ہفتہ, نومبر 30, 2013

کیا واقعی نظر لگ جانا حق ہے ؟

 سوال:

کیا واقعی نظر لگ جانا حق ہے، اور اس كا علاج كيا  ہو سكتاہے، میں اپنے دوست کے گھر گیاتھا تو ا ن کی شکایت ہے کہ میرے ان کے گھر جانے کی وجہ سے ان کا بیٹا بیمار ہوگیا ہے ؟

جواب: 


آپ کے سوال میں دو باتیں ہیں :

پہلی بات :


نظر لگنے کے تعلق سے ہے : تو سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نظر کا لگ جانا واقعی حق ہے ، اور ایسا کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، یعنی کسی کی نظر کسی کو لگ سکتی ہے، اسی لیے اسلام نے ہمیں اس بات کی تاکید کی ہے کہ اگر ہم کوئی چیز دیکھیں جو ہمیں بھلی معلوم ہورہی ہے تو اس وقت ہمیں چاہیے کہ ماشاءاللہ کہیں ….یہ ہے اسلامی تعلیم نظر بد کے اثر سے بچنے کے لیے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صحیح مسلم کی روایت ہے :
النظر حق ولوکان شی ء سابق القدر سبقتہ وإذا استغسلتم فاغسلوا (مسلم) 
"نظر لگ جانا حق ہے ،اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو نظر لے جاتی ۔ اورجب تم سے علاج کے طور پرغسل کرنے کا مطالبہ کیاجائے تو تم غسل کرکے پانی دے دو۔ تاکہ اسے بیمار کے بدن پر بہا دیا جائے"۔
صحیح حدیث میں آتا ہے، ایک دن کی بات ہے ،حضرت عامر بن ربیعہ ؓ سہل بن حنیف ؓ کے پاس سے گذرے ،اس وقت وہ غسل کررہے تھے ،انہوں نے جب ان کو ننگے بدن دیکھا تو بول اٹھے، ایسا جسم تو میں نے آج تک نہیں دیکھا تھا ۔ یہ کہنے کے بعد وہ وہاں سے نکلے اور یہ ادھرزمین پر گر گئے ، لوگ انہیں اٹھا کر لائے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ماجرا بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس پر شک ہے، لوگوں نے کہا : عامر بن ربیعہ پر ۔ تب آپ نے فرمایا:
علام یقتل أحدکم أخاہ فإذا رأی أحدکم من أخیہ ما یعجبہ فلیدع لہ بالبرکة ( رواه ابن ماجه ) 
"ایسا کیا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے، جب تم کسی کے اندر کوئی چیز دیکھو جو تمہیں بھلی لگے تو تمہیں چاہیے کہ اُس کے لیے برکت کی دعا کرو"۔ پھر آپ نے اسے غسل کرنے کا حکم دیا اوریہ پانی اس پر انڈیل دیاگیا ۔ ( ابن ماجہ
اس سے پتہ چلا کہ نظر لگنا حق ہے، اورجب ہم کسی کو کسی خوبی میں دیکھیں تو ماشاءاللہ کہیں ۔ اگر نظر لگ جاتی ہے تو جس پر شک ہے اس سے گذارش کی جائے کہ وہ غسل کرکے پانی دے، جس کا طریقہ یہ ہو کہ اپنے اعضاء کوکسی ٹب میں دھوئے اور ٹب  كا پانی  بیمار کے پورے بدن پر بہادیاجائے ۔
یہ تو ہوا اس وقت جبکہ جس کی نظرلگی ہے اس کا پتہ چل جائے، اگر اس کا پتہ نہ چل سکے تو کیا کیا جائے گا….؟  سورہ قلم کی آخری آیت: 

وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ (القلم: 51)

" اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں، جب کبھی قرآن سنتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ تو ضرور دیوانہ ہے.
سورہ تبارک کی پہلی چار آیتیں:
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ﴿٢ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ ﴿٣ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ﴿٤ 
" بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے (1) جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے (2) جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا، دوباره (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے (3) پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاه تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی (4)."
سورہ یوسف کی آیت:
 وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ ﴿يوسف: 67﴾
"اور (یعقوب علیہ السلام) نے کہا اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا۔ میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے۔ میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے ."
یہ آیات پڑھ کر مریض پر دم کریں.
اسی طرح  أعوذ بكلمات الله التامَّات من شرِّ ما خلَق. پڑھیں
 اور یہ دعا بھی پڑھیں:
اللَّهُمَّ أَذْهِبْ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا "رواه الترمذي ان شاء الله شفاء ملے گى.

دوسرى بات :

اس سلسلے میں ہمارے معاشرے میں لوگ افراط کے بھی شکار ہیں، کچھ بھی ہوا  فوراً اپنے دوستوں پر  شک کی سوئی گھما دیتے ہیں ، جس سے اختلافات ہوتے ہیں، ناچاقیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اورتعلقات خراب ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ خواہ مخوا ہ اپنے دوستوں پر شک نہیں کرنا چاہیے ۔ ہاں! اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے دوست کو آپ کی کوئی چیز بھلی لگی اور انہوں نے دعا نہیں دی، ماشاءاللہ نہیں کہا ….اورکچھ شکایت ہوگئی ہے تو دوستانہ انداز میں ان سے گذارش کی جاسکتی ہے جس سے اختلاف نہ ہو ۔ بدظنی نہ پھیلے ۔اسى طرح اگر کسی معقول وجہ کی بنیاد پر آپ کا  دوست آپ پر شک کرتا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اس کی بات دل پر نہ لیں اور غسل کرکے پانی اس کے حوالے کر دیں تاکہ بچے کی شکایت دور ہو سکے-

مکمل تحریر >>

کیا داڑھی رکھنا سنت ہے ؟ اور کتنی بار ڈاڑھی رکھ کر نکال سکتے ہیں

سوال:  

مولاناصاحب ! کیا داڑھی رکھنا سنت ہے ؟ اور کتنی بار ڈاڑھی رکھ کر نکال سکتے ہیں ؟ (عبدالغوث- سالمیہ، كويت)

جواب:

سب سے پہلے اِن کے نام عبدالغوث پر غور کرتے ہیں ۔ غوث اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے نہیں ہے ۔ اور عبد کی اضافت اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کی طرف ہی ہوسکتی ہے ۔ اس لیے خود کو عبدالغوث نہ کہیں ۔ ایک آدمی کسی انسان کا بندہ نہیں ہوسکتا وہ اللہ تعالی کا ہی بندہ ہوسکتا ہے ۔ لہذا آپ عبدالمقیت یا عبدالحفیظ وغیرہ نام رکھ لیں ۔ عبدالغوث نام غلط ہے ۔
رہا آپ کا سوال کہ کیا داڑھی رکھنا سنت ہے ؟ تو داڑھی رکھنا سنت ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔اور اس سلسلے میں ائمہ اربعہ یعنی چاروں فقہی مکاتب فکر کے ائمہ کا اتفاق ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
خالفواالمشرکین واعفوا اللحی واحفوا الشوارب ( بخارى ومسلم)
"مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچ کاٹو" ۔ اس حدیث میں امر ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔

اس لیے یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کتنی بار داڑھی رکھ کر نکال سکتے ہیں۔یہ کوئی اختیاری چیز نہیں ہے یا ایسا نہیں ہے کہ  ایک دو مرتبہ کاٹنے کی چھوٹ دی گئی ہو ۔اگر اس طرح کی کوئی بات ہوتی تب پوچھا جاسکتا تھا کہ داڑھی کتنی بار رکھ کر نکال سکتے ہیں۔اس لیے جو لوگ داڑھی نہیں رکھتے ہیں انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ داڑھی رکھیں کیونکہ اس سے اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہے ۔اور جن لوگوں نے داڑھی رکھ کر کاٹ لیا ہے اُنہیں توبہ کرنی چاہیے ۔سچى بات یہ ہے کہ اصل زینت داڑھی رکھنے میں ہے نہ کہ  شیو کرنے میں۔ داڑھی کے ذریعہ چہرے کی خوبصورتی نکھرتی ہے ۔ 
مکمل تحریر >>

میں ہربار توبہ کرتا ہوں لیکن پھر بہک جاتا ہوں

 سوال : 

مولانا صاحب ! آپ کا پروگرام مجھے بہت اچھا لگتا ہے میں بڑی پابندی سے ہرجمعہ آپ کا پروگرام سنتاہوں،میری عمر 26 سال کی ہے،ابھی میری شادی نہيں ہوئی ہے ،میں جہاں کام کرتا ہوں وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں ،ایک مرتبہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ،میں ان میں سے ایک لڑکی کے ساتھ زنا کا ارتکاب کربیٹھا۔ میں ہربار توبہ کرتا ہوں لیکن پھر بہک جاتا ہوں ۔ میں پہلے بہت خوش رہتا تھا لیکن  اب میں بہت پریشان رہنے لگا ہوں ۔کوئی ایسی دعا بتائیے کہ میرا خیال اس طرف نہ جائے اور میں پہلے کی طرح خوش رہ سکوں؟ ( علی ۔ حولی، كويت )

جواب:

اسلام میں زنا کار کی سزا یہ ہے کہ اگر مردوعورت دونوں شادی شدہ ہیں تو ان کو سنگسار کردیا جائے گا اور اگر شادی شدہ نہیں تو سوکوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کر دیا جائے گا ۔اس سے آپ زنا کی سنگینی اور خطرناکی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔
 آپ کو جو پریشانی لاحق ہے یہ دراصل اللہ کے غضب کو دعوت دینے کی بنیاد پر ہے، الله تعالى نے فرمايا:
 وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا ( طه 124)
 "جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گذران تنگی والا ہوگا".  اور گناہوں کے انسانی زندگی پربڑے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اور یہ بات بهى یاد رکھیں کہ "جیسی کرنی ویسی بھرنی "، جیسے آپ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کریں گے ویسا ہی آپ کی عزت کے ساتھ یا آپ کے اہل وعیال کے ساتھ کیا جائے گا ۔ کیا آپ اپنی بہن کے لیے یہ پسند کریں گے کہ کوئی لڑکا اس کے جسم کے ساتھ کھیلے ، ظاہر ہے آپ کی غیرت برداشت نہ کرے گی تو  ذرا  تصور کیجئے کہ آخر جس سے آپ نے منہ کالا کیا ہے وہ بھی تو کسی کی بہن ہے ،اس کے لیے آپ نے ایسا کیسے گوارا کرلیا ۔ آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو غلطی کا احساس ہے تب ہی تو ہم سے رابطہ  کیا ہے ۔ اس لیے
  • پہلی فرصت میں توبہ کریں،اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ،اور یا درکھیں کہ توبہ کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ بندہ گناہ سے بالکل کنارہ کش ہوجائے ،اپنے عمل پر نادم ہو، اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پورا عزم رکھے۔ 
  • دوسرے مرحلہ میں  ایسی بدكارلڑکی سے بالكليہ تعلق ختم کرلیں،یا کم ازکم اس سے پیار ومحبت کی باتیں بالکل نہ کریں، اللہ کی نگرانی کوذہن میں طاری رکھیں اور یہ بھی سوچیں کہ آپ جس وقت اس لڑکی سے ہم آغوش ہو رہے ہوتے ہیں اس وقت اللہ پاک آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے پھرفرشتے آپ کی ایک ایک حرکت کی ریكارڈ تیار کررہے ہوتے ہیں ،کل قیامت کے دن آپ کے سامنے اسے كهول دیا جائے گا ، اگر انکار کیا تو آپ کے اعضاءوجوارح آپ کے خلاف اللہ کے دربار میں گواہی دینے لگیں گے ، بلکہ یہ زمین بھی گواہی دے گی جہاں پر آپ اس عورت کے ساتھ ہم آغوش ہوئے تھے ۔پتہ نہیں کہ موت کب آجائے اور آپ اپنے رب کے پاس پہنچادیئے جائیں ۔
  • اسی طرح پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں ، قرآن کریم کی تلاوت مع ترجمہ کریں ، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں ،ان لڑکیوں کے ساتھ کام کرنے کی مجبوری ہے توکم ازکم ان کے ساتھ تنہائی میں ہونے سے پرہیز کریں کیونکہ جب آدمی کسی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرتا ہے تو تیسرا وہاں شیطان ہوتا ہے جو اسے برائی پر اکساتا ہے ۔
اللہ پاک ہم سب کو  برے عادات واطوا ر سے محفوظ رکھے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

جمعرات, نومبر 28, 2013

انبیاء و رسل پر ایمان کیوں اورکیسے ؟



اللہ پاک نے انسان کو کائنات کے ایک حصے زمین پر بسایا اوراسے ساری انسانیت پر فضیلت عطا کی تواسے دنیا میں کیوں بسایاگیاتھا ،اس کا مقصد تخلیق کیاتھا ،اسے عملی شکل میں بتانے کے لیے اللہ پاک نے انسانوںمیں سے پاکیزہ ہستیوں کو چنا جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاسکیں ۔ ایسے ہی لوگوں کو نبی اوررسول کہتے ہیں ۔ یعنی خالق اور مخلوق کے درمیان خالق کی شریعت کو پہنچانے کا واسطہ ۔ اورنبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے  جسے عبادت اور ریاضت کے ذریعہ حاصل کی جاسکے ،بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوںمیں سے جسے چاہتا ہے نبوت کیلئے منتخب فرماتا ہے ، انتخاب کرنے کا یہ اختیار اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔الله تعالى  نے فرمايا:
 "اللہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے" ۔ (الانعام 124)

انبياء ورسل كى بعثت كا فلسفہ:

ایک عام انسان کے ذہن میں یہ سوال ابھرسکتا ہے کہ آخر انبیاءورسل کا سلسلہ کیوں جاری کیاگیا ، کیاانسان کورسالت کااحتیاج ہے ؟ تو اس کا دوٹوک جواب یہ ہے کہ خوردونوش کی اشیاءاوردوا سے زیادہ انسان کورسالت کی ضرورت ہے ، جس کی وضاحت مندرجہ ذیل نکات سے ہوتی ہے :
  1. انسان مخلوق ہے اوراس کی بہترین ساخت میں بناوٹ ہوئی ہے ،اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے خالق کو جانے ، رسالت ہی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں کس نے پیدا کیا،ہمیں کیوں پیدا کیاگیا،اورہمیں کہاں جانا ہے ۔اس نكتے كوانسان محض اپنی عقل كے سہارے نہیں سمجھ سکتا،ضرورت ہے انبیاءورسل کی رہنمائی کی ۔
  2.  رسالت کے اندر زندگی ہے ،اللہ پاک نے سورہ انعام  122میں فرمایا: "کیاتم اسے نہیں دیکھتے جو مردہ تھا ہم نے اسے زندگی عطا کی"  جی ہاں ! رسالت کے بغیر انسان زندہ ہونے کے باوجودزندگی سے محروم ہوتا ہے ۔رسالت روح کی غذا ہے ،انسان دو عناصر سے مل کر بناہے ،روح اورجسم ،جسم تو ہر مخلوق کے اندر ہوتا ہے ،یہاں تک کہ جانوروں کے اندربھی ،اگر انسان اورجانورمیں امتیاز ہوسکتا ہے تو روح کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے....جسم کی غذا اشیائے خوردونوش ہے جبکہ روح کی غذا اس کے پیدا کرنے والے نے خود طے کی ہے ،اوریہ سچا دین اورعمل صالح ہے ،اس طرح انبیاءورسل کا کام روح کا تزکیہ اورنفس کی اصلاح ہے ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:”وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے ، اگر چہ وہ اس سے پہلے واضح گمراہی میں تھے“۔ [الجمعة: 2]
  3. انسان فطری طورپر مذہبی واقع ہوا ہے ،اس کی فطرت میں ایک عظیم ہستی کی نگرانی کا تصور ہوتا ہے،ایسے وقت اسے دین کی ضرورت پڑتی ہے جسے اختیار کرسکے ،اوروہ دین سچا بھی ہوناچاہیے، ظاہر ہے کہ دین کے صحیح ہونے کے لیے انبیاءورسل پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔
  4. انسان ایسے راستے کا محتاج ہے جو اسے دنیا میں اللہ کی رضامندی تک پہنچاسکے اورآخرت میں نعمتوں بھر ی جنت کا حقدار ٹھہرا سکے ،اورایسے راستے کی رہنمائی انبیاءورسل ہی کرسکتے ہیں ۔
  5. انسان بذات خود کمزورواقع ہواہے ،اس کے دشمن اس کی گھات میں لگے ہوئے ہیں،شیطان ہے جواسے گمراہ کرناچاہتا ہے ،بُری صحبت ہے جو اس کے سامنے قبیح کو خوبصورت بنا کرپیش کرتی ہے ، اورنفس امارہ ہے جو اسے برائی کی طرف دعوت دیتی ہے ۔ اس لیے ایک انسان اس بات کا ضرورتمندہے کہ اپنے دشمن کے مکر سے محفوظ رہنے کے لیے انبیاءورسل کی تابعداری کرے ۔
  6. انبیاءورسل اس لیے بھی بھیجے گئے کہ کل قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کریں کہ ہمارے بیچ کوئی راہ دکھانے والا نہیں آیاتھا،گویااللہ پاک نے رسولوں کو بھیج کر لوگوں پر حجت قائم کردی۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : ”ہم نے انہیں رسول بنایا ہے خوشخبریاں سنانے والے اور ڈرانے والے تاکہ رسولوں کو بھیجنے کے بعد لوگوں کی اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت نہ رہ جائے، اللہ تعالیٰ بڑا غالب اور بڑا با حکمت ہے“۔ [النسا ء: 165]
  7.  اللہ نے انسان کو عقل دی ،اس کے ذریعہ وہ ظاہری باتوں کو تو سمجھ سکتا ہے مگربہت سی باتیں وہ ہیں جن کو جاننے کے لیے ظاہری علم کافی نہیں ، خوددنیا کی بہت ساری حقیقتیں انسان کی عقل سے باہر ہیں تواللہ اوررسول کا معاملہ تو دوسری دنیا  کا ہے جو مکمل طورپر انسان کو دکھائی نہیں دیتیں، چنانچہ پیغمبراس کمی کو پورا کرتے ہیں اوران کے ذریعہ ہمیں ان غیبی امور کاعلم ہوتا ہے جن کا ادراک ہم اپنی عقلوں سے نہیں کر سکتے ، مثال کے طورپراللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات، فرشتے، قیامت کے دن سے پہلے واقع ہونے والے امور ، روزِ قیامت ، حساب وکتاب ، جنت ودوزخ وغیرہ
  8. رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کے سامنے زندگی گذارنے کا ایک بہترین نمونہ اورآئیڈیل پیش کریں ۔الله تعالى نے  فرمایا: ترجمہ : ”یقینا تمہارے لئے ان لوگوں میں بہترین نمونہ ہے“۔[الممتحنة: 6]

انبياء ورسل كى تاريخ :

انسان اس دنیا میں جب سے بسا ہے اسی وقت سے پیغمبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، سب سے پہلے انسان آدم علیہ السلام ہیں جوپہلے انسان بھی ہیں اورپہلے نبی بھی ، البتہ پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں ،جو آدم علیہ السلام کے دس صدیوں بعد جب قوم نوح کے نیک لوگوں کی شان میں غلو کرنے کے نتیجہ میں شرک کا آغاز ہوا تو پہلے رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے،گویا پہلے نبی آدم اورپہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ٹھہرتے ہیں۔ ہم نے کہا ”نبی اوررسول “ تو کیا نبوت اور رسالت میں فرق ہے ؟ جی ہاں! رسول وہ ہے جس کی طرف نئی شریعت کی وحی کی گئی ہو ،اور نبی وہ ہے جوپہلی شریعت کی تبلیغ کے لیے بھیجے گئے ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ انبیاءورسل کی تعداد کتنی ہے؟تو اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہرقوم اورہر جگہ اپنے نبیوں کو بھیجا ۔اللہ پاک نے سورہ فاطر میں فرمایا: ”ہر قوم میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا ضرور آیا ہے۔ “ ان انبیاءورسل کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک پہنچتی ہے جيسا کہ مسند احمد ميں ہے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ ميں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  سے انبياءعليہم السلام کی تعداد كے متعلق دريافت کيا تو آپ  نے فرمايا : ” انبياءعليہم السلام کی تعداد ايک لاکھ چوبيس ہزار ہے ، جن ميں سے رسل تين سو پندرہ کی تعداد ميں ، ايک بہت بڑی جماعت ہے “۔
قرآن وحديث ميں ان برگزيدہ شخصيات ميں سے بعض کا ذکرموجودہے اور بہت سے انبياءورسل عليہم السلام کے اسمائے گرامی مذکور نہيں ہيں اور وہ اللہ جل شانہ کے علم ميں ہيں ارشادِ باری ہے : ”يقينا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسل عظام کو مبعوث کيا ، جن ميں سے بعض کا تذکرہ ہم نے آپ کے سامنے کيا ہے اور بعض کا نہيں کيا “۔( غافر : 78) قرآن کريم ميں25 انبياءورسل عليہم السلام کے اسمائے گرامی مذکور ہوئے ہيں ، ان ميں سے 18انبياءعليہم السلام کے اسمائے گرامی سورة الانعام کی آيت نمبر 83 تا 86 ميں مذکور ہيں:
 ( يعنی حضرت ابراہيم ، اسحاق ، يعقوب ، نوح ، دا ؤد ، سليمان ، ايوب ، يوسف ، موسیٰ ، ہارون ، زکريا ، عيسیٰ ، يحيی ، الياس ، اسماعيل ، يسع ، يونس ، لوط عليہم الصلاة و السلام ) اور سات انبياءورسل حضرت محمد  ، حضرت آدم ، حضرت صالح ، حضرت ھود ، حضرت شعيب ، حضرت ادريس ، حضرت ذو الکفل عليہم الصلاة والسلام )کے اسمائے گرامی مختلف مقامات پر وارد ہوئے ہيں ۔ اور جمہور کی رائے کے مطابق حضرت خضر عليہ السلام بھی اللہ کے نبی ہيں اور دو انبياءعليہم السلام کا ذکر حديثِ پاک ميں موجود ہے : حضرت شيث عليہ السلام اورحضرت يوشع بن نون عليہ السلام ۔البتہ ذوالقرنین اور تبع کے سلسلے میں توقف بہتر ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ان انبیاءمیں سے بعض کو بعض پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر بہتری اور برتری دی ہے“۔ [الاسراء: 55] اسی طرح اللہ تعالی نے رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ : ”یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے“۔[البقرة:253]
اور ان میں سے افضل وہ رسول ہیں جو اولو العزم (عزيمت والے، عالی ہمت) کہلاتے ہیں اور وہ ہیں: حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلى الله عليه وسلم ۔فرمان الٰہی ہے:
”پس (اے پیغمبر!) آپ ایسا صبر کریں جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا“۔[الا حقاف35]

 انبياء ورسل كى دعوت :

تمام انبیاءکی دعوت ایک ہی تھی ،جس کا خلاصہ تھا انسانوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب کی عبادت پر لگانا۔ ارشاد ربانی ہے:
”اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ) لوگو( صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام باطل معبودوں سے بچو“۔[النحل: 36]
اگرچہ ان کی شریعتیں اور احکام مختلف تھے لیکن وہ سب کے سب ایک اساس وبنیاد پر متفق تھے جو کہ توحید ہے۔بخاری اورمسلم میں حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
 ”تمام انبیاءآپس میں علاتی بھائی ہیں(جن کا باپ ایک ہے اور ) مائیں الگ الگ ہیں، اور ان سب کا دین ایک ہے “۔

انبياء  ورسل كى بشريت:

 جتنے بھی انبیاءورسل آئے سب کے سب بشر اورانسان تھے ،اس میں ایک طرف بندوں پر اللہ کی مہربانی تھی کہ اللہ پاک نے ان کے لیے انبیاءانہیں کے جنس سے بھیجا،اوریہ فطری تقاضا بھی تھا کہ رسول چونکہ آئڈیل اور معلم ہوتا ہے اس لیے معلم متعلم کے جنس سے ہوتاکہ تعلیم کا پورا مقصد حاصل ہوسکے۔اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا:
قل لوکان فی الأرض ملائکة یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا۔سورہ اسراء (59)
اِن سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجتے  –“وہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی تھے ،    وہ کھاتے بھی تھے ، پیتے بھی تھے ، شادی بھی کرتے تھے، سوتے بھی تھے ، بیمار بھی ہوتے تھے اور وہ تھکاوٹ بھی محسوس کرتے تھے فرمان الٰہی ہے:
”اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب کے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے تھے“۔ [الفرقان: 20]
 اور فرمایا:
 ”ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا“۔ [الرعد:38]
اور انہیں بھی انسانوں کی طرح خوشی وغم، مشقت وآسانی اور ہشاش وبشاش ہونا جیسے عوارض لاحق ہوتے تھے-

انبياء ورسل كا جنس :

 تمام  انبیاءورسل  مرد تھے ،نبوت مردوں کے ساتھ خاص ہے ،اللہ پاک نے فرمایا:
"ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجا وہ مرد ہوتے تھے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے"  سورہ انبیاء(7) 
اورنبوت کا تقاضا ہے کہ دعوت کو فروغ دیاجائے ،لوگوں سے ملاقات کی جائے ،مخالفوں سے نمٹاجائے،اوریہ سب عورتوں کے مناسب نہیں" ۔

 انبياء ورسل كى بعض خصوصيات :

انبیاء علم غیب  نہیں رکھتے بجز اس کے کہ جس کی اللہ تعالیٰ ان کو خبر دے فرمان الٰہی ہے: ترجمہ :
”وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے“۔[الجن: 26، 27]
 اس کے باوجود رسولوں کی کچھ خصوصیات ہیں :
پہلی خصوصیت:  رسولوں پر وحی کا نزول ہوتا ہے :
جو بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے نبی کو وحی کے ذریعہ اس کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : قل انما ا نا بشر مثلکم یوحی الی (الکہف 110) ”آپ فرمادیجئے کہ میں محض تمہارے جیسا ہی ایک انسان ہوں فرق یہ ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے" ۔
 دوسری خصوصیت :  رسول معصوم ہوتے ہیں: 
پیغام کو اپنانے میں معصوم ہوتے ہیں،پیغام کی تبلیغ میں معصوم ہوتے ہیں،اسی طرح کبیرہ گناہوں،قول عمل اوراخلاق میں فحش گوئی سے معصوم ہوتے ہیں،البتہ بعض غلطیوں کا صادر ہونا جو تبلیغ رسالت سے متعلق نہیں عصمت کے منافی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ بھی بحیثیت مجموعی انسان تھے ، ہاں ! وہ اپنی غلطی پر قائم نہیں رہتے ،جب کبھی کسی نبی سے کوئی معمولی غلطی سر زد ہوئی ، جس کا تبلیغ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ، اللہ تعالیٰ نے اسے ان کیلئے بیان فرمادیا، اور انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیا ، چنانچہ وہ معمولی غلطیاں ایسے ہوگئیں گویا ان کا وجود ہی نہ تھا۔
تیسری خصوصیت :ان کو معجزات سے نوازاجانا ہے:
 وہ خلاف عادت چیزجسے اللہ اپنے رسولوں اورنبیوں کے ہاتھوں پر ظاہر کرتا ہے جس کے کرنے سے دنیا کے لوگ عاجز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ ان امورکو دیکھ کر اس نبی کی نبوت کی تصدیق کریں،اورسب کے سامنے رسول کی سچائی ظاہر ہوسکے ۔اوررسولوں کو معجزے ان کی قوم میں جس چیز کا زیادہ چلن تھا اسی کے مطابق دئے گئے تھے ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موسی علیہ السلام کے دورمیں جادو گری عروج پر تھی تو اللہ پاک نے موسی علیہ السلام کو اسی قبیل کا معجزہ دیاتھا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سانپ کی شکل میں بن کر جادوگروں کے جادو کے سانپوں کو نگل گئی، اور سب جادوگر عاجز ہوکرموسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللّٰہ تعالٰی کے حکم سے سمندر پر لاٹھی ماری جس سے بارہ راستے بن گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دورمیں طب کا غلبہ تھاچنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے، مادرزاد اندھوں کی آنکھوں کوٹھیک کر دیتے ، کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے اور مٹی کا پرندہ بنا کر زندہ کر کے اڑا دیتے تھے۔
خوداللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم کے ہاتھوں پر بیشمار معجزات ظاہر ہوئے ، آپ کا سب سے بڑا اور تاقیامت زندہ معجزہ قرآن مجید ہے، دنیا کے بڑے بڑے عالم و فاضل عربی دان انتہائی کوشش کے باوجود اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مانند نہ بنا سکے اور نہ قیامت تک بنا سکیں گے۔اسی طرح اسراءومعراج آپ کا معجزہ ہے ، کفار مکہ کے معجزہ طلب کرنے پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوگئے- ایک ٹکڑا مشرق میں اور دوسرا مغرب میں چلا گیا اور بالکل اندھیرا ہو گیا-  سب حاضرین نے دیکھ لیا پھر دونوں ٹکڑے آپس میں مل گئے اور چاند اصلی حالت پرلو ٹ آیا ، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے ایک دو آدمیوں کا کھانا سیکڑوں آدمیوں نے پیٹ بھر کھایا ،اس کے علاوہ آپ کی انگلیوں سے پانی کا ابلنا درختوں، پتھروں اور جانوروں کا آپ کو سلام او رسجدہ کرنا، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ آپ کے بےشمار معجزات ہیں۔

رسولوں پر ایمان لانے کا مطلب :

رسولوں پر ایمان چار چیزوں پر مشتمل ہے:
پہلی چیز: 
اس بات پر ایمان لاناکہ سارے انبیاءکی رسالت برحق اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھی، جس نے ان رسولوں میں سے کسی کی رسالت کا انکار کیا  اس نے گویاان سب کا انکار کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  ”نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا “(سورة الشعراء105)غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو تمام رسولوں کو جھٹلانے والی قوم قرار دیا،حالانکہ جس وقت انہوں نے تکذیب کی تھی اس وقت تک نوح علیہ السلام کے سوا کوئی دوسرا رسول ان کے ہاں نہ آیا تھا۔اسی طرح اگر کسی مسلمان نے موسی علیہ السلام یا عیسی علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیاتو اس نے گویا اللہ کے رسول ﷺکی نبوت کا بھی انکار کیا کہ کسی ایک نبی کا انکار ہمیں اسلام کے دائرہ سے نکال دیتا ہے ۔
دوسری چیز :
 جن رسولوں کے نام ہمیں معلوم ہیں ان پر تفصیل سے ایمان لانا مثلا حضرت محمدﷺ،ابراہیم،موسی،عیسی اور نوح علیھم السلام، یہ پانچ اولوالعزم رسول ہیں، ان برگزیدہ رسولوں کے علاوہ جن انبیاءکرام علیھم السلام کے اسمائے گرامی کا ہمیں علم نہیں ان پر بھی اجمالا ایمان لانا ہم پر لازم ہے۔
تیسری چیز : 
ان کی جو خبریں درست ہوں ان کی تصدیق کرناضروری ہے ۔
چوتھی چیز :
 اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ کے رسول ﷺ سے پہلے آنے والے پیغمبروںکا مستندریکارڈ باقی نہیں رہا،ان کی کتابیں بھی تحریف کا شکار ہوگئیں اس لیے اخیرمیں اللہ تعالی نے ساری انسانیت کے لیے محمدﷺ کو نبی بناکر بھیجا ،اب آپ کی شریعت پر عمل کرنا،اوریہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ آپ کے آنے کے بعد گذشتہ ساری شریعتیں منسوخ ہوگئیں ،اب کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت نبی پاک ﷺ کے علاوہ کسی اورنبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرے ۔ کہ آخری نبی اورساری انسانیت کے پیغمبر محمد ﷺ آگئے ۔اب دنیا کے لیے قرآن فائنل اتھارٹی اورمحمدﷺقیامت تک اللہ کے واحد نمائندہ ہیں۔
 اس حقیقت کو منطقی اندازمیں یوںسمجھاجاسکتا ہے کہ   ایک سرکار کسی ملک میں اپنے آدمی کو سفیر بناکر بھیجتی ہے تو ظاہر ہے کہ سفیر کی نمائندگی اسی وقت تک کے لیے ہو گی تب تک وہ اپنے منصب پر فائز رہے گا ۔جب اس کی مدت ختم ہوجائے اوردوسرے آدمی کو اس منصب پر متعین کردیاجائے تو اس کے بعد وہی سفیر سرکار کا نمائندہ ہوگا جس کو سب سے اخیرمیں سفارت کا موقع ملا ہے ۔ اس طرح اللہ کے رسولﷺ آخری سفیر ہیں ،پھرآپ کے بعد کوئی سفیر آنے والے نہیں ، یہی فارقلیط ہیں ،یہی کلکی اوتار ہیں ،یہی نراشنس ہیں ،یہی جگت پتی ہیں ۔
آپ ﷺ سب رسولوں میں سے افضل رسول ہیں ،آپ خاتم النبیین، امام المتقین اور بنی آدم کے سردارہیں ،جب تمام نبی اکٹھے ہوں تو آپ ان کے امام اور جب وہ تشریف لائیں تو آپ ان کے خطیب ہیں، آپ ہی صاحب مقام محمود ہیں جس پر پہلے اور بعد میں آنے والے سبھی رشک کریں گے، صاحب حوض ہیں جہاں پر لوگ وارد ہوں گے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دین کی سب سے افضل شریعت دے کر مبعوث فرمایا، اور آپ کی امت کو جو لوگوں کے لئے بھیجی گئی، بہترین امت بنایا، آپ کی امت دنیا میں آنے کے اعتبار سے سب سے آخری امت ہے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھائی جانے والی ہے۔
  ہمارے حبیب اورآقا پر امت کا حق یہ تھاکہ وہ امت کی پریشانی میں شریک ہوں،امت کی سعادت کے حریص رہیں، اورامت کے لیے نہایت نرم اورشفیق بنیں۔ اورواقعی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حقوق کی کماحقہ ادائیگی فرمادی ۔ یہاں تک کہ اللہ پاک نے اس کی شہادت دی :
”تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر کی آمد ہوئی ہے، جو تمہاری ہی جنس سے ہیں، جن کو تمہارے نقصان کی باتیں بہت بھاری لگتی ہیں جوتمہارے فائدے کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں، ایمان والوں کے لیے بہت ہی شفیق اور مہربان ہیں ۔ “(التوبة : 128)  
البتہ ہم پر ہمارے آقا  کا حق یہ تھا کہ ہم ان کی اطاعت کریں ،ان کے نقش قدم پر چلیں ،ان کے اقوال وافعال کے سامنے کسی کے قول وفعل کو کوئی اہمیت نے دیں ،آپ پر درود وسلام بھیجیں ،اورآپ کی آفاقی تعلیمات کو اپنی ذات میں، اپنے معاشرے میں اورغیراقوام میں پھیلانے کی کوشش کریں ....لیکن کیا ہم ایسا کرسکے ؟

مکمل تحریر >>

پیر, نومبر 25, 2013

نگرانی کرنے والا کون ؟


اس دنيا کوجس قادر مطلق نے رچايا ہے، اورقسم قسم کی مخلوقات سے اسے زينت بخشی ہے وہ اس کی نگرانی بھی کر رہا ہے، اس ذات واحد کی نگاہ جملہ مخلوقات پر ہر وقت، ہر آن، اور ہر لمحہ رہتی ہے ، ديوار کی اوٹ ميں کيا ہے؟ اسے انسان نہيں جانتا ۔ ليکن اللہ تعالی کی ذات عالم الغيب ہے ، اسکی نظر ہر چھوٹی بڑی چيز پر ہے ، وہ دلوں کے بھيد اور آنکھوں کی خيانت سے بخوبی آگاہ ہے ، انسانی قلوب ميں پيدا ہونے ہونے والے احساسات و کيفيات کو بھی جانتا ہے:
 يعلم خائنة الأعين وما تخفی الصدور (المؤمن 20)
" اللہ تعالی آنکھوں کی خيانت کو اور سينوں کی پوشيدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے" ۔
اس کا ارشاد ہے:
لاجرم أن اللہ يعلم مايسرون ومايعلنون (النحل 19)
"بے شک اللہ تعالی ہر اس چيز کو جسے وہ لوگ چھپاتے ہيں اور جسے ظاہر کرتے ہيں بخوبی جانتا ہے" ۔ اس وحدہ لاشريک لہ کا فرمان ہے:
 واعلموا أن اللہ يعلم ما فی أنفسکم فاحذروہ (البقرہ 235)
"اور يقين کرو کہ اللہ تعالی تمہارے دلوں کی باتيں جانتا ہے، پس اسی سے ڈرو"۔
اس ذات باری کا اعلان ہے:
 ان اللہ کان عليکم رقيبا . ( النساء 1)
"بےشک اللہ تعالی تمہاری نگرانی کر رہا ہے" 
نيز ارشاد عالی ہے:
وما تکون فی شأن وما تتلو منہ من قرآن ولا تعملون من عمل إلا کنا عليکم شھودا إذ تفيضون فيہ (يونس 61)
"اور تم جس حال ميں ہوتے ہو اور قرآن پڑھتے ہو اور جو بھی عمل کرتے ہو ہم تمہارے سامنے ہوتے ہيں جب تم اس ميں مشغول ہوتے ہو۔" 
ايک شخص بند کمرے ميں بيٹھا يہ سوچ رہا ہو کہ يہاں کوئی نہيں آ سکتا آسانی سے جو چاہو کرلو، ليکن وہيں يہ آواز سنتا ہے:
إنہ عليم بذات الصدور ألا يعلم من خلق وھواللطيف الخبير (الملک 14)
" وہ تو سينوں کی پوشيدگيوں کو بھی بخوبی جانتا ہے ، کيا وہی نہ جانے جس نے پيدا کيا پھر وہ باريک بيں اور باخبر بھی ہو" ۔

لہذا اے حرمات الہی کی پامالی کرنے والو! بند کمروں ميں، تاريکيوں ميں، تنہائيوں ميں، اور بيابانوں ميں جہاں چرند و پرند کا بھی بسيرا نہيں ہوتا، کبھی اپنے دل سے پوچھا : اللہ کہاں ہے ؟ کبھی سوچا کہ اللہ تعالی تمہاری ايک ايک حرکت کو ديکھ رہا ہے ، حقير مخلوق سے شرماتے ہو ليکن خالق دو جہاں سے شرم نہيں آتى۔ 

ايک مرتبہ كا واقعہ ہے امير المؤمنين عمر فاروق رضى الله عنه ايک شب حسب معمول رعايا کی خبر گيری کے ليے نکلتے ہيں، تھکاوٹ کے باعث ديوار کا سہارا ليا تاکہ آرام کر سکيں ، اسی اثنا ايک خاتون کی آواز آئی جو اپنی بيٹی سے کہہ رہی تھی:
” بيٹی! اٹھو اور دودھ ميں پانی ملادو تاکہ فروخت کے وقت زيادہ ہو جائے“
بيٹی نے جواب ديا: ا مير المؤمنين کے منادی نے اعلان کيا ہے کہ دودھ ميں پانی نہ ملايا جائے.
ماں نے کہا : بيٹی ! اٹھو ابھی تو ايسی جگہ پر ہے جہاں نہ تو تمہيں عمر فاروق  رضى الله عنه ديکھ رہے ہيں نہ ان کے منادی.
بيٹی نے ترکی بترکی جواب ديا:
أی أماہ فأين اللہ؟
 امی جان ہميں عمر تو نہيں ديکھ رہے ہيں ليکن اللہ کہاں گيا ؟ وہ تو ہميں ديکھ رہا ہے.
اللہ اکبر! يہ دراصل اللہ تعالی کی ہمہ وقت نگرانی کا بھرپوراحساس تھا جس نے بچی کو دودھ ميں پانی ملانے سے روکا ۔

اسی طرح کا ايک واقعہ عبداللہ بن دينار سے منقول ہے کہتے ہيں کہ ميں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معيت ميں مکہ کے سفر پر روانہ ہوا، راستہ ميں ايک جگہ آرام کے ليے فروکش ہوئے، دامن کوہ سے ايک چرواہا ہمارے پاس آيا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے بطور امتحان کہا: اے چرواہے! ہميں اپنی بکريوں ميں سے ايک بکری فروخت کردو ۔ چرواہے نے جواب ديا : ميں غلام ہوں امير المؤمنين رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنے مالك سے کہہ دينا کہ اسے بھيڑيا کھا گيا ہے، غلام نے جواب ديا: اللہ تو ديکھ رہا ہے۔ يہ جواب سن کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ اور صبح چرواہے کے سردار سے ملے اور اسے خريد کر آزاد کر ديا۔
حقيقت يہ ہے کہ اللہ والوں کے دلوں ميں ہر وقت اور ہر آن اللہ تعالی کی معيت کا احساس رہتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ بچی جس نے اپنی ماں کو اللہ کی نگرانی کا احساس دلايا، اور وہ غلام جس نے اپنے سردار کے غائبانہ ميں بھی اللہ کی معيت کو اپنے دل ميں تروتازہ رکھا، يہ دراصل اس ذات وحدہ لاشريک لہ کی ہمہ وقت نگرانی کا ہی آئينہ دار تھا ۔ اگر ايسا ہی خوف ہر انسان کے اندر پيدا ہوجائے تو کيا ايک گناہ کے ارتکاب کا بھی تصور کيا جا سکتا ہے؟ نہيں اور ہر گز نہيں. 

اللہ تعالی کی نگرانی کے احساس سے متعلق ايک تيسرا واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی كا ہے، ايک مرتبہ لوگوں کے احوال معلوم کرنے کے ليے بستيوں ميں گشت لگا رہے تھے کہ آپ کا گذر ايک ايسی خاتون سے ہوا جس کا خاوند اللہ کے راستے ميں جہاد پر چند مہينوں سے گيا ہواتھا، يہ خاتون تين طرح کی تاريکی ميں ہے، خاوند سے دوری کی تاريکی، رات کی تاريکی اور گھر کی تاريکی ۔ ايسی حالت ميں اپنے دلی احساسات کو شعرى جامہ پہناتے ہوئے کہتی جارہی ہے: 
         تطاول ھذا الليل وازور جانبہ   و أرقنی أن لا حبيب ألاعبہ          فواللہ لولا اللہ لارب غيرہ    لحرک من ہذا السرير جوانبہ
" شب دراز ہو رہی ہے اوراس کے گوشے لمبے ہورہے ہیں اورمجھے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ کوئی حبیب نہیں کہ اس سے دل لگی کرسکوں، اللہ کی قسم !اگراللہ نہ ہوتا جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں (یعنی اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا) تو کب اس چارپائی کے گوشے ہل چکے ہوتے ۔ (یعنی شوہر کی خیانت ہوچکی ہوتی )" 
ذرا تصورکریں رات کی تاريکی ہے، شوہر بھی غير موجود ہے ، ساری انسانيت خوابيدہ ہے، کوئی انسان ديکھنے والا بھی نہيں ہے ليکن ايک ذات ہے جو اس کی نگرانی کر رہی ہے، اسی کی نگرانی کا خوف شوہر کی خيانت سے مانع ہے، اسی کی معيت کا احساس اسے عفت و عصمت کا پيکر بنائے ہوا ہے:
ألم تر أن اللہ يعلم ما فی السماوات ومافی الأرض ما يکون من نجوی ثلاثة إلا ھو رابعھم ولا خمسة إلا ھو سادسھم ولا أدنی من ذلک ولا أکثر إلا ھو معھم أينما کانوا، ثم ينبئھم بما عملوا يوم القيامة إن اللہ بکل شيیءعليم. ( سورة المجادلة 7) 
" کيا تونے نہيں ديکھا کہ اللہ تعالی آسمانوں کی اور زمين کی ہر چيز سے واقف ہے ۔ تين آدميوں کی سرگوشی نہيں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے ، اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا وہ ہوتا ہے، اور نہ اس سے کم کی نہ زيادہ کی ، مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی ہوں پھر قيامت کے دن انہيں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا ، بيشک اللہ تعالی ہر چيز سے واقف ہے"-  

آيت کا مفہوم يہ ہے کہ ہم جہاں کہيں بھی ہوں اللہ تعالی سے چھپے نہيں رہ سکتے ، خلوت ميں ہوں يا جلوت ميں، شہروں ميں ہوں يا جنگل ميں، آباديوں ميں ہوں يا بيابانوں ميں جہاں کہيں بھی ہوں اللہ تعالی کی نگرانی ہمارے ساتھ ہے۔ ہمارا عقيدہ ہے کہ اللہ تعالی عرش پر مستوی ہے ليکن اس کی نگاہ سے ايک مخلوق بھی اوجھل نہيں۔
اللہ کی نگرانی کا احساس رکھنے والے بيشمار ايسے اشخاص گذرے ہيں جن کے سنہرے کردار سے تاريخ کے صفحات درخشاں اور تابندہ ہيں۔ آئيےميں آپ کو تاريخ کے دريچے سے ايک واقعہ سناؤں: 
 نوح بن مريم نام کا ايک شخص تھا،جو ايک دولتمند، صاحب ثروت، شريف النسب اور ديندار آدمی تھا ، اس کے پاس ايک غلام تھا جس کا نام مبارک تھا، جو غريب ضرور تھا تاہم حسن اخلاق کا پيکر اور نہايت تقوی شعار تھا ، مالک نے اسے اپنے باغيچے ميں بھيجا اور کہا کہ باغيچے کے پھلوں کی رکھوالی کرنا اور ہمارے آنے تک اس کی ديکھ بھال کرتے رہنا ۔ حسب فرمائش غلام باغيچے کی ديکھ بھال کے ليے چلا گيا، دو ماہ تک باغيچے ميں رہا۔ دو ماہ بعد جب مالک آيا تو باغيچے ميں ايک درخت کے سائے کے پاس آرام کرنے کے ليے بيٹھا اور اپنے خادم سے کہا : مبارک انگور کا ايک گچھا لاؤ ، مبارک گيا اور ايک گچھا لاکر مالک کی خدمت ميں پيش کيا جو کھٹا تھا، کہا دوسرا گچھا لاؤ يہ کھٹا ہے، دوسرا گچھا لايا ليکن وہ بھی کھٹا نکلا ۔ کہا : تيسرا گچھا لاؤ ، چنانچہ تيسرا گچھا لايا، تاہم وہ بھی کھٹا نکلا ، اب مالک غصے سے مخاطب ہوا:
 ” مبارک ميں تم سے پکے انگور کا گچھا مانگ رہا ہوں اور تم کچے انگور کا گچھا لاکر دے رہے ہو ۔ کيا تم کھٹے ميٹھے کی پہچان نہيں کرتے “ 
خادم نے جواب ديا : اگرچکھتا تب تو کھٹے ميٹھے کی پہچان ہوتى، الله كى قسم آپ نے مجھے انگور کھانے کے ليے نہيں بھيجا تھا بلکہ  باغيچے  کی حفاظت اور نگرانی کے ليے بھيجا تھا، اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہيں ميں نے  باغيچے  کا ايک انگور بھی نہيں چکھا ،  الله كى قسم نہ آپ ديکھ رہے تھے نہ کائنات کی کوئی چيز ديکھ رہی تھی تاہم وہ ذات ضرور ديکھ ديکھ رہی تھی جس سے آسمان و زمين کی کوئی شے پوشسدہ نہيں ۔ 
اس كى يہ ديانت دارى سن كر وہ اس کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا، اور اس کے زہد و تقوی کا قائل ہوکر بول اٹھا : ابھی ميں تم سے ايک مشورہ لينا چاہتا ہوں ، ميری لڑکی کا پيغام نکاح فلاں فلاں جگہ سے آيا ہے جو صاحب ثروت، صاحب حيثيت اور بلند حسب ونسب کے ہيں، ان ميں کس کو اپنی بيٹی کے ليے بطور شوہر اختيار کروں۔ مبارک نے کہا: زمانہ جاہليت ميں لوگ حسب ونسب اورخاندان کی بنياد پر شادی کرتے تھے، يہود مال کی بنياد پر شادی کرتے ہيں ، نصاری حسن و جمال کی بنياد پر شادی کرتے ہيں، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ميں دين اور اخلاق کی بنياد پر شادی ہوتی تھی جبکہ ہمارے زمانہ ميں ثروت اور حيثيت کی بنياد پر شادی ہوتی ہے، اور آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اس کا حشر ہوگا ۔ اور جس نے کسی قوم سے مشابہت اختيار کی وہ اسی ميں سے ہے. 
اللہ اکبر! يہ کتنی قيمتى نصيحت تھی؟ يہ کتنا گرانقدرمشورہ تھا ؟ جی ہاں! يہ ايک خيرخواہ کی نصيحت تھی جو گو کہ مفلس تھا، ليکن تھا صالح، نيک اور ديندار، اس مالك نے سوچا، غور کيا ، نظر دوڑائى تاہم مبارک سے بہتر انسان کسی کو نہ پايا، تب اس نے مبارک سے کہا : أنت حر لوجه الله " تم اللہ کے ليے آزاد ہو." 

عزيز قارى! ايک مالک اپنے غلام کو آزادی کا پروانہ عطا کر رہا ہے ۔ صرف اس کی تقوی شعاری اور اللہ کی نگرانی کا احساس رکهنے كے باعث، پھر جانتے هيں آزادی کے بعد کيا ہوا ؟ اس نے اپنے آزاد غلام سے کہا : ميں نے غور کيا تو پايا کہ تم ہی ميری صاحبزادی سے شادی کرنے کا زيادہ حق ركهتے ہو، لہذا ميں اپنی صاحبزادی پر تمہارا معاملہ پيش کرتا ہوں ، وہ گيے، اپنی صاحبزادی کے اوپر مبارک کے معاملے کو پيش کيا اور کہا کہ ميں نے غور کيا تو ايسا ايسا معلوم ہوا ہے لہذا ميری رائے ہے کہ مبارک سے شادی کرلو ۔ صاحبزادی بولی : کيا آپ اسے ميرے ليے پسند کرتے ہيں ، باپ نے کہا : ہاں! تو لڑکی بولی : ميں بھی اس سے راضی ہوں۔
چنانچہ مبارک سے يہ شادی نہايت مبارک ثابت ہوئی ۔ جی ہاں! نہايت مبارک ۔ يہ عورت حاملہ ہوئی اور ايک بچہ جنی جس کا نام عبد اللہ رکھا گيا ۔ جنہيں تاريخ عبد اللہ بن مبارک رحمه الله کے نام سے جانتی ہے ۔

عزيز قارى! جس شخص کے اندر اللہ تعالی کی ہمہ وقت نگرانی کا احساس بيدار ہو جائے ، وہ خلوت ميں محارم الہی کو پامال نہيں کر سکتا، تنہائی ميں منہيات کا ارتکاب نہيں کرسکتا۔ آخر حضرت يوسف عليہ السلام کو عزيز مصر كى بيوى سے کس چيز نے روکا ؟ ظاہر ہے کہ اللہ کی نگرانی کا احساس اور اس کی گرفت کا ڈر تها ۔ کہتے ہيں کہ زليخہ جب حضرت يوسف عليہ السلام کو خلوت ميں لے گئی تو اپنے بت پڑ پردہ ڈال ديا : يوسف عليہ السلام نے کہا: تو اس پتھر کا لحاظ کر رہی ہے اور ميں بادشاہ جبار کا لحاظ کيوں نا کروں۔ 
  اذا ما خلوت الدھر يوما فلا تقل   خلوت ولکن قل علی رقيب 
  ولا تحسبن اللہ يغفل ساعة     ولا أن ما تخفی عليہ يغيب
"جب تو کبھی کسی جگہ اکيلا ہو تو يہ نہ کہنا کہ ميں اکيلا ہوں ، بلکہ کہو : ميرے اوپر نگہبان ہے۔ اور نہ يہ سمجھ کہ اللہ ايک لمحہ بھی غافل ہے ۔ اور نہ يہ کہ جو تو اس سے چھپاتا ہے وہ چيز اس سے غائب ہے ۔"
حقيقت يہ ہے کہ تنہائی ميں اللہ کی ياد کا آنا اور اس کے ڈر سے آنسو ؤوں کا بہنا کمال شخصيت کا راز اور خوف الهى کا غماز ہے اور ايسے ہی لوگوں کو قيامت کے دن عرش الہی کے سايے کی بشارت دی گئی ہے جس دن اللہ کے سايہ کے علاوہ اور کوئی سايہ نہ ہوگا:
 ورجل ذکر اللہ خاليا ففاضت عيناہ ( البخارى)
اور ايسا آدمی جس نے اللہ کو تنہائی ميں ياد کيا اور اس کی آنکھ سے آنسو بہہ پڑے ۔
عزيز قارى! یہ تو رہی تنہائی میں اللہ کی نگرانی کا احساس رکھنے والے اورخوف الہی سے لرزنے والے اہل ایمان کے سبق آموز واقعات کی ایک جھلک ، ليکن صد حيف ہمارے سماج ميں ايسے لوگوں کی کمی نہيں جو مجمع ميں تو نيکی اور پرہيزگاری کا اظہار کرتے ہيں، ليکن تنہائی ميں ساری پرہيزگاری جاتی رہتی ہے، جلوت ميں احکام الہی کی پاسداری ہو رہی ہے تو خلوت ميں احکام الہی کی پامالی ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ايسے ہی لوگوں کے بارے ميں ارشاد فرمايا : 
ليأتين أقوام يوم القيامة معھم أعمال کجبال تھامة بيض يجعلھا اللہ هباء منثورا
 بروزقيامت کچھ جماعتيں ايسی آئيں گی جن کے پاس تہامہ کے پہاڑوں جيسے اعمال ہوں گے تاہم اللہ تعالی انہيں خش وخاشاک کی مانند کر دے گا ۔ حضرت ثوبان رضى الله عنه نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دريافت کيا : من هم يا رسول اللہ "وہ کون ايسے بد نصيب ہوں گے يا رسول اللہ"  ہميں ان کی صفت بتائيے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا :
ألا إنھم يصلون کما تصلون ويصومون کما تصومون و يأخذون من الليل کماتأخذون ولکنھم قوم اذا خلوا بمحارم اللہ انتھکوھا ۔ (ابن ماجه )
وہ نماز پڑھتے ہوں گے جس طرح تم نماز پڑھتے ہو ، وہ روزہ رکھتے ہوں گے جس طرح تم روزہ رکھتے ہو، وہ قيام الليل کرتے ہوں گے جس طرح تم قيام الليل کرتے ہو۔ تاہم وہ ايسی قوم ہوں گے کہ جب خلوت ميں ہوں تو محارم الہی کا ارتکاب کر بيٹھيں۔ 
جب اللہ کی نگرانی کا یہ احساس ذہنوں سے اوجھل ہوتا ہے تو انسان بلاجھجھک محارم الہی کو پامال کرنے لگتا ہے، لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوکر اپنے گھروں میں بیٹھا فحش فلمیں دیکھتا ہے ،حرام طریقے سے لوگوں کا مال اینٹھتا ہے ، اگر ایسے انسان کے پاس دل بیدار ہوتا تو سمجھ سکتا تھا کہ معمولی پانی کے قطرہ سے پیدا ہونے والے انسان سے شرم کھاتا ہے لیکن خالق ارض وسما کی آنکھوں کے سامنے ایسی ہی حرکت بڑی ڈھٹائی سے کرتا ہے اوراسے ذرا برابر شرم نہیں آتی ۔ 

( افادات : ڈاكٹرعلى القرني حفظه الله  )

مکمل تحریر >>