ہفتہ, مارچ 29, 2014

ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کریں

انسان فطری طور پرمعاشرت پسند واقع ہوا ہے، وہ معاشرے سے کٹ کر پرسکون زندگی نہیں گذار سکتا ، اورزندگی میں ہر آدمی دوسروں کا احتیاج مندہوتا ہے، جب انسان پر پریشانی آتی ہے توبسا اوقات اس کے برداشت سے باہر ہوتی ہے، ایسی حالت میں جو لوگ اس سے قریب رہتے اوربستے ہیں پریشانی میں اس کا ساتھ دیتے ہیں ۔ یہی لو گ ہمسایہ اور پڑوسی کہلاتے ہیں ، اِن میں کچھ لوگ رشتے دار ہوتے ہیں تو کچھ اجنبی ہوتے ہیں ،کچھ مسلم ہوتے ہیں تو کچھ غیر مسلم ہوتے ہیں سب پر پڑوسی کا اطلاق ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ بھی آپ کا پڑوسی سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ آپ کو کچھ گھنٹوں بیٹھنے کا موقع مل رہا ہے ،جیسے بالعموم ٹرین اورہوائی جہاز کے سفر میں ہوتا ہے ۔ جس کارخانہ ،کمپنی اورآفس میں آپ کام کرتے ہیں وہاں کے لوگ بھی آپ کے ہمسایہ سمجھے جائیں گے ،ایک گاؤں دوسرے قریبی گاؤں کا پڑوسی ہے۔ اسی طرح ایک ریاست دوسری ریاست کا پڑوسی ہے،ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہے۔
البتہ عمومی طورپر پڑوسی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جو ہمارے آس پاس رہتے اوربودوباش اختیار کرتے ہیں ،امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چاروں سمت سے چالیس گھر ہمسایہ کے زمرے میں آتے ہیں ، ان لوگوں کے ساتھ چونکہ ہماری اجتماعی زندگی جڑی ہوتی ہے اسی لیے اسلام نے ان کی بے پناہ اہمیت بیان کی ہے ، ان کے حقوق ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے اوران کے حق میں ہر طرح کی کوتا ہی سے منع کیا ہے ۔
 بخاری اورمسلم کی روایت ہے ،حضرت عائشہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 مازال جبریل یوصینی بالجار حتی ظننت أنہ سیورثہ
”جیریل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے بارے میںتاکید کرتے رہے ،اس کا حق بتاتے رہے یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ شاید اس کو مال میں وارث بنادیں گے“ ۔
اسلام نے ایمان کے ساتھ پڑوسی کے احترام کومربوط کیاہے اورجس کی تکلیف سے اس کاہمسایہ محفوظ نہ رہے اس سے ایمان کی نفی کی ہے ۔ چنانچہ صحیح بخاری اورمسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم جارہ
 ”جو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ پڑوسی کا احترام کرے“ ۔ صحیح بخاری اورمسلم ہی کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخرفلایؤذ جارہ
 ”جو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے ۔“ صحیح بخاری اورمسلم ہی کی روایت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے فرمایا: واللہ لا یؤمن واللہ لا یؤمن ، واللہ لا یؤمن ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ،اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ۔ لوگوں نے پوچھا : کون اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:
الذی لا یامن جارُہ بوائقَہ
 ”جس کا پڑوسی اُس کی اذیت سے محفوظ نہ ہو “۔
اس حدیث میں قسم اورتکرار کے ساتھ کمال ایمان کی نفی کی جارہی ہے ،اس سے آ پ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اورنیک برتاؤ کا ایمان کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے ۔ اورپھر اذیت کبھی زبان سے ہوسکتی ہے جیسے ہمسایہ کے حق میں برے کلمات استعمال کئے جائیں ،اس سے گالم گلوچ کئے جائیں ،اس کی غیبت کی جائے ،اس کے اسرار دوسروں سے بیان کیے جائیں ۔ کبھی شرارت عمل سے ہوسکتی ہے ،جیسے ٹیلیویژن کی آواز تیز کردینا،گانے بجانے کرنا ،روم کے سامنے کوڑا کرکٹ جمع رکھنا ، اگر ایک فلیٹ میں چند افراد رہتے ہوںتو کسی ایک کا رات میں روشنی آن کردینا ، باتھ روم کو استعمال کرنے کے بعد گندہ چھوڑ دینا ، رسوئی گھر کی صفائی کی طرف دھیان نہ دینا ۔
 بلکہ جو لوگ پڑوسیوں کواذیت پہنچاتے ہیں ان کے بارے میں سخت ترین وعید آئی ہے، سنن ابن حبان کی روایت ہے ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے سول!ایک عورت ہے جو دن میں ہمیشہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجدپڑھتی ہے، مگر اپنے پڑوسیوں کوستاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنمی ہے۔ اس شخص نے پھر کہا: اے اللہ رسول ! ایک دوسری عورت ہے جو فرض نمازیں پڑھتی اور فرض روزے رکھتی ہے اور پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے، مگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچا تی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
ذرا تصورکیجئے کہ ایک خاتون تہجد گذار ہے،نفلی روزے رکھتی ہے تاہم ہمسایہ کو اذیت دیتی ہے تو جہنمی ٹھہرتی ہے جبکہ دوسری خاتون نماز روزے میں کوئی خاص شہرت نہیں رکھتی ہے، فرائض کی پابندی کرلیتی ہے تاہم ہمسایوںکو اذیت نہیں پہنچاتی تواس عظیم خوبی کے باعث وہ جنت کی حقدار ٹھہرتی ہے۔
اسلام ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں مسلم اورغیرمسلم کی تفریق نہیں کرتا ،پڑوسی غیرمسلم ہی کیوںنا ہواس کے ساتھ اچھا معاملہ ہونا چاہیے ۔ ترمذی کی روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر بکری ذبح کی گئی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ سے دریافت کیا:أھدیتم لجارنا اليہودی؟،أھدیتم لجارنا اليہودی؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی ہمسایہ کو کچھ ہدیہ بھیجا ہے یا نہیں؟ اہل خانہ نے جواب دیا نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس میں سے کچھ گوشت بھیج دو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :مجھے جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی اتنی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس کو وراثت کاحصہ دار بنا دیں گے۔
اسلام اخلاق ،اقداراورحسن معاملہ کا نام ہے ،بسا اوقات ایک آدمی اپنے ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے تاہم ہمسایہ اس کے درپے آزار رہتا ہے،سکون وچین سے رہنے نہیں دیتا، اسکے باوجود ممکن حد تک اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے ،کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلو ک کرنے اوراس کی اذیت کو برداشت کرنے کی وجہ سے آپ کوثواب ملے گا اوراللہ کی نظر میں آپ محبوب ہوں گے اورہوسکتا ہے کہ آپ کا اس کی اذیت کو برداشت کرلینا اس کی ہدایت کا سبب بن جائے ۔
سنن ابوداؤد کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا توآپ نے فرمایا: "اذھب فاصبر"جاؤ صبر کرو۔ پھردوسری یا تیسری بار جب وہ شکایت لے کر حاضر ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا : "اذھب فاطرح متاعک فی الطریق" جاؤ اپنا مال ومتا ع راستہ میں ڈال دو۔ چنا نچہ اس نے ایسا ہی کیا، جو لوگ راستہ سے گزرتے اس سے پوچھتے کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ وہ کہتا کہ میرا ہمسایہ مجھے اذیت دیتا ہے،چنانچہ جولوگ بھی یہ سنتے اس پڑوسی پر اللہ کی لعنت بھیجتے، یہاں تک کہ وہ پڑوسی خود اس کے پاس آیا اور یہ درخواست کرنے لگا : 
إرجع لا تر ی منی شیئا تکرھہ
اپنا سامان اپنے گھر واپس لے چلو، اب تم میری جانب سے کبھی کوئی ایسی چیز نہ دیکھوگے جو تمہیں نا پسند ہو۔
ہمسایہ اصل میں مددگار ہوتا ہے ،نگراں ہوتا ہے ،امانت دار ہوتا ہے ،اس لیے پڑوسی کایہ حق ہے کہ اس کی زیارت کی جائے،محبت کے اظہار کے لیے ہدیہ دیاجائے،اسے تکلیف نہ پہنچائی جائے، اس پر احسان کیا جائے،اس کے دکھ درد کو بانٹا جائے،بیمار ہوتواس کی عیادت کی جائے،دعوت دے تو دعوت قبول کی جائے،اپنے گھر میں خوشی ہو تو اس کو بھی شریک کیا جائے،ہرطرح کی پریشانی کو اس سے دور کیاجائے اور جہاں تک ہوسکے دامے، درمے، سخنے، قدمے، حسب استطاعت اس کی مدد کی جائے۔
ہمسایہ کا یہ بنیادی حق ہے کہ اس کے مال میں یا اولاد میں یا عزت میں خیانت نہ کی جائے ،ہمسایہ ہونے کے ناطے اس کے مال کو اپنا مال سمجھے ،اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اوراس کے غائبانہ میں کسی طرح کی خیانت نہ کرے ۔
خوردونوش کی اشیاء کا آپس میں تبادلہ ہوتے رہنا چاہیے ،صحیح بخاری کی روایت ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی تھی :
یا أبا ذر اذا طبخت مرقة فأکثر ماءا وتعاھد جیرانک۔
 ”اے ابوذر!جب تم کوئی شوربہ دار چیز پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ملادو، اور اس سے اپنے پڑوسی کی خبر گیری کرو“۔ یعنی اس کے گھر بھی بھیج دیا کرو۔
 اس سے آپس کے تعلقات استوار رہتے ہیں اور محبت میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں مرد کو خطاب کیا گیا کہ اگر عورت کی طرف سے سستی ہوتی ہے تو مرد کو چاہےے کہ عورت کو دھیان دلائے ،جبکہ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں عورت کو خطاب کیا گیا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: 
یا نساء المسلمات لاتحقرن جارة لجارتہا ولو فرسن شأة 
"اے مسلم عورتو!کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے لیے کسی چیز کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ دینے کے لیے بکری کا کھر ہی کیو ں نہ ہو۔"
خوردونوش کے تبادلہ سے محبت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے ، بسااوقات ہمسایہ مالی اعتبار سے کمزورہوتا ہے اس کے ساتھ ہمدردی کرنا قریبی ہمسایہ کی ذمہ داری ہے ،یہ انسانیت نہیں کہ ہم شکم سیر ہوکر رات گذاریں اورہمارا پڑوسی نان شبینہ کو ترس رہا ہو ۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
ما آمن بی من بات شبعان وجارہ جائع إلی جنبہ وھو یعلم بہ (رواہ البخاری فی الأدب المفرد وصححہ الألبانی)
 وہ ہم پر ایمان لانے والا نہیں جو شکم سیر ہوکر رات گذارے اوراس کا پڑوسی کے بازوںمیں بھوکا ہو جس کا وہ علم رکھتا ہو۔
ہدیہ کے لین دین میں جس ہمسایہ کا گھرسب سے قریب ہواس کا زیادہ اہتمام کرناچاہیے کیونکہ اس تک گھر کے راز پہنچتے رہتے ہیں،ایک گھر کے بچے دوسرے گھروں میں آتے جاتے ہیں،اس لیے اگر گھر میں کوئی خاص سامان تیار ہو یا بازار سے خاص نوعیت کی چیز آئے تو اس میں سے ہمسایہ کے گھر بھیجنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے ،صحیح بخاری کی روایت ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسولﷺ سے پوچھا : یارسول اللہ ! میرے دو ہمسایہ ہیں ان میں کس کو ہدیہ دوں،آپ ﷺنے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے سب سے زیادہ قریب ہے، اسے دو ۔
سلف صالحین نے ہمسایوں کے حقوق کواچھی طرح سمجھا تھا اورانہیں اپنی عملی زندگی میں جگہ دی تھی ،چنانچہ جب مسلمان پڑوسیوں کوان کا حق دیتے تھے اوران کا اکرام کرتے تھے تو غیرمسلم بھی ان کی ہمسائیگی پر رشک کرتے تھے:
  • عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا، ایک آدمی نے پوچھا :کتنے میں فروخت کروگے، کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا، اس خریدار نے کہا کہ اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے،جبکہ تم دوہزار بتا رہے ہو یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے ۔

سبحان اللہ ! ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں کے پڑوس میں جو مکان ہوتے تھے ان کی قیمتیں مسلمانوں کے حسن اخلاق کی وجہ سے بڑھ جایا کرتی تھیں اور آج صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ بعض علاقوں میں مسلمان مکان لینے جاتے ہیں تو انھیں کوئی مکان کرایہ پر بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان کا کردار اتنا گرچکا ہے کہ پڑوسی ان سے اوران کے بچوں سے تنگ رہتے ہیں ۔ الا من رحم ربی
  •  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ایک ہمسایہ نہایت براانسان تھا ،دن بھر کام کرتا، روزانہ رات کو شراب پی کر گھر میں خوب شورمچاتا ،گانے بجانے میں لگارہتا ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی تھی ،ایک شب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی آوازنہیں سنی ،پتہ چلایا تو معلوم ہوا کہ اسے پولس نے پکڑ لیا ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے صبح کی نماز پڑھی اورامیر کے پاس گئے ،امیر سے ملاقات کرکے اپنے پڑوسی کی رہائی کی گذارش کی ،امیر نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات رکھ لی اوراسے رہا کردیاگیا ۔ جب دونوں باہرمیں ملے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس سے پوچھا : کیا میں نے تجھے ضائع کردیا ؟ اس نے کہا نہیں بلکہ آپ نے میری حفاظت کی اورخیال رکھا ،اللہ تعالی آپ کو بہترین بدلہ عنایت فرمائے ،پھر کہا کہ آج سے میں اپنے سابقہ عمل سے توبہ کرتا ہوں،چنانچہ اس نے توبہ کیاا وراس کی حالت سدھر گئی ۔
  • ابوحمزہ ”سکری“ حدیث کے معروف راوی ہیں ،ان کا لقب ”سکری“ ہے، ”سکر“ عربی زبان میں چینی کو کہتے ہیں ،ان کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ انھیں سکری اس وجہ سے کہا جاتا تھا کہ ان کی باتیں بڑی شیریں اورانداز گفتگو بڑا دلکش تھا، وہ شہر بغداد کے ایک محلے میں رہتے تھے ،کچھ عرصہ بعد انھوں نے اپنا مکان فروخت کرکے کسی دوسرے محلے میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور مکان خریدنے والے سے معاملہ بھی تقریباً طے ہوچکا تھا، جب ان کے پڑوسیوں کو معلوم ہوا کہ وہ اس محلے سے منتقل ہوکر کہیں اور قیام کا ارادہ رکھتے ہیں تو محلے والے ایک وفدکی شکل میں ان کے پاس آئے اور ان سے گذارش کی کہ وہ یہ محلہ نہ چھوڑیں ، ابوحمزہ سکری نے اپنا عذر بیان کیا تو محلہ والوں نے ان سے پیش کش کی کہ آپ کے مکان کی جو قیمت لگی ہے ہم وہ قیمت آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں لیکن آپ ہمیں اپنی ہمسائیگی سے محروم نہ کیجیے ،جب انہوں نے محلہ والوں کاایسا خلوص دیکھا تو محلہ چھوڑنے کا ارادہ ختم کردیا۔

عزیز قاری ! جب ایک ہمسایہ دوسرے ہمسایہ کا حق ادا کرتا ہے اورہر ایک دوسرے کا اکرام کرتا ہے تو معاشرے میں ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ،محبت کا ماحول بنتا ہے ،امن وشانتی قائم ہوتی ہے ،دلوںمیں اطمینان اورسکون پیدا ہوتا ہے اورزندگی مسرت وشادمانی اورآرام وراحت کے ساتھ گذرتی ہے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔