جمعرات, اپریل 15, 2010

مسجد اقصی کی پکار


   دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضابے اذاں
کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض وسماءنے بابرکت قرار دیا ہے (سورة الاسراء 1)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایاہے ۔ (بخاری ومسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک صلى الله عليه وسلم کو معراج کرايا گيا تھا ۔ (مسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد صلى الله عليه وسلم کی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی ۔ (مسنداحمد:صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں ايک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ۔ (حاکم، بیہقی : صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔ (احمد: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی ”دوسری مسجد“ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ (بخاری ،مسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے ۔ (بخاری ومسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ (گناہوںسے دھلاہوا) ایسے لوٹتاہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ (ابن ماجہ: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کوبھی قتل کریں گے۔ (ترمذی: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروزقیامت ”ارض محشر“ ہوگی ۔ (احمد،ابوداؤد: صحیح)


آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنايرغمال بنارکھاہے ۔
آئے دن میرے تقدس کو پامال جارہا ہے۔
میری آبادکاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنالی گئی ہے ۔
میرے دامن میں مسلسل سرنگ کھودے جارہے ہیں تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑدوں اور میری جگہ ہیکل ”سلیمانی نام“ کا شیطانی بت نصب کردیا جائے۔
مکمل تحریر >>

پیر, اپریل 12, 2010

رشوت دے کر نوکری لینے والے کو قرض دینا


سوال: میرے ایک دوست رشوت دے کر نوکری لینا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ مجھ سے قرض مانگ رہے ہیں۔ کیا میں انہیں قرض دے سکتا ہوں ؟ ۔ (محمد بطریق۔ کویت)

جواب: رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ”ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو ‘حالانکہ تم جانتے ہو“۔ (سورہ بقرہ 188) اور رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے (ابوداوؤد، ترمذی) البتہ اگروہ ملازمت کے حقدار ہیں، ساری اہلیت ان کے اندر پائی جاتی ہے اوررشوت دینے کے نتیجہ میں کسی دوسرے کے حق پر زیادتی نہیں ہوتی ، یا ان کے جیسے یا ان سے بہتر شخص کو ملازمت سے محروم نہیں کیا جاتا اور ان کو یہ حق رشوت دیے بغیر نہیں مل سکتا توپھر اس حالت میں ان کے لیے رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنی جائز ہے ۔ اگرچہ لینے والے کے لیے یہ حرام ہی ہے ۔

اگر یہ سارے شروط آپ کے دوست کے اندر پائے جارہے ہیں اور پھر آپ سے قرض مانگتے ہیں تو آپ ان کو قرض دے کران کا تعاون ضرور کریں ۔اگر نہیں تو پھر آپ کے لیے بھی قرض دینا جائز نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ”نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو ، بُرائی اورگناہ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو “۔ (سورہ المائدہ : 2 )

مکمل تحریر >>

سبق

ایک مرتبہ ایک چھوٹے شہر کا طالب علم ہائی اسکول میں فیل ہوگیا۔ دوسرے سال اس نے پھر امتحان دیا، مگر وہ دوبارہ فیل ہوگیا۔ اس کے بعد جب اس کا تیسرے سال کا نتیجہ آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب بھی فیل ہے تو اس کو سخت دھکا لگا اور اتنا بیزار ہوا کہ گھر سے بھاگ نکلا۔ چلتے چلتے وہ ایک گاﺅں پہنچا۔ اسے پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ کنواں ہے، جس پر کچھ عورتیں اور بچے پانی بھر رہے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ گاﺅں کے لوگ جو پانی بھر نے کے ليے کنویں پر آتے ہیں ۔عام طورپر ان کے ساتھ دو عدد مٹی کے گھڑ ے ہوتے ہیں۔ ایک گھڑے کو وہ کنویں کے قریب ایک پتھر پر رکھ دیتے ہیں اوردوسرے گھڑے کو کنویں میں ڈال کر پانی نکالتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ جس پتھر پر گھڑا رکھا جاتاہے،وہ گھڑا رکھے رکھے گھس گیا ہے۔ گھڑا ” مٹی کی ایک چیز ہے “ اس نے سوچامگر جب وہ باربار بہت دنوں تک ایک جگہ رکھا گیا تو اس کی رگڑ سے پتھر گھس گیا۔ استقلال کے ذریعہ مٹی نے پتھر کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ مسلسل عمل نے کمزور کو طاقتور کے اوپر غالب کردیا۔ پھر اگر میں برابر محنت کروں تو کیا میں امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا ؟ یہ سوچ کر بھاگتے ہوئے طالب علم کے قدم رک گئے، وہ لوٹ کر اپنے گھر واپس آگیا اوردوبارہ تعلیم میں اپنی محنت شروع کردی۔
 اگلے سال وہ چوتھی بار ہائی اسکول کے امتحان میں بیٹھا۔ اس بار نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ اس کے پرچے اتنے اچھے ہوئے کہ وہ اول درجے میں پاس ہوگیا۔ تین بار ناکام ہونے والے نے چوتھی کوشش میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پتھر کا یہ سبق نوجوان کی زندگی کے لےے اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ جو طالب علم ہائی اسکول میں مسلسل ناکام ہوکر بھاگا تھا، اس کے بعد مسلسل فرسٹ آنے لگا، یہاں تک کہ ایم اے میں اس نے ٹاپ کیا۔ اس کے بعد وہ ایک اسکالر شپ پراعلی تعلیم کے لےے بیرون ملک گیا اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

یہ کوئی انوکھاواقعہ نہیں کہ جو صرف ایک گاﺅں میں پیش آیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ ایسے ” پتھر “ موجود ہیں جو آدمی کو زندگی کا سبق دے رہے ہیں۔ جو ناکامیوں سے کامیاب بن کر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر نصیحت قبول کرنے کا مزاج ہوتو وہ اپنے قریب ہی ایسا ایک ”پتھر“ پالے گا جو خاموش زبان میں اس کو وہی پیغام دے گا جو مذکورہ نوجوان کو ایک پتھر سے ملا ہے۔
( وحید الدین خان)
مکمل تحریر >>

باپ کا احترا م


  •  باپ کا احترام کرو....تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔
  •  باپ کی عزت کرو.... تاکہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔
  •  با پ کا حکم مانو.... تاکہ خوشحال ہو سکو۔
  •  باپ کی باتیں غور سے سنو.... تاکہ دوسروں کی نہ سننی پڑ یں۔
  •  باپ کی سختی برداشت کرو.... تاکہ باکمال ہو سکو۔
  •  باپ کے سامنے اونچا نہ بولو.... ورنہ اللہ تعالیٰ تم کو نیچاکر دے گا۔
  •  باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو.... اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند کر دے گا
  •  باپ ایک کتاب ہے.... جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں۔
  •  باپ ایک ذمہ دار ڈرائیور ہے.... جو گھر کی گاڑ ی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔
  •  باپ ایک مقدس محافظ ہے....جو ساری زندگی خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔
  •  باپ کے آنسو تمہارے دکھ دینے سے نہ گریں.... ورنہ خدشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو جنت سے گرا دے گا۔
  •  باپ کی عزت کرنے والے کو ہی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔                               (محمد عثمان ) 
مکمل تحریر >>

بچوں سے گفتگو

بچو! تم تعلیم کے حصول کے لیے پڑھنے لکھنے میں اس طرح مائل ہوجاؤ ، ایسے گم ہوجاؤاور اپنے وجود کو ایسے پڑھنے لکھنے میں گم کردو جیسے دانہ مٹی میں مل کر اپنے وجود کو گم کردیتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اگتا ہے اور زمین کے اوپر آکر گل وگلزار ہوتا ہے ، پھر ہرا بھرا ہوکر چھوٹے سے پودے کی شکل اختیار کرتا ہے ، لوگ اُسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ محبت اور پیار سے اسے پانی پہنچاتے ہیں ، اس کی نشونما کرتے ہیں ، پھر پودا بڑا ہوتا ہے ، بڑا ہوکر جھاڑ کہلاتا ہے ۔ اس کے بعد درخت کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ پھول کھلتے ہیں، پھل لگتے ہیں ، لوگ اس کی چھاؤں میں سکون وآرام محسوس کرتے ہیں اور وہی درخت برسو ں انسانوں کی خدمت کرتا رہتا ہے ۔ اچھے درخت کو جب پھل لگتے ہیں تو وہ جھک جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے اور فائدہ اٹھائیں ۔ برسوں اسی طرح ہر موسم میں پھول اور پھل دیتا رہتا ہے ۔ لوگ اس سے اور اس کے سائے دونوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی پودے کی طرح اپنے وجود کو مٹاکر اپنی زندگی میں گل وگلزار ہوجائے اور انسانیت کے کام آئے ۔

( ایم اے نعیم )
مکمل تحریر >>