اتوار, مارچ 23, 2014

صلہ رحمی کو اپنا شعار بنائیں


صلہ رحمی : اہمیت وفضیلت اورطریقہ کار
انسان فطری طور پر معاشرت پسند واقع ہوا ہے ،جب وہ دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو وہ اپنے سامنے اپنے اہل وعیال اورقبیلہ کے مختلف لوگوں کودیکھتا ہے، ماں باپ، بھائی بہن، دادا دادی، نانا نانی، چچا پھوپھی، اور مامو خالہ ، سب کے سب اس کو لاڈ وپیار سے پالتے ہیں، ہرکوئی اس کی خوشی اورغم میں شریک رہتے ہی ، اگروہ نظروں سے اوجھل ہوتواسے دیکھنے کے لیے رشتے داروں کی آنکھیں ترستی ہیں ، اب آپ ایسے آدمی کاتصورکیجئے جواس دنیا میں تن تنہا ہو،کوئی اس کارشتہ دارنہیں جوخوشی وغم میں اس کاساتھ دے سکے توآپ خود بخود ایسے انسان کی حسرت وبے چارگی کااندازہ لگا سکتے ہیں ۔
یہی وہ رشتہ داری اورقرابت داری کاتعلق ہے جسے برقراررکھنے کی اسلام نے بے انتہا تاکید فرمائی ہے ،اورقطع تعلق سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے ،یہ دنیا کی ریت ہے کہ انسان جب برسر روزگار ہوجاتاہے ،مہذہب اورتعلیم یافتہ بن جاتا ہے تو وہ اپنے کمتر رشتے داروں کوخاطرمیں نہیں لاتا،اسلام نے اپنے ماننے والوں کی یہ تربیت فرمائی کہ تم بلندیوں کی چوٹی پر کیوں نا پہنچ جاؤ، اپنے ماضی کومت بھولنااوراپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہروقت پرلمحہ اورہرآن اچھاسلوک کرنا ،یہ تیراواجبی فریضہ ہے ،اللہ تعالی کافرمان ہے :
وآت ذالقربی حقہ (بنی اسرائیل آیت نمبر24)
 ”اوررشتہ داروں کواس کاحق دو“۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کاحکم ہوتاہے :
إن اللہ يأمربالعدل والإحسان وإیتاء ذی القربی  (سورہ نحل آیت نمبر 90)
 ”بے شک اللہ تعالی عدل واحسان کااوررشتے داروں کودینے کاحکم فرماتاہے“-
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقریبا 9 مقامات پررشتے داروں کوان کاحق دینے یاان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیاہے ،اس کے علاوہ بعض دیگرمقامات پرضمنااس کاتذکرہ آیاہے ،البتہ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اکثرمقامات پریہ فرمایاہے کہ ”رشتے داروں کوان کاحق دو“جس سے پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اوران کے ساتھ امدادوتعاون کامعاملہ کرنا ان پر احسان نہیں ہے بلکہ وہ حق ہے جواللہ تعالی نے اصحاب حیثیت پران کے رشتے داروں کے معاملے میں عائد کیا ہے اگروہ اس حق کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تووہ عنداللہ مجرم قرارپائیں گے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اتفقت الملة علی أن صلة الرحم واجبة وأن قطیعتھا محرمة
 ”پوری ملت اسلامیہ کااس بات پراتفاق ہے کہ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک واجب ہے اورقطع رحمی حرام ہے “ اورکیوں نہ ہوکہ صلہ رحمی کا تعلق فرش سے نہیں بلکہ عرش سے ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
الرحم معلقة بالعرش تقول من وصلنی وصلہ اللہ ومن قطعنی قطعہ اللہ” رحم یعنی صلہ رحمی کا عرش کے ساتھ تعلق ہے کہتا ہے ”جومجھے ملائے اللہ اسے اپنے ساتھ ملائے ۔اورجو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹ دے۔
قرآن واحادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دنیاوآخرت میں بے پناہ انعامات اوراجرو ثواب حاصل ہوتے ہیں ،چنانچہ آخرت سے پہلے دنیامیں صلہ رحمی کافائدہ انسان کی زندگی پرمرتب ہوتاہے، مثلاصلہ رحمی کے باعث اس کے رزق میں کشادگی پیداکردی جاتی ہے،اس کی عمر میں اضافہ کردیاجاتاہے، اس سے مخلوق محبت کرتی ہے اوروہ ناگہانی اوربری موت سے بچالیاجاتاہے ۔
صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أحب أن یبسط لہ فی رزقہ وأن ینسأ لہ فی أثرہ فلیصل رحمہ
 ”جسے یہ پسند ہوکہ اس کی روزی میں کشادگی اوراس کی عمر میں اضافہ ہوتواسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی (یعنی رشتے داروں کے حقوق ادا)کرے “۔
اورعبداللہ بن احمد نے مسند احمد کے زوائد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (اورشیخ احمد شاکرنے اسے صحیح قراردیاہے ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من سر ہ أن یمد لہ فی عمرہ ویوسع لہ فی رزقہ ویدفع عنہ میتة السوء فلیتق اللہ ولیصل رحمہ
 ”جسے یہ بات خوش کرتی ہوکہ اس کی عمر میں اضافہ کردیاجائے اوراس کے رزق میں کشادگی پیداکردی جائے اوروہ ناگہانی موت سے بچالیاجائے تواسے چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے اورصلہ رحمی کرے “۔
اورامام احمد رحمة اللہ علیہ نے مسند میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے (جس کے رجال ثقہ ہیں ) کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلة الرحم وحسن الجواروحسن الخلق یعمران الدیارویزیدان فی الأعمار
 ”صلہ رحمی ،ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اورحسن اخلاق بستیوں کوآباد کرتی ہے، اورعمرمیں اضافہ کرتی ہے“۔
ان احادیث پرغورکرنے سے پتہ چلتا ہے کہ صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے دنیامیں ایک انسان کو چار فوائد حاصل ہوتے ہیں :پہلا فائدہ یہ کہ اس سے روزی میں کشادگی ہوتی ہے ،دوسرافائدہ یہ کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے، تیسرافائدہ یہ کہ اس سے بستیاں آباد اورخوشحال رہتی ہیں اورچوتھافائدہ یہ کہ اس کے باعث ناگہانی اوربری موت اس سے دورکردی جاتی ہے ۔
جوشخص ان چار فوائد کواپنے ذہن میں تازہ رکھے گا کیاہم تصور کرسکتے ہیں کہ ایساشخص رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک میں کوتاہی کرے ؟ ہرگزنہیں ،کیوں کہ دنیاہی میں ایک کادومل رہاہے ،آخراس سے بڑھ کرانعام اورکیاہوسکتا ہے ؟
لیکن ٹھہریئے !رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کے انعامات صرف دنیاتک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی حسن سلوک کاسب سے اچھا بدلہ ملے گا ،وہ بدلہ کیاہوگا ؟ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: أخبری بعمل یدخلنی الجنة ”مجھے کوئی ایسا نسخہ بتائیں جومجھے جنت میں داخل کردے “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 تعبداللہ ولاتشرک بہ شیئا وتقیم الصلاة وتؤتی الزکاة وتصل الرحم
 ”توصرف ایک اللہ کی عبادت کراوراس کے ساتھ کسی کوشریک مت کر ،نمازقائم کر ،زکاة اداکر اورصلہ رحمی کر (یعنی قرابت داروں کاحق اداکر )۔
یہ ہیں صلہ رحمی کے فوائددنیاوآخرت میں ،لیکن جولوگ رشتے داروں سے کٹ کرزندگی گزارتے ہیں ،ان سے کسی طرح کاتعلق نہیں رکھتے خدارا وہ اپنے انجام سے بے خبر نہ ہوں،دنیامیں رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے اعمال اللہ تعالی قبول نہیں کرتے۔ مسند احمد کی روایت ہے (جس کے جال کوعلامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں ثقہ کہاہے ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن أعمال بنی آدم تعرض کل خمیس لیلة الجمة فلا یقبل عمل قاطع رحم
 ”اولاد آدم کے اعمال ہرجمعرات کواللہ تعالی کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں ،ان میں ایسے لوگوں کے اعمال قبول نہیں کی ہوتے جورشتے داروں سے قطع تعلق کئے ہوتے ہیں ۔
دوسری سزایہ ہے کہ جس قوم میں رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والے ہوں ان پراللہ کی رحمت نہیں اترتی ۔امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الرحمة لاتنزل علی قوم فیھم قاطع رحم ۔
”بیشک رحمت ایسی قوم پرنازل نہیں ہوتی جس میں کوئی رشتے داروں سے ناطہ کاٹے ہوئے ہو“۔
اورسب سے اہم بات یہ کہ دنیا میں انسان قطع رحمی کی فوری سزاپاتاہے ،سنن ابی داؤد اورسنن ترمذی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من ذنب أجد ر أن یعجل اللہ لصاحبہ العقوبة فی الدنیا مع ما یدخرلہ فی الآخرة من البغی وقطیعة الرحم
 ”ظلم وزیادتی اورقطع رحمی دوجر م ایسے ہیں کہ اللہ تعالی آخرت کی سزاکے ساتھ دنیاہی میں ان کی فوری سزادے دیتاہے “ان دوجرموں کے علاوہ اورکوئی جرم ایسانہیں کہ جس کی سزاکااللہ تعالی اس طرح اہتمام کرتاہو ۔
یہ تو دنیاکی سزائیں ہوئیں اورآخرت میں یہی قطع رحمی اسے جنت میں داخل ہونے سے روک دے گی ،صحیح بخاری میں حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
لایدخل الجنة قاطع
 ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا “۔
صلہ رحمی کی نوعیت رشتے دار کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے ،اگر ہمارا رشتے دار مالی اعتبار سے بے نیاز ہے تو اس سے صلہ رحمی یہ ہے کہ اس سے رابطہ رکھا جائے اس کے احوال کی خبر رکھی جائے اور موقع ملنے پر اس کی زیات بھی کی جائے ،البتہ جو رشتے دار مالی اعتبار سے کمزور ہو اس کی مالی اعانت بھی دوسرے رشتے دار کی ذمہ داری ہے ۔مال تواللہ تعالی نے انسان کوبطور امانت دی ہے اوراس میں غرباءومساکین کابھی حق رکھا ہے ،جسے مستحقین پرخرچ کرناضروری ہے ،اورانسان خرچ کرتابھی ہے لیکن یہی صدقہ اگر کمزور رشتے داروں پرکیاجائے اس کی اہمیت دوبالاہوجاتی ہے سنن ترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
الصدقہ علی المسکین صدقہ وھی علی ذی الرحم ثنتان صدقة وصلة
 ”کسی مسکین پرصدقہ کرناصرف صدقہ ہے ،اوریہی صدقہ کسی غریب رشتے دار پر کیاجائے تو اس کی حیثیت دوگونہ ہوجاتی ہے ،ایک صدقہ کی اوردوسری صلہ رحمی کی“ ۔
ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک لونڈی آزادکردی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاذکرکیاتوآپ نے فرمایا:
 لوأعطیتھا أخوالک کان أعظم لأجرک
 ”اگریہ لونڈی اپنے ماموؤں کودے دیتی توتیرے لیے زیادہ اجرکاباعث ہوتا“۔
اورصحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کوصدقات وخیرات کی ترغیب دلائی تو دوعورتیں دربار رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزارہوئیں کہ کیا وہ زکاة کی رقم اپنے خاوندوں اوراپنے پاس زیرتربیت یتیم بچوں پرخرچ کرسکتی ہیں ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 لھا أجران أجرالقرابة وأجرالصدقة
 ”ان کے لیے دوگنااجر ہے رشتے داری کے حق کی ادائیگی کااجر اورصدقے کااجر ۔
صدحیف کہ آج لوگ رشتے داروں پرخرچ کرنے کی طرف قطعا توجہ نہیں دیتے، کچھ لوگ خرچ کرتے بھی ہیں توعام لوگوں پر حالاں کہ ان کے رشتے داراس سے زیادہ مستحق ہوتے ہیں ،اگراپنے رشتے داروں پرخرچ کیا ہوتا تودوگنااجرکے مستحق ٹھہرتے ۔
کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے رشتے دار ہم سے جلتے ہیں ،ہماری ترقی ان کوایک نہیں بھاتی، میں کہتاہوں کہ یہ دراصل صلہ رحمی نہ کرنے کانتیجہ ہے ،اگرصلہ رحمی کیاہوتا خواہ مال کے ذریعہ ہویا آپسی ملاقات اورخط وکتابت کے ذریعہ ‘ تومیں نہیں سمجھتا کہ وہ ہمارے ساتھ ایسابرتاؤکرتے اوراگرکسی کا رشتے دار ایسی سخت طبیعت کا انسان ہے بھی تو صلہ رحمی کا تقاضا ہے کہ وہ اس کی بات کو انگیز کرے ۔
کیا آپ نے پیارے نبی کی یہ بشارت نہیں سنی: صحیح مسلم کی روایت ہے ایک شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورعرض کیا کہ میرے کچھ رشتے دارہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں ،میں ان سے حسن سلوک کرتاہوں اوروہ مجھ سے براسلوک کرتے ہیں ،یہ سن کرآپ نے فرمایا:
لئن کنت کما قلت فکأنما تسفھم المل ولایزال معک من اللہ ظھیر علیھم مادمت علی ذلک.
 ”اگرتو واقعی ایساہی ہے جیساکے توبیان کررہاہے توگویا توان کے منہ میں راکھ ڈال رہاہے ،جب تک تیراطرز عمل ان کے ساتھ ایساہی رہے گا تواللہ تعالی کی طرف سے ان کے مقابلے میں ایک مدد گار تیرے شامل حال رہے گا “۔
صلہ رحمی اصل یہی ہے کہ قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کی کی جائے ،بدسلوکی کے جواب میں حسن سلوک کیا جائے اورہرحالت میں رشتے داری کوبرقرار رکھا جائے یہ سمجھ کر کہ یہ ہمارے پروردگار کاحکم ہے، اس سے ہماری دنیااورآخرت دونوں سنورجائے گی۔
لہذا اگررشتے داروں سے کوئی غلطی ہوجائے اورعذرپیش کریں توان کاعذرقبول کریں،ان سے حسن ظن رکھیں، ان کے ساتھ نرمی اورخاکساری سے پیش آئیں ،ان کے بیچ تکلف سے قطعا پرہیز کریں،ان کی نفسیات کوسمجھیں ،ہرصاحب مرتبہ کوان کامرتبہ دیں اور خوشی وغم کے موقع سے ان کاساتھ دیں۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔