جمعرات, دسمبر 06, 2012

پنسل کی مثال


پنسل ساز نے پہلے ہی دن پنسل سے کہا: اس سے قبل کہ میں تجھے بازار میں بھیجوں‘تجھے پانچ باتیں جان لینا ضروری ہے۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھنا تاکہ بہتر سے بہتر پنسل بن سکو۔

پہلی بات :

 تم بڑے بڑے کام کرنے پر قادر ہوسکتے ہولیکن ضروری ہے کہ کسی انسان کے ہاتھ میں چلے جاؤ۔

دوسری بات :

 بسااوقات تجھے تراشا جائے گاجس سے تجھے سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا ،اگربہتر پنسل بننا ہے تواس عمل سے گزرنا تیرے لیے ضروری ہے۔

تیسری بات:

 کسی طرح کی غلطی ہوجائے تو اس کی اصلاح کی تیرے اندرپوری قوت وطاقت موجود ہے ۔

چوتھی بات: 

تمہارا اہم حصہ وہ ہوگا جو تمہارا باطن ہے ۔

 پانچویں بات :

 تمہارے حالات جیسے بھی ہوں تمہارے لیے لکھنے کا عمل جاری رکھنا ضروری ہے ۔ اوراپنے پیچھے ہمیشہ’ خوشخط‘ حروف چھوڑو،خواہ حالات کتنے سنگین کیوںنہ ہوں۔
پنسل  نے ان پانچ باتوں کو پوری طرح سمجھ لیا ، اورقلم ساز کے ہدف کا پورا ادارک کرلینے کے بعد دنیا میں جانے کے لیے پنسل کے ڈبہ میں داخل ہوگیا ۔
عزیزقاری ! اب آپ خودکو اس پنسل کی جگہ پر رکھ کر سوچیں ،اورمذکورہ پانچ باتوں کوہمیشہ ذہن نشیں رکھیں، ان شاءاللہ افضل انسان بن سکیں گے ۔

پہلی بات:

آپ اعلی اورعظیم خدمات انجام دینے کے اہل ہوسکتے ہیں لیکن اس وقت جب خودکو اللہ کے تابع کردیں اور مختلف صلاحیتوں کے مالک بن جائیں تاکہ لوگوں کے لیے مرکزتوجہ بن سکیں اوروہ آپ کی طرف قصد کرنے لگیں۔

 دوسری بات :

آپ کو بسااوقات تراشا جائے گا،اوراس میں آپ کو پریشانیاں لاحق ہوں گی لیکن قوی انسان بننے کے لیے آپ کے لیے ایسا عمل نہایت ناگزیر ہے

تیسری بات:

آپ اپنی غلطیوں کی اصلاح پر قادر ہوسکیں گے اور اس کے تناسب سے ترقی کے منازل طے کرسکیں گے ۔

چوتھی بات : 

آپ کا اہم حصہ ہمیشہ وہی ہوگا جو آپ کا باطن ہے ۔

پانچویں بات:

کسی بھی راستے پر چل رہے ہوں اپنا اثر ضرور چھوڑ جائیں اورحالات سے قطع نظر ہمیشہ دین کی خدمت پیش نظر رکھیں ۔
ہم میں سے ہرشخص پنسل کی مانند ہے جسے ایک خاص مقصد،منفرد کام اورعظیم ہدف کے لیے تراشا گیا ہے ۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ غوروفکر سے کام لیں ، اوراللہ رب العالمین سے تعلق مضبوط کرکے،اپنے ذہن ودماغ میں بنیادی اہداف کوپیشِ نظررکھ کر اس دنیا میں زندگی گزاریں ۔
مکمل تحریر >>

غیرمسلم کی دعوت قبول کرنے کا حکم


سوال :

دعوت کا تقاضا ہے کہ غیرمسلموں کے ساتھ شخصی تعلق مضبوط کیا جائے تاکہ اجنبیت دور ہواور دعوت کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ تو اگر کسی غیرمسلم نے مجھے کسی خوردونوش پر مدعو کیا جو حلال ہو تو کیا میرے لیے دعوت قبول کرناجائز ہے ؟

جواب :

اگر مسلمان کی جانب سے غیرمسلم کے ساتھ اخوت وبھائی چارہ اورمحبت کے تعلقات ہوںتویہ حرام ہیں،ایسے تعلقات رکھنا جائز نہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اللہ تعالی پر اورقیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ تعالی اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے، گرچہ وہ ان کے باپ،یاان کے بیٹے ،یاان کے بھائی یا ان کے کنبہ وخاندان کے عزیزہی کیوں نہ ہوں“۔ (المجادلة 22) ۔

اوراگر ان کے تعلقات کا معاملہ صرف حلال اشیاءکی خرید وفروخت اورحلال کھانے کی دعوت ،اورمباح اشیاءکے تحفے اورہدیے قبول کرنے تک محدود ہوں اور ان کا مسلمان پر کسی قسم کا اثر بھی نہ پڑے توپھر اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ مباح ہیں ۔ 

مکمل تحریر >>

بدھ, نومبر 07, 2012

فرض اورسنت نمازوں کی ادائیگی میں فرق


سوال :

کیا  فرائض اورسنتوں کی ادئیگی میں کوئی فرق ہے ؟ مثلاًجب ہم ظہر کی چاررکعت فرض ادا کرتے ہیں تودو رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ ملاتے ہیں جبکہ باقی دورکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھتے ہیں ،اب اگرہمیں ظہر میں فرض سے قبل چاررکعت سنت کی ادائیگی کرنی ہو تو کیا پہلی دورکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة ملائیں گے اور آخری دو رکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھیں گے ۔براہ کرم بالتفصیل جواب دیں ۔ 

                                                         (آفتاب عالم ندوی ۔ کٹکو، صبحان (

جواب :

افضل یہ ہے کہ رات اوردن کی سنتیںاورنوافل دو دو رکعت کرکے ادا کئے جائیں کیوںکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  کا فرمان ہے : صلاة اللیل والنھار مثنی مثنی ”رات اور دن کی نمازیں دو دو رکعت کرکے ادا کی جائیں“ (احمد، ابوداود، ترمذی،نسائی ، ابن ماجہ) اور ایسی حالت میں دونوں رکعتوںمیںسورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ بھی پڑھنی چاہیے ۔

البتہ ظہر کی چار رکعات کو ایک سلام میں بھی ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پرکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم زوال کے بعد چاررکعت پڑھتے تھے اورآخری رکعت میں ہی سلام پھیرتے تھے ۔ “۔ (ترمذی۔ وقال الالبانی : اسنادہ صحیح (

 لہذا اگرکوئی ایک ہی ساتھ چار رکعات ادا کررہا ہوتو اس میں بعض علماءتشہد کرنے کے قائل ہیں اوراس صورت میں دوسری آخری رکعتوںمیں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ نہیں پڑھی جائے گی جبکہ دوسرے علماءتشہد کے بغیر ایک ہی سلام میں چاررکعت ادا کرنے کے قائل ہیں اوراس صورت میں چاروںرکعتوںمیں سورہ فاتحہ کے بعد سورتیں پڑھی جائیں گی ۔بہرکیف اس مسئلہ میں وسعت اورگنجائش ہے ۔


مکمل تحریر >>

احمد ”لوسيو“ کے قبولِ اسلام کی داستان

 ميرا نام احمد فہد (لوسيو سی ڈو ريگو ) ہے، ميں ہندوستان کی معروف رياست گوا کا رہنے والا ہوں، ميری پيدائش عيسائی گھرانے ميں ہوئی تاہم اللہ تعالی نے مجھے اسلام کی توفيق بخشی اور ميں نے اسلام کو گلے لگاليا ، مسلم گھرانے کی ايک ديندار لڑکی سے دوسال قبل شادی کی ہے اور فی الحال ہندوستان ميں اہل خانہ کے ہمراہ خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں ۔
 جب ميں کويت ميں تھا تواسی وقت اللہ تعالی ٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے مالامال کيا ۔ ميں عيسائی مذہب کا کوئی خاص پابند تو نہيں تھا اور نہ ہی ميں نے کوئی خاص عيسائيت کا مطالعہ ہی کيا تھا تاہم اِتنا ضرور ہے کہ ہر ہفتہ چرچ جايا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ميں عيسائی ہوں لہذا کسی دوسرے مذہب سے مجھے کوئی سروکار نہيں ۔ ايک مرتبہ ميرا ايک ساتھی جو ميرے بازو فليٹ ميں رہتا تھا ipc کی کچھ کتابيں لايا اور ميرے ٹيبل پر رکھ ديا نيز تاکيد کی کہ ميں ان کتابوں کا مطالعہ کروں ۔ ميں نے برجستہ اسے جواب ديا کہ:
” ميں عيسائی ہوں، اسلام کی بابت قطعا کچھ نہيں پڑھ سکتا“۔
کئی بار ميں نے ان کتابوں کو اپنے ٹيبل سے ہٹايا اور وہ تھا کہ بڑے اخلاق سے ملتا اور وہی کتابيں ميرے غائبانہ ميں ميرے ٹيبل پر رکھ ديتا۔ ايک دن کی بات ہے، ميں اپنے روم ميں بيٹھا ہوا تھا، ميرے ساتھی نے حسب معمول انگريزی ميں کچھ اسلامی کتابيں ميرے ٹيبل پر رکھ چھوڑاتھا، جب ميں نے ان ميں سے ايک کتاب اٹھا کرپڑھاتومجھے بہت اچھی لگی، اسی وقت ميرا ذہن بدل گيا،ميں نے اس کا مطالعہ شروع کرديا، جب ميرے اس ساتھی سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو ميں نے اسے کہا کہ ميں مزيد کچھ  کتابيں پڑھنا چاہتا ہوں،يہ طلب کيا تھا،گويا اس کے پورے جسم ميں خوشی کی لہر دوڑ گئی، 

اس نے فرط مسرت سے مجھے دبوچ ليا، اور اسی روز ipc سے کتابيں لاکر ميرے حوالے کردی ۔ ميں نے جب اسلام کا مطالعہ کيا تو اسلام کی حقانيت ميرے دل ميں بيٹھتی گئی اور عيسائيت کے پول کھلتے گئے بالآخر ايک دن ميں ipc آيا ، ميرے چند اشکالات تھے ان کا بھی تشفی بخش جواب دے ديا گيا ۔ چنانچہ ميں نے اسی دن اسلام قبول کرنے کا فيصلہ کيا اور کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے خالق ومالک کا ہو رہا الحمدللہ علی ذلک“۔ 
مکمل تحریر >>

منگل, نومبر 06, 2012

خطبہ کے دوران تلوار، نیزے یا لاٹھی کا سہارا لینا


اس سلسلے میں علماء کا دو قول ہے جمہور علماء نے اسے مستحب قرار دیا ہے جبکہ محققین کے نزدیک وہ روایت جس میں ٹیک لگانے کا ذکر آیا ہے کمزور ہے.
شيخ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
”اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ نے منبر بنانے کے بعد کسی چیز کا سہارا لیا ہو ۔ اب اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ سہارا لینا ضرورت کے تحت ہوگا، اگر خطیب کو سہارا ضرورت ہے تو اسے ٹیک لگانے میں کوئی حرج نہیں" ۔ الشرح الممتع

مکمل تحریر >>

جمعرات, نومبر 01, 2012

دل سے دل تک

ماہنامہ مصباح نومبر2012ء کا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ،اس کا پہلا شمارہ نومبر 2008 ء میں منظرعام پرآیا تھا جب سے ہرماہ مسلسل پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے ،اس طرح اب تک ہم نے مصباح کے4 سال مکمل کرلیے ہیں، چارسال کی اس طویل مسافت میں ایک ہی مقصد ہمارے پیش نظررہا جس کا اعادہ ہم نے باربار اپنے اداریہ میں کیاہے کہ قوم مسلم کے اندر اپنی ذات کا عرفان آجائے، وہ اپنے مقام اورمنصب کوپہچان لے، اسکے اندرآفاقی شعور پیدا ہوجائے، اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوجائے کہ وہ لینے والی قوم نہیں بلکہ دینے والی قوم ہے کہ اس دھرتی پر مسلمانوں کا وجود پوری انسانیت کے لیے نیک فال ہے،کیونکہ انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے جس نسخہ کیمیا کی ضرورت ہے وہ مسلمانوںہی کے پاس ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں نے بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری نبھائی ، چنانچہ وہ جہاں گئے وہاں کے لوگ ان کے ہمنوا بنتے گئے ،ان کے اخلاق ، ان کے کردار اور ان کے قول وفعل سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہے ،اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ جس دین کے ماننے والے ایسی خوبیوں کے حامل ہوں وہ دین آگ اورپانی کے جیسے ہر انسان کی میراث ہے ۔
اس رسالے کے توسط سے جب ہم اپنی کوششوںکا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ کہنے میں بجاطورپرفخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے بہت حدتک اپنی قوم کی ذہن سازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،کیا یہ کم ہے کہ رسالہ کے قارئین کویت کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیںجوتازہ شمارہ کے لیے بے تاب رہتے ہیں،دیگرگلف کنٹریز اور برصغیرپاک وہند کے لوگ نیٹ پراس کا مطالعہ کررہے ہیں، ہمیں بیرون ممالک کے مختلف اداروں سے رسالے کے لیے خطوط موصول ہوئے ہیں لیکن اب تک ہم نے رسمی طورپر کویت سے باہربھیجنا شروع نہیں کیاہے،اس لیے ہمیں ان سے معذرت کرنی پڑی، لیکن آئندہ کے لیے ہماراعزم ضرورہے کہ پاک وہند کے مرکزی اداروں کورسالہ بھیجا جائے، کویت میں دس ہزار کی تعداد میں چھپنے والے اس رسالے کو تقسیم کرنے کے لیے ہمارے پاس ایسے افراد تیار ہوچکے ہیں جورسالہ آنے سے پہلے کئی بار فون کرچکے ہوتے ہیں، پھر وہ اسے اپنے کندھوں پرلاد کر آپ تک پہنچاتے ہیں،وہ اچھے تعلیم یافتہ ہیں،وہ خوشحال اورفارغ البال ہیں،وہ رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں،ان کواس کام پرکوئی معاوضہ نہیں ملتا، لیکن دین اورقوم کی خدمت کے جذبہ سے یہ کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،ہم نے ایسے قلمکاران کی بھی سہولت حاصل کرلی ہے جوہمہ وقت مفت خدمت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اپنی بے شمارمصروفیات کے باوجود ہمیں پابندی کے ساتھ اپنی نگارشات روانہ کرتے رہتے ہیں، ہمارے پاس کتنے ایسے نوجوان ہیں جودعوت کی راہ میں وقت لگا رہے ہیں، تعطیل کے ایام میں دعوتی سرگرمیوں میں لگے ہوتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو دیکھ کرہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔
 ہم مالک عرش بریں کے حضور اپنے ان تمام احباب کے لیے دعا گو ہیں کہ ا لہ العالمین توان سب کی قربانیوںکو اپنی رضا کے لیے قبول فرمالے ،ان کی لغزشوں کو معاف فرمادے ،ان کی روزی میں برکت عطا فرما،ان کی اولاد کونیک اورصالح بنا اورانہیں ہمیشہ صحتباب اور شادکام رکھ ،آمین ۔

یہ تو ہماری کاوشوں کا روشن پہلو تھا لیکن ابھی بھی ہمارے پیچھے ایک بہت بڑی جماعت ہے جو اپنی خول میں بند ہے، ہم کویت جیسے خوشحال ملک میں برسرروزگار ہیں ، ہماری مالی حالت بحیثیت مجموعی پہلے سے بہت اچھی ہے ،ہمارے بچے آرام وآسائش سے جی رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی اس عظیم نعمت سے اپنی ذات کو کس حدتک فائدہ پہنچا یااور ہم سے ہماری قوم اورمعاشرے کو کیاملا ؟ افسوس کہ آج بھی ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ صبح سویرے اٹھتے ہیں، ڈیوٹی پر جاتے ہیں،ڈیوٹی سے آنے کے بعد ضروری تقاضے پوری کرتے ہیں، ساتھیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتے ہیں یا ٹیلیویژن کے سکرین پر نشرہونے والے پروگرامز کامشاہدہ کرتے ہوئے محوخواب ہوجاتے ہیں۔ تقریباً یہی ہمارے روزانہ کا معمول بن چکا ہے، دس سال پہلے ہماری جو سوچ وفکرتھی تاہنوز وہی سوچ برقرار ہے ، ہمارے معاملات جوں کا توں ہیں، نہ ہم نے اپنی شخصیت سازی پر دھیان دیا اور نہ قوم کے مفاد کے بارے میں سوچا ۔ حالانکہ یہ بڑے عیب کی بات ہے اورایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ مسلمان اپنی ذات کے لیے پیدا نہیں ہوابلکہ اسے انسانیت کی خاطر وجودمیں لایا گیا ہے ،مسلمان حرکت ، جوش ، لگن اورشعورکا نام ہے ،آج باطل ادیان ومذاہب کے علمبردار چست اور سرگرم ہیں اورہم سست اور تن آسان بنے ہوئے ہیں، دشمن متحد ہوکر اسلام کے خلاف منظم پلاننگ کررہا ہے اورہم ہیں کہ خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں ، ہم آئے دن انتشار کا شکارہوتے جارہے ہیں، ایک دوسرے کو مطعون کرنے میں لگے ہوئے ہیں، قرآن اورحدیث کو اپنا دستورحیات بناکر ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونے کے لیے تیار نہیں، کتنے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اسلام کے خلاف زہرافشانی کے لیے وقف ہیں،اورہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر ہماری ایسی حالت کب تک رہے گی ؟کب ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوگا ؟کب ہم آفاقی سوچ کے علمبردار بنیں گے ؟
اس لیے موجودہ حالات میں ہمیں اپنا احتساب کرنا ہے اورفوری قدم اٹھاناہے کہ اب انتظار کاموقع نہیں رہا ۔

مکمل تحریر >>

ہفتہ, اکتوبر 20, 2012

ابراہیم عليه السلام کون تھے ؟

 پیارے بچو!
چند دنوں میں حج کاموسم آرہا ہے، انہیں ایام میں غیرحاجی عید قرباں منا تے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں حج اور عید قرباں کس کی یادگار ہے ؟ یہ دونوں اس عظیم انسان کی یادگار ہے جسے ابراہیم عليه السلام کہا جاتا ہے ۔ آئيے آج ہم آپ کو ایسی عظیم ہستی کی کہانی سناتے ہیں :
ابراہیم عليه السلام عراق کے قدیم شہر ار میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کے لوگ بت پرست تھے۔ خود آپ کا باپ نہ صرف بت پرست بلکہ بت گر اور بت فروش بھی تھا۔ ابراہیم عليه السلام نے سب سے پہلے اپنے باپ کو سمجھایا کہ ابوجان! آپ ایسی چیزوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں جو نہ آپ کو نفع پہنچا سکتے اور نہ نقصان ....لیکن باپ نے ایک نہ سنی اور دھتکار دیا .... تب قوم کے لوگوں کو بتوں کی پوجا سے روکا .... جب یہاں بھی نا کامی ہوئی تو ایک دن منصوبہ بند طریقے سے جبکہ شہر کے لوگ کہیں باہر گيے ہوئے تھے آپ نے معبد میں جا کر سارے بت توڑ د یے۔ اس پر بادشاہ نمرود نے آپ کو بھڑکتے ہوئے الاومیں پھنکوا دیا۔ لیکن خدا کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہوگئی اور آپ کا بال تک بیکا نہ ہوا۔
جب آپ اپنے باپ اوراپنی قوم کے لوگوں سے نا امید ہوگيے تووطن کو چھوڑ کر فلسطین ہجرت کر گيے اور اپنے دین کی تبلیغ کے لیے دو مقام منتخب کیے۔ ایک بیت المقدس اور دوسرا مکہ۔ آپ کی دو بیویاں تھیں۔ ھاجرہ اور سارا۔ ہاجرہ علیہاالسلام کے بطن سے اسماعیل عليه السلام پیدا ہوئے اور سارا علیہاالسلام سے اسحاق عليه السلام پیدا ہوئے۔اسماعیل عليه السلام ابھی بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام اللہ پاک کا حکم پاکر ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی ویران جگہ پر جب ننھے اسماعیل بھوک پیاس سے تڑپنے لگے تواللہ پاک نے ان کے ليے زمزم کا چشمہ جاری کیا، جو آج تک دنیا کے سارے پانیوں سے بہتر اور ہر مرض وغرض کے ليے مفید ہے ۔ جب ننھے اسماعیل ہوشیار ہوگيے تو اللہ پاک نے ان کے ابو ابراہیم عليه السلام کو خواب میں دکھایا کہ تم اپنے بیٹے کو میرے نام پر قربان کردو۔ ابراہیم عليه السلام نے حضرت اسماعیل عليه السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم بتاؤکہ تمہاری کیا رائے ہے؟ فرماں بردار بیٹا بلاجھجھک جواب دیتا ہے :
” ابو جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کر گزريے بلاشبہ آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے“ ۔
جب حضرت ابراہیم عليه السلام نے ننھے اسماعیل کو منھ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم ! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ پھر خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم عليه السلام نے ذبح کیا۔
پیارے بچو!حضرت ابراہیم عليه السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال سارے مسلمان عیدالاضحی مناتے ہیں۔
حضرت اسماعیل عليه السلام جوان ہوئے تو حضرت ابراہیم عليه السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تیار ہوا۔ پھر اللہ کے حکم سے حج کا اعلان کیا، صحرا سے نکلنے والی یہ صدا پوری دنیا میں پہنچی، چنانچہ آج مسلمان موسم حج میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے اس مرکز رشد وہدایت کی طرف کھینچے آتے ہیں ۔ حضرت محمد صلي الله عليه وسلم، اسماعیل عليه السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اسی نسبت سے مسلمان ملت ابراہیمی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔



مکمل تحریر >>

بدھ, اکتوبر 17, 2012

دوران خطبہ امام کی دعاپر ہاتھ اٹھا کرآمین کہنا

 

سوال:

جمعہ کے دن جب امام دوران خطبہ دعا کررہا ہوتا ہے تو لوگ ہاتھ اٹھاکر آمین کہتے ہیں ، کیا ہاتھ اٹھانے کی مشروعیت حدیث سے ثابت ہے ؟ ( شیخ عبدالرشید، وفرہ (

جواب :

یہ مسئلہ جب شیخ ابن عثیمین ؒ سے پوچھا گیا کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم کیا ہے ؟ توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا: جمعہ کے دن دوران خطبہ ہاتھ اٹھانا مشروع نہیں، جب بشر بن مروان نے خطبہ جمعہ میں دعاءکے لیے ہاتھ اٹھایا تو صحابہ نے ان پرنکیر کیا تھا.

لیکن اس سے بارش کے لیے دعاءکو مستثنی مانا جاتا ہے، کیونکہ نبی کریم انے بارش کے لیے دعاءکرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ہاتھ اٹھایا تھا، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے. اس کے علاوہ خطبہ جمعہ میں دعاءکے وقت ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔. (فتاوی ارکان اسلام392 (


شیخ عبدالرووف بن عبدالحنان الأشرفی نے اس موضوع پرحکم رفع الایدی فی دعاءخطبة الجمعة کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں انہوں نے دوران خطبہ امام کی دعا پر ہاتھ اٹھاکر آمین کہنے کو بدعت قراردیا ہے ۔

مکمل تحریر >>

جمعرات, اکتوبر 04, 2012

محترم عبد الصبور عبدالنور الندوى صاحب كے نام

محترم عبد الصبور الندوى صاحب

السلام علیكم ورحمة اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامى ؟ 
آپ کا میل ملا ، بے حد خوشی ہوئی ، ایک عرصہ سے آپ کا مجھے غائبانہ تعارف حاصل ہے ،آپ زیرتعلیم ہوتے ہوئے بھی بلوگنگ سسٹم جاری رکھے ہوئے ہیں یہ امر قابل ستائش ہے، آپ نے جو دینی مجلات کا ذکر کیا ہے مجهے تو ايسا لگتا ہے كہ  آپ نے ميرے دل كى بات چھن لى ہے ، واقعی دینی مجلات کا حال عجیب ہے ،آج کے ڈیٹ میں کتنے رسالے ہیں جو چھپ کر منظر عام پر آرہے ہیں ….لیکن ان کا فائدہ کس قدر محدود ہے اس کا احساس ذمہ داروں کو نہیں ہے ،اس وجہ سے کہ انٹرنیٹ کی ہلکی سی معلومات بھی اكثرذمہ داران نہیں رکھتے ۔ صحیح منہج کے حاملين آج بهى اس ميدان میں بہت پیچھے ہیں ،جبکہ گمراہ فرقوں کو دیکھیے کہ وه نیٹ كے ذريعه اپنے كهوٹے سكوں كو دين كے بازار ميں عام كرنے ميں كس قدر چست اور نشيط  دكها ئى دے رہے ہیں ،
کچھ اداروں کے صفحات نیٹ پر موجود بهى ہیں تو پرانے مواد جو ڈيزائننگ كے وقت اپلوڈ كيے گيے تهے وهى وہاں مليں گے، سالوں سال سے اس کی طرف ان کا دهيان نہیں گيا ، کچھ لوگ سال میں ایک مرتبہ جب اس کی فیس جمع کرنے کا موقع ہوتا ہے اپڈیٹ کردیتے ہیں، اب آپ تصور كيجيے كہ اس نیٹ كا کیا فائدہ ….اور وہ بھی مواد كو یونیکوڈ میں نہیں بلکہ پی ڈی ایف كى شكل میں اپلوڈ کرتے ہیں جس کا فائدہ نہایت محدود ہوتا ہے ۔
بہرکیف آج ضرورت ہے کہ ارباب مدارس کى توجہ اس طرف مبذول كرائى جائے ….الحمد للہ پاکستان کی جماعت اہل حدیث اس معاملہ میں بہت حد تک بہتر ہے ….اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ، اور اللہ تعالی آپ کو اپنى تعليم میں کامیابی سے سرفراز فرمائے …. میری ناقص رائے ہوگی کہ ان دنوں آپ اپنے تخصص پر دھیان دیں اور ماجسترکی ابھی سے تیاری جاری رکھیں
مکمل تحریر >>

دواحادیث کے بیچ تطبیق کی صورت

 

سوال :

سنجیدگی یا مذاق میں نکاح ،طلاق اور رجعت معتبر سمجھی جاتی ہے ۔جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ بغیرولی اور دو گواہوں کے نکاح نہیں۔ان دونوںمیں تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے دلائل کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔؟         (شعیب رومی، وفرہ (

جواب :

جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ مذاق یا سنجیدگی کی طلاق ،نکاح اوررجعت معتبر سمجھی جائے گی جیسا کہ حدیث ہے: ”تین چیزیں سنجیدگی میں بھی حقیقت ہیں اورمذاق میں بھی حقیقت ہیں‘ نکاح ،طلاق اوررجوع کرنا“۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ وحسنہ الالبانی فی الارواء1826 (

اورمنطقی ناحیہ سے بھی طلاق واقع ہوجانی چاہیے ورنہ لوگ دل لگی کرنے کا بہانا بناکر شریعت کے ساتھ کھلواڑکرنے لگیںگے کہ میرا ارادہ طلاق کا تو نہیں تھا۔ رہی دوسری حدیث کہ” بغیرولی اوردو گواہ کے نکاح صحیح نہیں ہوتا“ تویہ بھی صحیح ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:لا نکاح الابولی وشاھدی عدل (صحيح الجامع 7557) ”ولی اوردومنصف گواہ کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔ 


 اوردونوں احادیث میں اصلاً کوئی تعارض نہیں،کیونکہ ولی اوردو گواہوں کی موجودگی ہر حالت میں ضروری ہے ،جب سنجیدگی میں نکاح ہورہا ہوتو وہاں صحت نکاح کے لیے ولی اور دو گواہ کی ضرورت پڑتی ہے تو مذاق میں یہ لفظ بولتے وقت بدرجہ اولی ولی اور دوگواہ کی موجودگی ضروری ہوگی،خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص ولی اوردومنصف گواہ کے سامنے سنجیدگی یا مذاق میں نکاح کے الفاظ بول دیتا ہے تو اس کا نکاح معتبرمانا جائے گا۔

مکمل تحریر >>

غیرمسلم کا ترجمہ قرآن چھو نا

سوال :

میرے پاس قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ دستیاب ہے کیا اسے کوئی غیر مسلم چھو سکتا ہے ؟


جواب :

غیرمسلم کے لیے ترجمہ قرآن کو چھونے میں کوئی حرج نہیں، چاہے ترجمہ انگریزی زبان میں ہو یا کسی اور زبان میں، اگر اسے غیرمسلم چھوتا ہے یا ایسا آدمی چھوتا ہے جو باوضو نہیں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ترجمہ‘ قرآن کاحکم نہیں رکھتا بلکہ تفسیر کے حکم میں ہے، اورتفسیر کی کتابوں کو غیرمسلم اور جو طہارت سے نہ ہوں سب چھو سکتے ہیں یہی حکم حدیث، فقہ اورعربی زبان کی کتابوں کا ہے ۔

مکمل تحریر >>

جمعرات, ستمبر 13, 2012

ایڈیٹر ہماراسماج اردو كے نام

برادرگرامی قدر ڈاكٹرخالد انور صاحب
ایڈیٹر ہماراسماج اردو
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اللہ کرے آپ بخیر و عافیت ہوں بحمد اللہ ہم سب بھی خیریت سے ہیں۔
راقم سطور روزنامہ”هماراسماج “ کا  روز اول سے قارى  ہے ۔خبروں كے حسن انتخاب اور اداريہ کی دلآویزی نے مجھے اس کا گرویدہ بنایا ہے ۔ منجھے ہوئے صحافيو ں کی منجھی ہوئی تحریریں ہر روز باصرہ نواز ہوتی ہیں ۔ فنی اعتبار سے بھی روزنامہ ايك  معیار كا حامل  ہے  ۔ اللہ تعالی آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی کاوشوں کو بارآور فرماتے ہوئے انھیں قبول کرے،البتہ اسلاميات پر بهى تحريريں ہميشہ شائع ہوتى رہنى چا ہئيں، يہ ميرى گذارش ہوگى -
آپ سے ملاقات کیے ایک عرصہ ہوگیا ، میں بارہا آپ کو یا د کرتا رہتا ہوں ، متعدد باردہلی آنے کا اتفاق ہوا لیکن میری بے حسی کہیے کہ آپ سے ملاقات کا شرف حاصل نہ کرسکا ۔ حالانکہ آپ کی محبت میرے دل میں ہے ۔ اس بار موقع ملا تو ان شاء الله شرف باريابى ہوگی.  يار زنده صحبت باقى 
والسلام

مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 12, 2012

زنا بالجبر کا واحد حل اسلام ہے

ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی ایک چلتی بس میں وحشی درندوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئی طالبہ کی موت پر الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں تاہنوز بحث جاری ہے ،اس درمیان مبصرین ، سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں کی عجیب وغریب رائیں سننے اور پڑھنے کوملیں، کوئی مجرمین کو سخت سے سخت سزا سنانے کی مانگ کررہا ہے ،تو کوئی ایسی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے جس کی بنیاد پر کسی کو ایسے جرم کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ، کوئی اس طرح کے ملزمین کو نامرد کرنے کی تجویز پیش کررہا ہے ،کوئی خواتین کے تنگ لباس پرپابندی کی مانگ کررہا ہے تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تنظیمیں اسے اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر الٹے مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی دعوت دے رہی ہیں ،یہ بحثیں ابھی جاری ہی ہیں کہ اسی اثناءعصمت دری کے بعد قتل کے کئی دیگرواردات سامنے آئے ہیں،اور آتے ہی رہیں گے،یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے، جب تک کہ انسان اپنے خالق ومالک کے دئیے ہوئے نظام کی طرف لوٹ نہ آئے کہ صانع ہی اپنی مصنوعات کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھتا اوراسے استعمال کرنے کا بہترین طریقہ بتا سکتا ہے ،بعینہ خالق ہی مخلوق کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہے، اوراس کی طبیعت سے ہم آہنگ قانون اورضابطہ بنا سکتا ہے ،اس لیے جب ہم بحیثیت مسلمان اس مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کا حل صرف اورصرف اسلام ہی دکھائی دیتا ہے، اورمجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے نام نہاد مبصرین جورائے زنی کررہے ہیں وہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ یہ محدود انسانی سوچ کا نتیجہ ہے اور رائے دینے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے خالق کی پہچان نہیں رکھتے اور اس کے نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں.
جبکہ اسلام دین فطرت ہے ،اس کی جملہ تعلیمات انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہیں ، چنانچہ اسلام نے مردوعورت کے تئیں فطری نظام یہ پیش کیا کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں ،اور ان کی دنیوی واخروی کامیابی کے اصول بھی ایک ہیں، البتہ مرد وں اور عورتوں میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ نازک بھی ہیں اس لیے اِس کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، طبعی طور پر ہم اس نزاکت کو سمجھتے ہیں،اسی لیے اگر ایک شریف باحیا اور باپردہ لڑکی سڑک سے گذر رہی ہو ،اسی کے پیچھے دوسری لڑکی چل رہی ہے جو بے پردہ ہے ،شوخ اور تنگ لباس زیب تن کی ہوئی ہے تو اوباش لڑکے ظاہر ہے کہ پہلی لڑکی کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں گے جبکہ دوسری لڑکی کو گھوڑ گھوڑ کردیکھیں گے ، اس سے چھیڑخوانی بھی کرسکتے ہیں ، کیونکہ نگاہ ہوس فتنہ انگیز حسن کا مشاہدہ کرچکی ہے ۔
آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا لڑکا شام چاربجے گھر سے بازار جاتا ہے اور دس بجے رات میں لوٹتا ہے تو آپ کو کسی طرح کی فکرمندی لاحق نہ ہوگی ،اس کے برخلاف اگر آپ کی جوان لڑکی چار بجے بازار جاتی ہے اور دس بجے رات سے پہلے بازار سے لوٹ کر نہیں آتی تو آپ پریشان ہوجائیں گے ،کرب واضطراب کی کیفیت طاری ہوجائے گی،اورذہنی الجھنیں چاروں طرف سے گھیرلیں گی کہ یہ فطرت کی آواز ہے۔ اسی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اسلام عورت کو معاشی جدوجہد سے آزاد کرکے مردکے سر عورت کی معاشی ذمہ داری ڈالتا ہے اوراس طرح دونوںکا دائرہ کارمتعین کرتا ہے کہ مردکو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اورعورت کو گھر کی ملکہ اورچراغ بن کر رہنا ہے کیونکہ اسی میں اس کی رونق ہے ، اس کے باوجود عورت اگر اپنے ذوق اوررجحان کے مطابق اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی کام کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں ڈالتا ،لیکن عورت بہرصورت پردہ ہے اس لیے اس کا حسن پردہ میں ہی جھلکتا ہے ۔
پھراسلام نے خواتین کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے ایسی سنہری ،ہمہ گیر اور ہمہ جہت تعلیم دی کہ اگرانسان اسے عملی زندگی میں جگہ دے تو سماج اورمعاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے اور جرائم خودبخود ختم ہوجائیں ۔ اس سلسلے میں اسلام سب سے پہلے دل کی نگہداشت پرزور دیتے ہوئے اس میں اللہ پاک پر پختہ یقین واعتماد کو بحال کرتا ہے جو سمیع وبصیر ہے ،جو دلوں کے سربستہ رازوں اورآنکھوں کی خیانت سے بھی آگاہ ہے ،جس کی نگرانی سے انسان ایک لمحہ کے لیے بھی نکل نہیں سکتا ،جس نے اس پر اپنے اطاعت شعار فرشتوں کو بھی مقررکررکھاہے جو اس کی ایک ایک حرکت کا ریکارڈ تیار کررہے ہیں،کل قیامت کے دن اس کی زبان پرمہر ڈال دی جائے گی اوراس کے وہ اعضاء وجوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے جنہیں لذت پہنچانے کے لیے دنیا میں غیرت الہی کو چیلنج کیا کرتاتھا ،پھر وہ زمین جہاں پر کام ودہن کا سامان فراہم کیاتھا کل قیامت کے دن اس کی حریف بنی کھڑی ہوگی ۔

یہ احساس پیدا ہونے کے بعد انسان ایک ذمہ دار ہستی بن جاتا ہے، اس کے دل میں ایک پولس چوکی بیٹھ جاتی ہے،جو ہمہ وقت اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے، یہ فطری بات ہے کہ انسان کے اندرجب کسی گناہ کاداعیہ پیدا ہوتا ہے تووہ انسانوں کی نگاہ سے بالکل روپوش ہوکر گناہ کرتا ہے کہ مبادا اگرکوئی دیکھ لے تو ہماری سبکی ہو گی،اب ظاہر ہے کہ جس اللہ کے ساتھ وہ معاملہ کررہا ہے اس کی نگاہ سے وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی چھپ نہیں سکتا ،ایسی صورت میں اس کے اندراللہ کے حکم کو پامال کرنے کی قطعاً جرات پیدا نہیں ہوسکتی ،اوراگرنفس امارہ کے بہکاوے میں کبھی چوک ہوگئی تواس کا ضمیر اس کو فوراً ملامت کرتا ہے ،بالآخر وہ توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے رب کی مغفرت کا طلبگار ہوتاہے، اسی احساس کی بنیادپر بیداری ضمیر کا ایسابے نظیرنمونہ سامنے آتا ہے کہ ماعز اسلمی اور غامدیہ جیسے لوگ جن سے خلوت میں زنا ہوگیاتھا کشاں کشاں دربار نبوت میں حاضرہوتے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے لیے سزاکا مطالبہ کرتے ہیں ،یہاں تک کہ انہیں سنگسا رکردیا جاتا ہے ۔ اس احساس کے نمونے جہاں تاریخ کے درخشاں صفحات پر سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ملتے ہیں وہیں آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے پاکیزہ نفوس پائے جاتے ہیں ۔

چند ماہ قبل کا واقعہ ہے کہ امریکہ کی ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیاں اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہوئیں، اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔لیکن عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام نے نکلتے ہی فوراً پولس کو فون لگایا، پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا، تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، لیکن اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ (روزنامہ العربیہ13مئی2012)
جی ہاں! جب دل میں اللہ کا خوف اوراپنے رب کے پاس جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو عفت وعصمت کے ایسے ہی نمونے دکھائی دیتے ہیں کہ حسن وجمال کی پیکر دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن اس کو یہ کہتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا کہ ’مجھے اللہ کا ڈر ہے ۔ ‘
دل کو بدلنے اوراس میں اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دوسرانظام یہ نافذ کیا کہ زنا کے محرکات پر بھی روک لگادی اورایسے احتیاطی تدابیر تجویز کیے کہ زنا تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے ، چنانچہ اسلام نے مردوخواتین دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ،عورتوں کے لیے خاص حکم یہ دیا گیا کہ وہ گھر میں استقراراختیار کریں ،اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو پردے کا پورا خیال رکھیں ،اپنی زینت وزیبائش کا اظہار نہ کریں،کسی غیرمحرم مرد سے بات کرتے وقت لہجہ میں لچک نہ ہو بلکہ روکھاپن پایاجائے کہ مبادا کوئی بیمار دل غلط توقع قائم کربیٹھے ،اورنہ اجنبی مردسے خلوت اختیار کریں ، نہ محرم کے بغیر سفر کریں ۔ پھر اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی اوراس کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دورکرتے ہوئے ایسی شادی کو بابرکت قرار دیا جس میں اخراجات بہت کم ہوں، ازدواجی زندگی میں الفت ومحبت کا ماحول بنے اس کے لیے شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینے کا حکم دیا گیا ، اور شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ایسی پاکیزہ تعلیمات دی گئیں کہ ازدواجی زندگی جنت نظیر بنی رہے ۔ اوربیوی کے علاوہ کسی دوسری خاتون کی طرف قطعاً اس کا دھیان نہ جائے ۔
ان ساری تدابیر کے باوجود چونکہ فحاشی میں بذات خود وقتی لذت ہے ،اور معاشرے میں بیمار طبیعتیں پائی جاتی ہیں جن کے لیے نصیحت اورتدابیر کوئی کام نہیں دیتیں ،ایسے وقت اگر اسلام نے محض دل کی تربیت اور احتیاطی تدابیر پر اکتفا کیا ہوتا اورخبیث طبیعتوں کے لیے سزا مقررنہ کی گئی ہوتی تواسلام کی تعلیم آفاقیت پر مبنی نہیں ہوسکتی تھی ،اسی لیے انسانی فطرت سے ہم آہنگ اس مذہب نے حدود الہی کو پامال کرنے والوں کے لیے سخت سے سخت جسمانی سزا مقرر کی ، چنانچہ زناکار مردوخواتین اگر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے رجم کا حکم دیا گیا، اوراگر غیرشادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی کی سزا تجویز کی گئی ۔ اور اس کی تنفیذ کے حوالے سے حکم یہ دیاگیا کہ رنگ ونسل اورامیری وغریبی کی تمیز کے بغیر ہر مجرم کو مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں سزا دی جائے تاکہ حاضرین کے لیے نشان عبرت ہو اوربعد میں کسی کو ایسی شرمناک حرکت کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا:
 وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیَاة یَا اولِی الاَلبَابِ (سورة بقرہ 179)
” اور اے اہل ِعقل! (حکمِ) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے“۔
یہ ہے اسلام کا وہ آفاقی نظریہ جوبالکل ماڈرن اوراپٹوڈیٹ ہے ،ہرزمانے اورہرجگہ اورہرحالت میں اس نظام پر عمل کرکے خوشگوار زندگی گذاری جاسکتی ہے ،جبکہ موجودہ زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریکیں منظرعام ہر آئی ہیں ان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عرباینت،فحاشی اوربے راہ روی کو انسانی معاشرے میں اعلی پیمانے پر فروغ دیاجائے ،ان کا مطالبہ ہے کہ مردوعورت دونوں کو ایک میدان میں کام کرنے کی بالکلیہ اجازت ہونی چاہیے اس کے بغیر ان کے درمیان مساوات باقی نہیں رہتا ، اوریہ نعرہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ دیا ہوا ہے جو مغرب سے اٹھا اورپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ورنہ مشرقی تہذیب میں عورت پردے کی عادی تھی ،یہاں تک کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں پردے کا حکم آیا ہے اورآج تک غیرمسلموں کے بعض مذہبی گھرانوں میں اس کا رواج چلا آرہا ہے ،خود مغرب جو عیسائیت کی دہائی دیتا ہے ان کے مذہب میں مریم علیہا السلام کو باپردہ پیش کیاجاتا ہے ،لیکن برا ہو سرمایہ دارانہ نظام کا جس نے دھرم اورروایت سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنادیا،اوراپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے تجارتی اشتہارات میں عورتوں کے حسن کا خوب خوب استعمال کیا، اور خود عورتوں نے اپنی عزت کی نیلامی کو بسروچشم قبول کرلیا ۔
  اب میں پوچھناچاہتا ہوں آزادی نسواں کی تنظیموں سے جو سوداگروں کے فریب میں مبتلا ہیں کہ اس آزادی نے آپ کو کیا دیا، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں لیکن مغربی ممالک میں بھی سوائے چند کے آپ کو سربراہی حاصل نہ ہوسکی ،ہاں !آپ کے جسم کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا،سرمایہ داروں نے آپ کے حسن کا خوب خوب استعمال کرکے اپنی تجارت کو فروغ دیا،شہوت پرستوں نے آپ کو ننگا کرکے شہوت کی آگ بجھائی ،پھر جب یہ فتنہ انسانی معاشرے میں آیا تو آپ پر جنسی زیادتی عام ہونے لگی ، زنابالجبر کے واردات کثرت سے ہونے لگے ،چنانچہ امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہرپانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے ،رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران 25 لوگ جنسی زیادتی ، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ہندوستان کے ایک تازہ جائزے میں برطانوی خبررساں ایجنسی نے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اوسطا ہر 20 منٹ بعد کسی نہ کسی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
خبرکے مطابق 2011ءمیں بھارت میں ریپ کے واقعات کی تعداد 24 ہزار 206 رہی۔اورپاکستان میں پچھلے ایک سال میں زنابالجبر اوراجتماعی زیادتی کے 827 واقعات منظرعام پر آئے ہیں ۔ اس لیے ہمیں کہنے دیاجائے کہ آج اگردنیامیں زنا بالجبر کے واردات سامنے آتے ہیں تو یہ دراصل استعماری دنیاکا شاخسانہ اورفطرت سے بغاوت کانتیجہ ہے ، قدم قدم پر شہوت کو ہوا دینے کے سامان مہیا کئے گئے ہیں ،الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے عورت کو کم سے کم لباس میں پیش کررہا ہے ،خودلڑکیاں شوخ اور تنگ لباس زیب تن کئے اٹکھیلیاں کرتیں نگاہ ہوس کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں ۔
ایسے حالات میں اگر کوئی کہے کہ ہم آگ جلائیں گے لیکن اطراف کی چیزیں نہیں جلنی چائییں، سونا اور ہیرے جواہرات عوامی مقامات پر رکھے رہیں گے ان کی چوری نہیں ہونی چاہیے ،گھر کا دروازہ کھلارہے گا گھرکا سامان محفوظ رہناچاہیے ، مٹھائیاں کھلی رہیں گی ان پر مکھیاں نہیں لگنی چاہئیں ،تو ایسا خیال دیوانے کا بر تو ہوسکتاہے ، عقلمند ی کی علامت نہیں ہوسکتی ۔


بہرکیف یہ بہترین موقع ہے دعاة اورمبلغین کے لیے کہ موجودہ حالات میں آزادی نسواں کے علمبرداروں اورغیرمسلموں کے سامنے مثبت اندازمیں اسلام کے معاشرتی نظام کی آفاقیت بیان کریں کہ یہی نظام دراصل عفت وعصمت کا رکھوالا، انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور پرسکون معاشرے کا ضامن ہے ۔اورجب تک انسانیت اپنے رب کے دئیے ہوئے نظام حیات کی طرف لوٹ کر نہ آئے گی پریشانیاں گھر ی رہیں گی ، عفت وعصمت کا خون ہوتا رہے گا اورجرائم دن بدن بڑھتے ہی رہیں گے ۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, ستمبر 06, 2012

لیکچر سننے کے لیے غیرمسلم کا مسجد میں داخلہ

 

سوال :

کیا دعوت پر مشتمل لیکچر سننے کے لیے غیرمسلم کے لیے جائز ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہو؟


جواب :

جی ہاں! جائز ہے جبکہ مامون ہوں کہ غیرمسلم مسجد کو گندہ نہ کریں گے۔ کیونکہ یہ داخلہ مصلحت کے حصول کے لیے ہے جس سے مسجد کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیرمسلم کے لیے مسجد میں کسی طرح کی اصلاح وترمیم کے لیے داخل ہونا اورٹھہرنا جائز ہے ۔ کیونکہ اس میں مسجد کی مصلحت ہے، اسی طرح لیکچر سننے کے لیے بھی جانا جائز ہے جو ممکن ہے کہ اس کی ہدایت کا سبب بن جائے ۔ خود اللہ کے رسول انے ثمامہ بن اثال کو مسجد ہی میں باندھا تھا ۔ 

مکمل تحریر >>

بہن اسماء کے نام

 بہن اسماء! سلام مسنون
سب سے پہلے ہم آپ کے دینی جذبہ کی قدر کرتے ہیں کہ آپ نے ہم سے رابطہ کرکے رہنمائی حاصل کرنی چاہی ۔ اللہ پاک یہ دینی جذبہ باقی رکھے ۔ فضائل درود شریف ، فضائل استغفار ، اسماءحسنی کے متعلق ہمارے پاس تو مستقل کتابيں دستیاب نہیں ہيں ۔ البتہ میں آپ کو اس سلسلے میں فرصت سے کچھ مواد فراہم کرسکتا ہوں۔ میں ذرا مشغول تھا جس کی وجہ سے بروقت جواب نہ دیا جاسکا۔اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔  
پرانی دینی کتابوں کے متعلق آپ کا سوال ہے تو اگر ممکن ہوکہ کسی کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان سے استفادہ کرے تو کر سکتی ہیں بشرطیکہ کتابیں مستند ہوں ۔اگر ان سے استفادہ نہ کیا جاسکتا ہو تو انہیں مشین سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیں ۔ یا  زمین میں دفن کردیں یا جلاکر خاکستر کر دیں ۔ یا نہر و سمندر وغیرہ میں ڈال دیں تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو ۔
 آپ نے کچھ ویب سائٹس کے بارے میں جاننا چاہا ہے، اس تعلق سے ہم بتائیں گے کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا ویب سائٹ اور ان کی باتیں بھی مستند ہوتی ہیں ۔ اسی طرح آپ مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے بھی استفادہ کرسکتی ہیں 
 آپ نے کہا کہ کیاچاروں امام برحق ہیں ۔ ائمہ یہ چار ہی نہیں تھے ،ایسے بہت سارے علماءگذرے جنہوں نے اپنے دورمیں علم کی خدمت کی لیکن چار ائمہ کے دبستان فکرمشہور ہوئے ،ان سب کی کوشش حق تک پہنچنے کی تھی، کسی نے جان بوجھ کر حق کی مخالفت نہیں کی، لیکن حق ایک ہی ہوتا ہے ،متعدد نہیں ۔ اورہرایک نے یہی بات کہی کہ جب میری بات قرآن وحدیث سے ٹکراجائے تو اسے دیوار پر مار دو، اس لیے اب معیار قرآن وحدیث ہوگا ائمہ نہیں ہوں گے ۔ اس لیے ان ائمہ کی طرف نسبت کوئی عیب کی بات نہیں لیکن جن کی بات قرآن وحدیث سے زیادہ قریب ہے اس کی پیروی ہونی چاہیے ۔ خلاصہ یہ سمجھیں کہ سارے ائمہ کا احترام ہوناچاہیے ۔البتہ معیار قرآن وحدیث ہو، نہ کہ کسی امام کی بات، اگر حدیث کچھ کہہ رہی ہو اورامام کی بات کچھ تو حدیث کے سامنے آمنا صدقنا کہیں ۔یہی مسلمان کی شان ہونی چاہیے ۔ 
 اردو زبان میں کئی کتابوں کاآپ نے حوالہ دیا جو آپ کے پاس ہے یا جسے آپ زیرمطالعہ رکھنا چاہتی ہیں ۔اس تعلق سے عرض ہے کہ آپ دارالسلام ریاض کی مطبوعات (اردو ہو یا انگریزی ) حاصل کریں ،ان کا مکتبہ کویت میں بھی دستیاب ہے، ان کی کتابیں مستند اورمعلومات افزا ہوتی ہیں ۔ مثلاً منہاج المسلم شیخ ابوبکر جابر جزائری، فتاوی برائے خواتین ، فقہی مسائل : ڈاکٹر صالح الفوزان، الرحیق المختوم  شیخ صفی الرحمن مبارک پوری، یہ اچھی کتابیں ہیں جن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 
  جہاں تک دین پر استقامت کی بات ہے، تو اس کے لیے سب سے بہتر قرآن کی تلاوت ہے، عرب سے زیادہ اجڈ اور گنوار قوم دنیا میں کوئی نہیں تھی، لیکن قرآن نے ان کو بدل کر دنیا کا قائد بنایااور تہذیب وسلیقہ سے آراستہ کیا ۔ آج بھی یہ وہی کتاب ہے جو اس وقت تھی ،البتہ فرق اس کے ساتھ معاملہ کرنے کا ہے جس کی وجہ سے قرآن اپنا اثر نہیں دکھا رہا ہے ۔ قرآن انقلابی کتاب ہے ،قرآن تبدیلی لانے والی کتاب ہے ،لیکن تب جب ایک آدمی خود کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے خود کو تیار کرے گا۔ جہاں ثبات قدمی کے لیے نیک لوگوں کی صحبت ضروری ہے ،اچھی کتابوں کا مطالعہ ناگزیر ہے ،دین کے احکام کو بجالانا اہم ہے ،وہیں  قرآن کی تلاوت ضروی ہے ۔ لیکن تلاوت ویسے نہیں جیسے ہم عام طور پر کرتے ہیں بلکہ ایسے کہ ان کا اثر ہم پر پڑے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے کچھ کرنا ہوگا ۔ کیا کرنا ہوگا؟
دن یا رات میں ایک بار قرآن کی تلاوت ضرور کریں،تلاوت سے پہلے مسواک کرلیں، وضو کرکے پرسکون جگہ پر بیٹھیں جو شوروہنگامہ سے بالکل خالی ہو ، سریلی آواز سے تلاوت شروع کریں اور تجوید کی رعایت کریں ۔ اگر قرآن کی زبان نہ سمجھتى ہوں تو ترجمہ قرآن کے ساتھ ہی تلاوت ہو، اوراس کے معانی سمجھتى جائیں، شروع میں آیت کے مفہوم کو سمجھ لینا کافی ہے، گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ورنہ ذہن منتشر ہوجائے گا ۔جب ایسی آیت سے گذرہو جو دل پر اثراندازہورہی ہو تو اس سے مرور کرام نہ کریں بلکہ بار بار اس کا اعادہ کریں کیوں کہ یہی وہ انفعالی کیفیت ہے جو ہمیں تلاوت قرآن سے مطلوب ہے، اوریہی انسان کے اندر تبدیلی لانے کاسبب بنتی ہے ۔ جب ہم کوئی کتاب پڑھتے ہیں، یا رسائل وجرائد کا مطالعہ کرتے ہیں تومقصد محض الفاظ کی خواندگی نہیں ہوتا بلکہ ہم اس کے پیغام کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر اللہ کے پیغام کو جو عربی میں ہمارے پاس ہے کیوں سمجھنے کے لیے سنجید ہ کوشش نہیں کرتے جس پیغام کے اندر انقلاب لانے اور تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔   

والسلام 
مکمل تحریر >>

رشتے دار کی عورتوں سے مصافحہ کرنا كيا شرعی ناحیہ سے جائز ہے ؟

سوال:

بعض مناسبتوں میں ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ رشتے دار کی عورتوں سے مصافحہ کیاجاتا ہے اوراسے عیب نہیں سمجھا جاتا ۔ کیا ایسا شرعی ناحیہ سے جائز ہے ؟ 

جواب:

مصافحہ اگرمحرم عورتوں سے کررہے ہوں جیسے ماں، بہن، بیٹی، بیوی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی اوربھانجی وغیرہ تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، بلکہ اچھا ہے، لیکن اگر غیرمحرم عورتوں سے مصافحہ کررہے ہوں چاہے وہ آپ کی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں تو یہ جائز نہیں ہے ۔ چاہے عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی ہوں اورچاہے مصافحہ کرنے والا جوان ہو یا بوڑھا ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إنی لا أصافح النساء (مؤطأ  للإمام مالك ، ومسند احمد)
"میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا "۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ سختی کے ساتھ فرمایاکہ :
 لأن یطعن فی رأس أحدکم بمخیط من حدید خیر لہ من أن یمس إمراة لا تحل لہ (طبرانى ، بيهقى )
" اس کے سر میں لوہے کے دھاگے سے مارا جائے یہ بہتر ہے اس بات سے کہ وہ ایسی عورت سے مصافحہ کرے جس سے مصافحہ کرنا اس کے لیے جائز نہیں ۔"
اورایک مسلمان سماج کی روایت کا پابند نہیں ہوتا بلکہ دین کا پابند ہوتا ہے ۔اگر کہیں پر ایسی روایت ہے تو اسے ختم کرنے اوروہاں کے مردوں اور عورتوں میں اس کا شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 05, 2012

کہاں گیے اسلام کا درد رکھنے والے ؟

 آج مسلمان ہر میدان میں کس قدر پچھڑتے جا ر ہے ہیں اس كا اندازه ہم سب كو بخوبى ہے، تعلیمی میدان ہو ، تجارتی میدان ہو، سیاسی میدان ہو ہر جگہ ان کی نمائندگی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ سب سے بڑھ کر ہم مختلف گروہوں ، جماعتوں اور فرقوں میں بٹ کر اپنے اتحاد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں، حالانکہ ہماراخالق ومالک ایک ہے، ہمارا دین ایک ہے ، ہمارا نبی ایک ہے ، ہمارا قبلہ ایک ہے ، آج تقریبا 155 ممالک میں مسلمان ہیں ، اور ہر چوتھا ایک مسلم ہے ، اگرآج ہم بیدار ہوجائیں تو يقين ركهيں كہ ساری انسانیت اسلام کو گلے لگا لے گى، آج عیسائی مشینریاں ، اسلام دشمن تحریکیں ، اور ہندوؤں کی متعصب تنظیمیں گویا اسلام مخالفت پر کمر بستہ ہوچکی ہیں ، اور زہر کو تریاق بناکر انسانیت کے سامنے پیش کر رہی ہیں ….کہاں گیے اسلام کے سپوت ؟ کہاں گیے اسلام کا درد رکھنے والے ؟ کیا کوئی ہے جو ان گزارشات پر کان دھرے ؟ مجهے قوى اميد ہے كہ ميرى آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہوگى 
مکمل تحریر >>

جمعرات, اگست 09, 2012

ابرا هيم جمال صاحب كے نام

ابرا هيم جمال صاحب
سلام مسنون 

مجلہ مصباح اردو زبان میں کویت سے شائع ہونے والا ایک کثیر الاشاعت مجلہ ہے جو دعوتی اوراصلاحی موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ مثبت اسلوب میں عقائد کی اصلاح بھی اس کا بنیادی ہدف ہے ۔ 
آپ نے ہمیں ایک مضمون  ارسال کیا اس کے بعد بالكل بھول ہى گئے ، آج تک اس مقالے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، واقعی لوگوں نے آپ کی تحریر کو بہت پسند کیا ، تصور کیجئے کہ آپ کہاں ہیں اور کہاں آپ کی تحریر پہنچ کر امت مسلمہ میں بیداری لانے کا سبب بن رہی ہے ، اگر ممکن ہوسکے تو ضرور یہ سلسلہ جاری رکھیں، مضامين کسی بھی کالم سے متعلق لكه سكتے ہیں ۔ البتہ ہميں جن کالمز ميں زياده مضامين دركار ہوتے ہیں وہ ہیں ”گوشہ خواتین “ ”باغیچہ اطفال “ ”درس قرآن وحدیث “ ” اصلاح معاشرہ “ ہمیں آپ کے مضمون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔ اللہ آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے ، ہم آپ کی نگارشات کے چشم براہ ہیں، ہم نے آپ کی مخلصانہ باتیں پڑھیں، اللہ تعالی سارے مسلمانوں کی پریشانیاں دور فرمائے۔ آمین

مکمل تحریر >>

طلبہ جامعہ امام ابن تیمیہ کے نام


آج میری چھٹی کا دن ہے ، میرے لیے چھٹی تو نام کى ہوتی ہے کیوں کہ اس دن میری مشغولیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ، ليكن آج میں مادرعلمی کے خوشہ چینوں کو پہلے اپنے دل کی آواز سناؤں گا، اس کے بعد ہی کوئی کام کروں گا۔ توچلتے ہیں اپنے عزیز بھائیوں کی طرف ۔
میرے پیارے بھائیو! آپ طلب علم میں مشغول ہیں، آپ کا مقام نہایت اعلی ہے ، آپ انبیاءکی وراثت حاصل کررہے ہیں، زندگی گزارنے کا سلیقہ سیکھ رہے ہیں، دین ودنیا دونوں کی کامیابی کا سامان جمع کررہے ہیں، آپ کے لیے ساری مخلوق حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعاگوہیں۔ میں نے بھی اسی چمن میں اپنی زندگی کا اچھا خاصا وقت گنوایا ہے ، جی ہاں! گزارا نہیں ہے بلکہ گنوایا ہے ۔ زندگی کا اچھا خاصا وقت لایعنی اور بیکار کاموں میں برباد کرلیا ۔ مجھے اس کا احساس ہے ،اسی لیے آج میں اپنے دلی جذبات آپ تک پہنچانے بیٹھاہوں .... اپنی کوتاہیوں کو یاد دلانا چاہتاہوں تاکہ آپ ان سے بچ سکیں ....سلف کے قصے سنانا چاہتاہوں تاکہ آپ کی ہمت کو مہمیز لگے ۔ آپکی خیرخواہی کا حق اداکرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ اسے حرزجاں بنالیں۔

عزیز بھائیو! یوں توپڑھتے بہت سارے بچے ہیں لیکن کامیاب چندہی ہوتے ہیں ۔ کیوں؟ اس لیے کہ کامیابی محنت کے اندازے سے حاصل ہوتی ہے ، جس قدر محنت ہوگی اسی کے تناسب سے کامیابیاں بھی ملیں گی ۔ صحت اور فرصت دونوں بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ اکثر لوگ اس نکتے کو نظرانداز کرجاتے ہیں جس کا خمیازہ انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ جامعہ ایک تربیت گاہ ہے ، یہ ایک سنہری فرصت ہے ، آج میں ترستاہوں کہ کاش وہ زمانہ پھر لوٹ آتا تو میری وہ حالت نہ ہوتی جو پہلے تھی لیکن یہ قانون فطرت ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔

عزیز بھائیو! اپنی ہمت بلند رکھیں ،احساس کمتری کے شکار نہ ہوں ،محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی ایک نہ ایک دن رنگ لاتی ہے ۔ آج جس قدر جسم کو ذلیل کریں گے کل اسی قدر عزت واحترام پائیں گے ۔ آرزوؤں اور تمناؤں سے کچھ ہوتا جاتا نہیں .... بلند ہمت انسان کی پہچان ہے کہ وہ پُرعزم ہوتاہے ۔سستی اسے چھوکر بھی نہیں جاتی ۔ وہ دنیا کے بکھیروں میں نہیں پڑتا، اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات گردش کرتی ہوتی ہے کہ
 مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے ۔
 آسان پسندی ، بے مقصدیت اور عیش کوشی ایک مسلمان کا شیوہ نہیں چہ جائیکہ طالب علم کا شیوہ ہواور وہ بھی ایسا طالب علم جو اپنی نسبت ابن تیمیہ کی طرف کرتا ہو۔ خالد بن صفوان سے کسی نے عرض کیا کہ کیا بات ہے کہ جب میں آپ لوگوں کے ساتھ احادیث کا مذاکرہ کرنے بیٹھتا ہوں تو مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ تم انسان کی شکل میں شیطان ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایک حریص اور علم کا جویا کبھی بھی علمی مجالس سے تھکتا نہیں بلکہ اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا ہوتی ہے ۔

عزیز ساتھیو ! ابھی آپ کو رہنمائی کی بہت ضرورت ہے ، علم کے میدان میں شرم زہرہلاہل ہے ،بلا جھجھک ہرکسی سے اپنے کیرئر کے تئیں مشورہ لیں ، کیا پڑھیں کیا نہ پڑھیں اس سلسلے میں اساتذہ کی رہنمائی حاصل کریں ۔ ساری باتیں کتابوں میں نہیں ہوتیں ۔ اور اگر ہیں بھی تو انہیں سمجھنے کے لیے اساتذہ کی رہنمائی درکارہے ۔ اساتذہ کی عزت کرنی چاہیے ۔ ان کی صحبت کو غنیمت سمجھنا چاہیے ۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تصور عام ہوگیا ہے کہ استادہے تو صرف کلاس کے وقت .... ادھرکلاس ختم ہوا اورادھر استاد سے رابطہ بھی ختم.... اس سے طالب علم بہت ساری رہنمائیوں سے محروم رہ جاتا ہے ۔
نیتوں میں اخلاص پیدا کریں : دین الہی کی خدمت کے جذبہ سے تعلیم حاصل کریں، روایتی تصور کو ذہن سے بالکل نکال دیں کہ اس میدان میں غربت کا سامنا کرنا پڑے گا ، مالی حالت خراب رہے گی ، ایسا تصور ذہن میں بٹھانے والے بچے کامیاب نہیں ہوتے ۔ استاذ محترم شیخ کفایت اللہ سلفی رحمه الله سے جب میں نے ایک بار ایسی ہی کچھ شکایت کی تھی تو بہت پیار سے انہوں نے کہاتھا کہ عزیزم ! تمہارا جو کام ہے وہ کام کرتے رہو .... راستہ خود بخود ہموار ہوتا جائے گا ۔ آپ نے تو یہ حدیث تو پڑھی ہی ہوگی کہ ” جس شخص کی تگ ودو آخرت کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کی شیرازہ بندی کرتا ہے ،اس کے دل میں بے نیازی پیدا کردیتا ہے اور دنیا اس کے سامنے جھک کر آتی ہے اور جس شخص کی ساری تگ ودو حصول دنیا کے لیے ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے معاملے کو منتشر کردیتا ہے ، اسکی آنکھوں کے سامنے اس کے فقروفاقہ کو ظاہر کردیتا ہے اور اسے دنیا اسی قدر حاصل ہوتی ہے جس قدر اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دیا ہوتا ہے “ ۔ (ابن ماجہ)

مجھے یاد آتاہے جس وقت میں نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لیا تھاشاید پہلی بارتھا کہ میں نے بانی جامعہ محترم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کوفون کیا، اپنے داخلہ کی اطلاع دی ۔تو بہت خوش ہوئے ، مبارکباد دی، اورجب میں نے ان سے مختصر نصیحت کی گزارش کی توآپ نے صرف ایک جملہ کہاتھا کہ
 أخلص نیتک واتق اللہ ۔
 یہ نصیحت کیا تھی گویا دریا کوکوزے میں بند کردیا گیا تھا۔ کاش کہ اللہ پاک آج بھی ہمارے اندر وہ صفت پیدا کردے ۔

اب میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ اگلی نشست میں مزید کچھ باتیں ہوں گی ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ
مکمل تحریر >>