جمعرات, دسمبر 29, 2011

نئے سال کے آغاز پر خوشی كا اظہار کیوں؟

0
شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہ جنوری کی شروعات ہونے ہونے کو ہے، یعنی 2012 کے شروع ہونے میں کچھ ہی وقت باقی ہے۔ اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتا ہے۔ کہیں کارڈوں کے تبادلے کئے جاتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے۔ نئے سال کے جش پر غیر مسلم توکیا…. مسلم معاشرہ کے بہت سے افراد بھی اُن سے پیچھے نہیں ہوتے ۔
سوال یہ ہے کہ ماہ جنوری سے شروع ہونے والے سال پر اس قدر خوشی کیوں؟ ….بحیثیت مسلمان ہم غورکریں کہ کیا اس نئے سال سے مسلمانو ں کا کچھ لینا دینا ہے۔ آج پوری دنیا اقتصادی عالمی بحران سے دوچار ہے ، مہنگائی آسمان چھوتی جارہی ہے ….کیا ایسے میں اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے ماضی کا محاسبہ کئے بغیر اور اپنے ماضی سے سبق ليے بغیر اندھادھند نئے سال کے جشن میں مدہوش ہوجائے؟ اس طرح کے کئی اہم سوالات ہیں جس پر ہر فرد کو غور کرنا چاہيے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نئے سال كى مناسبت سے خوشياں منانا انسانی عقل کے خلاف ہے کیونکہ ہر پل انسان کے ليے نیا ہے اور قیمتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کی ساعتوں پر گہرائی سے غور کرے تو وہ ہر پل اپنے خالق کا شکر بجا لانے والا ہوگا کیونکہ موت وزندگی سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی انسان اس کی مرضی کے بغیر ایک سکنڈ نہیں جی سکتا۔ پھر جو پل ، جو دن، جو مہینہ اور جوسال گزر جاتا ہے وہ ماضی کا حصہ بن جاتا ہے اور زندگی میں لوٹ کر پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ اپنی قیمتی زندگی کے جانے پر انسان کو افسوس ہونا چاہئے کہ اس کی زندگی کا ایک حصہ گزرگیا۔ وہ ایک سال اپنی زندگی سے دور ہوا ہے اورقبر سے قریب ہوا ہے، پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہيے کہ جو وقت گزرا ہے اس میں اُس نے کیا کیا ؟ کیا کھویا ….کیا پایا؟ کہیں اس کی زندگی کے قیمتی لمحات ، ایام اور مہینے یوں ہی تو نہیں گزرگئے ، کہیں ان ایام میں اس نے کسی کو ستایا دبایا تو نہیں ، کسی کا حق تو نہیں مارا ، کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچائی ، اپنے خالق کی نافرمانی تو نہیں کی، جس مقصد کے ليے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا اس کو بھلا تو نہیں بیٹھا!….ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک شخص اس طرح سے اپنی بیتی ہوئی ساعتوں کے بارے میں سوچے گا تو یقینا وہ شرمندہ ہوگا، اپنے عملوں پر افسوس کرے گا۔ کیونکہ ہر انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں …. وہ سوچے گا کہ اس نے اس حالت میں دوچار دن نہیں، دوچارہفتے یا دوچار مہینے نہیں بلکہ پورا سال گزاردیا جواچھا خاصا وقت ہے۔ پچھلے سال جنوری کے مہینہ سے دسمبر تک وہ یوں ہی غفلت میں رہا اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اچانک نیا سال آگیا ….ایسے میں اس کے سامنے نئے سال کا منظر نہیں ہوگا بلکہ دیر تک گزرے ہوئے سال کے کربناک مناظر اس کی نگاہوں میں گھومتے رہیں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کیفیت اِس طرح کی ہوگی تو پھر نئے سال کی آمد پر خوشی کیسی ؟ پارٹیاں کیسی ؟ ناچ گانا کیسا ؟ موج مستی کیسی ؟

پھراگر نیا سال منانے کے پس منظر میں مسلمانوں کی بات کی جائے توان کے لئے کسی بھی لحاظ سے نئے سال کو منانا مناسب نہیں ہے کیونکہ جنوری سے شروع ہونے والے نئے سال کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلاشک و شبہ اس کا تعلق شمسی یا عیسوی کیلنڈر سے ہے جب کہ اسلامی کیلنڈر قمری ہے، جس کے ساتھ اسلام کا نظام زندگی جڑا ہوا ہے۔ اسلام کے بہت سے احکام کا نفاذ محض قمری کیلنڈر سے ہوتا ہے، شمسی یا عیسوی کیلنڈر کے مطابق اسلام کے کسی بھی حکم کا نفاذ نہیں ہوتا۔ اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ جنوری سے نہیں ۔….یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ محرم سے بھی اگر اسلامی کلینڈر کی شروعات ہورہی ہے تو اُس میں جشن منانے کی اجازت نہیں۔ اسلام قطعا اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ نئے سال پر یا کسی بھی موقع پر آپے سے باہر ہوجائیں ، گولے پٹاخیں چھوڑیں، آتش بازی کریں ، ہواﺅں میں غبارے اڑائیں ، رقص وسرود کی محفلیں سجائیں، عریانیت کا مظاہرہ کریں یا عریاں پروگراموں میں حصہ لیں۔ اسلام سادہ مذہب ہے، سادگی کو پسند کرتا ہے، خرافات ، لغویات اور بے جا حرکتوں کے لیے اسلامی معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو اللہ کی عبادت و فرمانبرداری اور مخلوق الهى کی خدمت پر مبنی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سوسائٹیوں ، محلوں اور مسلم آبادیوں کو اس طرح کی تقریبات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں ملت کے ذمہ دار وحساس افراد اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, دسمبر 15, 2011

ايڈيٹر روزنامہ قومی تنظیم كے نام

محترم ايڈيٹر روزنامہ قومی تنظیم ! تسلیمات 

بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب آپ نے روزنامہ "قومی تنظیم" کو نیٹ پر اپلوڈ كرنا شروع کردیا ہے ۔ بہار سے تعلق رکھنے والے گلف ممالک میں مقیم تاركين وطن کی ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ قومی تنظیم پڑھنے کو نہیں ملتا ہے، جوشکایت اب الحمد للہ دور ہوگئی ہے ۔ اس کے لیے ہم آپ کو دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ روزنامہ " قومی تنظیم" قوم کو منظم کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کرتا رہے ۔ایں دعا ازمن وازجملہ جہاں آمین باد
مکمل تحریر >>

جمعرات, دسمبر 08, 2011

حافظ امداد صاحب كے نام

محترم حافظ امداد صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ حالات بخیر ہوں گے
آپ نے ایک عرصہ پہلے حدود کے موضوع پر طویل مقالہ ارسال کیا تھا لیکن چونکہ وہ اس قدرمبسوط ہے کہ رسالے کا حجم اسے برداشت نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے ہم نے اس کی اشاعت کو مؤخر کیا ہے ۔ رہے دوسرے مقالات تو کبھی بروقت نہ ملنے کی وجہ سے بھی شامل اشاعت نہیں ہوپاتے اور کبھی اختلافی چیزیں بھی اشاعت میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ ہم اس رسالے میں کسی فکر کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے ۔ ہمارا ہدف اسلام کی آفاقیت کو عام کرنا اور معاشرے کی اصلاح ہے اور بس ۔ ہمارے پاس جو کوئی بھی اپنی تخلیق روانہ کرتا ہے ہم اسے شامل اشاعت کرتے ہیں ۔ بشرطیکہ مجلہ کے ہدف پر اترتا ہو۔ آپ کی شکایت کا ہمیں احساس ہے ، اور آپ کی شکایت بجا ہے ، تاہم ہمیں معذور سمجھتے ہوے آئندہ اپنا قلمی تعاون پیش کریں گے ۔
مولانا سراج سے میں اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے ان سے بھی گذارش کی تھی کہ وہ ہمیں اپنے قیمتی مقالات سے نوازیں ۔انہیں میر اسلام عرض کریں ۔
محترم ! ہمارے پاس کسی طرح کے ذہنی تحفظات نہیں ہیں ۔ آپ تو خود بھی مصباح کو پڑھتے ہی ہوں گے، ہر طرح کے قلمکاران اس میں شرکت کرتے ہیں ۔ آپ کی شرکت بھی ہمارے لیے فخر کا باعث ہوگی ۔
والسلام


مکمل تحریر >>

بدھ, دسمبر 07, 2011

برادرم علاء الدین عين الحق مكى کے نام

راقم سطور کے نام برادرم علاء الدین عين الحق مكى کا ارسال کردہ مکتوب اور اس کا جواب ذیل میں ملاحظہ  فرمائیں :

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ بخیر ہوں گے،آپ اپنے اب تک کے دعوتی اور تعلیمی تجربات کی روشنی میں ایک احصائیہ پیش کیجیے کہ اب تک دعوتی اور اسلامی اشاعتی اور نشریاتی میدان میں ویب سائٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں ہندی اور اردو زبان میں کیا کچھہ ہورہا ہے اور مزید کس چیز کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ جو کام ہورہا ہے اس کا منفی پہلو کیا ہے تاکہ آئندہ اس کے تدارک کے لئے مثبت طور پہ اقدام کرنے میں آسانی ہو۔ کیا اردو اور ہندی میں ایک جامع اور اطمینان بخش ویب سائٹ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟
وجزاکم اللہ خیرا،
علاء الدین عین الحق مکی
مرکز وذکر

برادرگرامی قدر شیخ علاءالدین عین الحق مکی صاحب
و عليكم السلام ورحمة الله وبركاته
آپ کا ای میل موصول ہو ا، تاخیر کے لیے معذرت خوا ہوں، لیکن ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیربھی تھا بہرکیف میں آپ کے نیک جذبات کی قدرکرتا ہوں کہ آپ نے اسلامی ویب سائٹس کی ضرورت محسوس کی
آج المیہ یہ ہے کہ شیعوں، قادیانیوں اور قبرپرستوں نے نیٹ پر دین کی خدمت کے نام سے زہر اگل رکھا ہے اور ہم ہیں کہ حق بات کو مٹھی میں بند کیے ہوئے ہیں ، جب میں اردو میں کسی موضوع سے متعلق سرچ کر رہا ہوتا ہوں تو اکثر گمراہ فرقوں کے مقالات سامنے آجاتے ہیں ، گویا نیٹ پر باطل کا پرچار حق کے نام سے ہورہا ہے ۔ افسوس کہ ہم اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں ۔
جس حدتک اردو اورہندی ویب سائٹس تک ہماری پہنچ ہوسکی ہے،ان میں سے اردو ویب سائٹس میں اسلام ہاوس ، الاسلام سوال جواب ، کتاب وسنت ڈاٹ کوم، صراط الھدی قابل ذکر ہیں ۔ اور ہندی میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے ۔ معتبر ویب سائٹس میں اسلام ہاوس اور الاسلام سوال جواب ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ اکثر ویب سائٹس کی زیارت کرنے والے عصری تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، جن کی معلومات اسلام کے تئیں سطحی ہوتی ہیں۔ جو شہوات اورشبہات کے نرغے میں بھی گھرے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ان دو زبانوں میں ایک ایسے معیاری سلفی ویب سائٹ کی بیحد ضرورت ہے جس میں :
(1) اسلامی تعلیمات کو سہل انداز میں پیش کیا گیا ہو-
(2)
عقیدہ کے موضوعات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہو،اورانہیں پیش کرنے کا انداز مثبت ہو منفی نہ ہو۔
(3)
اصلاحی موضوعات کے لیے عربی زبان میں دستیاب فولڈرس اور فلایرز کے ترجمے کیے گئے ہوں۔
(4)
اسلام کے محاسن اوراس کی آفاقیت کو بیان کرنے والے موضوعات کو ترجیح دی گئی ہو۔
(5)
فروعی اختلافات پرمبنی موضوعات سے صرف نظر کیا گیا ہوکہ انہیں موضوعات کے ذریعہ ہماری پہچان ہورہی ہے اوریہی برصغیر میں اختلاف کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
(6)
آن لائن فتاوی کے لیے ایک کالم خاص کیاگیا ہوجس میں برصغیر کے کسی عالم دین کی خدمت حاصل کی گئی ہو۔ اوراس کام کے لیے میری رائے میں شیخ صلاح الدین مقبول احمد بہت مناسب ہیں ۔
(7)
اسلام اوراہل اسلام کے تئیں پیش آمدہ عصری مسائل کا شرعی ناحیہ سے تجزیہ پیش کرنے کے لیے ایک تجربہ کار عالم دین کی خدمت حاصل کی گئی ہو ۔ جیسا کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کرتے ہیں ۔
(8)
ویڈیوز پرمشتمل اچھے خاصے مواد فراہم کیے گئے ہوں، جس میں اگرعرب خطباء کی تقاریر کی بھی ڈبلنگ کی جائے تو بہت مناسب ہوگا ۔
والسلام
مکمل تحریر >>

جمعرات, اکتوبر 13, 2011

رمضان کے بعد مومن كى زندگى؟


ابھی ہم کچھ دنوں قبل رمضان کا بے صبری کے ساتھ انتظار کر رہے تھے ، رمضان بہاريں لٹاتا ہوا آيا اور چلا بھی گيا ، ايسا ہی انسان کا سارا مستقبل ہے ، بے تابی سے اُس کا انتظار ہوتا ہے يہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے ،پھر چند دنوں ميں گذر بھی جاتا ہے ۔ يہی حال انسان کی زندگی کا بھی ہے ۔ ايک دن اُسے موت کا جام پينا ہوگا اور دنيا کو ہميشہ کے لئے الوداع کہنا ہوگا ۔
رمضان ہميں اِسی موت کی ياد دلانے کے لئے آيا تھا ، اللہ تعالی نے داد دہش اور انعام ميں زيادتی کر دی تھی تاکہ انسان نےکيوں کی لالچ ميں آخرت کی تياری کے لئے کمربستہ ہوجائے ۔ اللہ تعالی نے روزے کا مقصد يہی بتايا تھا کہ ”لعلکم تتقون “ تاکہ تيرے اندر اللہ کا ڈر پيدا ہوجائے ۔ يہ ريفرےشر کورس تھا جس کے اثرات ہم پر گيارہ مہينے رہنے تھے ۔
واقعی کچھ نيک بخت روحوں نے رمضان سے خوب خوب فائدہ اٹھايا اوراب تک نيکی کی راہ پرگامزن ہيں۔ اللہ تعالی اُنہيں دين پر ثابت قدم رکھے آمين ۔ ليکن صدحيف مسلم معاشرے ميں اکثريت اُن لوگوں کی ہے جو رمضان ميں عبادت کر ليتے ہيں اور بس ۔ ہلال عيد طلوع ہوا اورعيد کی تياری ميں لگ گئے ،پھربھول گئے کہ کوئی مہينہ تھا جس ميں رحمت ورضوان کی برسات ہو رہی تھی، پنج وقتہ نمازوں پر پانی پھرگيا، قرآن کريم طاقوں کی زينت بن گيا، صدقات وخيرات کا نام ونشان مٹ گيا، روزے کا اتہ پتہ نہيں رہا، غيبت وچغلخوری تکيہ کلام بن گيا، فريب ودغا ، بے ايمانی ،دھوکہ دہی ،سود خوری ، رشوت خوری اورحرام خوری کابازار پھر گرم ہوگيا، نغمہ وموسيقی کے دھن شروع ہوگئے، ٹيليويزن پر عريانیت کا مشاہدہ ہونے لگا، حقوق پامال ہونے لگے ، مسجديں ويران ہونے لگيں اور ميکدے آباد ہونے لگے ۔ غرضيکہ جوجيسا تھا اپنی حالت پر لوٹ آيا۔ علامہ اقبال نے اِسی کا رونا رويا تھا   
           غرہ شوال اے نور نگاہ روزہ دار
             آکے تھے تيرے لئے مسلم سراپا انتظار
         تيری پيشانی پہ تحرير پيام عيد ہے
          شام تيری کيا ہے صبح عيش کی تمہيد ے

شاعرمشرق علامہ اقبال چند بندوں کے بعد ہماری حالت زار کا ہلال عيد سے شکوی کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ اے ہلال عيد
     اوج گردوں سے ذرا دنيا کی بستی ديکھ لے 
     اپنی رفعت سے ہمارے گھرکی پستی ديکھ لے
     قافلے ديکھ ‘ اور ان کی برق رفتاری بھی ديکھ
  رہرو درماندہ کی منزل سے بےزاری بھی ديکھ
     ديکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
    اے تہی ساغر ! ہماری آج ناداری بھی ديکھ
     فرقہ آرائی کی زنجيروں ميں ہيں مسلم اسير
      اپنی آزادی بھی ديکھ اُن کی گرفتاری بھی ديکھ

  كامل اطاعت كا نام اسلام ہے:

کيا اسلام نام ہے سال ميں ايک مہينہ عبادت کا ؟ کيا اسلام کا مطلب ہے موقع اور مناسبت سے اُسے اپنالو اور بس ؟  کيا اسلام فقط رمضان کے روزے اور جمعہ وعيدين کے اہتمام کا نام ہے ؟ افسوس آج بعض اسلام کے ماننے والوں نے کچھ ايسا ہی سمجھ رکھا ہے ۔۔ جس طرح عيسائی ہفتہ ميں ايک دن چرچ کو جاتے ہيں ، ويسے ہی کچھ فرزندان اسلام ہفتہ ميں ايک دن مسجد چلے جاتے ہيں اورطرفہ تماشا يہ کہ اپنے آپ کو پکا مسلمان ثابت کرتے ہيں ۔ نہيں ميرے بھائيو ہرگز نہيں ،
 اسلام يہ نہيں ہے۔ ہم جس اللہ کی عبادت کرتے ہيں وہ ہميشہ سے ہے اور ہميشہ رہے گا ،اُس نے ہميں اِس دنيا ميں امتحان کے لئے رکھا ہے ، يہ دنيا دار العمل ہے ،آخرت کی کيتی ہے ، جب آنکھيں بند ہوجائيں گی توذہن کے سارے پردے کھل جائيں گے ،انسان تمنا کرے گا کہ اے کاش ہميں کچھ نيکی کرنے کا موقع مل جاتا ، ہمارے گناہ مٹاديئے جاتے ليکن اُس وقت عمل کا موقع نہيں ہوگا ، موقع جا چکا ہوگا حتی اذا جاءاحدھم الموت قال رب ارجعونی لعلی اعمل صالحا فيما ترکت.
" حتی کہ جب ان ميں سے کسی کو موت آئے گی تو وہ کہے گا : اے ميرے رب مجھے واپس بھيج ، تاکہ اس دنيا ميں ‘ جسے ميں چھوڑ آيا ہوں ‘ نيک عمل کروں " 
 موت ديکھ کرجب آنکھو ں کے پردے ہٹ جائيں گے تو تمنا کس چيز کی کريں گے ؟ اس چيز کی نہيں کہ بار الہا ذرا مہلت دے دے اپنی بيويوں ،اپنے محلات اور اپنے املاک سے لطف اندوز ہولوں بلکہ تمنا اِس بات کی کريں گے کہ بارالہا! ہميں نيک عمل کرنے کا موقع دے دے ۔۔کيا ہی اچھی تمناہے ۔۔ ليکن کيااُس وقت موقع مل جائے گا ؟ مالک عرش بريں کا جواب ہوگا: ہرگز نہيں موقع جاتا رہا، کلا انھا کلمة ھو قائلہا ومن ورائھم برزخ الی يوم يبعثون(المومنون 99۔100) بےشک يہ ايک بات ہے جو وہ کہنے والا ہے ۔اور اُنکے آگے پردہ ہے اُس دن تک جب وہ دوبارہ اٹھائے جائيں گے

ipc سے منسلک ايک صاحب تھے معلا الشمری، مہينہ ہوا ڈيوٹی کے لئے نکلے، راستے ميں گاڑی اکسيڈنٹ کرگئی اور وہ جائے حادثہ پر اللہ کو پيارے ہوگئے، اُن کے گھروالوں پر يہ خبربجلی بن کر گری ہوگی، ہفتہ دو ہفتہ تک اُن کی ياد تازہ رہی ہوگی۔ ابھی اُن کے گھر والے عام حالت پر آچکے ہونگے ۔۔۔ ہاں اگر کسی چيز ميں کمی رہ گئی ہے تو اُن کے اعمال ہيں ، يہی اُن کے ساتھ گئے ہيں ورنہ سب اُن کو بھول چکے ۔ ويسے وہ نيک تھے ، پنج وقتہ نمازوں کے پابند تھے، سموار اور جمعرات کو روزہ رکھنا اُن کا معمول تھا، خدمت خلق ميں پيش پيش رہتے تھے ۔ اسلئے ہميں اميد ہے کہ اللہ تعالی کے پاس اُن کا انجام اچھا ہوگا ۔
اب ہم اپنے دامن ميں جھانک کر ديکھيں ۔ رمضان چلا گيا ، اگر ہم نے اطاعت الہی سے کنارہ کشی اختيار کرلی ہے اورايسی ہی حالت ميں ہماری موت آجائے توہم کيسے اللہ کو ہم اپنا چہرہ دکھا سکيں گے ؟
يہ سستی جو رمضان کے بعد ہم پرچھاجاتی ہے اِس کا محرک دراصل شيطان ہوتا ہے ، وہ ہميں دھوکہ ديتا ہے کہ تم نے بہت نيکياں کمالی ، اب ذرا موج مستی کر لو ، رنگ ريليا ں کر لو ۔ کيونکہ وہ نہيں چاہتا کہ ہم اللہ کے فرمانبردار بن سکيں، وہ نہيں چاہتاکہ ہم جنت کے حقدار بن سکيں ، ٹھيک ہے ہم نے نيکياں جمع کرلی ہيں ليکن کيا کبھی سوچا کہ وہ قبول بھی ہوئی ہيں يا نہيں ؟

قبوليت اعمال كى نشانياں:

نيکيوں کی قبوليت کى کچھ علامات ہيں
٭اُن ميں سب سے پہلے شکر کا جذبہ پايا جانا ہے ، اللہ تعالی کی اِس توفيق پر اُس کا شکر ادا کرنا کہ اُس نے ہميں برکات رمضان سے فيضياب ہونے کا موقع ديا جبکہ کتنے لوگ اِس سے محروم رہے ، کتنے لوگ رمضان سے پہلے فوت پاگئے ۔
٭ پھر دل ميں ہميشہ يہ کھٹکا رہے کہ ايسا نہ ہو ہمارے اعمال رد کر دئيے جائيں کيونکہ اللہ تعالی نيک لوگوں کے اعمال ہی قبول کرتا ہے، ہم نے اللہ پر کوئی احسان نہيں کيا ، بلکہ اپنی نجات کا سامان تيار کيا ہے اسلئے ہميں قبوليت کی بھی فکر کرنی ہے يہی حال اصحاب رسول کا تھا عبدالعزيز بن ابی رواد کہتے ہيں:
 "ہم نے صحابہ کرام کو پايا کہ وہ عمل صالح کی انجام دہی ميں خوب خوب کوشش کرتے جب نيکيوں سے دامن مراد بھر ليتے تو اُن کے اندر يہ فکر لاحق ہوجاتی کہ ايا اُن کے اعمال مقبول ٹھہرے يا رد کر ديئے گئے "۔ 
فضالہ بن عبيد ؒ کہا کرتے تھے:
”اگر ميں جان لوں کہ اللہ تعالی نے ہم سے رائی کے دانہ کے برابر بھی قبول کر ليا ہے تو يہ ميرے لئے دنيا و ما فيھا سے بہتر ہوگا کيونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے انما يتقبل اللہ من المتقين بيشک اللہ تعالی نيک لوگوں سے ہی قبول کرتا ہے ۔
يہاں پر ہميں اپنے دل کا جائزہ لينے کی ضرورت ہے ، کيا نيک اعمال کی انجام دہی کے بعدہمار ے دل ميں قبوليت کا کھٹکا لگا ہوا ہے ؟۔ اگر نہيں۔۔ تو آج ہی سے يہ دعا شروع کر ديں کہ بار الہا تو ہمارے عملوں کو قبول کر لے گوکہ ميں اُس کا مستحق نہيں ليکن تو دريا دل ہے ، 

 شوال کے روزوں كا اهتمام كريں :

رمضان ضرور گيا ہے ليکن عمل کا زمانہ موت تک باقی ہے ، اگر رمضان کا روزہ جا چکا تو نفلی روزے پورے سال باقی ہيں بلکہ شوال کے چھ روزے ابھی باقی ہيں صحيح مسلم ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے من صام رمضان ثم اتبعہ ستا من شوال کان کصيام الدھر جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر شوال کے چھ روزے رکھے تو يہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے
وہ کيسے ؟ جی ہاں صحيح حديث ميں بتايا گيا ہے کہ ايک نيکی کا اجر کم ازکم دس گنا ہے ، اس کے مطابق ايک مہينے رمضان کے روزے دس مہينہ روزہ رکھنے کے برابر ہونگے ، اُس کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھ لئے جائيں تو چھ دہائی کے ساٹھ يعنی دو مہينہ کے برابر ہوگئے ۔ دس اور دو بارہ ۔ يوں گويا اسے پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوا۔اور جس کا يہ معمول ہو جائے گويا اُس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ، افسوس کہ يہ نفلی روزے ہمارے سماج سے ختم ہوتے جا رہے ہيں، اور اِن کا اہتمام صرف عمردراز عورتيں ہی کرپاتی ہيں ضرورت ہے اِس کی طرف توجہ دينے کی ۔
 اسی طرح سموار اور جمعرات کے دن روزہ رکھنا مسنون ہے سنن ترمذی ميں اللہ کے رسول کا فرمان ہے تعرض الاعمال يوم الاثنين والخميس ، فاحب ان يعرض عملی وانا صائم سوموار اور جمعرات کو اللہ تعالی کے ہاں اعمال پيش کئے جاتے ہيں پس ميں اِس بات کو پسند کرتا ہوں کہ ميرا عمل جب بارگاہ الہی ميں پيش کيا جائے تو ميں روزے دار ہوں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنها فرماتی ہيں کہ اللہ کے رسول سموار اور جمعرات کے روزے کا بطورخاص اہتمام فرماتے تھے ۔
اور آپ نے اپنے تين اصحاب حضرت ابوہريرہ ، حضرت ابوذر اور حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنھم کو وصيت کی کہ ايام بيض يعنی ہجری مہينے کی ہر 13، 14، 15، کو روزہ رکھا کريں اور آپ نے فرمايا صوم ثلاثة ايام من کل شھر صوم الدہر کلہ (متفق عليہ) ہر مہينے تين دن کے روزے رکھنا سارا سال روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔
آج بھی الحمد للہ عربوں ميں سموار و جمعرات کے روزے اور ايام بيض کے روزوں کا خاصا اہتمام پايا جاتا ہے ، خود کويت ميں اکثر گھرانوں کے مرد وخواتين ان دنوں کے روزوں کی پابندی کرتے ہيں ۔ کويتی معاشرہ کے ساتھ  جن لوگوں کا ربط و ضبط رہتا ہے وہ اچھی طرح اسے جانتے ہوں گے ۔ دورجانے کی ضرورت نہيں ابھی ہمارے سامنے جو ريکارڈننگ انجنير بيٹھے ہمارا پروگرام ريکارڈ کر رہے ہيں ۔۔ وہ سموار اور جمعرات کے روزوں کی ہميشہ پابندی کرتے ہيں ،حالانکہ وہ ايک عام ساونڈ انجنيرہيں جب کہ ہم اپنے برصغير پاک وہند ميں ديندار گھرانوں تک ميں اِس کا اہتمام نہيں ديکھتے ۔ ضرورت ہے ہمارے سماج ميں جو سنتيں مردہ ہو چکی ہيں انہيں ازسرنو زندہ کيا جائے ۔ بالخصوص ہم جيسے تارکين وطن جو اہل وعيال اور بيوی بچوں سے دور ہيں انہيں تو روزہ پہلی فرصت ميں رکھنا چاہئے ۔ روزہ جہاں رضاءالہی کا سبب ہے وہيں جنسی خواہش کو دبانے ميں اکسير کی حيثيت رکھتا ہے ۔اللہ کے رسول نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے والے نوجوانوں کے لئے روزے کا ہی فارمولہ پيش کيا چنانچہ آپ نے فرمايا:
يا معشر الشباب من استطاع منکم الباءة فليتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم يستطع فعليہ بالصوم فانہ لہ وجاء.
 "اے نوجوانوں کی جماعت ! تم ميں جو شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرلے کيونکہ يہ نگاہوں کو پست رکھتی ہے اور شرمگاہ کی حفاطت کرتی ہے ۔ اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اُسے روزہ رکھنا چاہئے کيونکہ روزہ کسرشہوت کا باعث ہے"۔
اسلئے ہميں چاہئے کہ سموار وجمعرات کے روزے بالخصوص ايام بيض کے روزوں کا ممکنہ حد تک اہتمام کريں ،کيونکہ ايام بيض کے روزے خواہشات کو دبانے اور ذہنی سکون لانے ميں کليدی رول ادا کرتے ہيں ۔اس کا ثبوت ہميں سائنس دانوں کی تحقيق سے ملتا ہے ۔، اس تحقيق کی تفصيل کيا ہے آئيے سب سے پہلے اِسے جانتے ہيں۔

 ايام بيض کے روزوں ميں معجزہ نبوی:

آج سائنس نے يہ تحقيق پيش کی ہے کہ جب چاند اپنے اوج کمال کو پہنچ جاتا ہے تواِس مدت ميں انسانی جسم بھی اس سے متاثر ہوتا ہے ،چنانچہ ديگر ايام کی بنسبت ان دنوں انسان کے اندر جذباتيت آجاتی ہے، اشتعال انگيزی پيدا ہوجاتی ہے، خواہشات ميں ابال آنے لگتا ہے اور جرائم وحوادث کی کثرت ہوجاتی ہے اسی مدت ميں يعنی13/14/15 کو اللہ کے رسول نے ہمارے ليے روزے کا فارمولہ پيش کيا اور ہم جانتے ہيں کہ روزہ انسانی جذبات کو کنٹرول ميں رکھنے ميں بنيادی کردار ادا کرتا ہے ۔ اس حيثيت سے ايام بيض کے روزے آج ہمارے لئے معجزہ کی حيثيت رکھتے ہيں ۔

ڈاکٹر محمد علی البار نے اپنے ويب سائٹ khayma.com www. پرايک امريکی ماہر علم نفسيات ڈاکٹر ليبرکا قول نقل کيا ہے کہ ”چاند کے اوج کمال پر پہنچنے اور تشددانہ کاروائيوں ميں اضافہ ہونے کے بيچ گہرا ربط و تعلق ہے ۔نشہ آور اشياء کے رسيا،جرائم پيشہ افراد اور تشدد پسندوں کی تخريبی کاروائيوں ميں زيادتی ہوجاتی ہے۔وہ دماغی اور عقلی سنجيدگی سے عاری ہوجاتے ہيں۔
نيز سروے اور بذريعہ رائے شماری حاصل شدہ بيانات، شفاخانوں ميں واردات کے دفاتراور پوليس چوکيوں کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر جرائم اور اکسيڈنٹس ايام بيض ميں رونما ہوتے ہيں ۔ نفسياتی پريشانيوں کے شکار اور عمر رسيدہ مرد وخواتين بھی ان دنوں ميں زيادہ متاثر ہوتے ہيں اسی طرح وقوع طلاق اور بڑے بڑے جھگڑوں کا تناسب ان دنوں ميں بڑھ  جاتا  ہے ۔
اب سوال يہ ہے کہ چاند کے اوج کمال کو پہنچنے اور انسانی نفسيات ميں تبديلی واقع ہونے کے بيچ آخر کيا تعلق ہے ؟
تواس سلسلے ميں سائنس کہتی ہے کہ جس مدت ميں چاند مکمل ہوتا ہے اُس مدت ميں اس کے اثرات زمين پر ہويدا ہوتے ہيں اور زمين اور انسا نی جسم کے بيچ بھی گہرا تعلق پايا جاتا ہے اس تعلق سے ڈاکٹر ليبر کہتے ہيں کہ انسانی جسم بالکل سطح زمين کی مانند ہے جس کی بناوٹ 80 فيصد پانی اور باقی سخت مادوں سے ہوتی ہے ۔ مطلب يہ کہ انسانی جسم اور زمين کا آپس ميں گہرا تعلق پايا جاتا ہے خود اللہ تعالی نے فرمايا کہ وبداخلق الانسان من طين السجدة ۷ اور اس نے تخليق انسان کی ابتداء مٹی سے کی اور ظاہر ہے کہ مٹی زمين ہی کا حصہ ہے تو جس طرح چاند کے اثرات زمين پرپڑتے ہيں اسی طرح انسانی جسم پر بھی پڑتے ہيں ۔ انسانی جسم اور زمين پر چاند کے اثرات اس وقت انتہا کو پہنچ جاتے ہيں جب کہ چاند اپنے اوج کمال پر ہوتاہے۔ اور يہی مدت ايام بيض کی ہے چنانچہ ان دنوں ميں سمندروں کے اندرمدوجزر اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور انسان پر اس کے اثرات اشتعال انگيزی، قلق واضطراب اور ذہنی کشيدگی کی صورت ميں ظاہر ہوتے ہيں۔ زمين سے متعلق اس کی مثال ديکھنی ہو تو آپ سمندر کے کنارے جاکرديکھ سکتے ہيں کہ سمندرکا مد وجزر ان دنوں ميں اپنی انتہا کو پہنچ چکاہوگا ۔ اور انسان سے متعلق اس کی مثال ديکھنی ہوتو پوليس چوکيوں ، کورٹ وکچہری کا دورہ کرکے يا روزنامہ اخبار کا مطالعہ کرکے ديکھ سکتے ہيں کہ جرائم ، خودکشی، اکسيڈنٹ کے واردات ان دنوں ميں بکثرت ہوتے ہيں ۔
يہيں پر ہميں ايام بيض کے روزوں ميں معجزہ نبوی کا عکس دکھائی ديتا ہے ۔ آپ نے ان دنوں کے روزے کا حکم دے کر دراصل اس تشدد پسندی، اشتعال انگيزی اورجنسی ابال کا علاج فرمايا جو ان دنوں ميں انسان کے اندر پيدا ہوتے ہيں ۔ اس طرح روزہ ايک شخص کے اندر سکون وراحت اور طمانينت کا سبب بنتا ہے کيونکہ روزہ جہاں ايک طرف عبادت ہے ، باعث اجر وثواب ہے وہيں بچاؤہے، سعادت ہے،رحمت ہے، اور باعث صحت وعافيت ہے ۔
غرضيکہ اگر رمضان چلاگيا تو نفلی روزے ابھی باقی ہيں۔ہميں چاہئے کہ سموار وجمعرات کے روزوں اورايام بيض کے روزوں کا بطورخاص اہتمام کريں ۔

شب بيدارى كا اهتمام كريں :

اسی طرح اگررمضان کا قيام جا چکا تو سال بھرقيام الليل مشروع ہے ۔ شب بيداری کرنے والے اللہ کے محبوب ہيں اللہ کے رسول نے شب بيداری کی ترغيب دی ہے ۔ آپ نے فرمايا افضل الصلاة بعدالمکتوبةالصلاةفی جوف الليل فرض نماز کے بعد افضل نماز نصف شب کی نماز ہے ۔
اللہ کے رسول نے يہ بھی فرمايا کہ اللہ تعالی ہرشب جبکہ رات کا تہائی حصہ باقی رہتا ہے سماء دنيا پر اترتا ہے اور پکارتا ہے ہے کوئی جو ہميں پکارے اور ميں اس کی پکار کا جواب دوں ؟ ہے کوئی جو ہم سے مانگے اور ہم اسے عطاکريں ؟ ہے کوئی جو ہم سے مغفرت طلب کرے اور ميں اس کے گناہوں کومعاف کردوں  

پنج وقتہ نمازوں اور سنتوں کی پابندی كريں :

اسی طرح پنج وقتہ نمازوں کی پابندی جب تک جان ميں جان ہے ہرمسلمان بالغ مرد وعورت پر فرض ہے بشرطيکہ کوئی شرعی عذر نہ ہو ۔ يہ گنتی ميں يوں توپانچ ہيں تاہم ثواب کے اعتبار سے پچاس وقت کی نمازيں ہيں ۔ان کی پابندی پردنيا وآخرت کے بھلائی کی ضمانت دی گئی ہے اورانہيں ضائع کرنے پر دنيا وآخرت ميں خسارے کی وعيد سنائی گئی ہے ۔

پھراللہ تعالی نے دن ورات ميں 12 رکعت سنتيں مشروع کی ہے ۔ظہرسے پہلے چاررکعت، ظہرکے بعد دو رکعت، مغرب کے بعد دورکعت، عشاء کے بعد دو رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت ۔ ان سنتوں کی پابندی کرنے والوں کی بابت اللہ کے رسول نے فرمايا :
مامن عبدٍ مسلمٍ يصلی للہ کلَّ يوم ثنتی عشرة رکعة تطوعا غيرفريضة اِلابنی اللہ لہ بيتا فی الجنة (مسلم)
"جومسلمان بندہ اللہ کے لئے فرض نمازوں کے علاوہ روزانہ بارہ رکعتيں سنت ادا کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت ميں گھر بنا ديتا ہے"۔
 کہاں ؟ جنت ميں ۔۔ سبحان اللہ ! کيا بشارت ہے ! جنت ميں گھر ۔ وہ گھر جس کی ايک اينٹ سونے کی اور دوسری اينٹ چاندی کی ہوگی اور جس کی کشادگی تا حد نگاہ ہوگی ۔
ذرا آپ تصور کرو کہ جب آپ دنيا ميں اينٹ اور سيمنٹ کا گھر بنانا چاہتے ہو تو آپ کو سالوں سال منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے ، اپنی کمائی کا اچھا خاصہ حصہ جمع کرنا پڑتا ہے ۔ تب جاکرآپ کا گھر تيار ہوپاتا ہے اور وہ بھی اينٹ اور پتھر کا گھرجس کی پيمائش محدود ہوتی ہے ۔جہاں چند سال بتانے ہيں اور بس جبکہ اللہ رب العالمين شب وروز ميں بارہ رکعت سنتوں کی ادائيگی پر تيرے لئے بہشت ميں سونے اور چاندی کا گھر بناتا ہے، جس کی وسعت تا حد نگاہ ہوگی ۔ اور جسکی نعمتيں دائمی ہوں گی ۔
اگر ايک انسان اس نکتے کو ہر لمحہ ذہن نشيں رکھے توکيا تصور کرسکتے ہيں کہ وہ سنتوں کی ادائيگی ميں کوتاہی کرے گا ؟ نہيں اور ہرگز نہيں ليکن بات يہ ہے کہ اکثر انسانوں پر ماديت کا غلبہ ہوچکا ہے ۔ اس ليے وہ جس چيز کو اپنی نگاہوں سے ديکھتے ہيں محض اسے ہی حقيقت سمجھتے ہيں:
 بل تؤثرون الحياة الدنيا والآخرة خيروأبقی﴿ الاعلی 16۔17 )
" بلکہ تم دنيا کی زندگی کو ترجيح ديتے ہوحالانکہ آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے" ۔ توپھر ديکھتے کيا ہيں ؟ آج ہی سے کمرہمت باندھئے ! اور عہد کيجئے کہ کبھی ہم سے سنتيں فوت نہ ہوں گی ۔
اگر ہم نے نماز وتر کی پابندی کی تو وتر اب بھی باقی ہے ۔ يہ تو سنت مؤکدہ ہے آپ  کے قول وفعل سے ثابت ہے بلکہ بعض علماء نے اسے واجب قرار ديا ہے جس کے ترک پر انسان گنہگار ٹھہرتا ہے امام احمد بن حنبل ؒ  فرماتے ہيں : من ترک الوترعمدا فھو رجل سوءلاينبغی ان تقبل لہ شھادة جو شخص جان بوجھ کر وتر کی نماز ترک کرديتا ہے وہ بُرا آدمی ہے اس کی گواہی قبول کرنی مناسب نہيں ۔

قرآن كو حرز جان بناليں :

رمضان ميں ہم نے قرآن کريم کی تلاوت کی اوراسے اپنا حرزجان بنائے رکھا تو رمضان کے بعد براہ کرم اسے طاقوں کی زينت نہ بنائيں۔ قرآن نسخہ شفا ء ہے ، قرآن مشعل ہدايت ہے ، قرآن دنيوی فلاح  کا ضامن ہے ۔ قرآن ايسا محفوظ قلعہ ہے جو ہميں برائيوں سے بالکل دور رکھتا ہے لہذا اس سے اپنا تعلق مضبوط رکھيں۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ آپ روزانہ ايک آدھ پارہ  کی تلاوت کريں ۔ آپ کے ساتھ روزی روٹی کے مسائل ہيں ، ملازمت کی ذمہ دارياں ہيں اسلئے کچھ وقت نکال کر ايک صفحہ ہی سہی ضرور پڑھيں۔ اگر اتنا بھی وقت نہيں نکال سکتے تو آپ جيبی سائز کامصحف اپنے پاس رکھيں ، ڈيوٹی کے لئے جاتے اور آتے وقت تلاوت کرليں ، ميں سمجھتا ہوں کہ اگر ايسا کيا تو ہم روزانہ ايک پارہ کی تلاوت کر سکتے ہيں ۔ميں اپنے ايک ساتھی کو جانتا ہوں جوتلاوت قرآن کے لئے الگ سے کوئی وقت نہيں نکالتے بلکہ ڈيوٹی کے لئے جاتے وقت اور ڈيوٹی سے لوٹتے وقت صرف قرآن کی تلاوت کرتے ہيں اس طرح وہ ايک مہينہ ميں ايک مرتبہ قرآن ختم کر ليتے ہيں واقعہ يہ ہے کہ ہمارے کتنے اوقات بے فائدہ ضائع ہوجاتے ہيں ،اور ہم سب کواس کا احساس تک نہيں ہوتا ،آج اکثر لوگ وقت کی تنگی کا شکوہ کرتے ہيں ميں کہتا ہوں کہ ہمارا وقت بہت کشادہ ہے ، اللہ والوں نے اتنے ہی اوقات ميں ہزاروں صفحات قلمبند کئے ہيں حقيقت يه ہے کہ ہم نے خود وقت کو تنگ کيا ہوا ہے ۔ گپ بازی ميں ہمارے کتنے اوقات ضائع ہوجاتے ہيں ،ہمارے وقتوں کا اکثر حصہ سونے کی نذر ہوجاتا ہے ۔

ايك واقعه : عبدالملک قاسم نے لکھا ہے کہ ايک تارک وطن تھا، سعودی عرب ميں مقيم، برکے علاقے ميں معمولی ملازمت کرتا تھا ، وطن سے آيا تو قرآن کريم پڑھنا بھی نہيں جانتا تھا ليکن اس کے اندر قرآن سيکھنے کی لگن تھی چنانچہ اس نے اپنی محنت سے قرآن پڑھنا سيکھ ليا پھر چندہی سالوں ميں اس نے پوراقرآن حفظ کر ليا ۔ سبحان اللہ ! آخر وہ بھی تو کمانے کے لئے آيا تھا نا! جی ہاں ! ليکن اس نے وقت سے فائدہ اٹھايا ، اپنے مقصد زندگی سے آگاہی حاصل کی ۔ سوچا کہ قرآن ہمارے پروردگار کا کلام ہے اگر اس سے محروم رہ گيا تو دنيا کے سارے خير کس کام کے ؟
لہذا ہم بھی کمرہمت باندھيں !اگر ہم ميں کوئی قرآن مجيد پڑھنا نہيں جانتا ہے تو اسے سيکھنے کی کوشش کرے ،اگر کوئی پڑھنا جانتا ہے توحفاظ کرام کے پاس بيٹھ کر تجويد سيکھنے کی کوشش کرے ، قرآن کريم کے پيغام کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ اگر يہ بھی نہيں ہو سکتا تو قرآن سيکھنے والوں پر خرچ کريں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفيق بخشے۔

صبر كى تعليم پر جمے رھيں :

رمضان ميں ہم نے صبر کی تعليم پائی ہے ۔ اطاعت پر صبر کيا ،بحالت روزہ بھوک اور پياس کا احساس ہوا ليکن کھانے کا ايک لقمہ يا پانی کا ايک قطرہ بھی منہ تک جانے نہ ديا ، سونے کا دل کرتا تھا ليکن شب بيداری کا اہتمام کيا ، قرآن کريم کی تلاوت کی ، مال سے محبت تھی ليکن ہم نے خرچ کيا ۔ يہ دراصل اطاعت پر صبر تھا اب بھی اسے باقی رکھنا ہے ۔

اسی طرح ہم نے رمضان ميں گناہوں پر صبر کيا، روزہ رکھ کر غيبت نہيں کی  چغلخوری نہيں کی ، دوسروں کو دھوکہ نہيں ديا، حرام کمائی سے پرہيز کيا ، ٹيليويزن پر عريانيت کے مشاہدہ سے بچے رہے ، عورتوں کی طرف نظر اٹھاکر نہيں ديکھاتو اب بھی اس خوبی کو باقی رکھنا ہے کيونکہ ہم تاحيات امتحان گاہ ميں ہيں، ہم مرتے دم تک اللہ کابندہ اور اس کے غلام ہيں اور بندہ کا کام ہوتاہے اپنے مالک کی اطاعت و تابعداری کرنااور اس کی نافرمانی سے بال بال پرہيزکرنا ۔

اطاعت پر ثابت قدم  کيسےرھيں:

اب سوال يہ ہے کہ ہمارے اندراطاعت پر ثابت قدمی کيسے پيدا ہوگی ؟ تو اس سلسلے ميں پہلی بات تو يہ ہے کہ ہم اللہ تعالی سے دين پر ثبات قدمی کی دعا کريں ۔ بلکہ ہم نماز کی ہر رکعت ميں سورہ فاتحہ کے اندر اللہ تعالی سے ہدايت کی دعا کرتے ہيں اھدنا الصراط المستقيم اے اللہ ہميں سيدھا راستہ دکھا ۔ بس ضرورت ہے اسے سمجھنے کی ۔
نيک لوگوں کی صحبت اختيار کريں اور بُرے ساتھيوں سے بالکل دور رہيں کيونکہ وہ انسان نما شيطان ہيں جو آپ کے لئے خير کی راہ ميں رکاوٹ ثابت ہوتے ہيں ۔ مساجد ميں منعقد ہونے والے ہفتہ واری اجتماعات ميں ضرور شريک ہوں اورعلماء ربانی کے خطابات اور تقارير سنتے رہيں۔ اللہ تعالی ہم سب کو دين پر ثابت قدم رکھے ۔ 

مکمل تحریر >>