بعض لوگ اپنے نوجوان بچوں اور بچیوں کی عمر اور جسمانی ساخت کی پرواہ کیے بغیر انہیں بالکل آزاد چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کا کہاں اور کن کے ساتھ آنا جانا ہوتا ہے اس سے ان کو کوئی سروکارنہیں ہوتا ۔ بعض گھرانوں میں باپ بچیوں کی روحانی تربیت کی ساری ذمہ داری ماں کے سر ڈال کرخود کوان کی جسمانی آرام وراحت کے لیے وقف کردیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بچی خود کو آزاد سمجھنے لگتی ہے ۔ ایسے حالات میں آوارہ لڑکوںکے لیے ایسی لڑکیوں کو اپنا شکار بنالینابہت آسان ہوجاتاہے ۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی دستیابی مزید جلتے پر نمک کا کام کرتی ہے ۔
مربی کی ذمہ داری یہاں پرختم نہیں ہوتی کہ ”احمد! نماز پڑھو، فاطمہ ! نماز پڑھو “ بلکہ عملی نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ، موقع اور مناسبت کو غنیمت جانتے ہوئے سنجیدگی سے سمجھانے اور مثالیں پیش کرکے تربیت کرنے کی ضرورت ہے ۔