جمعرات, اگست 22, 2013

شفاعت کیا ہے ؟



0
شفاعت لغوی اعتبار سے شفاعت شفع سے نکلا ہے جو وتر کی ضد ہے۔ اور شریعت کی اصطلاح میں شفاعت کہتے ہیں:
" کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانے یا اس سے نقصان کودورکرنے میں واسطہ اورذریعہ بننا۔"
شفاعت کا دوسرا نام سفارش بھی ہے ۔ شفاعت کی دوقسمیں ہیں، پہلی قسم: جائز شفاعت :اوریہ وہ شفاعت ہے جوکل قیامت کے دن اہل توحید کے ساتھ خاص ہوگی۔ صحیح بخاری کی روایت ہے ،ایک دن ابوہریرہ رضى الله عنه نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا:
من أسعد الناس بشفاعتک ؟
وہ کون خوش نصیب ہیں جن کوآپ کی شفاعت نصیب ہوگی ؟ آپ نے فرمایا:
من قال لا الہ الا اللہ خالصا من قلبہ
”جس نے سچے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں وہ میری شفاعت کا حقدار ہوگا“۔
اوریہ شفاعت بھی ایرے غیرے سب کو حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ اس کے لیے تین شرطوں کا پایاجانا بیحد ضروری ہے:وہ تین شرطیں کیا ہیں:
٭ شفاعت کرنے والے سے اللہ راضی ہو.
٭جس کے لیے شفاعت کی جارہی ہے اس سے بھی اللہ راضی ہو.
٭سفارش کرنے والے کو اللہ تعالی سفارش کرنے کی اجازت دے دے۔
 ان تین شرطوں کا ذکراللہ پاک نے سورہ نجم آیت نمبر26 میں یوں فرمایا ہے :
وکم من ملک فی السماوات لاتغنی شفاعتھم شیئا إلا من بعد أن یأذن اللہ لمن یشاء ویرضی۔
اوربہت سے فرشتے آسمانوںمیں ہیں جن کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دے سکتی ، لیکن یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہے سفارش کرنے کی اجازت دے دے، اورراضی بھی ہو ۔
عزيزقارى ! اس جائز شفاعت کی بھی دو قسمیں ہیں: عمومی شفاعت اور خصوصی شفاعت،عمومی شفاعت کا مطلب یہ ہے کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالی کی اجازت سے نیک بندوں کو شفاعت کرنے کاحق حاصل ہوگا،جو صرف موحدین کے لیے سفارش کریں گے، اس میں انبیاء بھی ہیں، صدیقین بھی ہیں، شہداء بھی ہیں ، صالحین بھی ہیں ۔
شفاعت کی دوسری قسم وہ شفاعت ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، ان میں سب سے پہلے شفاعت عظمی ہے جو قیامت کے دن ہوگی ۔ یاد کیجئے اس دن کو جب ساری مخلوق میدان محشر میں اکٹھا ہوگی ، جہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا، لوگ پسینوں میں شرابور ہوں گے ، پریشانی کے عالم میں بھاگ بھاگ کرنبیوں کے پاس جائیں گے، سیدنا آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، آدم علیہ السلام کہیں گے ہم اس کے قابل نہیں، ابراہیم کے پاس آئیں گے، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: ہم اس کے قابل نہیں، موسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، موسی علیہ السلام کہیں گے: ہم اس کے قابل نہیں، عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے، عیسی علیہ السلام بھی عذر پیش کریں گے کہ ہم اس کے قابل نہیں، یہاں تک کہ لوگ خاتم النببین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اورآپ سے سفارش کی گذارش کریں گے تو آپ کا فرمان ہوگا: أنا لہا أنا لہا ” میں ہوں اس کے لیے، میں ہوں اس کے لیے“ پھرآپ عرش کے نیچے سجدے میں گرجائیں گے، اللہ کی حمد وثنا بیان کریں گے یہاں تک کہ پکارا جائے گا: یا محمد ارفع رأسک وسلْ تٌعطَ واشفع تٌشفّع "اے محمد! اپنا سراٹھائیں، مانگیں دیا جائے گا، شفاعت کریں شفاعت قبول کی جائے گی، اس طرح اللہ پاک آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اورلوگوں کے بیچ فیصلہ شروع ہوجائے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری شفاعت اہل جنت کے حق میں ہوگی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش سے اہل جنت بہشت میں داخل ہوسکیں گے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری شفاعت اپنے چچا ابوطالب کے عذاب میں تخفیف کے لیے ہوگی چنانچہ اسے آگ کا جوتا پہنا دیا جائے گا جس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا ۔ چوتھی شفاعت ان جہنمیوں کے لیے ہوگی جن کے دل میں رائی کے دانہ کے برابربھی ایمان ہوگا ،آپ کی شفاعت سے انہیں جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیاجائے گا۔
عزيزقارى! شفاعت کی دوسری قسم ناجائز اور باطل شفاعت ہے، یہ وہ شفاعت ہے جس کی امید اہل شرک اپنے معبودوں سے رکھتے ہیں، یا درگاہوں کے بچاری اپنے حق میں اولیائے کرام کے تئیں رکھتے ہیں، اورقبروں پر جاکریہ سمجھتے ہوئے مانگتے  ہیں کہ یہ اولیاء ہم کو اللہ کے پاس پہنچا دیں گے:
ھؤلاء شفعاءنا عنداللہ
 " یہ سب اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں" تو حقیقت میں یہ ان کی کج فہمی ہے، نادانی اورجہالت ہے۔ کیونکہ اللہ اوربندے کے بیچ کوئی گیپ ، کوئی ڈسٹینس اور کوئی واسطہ نہیں۔ یہ مردے نہ دنیا میں ان کے کوئی کام آئيں گے اور نہ مرنے کے بعد کل قیامت کے دن :
 فما تنفعھم شفاعة الشافعین
” اس دن سفارش کرنے والوں کی سفارشیں ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گی “۔
عزيزقارى! اگر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے خواہاں ہیں تو ہمیں چاہیے کہ کثرت سے آپ پر درود بھیجیں، نوافل کا اہتمام کریں، حاجتمندوں کے کام آئیں ،اورنیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔

 انہیں چند کلمات کے ساتھ ہم آپ سے رخصت ہوتے ہیں یہ دعا کرے ہوئے کہ اللہ پاک ہم سب کو پیارے نبی کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔