جمعرات, اگست 09, 2012

ابرا هيم جمال صاحب كے نام

ابرا هيم جمال صاحب
سلام مسنون 

مجلہ مصباح اردو زبان میں کویت سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت مجلہ ہے جو دعوتی اوراصلاحی موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ مثبت اسلوب میں عقائد کی اصلاح بھی اس کا بنیادی ہدف ہے ۔ 
آپ نے ہمیں ایک مضمون  ارسال کیا اس کے بعد بالكل بھول ہى گئے ، آج تک اس مقالے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، واقعی لوگوں نے آپ کی تحریر کو بہت پسند کیا ، تصور کیجئے کہ آپ کہاں ہیں اور کہاں آپ کی تحریر پہنچ کر امت مسلمہ میں بیداری لانے کا سبب بن رہی ہے ، اگر ممکن ہوسکے تو ضرور یہ سلسلہ جاری رکھیں، مضامين کسی بھی کالم سے متعلق لكه سكتے ہیں ۔ البتہ ہميں جن کالمز ميں زياده مضامين دركار ہوتے ہیں وہ ہیں ”گوشہ خواتین “ ”باغیچہ اطفال “ ”درس قرآن وحدیث “ ” اصلاح معاشرہ “ ہمیں آپ کے مضمون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔ اللہ آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے ، ہم آپ کی نگارشات کے چشم براہ ہیں، ہم نے آپ کی مخلصانہ باتیں پڑھیں، اللہ تعالی سارے مسلمانوں کی پریشانیاں دور فرمائے۔ آمین

مکمل تحریر >>

طلبہ جامعہ امام ابن تیمیہ کے نام


آج میری چھٹی کا دن ہے ، میرے لیے چھٹی تو نام کى ہوتی ہے کیوں کہ اس دن میری مشغولیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ، ليكن آج میں مادرعلمی کے خوشہ چینوں کو پہلے اپنے دل کی آواز سناؤں گا، اس کے بعد ہی کوئی کام کروں گا۔ توچلتے ہیں اپنے عزیز بھائیوں کی طرف ۔
میرے پیارے بھائیو! آپ طلب علم میں مشغول ہیں، آپ کا مقام نہایت اعلی ہے ، آپ انبیاءکی وراثت حاصل کررہے ہیں، زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں، دین ودنیا دونوں کی کامیابی کا سامان جمع کررہے ہیں، آپ کے لیے ساری مخلوق حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعاگوہیں۔ میں نے بھی اسی چمن میں اپنی زندگی کا اچھا خاصا وقت گنوایا ہے ، جی ہاں! گزارا نہیں ہے بلکہ گنوایا ہے ۔ زندگی کا اچھا خاصا وقت لایعنی اور بیکار کاموں میں برباد کرلیا ۔ مجھے اس کا احساس ہے ،اسی لیے آج میں اپنے دلی جذبات آپ تک پہنچانے بیٹھاہوں .... اپنی کوتاہیوں کو یاد دلانا چاہتاہوں تاکہ آپ ان سے بچ سکیں ....سلف کے قصے سنانا چاہتاہوں تاکہ آپ کی ہمت کو مہمیز لگے ۔ آپکی خیرخواہی کا حق اداکرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اسے حرزجاں بنالیں۔

عزیز بھائیو! یوں توپڑھتے بہت سارے بچے ہیں لیکن کامیاب چندہی ہوتے ہیں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ کامیابی محنت کے اندازے سے حاصل ہوتی ہے ، جس قدر محنت ہوگی اسی کے تناسب سے کامیابیاں بھی ملیں گی ۔ صحت اور فرصت دونوں بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ اکثر لوگ اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ جامعہ ایک تربیت گاہ ہے ، یہ ایک سنہری فرصت ہے ، آج میں ترستاہوں کہ کاش وہ زمانہ پھر لوٹ آتا تو میری وہ حالت نہ ہوتی جو پہلے تھی لیکن یہ قانون فطرت ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔

عزیز بھائیو! اپنی ہمت بلند رکھیں ،احساس کمتری کے شکار نہ ہوں ،محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ایک نہ ایک دن رنگ لاتی ہے ۔ آج جس قدر جسم کو ذلیل کریں گے کل اسی قدر عزت واحترام پائیں گے ۔ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ ہوتا جاتا نہیں .... بلند ہمت انسان کی پہچان ہے کہ وہ پُرعزم ہوتاہے ۔سستی اسے چھوکر بھی نہیں جاتی ۔ وہ دنیا کے بکھیروں میں نہیں پڑتا، اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات گردش کرتی ہوتی ہے کہ
 مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے ۔
 آسان پسندی ، بے مقصدیت اور عیش کوشی ایک مسلمان کا شیوہ نہیں چہ جائیکہ طالب علم کا شیوہ ہواور وہ بھی ایسا طالب علم جو اپنی نسبت ابن تیمیہ کی طرف کرتا ہو۔ خالد بن صفوان سے کسی نے عرض کیا کہ کیا بات ہے کہ جب میں آپ لوگوں کے ساتھ احادیث کا مذاکرہ کرنے بیٹھتا ہوں تو مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ تم انسان کی شکل میں شیطان ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایک حریص اور علم کا جویا کبھی بھی علمی مجالس سے تھکتا نہیں بلکہ اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔

عزیز ساتھیو ! ابھی آپ کو رہنمائی کی بہت ضرورت ہے ، علم کے میدان میں شرم زہرہلاہل ہے ،بلا جھجھک ہرکسی سے اپنے کیرئر کے تئیں مشورہ لیں ، کیا پڑھیں کیا نہ پڑھیں اس سلسلے میں اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں ۔ ساری باتیں کتابوں میں نہیں ہوتیں ۔ اور اگر ہیں بھی تو انہیں سمجھنے کے لیے اساتذہ کی رہنمائی درکارہے ۔ اساتذہ کی عزت کرنی چاہیے ۔ ان کی صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تصور عام ہوگیا ہے کہ استادہے تو صرف کلاس کے وقت .... ادھرکلاس ختم ہوا اورادھر استاد سے رابطہ بھی ختم.... اس سے طالب علم بہت ساری رہنمائیوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔
نیتوں میں اخلاص پیدا کریں : دین الہی کی خدمت کے جذبہ سے تعلیم حاصل کریں، روایتی تصور کو ذہن سے بالکل نکال دیں کہ اس میدان میں غربت کا سامنا کرنا پڑے گا ، مالی حالت خراب رہے گی ، ایسا تصور ذہن میں بٹھانے والے بچے کامیاب نہیں ہوتے ۔ استاذ محترم شیخ کفایت اللہ سلفی رحمه الله سے جب میں نے ایک بار ایسی ہی کچھ شکایت کی تھی تو بہت پیار سے انہوں نے کہاتھا کہ عزیزم ! تمہارا جو کام ہے وہ کام کرتے رہو .... راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائے گا ۔ آپ نے تو یہ حدیث تو پڑھی ہی ہوگی کہ ” جس شخص کی تگ ودو آخرت کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کی شیرازہ بندی کرتا ہے ،اس کے دل میں بے نیازی پیدا کردیتا ہے اور دنیا اس کے سامنے جھک کر آتی ہے اور جس شخص کی ساری تگ ودو حصول دنیا کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے معاملے کو منتشر کردیتا ہے ، اسکی آنکھوں کے سامنے اس کے فقروفاقہ کو ظاہر کردیتا ہے اور اسے دنیا اسی قدر حاصل ہوتی ہے جس قدر اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہوتا ہے “ ۔ (ابن ماجہ)

مجھے یاد آتاہے جس وقت میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا تھاشاید پہلی بارتھا کہ میں نے بانی جامعہ محترم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کوفون کیا، اپنے داخلہ کی اطلاع دی ۔تو بہت خوش ہوئے ، مبارکباد دی، اورجب میں نے ان سے مختصر نصیحت کی گزارش کی توآپ نے صرف ایک جملہ کہاتھا کہ
 أخلص نیتک واتق اللہ ۔
 یہ نصیحت کیا تھی گویا دریا کوکوزے میں بند کردیا گیا تھا۔ کاش کہ اللہ پاک آج بھی ہمارے اندر وہ صفت پیدا کردے ۔

اب میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ اگلی نشست میں مزید کچھ باتیں ہوں گی ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ
مکمل تحریر >>

بدھ, اگست 08, 2012

محمد خالد اعظمی صاحب کے نام

برادرگرامی قدر محمد خالد اعظمی صاحب 
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امید کہ حالات بخیر ہوں گے ۔ 

سب سے پہلے ہم آپ کے بیحد سپاس گذار ہیں کہ آپ ہر ماہ ماہنامہ مصباح کے لیے وقت دیتے ہیں اور قلمی تعاون پیش کرکے ہمارا ہاتھ بٹاتے ہیں ، دعا ہے کہ ہم سب نے دعوتی میدان میں جو کچھ کیا ہے اللہ پاک اسے اپنی رضا کے لیے قبول فرمالے ،آمین ۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو بہریوں کے تعلق سے کسی نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ ان کے تئیں معلومات مسلمانوں کو فراہم کی جاتی رہی ہے لیکن براہ راست ان کو اب تک خطاب نہیں کیا گیا ہے کیا اللہ پاک کل قیامت کے دن ان کے بارے میں ہم سے نہیں پوچھیں گے ؟ ہمیں اس کی ذمہ داری ابوانس نے دی تھی لیکن ڈیوٹی کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ہم سے یہ کام نہ ہوسکا، اورکاموں کے ہجوم میں ابھی بھی یہ کام نہیں ہوسکتا ، سال کے اخیرتک مجھے عربی زبان میں ”کیف تدعوالھندوس الی الاسلام؟ کے موضوع پر دعوتی گائڈ تیارکرکے دیناہے، اسی لیے میں نے آپ کو ذمہ داری دی تھی ،کویت کی حد تک غورکیا جائے تو بہری کویتی منڈیوں اورتجاری اداروں پر قابض ہوتے جارہے ہیں جو مسلمانوں کے لیے بالعموم اوراہل کویت کے لیے بالخصوص خطرے کی گھنٹی ہے ۔ ابھی تو وہ اقتصادی ناکہ بندی کریں گے پھر مذہبی ناکہ بندی بھی شروع کرسکتے ہیں ، 
میں ذاتی طور پر اس کام کی بیحد ضرورت محسوس کررہاہوں ، یہ کام وہی کرسکتا ہے جو دعوتی شعور رکھتا ہو، اوربہریوں کے عقائد کی روشنی میں براہ راست ان سے خطاب کرسکے ۔ 
مسئلے کی نزاکت پر سنجیدگی سے غورکرکے فوری فیصلہ لینے کی ضرورت ہے ۔ میری تجویز تھی کہ آپ ہی اس کام کو انجام دیتے ۔ مولاناطاہر مدنی صاحب ابھی کویت میں تشریف رکھتے ہیں اور دیگر علماء بھی رمضان کے بابرکت ایام میں کویت تشریف لاتے ہیں ان سے مل کربآسانی کام کیا جاسکتا ہے ۔ میرے پاس بہریوں کے تعلق سے اردو زبان میں کچھ کتابیں بھی دستیات ہیں،اگر حامی بھریں تو وہ کتابیں میں پہلی فرصت میں آپ کے حوالے کرتا ہوں۔ 
امید کہ میری پکار صدا بصحرا ثابت نہ ہوگی ۔ 
والسلام 

مکمل تحریر >>

بدھ, اگست 01, 2012

تین بہترین اموال


’’عن ثوبان رضي الله عنه قال لما نزلت الذین یکنزون الذھب والفضة، کنا مع ألنبی صلي الله عليه وسلم فی بعض أسفارہ فقال بعض أصحابہ نزلت فی الذھب والفضة، لو علمنا أی المال خیر فنتخذہ۔ فقال أفضلہ لسان ذاکر وقلب شاکر وزوجة مؤمنة تعینہ علی إیمانہ ،، ( رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ )

ترجمه :” ثوبان رضي الله عنه سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( جس کا ترجمہ ہے ) "جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں....“ اس وقت ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں شریک تھے اس آیت کو سن کر بعض صحابہ کرام نے کہا یہ آیت سونے اور چاندی ( کی مذمت ) میں نازل ہوئی ہے۔ کاش ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال بہتر ہے ہم ( سونے چاندی کے بجائے ) وہ مال حاصل کر لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بہترین مال وہ زبان ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور وہ دل ہے جو شکر ادا کرتا ہو اور وہ ایمان دار بیوی ہے جو دینی معاملات میں خاوند کی مددگار بنتی ہے۔ “ ( احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

تشریح: زیرنظر حدیث میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دینی جذبہ کا ایک نمونہ پیش کیا گیاہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ نفوس قدسیہ نیکیوں کی رسیا تھیں، ان کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیکیاں حاصل کر لیں اور ایسا عمل کریں جو دنیا و آخرت کے ليے نفع بخش ہو۔ جب سفر کے دوران ’’ والذین یکنزون الذھب والفضة تا آخر‘‘

سورہ نازل ہوئی تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ سونا چاندی جمع کرنا تو جہنم کی آگ کو دعوت دینا ہے۔ لہٰذا ہمیں کسی ایسے مال کا علم ہو جائے جو ہمارے ليے نفع بخش ہو۔ ہم وہ مال جمع کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن کر فرمایا تین چیزیں بہترین مال ہیں۔

1.   پہلی چیز وہ زبان ہے جس پر ہمیشہ اللہ کا ذکر جاری رہتا ہو۔ اسلام نے زبان کی حفاظت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے سچی زبان، عمدہ کلام اور خوش گفتاری بہترین مال ہے

2.   دوسری بہترین چیز جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا ہے وہ ایسا دل ہے جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو۔ شکر گزار بندہ ہمیشہ صاف دل والا ہوتا ہے اور جو دل اللہ کی یاد سے غافل ہو وہ شکر ادا نہیں کرتا

3.    تیسری چیز جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال قرار دیا وہ ایمان دار بیوی ہے جو نیکی کے کاموں میں اپنے خاوند کا ہاتھ  بٹائے۔ نیک کاموں کی ادائیگی کے ليے اسے فارغ رکھے، ہمیشہ اپنے ہی معاملات میں نہ پھنسائے رکھے بلکہ نیکی کا سبق بھی دے اور نیکی کرنے کے ليے اسے وقت بھی دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ” وہ جوڑا انتہائی خوش بخت جو ایک دوسرے کو نماز کے ليے جگائے اور نیکی میں معاونت کرے۔
اس لیے ہر شخص کو چاہيے کہ زبان کی ایسی تربیت کرے جو اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے لگے،  دل کی ایسی تربیت کرے جو خوشی وغم ہر حال میں تقدیر الہی پر راضی ہو اور ہمہ وقت شکر الہی کے جذبات سے معمور ہو۔ نیز بیوی کی ایسی تربیت کرے جو دینی معاملات میں اس کی مددگار بن جائے ۔

اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔ آمین


مکمل تحریر >>