بدھ, دسمبر 18, 2013

شريعت اسلاميہ پانچ ضرورى مقاصد كو تحفظ فراہم کرتى ہے

اسلام ساری انسانیت کے لیے آیاہے، ہرزمانے کے لیے ہے، اور ہر خطے میں اس کی تعلیمات کے مطابق ایک پرسکون معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔اسلام انسان کی پانچ بنیادی ضرورتوں کا رکھوالا ہے ۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اسلام انسانیت کی نجات کا ضامن ہے ، اسلام دین کی حفاظت کرتا ہے، جان کی حفاظت کرتا ہے،عقل کی حفاظت کرتا ہے،عزت کی حفاظت کرتا ہے،اور مال کی حفاظت کرتا ہے ۔ ان پانچ بنیادی ضرورتوں کا تحفظ جو قومیں کرتی ہیں وہ ہردورمیں مہذب اورترقی یافتہ کہلاتی ہیں ۔ اسلامی شریعت میں ان پانچ امور کو کلیات خمسہ،یا مقاصد شریعت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ شریعت کے یہ پانچ مقاصد اورکلیات ہیں جن کے تحفظ کا اسلام پابند ہے ۔ذیل کے سطورمیں ان پانچ کلیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے :

 اسلام دین کو  تحفظ فراہم کرتا ہے:

اسلام انسانی عقائدکو ایمان کے بنیادی ارکان کے ذریعہ دلوںمیں پیوست کرتا ہے ،اوریہ عقائد کوئی موروثی یا تقلیدی نہیں بلکہ معقول اورمنطقی دلائل پرمبنی ہیں، قرآن پاک میں اللہ پاک نے آفاق وانفس کی ایسی کھلی نشانیاں بیان کی ہیں جن کو دیکھ کر ایک بندہ فطری طورپر اللہ کی ذات پر ایمان لانے پرمجبورہوتا ہے اوراس کے قانون کا پابند ہوجاتا ہے ۔ اس پابندی کے لیے اسلام بندے کوعبادات کا ایسا کورس دیتا ہے جن کی بدولت ایمان میں استحکام پیدا ہوتا ہے اوراپنے خالق سے اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے ،اس کے بعد اسلام بندے کو مکلف کرتا ہے کہ وہ جس عقیدے پرایمان لایا ہے اوراس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گذاررہا ہے اس کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دے ۔
ا سلام کا دعوی ہے کہ یہی دین حق ہے ،اسلام کے علاوہ اورکوئی دین بندے سے قبول نہیں کیاجاسکتا، دنیا کی درستگی اور آخرت کی کامیابی کے لیے اللہ کا اتارا ہوا یہ نظام حیات ہے، اس کے باجود اسے اپنانے اورنہ اپنانے میں انسان کو اختیار دیاگیا، اسلام کسی پر اپنا عقیدہ زبردستی نہیں تھوپتا ،اللہ تعالی نے فرمایا: 
لا إکراہ فی الدین ( سورة البقرہ 256)
"دین کے معاملے میں کوئی زورزبردستی نہیں".
یہ آیت کریمہ اس پس منظر میں نازل ہوئی کہ چند انصاری صحابہ کے بیٹے اب تک یہودی یاعیسائی دين پر تھے انہوں نے اپنے بچوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہا تو اللہ پاک نے یہ آیت کریمہ نازل فرمادی جس میں ان کو مجبور کرنے سے منع کردیاگیا ۔ اسلام نے غیرمسلموں کو مذہبی آزادی ہی نہیں دی بلکہ ان کے لیے ایسے قوانین دئیے جن کے تناظر میں وہ اپنے مذہبی شعائر کو بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔ دین کے تحفظ کی خاطر اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ غیرمسلموں کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں مباداکہ وہ جہالت کی بنیاد پر اللہ کو سب وشتم کا نشانہ بنائیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
  وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ  ( الأنعام 108 )
”اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں“
لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ جب کوئی پوری قناعت کے ساتھ اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ پھر اس سے پھر جائے، یہ تو بہت بڑی غداری ہے، جب بادشاہ کے ساتھ غداری یا محکمہ افواج کے سربستہ رازوں کے افشا پر ملک موت کی سزا دے سکتا ہے تو جو انسان اللہ کے اتارے ہوئے قانون کا پابند بن کر پھر اس کی اطاعت کا قلادہ گردن سے نکال پھینکتا ہے حالانکہ اسے اپنانے میں اسے اختیار تھا ظاہر ہے ایسے انسان کی سزا موت ہی ہونی چاہیے کہ وہ ایک توخالق کائنات کے ساتھ غداری کررہاہے تودوسری طرف سماج میں فکری انتشارکا باعث اورضعیف الاعتقادلوگوں کے لیے فتنے کا سبب بن رہا ہے، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من بدل دینہ فاقتلوہ (صحیح بخاری )
 "جو مرتد ہوجائے اسے قتل کردو"۔
غرضیکہ اسلام دین حق ہونے کے باجود ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق چلنے کی اجازت دیتا ہے،اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتا۔ سچائی یہ ہے کہ اسلام ہر انسان کو مذہبی تحفظ فراہم کرتا ہے ۔

 اسلام جان کو تحفظ فراہم کرتا ہے:

اسلام کی نظر میں ساری جانیں برابر تحفظ کا حق رکھتی ہیں،کھانا، پینا، لباس وپوشاک اوررہائش یہ انسانی زندگی کی بقا کے وسائل ہیں اسلام انہیں اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جان کی حفاظت ہوسکے، بلکہ بسااوقات اسلامی حکومت زندگیکے یہ لوازمات فراہم کرنے کی پابند ٹھہرتی ہے، اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جان کی حفاظت کے لیے قضا وکورٹ، حفاظتی دستوں اورمحکمہ افواج کا انتظام کرے، اسلام کو جا ن کی حفاظت اس قدرمطلوب ہے کہ دوسروں پر زیادتی کو حرام ٹھہراتا ہے،چاہے وہ مسلم ہو يا غير مسلم، کسی فرد کے قتل ناحق کو پوری انسانيت کا قتل قرار ديتا ہے :
مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ  ( سورہ مائدہ آيت نمبر 32)
” جو کوئی کسی انسان کو جبکہ اس نے کسی کی جان نہ لی ہو يا زمين ميں فساد برپا نہ کيا ہو، قتل کرے تو گويا اس نے تمام انسانوں کو قتل کرڈالا اور جو کوئی کسی ايک جان کو (ناحق قتل ہونے سے ) بچائے‘ تو گويا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی“ ۔ 
اورصحیح بخاری کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 ”جو کوئی اسلامی حکومت ميں رہنے والے غيرمسلم کو قتل کرديتا ہے ‘ وہ جنت کی بو تک نہ پائے گا حالانکہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت سے آرہی ہوگی “ ۔
اورایک مومن کی جان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ سخت ہے ،اسی لیے سنن ترمذی کی روایت ہے ،ابن عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ کعبہ کا طواف کررہے تھے اورفرمارہے تھے : 
ما أطيبك وأطيب ريحك ما أعظمك وأعظم حرمتك والذي نفس محمد بيده لحرمة المؤمن أعظم عند الله حرمة منك  ( سنن الترمذى ) 
"کس قدر تو پاکیزہ ہے اورتیری خوشبو پاکیزہ ہے ،کس قدرتو عظیم ہے اورتیری حرمت عظیم ہے ،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ایک مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ “
اسی لیے ساری مخلوق اگر ایک مومن کے قتل میں شریک ہوجائے تو سب کی سب جہنم کی حقدار ہوگی ، سنن ترمذی کی روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لوأن اھل السماءوالأرض اشترکوا فی دم مؤمن لأکبھم اللہ فی النار (سنن الترمذي)
"اگر سارے آسمان اورزمین والے ایک مومن کے قتل میں شریک ہوں تو سب کو اللہ تعالی جہنم میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔"
اوراگر کسی نے کسی کو ناحق قتل کردیا تو اسلام قصاص کے طورپر اسے بھی قتل کردینے کا حکم دیتا ہے ،کہ اگر قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کردیاجائے تو ہزاروں انسانوں کو ڈر لاحق ہوگا اور قتل کی جرأت نہ کرسکیں گے، اس طرح لوگوں کی جانیں محفوظ ہوں گی ،اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
 ولکم فی القصاص حیاة یا أولی الألباب  (سورة البقرة 179)
”عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے ۔ “
اور اگر غلطی سے كسى كا قتل ہوجاتا ہے جسے "قتل خطا" كہتےہيںتو ایسی حالت میں مقتول کے ورثاءکے لیے دیت اورکفارہ طے کیاگیا ہے۔

اسلام عقل کو تحفظ فراہم کرتا ہے:

عقل کی بدولت ہی انسان مکلف ٹھہرتا ہے ،اسلام عقل سے کام لینے کی تاکید کرتا ہے،عقل کی مادی اورمعنوی طریقے سے افزائش پر زور دیتا ہے ،عقل کی مادی افزائش یہ ہے کہ بہترین اورصحت بخش غذا کا استعمال کیاجائے اورعقل کی معنوی افزائش یہ ہے کہ علم کے ذریعہ عقل میں وسعت پیدا کی جائے، اسلام نے عقل کو خرافات اوراوہام پرستی سے پاک کیا ،کاہنوں،نجومیوں اور جیوتشیوں کے چکروں سے آزادى عطا كى، پھر ہر اس کام کو حرام ٹھہرایا جو انسانی عقل کو متاثر کرے ،چنانچہ  نشہ آوراشیاء کے استعمال پر روک لگادی گئی۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
 یا أیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ ( سورة المائدہ 90)
"اے ایمان والو! بیشک ،شراب ،جوا ،استھان ، اورپانسے کے تیر یہ سب شیطانی کام ہیں اس لیے ان سے بچو۔"
 عربی میں خمر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو عقل کو ڈھانپ لے ،اس طرح اسلام نے تمام نشہ آور چیزوں کو حرام ٹھہرایاتاکہ عقل کی حفاظت ہوسکے ۔اور اس سلسلے میں ضابطہ یہ بیان کیا کہ کسی چیز کی حرمت کا اعتبار اس میں نشہ کے پائے جانے پر ہوگا چاہے کم مقدارمیں استعمال کرنے کی وجہ سےاس میں نشہ نہ بهى پايا جائے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أسکر کثیرہ فقلیلہ حرام (ترمذی )
”جس چیزکی زیادہ مقدار نشہ لائے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے ۔
اوراگر کوئی شراب پیتا ہے تو شریعت نے اس کے لیے بھی حد کی سزا مقرر کی ہے ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شرابی کو اسی کوڑے مارنے کا حکم صادر فرمایا تھا ۔

اسلام عزت کو تحفظ فراہم کرتاہے :

اللہ نے مردوعورت کوپیدا کیا اورہرایک کے لیے دوسرے میں کشش رکھی تاکہ تخلیق کی بنیادی حکمت پوری ہوسکے تاہم اس تعلق کوبے مہارنہیں چھوڑا کہ بہیمانہ طریقے سے انسان اپنی خواہش پوری کرتا رہے بلکہ شادی کے پاکیزه رشتہ سے وابستہ کردیا، اس کے بعد خوش گوارازدواجی زندگی گذارنے کے لیے ایسی عمدہ اورسنہری تعلیم دی کہ انہیں اپنانے سے میاں بیوی کی ازدواجی زندگی جنت نظیر بنی رہے، اس پاکیزہ رشتے سے گھر کے آنگن میں جو کلیاں کھلیں ان کی بہترین نگہ داشت کے لیے جامع تعلیمات دی گئیں اوراس پر اجروثواب رکھاگیا ،
اسی طرح اسلام نے عزت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دل میں اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ زنا کے محرکات پر بھی روک لگادی اورایسے احتیاطی تدابیر تجویز کیے کہ زنا تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے ،لیکن چونکہ معاشرے میں بیمار طبیعتیں پائی جاتی ہیں جن کے لیے نصیحتیں بسااوقات کافی نہیں ہوتیں ایسی خبیث طبیعتوں کے لیے سخت سے سخت سزا مقرر کی گئی کہ اگردونوں شادی شدہ ہیں تو دونوں کو رجم کردیاجائے اوراگر غیرشادی شدہ ہیں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں اورایک سال کے لیے ان کو جلا وطن کردیاجائے ۔اوراگر کسی نے پاکدامن مردوخواتین پر زنا کا الزام لگایا اورچارگواہ نہ پیش کرسکے تو عزت کے تحفظ کے لیے اسلام نے حکم دیا کہ الزام لگانے والوں کو اسی اسی کوڑے مارے جائیں ۔

اسلام مال کو تحفظ فراہم کرتا ہے :

ملکیت سے انسان کو فطری محبت ہوتی ہے،اسلام نے اس فطری جذبہ کی قدر کی اوراپنے ماننے والوں کو کسب رزق پر ابھارا، اسے عبادت شمار کیا، کاروبارکی اہمیت بیان کی، اپنی محنت کی کمائی کو سب سے اچھی کمائی قرار دیا، مزدوروں کے حقوق بیان کئے اوران کی مزدوری ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کرنے کی تاکید کی ، کسب معاش کے لیے حرام ذرائع اختیار کرنے سے روکا اورحلال ذرائع اختیار کرنے کی تاکید کی ۔ اس كى حفاظت كا حكم ديا ، اور اگر کوئی اس کى حفاظتکرتے ہوئے قتل کرديا جائے تو اسے شہادت کا درجہ ديا:  سنن ترمذی كى روايت ہے الله كے رسول صلى الله عليه وسلم  نے فرمايا : 
"من قتل دون مالہ فھو شہيد" (سنن ترمذی) 
"جو اپنے مال کی حفاظت کے سلسلے ميں قتل کرديا جائے وہ شہيد ہے
صحيح مسلم کی روايت ميں ہے کہ ايک  شخص نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے سوال کيا : اے اللہ کے رسول ! اگرکوئی ميرا مال مجھ سے زبردستی لينا چاہے توميں کيا کروں ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا : تم اپنا مال اس کے حوالے نہ کرو ،اس نے کہا : اگر وہ مرنے مارنے پر تيار ہوجائے توکيا کيا جائے ؟ آپ نے فرمايا: مقابلہ کرو ۔ اس نے کہا : اگر وہ غالب آجائے اورمجھے قتل کردے تو ؟ آپ نے فرمايا : اس وقت تُو شہيد ہوگا ۔
اسی طرح اسلام نے   مال  كما نے کے ان سارے راستوں کو بند کرديا جن سے کسی کا حق مارا جاتا  ہو،چنانچہ چوری، ڈکيتی ، رشوت ، غصب اورسود وغيره کے ذريعہ مال حاصل کرنے سے منع فرمايا اوراس کی سخت وعيديں بيان فرمائیں۔

مال کے تحفظ کی خاطر اسے غلط راستوں ميں خرچ کرنے سے منع کيا اور ضرورت سے زيادہ خرچ کرنے والوں کے بار ے ميں كہا كہ وه شيطان کے بھائی  ہيں ، الله تعالى كا  ارشاد  ہے:  
ولا تبذر تبذيرا إن المبذرين کانوا إخوان الشياطين... (بنی اسرائيل 72)  
"فضول خرچى اور بيجا خرچ سے بچو، بيجا خرچ کرنے والے شيطانوں کے بھائی ہيں"۔
معاشرے میں جو لوگ معاشی جدوجہد میں پیچھے رہ جاتے ہیں ان کا مالداروں کے مالوںمیں حق رکھا اوران کی اعانت کے لیے زکاة کی شکل میں ایک محدود مقدار نکالنا واجب ٹھہرا یا ،اس کے باوجود اگرکسی نے کسی کا مال چوری کرلیا جس کی کچھ قیمت بنتی ہو تو اسلام نے باضابطہ ایسے خبیث عناصر کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا تجویز کی تاکہ اس رذیل عادت سے معاشرے کو پاک وصاف رکھا جاسکے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ  ( سورة المائدة 38)
 ”اور چور، خواہ عورت ہو یا مرد، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے“ (سورہ المائدہ 38)

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔