بدھ, ستمبر 16, 2009

امانت مں خيانت

وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ( آل عمران 161) 

ترجمہ :
جو شخص خيانت کرے گا وہ خيانت کردہ چيز کو قيامت کے دن لے کر آئے گا پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ديا جائے گااور وہ ظلم نہ کيے جائيں گے“( آل عمران)

تشريح:
 اگر کسی کو امانت کا مال سونپا گيا ہے تواس کا فرض بنتا ہے کہ مال کو صحيح مصرف ميں استعمال کرے ،اگر اس نے غلط سلط حساب کر کے امانت ميں خيانت کی تو اُسے ياد رکھنا چاہيے کہ کل قيامت کے دن خيانت کردہ چيزوں کو اپنے کمر اور پيٹھ پر لادے ہوئے اللہ کے دربار ميں حاضر ہوگا ۔

 اس سلسلے ميں بخاری ومسلم کی ايک طويل حديث ہے جس ميں آيا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ايک دن وعظ فرمايا اوراس ميں خيانت کا ذکر خصوصيت سے کيا نيزاس کی شناعت بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ جس نے دنيا ميں جو کچھ خيانت کی ہوگی ‘ اسے اپنے گردن ميں لادے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوگا، آپ سے سفارش کی درخواست کرتے ہوئے کہے گا يارسول اللہ ! ميری امداد فرمائيے۔ آپ اس وقت صاف جواب دے ديں گے لَا املِکُ لَکَ شيئا قد أبلغتك ميں تيرے ليے کسی چيز کا مالک نہيں ہوں‘ نہ تيری امداد کر سکتا ہوں ، دنيا ميں ميں نے تجھے يہ بات پہنچا دی تھی۔
اور صحيح بخاری کی روايت ہے ايک مرتبہ آپ کے ايک خادم نے غنيمت سے ايک چادر چرالی تھی ، جہاد ميں تير لگنے سے شہيد ہو گيا ، لوگوں نے اس کی شہادت پر مبارکباد دی کہ جنت مبارک ہو يعنی شہيد ہو گيا جنت ميں جائے گا ۔

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا :
” ہرگز نہيں خدا کی قسم ! جس چادر کو خيبر کی جنگ ميں اس نے چراياہے اور وہ تقسيم نہيں ہوئی تھی وہ چادر اس غلام پر دوزخ کی آگ بھڑکا رہی ہے“ ۔
يعنی ايک چادر کی خيانت کی وجہ سے وہ دوزخ ميں گيا ۔ جب لوگوں نے يہ وعيد سنی تو ڈر کے مارے ايک صاحب اٹھے اور چمڑے کے ايک يا دو تسمے لاکر آپ کی خدمت ميں پيش کردی آپ نے فرمايا : ”يہ ايک يا دو آگ کے تسمے ہيں“ ۔
آج مسلم معاشرے ميں خيانتيں بالکل عام ہوتی جا رہی ہيں، آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو اپنے بھائيوں کو دھوکہ دے کر ان سے پيسے اينٹھتے ہيں ۔ آج کتنے ايسے لوگ ہيں جو قرض کے بہانے دوسروں سے پيسے ليتے ہيں اور فرار ہوجاتے ہيں کيا ہميں اللہ کا ڈر نہيں ؟ يہ نہ سمجھيں کہ جےسے چاہيں پيسے بٹور ليں اس کی کوئی پوچھ گچھ ہونے والی نہيں ؟ جن جن لوگوں کو چکما دے کر ان کا مال کھائے تھے کل قيامت کے دن سارے لوگ دعويدار بن کر ہمارے سامنے آئيں گے ، اس دن پيسے تو ہوں گے نہيں کہ دعوےداروں کو چکا سکيں تاہم نيکياں ہوں گی ، چنانچہ ہماری ايک ايک نيکی دعويداروں کو دے دی جائے گی ، جب نيکياں ختم ہو جائيں گی اور دعويدار باقی رہ جائيں گے تو دعويداروں کے گناہوں کو لے کرہمارے سر پر تھوپ ديا جائے گا ۔ پہاڑوں جيسی نيکياں لے کر آئے تھے ليکن ابھی گناہوں کا پتلہ بن کر رہ گئے چنانچہ فرشتے کو حکم ہوگا کہ اسے دبوچ کر جہنم کی کھائی ميں پھينک دو.... يہی ہے حقيقی افلاس ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔