ايک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ، ، جس سرزمين کو بابرکت قرار ديا گيا ہے ، اور جس ميں دجال کا داخلہ ممنوع ہے ۔ اگر يہ پاک مسجد ہمارے ہاتھ سے چلی گئی تو امت مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ غزہ کے شہداءجنہوں نے اسلام کی سربلندی کے ليے سرزمين فلسطين کو لالہ زار بنايا ہے وہ اپنے رب کے انعامات سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ‘ اس ميں ہميں غم واندوہ کا احساس اس قدر نہيں ہے جس قدر اس وقت ہوگا جب مسجد اقصی ہمارے ہاتھ سے چھن جائے گی ۔

ليکن ہميں يہ با ت نہيں بھولنی چاہيےکہ دشمن کی تدابير جس قدر بھی منظم اور مربوط ہوں ‘ رات کے بعد دن اور تاريکی کے بعد روشنی کا آنا يقينی ہے لہذا شب ديجور سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہيں۔ شايد وہ وقت قريب ہے کہ حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی پيشين گوئی کے مطابق مسلمان‘ يہوديوں کا صفايا کرديں گے ، يہاں تک کہ ايک يہودی اگرکسی پتھر اور درخت کی اوٹ ميں روپوش ہوکر پناہ لينا چاہے گا توپتھراور درخت گويا ہوگا : ” اے مسلمان! اے اللہ کے بندے ! يہ يہودی ميرے پيچھے چھپا ہوا ہے ، آؤاور اِسے قتل کردو۔ سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہيں بولے گا) کيونکہ وہ يہوديوں کا درخت ہے“ ۔ (مسلم)
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دينی تعليمات کے مطابق زندگی گزاريں، گناہوں سے پرہيزکريں، اپنی نئی نسل کی دينی تربيت کريں، انکے اندر اولوالعزمی اور بلندحوصلگی پيدا کريں تاکہ وہ صلاح الدين ايوبی کا نمونہ بن سکيں ۔ رہے نام اللہ کا
صفات عالم محمد زبير تيمى
مکمل تحریر >>