بدھ, اگست 28, 2013

سودی کاروبار کرنے والے بنکوں میں نوکری کرنے کا کیا حکم ہے ؟

 سوال: 

سودی کاروبار کرنے والے بنکوں میں نوکری کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب:

سودی کاروبارکرنا حرام ہے اوراس کے لیے ایک سینٹر کھولنا اوراس سے کمانا ظاہر ہے حرام ہی ہوگا۔ اورسود میں جولوگ ساتھ بھی دینے والے ہوتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی لعنت کے حقدار ہیں ۔ صحیح مسلم کی روایت ہےحضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سودکھانے والے، سود کھلا نے والے، سود لکھنے والے، اورسود کے گواہوں پر لعنت کی ہے، اوركہا كہ گناہ میں سب برابر  ہیں ۔
آپ غورکیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں سود کھانے اورکھلانے والے کے ساتھ سودکا رجسٹر تیارکرنے والے اورگواہ سب پر لعنت بھیجی ….کیوں؟ یہ دراصل تعاون کی وجہ سے ہے ۔ اورگناہ پر تعاون کرنا حرام ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا : 
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَاتَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدة: 2 )
"نیکی اورتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، زیادتی اورگناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو ۔"


مکمل تحریر >>

جمعرات, اگست 22, 2013

شفاعت کیا ہے ؟



0
شفاعت لغوی اعتبار سے شفاعت شفع سے نکلا ہے جو وتر کی ضد ہے۔ اور شریعت کی اصطلاح میں شفاعت کہتے ہیں:
" کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے یا اس سے نقصان کودورکرنے میں واسطہ اورذریعہ بننا۔"
شفاعت کا دوسرا نام سفارش بھی ہے ۔ شفاعت کی دوقسمیں ہیں، پہلی قسم: جائز شفاعت :اوریہ وہ شفاعت ہے جوکل قیامت کے دن اہل توحید کے ساتھ خاص ہوگی۔ صحیح بخاری کی روایت ہے ،ایک دن ابوہریرہ رضى الله عنه نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا:
من أسعد الناس بشفاعتک ؟
وہ کون خوش نصیب ہیں جن کوآپ کی شفاعت نصیب ہوگی ؟ آپ نے فرمایا:
من قال لا الہ الا اللہ خالصا من قلبہ
”جس نے سچے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں وہ میری شفاعت کا حقدار ہوگا“۔
اوریہ شفاعت بھی ایرے غیرے سب کو حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے تین شرطوں کا پایاجانا بیحد ضروری ہے:وہ تین شرطیں کیا ہیں:
٭ شفاعت کرنے والے سے اللہ راضی ہو.
٭جس کے لیے شفاعت کی جارہی ہے اس سے بھی اللہ راضی ہو.
٭سفارش کرنے والے کو اللہ تعالی سفارش کرنے کی اجازت دے دے۔
 ان تین شرطوں کا ذکراللہ پاک نے سورہ نجم آیت نمبر26 میں یوں فرمایا ہے :
وکم من ملک فی السماوات لاتغنی شفاعتھم شیئا إلا من بعد أن یأذن اللہ لمن یشاء ویرضی۔
اوربہت سے فرشتے آسمانوںمیں ہیں جن کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دے سکتی ، لیکن یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہے سفارش کرنے کی اجازت دے دے، اورراضی بھی ہو ۔
عزيزقارى ! اس جائز شفاعت کی بھی دو قسمیں ہیں: عمومی شفاعت اور خصوصی شفاعت،عمومی شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی کی اجازت سے نیک بندوں کو شفاعت کرنے کاحق حاصل ہوگا،جو صرف موحدین کے لیے سفارش کریں گے، اس میں انبیاء بھی ہیں، صدیقین بھی ہیں، شہداء بھی ہیں ، صالحین بھی ہیں ۔
شفاعت کی دوسری قسم وہ شفاعت ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، ان میں سب سے پہلے شفاعت عظمی ہے جو قیامت کے دن ہوگی ۔ یاد کیجئے اس دن کو جب ساری مخلوق میدان محشر میں اکٹھا ہوگی ، جہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لوگ پسینوں میں شرابور ہوں گے ، پریشانی کے عالم میں بھاگ بھاگ کرنبیوں کے پاس جائیں گے، سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، آدم علیہ السلام کہیں گے ہم اس کے قابل نہیں، ابراہیم کے پاس آئیں گے، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: ہم اس کے قابل نہیں، موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، موسی علیہ السلام کہیں گے: ہم اس کے قابل نہیں، عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، عیسی علیہ السلام بھی عذر پیش کریں گے کہ ہم اس کے قابل نہیں، یہاں تک کہ لوگ خاتم النببین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اورآپ سے سفارش کی گذارش کریں گے تو آپ کا فرمان ہوگا: أنا لہا أنا لہا ” میں ہوں اس کے لیے، میں ہوں اس کے لیے“ پھرآپ عرش کے نیچے سجدے میں گرجائیں گے، اللہ کی حمد وثنا بیان کریں گے یہاں تک کہ پکارا جائے گا: یا محمد ارفع رأسک وسلْ تٌعطَ واشفع تٌشفّع "اے محمد! اپنا سراٹھائیں، مانگیں دیا جائے گا، شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی، اس طرح اللہ پاک آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اورلوگوں کے بیچ فیصلہ شروع ہوجائے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شفاعت اہل جنت کے حق میں ہوگی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے اہل جنت بہشت میں داخل ہوسکیں گے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری شفاعت اپنے چچا ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے لیے ہوگی چنانچہ اسے آگ کا جوتا پہنا دیا جائے گا جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ چوتھی شفاعت ان جہنمیوں کے لیے ہوگی جن کے دل میں رائی کے دانہ کے برابربھی ایمان ہوگا ،آپ کی شفاعت سے انہیں جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیاجائے گا۔
عزيزقارى! شفاعت کی دوسری قسم ناجائز اور باطل شفاعت ہے، یہ وہ شفاعت ہے جس کی امید اہل شرک اپنے معبودوں سے رکھتے ہیں، یا درگاہوں کے بچاری اپنے حق میں اولیائے کرام کے تئیں رکھتے ہیں، اورقبروں پر جاکریہ سمجھتے ہوئے مانگتے  ہیں کہ یہ اولیاء ہم کو اللہ کے پاس پہنچا دیں گے:
ھؤلاء شفعاءنا عنداللہ
 " یہ سب اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں" تو حقیقت میں یہ ان کی کج فہمی ہے، نادانی اورجہالت ہے۔ کیونکہ اللہ اوربندے کے بیچ کوئی گیپ ، کوئی ڈسٹینس اور کوئی واسطہ نہیں۔ یہ مردے نہ دنیا میں ان کے کوئی کام آئيں گے اور نہ مرنے کے بعد کل قیامت کے دن :
 فما تنفعھم شفاعة الشافعین
” اس دن سفارش کرنے والوں کی سفارشیں ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی “۔
عزيزقارى! اگر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے خواہاں ہیں تو ہمیں چاہیے کہ کثرت سے آپ پر درود بھیجیں، نوافل کا اہتمام کریں، حاجتمندوں کے کام آئیں ،اورنیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔

 انہیں چند کلمات کے ساتھ ہم آپ سے رخصت ہوتے ہیں یہ دعا کرے ہوئے کہ اللہ پاک ہم سب کو پیارے نبی کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

مکمل تحریر >>

منگل, اگست 20, 2013

”دھوکہ “

ایک لفظ ہے ”دھوکہ “ جی ہاں !دھوکہ ….جسے سنتے ہی شریف انسان کی طبیعت میں اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ ہر مذہب دھوکہ سے روکتا ہے ۔ اوراسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے دھوکہ کی مذمت بیان کی ہے اور دھوکہ دینے والوں کو ہلاکت کی وعید سنائی ہے ۔
دھوکہ آج زندگی کے مختلف شعبے میں جگہ لے چکا ہے، کاروبار میں دھوکہ، شادی بیاہ میں دھوکہ ، لین دین میں دھوکہ، گفتگو اوررہنمائی میں دھوکہ، ماتحتوں کے ساتھ دھوکہ اورامتحان میں دھوکہ ….دھوکہ کی مختلف صورتیں آج رائج ہیں۔ اللہ تعالی نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے حق میں فرمایا:
 ویل للمطففین (سورة المطففين 1)
"بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے "۔ لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ڈنڈی مارکرناپ تول میں کمی کرنا  بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے ۔سنن ابن ماجہ کی حدیث میں ہے:
 ” جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اورحکمرانوں کا ظلم مسلط کردیاجاتا ہے ۔
ایک مرتبہ بازار میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گذرایک کھانے کے ڈھیر کے پاس سے ہوا ، آپ نے  ہاتھ اس میں داخل کیا، توآپ کا ہاتھ تر ہوگیا، آپ نے پوچھا : یہ تم نے کیا کررکھا ہے ؟ اس نے کہا: کل بارش ہوگئی تھی یا رسول اللہ ۔ جس کی وجہ سے بھیگ گیا تھا ۔ آپ نے فرمایا:
 أفلا جعلتہ فوق الطعام کی یراہ الناس ، من غش فلیس منا ۔
 آخر تم نے بھیگے ہوئے ….کو اوپر میں کیوں نہ رکھ دیا کہ لوگ دیکھ لیں ،جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔(رواه مسلم ) 
 آج بازارمیں کتنے پھل والے، سبزی والے اچھا اور تازه  سامان کو اوپر رکھتے ہیں جبکہ خراب اور باسى سامان کو نیچے رکھتے ہیں تاکہ سارا سامان اچھا اورتازه دکھائی دے ….یہ دھوکہ ہے ۔
اسی طرح ماتحتوں کے تئیں دھوکہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے جن لوگوں کی نگرانی اس کے ذمہ سونپی ہے ….چاہے اولاد ہوں، بیوی ہو ….اس کے ماتحت کام کرنے والے ہوں …. ان کے تئیں ذمہ داری کا پاس ولحاظ نہ رکھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 ما من عبد یسترعیہ اللہ رعیة یموت یوم یموت وھو غاش لرعیتہ الا حرم اللہ علیہ الجنة (مسلم)
جس بندے کو اللہ پاک نے کسی کی ذمہ داری دی تھی اور وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ وہ اپنے ماتحت کے تئیں دھوکہ کررہا تھا تو اللہ پاک نے اس پر جنت کو حرام قرار دیا ہے ۔
اسی طرح امتحان میں دھوکہ یہ ہے کہ طالب علم کتاب سے یا پرزہ سے نقل کرے، یہ بھی دھوکہ ہے اورحرام ہے

مکمل تحریر >>

جمعرات, اگست 15, 2013

رفاہی خدمات کا شہسوار اور چمن دعوت كا ديده ور ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط اب نہ رہا





 عالم اسلام کے معروف داعی اورجمعیة العون المباشر کے مؤسس ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ايك طويل علالت كے بعد وفات پا گئے- إنا لله وإنا إليه راجعون.  جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن تهے . علامہ 
اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک خوشحال گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے ۔ گھرکی مالی حالت اچھی تھی اور اسکولر شب بھی ملتا تھا پھربھی شب وروزمیں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کوآرام پسندی اورآسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کوترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے ۔
میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر بحال کئے گئے ، جہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے ۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ ایک مرتبہ افریقی ممالک کے دورہ کا موقع ملا جہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا ۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں30سال کی طویل مدت گذاری ، اس عرصہ میں 8500000 لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 590 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7 ریڈیو اسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلز بنائے ۔ دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے ۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے ۔
متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار قریب تھا کہ جان سے ہاتھ دھوناپڑے ۔ دوسری بارعراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا ۔ ذیابطيس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے، دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی، دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، یہ ساری کاوشیں جنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں…. اورظاہر ہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاؤں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیر رقم کو افریقی بچوں کی تعلیم پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے ۔
آئیے ! عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کى مغفرت فرمائے،ان كو جنت الفردوس مين جگہ نصيب فرمائے اور ان کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین ۔ 
پیغام : ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدر دعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں .
مکمل تحریر >>

بدھ, اگست 14, 2013

امام کعبہ کا پيغام ضيوف الرحمن کے نام

 شیخ عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس
امام وخطیب ”مسجد حرام “ مکہ مکرمہ

اللہ کے بندو! ہرسال ان ايام ميں امت مسلمہ ایسی عظيم الشان مناسبت کا استقبال کرتی ہے، جس کے ليے مومن کا دل بیتاب رہتا ہے ۔ جس کی طرف نگاہيں مرکوز اور گردنيں دراز رہتی ہيں، جس کی آمد پر مسلمانوں کے دلوں ميں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ یہ دراصل خانہ کعبہ میں فريضہ حج کی ادائيگی ہے، جہاں مقامات مقدسہ ہيں، مشاعر مشرفہ ہيں، جو مہبط وحی ہے، منبع رسالت ہے، جہاں سے ساری دنيا ميں ايمان کا نورجگمگايا، جہاں پر آنکھيں اشکبار ہوتی ہيں، رحمتيں اترتی ہيں، لغزشوں سے درگذرکيا جاتاہے، درجات بلند کيے جاتے ہيں، گناہوں کومٹاديا جاتا ہے، اور رب دو جہاں کی سخاوت عام ہوتی ہے۔ جيسا کہ بخاری ومسلم ميں حضرت ابو ہريرہ رضي الله عنه کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ”حج مبرور کابدلہ جنت ہی ہے “۔
اور بخاری ومسلم ميں حضرت ابوہريرہ  رضي الله عنه کی ايک دوسری روايت ہے، اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
”جس نے حج کيا اور دوران حج اس سے نہ کوئی شہوانی فعل سرزد ہوا اور نہ ہی اس نے فسق وفجور کا ارتکاب کيا وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو کر لوٹا گويا آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم ديا ہے “۔
بيت اللہ کے حاجيو! خانہ کعبہ کا قصد کرنے والے اگرحج کے فوائد اور اس کے اثرات سے مستفيدہوناچاہتے ہيں اوراللہ تعالی نے حاجيوں کے ليے جو اجروثواب اور فضل وانعام طے کررکھاہے اس سے بہرہ ور ہونے کے خواہاں ہيں توان کے ليے ضروری ہے کہ اس عظيم فريضے کی ادائےگی ميں شرعی منہج اور نبوی طريقہ کا التزام کريں ۔ حج کے چند شرائط اور ارکان ہيں ، چند واجبات اور مستحبات ہيں، چنداصول وآداب ہيں جن کی رعايت نہايت ناگزیر ہے ۔
 اے اللہ کے بندو! اے عازمين حج ! اے وہ لوگو !جنہوں نے جنگلات اور بے آب وگياہ مقامات کو پار کياہے، مختلف فضاؤں اورسمندروں کی خاک چھانی ہے، مشکلات کاسامنا کيا ہے، مشقتيں برداشت کی ہيں، اپنے اموال واولاد اور وطن کو خیرباد کیاہے، آپ کی خدمت ميں يہ جامع نصيحتيں ہيں، نفع بخش مختصرکلمات ہيں، بالخصوص ايسے وقت ميں جب کہ آپ اس عظيم عبادت کی تياری کر رہے ہيں ۔

پہلی نصيحت:

اس اساس کواپنائیں جس پر حج اور ديگرتمام عبادات کا دار ومدارہے یعنی توحيد باری تعالی، عبادت کے سارے اعمال کواسی کے ليے خالص کرنا، اور اس کے ساتھ کسی کو شريک نہ ٹھہراناہے۔ جيسا کہ اللہ تعالی نے فرمايا :
”آپ فرما دیجيے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا مرنا، یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں“ ( الانعام 162-163)
حج کے مقاصد وفوائد ميں سب سے عظيم مقصد وفائدہ توحيد باری تعالی کا اقرار اور شرک سے اجتناب ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
”اور جبکہ ہم نے ابراہیم کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقررکردی، اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنا “ ( الحج 26)
لہذا بندے کے ليے ضروری ہے کہ اپنی ضروريات کی تکميل، مشکلات سے نجات، اور مريضوں کی شفا کے ليے صرف اور صرف اللہ رب العالمين کی پناہ طلب کرے جو معاملات کی تدبير، شروروفتن کو دور کرنے اور زمانوں کو بدلنے کا مالک ہے ۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہيں، اللہ رب العالمين بيزار ہے اس شرک سے جو مشرکين اس کے ساتھ ٹھہراتے ہيں۔

دوسری نصیحت:

اپنے سارے اعمال خالص اللہ تعالی کی رضا کے ليے انجام دیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

” خبردار! اللہ تعالی ہی کے ليے خالص عبادت کرنا ہے “(الزمر3)
نہ رياکاری ہونی چاہيے، نہ نام ونمود اور نہ ہی اللہ سے ہٹ کر غيراللہ کی طرف التفات خواہ وہ اشخاص ہوں، يا بینرز يا اصول ومناہج جو اس اصل کے منافی ہوں۔

تيسری نصيحت:

 رسول پاک صلي الله عليه وسلم کی اطاعت وتابعداری کولازم پکڑیں۔ اللہ تعالی کے اوامر کو بجا لائیں اور آپ صلي الله عليه وسلم کی سنت کو حرزجاں بنالیں کيوں کہ آپ صلي الله عليه وسلم کا خود ارشاد ہے:

 ”جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں وہ مردود ہے“ (مسلم) 

اور حج کے تعلق سے فرمايا :

 ”ہم سے حج کے مناسک سیکھ لو“ (مسلم)

چوتھی نصيحت :

 اللہ تعالی کا تقوی اختيار کریں، اس کی اطاعت کے اعمال بجا لائیں، اور عمل صالح کے ذريعہ اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں بالخصوص اس وقت جب کہ افضل ترين زمان ومکان اکٹھا ہوجائے:
” اور اپنے ساتھ زادسفررکھ لیا کرو، سب سے بہترزاد راہ اللہ تعالی کا ڈر ہے “ ( البقرة 197)
ذکر، دعا، تلاوت قرآن، تلبيہ، نمازاور نيکی واحسان کا بکثرت اہتمام ہونا چاہيے۔

پانچويں نصيحت:

 فريضہ حج کی عظمت کا احساس دل ودماغ پر طاری رکھیں: نہ تو يہ کوئی بری سياحت ہے، نہ کوئی فضائی تفريح ، اور نہ ہی اسے تقليد وعادت اور نقل کے طور پر انجام ديا جاتا ہے بلکہ يہ ايمانی سياحت ہے جس کی فضا بلند معانی اور نيک مقاصد سے لبريز ہوتی ہے، يہ ایمانی و فکری آلود گيوں اور منہجی واخلاقی مخالفتوں سے دور رہ کر توبہ وانابت، رجوع الی اللہ اور صراط مستقيم کے التزام کا سنہری موقع ہے۔

چھٹی نصیحت :

اس بيت عتيق اور مبارک سرزمين کی عظمت وشان کا دل ميں احساس ہو، يہاں خون نہيں بہايا  جا سکتا، اس کے درخت اکھاڑے نہيں جا سکتے، یہاں کے شکار بھگائے نہيں جا سکتے، یہاں کی گمشدہ اشياء اٹھائی نہيں جا سکتيں سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرنا چاہتاہو۔ (بخاری ومسلم ) يہاں درخت، شکار، انسان، اور حيوان خوف اور اذيت سے بالکل محفوظ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
 ”اس میں جو آجاے امن والا ہوجاتا ہے“ (آل عمران 97) ۔
 اس جگہ ايسے اعمال انجام ديناجائز نہيں جومقاصد شريعت اور منہج اسلام کے منافی ہوں،يہاں صرف اللہ تعالی ہی کی طرف دعوت دی جا سکتی ہے، يہاں صرف توحيد کا شعار ہی بلند کيا جا سکتاہے، يہاں اللہ اور يوم آخرت پر ايمان رکھنے والوں کے ليے جائز نہيں کہ مسلمانوں کو تکليف دے، يا امن وامان سے رہنے والوں کو خوفزدہ کرے، يا حج کے اعمال سنت نبوی کے خلاف بجالائے ارشاد باری تعالی ہے:
 ”جوبھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے“ (الحج 25)

ساتويں نصيحت :

 مسائل حج سے آگاہی حاصل کرکے حج کی تياری کریں، اور جس مسئلے ميں اشکال پيدا ہو اس کی بابت اہل علم سے دریافت کرلیں، کيوں کہ جہالت کی بنياد پر اللہ تعالی کی عبادت کرنی ياسنت نبوی کے خلاف حج کے اعمال بجا لانا جائز نہيں۔ يہ ايسا معاملہ ہے جس کا حاجيوں کو کافی اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔

آٹھويں نصيحت: 

گناہوں اور معاصی سے کلی اجتناب کریں: اللہ تعالی نے فرمايا:
”حج میں اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے“ ۔ (البقرہ 197)
 طاعات کی انجام دہی پر نفس کو آمادہ کریں، اور منکرات سے خود کو دور رکھیں خواہ ان کی نوعيت جيسی بھی ہو۔

نويں نصيحت :

حج کو خالص کرنے اور ان تمام امور کو بجالانے کی سعی کریں جن سے آپ کے حسنات زیادہ ہوں، اور حج کے مناسک مکمل ہوسکیں۔ جن میں سرفہرست نیک دوست کا انتخاب اور پاکیزہ وحلال کمائی ہے جوکہ قبولیت حج کا سبب ہے

دسویں نصیحت :

مکا رم اخلاق، اور شرعی آداب سے مزین ہوں اور گفتار وکردار، ہاتھ یا زبان سے بندگان خداکو اذیت نہ پہنچائیں۔ کیوں کہ حج ایک ایسا مدرسہ ہے جو صبروتحمل ، تعاون باہمی اورایثار وقربانی جیسے پاکیزہ اخلاق ، عمدہ خصائل، نیک عادات ،اوراعلی اوصاف کی تعلیم دیتا ہے۔

امت کے پاسبانو! یہ نہایت ناگزیر ہے کہ خانہ کعبہ کے حجاج اس عظیم فریضے کو سمجھیں ، اپنے دلوں میں ان وصیتوں کو اتاریں، اور اپنے کردار کے ذریعہ ان کا عملی نمونہ پیش کریں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ ایمان وعمل، اتحاد واتفاق، صبر وشکر، آپسی تعاون وبھائی چارگی، اور اجتماعیت وبالادستی کے اسباق کو دہرائے اور یہ سب کے سب اس عظیم فریضے کے آثار وثمرات ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فرمان
لیشہدُوا منافع لہُم میں جمع کردیا ہے ۔


مکمل تحریر >>

ریڈیو کی تلاوت پر سجدہ ء تلاوت



سوال:

جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر تلاوت قرآن سنتے ہیں تو کیا اس پر سجدہ تلاوت کرنا چاہیے اور اگر کرنا چاہیے تو کس وقت ؟
( محمد طالب: کویت )

جواب:
سجدہء تلاوت اسی وقت مستحب ہے جب کہ آدمی خود تلاوت کررہاہو یا براہ راست تلاوت سن رہا ہو ، کیسٹ ، سی ڈی ، ریڈیواور ٹیلیویژن کی تلاوتیں ہمارے لیے براہ راست نہیں ہوتی ہیںاس لیے انہیں سن کر سجدہ تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ۔


مکمل تحریر >>

بعض آیات کے اختتام پر ان کا جواب بلند آواز سے دینے کى شرعی حیثیت

  سوال:

کہیں کہیں پر دیکھنے میں آتا ہے کہ جماعت کے دوران کچھ لوگ بعض آیات کے اختتام پر ان کا جواب بلند آواز سے دیتے ہیں ۔ کیا اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے ؟ 

جواب:

امام جب بعض آیتیں تلاوت کرتا ہے تو مقتدی حضرات ان آیات کا جواب دیتے ہیں جیسے سبح اسم ربک الأعلی کے جواب میں سبحان ربی الاعلی، ألیس اللہ باحکم الحاکمین کے جواب میں بلی وأنا ذلک من الشاھدین کہنا، اسی طرح سورة غاشیہ کے اختتام پر اللھم حاسبنی حسابا یسیرا کہنا ۔
اس مسئلے سے متعلق تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ سبح اسم ربک الأعلی کی تلاوت کے وقت صرف امام سبحان ربی الأعلی کہہ سکتا ہے، لیکن مقتدی کے لیےا س کا جواب دینا  ثابت نہیں ہے ۔ باقی دوسری آیات بعد  يا ان كى تلاوت سن کر جواب دینا  ثابت نہیں ہے چاہے امام جواب دے یا مقتدی دونوں میں سے کسی کا جواب دینا صحیح نہیں ہے….کیو ں کہ اس سلسلے میں وا رد شده جملہ روایات  کمزور اور ضعیف ہیں ۔ اس لیے ان آیات کی تلاوت کے وقت زور سے جواب دینا محل نظر ہے۔

مکمل تحریر >>

منگل, اگست 13, 2013

ڈراؤنا خواب دیکھنا

سوال:
 رات کو اکثر میں ڈر جایا کرتا ہوں کیا کرو ںمحمد عبدالجبار ۔ کویت)


جواب:
رات میں آپ کا ڈر جانا دراصل شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میرا سرکاٹ لیا گیا ہے اور میں اس کے پیچھے بھاگا جار ہاہوں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 لاتخبربتلعب الشیطان بک فی المنام ”نیند میں شیطان کے اپنے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اطلاع دوسروں کو مت دو “ (مسلم)

اور اگر شرعی اذکار کا اہتمام کیا جائے تو اس طرح کی شکایت سے عافیت مل سکتی ہے لہذا سونے سے پہلے وضو کرلیں اور مسنون دعائیں پڑھ کرسوئیں مثلاً آیت الکرسی پڑھ لیںا، اسی طرح چاروں قل پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کوجماکر ان میں پھونک دیں پھر جہاں تک ممکن ہو‘ اپنے سارے بدن پر پھیر لیں۔ پہلے اپنے چہرے، سراوربدن کے اگلے حصہ پر پھربدن کے دوسرے حصہ پر پھیر لیں۔
مکمل تحریر >>

کیا اہل جنت کی زبان عربی ہوگی ؟

سوال: 

کیا اہل جنت کی زبان عربی ہوگی ؟ 

جواب:

جنتیوں کی زبان کیا ہوگی اورجہنمیوں کی زبان کیا ہوگی اس سلسلے میں کچھ بھی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، یہ جو کہاجاتا ہے کہ اہل جنت کی زبان عربی ہوگی تو یہ صحیح نہیں ہے ۔اسی طرح یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ جہنمیوں کی زبان فارسی ہوگی ۔ طبرانی کی  روایت آتی ہے کہ عربوں سے تین چیزوں کی وجہ سے محبت کرو، کیو ں کہ میں عربی ہوں، اورقرآن عربی زبان میں ہے اوراہل جنت کی زبان عربی ہے ۔ اس حدیث کے بارے میں ابن جوزی اور متعددائمہ نے کہا ہے کہ من گھڑت اورموضوع ہے ۔ اس لیے اس سلسلے میں خاموشی ہی بہتر ہے، جس کے بارے میں ہمیں معلومات نہیں دی گئی ہے اس تعلق سے خواہ مخواہ بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

مکمل تحریر >>

کیا جہنم ہمیشہ ہمیش رہے گا ؟

سوال:

کیا جہنم ہمیشہ ہمیش رہے گا یا ایک لمبے عرصے تک عذاب ہونے کے بعد جہنم کا عذاب ختم ہوجائے گا ؟ 

جواب :

جہنم ہمیشہ ہمیش رہے گا ، کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے اورنہ ہی اُس کا عذاب ختم ہونے والا ہے، کافروں اورمشرکوں کوہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی آگ میں جلنا ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کئی جگہوں پر فرمایاہے کہ جہنم کا عذاب ہمیشہ رہے گا ، سورہ اعراف میں اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ اللَّـهَ لَعَنَ الْكَافِرِينَ وَأَعَدَّ لَهُمْ سَعِيرًا ، خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا (سورة احزاب 65، 66)
" اللہ تعالی نے کافروں پر لعنت بھیجی ہے اوران کے لیے جہنم کا عذاب تیار کررکھا ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے" ۔
ہاں! اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ جوموحد تھے لیکن نافرمانی کی تھی تو ان کوایک عرصہ کے بعد جہنم سے نکال دیاجائے گا ۔ لیکن جہنم ختم نہیں ہوگا ۔

مکمل تحریر >>

پیر, اگست 12, 2013

برتھ ڈے، یا ویڈنگ ڈے منانے کا کیاحکم ہے ؟

سوال:

برتھ ڈے، یا ویڈنگ ڈے منانے کا کیاحکم ہے ؟ 

جواب:

پیدائش کی سال گرہ منانا یا شادی کی سال گرہ منانا اسلامی طریقہ نہیں ہے، اورایک مسلمان اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارے ۔ خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائش یا شادی کی سا ل گرہ نہیں منایا، نہ صحابہ اورتابعین اورتبع تابعین نے منایا۔ یہ اصل میں غیرقوموں کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں آگئی ہے، لیکن ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر اس طریقے کا کنڈم کرے جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ :
من تشبہ بقوم فھو منھم (ابوداؤد، احمد)
”جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے “۔خلاصہ یہ سمجھیں کہ ایک مسلمان کو برتھ ڈے یا ویڈنگ ڈے نہیں مناناچاہیے ۔ ویڈنگ ڈے کی جہاں تک بات ہے تو یہ صرف سال میں خوشی منانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسلام نے ایسی تعلیمات دی ہیں کہ اگر ان کو سامنے رہ کر میاں بیوی زندگی گذارتے ہیں تو ہر دن ان کے لیے شادی کا دن جیسا رہے گا ۔

مکمل تحریر >>

جمعرات, اگست 08, 2013

اسلام قبول کرنے کے لیے ختنہ کرانا


سوال: کیا اسلام قبول کرنے کے لیے ختنہ کرانا ضروری ہے اور ختنے کا کیا فائدہ ہے ؟ ( جہانگیرعالم ۔ کویت)

جواب : جی نہیں ! اسلام قبول کرنے کا ختنہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ،جب ایک آدمی اسلام قبول کرنا چاہتاہو تو اُسے صرف کلمہ شہادت کی تلقین کردیں وہ مسلمان ہوجائے گا اور بس ۔

جہاں تک ختنہ کا سوال ہے تو اِس کا اسلام قبول کرنے سے کوئی تعلق نہیں ۔ختنہ کرائے بغیر اس کی نماز ہو سکتی ہے،اس کا سارا دینی کام ہوسکتا ہے ۔

لیکن اسلام دین فطرت ہے،اور ختنہ کرانا سنن فطرت میں سے ہے، اس لیے اسلام نے ختنہ کرانے کی تاکید کی ہے ۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مردوں میںختنہ سے ایڈز کے مرض کا آدھا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔ اور جس شخص کے ختنے نہیں ہوئے اسکے عضوتناسل پربڑھی ہوئی جلد کے سبب ایڈز کے خدشات بہت رہتے ہیں اسی لیے اسلام سے پہلے بھی ختنے ہوتے تھے ، آج مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی ختنے کراتے ہیں ،اور نئے کلچرمیں ختنے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے۔

ہندوستان کے معروف شہر لکھنو سے شائع ہونے والے ہندی روزنامے سَوَتَنتربھارت 10 ستمبر 1996 کے شمارہ میںختنہ سے متعلق ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

”مسلم عورتوں کے مقابلہ ہندو عورتوںمیں رِحم کا کینسر زیادہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ مسلم مردوں کے عضوتناسل میں کینسر کا مرض نہیں ہوتا

انڈین میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ کے مطابق چنڈی گڈھ ، بنگلور، اور مدراس کے 871 کینسر مریضوں میں کوئی بھی مسلم مریض نہیں ہے ۔ اس کے برعکس لنگ کینسر یعنی عضوتناسل کے کینسر کے شکار ہندو نوجوانوں میں بنگلور میں63 فیصد ،مدراس میں 67 فیصد، اور چنڈی گڈھ میں 63 فیصد کینسر کے مریض ہیں۔ اُسی طرح نوئڈا کے کینسر سینٹر کے انچارج نے صراحت کی کہ ہندو دھرم اور دوسرے دھرموں کے مقابلہ مسلم دھرم کی خواتین میں کینسر کی بیماری نہیں پائی جاتی، اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں ختنہ کا رواج ہے“ ۔


مکمل تحریر >>

سوتے وقت ذہن میں بیوی کاخیال بٹھانا


سوال:

اگر ایک آدمی سوتے وقت اپنی بیوی کے بارے میں حرص کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ (محمدعلی ۔ کویت )

جواب :

ایسا کرنا جائز ہے ، اپنی بیوی کے بارے میں سوتے وقت ہو یا جس کسی وقت ہو سوچ سکتے ہیں ، ممانعت غیر عورت کے بارے میں سوچنے کی ہے ، یہاں تک کہ علمائے کرام نے اجازت دی ہے کہ اپنی بیوی سے فون پر جنسی گفتگوبھی کی جا سکتی ہے بشرطیکہ گفتگو تنہائی میں ہو‘ کوئی دوسرا نہ سن سکے ۔اورشوہر بیوی میں سے دونوں اس گفتگو کے بعد کسی حرام کام کے ارتکاب سے مامون ہوں۔ایسا نہ ہو کہ جنسی گفتگو کرنے کی وجہ سے ناجائز طریقے سے جنسی تسکین کرنے کی نوبت آجائے اگرمعاملہ اس حد تک پہنچ جائے تو جائز نہیں۔


مکمل تحریر >>

دعوتی ورفاہی کاموں کا شہسوارڈاکٹر عبدالرحمن السمیط رحمہ اللہ


افریقی ممالک میں29 سال کا عرصہ بتانے والا کویتی داعی جن کے ہاتھ پر 11ملین سے زائد مردوخواتین نے اسلام قبول کیا

ہماری اکثریت دوسروں کی خدمات کا اعتراف بہت کم کرتی ہے، ہمارے بیچ مثبت سوچ کے حامل افراد خال خال نظرآتے ہیں، جبکہ منفی ذہن رکھنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں، اگر اعتراض کرنے، بیجا نقدوتبصرہ کرنے اوربال کی کھال نکالنے کا معاملہ آئے تواس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے گی۔ لیکن جب خدما ت کے اعتراف اور کارناموں کی تحسین وستائش کا معاملہ آئے تو اکثر لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔آج ہم اپنے معاشرے میں رول ماڈل کے فقدان کا رونا روتے ہیں، ہمیشہ ہماری یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے والے عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کے سامنے عملی پیکر اورکردار کے غازی دکھائی نہیں دیتے۔ یہ شکایت صد فیصد بجا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے معاشرے کے باہمت اوراعلی سوچ کی حامل شخصیات سے کم ازکم اپنی نئی نسل کو متعارف کرایا، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے بیچ سے کتنے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد چلے گئے لیکن ان کی زندگی کے روشن پہلو ہماری نئی نسل کے سامنے نہ آ سکے۔
انہیں باہمت اوراعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات میں سرزمین کویت کی ایک ممتاز شخصیت ،فاتح افریقہ ،رفاہی کاموںکے قائد اورامیر،دعوت کے سفیر، عظیم دیدہ ور،عالم اسلام کے معروف داعی ،مرکزدراسات العمل الخیری کے رئیس اورجمعیة العون المباشر کے موسس وبانی ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط ہیں، جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے صاحبِ فراش تھے، بالآخر قضا آئی اور15اگست کو دارفانی سے داربقا کی طرف کوچ کرگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

آپ کی زندگی سلف صالحین کانمونہ تھی جنہوںنے دین کی تبلیغ کے لیے اپنی زندگی کے آرام وراحت کو قربان کیا اور دنیا کے چپے چپے میں پھیل کر اپنے عمل اورکردار سے لوگوںکو اسلام کی طرف دعوت دی ،ذیل کے سطورمیںاس فقیدالمثال شخصیت کی زندگی کی ایک جھلک پیش کی جارہی ہے:

عہدطفولت :

 ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے 15اکتوبر سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک متوسط گھرانے میں آنکھیں کھولیں،بچپن سے مطالعہ کے بیحد شوقین تھے ، یہاںتک کہ ان کے والد نے متعددبار دھمکی دی کہ ان کو اپنے ہمراہ بازارلے کر نہیں جائیں گے کیونکہ سڑک سے گذرتے ہوئے اگران کی نظر کسی گرے پڑے رسالے یامجلے پر پڑجاتی تو انہیں پڑھنے کے لیے اٹھانے لگتے ،جس میںمتعددبار لوگوںسے ٹکڑا جاتے تھے۔ آپ نے کویت کے حولی علاقہ میں واقع ایک مکتبہ میں طویل عرصہ تک مراجع ومصادر کی کتابوںکا مطالعہ کیا ،ان کتابوںکے مطالعہ سے جہاں آپ کی معلومات میں اضافہ ہوا وہیں آپ کی آنکھیں کھلیں ۔ آپ کی عادت تھی کہ اگر کوئی کتاب ہاتھ میں لیتے تو خواہ ان کے صفحات کتنے ہی ہوں ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتے تھے ۔بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔

تعلیم اورعمل :

ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی سے سیکنڈری تک کی تعلیم کویت میں ہی حاصل کی ،پھر بغداد یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور جولائی 1972 میں وہاں سے فراغت حاصل کی ، اپریل 1974 میں انگلینڈ لیوریول یونیورسٹی سے ڈپلوما کیا،پھر جولائی 1974 میںباطنی امراض اورGastroenterology میں تخصص کیا۔ میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدلندن میں مونٹرجنرل ہسپتال اورکنگزکالج ہسپتال میں طبی خدمات انجام دی پھر کویت لوٹ کر آئے تو صباح ہاسپیٹل میں Gastroenterology کے شعبہ میں بحال کیے گیے۔

 رفاہی خدمات :

سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے۔طبیعت میں سادگی ایسی تھی کہ شب وروز میں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کو آرام پسندی اور آسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کو ترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے۔

افریقہ کا سفر:

جن دنوں آپ کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر کام کررہے تھے وہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ انہیں دنوں سابق امیر کویت شیخ جابرالصباح ؒ کی اہلیہ نے ڈاکٹر موصوف کو مکلف کیا کہ ان کے اخراجات پر کویت میں ایک مسجد بنوائیں ،لیکن ڈاکٹر موصوف نے فیصلہ کیا کہ یہ مسجد افریقہ میں بنائی جائے ،اسی ارادے سے 1980 میں اپنے دو کویتی احباب کے ساتھ ملاوی کا سفر کیا جہاں سب سے پہلی مسجد بنوائی ۔ یہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں رفاہی خدمات انجام دینی شروع کردیں ۔ ملاوی میں غیرمسلم مسلمانوں کو ’الاسالی ‘کے نام سے پکارتے تھے جس کا مطلب ہوتا ہے ”پسماندہ انسان“۔ ڈاکٹر موصوف کہتے ہیں کہ مسلمانوںکی بری حالت اورتعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اسلام بدنام ہورہا تھا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ تبدیلی کی کلید تعلیم ہی ہوسکتی ہے ،میں نے مہنگی فیس دے کر ان کے بچوںکوپڑھاناشروع کیااوراب الحمدللہ وہاں تعلیم مفت ہوچکی ہے۔
 اس مردمجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“۔

افریقہ میں دعوتی ورفاہی خدمات :

آپ نے اپنی پوری جوانی افریقی ممالک میں گذار دی ، خاص طورپر مالاوی ،کونگو،سنگال ،نیجراورسیرالیون میں آپ نے اپنی رفاہی خدمات کی جال بچھادی ، یتیموں،بیواوں اورفقیروںکی خدمت کرکے فخر محسوس کرتے رہے، اس بیچ آپ نے کتنے ڈاکٹرس اورانجنئرس پیدا کئے ، چار ہزارسے زائد دعاة تیار کئے جو ابھی میدان میں کام کررہے ہیں ، کتنے عیسائی مبلغین کوآپ کے ہاتھوںپر ہدایت نصیب ہوئی اور وہ اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے ۔ 29سال کی طویل مدت جوآپ نے افریقی ممالک میں گذاری ، اس عرصہ میں 11 ملین لوگ آپ کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 5700 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7ریڈیواسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلزبنائے۔ تقریبا 15000 یتیموں کی کفالت کی 204 اسلامی مراکز قائم کئے ،پینے کے پانی کے لئے تقریبا 9500 کنویں کھدوائی، دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے۔
 دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی۔دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا،ڈاکٹر موصوف فرماتے ہیں”اس دن مجھے کون حساب وکتاب سے بچائے گا جس دن افریقہ والے میرے خلاف شکایت کریں گے کہ میں نے ان کی ہدایت کی راہ میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی “۔
یہ ساری کاوشیں جنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
”جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں…. اورظاہرہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاوں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ “
ڈاکٹر موصوف نے ایک مرتبہ بیان فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی بابت اطلاع ملی جہاں اسلام کا پیغام اب تک نہ پہنچ سکا ہے توہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا ،رفقاءنے کہا کہ اس بستی میں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے اوراس کے بیچ ایک نہر ہے جس میں بڑے بڑے مگرمچھ پائے جاتے ہیں جن کے حملے سے بچنا مشکل ہے ، ہم نے رفقاءسے عرض کیا کہ مجھے وہاں لے چلو اورمیں اس کا ذمہ دار ہوں، چنانچہ کشتی میں سوار ہوئے اوربستی کا رخ کیا،ادھر مگر مچھ اردگرد چکر کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ صحیح سلامت بستی میں داخل ہوگئے ،بستی والوں نے دیکھا تو ازراہ تعجب پوچھا کہ یہاں کیسے آگئے ؟ہم نے جواب دیا کہ اللہ نے ہماری حفاظت فرمائی کہ اس کے دین کی تبلیغ مقصود تھی ۔ پھر بستی والوںپر اسلام پیش کیا تو اس کے ایک زمیندار نے کہا کہ ہم آپ کی بات ماننے کے لیے تیار ہیں تاہم ایک شرط ہے ، کئی سالوں سے بارش نہیں ہورہی ہے ،اپنے رب سے دعا کردیں،اگربارش ہوگئی تو ہم سب اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔میں نے کہا: ٹھیک ہے ، بستی والوں کو جمع کرو، اس طرح سب اکٹھا ہوگئے ،میں کھڑا ہوا ، وضو کیا،اورنماز پڑھنے لگا ،بحالت سجدہ خوب گرگراکر رویا اوراللہ سے دعا کی کہ ”الہ العالمین ! عبدالرحمن کے دین کو عبدالرحمن کے گناہ کی وجہ سے رسوا نہ کرنا “۔جب سجدہ سے سر اُٹھایا تو واقعی بارش ہونے لگی ، اس طرح پوری بستی نے کلمہ شہادت کا اقرار کرلیا ۔

آزمائشیں :

متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، لحمد للہ وہ ان حملوں سے بچ نکلے۔ اور دعوتی سفر میں وہ موزمبیق اور کینیا وغیرہ کے جنگلات میں کئی بار جنگلی جانوروں کی زد میں آگئے۔ اور زھریلے سانپوں نے ان کو کئی بار ڈنک مارا ، لیکن اللہ نے ان کو بچالیا۔ دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار 1970ء بغداد کی جیل میں رکھا گیا۔ اور قریب تھا کہ ان کو سزائے موت دی جاتی۔ لیکن اس بار بھی بچ گئے۔ دوسری بار 1990ءمیں کویت اور عراق کے مابین جنگ کے دوران عراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے شدید ترین اذیتوں کا نشانہ بنایا ۔ ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا۔ ذیابطیس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے۔جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف تھا نہ بیماری کا احساس۔

خدمات کا اعتراف :

ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیر رقم کو افریقی بچوں کی تعلیم پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے۔
اسی طرح اعلی حضرت عزت مآب صباح الاحمد جابر الصباح امیر کویت نے بھی آپ کو آپ کی دعوتی اور رفاہی خدمات کی بنیاد پر 12دسمبر 2011 میں کویت کے اعلی درجہ کا ایوارڈ "ذوالوشاح " سے نوازا.
عزیزقاری! جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے
         مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
         تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

وفات :

کافی عرصے سے علیل چل رہے تھے۔ اور ایک بار تو ان کی وفات کی افواہ بھی اڑ گئی تھی۔ بالآخر یہ شخصیت15 اگست 2013ءکو اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ کویت کے وقت کے مطابق صبح کے ساڑھے آٹھ بجے ان کی تدفین وتکفین ہوئی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین۔

پیغام :

ہم مسلمان ہیں،ہمارے وجود کا مقصد دوسروں کی رہنمائی ہے، ہم بہترین امت محض اس لیے قرار دئیے گئے ہیں کہ ہم خیر کے داعی اور دین کے سپاہی ہیں۔ آخرہم نے اپنے دین کے لیے کیا کیا ، ہم اپنے شب وروز کے معمول میں سے دین کے لیے کتنا وقت نکال پاتے ہیں، دنیا کے لیے جوہماری منصوبہ بندی اور پلاننگ ہوتی ہے اس کا کتنا حصہ ہم دین کے لیے دے رہے ہیں۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج ہماری اکثریت صبح سے لے کر شام تک دنیاوی زندگی کے تقاضوں میں لگی رہتی ہے ، ہم دین کی خدمت کے لیے سو بہانے بناتے ہیں، تو پھر کمر ہمت باندھیں ، فروعی اختلافات میں الجھ کر علم کا استحصال نہ کریں، ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھیں ، کرنے کے کام بہت ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ اللہ کس سے کون سا کام لے لے ،اس لیے خود کو حقیر نہ سمجھیں، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ، قوم کو آپ کی سخت ضرورت ہے، آپ دین کے لیے جوبھی خدمت پیش کرسکتے ہیں پہلی فرصت میں اس کے لیے خود کو تیارکریں .
جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میں بے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
 یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمومنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی اعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیں بلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے۔اس کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے۔
ڈاکٹر السميط کی زندگی میں سارے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور عصری تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے بالخصوص بہت بڑاپیغام ہے کہ وہ جہاں اورجس میدان میں رہیں اسلام کے سپوت بن کر رہیں، اسلام کے غلبہ کے لیے فکرمند رہیں، اوراسلام کی خدمت کے لیے ایک لمحہ بھی فروگذاشت نہ کریں۔

آئیے ! عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین۔ پھرموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدردعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں

مکمل تحریر >>