پیر, مارچ 31, 2014

زوجین ایک دوسرے کے تئیں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں

خاندانی نظام کی تشکیل مرداورعورت کے دوجوڑے سے ہوتی ہے،امت کے فعال اورمتحرک افراد یہیں تیار ہوتے ہیں ،اسی لیے شریعت اسلامیہ نے خاوند اوربیوی دونوں کوکچھ حقوق وآداب کامکلف بنایا،بیوی کے کچھ حقوق گنائے گئے توشوہرکے بھی کچھ حقوق طے کیے گئے تاکہ ازدواجی زندگی خوشگوار گذرسکے اوراس پرسکون ماحول میں نئی نسل کی اچھی  تربیت ہوسکے،آئیے ذیل کے سطورمیں ہم ان حقوق پرایک طائرانہ نظرڈالتے ہیں جوشوہر اور بیوی دونوں سے متعلق ہیں۔شوہراوربیوی کے حقوق بعض مشترکہ ہیں اور بعض ہرایک کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیں۔

مشترکہ حقوق :

(۱) امانت : شوہر بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے امانت ہوتے ہیں ،ایک دوسرے کےاسرار کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ،ان کے آپسی راز کسی دوسرے تک کسی صورت میں نہیں پہنچ سکتے، میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ ازدواجی زندگی میں اس پہلو کوپیش نظر رکھیں ۔
(۲) محبت اوررحم دلی کا جذبہ : شوہر بیوی دونوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور رحم دلی کے جذبات پائے جاتے ہوں، دونوں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں، پاکیزہ رشتہ قائم ہوتے ہی یہ جذبات فطری طورپر میاں بیوی میں پیدا ہوتے ہیں البتہ دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے شریک زندگی کے تئیں ہمہ وقت ان جذبات کو اپنے دل میں بیدار رکھیں ۔
(۳) باہمی اعتماد : شوہر بیوی دونوں ایک دوسرے پر کلی طورپر اعتماد کرتے ہوں،اگر ازدواجی زندگی میں شکوک وشبہات در آئے تو ازدواجی زندگی سوہاں روح بن جاتی ہے جس کا نتیجہ بسااوقات علیحدگی اور طلاق پر منتج ہوتا ہے ۔ 

بیوی کے حقوق :

شوہرپربیوی کے کچھ مالی اور کچھ غیرمالی حقوق لازم ہوتے ہیں، مالی حقوق میں مہر کی ادائیگی ،نان ونفقہ اوررہائش ہے جبکہ غیر مالی حقوق میں عدل وانصاف ،حسن معاشرت اوربیوی سے ہر تکلیف کو دور کرنا ہے ۔ ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے :
(۱) مہر کی ادائیگی : مہر اللہ کی طرف سے واجب کیا ہوا حق ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا:
وآتوا النساء صدقاتھن نحلة (النساء 4)
 ” اورعورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو “۔البتہ مہر شادی کی صحت کے لیے ضروری نہیں، بغیر مہر کے بھی شادی صحیح ہوگی البتہ بیوی کا یہ حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے ۔
(۲) نان ونفقہ : جب بیوی شوہر کے گھر آتی ہے تو گویا اس کے لیے خود کو فارغ کرتی ہے،اب شوہر کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
 وعلی المولود لہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف ( البقرة 233)
 ”اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے“۔
بخاری اورمسلم کی روایت ہے ،حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند اللہ کے رسولﷺکی خدمت میں آئی اور کہنے لگی :ابوسفیان بخیل آدمی ہیں وہ اتنا نہیں دیتے جس سے میرے اورمیرے بچے کے لیے کافی ہوسکے ،اگر میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے لوں تو کیا گناہ ہوگا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف ۔
”اچھے انداز سے لے لے جو تیرے اورتیرے بچے کے لیے کافی ہو “۔
(۳) رہائش : شوہر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو پرسکون رہائش فراہم کرے ۔اللہ تعالی نے فرمایا: أسکنوھن من حیث سکنتم (الطلاق 6) ”تم ان کو اسی جگہ رکھوجہاں تم رہتے ہو“۔
(۴) تعلیم وتربیت : شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بیوی کو دین کی تعلیم دے ، اللہ کی توحید ، عبادات ،حلال وحرام اورجائز ناجائز کی تعلیم دے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
 یا أیھا الذین آمنوا قوا أنفسکم وأھلیکم نارا ( سور ہ التحریم 6)
 ”اے ایمان والو! اپنے آپ کو اوراپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ “۔ صحیح مسلم کی روایت ہے ،سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ جب رات میں وتر پڑھتے تو سیدہ عائشة ؓ کو جگاتے اور کہتے کہ عائشہ ! اٹھو اوروتر پڑھ لو ۔
(۵) عزت کی حفاظت : شوہر کے لیے بیوی کی عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ،اس لیے شوہر کوغیرت مند بننا چاہیے،شوہر کو چاہیے کہ اپنے قریبی رشتے داروں (بھائی ،بھانجا اوربھتیجا وغیرہ )کو بیوی سے بے تکلف نہ ہونے دے ، بلکہ ان سے پردہ کرنے کی تاکید کرے ۔بخاری اورمسلم کی روایت ہے ،اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
إیاکم والدخول علی النساءقالوا : أرایت الحمو ؟ قال : الحمو الموت ۔
 اپنے آپ کو عورتوں پر داخل ہونے سے بچاؤ،لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مردکے قریبی رشتے داروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا : قریبی رشتے دار تو موت ہے ۔ یعنی ہلاکت کا سبب ہے ۔
عورت کو پردے کا اہتمام کرنے کی تاکیدکرے ،اور پردہ میں چہرہ کا پردہ شامل ہے کیونکہ چہرہ ہی سرچشمہ محاسن ہے ۔عورت کو گھر سے بے فائدہ نہ نکلنے دیں ،ضرورت کے تحت پردے کااہتمام کرتے ہوئے نکلنے میں کوئی حرج کی بات نہیں تاہم بن سنورکر ایسے پروگراموںمیں شرکت کرنا جس میں مردوزن کا اختلاط ہو قطعادرست نہیں ۔
(۶) حسن معاشرت : یہ ہے کہ شوہر معروف طریقے سے بیوی کے ساتھ بودوباش اختیار کرے، اس کے حقوق کشادہ دلی سے اداکرے ، ترش روئی سے پیش نہ آئے ، جب کھاناکھائے تواسے کھلائے ،جب کپڑاپہنے تواسے پہنائے :
وعاشروھن بالمعروف (سورہ النساء19)
”اوران عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق نباہ کرو“ جہاں تک ہوسکے بیوی سے خوش گمان رہے ،اس کے ساتھ نباہ کرنے میں تحمل ،بردباری اورعالی ظرفی کی روش اخیار کرے ۔
حسن معاشرت میں یہ بات داخل ہے کہ اس کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے خامیوں کو نظر انداز کیاجائے : اگر اس میں شکل وصورت یاعادت واخلاق یاسلیقہ وہنر کے اعتبار سے کوئی کمزوری بھی ہوتوصبرکے ساتھ اس کوانگیزکرلے ،اوراس کی خوبیوں پر نگاہ رکھتے ہوئے فیاضی،درگذر اورمصالحت سے کام لے ،اسی بات کواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیاہے:
 لایفرک مؤمن مومنة إن کرہ منھا خلقا رضی منھا آخر (مسلم )
 ”کوئی مومن اپنى مومنہ بیوی سے نفرت نہ کرے ،اس لیے کہ اگراسے اس کی ایک عادت ناپسند ہے تو دوسری خصلت پسند ہوگی “۔
حسن معاشرت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عورت چونکہ عقل وخرد کے اعتبارسے کمزور اورنہایت ہی جذباتی ہوتی ہے، اس لیے صبروسکون ،رحمت وشفقت اوردل سوزی کے ساتھ اس کوسدھارنے کی کوشش کرنی چائیے بخاری ومسلم میں ارشادنبوی ہے:
"عورتوں کے ساتھ اچھاسلوک کرو ،عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے اورپسلیوں میں سب سے زیادہ اوپرکاحصہ ٹیڑھا ہے ،اس کوسیدھا کروگے توٹوٹ جائے گی اوراگر اس کوچھوڑ ے رہو گے تو اس میں کجی ہی رہے گی ،لہذا عورتوں کے ساتھ اچھاسلوک کرو" ۔
حسن معاشرت میں یہ بات داخل ہے کہ بیوی سے عمدہ گفتگو کی جائے ،شیریں لہجے میں بات کی جائے کیونکہ میٹھی بات سے دل کو جیتا جا سکتا ہے، عورت جو بچوں کی تربیت میں تھکتی ہے ،کھانا بنانے میں پریشان ہوتی ہے ، گھر کی صفائی ستھرائی میں وقت لگاتی ہے ، کپڑے صاف کرتی ہے اور ہروقت گھر کی سجاوٹ وبناوٹ میں لگی رہتی ہے ‘ شوہر کے چند میٹھے بول ان کی ساری پریشانیوں کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں ، اورپھروہ تازہ دم ہوکر اپنے کام میں لگ جاتی ہے ،اس لیے شوہر کو ایسے تعریفی کلمات کہنے میں جھجھک محسوس نہیں کرنی چاہیے ۔
حسن معاشرت میں یہ بات داخل ہے کہ بیوی کی رائے کا احترام کیاجائے ،اس کی بات پر دھیان دیاجائے ،اس کی با ت غور سے سنی جائے ، کوئی ضروری نہیں کہ اس کی بات میں دم ہو لیکن  انسانی جذبات نہایت حساس ہوتے ہیں جن کی رعایت بیحدضروری ہے ۔بسااوقات بیوی کے مشورہ میں برکت ہوتی ہے اورالجھے مسائل حل ہوجاتے ہیں ۔جیساکہ صلح حدیبیہ کے موقع سے اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ کرام کو اپنی قربانی کرنے اورسر حلق کرانے کا حکم دیا تو کسی نے تعمیل نہیں کی البتہ ام سلمہ ؓ کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے خود اپنی قربانی کی اوربال منڈوایا تو یہ دیکھ کر سارے صحابہ اٹھ کھڑے ہوئے اورآپ کی  پیروی میں قربانی کرنے اور بال منڈوانے لگے ۔
حسن معاشرت میں یہ بات داخل ہے کہ  اگرایک سے زائد بیویاں ہیں تو ان سب کے درمیان  عدل وانصاف سے کام لے ،کسی ایک کی طرف جھک کر دوسری پرزیادتی نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
من کانت لہ امرأتان فمال إلی أحدھما جاء یوم القیامة وشقہ مائل (ابوداؤد)
 ”جس آدمی کے پاس جوبیویاں ہوں اوراس نے ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لیا تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا ۔ “
حسن معاشرت میں یہ بات داخل ہے کہ گھریلو کام کاج میں بیوی کا ساتھ دے ۔ اورکچھ کاموںمیں ہاتھ بٹانے کی کوشش کرے ۔صحیح بخاری کی روایت ہے ،سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے تھے ،جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے نکل جاتے تھے ۔“
خودرحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے سب سے بہترتھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا :
خیرکم خیرکم لأھلہ وأناخیرکم لأھلی (الطبرانی)
 ”تم میں بہتروہ ہے جواپنے اہل کے لیے زیادہ بہترہو ،اورمیں تمہاری نسبت اپنے اہل کے لیے زیادہ بہترہوں “۔
آپ ﷺ اپنی بیویوں سے ہنسی مذاق کرتے تھے ، آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ بھی کیا ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا برتن سے کوئی چیز نوش فرماتیں تو وہ برتن لے کر وہیں سے منہ لگاکر آپ بھی نوش فرماتے تھے  جہاں سے انہوں نے نوش فرمایا ہوتا تھا ،اسی طرح گوشت والی ہڈی لے کر نوچتیں پھر آپ اسے لیتے اوروہیں منہ رکھ کر نوچ کر کھاتے جہاں سے انہوں نے نوچ کر کھایاتھا ۔ کبھی کبھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیار سے عائش کہہ کر پکارا کرتے تھے ۔ گھر پر ہوتے تواپنی بیویوں کے کام کاج میں لگے ہوتے اورگھر کے کام میں ان کی مدد کرتے جب اذان ہوتی تو نماز کے لیے چلے جاتے تھے ۔
غرضیکہ اللہ کے رسول ﷺکی خانگی زندگی میں ہرمسلمان کے لیے بہترین پیغام ہے،آپ نے سرورکائنات ہوتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت میں اعلی نمونہ پیش کیا،اس طرح آپ مثالی شوہر بنے۔

شوہر کے حقوق :

جس طرح شوہر پر بیوی کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح بیوی پر بھی شوہر کے کچھ حقوق ہیں ،شوہر کے حقوق میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
(۱) اطاعت اور تابعداری : بیوی نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنے خاوند کی اطاعت کرے ،اللہ کی نافرمانی کے سوااپنے شوہرکی ہربات کی تابعداری کرے ۔ مسند احمدکی روایت ہے ،حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ان کی پھوپھی نے انہیں بتایا کہ ایک دفعہ کسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا : اے خاتون! کیا تمہارا خاوند ہے ؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اسکے لیے کیسی ہو ؟ میں نے عرض کیا : میں کسی بھی معاملے میں اس کی نافرمانی نہیں کرتی سوائے اس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
فأین أنت منہ فإنما ھوجنتک ونارک
 "تم اس سے کہاں ہو کیونکہ بیشک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے" ۔ یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کامقام ہے۔
اسی طرح سنن ابن حبان کی ایک روایت میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اگرعورت پنچوقتہ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور رمضان کے روزے رکھتی ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی اطاعت کرتی ہو ، تو جنّت کے جس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل ہو جائے گی ۔
بخاری مسلم میں ارشادنبوی ہے :
إذا دعا الرجل امرأتہ إلی فراشہ فلم تأتہ فبات غضبان علیھا لعنتھا الملائکة حتی تصبح 
 ”جب مرد اپنی عورت کواپنے بستر پربلائے وہ نہ جائے اورشوہرناراضگی کی حالت میں رات گزاردے توفرشتے اس عورت پرصبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں ۔
اورترمذی کی روایت میں ہے کہ جس عورت نے بھی اس حالت میں انتقال کیا کہ اس کاشوہر اس سے راضی اورخوش تھا تووہ جنت میں داخل ہوگی ۔اسلام نے شوہرکے حق کواس قدر اہمیت دی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہا ں تک فرمایا: 
لوکنت آمرأحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (ابوداؤد)
 ” اگرمیں کسی کوحکم کرتا کہ وہ کسی کوسجدہ کرے توعورت کوحکم کرتاکہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے “۔
اورمسنداحمدکی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے ،اگراس کی اجازت ہوتی تو بیوی کوحکم دیاجاتاکہ وہ اپنے شوہر کوسجدہ کرے ،شوہرکااپنی بیوی پرعظیم حق ہے ،اتناعظیم حق کہ اگر شوہرکاسارا جسم زخمی ہواوربیوی شوہر کے زخمی جسم کو زبان سے چاٹے تب بھی شوہرکاحق ادانہیں ہوسکتا ۔(اس حدیث کو منذری نے الترغیب والترھیب میں روایت کیا ہے اوراس کی سند جید اوررواة ثقات ہیں)
(۲) اپنے خاوند کے مال ومتاع ،عزت وناموس ،اورگھرکے جملہ امور میں اس کی محافظ بنی رہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بیوی کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
خیرالنساء التی إذا نظرت إلیھا سرتک، وإذا أمرتھا أطاعتک وإذا غبت عنھا حفظتک فی نفسہا ومالک (الطبرانی ) 
”بہترعورت وہ ہے کہ جب تواسے دیکھے تو تجھے خوشی کرے ،جب تواسے حکم کرے توتیری اطاعت کرے ،اورجب تواس سے غائب ہوتواپنے نفس اورتیرے مال کی حفاظت کرے“۔
 اورصحیح بخاری کی روایت ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
..والمرأة راعیة علی بیت زوجھا و مسئولة عن رعیتھا۔
 ”....اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔“
 (۳) خاوند کے گھر سے بغیر اس کی اجازت باہر نہ نکلے : اللہ تعالی نے فرمایا:
وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الأولی (سورة الاحزاب 33)
اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح بے پردگی کے ساتھ سج دھج کر باہر مت نکلو ۔
 سنن ترمذی کی روایت ہے ،عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عور ت پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک کر دیکھتا ہے ۔ اور عورت اپنے گھر میں رہ کر اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے ۔
(4) خاوند کی اجازت کے بغیر خاوند کے گھر میں کسی کو داخل نہ کرے اسی طرح خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے: یہ خاوند کے حقوق میں سے ایک حق ہے ،لہذا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا اورکسی کو خاوند کے گھر میں داخل کرنا بیوی کے لیے جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ
 ”کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کسی کوخاوند کی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ۔ “ (بخاری ومسلم)
مکمل تحریر >>

ہفتہ, مارچ 29, 2014

ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کریں

انسان فطری طور پرمعاشرت پسند واقع ہوا ہے، وہ معاشرے سے کٹ کر پرسکون زندگی نہیں گذار سکتا ، اورزندگی میں ہر آدمی دوسروں کا احتیاج مندہوتا ہے، جب انسان پر پریشانی آتی ہے توبسا اوقات اس کے برداشت سے باہر ہوتی ہے، ایسی حالت میں جو لوگ اس سے قریب رہتے اوربستے ہیں پریشانی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ یہی لو گ ہمسایہ اور پڑوسی کہلاتے ہیں ، اِن میں کچھ لوگ رشتے دار ہوتے ہیں تو کچھ اجنبی ہوتے ہیں ،کچھ مسلم ہوتے ہیں تو کچھ غیر مسلم ہوتے ہیں سب پر پڑوسی کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ بھی آپ کا پڑوسی سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ آپ کو کچھ گھنٹوں بیٹھنے کا موقع مل رہا ہے ،جیسے بالعموم ٹرین اورہوائی جہاز کے سفر میں ہوتا ہے ۔ جس کارخانہ ،کمپنی اورآفس میں آپ کام کرتے ہیں وہاں کے لوگ بھی آپ کے ہمسایہ سمجھے جائیں گے ،ایک گاؤں دوسرے قریبی گاؤں کا پڑوسی ہے۔ اسی طرح ایک ریاست دوسری ریاست کا پڑوسی ہے،ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہے۔
البتہ عمومی طورپر پڑوسی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ہمارے آس پاس رہتے اوربودوباش اختیار کرتے ہیں ،امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چاروں سمت سے چالیس گھر ہمسایہ کے زمرے میں آتے ہیں ، ان لوگوں کے ساتھ چونکہ ہماری اجتماعی زندگی جڑی ہوتی ہے اسی لیے اسلام نے ان کی بے پناہ اہمیت بیان کی ہے ، ان کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اوران کے حق میں ہر طرح کی کوتا ہی سے منع کیا ہے ۔
 بخاری اورمسلم کی روایت ہے ،حضرت عائشہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 مازال جبریل یوصینی بالجار حتی ظننت أنہ سیورثہ
”جیریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میںتاکید کرتے رہے ،اس کا حق بتاتے رہے یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ شاید اس کو مال میں وارث بنادیں گے“ ۔
اسلام نے ایمان کے ساتھ پڑوسی کے احترام کومربوط کیاہے اورجس کی تکلیف سے اس کاہمسایہ محفوظ نہ رہے اس سے ایمان کی نفی کی ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری اورمسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم جارہ
 ”جو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ پڑوسی کا احترام کرے“ ۔ صحیح بخاری اورمسلم ہی کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلایؤذ جارہ
 ”جو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے ۔“ صحیح بخاری اورمسلم ہی کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا: واللہ لا یؤمن واللہ لا یؤمن ، واللہ لا یؤمن ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا : کون اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:
الذی لا یامن جارُہ بوائقَہ
 ”جس کا پڑوسی اُس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو “۔
اس حدیث میں قسم اورتکرار کے ساتھ کمال ایمان کی نفی کی جارہی ہے ،اس سے آ پ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اورنیک برتاؤ کا ایمان کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے ۔ اورپھر اذیت کبھی زبان سے ہوسکتی ہے جیسے ہمسایہ کے حق میں برے کلمات استعمال کئے جائیں ،اس سے گالم گلوچ کئے جائیں ،اس کی غیبت کی جائے ،اس کے اسرار دوسروں سے بیان کیے جائیں ۔ کبھی شرارت عمل سے ہوسکتی ہے ،جیسے ٹیلیویژن کی آواز تیز کردینا،گانے بجانے کرنا ،روم کے سامنے کوڑا کرکٹ جمع رکھنا ، اگر ایک فلیٹ میں چند افراد رہتے ہوںتو کسی ایک کا رات میں روشنی آن کردینا ، باتھ روم کو استعمال کرنے کے بعد گندہ چھوڑ دینا ، رسوئی گھر کی صفائی کی طرف دھیان نہ دینا ۔
 بلکہ جو لوگ پڑوسیوں کواذیت پہنچاتے ہیں ان کے بارے میں سخت ترین وعید آئی ہے، سنن ابن حبان کی روایت ہے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے سول!ایک عورت ہے جو دن میں ہمیشہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجدپڑھتی ہے، مگر اپنے پڑوسیوں کوستاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ اس شخص نے پھر کہا: اے اللہ رسول ! ایک دوسری عورت ہے جو فرض نمازیں پڑھتی اور فرض روزے رکھتی ہے اور پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے، مگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچا تی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
ذرا تصورکیجئے کہ ایک خاتون تہجد گذار ہے،نفلی روزے رکھتی ہے تاہم ہمسایہ کو اذیت دیتی ہے تو جہنمی ٹھہرتی ہے جبکہ دوسری خاتون نماز روزے میں کوئی خاص شہرت نہیں رکھتی ہے، فرائض کی پابندی کرلیتی ہے تاہم ہمسایوںکو اذیت نہیں پہنچاتی تواس عظیم خوبی کے باعث وہ جنت کی حقدار ٹھہرتی ہے۔
اسلام ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں مسلم اورغیرمسلم کی تفریق نہیں کرتا ،پڑوسی غیرمسلم ہی کیوںنا ہواس کے ساتھ اچھا معاملہ ہونا چاہیے ۔ ترمذی کی روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ سے دریافت کیا:أھدیتم لجارنا اليہودی؟،أھدیتم لجارنا اليہودی؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی ہمسایہ کو کچھ ہدیہ بھیجا ہے یا نہیں؟ اہل خانہ نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس میں سے کچھ گوشت بھیج دو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :مجھے جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس کو وراثت کاحصہ دار بنا دیں گے۔
اسلام اخلاق ،اقداراورحسن معاملہ کا نام ہے ،بسا اوقات ایک آدمی اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے تاہم ہمسایہ اس کے درپے آزار رہتا ہے،سکون وچین سے رہنے نہیں دیتا، اسکے باوجود ممکن حد تک اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ،کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلو ک کرنے اوراس کی اذیت کو برداشت کرنے کی وجہ سے آپ کوثواب ملے گا اوراللہ کی نظر میں آپ محبوب ہوں گے اورہوسکتا ہے کہ آپ کا اس کی اذیت کو برداشت کرلینا اس کی ہدایت کا سبب بن جائے ۔
سنن ابوداؤد کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا توآپ نے فرمایا: "اذھب فاصبر"جاؤ صبر کرو۔ پھردوسری یا تیسری بار جب وہ شکایت لے کر حاضر ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا : "اذھب فاطرح متاعک فی الطریق" جاؤ اپنا مال ومتا ع راستہ میں ڈال دو۔ چنا نچہ اس نے ایسا ہی کیا، جو لوگ راستہ سے گزرتے اس سے پوچھتے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ وہ کہتا کہ میرا ہمسایہ مجھے اذیت دیتا ہے،چنانچہ جولوگ بھی یہ سنتے اس پڑوسی پر اللہ کی لعنت بھیجتے، یہاں تک کہ وہ پڑوسی خود اس کے پاس آیا اور یہ درخواست کرنے لگا : 
إرجع لا تر ی منی شیئا تکرھہ
اپنا سامان اپنے گھر واپس لے چلو، اب تم میری جانب سے کبھی کوئی ایسی چیز نہ دیکھوگے جو تمہیں نا پسند ہو۔
ہمسایہ اصل میں مددگار ہوتا ہے ،نگراں ہوتا ہے ،امانت دار ہوتا ہے ،اس لیے پڑوسی کایہ حق ہے کہ اس کی زیارت کی جائے،محبت کے اظہار کے لیے ہدیہ دیاجائے،اسے تکلیف نہ پہنچائی جائے، اس پر احسان کیا جائے،اس کے دکھ درد کو بانٹا جائے،بیمار ہوتواس کی عیادت کی جائے،دعوت دے تو دعوت قبول کی جائے،اپنے گھر میں خوشی ہو تو اس کو بھی شریک کیا جائے،ہرطرح کی پریشانی کو اس سے دور کیاجائے اور جہاں تک ہوسکے دامے، درمے، سخنے، قدمے، حسب استطاعت اس کی مدد کی جائے۔
ہمسایہ کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے مال میں یا اولاد میں یا عزت میں خیانت نہ کی جائے ،ہمسایہ ہونے کے ناطے اس کے مال کو اپنا مال سمجھے ،اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اوراس کے غائبانہ میں کسی طرح کی خیانت نہ کرے ۔
خوردونوش کی اشیاء کا آپس میں تبادلہ ہوتے رہنا چاہیے ،صحیح بخاری کی روایت ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی :
یا أبا ذر اذا طبخت مرقة فأکثر ماءا وتعاھد جیرانک۔
 ”اے ابوذر!جب تم کوئی شوربہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملادو، اور اس سے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو“۔ یعنی اس کے گھر بھی بھیج دیا کرو۔
 اس سے آپس کے تعلقات استوار رہتے ہیں اور محبت میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں مرد کو خطاب کیا گیا کہ اگر عورت کی طرف سے سستی ہوتی ہے تو مرد کو چاہےے کہ عورت کو دھیان دلائے ،جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں عورت کو خطاب کیا گیا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: 
یا نساء المسلمات لاتحقرن جارة لجارتہا ولو فرسن شأة 
"اے مسلم عورتو!کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ دینے کے لیے بکری کا کھر ہی کیو ں نہ ہو۔"
خوردونوش کے تبادلہ سے محبت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے ، بسااوقات ہمسایہ مالی اعتبار سے کمزورہوتا ہے اس کے ساتھ ہمدردی کرنا قریبی ہمسایہ کی ذمہ داری ہے ،یہ انسانیت نہیں کہ ہم شکم سیر ہوکر رات گذاریں اورہمارا پڑوسی نان شبینہ کو ترس رہا ہو ۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
ما آمن بی من بات شبعان وجارہ جائع إلی جنبہ وھو یعلم بہ (رواہ البخاری فی الأدب المفرد وصححہ الألبانی)
 وہ ہم پر ایمان لانے والا نہیں جو شکم سیر ہوکر رات گذارے اوراس کا پڑوسی کے بازوںمیں بھوکا ہو جس کا وہ علم رکھتا ہو۔
ہدیہ کے لین دین میں جس ہمسایہ کا گھرسب سے قریب ہواس کا زیادہ اہتمام کرناچاہیے کیونکہ اس تک گھر کے راز پہنچتے رہتے ہیں،ایک گھر کے بچے دوسرے گھروں میں آتے جاتے ہیں،اس لیے اگر گھر میں کوئی خاص سامان تیار ہو یا بازار سے خاص نوعیت کی چیز آئے تو اس میں سے ہمسایہ کے گھر بھیجنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ،صحیح بخاری کی روایت ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا : یارسول اللہ ! میرے دو ہمسایہ ہیں ان میں کس کو ہدیہ دوں،آپ ﷺنے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے سب سے زیادہ قریب ہے، اسے دو ۔
سلف صالحین نے ہمسایوں کے حقوق کواچھی طرح سمجھا تھا اورانہیں اپنی عملی زندگی میں جگہ دی تھی ،چنانچہ جب مسلمان پڑوسیوں کوان کا حق دیتے تھے اوران کا اکرام کرتے تھے تو غیرمسلم بھی ان کی ہمسائیگی پر رشک کرتے تھے:
  • عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا، ایک آدمی نے پوچھا :کتنے میں فروخت کروگے، کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا، اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے،جبکہ تم دوہزار بتا رہے ہو یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے ۔

سبحان اللہ ! ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں کے پڑوس میں جو مکان ہوتے تھے ان کی قیمتیں مسلمانوں کے حسن اخلاق کی وجہ سے بڑھ جایا کرتی تھیں اور آج صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ بعض علاقوں میں مسلمان مکان لینے جاتے ہیں تو انھیں کوئی مکان کرایہ پر بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا کردار اتنا گرچکا ہے کہ پڑوسی ان سے اوران کے بچوں سے تنگ رہتے ہیں ۔ الا من رحم ربی
  •  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ایک ہمسایہ نہایت براانسان تھا ،دن بھر کام کرتا، روزانہ رات کو شراب پی کر گھر میں خوب شورمچاتا ،گانے بجانے میں لگارہتا ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی تھی ،ایک شب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی آوازنہیں سنی ،پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ اسے پولس نے پکڑ لیا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صبح کی نماز پڑھی اورامیر کے پاس گئے ،امیر سے ملاقات کرکے اپنے پڑوسی کی رہائی کی گذارش کی ،امیر نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات رکھ لی اوراسے رہا کردیاگیا ۔ جب دونوں باہرمیں ملے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس سے پوچھا : کیا میں نے تجھے ضائع کردیا ؟ اس نے کہا نہیں بلکہ آپ نے میری حفاظت کی اورخیال رکھا ،اللہ تعالی آپ کو بہترین بدلہ عنایت فرمائے ،پھر کہا کہ آج سے میں اپنے سابقہ عمل سے توبہ کرتا ہوں،چنانچہ اس نے توبہ کیاا وراس کی حالت سدھر گئی ۔
  • ابوحمزہ ”سکری“ حدیث کے معروف راوی ہیں ،ان کا لقب ”سکری“ ہے، ”سکر“ عربی زبان میں چینی کو کہتے ہیں ،ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انھیں سکری اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان کی باتیں بڑی شیریں اورانداز گفتگو بڑا دلکش تھا، وہ شہر بغداد کے ایک محلے میں رہتے تھے ،کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا مکان فروخت کرکے کسی دوسرے محلے میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور مکان خریدنے والے سے معاملہ بھی تقریباً طے ہوچکا تھا، جب ان کے پڑوسیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہوکر کہیں اور قیام کا ارادہ رکھتے ہیں تو محلے والے ایک وفدکی شکل میں ان کے پاس آئے اور ان سے گذارش کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں ، ابوحمزہ سکری نے اپنا عذر بیان کیا تو محلہ والوں نے ان سے پیش کش کی کہ آپ کے مکان کی جو قیمت لگی ہے ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنی ہمسائیگی سے محروم نہ کیجیے ،جب انہوں نے محلہ والوں کاایسا خلوص دیکھا تو محلہ چھوڑنے کا ارادہ ختم کردیا۔

عزیز قاری ! جب ایک ہمسایہ دوسرے ہمسایہ کا حق ادا کرتا ہے اورہر ایک دوسرے کا اکرام کرتا ہے تو معاشرے میں ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ،محبت کا ماحول بنتا ہے ،امن وشانتی قائم ہوتی ہے ،دلوںمیں اطمینان اورسکون پیدا ہوتا ہے اورزندگی مسرت وشادمانی اورآرام وراحت کے ساتھ گذرتی ہے ۔

مکمل تحریر >>

اتوار, مارچ 23, 2014

معاشرتی اختلافات پر قابو کیسے پائیں ؟


معاشرتی اختلافات پر قابو کیسے پائیں ؟
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، اور افراد جب معاشرہ میں ایک ساتھ بودوباش اختیارکرتے ہیں تو بسااوقات ایک کو دوسرے سے اختلاف ہوتا ہے ،تکلیف پہنچتی ہے اوردل میلا ہوتا ہے،واقعہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ پاک نے انسانوں کی بناوٹ میں فرق رکھاہے اسی طرح انسانوں کے مزاج میں بھی فرق رکھا ہے ، سب کی طبیعتیں ایک طرح کی نہیں رکھی گئیں ،سب کا مزاج ایک طرح کا نہیں رکھاگیا ، ظاہر ہے کہ جب طبیعت میں تفاوت ہوگا اورچندلوگ ایک ساتھ رہیں گے تو اختلافات کاپیدا ہونا یقینی ہے ۔کسی کا دل دکھ سکتا ہے ،کسی کے دل کوچوٹ پہنچ سکتی ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سب سے افضل انسان ہیں ،اس کے باوجود آپ کودوسرے تو کجا خود اپنی ازواج مطہرات سے تکلیف پہنچی ہے ،طبیعت کے خلاف کچھ ایسی باتیں سنیں جو آپ پر ناگوارگذریں ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک مہینہ کے لیے قسم کھالیتے ہیں کہ اپنی بیویوں کے قریب نہ ہوں گے ۔اور واقعی ایک مہینہ تک اپنی بیویوں سے دوررہتے ہیں ۔اِس سے بھی آگے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی گرانی ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ ایک نہایت لطیف واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کرتے ہیں کہ اے عائشہ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہوتومیں جان لیتا ہوںاورجب ناراض ہوتی ہوتب بھی جان لیتا ہوں۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا: جب تم خوش ہوتی ہوتو کہتی ہو: محمدکے رب کی قسم! اورجب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو :ابراہیم کے رب کی قسم ! عائشہ رضی اللہ عنہا مسکراتی ہیں اورعرض کرتی ہیں : یارسول اللہ میں صرف نام ہی نا بھولتی ہو ں۔( ورنہ آپ کی محبت تو دل میں بسی ہوتی ہے ۔) بہرکیف عرض کرنا یہ ہے کہ جب مختلف لوگ ایک ساتھ رہتے ہوںتو اختلافات کا ہونا یقینی ہے ۔آپ جیسا چاہتے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ سامنے والا آپ کے جیسے ہوجائے ،اگرباپ یہ چاہے کہ میرا بیٹا سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ بیوی یہ چاہے کہ میرا شوہر سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ، شوہر یہ چاہے کہ میری بیوی سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔بہویہ چاہے کہ میری ساس سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ساس یہ چاہے کہ میری بہوسوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ اورہوکیسے ؟ کہ سب کی طبیعتیں الگ الگ ہیں ۔سب کا مزاج جداگانہ ہے ۔اس لیے بہتر انسان وہ سمجھا گیا جو ناگوار باتوں کو برداشت کرتا ہے ،جس میں صبر وتحمل اوربردباری کا جذبہ پایاجاتا ہے ۔اسی لیے سنن ترمذی کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلم الذی یخالط الناس ویصبر علی أذاھم خیرمن المؤمن الذی لایخالط الناس ولایصبر علی أذاھم۔
” وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اوران کی اذیت کو برداشت کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کرنہیں رہتا اوران کی تکلیف کو برداشت نہیں کرتا“ ۔
آئیے ہم جانتے ہیں کہ معاشرتی اختلافات کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے اور طبیعت میں اختلاف پائے جانے کے باوجود آپسی محبت کو کیسے بحال رکھاجاسکتا ہے ؟ تو اس سلسلے میں ہم ذیل کے سطور میں چندرہنما اصول اورگذارشات پیش کررہے ہیں شایدآپسی اختلافات کو پاٹنے میں معاون بن سکیں:

(1) خوبیوں پر نظر رکھیں خامیوں کو نظر انداز کریں :

 صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایفرک مومن مومنة ان کرہ منھا خلقا رضی منہا آخر
کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی کو ناپسندنہ کرے ،مبغوض نہ ٹھہرائے کہ اگر اس کی ایک عاد ت ناپسند ہے تو دوسری بہت سی عادتیں پسند ہوں گی ۔ یہ ہے معیا ر معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کا،اس حدیث میںخاص طورپرشوہر کوتعلیم دی گئی ہے کہ وہ بیوی کے منفی پہلو پر نظر رکھنے کی بجائے مثبت پہلو پر نظر رکھے ، کیونکہ یہ تعلق کچھ زیادہ ہی نازک ہوتا ہے اوریہاں اختلافات جنم لینے کا اندیشہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔ورنہ اس حدیث کو ہم اپنی پوری اجتماعی زندگی میں برت سکتے ہیں ۔ قاعدہ کیا ہے ؟ ہم اچھا ئی پر نگا ہ رکھیں ،برائی کو نظر انداز کریں ،اگر برائی پر نظر رکھیں گے تو ہوگا یہ کہ ساری اچھائیاں اوجھل ہوجائیں گی ، سامنے والے کے اندر برائی ہی برائی دکھائی دے گی ۔ اس لیے نگاہ اچھائی پر رکھنی ہے اوربرائی سے صرف نظر کرناہے ۔
پھر ہمیں یہ بھی تو سوچناچاہیے کہ ہم جس کام کو غلط سمجھ رہے ہیںممکن ہے یہ ہماری اپنی طبیعت کے مطابق غلط ہو لیکن جس سے اس کا صدور ہوا ہے وہ اپنی طبیعت کے مطابق اسے صحیح سمجھ رہا ہو ، کیونکہ طبیعتوںمیں اختلاف پایاجاتا ہے ۔اس لیے ہمیں ہرحالت میں حسن ظن رکھنا ہے اورسوچنا ہے کہ ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں۔

(2)  بردبار بنیں اوربہترین طریقہ سے معاملے کو دفع کریں :

اگر ہمیں کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو یہاں دوہی راستہ ہوگا ،یا تو ہم تکلیف پہنچانے والے سے لڑائی جھگڑا کریں ،یا صبر کریں ۔ اگر لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوگئے ، تو تو میں میں کرنے لگے ،بحث وتکرا ر میں لگ گئے جیسا کہ عام طورپر لوگ کرتے ہیں تو کبھی سکون نہیں ملے گا ،کبھی چین سے نہ رہ سکیں گے ،ذرا ان لوگوںسے پوچھئے جو لڑنے جھگڑنے کے عادی ہیں ۔ اُن کا سکون کیسے غارت ہوچکا ہے ۔ مثال کے طورپر آپ نے سنا کہ فلاں آدمی نے آپ کے بارے میں کوئی بری بات کہی ہے ،آپ جذبات میں آئیں گے ،اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائیں گے تو کیا کریں گے ،دس آدمی سے اُس کی تحقیق کرنے جائیں گے ،پھر اختلاف ہوگا جو جڑپکڑتا جائے گا ،اورآپ ٹینشن کا شکار ہوتے جائیں گے ۔اوراگر آپ نے اسے نظر انداز کیا اوریہ سمجھا کہ اگر کسی نے میری عیب جوئی کی ہے تو اس سے ہماراکوئی نقصان کیا ہونے والا نہیں ہے ،الٹے مجھے نیکیاں ملنے والی ہیں، اوراس پر اپنا کوئی منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا تو بات آگے بڑھنے سے رہ جائے گی اورکسی طرح کا اختلاف جنم نہیں لے گا ۔ اللہ پاک نے سورہ فصلت میں اسی نکتے کی وضاحت فرمائی ہے ،چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: 
 ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ  (سورة فصلت 34) 
” نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے“۔

(3) ملکیت کو صاف وشفاف رکھیں :

 برصغیرپاک وہند میں بالعموم مشترکہ طرزرہائش پائی جاتی ہے ،اس میں زیادہ تر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک بیٹا کما رہا ہے اوراپنی پوری کمائی باپ کو دیتا جارہا ہے،کچھ بھائی ہیںجوبیٹھ کر کھارہے ہیں ،ادھرباپ نے بڑے بھائی کی کمائی سے زمینیں خریدیں ،املاک بنایا۔اچانک باپ مرجاتا ہے،توبیٹا آسمان سر پر اٹھالیتا ہے کہ کمائی میری اورسارے اس کے حقدار بن گئے ،ادھر سارے بھائی برابربرابر حق کے دعویداربن جاتے ہیں ۔ایسی صورت میں اختلاف ہوتا ہے اوردشمنیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔
کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ کوئی کاروبارہے جس میں باپ شریک ہے ،سارے بیٹے شریک ہیں ،ہرایک اپنی اپنی ضرورت کے حساب سے اس میں سے خرچ کرتا ہے ،کوئی زیادہ کام کرتا ہے کوئی کم کام کرتا ہے ،حساب وکتاب کچھ نہیں ،باپ کے مرنے کے بعد اختلاف شروع ہوگیا۔کوئی اس بھائی پر الزام ڈال رہا ہے تو کوئی اس بھائی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے ، جو محبت تھی نفرت میں بدل گئی ، بھائی بھائی کے دشمن ہوگئے ، ایسا کیوں ہوا ؟ ا س لیے کہ ملکیت کی تقسیم نہیںہوئی تھی ، ہر ایک کا حصہ واضح ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن جب سارے بھائی شادی شدہ ہوگئے ،اُن کے بچے ہوگئے تو اب اختلاف شرو ع ہوگیا اورمحبت اختلاف کی شکل اختیار کرنے لگی ۔ یہ سارے اختلافات اس لیے ہوئے کہ شریعت پر عمل نہیں ہوا ، آپ کو کس نے کہا تھا کہ اپنی ساری کمائی گھر والوںکو دیتے رہیں ، اور کاروبا ر میں سب کے حق کو گڈمڈ رکھیں ، اگر یہ پتہ ہوتا کہ کس کا حق کتنا ہے تو کوئی اختلاف نہ ہوتا ۔

(4) بحث اورتکرا ر سے بچیں :

بحث وتکرا ربالعموم ایک انسان کو بدزبانی پر آمادہ کرتا ہے پھر اختلافات پیدا ہوتے ہیں ،شکوی شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے ،تم نے ایسا کیوںکیا،ایسا کیوںنہیں کیا،تم نے مجھے فلاں تقریب میںکیوںنہیں بلائی ،تم ایسا کرتے ہو،ویسا کرتے ہو....کچھ لوگوںکی ایسی ہی طبیعت ہوتی ہے کہ ان کے پاس شکوے شکایت کا گودام ہوتا ہے ، جب موقع ملادل کھول کر بھراس نکالنے لگے ،یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان سے اختلافات پیدا ہوں گے ہی ۔اگر انسان یہ سمجھے کہ یہ سب دنیا کی باتیں ہیں جوچند دنوں کے لیے ہے ،ہمیں اِس دارفانی میں چند دن ہی بتانے ہیں ،ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت ہے وہاں کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے ۔وہاں کی فکر کرنی چاہیے ،یہاں کسی حق سے محروم رہ بھی گئے تو کیانقصان ہوا ، کہاں زخم ہوگیا ،پھر یہ شہرت آنی جانی ہے ،آج ہے کل نہیں ہے۔

(5) کسی کا مذاق نہ اڑائیں:

ہر انسان کے پاس جذبات ہوتے ہیں ،ان کے جذبات کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے ، ایک ہے مذاق کرنا اورایک ہے مذاق اڑانا ۔مذاق کرنے کی گنجائش ہے جس سے خوش طبعی ہو اورجس سے خوش طبعی فرمارہے ہوںاس کوبرا نہ لگے ،اگر برا لگ گیاتو وہ مذاق اڑانا ہے جو جائز نہیں ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ مزہ لینے کے لیے دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں ،دوسروںکو زچ کرتے ہیں،ایسا کرنا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے ۔ یادرکھیں مسلمان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ اورایک آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔لہذا جب آپ اپنا مذاق اڑایاجانا پسند نہیں کرتے تو دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کریں کہ یہی مومن کی پہچان ہے ۔

(6) ظاہر وباطن کو ایک رکھیں:

دوچہرہ والے مت بنیں ،تلون مزاجی آئے گی تو اختلاف ہوگا ، سامنے میں کچھ پیٹھ کے پیچھے کچھ ،رنگ بدلنا گرگٹ کا کام ہے ،اورجورنگ بدلتا ہے اس کی کبھی قدر نہیں ہوتی ،یہ نہایت گھٹیا عادت ہے ۔سامنے والا آپ پر اعتماد کررہا ہے اورآپ اس سے جھوٹی بات کررہے ہیں،یہ خیانت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کبرت خیانة أن تحدث أخاک حدیثا ھولک بہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب (ابوداؤد)
 ”یہ بڑی خیانت کی با ت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات کروجسے وہ سچ سمجھ رہا ہو جبکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ “ظاہر ہے کہ جس پر آپ نے اعتماد کیا وہ جھوٹ بول رہا ہو تو اختلاف ہونایقینی ہے ،اس لیے دوچہرہ مت رکھیں ، جو سامنے ہووہی پیچھے ہوناچاہیے۔
(مذکورہ مادہ مسجد العدسانی کویت کے ماہانہ درس کااختصار ہے ،اس سلسلے میں مزیدتفصیل کے لیے مولانا تقی عثمانی صاحب کی "اصلاحی خطبات" کا مطالعہ نہایت مفید رہے گا )
مکمل تحریر >>

صلہ رحمی کو اپنا شعار بنائیں


صلہ رحمی : اہمیت وفضیلت اورطریقہ کار
انسان فطری طور پر معاشرت پسند واقع ہوا ہے ،جب وہ دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو وہ اپنے سامنے اپنے اہل وعیال اورقبیلہ کے مختلف لوگوں کودیکھتا ہے، ماں باپ، بھائی بہن، دادا دادی، نانا نانی، چچا پھوپھی، اور مامو خالہ ، سب کے سب اس کو لاڈ وپیار سے پالتے ہیں، ہرکوئی اس کی خوشی اورغم میں شریک رہتے ہی ، اگروہ نظروں سے اوجھل ہوتواسے دیکھنے کے لیے رشتے داروں کی آنکھیں ترستی ہیں ، اب آپ ایسے آدمی کاتصورکیجئے جواس دنیا میں تن تنہا ہو،کوئی اس کارشتہ دارنہیں جوخوشی وغم میں اس کاساتھ دے سکے توآپ خود بخود ایسے انسان کی حسرت وبے چارگی کااندازہ لگا سکتے ہیں ۔
یہی وہ رشتہ داری اورقرابت داری کاتعلق ہے جسے برقراررکھنے کی اسلام نے بے انتہا تاکید فرمائی ہے ،اورقطع تعلق سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،یہ دنیا کی ریت ہے کہ انسان جب برسر روزگار ہوجاتاہے ،مہذہب اورتعلیم یافتہ بن جاتا ہے تو وہ اپنے کمتر رشتے داروں کوخاطرمیں نہیں لاتا،اسلام نے اپنے ماننے والوں کی یہ تربیت فرمائی کہ تم بلندیوں کی چوٹی پر کیوں نا پہنچ جاؤ، اپنے ماضی کومت بھولنااوراپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہروقت پرلمحہ اورہرآن اچھاسلوک کرنا ،یہ تیراواجبی فریضہ ہے ،اللہ تعالی کافرمان ہے :
وآت ذالقربی حقہ (بنی اسرائیل آیت نمبر24)
 ”اوررشتہ داروں کواس کاحق دو“۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کاحکم ہوتاہے :
إن اللہ يأمربالعدل والإحسان وإیتاء ذی القربی  (سورہ نحل آیت نمبر 90)
 ”بے شک اللہ تعالی عدل واحسان کااوررشتے داروں کودینے کاحکم فرماتاہے“-
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقریبا 9 مقامات پررشتے داروں کوان کاحق دینے یاان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے ،اس کے علاوہ بعض دیگرمقامات پرضمنااس کاتذکرہ آیاہے ،البتہ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اکثرمقامات پریہ فرمایاہے کہ ”رشتے داروں کوان کاحق دو“جس سے پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اوران کے ساتھ امدادوتعاون کامعاملہ کرنا ان پر احسان نہیں ہے بلکہ وہ حق ہے جواللہ تعالی نے اصحاب حیثیت پران کے رشتے داروں کے معاملے میں عائد کیا ہے اگروہ اس حق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تووہ عنداللہ مجرم قرارپائیں گے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اتفقت الملة علی أن صلة الرحم واجبة وأن قطیعتھا محرمة
 ”پوری ملت اسلامیہ کااس بات پراتفاق ہے کہ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک واجب ہے اورقطع رحمی حرام ہے “ اورکیوں نہ ہوکہ صلہ رحمی کا تعلق فرش سے نہیں بلکہ عرش سے ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلنی وصلہ اللہ ومن قطعنی قطعہ اللہ” رحم یعنی صلہ رحمی کا عرش کے ساتھ تعلق ہے کہتا ہے ”جومجھے ملائے اللہ اسے اپنے ساتھ ملائے ۔اورجو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹ دے۔
قرآن واحادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دنیاوآخرت میں بے پناہ انعامات اوراجرو ثواب حاصل ہوتے ہیں ،چنانچہ آخرت سے پہلے دنیامیں صلہ رحمی کافائدہ انسان کی زندگی پرمرتب ہوتاہے، مثلاصلہ رحمی کے باعث اس کے رزق میں کشادگی پیداکردی جاتی ہے،اس کی عمر میں اضافہ کردیاجاتاہے، اس سے مخلوق محبت کرتی ہے اوروہ ناگہانی اوربری موت سے بچالیاجاتاہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أحب أن یبسط لہ فی رزقہ وأن ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ
 ”جسے یہ پسند ہوکہ اس کی روزی میں کشادگی اوراس کی عمر میں اضافہ ہوتواسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی (یعنی رشتے داروں کے حقوق ادا)کرے “۔
اورعبداللہ بن احمد نے مسند احمد کے زوائد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (اورشیخ احمد شاکرنے اسے صحیح قراردیاہے ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من سر ہ أن یمد لہ فی عمرہ ویوسع لہ فی رزقہ ویدفع عنہ میتة السوء فلیتق اللہ ولیصل رحمہ
 ”جسے یہ بات خوش کرتی ہوکہ اس کی عمر میں اضافہ کردیاجائے اوراس کے رزق میں کشادگی پیداکردی جائے اوروہ ناگہانی موت سے بچالیاجائے تواسے چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے اورصلہ رحمی کرے “۔
اورامام احمد رحمة اللہ علیہ نے مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے (جس کے رجال ثقہ ہیں ) کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلة الرحم وحسن الجواروحسن الخلق یعمران الدیارویزیدان فی الأعمار
 ”صلہ رحمی ،ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اورحسن اخلاق بستیوں کوآباد کرتی ہے، اورعمرمیں اضافہ کرتی ہے“۔
ان احادیث پرغورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دنیامیں ایک انسان کو چار فوائد حاصل ہوتے ہیں :پہلا فائدہ یہ کہ اس سے روزی میں کشادگی ہوتی ہے ،دوسرافائدہ یہ کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے، تیسرافائدہ یہ کہ اس سے بستیاں آباد اورخوشحال رہتی ہیں اورچوتھافائدہ یہ کہ اس کے باعث ناگہانی اوربری موت اس سے دورکردی جاتی ہے ۔
جوشخص ان چار فوائد کواپنے ذہن میں تازہ رکھے گا کیاہم تصور کرسکتے ہیں کہ ایساشخص رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک میں کوتاہی کرے ؟ ہرگزنہیں ،کیوں کہ دنیاہی میں ایک کادومل رہاہے ،آخراس سے بڑھ کرانعام اورکیاہوسکتا ہے ؟
لیکن ٹھہریئے !رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کے انعامات صرف دنیاتک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی حسن سلوک کاسب سے اچھا بدلہ ملے گا ،وہ بدلہ کیاہوگا ؟ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: أخبری بعمل یدخلنی الجنة ”مجھے کوئی ایسا نسخہ بتائیں جومجھے جنت میں داخل کردے “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 تعبداللہ ولاتشرک بہ شیئا وتقیم الصلاة وتؤتی الزکاة وتصل الرحم
 ”توصرف ایک اللہ کی عبادت کراوراس کے ساتھ کسی کوشریک مت کر ،نمازقائم کر ،زکاة اداکر اورصلہ رحمی کر (یعنی قرابت داروں کاحق اداکر )۔
یہ ہیں صلہ رحمی کے فوائددنیاوآخرت میں ،لیکن جولوگ رشتے داروں سے کٹ کرزندگی گزارتے ہیں ،ان سے کسی طرح کاتعلق نہیں رکھتے خدارا وہ اپنے انجام سے بے خبر نہ ہوں،دنیامیں رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے اعمال اللہ تعالی قبول نہیں کرتے۔ مسند احمد کی روایت ہے (جس کے جال کوعلامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ثقہ کہاہے ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أعمال بنی آدم تعرض کل خمیس لیلة الجمة فلا یقبل عمل قاطع رحم
 ”اولاد آدم کے اعمال ہرجمعرات کواللہ تعالی کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں ،ان میں ایسے لوگوں کے اعمال قبول نہیں کی ہوتے جورشتے داروں سے قطع تعلق کئے ہوتے ہیں ۔
دوسری سزایہ ہے کہ جس قوم میں رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہوں ان پراللہ کی رحمت نہیں اترتی ۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الرحمة لاتنزل علی قوم فیھم قاطع رحم ۔
”بیشک رحمت ایسی قوم پرنازل نہیں ہوتی جس میں کوئی رشتے داروں سے ناطہ کاٹے ہوئے ہو“۔
اورسب سے اہم بات یہ کہ دنیا میں انسان قطع رحمی کی فوری سزاپاتاہے ،سنن ابی داؤد اورسنن ترمذی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من ذنب أجد ر أن یعجل اللہ لصاحبہ العقوبة فی الدنیا مع ما یدخرلہ فی الآخرة من البغی وقطیعة الرحم
 ”ظلم وزیادتی اورقطع رحمی دوجر م ایسے ہیں کہ اللہ تعالی آخرت کی سزاکے ساتھ دنیاہی میں ان کی فوری سزادے دیتاہے “ان دوجرموں کے علاوہ اورکوئی جرم ایسانہیں کہ جس کی سزاکااللہ تعالی اس طرح اہتمام کرتاہو ۔
یہ تو دنیاکی سزائیں ہوئیں اورآخرت میں یہی قطع رحمی اسے جنت میں داخل ہونے سے روک دے گی ،صحیح بخاری میں حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لایدخل الجنة قاطع
 ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا “۔
صلہ رحمی کی نوعیت رشتے دار کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے ،اگر ہمارا رشتے دار مالی اعتبار سے بے نیاز ہے تو اس سے صلہ رحمی یہ ہے کہ اس سے رابطہ رکھا جائے اس کے احوال کی خبر رکھی جائے اور موقع ملنے پر اس کی زیات بھی کی جائے ،البتہ جو رشتے دار مالی اعتبار سے کمزور ہو اس کی مالی اعانت بھی دوسرے رشتے دار کی ذمہ داری ہے ۔مال تواللہ تعالی نے انسان کوبطور امانت دی ہے اوراس میں غرباءومساکین کابھی حق رکھا ہے ،جسے مستحقین پرخرچ کرناضروری ہے ،اورانسان خرچ کرتابھی ہے لیکن یہی صدقہ اگر کمزور رشتے داروں پرکیاجائے اس کی اہمیت دوبالاہوجاتی ہے سنن ترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
الصدقہ علی المسکین صدقہ وھی علی ذی الرحم ثنتان صدقة وصلة
 ”کسی مسکین پرصدقہ کرناصرف صدقہ ہے ،اوریہی صدقہ کسی غریب رشتے دار پر کیاجائے تو اس کی حیثیت دوگونہ ہوجاتی ہے ،ایک صدقہ کی اوردوسری صلہ رحمی کی“ ۔
ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک لونڈی آزادکردی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکرکیاتوآپ نے فرمایا:
 لوأعطیتھا أخوالک کان أعظم لأجرک
 ”اگریہ لونڈی اپنے ماموؤں کودے دیتی توتیرے لیے زیادہ اجرکاباعث ہوتا“۔
اورصحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کوصدقات وخیرات کی ترغیب دلائی تو دوعورتیں دربار رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزارہوئیں کہ کیا وہ زکاة کی رقم اپنے خاوندوں اوراپنے پاس زیرتربیت یتیم بچوں پرخرچ کرسکتی ہیں ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 لھا أجران أجرالقرابة وأجرالصدقة
 ”ان کے لیے دوگنااجر ہے رشتے داری کے حق کی ادائیگی کااجر اورصدقے کااجر ۔
صدحیف کہ آج لوگ رشتے داروں پرخرچ کرنے کی طرف قطعا توجہ نہیں دیتے، کچھ لوگ خرچ کرتے بھی ہیں توعام لوگوں پر حالاں کہ ان کے رشتے داراس سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ،اگراپنے رشتے داروں پرخرچ کیا ہوتا تودوگنااجرکے مستحق ٹھہرتے ۔
کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے رشتے دار ہم سے جلتے ہیں ،ہماری ترقی ان کوایک نہیں بھاتی، میں کہتاہوں کہ یہ دراصل صلہ رحمی نہ کرنے کانتیجہ ہے ،اگرصلہ رحمی کیاہوتا خواہ مال کے ذریعہ ہویا آپسی ملاقات اورخط وکتابت کے ذریعہ ‘ تومیں نہیں سمجھتا کہ وہ ہمارے ساتھ ایسابرتاؤکرتے اوراگرکسی کا رشتے دار ایسی سخت طبیعت کا انسان ہے بھی تو صلہ رحمی کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی بات کو انگیز کرے ۔
کیا آپ نے پیارے نبی کی یہ بشارت نہیں سنی: صحیح مسلم کی روایت ہے ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورعرض کیا کہ میرے کچھ رشتے دارہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں ،میں ان سے حسن سلوک کرتاہوں اوروہ مجھ سے براسلوک کرتے ہیں ،یہ سن کرآپ نے فرمایا:
لئن کنت کما قلت فکأنما تسفھم المل ولایزال معک من اللہ ظھیر علیھم مادمت علی ذلک.
 ”اگرتو واقعی ایساہی ہے جیساکے توبیان کررہاہے توگویا توان کے منہ میں راکھ ڈال رہاہے ،جب تک تیراطرز عمل ان کے ساتھ ایساہی رہے گا تواللہ تعالی کی طرف سے ان کے مقابلے میں ایک مدد گار تیرے شامل حال رہے گا “۔
صلہ رحمی اصل یہی ہے کہ قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کی کی جائے ،بدسلوکی کے جواب میں حسن سلوک کیا جائے اورہرحالت میں رشتے داری کوبرقرار رکھا جائے یہ سمجھ کر کہ یہ ہمارے پروردگار کاحکم ہے، اس سے ہماری دنیااورآخرت دونوں سنورجائے گی۔
لہذا اگررشتے داروں سے کوئی غلطی ہوجائے اورعذرپیش کریں توان کاعذرقبول کریں،ان سے حسن ظن رکھیں، ان کے ساتھ نرمی اورخاکساری سے پیش آئیں ،ان کے بیچ تکلف سے قطعا پرہیز کریں،ان کی نفسیات کوسمجھیں ،ہرصاحب مرتبہ کوان کامرتبہ دیں اور خوشی وغم کے موقع سے ان کاساتھ دیں۔

مکمل تحریر >>