اتوار, مارچ 23, 2014

معاشرتی اختلافات پر قابو کیسے پائیں ؟


معاشرتی اختلافات پر قابو کیسے پائیں ؟
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے، اور افراد جب معاشرہ میں ایک ساتھ بودوباش اختیارکرتے ہیں تو بسااوقات ایک کو دوسرے سے اختلاف ہوتا ہے ،تکلیف پہنچتی ہے اوردل میلا ہوتا ہے،واقعہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ پاک نے انسانوں کی بناوٹ میں فرق رکھاہے اسی طرح انسانوں کے مزاج میں بھی فرق رکھا ہے ، سب کی طبیعتیں ایک طرح کی نہیں رکھی گئیں ،سب کا مزاج ایک طرح کا نہیں رکھاگیا ، ظاہر ہے کہ جب طبیعت میں تفاوت ہوگا اورچندلوگ ایک ساتھ رہیں گے تو اختلافات کاپیدا ہونا یقینی ہے ۔کسی کا دل دکھ سکتا ہے ،کسی کے دل کوچوٹ پہنچ سکتی ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کے سب سے افضل انسان ہیں ،اس کے باوجود آپ کودوسرے تو کجا خود اپنی ازواج مطہرات سے تکلیف پہنچی ہے ،طبیعت کے خلاف کچھ ایسی باتیں سنیں جو آپ پر ناگوارگذریں ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ایک مہینہ کے لیے قسم کھالیتے ہیں کہ اپنی بیویوں کے قریب نہ ہوں گے ۔اور واقعی ایک مہینہ تک اپنی بیویوں سے دوررہتے ہیں ۔اِس سے بھی آگے دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کبھی گرانی ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ ایک نہایت لطیف واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کرتے ہیں کہ اے عائشہ! جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہوتومیں جان لیتا ہوںاورجب ناراض ہوتی ہوتب بھی جان لیتا ہوں۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا: جب تم خوش ہوتی ہوتو کہتی ہو: محمدکے رب کی قسم! اورجب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو :ابراہیم کے رب کی قسم ! عائشہ رضی اللہ عنہا مسکراتی ہیں اورعرض کرتی ہیں : یارسول اللہ میں صرف نام ہی نا بھولتی ہو ں۔( ورنہ آپ کی محبت تو دل میں بسی ہوتی ہے ۔) بہرکیف عرض کرنا یہ ہے کہ جب مختلف لوگ ایک ساتھ رہتے ہوںتو اختلافات کا ہونا یقینی ہے ۔آپ جیسا چاہتے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ سامنے والا آپ کے جیسے ہوجائے ،اگرباپ یہ چاہے کہ میرا بیٹا سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ بیوی یہ چاہے کہ میرا شوہر سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ، شوہر یہ چاہے کہ میری بیوی سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔بہویہ چاہے کہ میری ساس سوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ساس یہ چاہے کہ میری بہوسوفیصد میرے جیسے ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا ۔ اورہوکیسے ؟ کہ سب کی طبیعتیں الگ الگ ہیں ۔سب کا مزاج جداگانہ ہے ۔اس لیے بہتر انسان وہ سمجھا گیا جو ناگوار باتوں کو برداشت کرتا ہے ،جس میں صبر وتحمل اوربردباری کا جذبہ پایاجاتا ہے ۔اسی لیے سنن ترمذی کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلم الذی یخالط الناس ویصبر علی أذاھم خیرمن المؤمن الذی لایخالط الناس ولایصبر علی أذاھم۔
” وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اوران کی اذیت کو برداشت کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کرنہیں رہتا اوران کی تکلیف کو برداشت نہیں کرتا“ ۔
آئیے ہم جانتے ہیں کہ معاشرتی اختلافات کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے اور طبیعت میں اختلاف پائے جانے کے باوجود آپسی محبت کو کیسے بحال رکھاجاسکتا ہے ؟ تو اس سلسلے میں ہم ذیل کے سطور میں چندرہنما اصول اورگذارشات پیش کررہے ہیں شایدآپسی اختلافات کو پاٹنے میں معاون بن سکیں:

(1) خوبیوں پر نظر رکھیں خامیوں کو نظر انداز کریں :

 صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لایفرک مومن مومنة ان کرہ منھا خلقا رضی منہا آخر
کوئی مومن اپنی مومنہ بیوی کو ناپسندنہ کرے ،مبغوض نہ ٹھہرائے کہ اگر اس کی ایک عاد ت ناپسند ہے تو دوسری بہت سی عادتیں پسند ہوں گی ۔ یہ ہے معیا ر معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کا،اس حدیث میںخاص طورپرشوہر کوتعلیم دی گئی ہے کہ وہ بیوی کے منفی پہلو پر نظر رکھنے کی بجائے مثبت پہلو پر نظر رکھے ، کیونکہ یہ تعلق کچھ زیادہ ہی نازک ہوتا ہے اوریہاں اختلافات جنم لینے کا اندیشہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔ورنہ اس حدیث کو ہم اپنی پوری اجتماعی زندگی میں برت سکتے ہیں ۔ قاعدہ کیا ہے ؟ ہم اچھا ئی پر نگا ہ رکھیں ،برائی کو نظر انداز کریں ،اگر برائی پر نظر رکھیں گے تو ہوگا یہ کہ ساری اچھائیاں اوجھل ہوجائیں گی ، سامنے والے کے اندر برائی ہی برائی دکھائی دے گی ۔ اس لیے نگاہ اچھائی پر رکھنی ہے اوربرائی سے صرف نظر کرناہے ۔
پھر ہمیں یہ بھی تو سوچناچاہیے کہ ہم جس کام کو غلط سمجھ رہے ہیںممکن ہے یہ ہماری اپنی طبیعت کے مطابق غلط ہو لیکن جس سے اس کا صدور ہوا ہے وہ اپنی طبیعت کے مطابق اسے صحیح سمجھ رہا ہو ، کیونکہ طبیعتوںمیں اختلاف پایاجاتا ہے ۔اس لیے ہمیں ہرحالت میں حسن ظن رکھنا ہے اورسوچنا ہے کہ ممکن ہے ہم ہی غلطی پر ہوں۔

(2)  بردبار بنیں اوربہترین طریقہ سے معاملے کو دفع کریں :

اگر ہمیں کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو یہاں دوہی راستہ ہوگا ،یا تو ہم تکلیف پہنچانے والے سے لڑائی جھگڑا کریں ،یا صبر کریں ۔ اگر لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوگئے ، تو تو میں میں کرنے لگے ،بحث وتکرا ر میں لگ گئے جیسا کہ عام طورپر لوگ کرتے ہیں تو کبھی سکون نہیں ملے گا ،کبھی چین سے نہ رہ سکیں گے ،ذرا ان لوگوںسے پوچھئے جو لڑنے جھگڑنے کے عادی ہیں ۔ اُن کا سکون کیسے غارت ہوچکا ہے ۔ مثال کے طورپر آپ نے سنا کہ فلاں آدمی نے آپ کے بارے میں کوئی بری بات کہی ہے ،آپ جذبات میں آئیں گے ،اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائیں گے تو کیا کریں گے ،دس آدمی سے اُس کی تحقیق کرنے جائیں گے ،پھر اختلاف ہوگا جو جڑپکڑتا جائے گا ،اورآپ ٹینشن کا شکار ہوتے جائیں گے ۔اوراگر آپ نے اسے نظر انداز کیا اوریہ سمجھا کہ اگر کسی نے میری عیب جوئی کی ہے تو اس سے ہماراکوئی نقصان کیا ہونے والا نہیں ہے ،الٹے مجھے نیکیاں ملنے والی ہیں، اوراس پر اپنا کوئی منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا تو بات آگے بڑھنے سے رہ جائے گی اورکسی طرح کا اختلاف جنم نہیں لے گا ۔ اللہ پاک نے سورہ فصلت میں اسی نکتے کی وضاحت فرمائی ہے ،چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: 
 ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ  (سورة فصلت 34) 
” نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے“۔

(3) ملکیت کو صاف وشفاف رکھیں :

 برصغیرپاک وہند میں بالعموم مشترکہ طرزرہائش پائی جاتی ہے ،اس میں زیادہ تر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک بیٹا کما رہا ہے اوراپنی پوری کمائی باپ کو دیتا جارہا ہے،کچھ بھائی ہیںجوبیٹھ کر کھارہے ہیں ،ادھرباپ نے بڑے بھائی کی کمائی سے زمینیں خریدیں ،املاک بنایا۔اچانک باپ مرجاتا ہے،توبیٹا آسمان سر پر اٹھالیتا ہے کہ کمائی میری اورسارے اس کے حقدار بن گئے ،ادھر سارے بھائی برابربرابر حق کے دعویداربن جاتے ہیں ۔ایسی صورت میں اختلاف ہوتا ہے اوردشمنیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔
کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ کوئی کاروبارہے جس میں باپ شریک ہے ،سارے بیٹے شریک ہیں ،ہرایک اپنی اپنی ضرورت کے حساب سے اس میں سے خرچ کرتا ہے ،کوئی زیادہ کام کرتا ہے کوئی کم کام کرتا ہے ،حساب وکتاب کچھ نہیں ،باپ کے مرنے کے بعد اختلاف شروع ہوگیا۔کوئی اس بھائی پر الزام ڈال رہا ہے تو کوئی اس بھائی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے ، جو محبت تھی نفرت میں بدل گئی ، بھائی بھائی کے دشمن ہوگئے ، ایسا کیوں ہوا ؟ ا س لیے کہ ملکیت کی تقسیم نہیںہوئی تھی ، ہر ایک کا حصہ واضح ہونا چاہیے تھا ۔ لیکن جب سارے بھائی شادی شدہ ہوگئے ،اُن کے بچے ہوگئے تو اب اختلاف شرو ع ہوگیا اورمحبت اختلاف کی شکل اختیار کرنے لگی ۔ یہ سارے اختلافات اس لیے ہوئے کہ شریعت پر عمل نہیں ہوا ، آپ کو کس نے کہا تھا کہ اپنی ساری کمائی گھر والوںکو دیتے رہیں ، اور کاروبا ر میں سب کے حق کو گڈمڈ رکھیں ، اگر یہ پتہ ہوتا کہ کس کا حق کتنا ہے تو کوئی اختلاف نہ ہوتا ۔

(4) بحث اورتکرا ر سے بچیں :

بحث وتکرا ربالعموم ایک انسان کو بدزبانی پر آمادہ کرتا ہے پھر اختلافات پیدا ہوتے ہیں ،شکوی شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے ،تم نے ایسا کیوںکیا،ایسا کیوںنہیں کیا،تم نے مجھے فلاں تقریب میںکیوںنہیں بلائی ،تم ایسا کرتے ہو،ویسا کرتے ہو....کچھ لوگوںکی ایسی ہی طبیعت ہوتی ہے کہ ان کے پاس شکوے شکایت کا گودام ہوتا ہے ، جب موقع ملادل کھول کر بھراس نکالنے لگے ،یہ باتیں ایسی ہیں کہ ان سے اختلافات پیدا ہوں گے ہی ۔اگر انسان یہ سمجھے کہ یہ سب دنیا کی باتیں ہیں جوچند دنوں کے لیے ہے ،ہمیں اِس دارفانی میں چند دن ہی بتانے ہیں ،ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت ہے وہاں کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے ۔وہاں کی فکر کرنی چاہیے ،یہاں کسی حق سے محروم رہ بھی گئے تو کیانقصان ہوا ، کہاں زخم ہوگیا ،پھر یہ شہرت آنی جانی ہے ،آج ہے کل نہیں ہے۔

(5) کسی کا مذاق نہ اڑائیں:

ہر انسان کے پاس جذبات ہوتے ہیں ،ان کے جذبات کا احترام کرنا ضروری ہوتا ہے ، ایک ہے مذاق کرنا اورایک ہے مذاق اڑانا ۔مذاق کرنے کی گنجائش ہے جس سے خوش طبعی ہو اورجس سے خوش طبعی فرمارہے ہوںاس کوبرا نہ لگے ،اگر برا لگ گیاتو وہ مذاق اڑانا ہے جو جائز نہیں ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ مزہ لینے کے لیے دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں ،دوسروںکو زچ کرتے ہیں،ایسا کرنا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے ۔ یادرکھیں مسلمان کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ سخت ہے ۔ اورایک آدمی اس وقت تک کامل مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔لہذا جب آپ اپنا مذاق اڑایاجانا پسند نہیں کرتے تو دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کریں کہ یہی مومن کی پہچان ہے ۔

(6) ظاہر وباطن کو ایک رکھیں:

دوچہرہ والے مت بنیں ،تلون مزاجی آئے گی تو اختلاف ہوگا ، سامنے میں کچھ پیٹھ کے پیچھے کچھ ،رنگ بدلنا گرگٹ کا کام ہے ،اورجورنگ بدلتا ہے اس کی کبھی قدر نہیں ہوتی ،یہ نہایت گھٹیا عادت ہے ۔سامنے والا آپ پر اعتماد کررہا ہے اورآپ اس سے جھوٹی بات کررہے ہیں،یہ خیانت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کبرت خیانة أن تحدث أخاک حدیثا ھولک بہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب (ابوداؤد)
 ”یہ بڑی خیانت کی با ت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات کروجسے وہ سچ سمجھ رہا ہو جبکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔ “ظاہر ہے کہ جس پر آپ نے اعتماد کیا وہ جھوٹ بول رہا ہو تو اختلاف ہونایقینی ہے ،اس لیے دوچہرہ مت رکھیں ، جو سامنے ہووہی پیچھے ہوناچاہیے۔
(مذکورہ مادہ مسجد العدسانی کویت کے ماہانہ درس کااختصار ہے ،اس سلسلے میں مزیدتفصیل کے لیے مولانا تقی عثمانی صاحب کی "اصلاحی خطبات" کا مطالعہ نہایت مفید رہے گا )

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔