بدھ, دسمبر 18, 2013

اسلام ایک ماڈرن اوراپ ٹوڈیٹ مذہب ہے



اسلام نے انسانیت کے سامنے جوقوانین وشرائع پیش کیاہے چاہے ان کاتعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہوو ہ انسانی فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہیں ،اسلامی شریعت میں ایک اسکالر کہیں بھی ملکی چھاپ یاقبائلی رنگ نہ پائے گا، عقائد، عبادات ،معاملات ،اور اخلاقیات ہر ایک شعبے میں اسلامی تعلیمات آفاقیت سے لبریز نظرآتی ہیں ،چنانچہ جب ظلم زیادتی سے سسکتا ہواسماج انصاف انصاف کی آوازلگاتاہے توقرآن کہتاہے :
 وأ قسطوا إن اللہ یحب المقسطین (سورة الحجرات 9 ) 
 ”انصاف سے کام لواللہ تعالی انصاف کرنے والوں کوپسندکرتاہے“ ۔ جب قتل وغارت گری کابازار گرم ہوتاہے توقرآن کہتاہے :
من قتل نفسا بغیرنفس أوفساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا ( سورة المائدة 32) 
 ”جس کسی نے معصوم جان کوبغیر جرم کے قتل کیاگویاوہ پوری انسانیت کاقاتل ہے “ جب اخلاقی قدریں پامال ہونے لگتی ہیں توقرآن کہتاہے :
 ولا تقربوا الزنا إنہ کان فاحشة وساء سبیلا  (سورة الإسراء 32)
”زناکے قریب نہ جاؤ یہ بے حیائی ہے اوربراراستہ ہے “ جب ذات پات اورقبائلی منافرت کامسئلہ اٹھتاہے توقرآن پکارتاہے :
إن أکرمکم عند اللہ أتقاکم (سورة الحجرات 13)
”تم میں بہتر وہ ہے جواللہ سے زیادہ ڈرنے والاہو“ ۔
اسلام کی انہیں افاقی تعلیمات کی بنیاد پر جب اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا توانسانیت امن وسکون کی دولت سے مالامال ہوئی ،عورتوں کوان کاکھویاہواحق ملا،معاشرہ میں عدل وانصاف کابول بالاہوا،بے حیائی اوربدکاری کاخاتمہ ہوا،نسلی منافرت اورذات پات کاتصورمٹا۔
جی ہاں ! یہ الہی نظام جس میں مختلف ملکوں ،قوموں ،نسلوں ،رنگوں کے لوگ جمع ہوگئے تھے ،نہ کوئی اونچ نیچ تھی ،نہ کسی طرح کی چھوت چھات ،سب مساوات کی بندھن میں بندھے تھے ،سارے انسانوں کوبنیادی حقوق مل رہے تھے ،اورسماجی انصاف قائم تھا ،لوگ بھائی بھائی بن کر محبت والفت کی زندگی گزار رہے تھے ،یہ ساری باتیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں ،جن سے متاثر ہوکر گاندھی جی نے آزادی سے پہلے کہاتھا”جب ہماراملک آزاد ہوگا توہم بھی یہاں ویسی ہی حکومت قائم کریں گے ،جیسے ابوبکرصدیق اورعمر فاروق رضی اللہ عنھما نے قائم کیاتھا“۔
 اسلام کی بنیادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہر دور اورہرزمانے کے لیے لائق عمل اورقابل اتباع ہے ،زمانے کی تبدیلی سے اس کی تعلیمات میں کوئی تغیر پیدانہیں ہوسکتا ،کیوں کہ شریعت محمدی کانزول ہی انسانی فکر میں مکمل پختگی کے بعد شروع ہوا ،آج بھی ظلم وزیادتی سے کراہتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کے لیے امن وسکون کاپیغام اگر کہیں ہے ،تووہ اسلام ہی میں ہے ۔
آج دنیا کاسب سے سنگین مسئلہ غربت ہے ،کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں لوگ بھوک سے مررہے ہیں ،اسلام کے نظام زکاة میں اس کابہترین علاج موجود ہے ،اسلامی قانون کے مطابق ہروہ شخص جونصاب کا مالک ہو جس کے پاس پچاسی گرام سونے یا 595 گرام چاندی ہوں یا ان کے مقدار میں نقدی سکے موجود ہوں اس کے لیے ضروری ہے کہ سال میں ایک مرتبہ اپنے مال سے ڈھائی فیصد زکاة نکالے ،اگر دنیا کا ہرامیرآدمی سنجیدگی کے ساتھ صحیح اندازمیں اپنے مال کی زکاة اداکرنے لگ جائے تودنیاسے پوری طرح غربت ختم ہو جائے گی ،اوربھوک مری کانام ونشان نہ رہے گا۔
اسی طرح آج سماج میں عورتوں کے ساتھ چھیرخوانی ،زنابالجبراورزیادتی کے واردات آئے دن اخباروں کی زینت بن رہے ہیں ،اسلام کے پیغام میں اس کابہترین علاج موجود ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اورعورتوں کے لیے پردے کے الگ الگ احکامات دیئے ہیں ،اگران پرعمل کیاجائے تویقینی طورپر عورتوں کے ساتھ زیادتی اوران کاجنسی استحصال ختم ہوجائے گا۔
غرضیکہ"اسلام ایک ماڈرن اوراپ ٹو ڈیٹ مذہب ہے، ماڈرن اتنا کہ دنیاکی ساری ماڈرنیٹی اسلام کی ماڈرنیٹی کے سامنے قربان ہے، اور اپ ٹو ڈیٹ اتنا کہ اس کے کسی بھی قانون میںExpiry Date نہیں"، زمانے اورجگہ کے فرق سے اس کی تعلیمات کبھی بدل نہیں سکتیں، عقائد ہوں،عبادات ہو، معاملات ہوں، اخلاقیات ہوں،حلال وحرام ہو،حقوق وفرائض ہو ں سب اپنی جگہ پرٹھوس ہیں ۔اِس میں کوئی لوچ نہیں۔انسان کے خودساختہ  قوانین  زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے بدلتے  ہیں  کیوں کہ وہ بدلتے ہوئے حالات ، وسائل اور اسباب کو سامنے رکھ کر وضع کیے جاتے ہیں، اس لیے وہ زمانے اور حالات  کے زیر اثر فرسودہ اور out of Date  ہوجا تے ہیں ، گویا کہ  تبدیلی طریقہ زندگی میں آتی ہے، اقدار اور ویلوز میں نہیں آتی، اسلامی تعلیمات اقدار پر مبنی ہیں، اسلام میں انسان کو اور اس کی  فطرت کو پیش نظر رکھا گیا ہے، يہ توحید ،رسالت اور آخرت کی معقولیت بیان کرتا ہے- شرک ،کفر اور بت پرستی سے منع کرتا ہے ،اچھے کاموں کا حکم دیتا اور برے کاموں سے روکتا ہے، محاسن اخلاق پر ابھارتا اور رذائل اخلاق کی مذمت بيان کرتا ہے، ظاہر ہے کہ ان تعليمات کی ضرورت پہلے تھی، ابهى ہے اور صبح قيامت كےدن تك رہے گی، اس طرح حالات اور  زمانے کی تبدیلی کا اسلامی شریعت پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ہاں تہذیبی اور صنعتی انقلاب کے زیر اثر ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا واضح حکم شريعت میں نہیں ہوتا، ایسے حالت میں اسلامی قانون میں ایسی لچک موجود ہے کہ کتاب و سنت کے مطابق اس کا حکم نکل جاتا ہے-
اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کسی چیز کا پرانا ہونا اس کے فرسودہ ہونے کی علامت نہیں ہوتی، دنیا کی مختلف چیزیں ہیں جن کے پرانا ہونے سے ان کی افادیت کم نہیں ہوئی، سورج کی روشنی ، ہوا  اور پانی کی افادیت،  پیڑ پودے اور ساگ سبزی کی ضرورت ایک زمانہ گزرنے کے باوجود کم نہ ہوئی ہے اور نا ہو سکتی ہے-  
  پهراسلامی تعلیمات خالق كائنات کے اتارے ہوئے ہیں جو عالم ماكان ومايكون ہے،اپنی مخلوق کے مفاد کو سب سے زیادہ جانتا ہے، جوانسان کی فطرت سے آگاہ ہے : 
 أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ( سورة الملك 14) 
"کیاوہی نہ جانے جس نے پیدا کیا اوروہ باریک بیں اورخبر رکھنے والا ہے" ۔

اسی لیے ہمارے خالق ومالک کے نزدیک اگرکوئی دین قابل اعتبار ہے تووہ دین اسلام ہے: 
إن الدین عنداللہ الاسلام (سورہ آل عمران آیت نمبر19)
 ” بیشک دین اللہ رب العالمین کے نزدیک اسلام ہی ہے ۔“
ومن یبتغ غیرالاسلام دیناً فلن یقبل منہ وھوفی الآخرة من الخاسرین (سورہ آل عمران آیت نمبر85)
”اورجوکوئی اسلام کے علاوہ کسی اوردین کو اپنائے گا وہ اس سے قبول نہ کیاجائے گا اوروہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوںمیں سے ہوگا ۔“
 اورصحیح مسلم کی روایت ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 والذی نفسی بیدہ لایسمع بی أحد من ھذہ الأمة یہودی ولانصرانی ثم یموت ولم یؤمن بالذی أرسلت بہ إلا کان من أصحاب النار
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،اس امت کا جوکوئی چاہے یہودی ہویاعیسائی میری بات سنتا ہے ،اورمیرے پیغام پر ایمان لائے بغیرمرجاتا ہے تو وہ جہنمی ہوگا" ۔
اب سوال یہ ہے کہ کس حد تک ہم نے اسلام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ کس حد تک ہم نے اس پراپنے اہل وعیال کی تربیت کی ہے ؟ کس حد تک غیروں کو ان آفاقی تعلیمات سے روشناس کرایاہے؟ ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں !جب اسی پیغام میں ہماری دینوی واخروی فلاح ہے ،جب دین محمد ی ہی نجات کاضامن ہے ،توسستی کب تک اورغفلت تابکے ؟ ان آفاقی تعلیمات سے خود کوسنواریں ،ان تعلیمات کی روشنی میں اپنے اہل وعیال کی تربیت کریں ،اپنے سماج اورمعاشرے کوڈھالیں اور امن کاپیغام ہرفردوبشرتک پہنچائیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق ارزانی بخشے۔آمین یارب العالمین ۔   

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔