جمعرات, دسمبر 29, 2011

نئے سال کے آغاز پر خوشی كا اظہار کیوں؟

0
شمسی کیلنڈر کے لحاظ سے ماہ جنوری کی شروعات ہونے ہونے کو ہے، یعنی 2012 کے شروع ہونے میں کچھ ہی وقت باقی ہے۔ اس موقع پر نوجوان طبقہ کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتا ہے۔ کہیں کارڈوں کے تبادلے کئے جاتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں ، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے۔ نئے سال کے جش پر غیر مسلم توکیا…. مسلم معاشرہ کے بہت سے افراد بھی اُن سے پیچھے نہیں ہوتے ۔
سوال یہ ہے کہ ماہ جنوری سے شروع ہونے والے سال پر اس قدر خوشی کیوں؟ ….بحیثیت مسلمان ہم غورکریں کہ کیا اس نئے سال سے مسلمانو ں کا کچھ لینا دینا ہے۔ آج پوری دنیا اقتصادی عالمی بحران سے دوچار ہے ، مہنگائی آسمان چھوتی جارہی ہے ….کیا ایسے میں اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنے ماضی کا محاسبہ کئے بغیر اور اپنے ماضی سے سبق ليے بغیر اندھادھند نئے سال کے جشن میں مدہوش ہوجائے؟ اس طرح کے کئی اہم سوالات ہیں جس پر ہر فرد کو غور کرنا چاہيے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نئے سال كى مناسبت سے خوشياں منانا انسانی عقل کے خلاف ہے کیونکہ ہر پل انسان کے ليے نیا ہے اور قیمتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی کی ساعتوں پر گہرائی سے غور کرے تو وہ ہر پل اپنے خالق کا شکر بجا لانے والا ہوگا کیونکہ موت وزندگی سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی بھی انسان اس کی مرضی کے بغیر ایک سکنڈ نہیں جی سکتا۔ پھر جو پل ، جو دن، جو مہینہ اور جوسال گزر جاتا ہے وہ ماضی کا حصہ بن جاتا ہے اور زندگی میں لوٹ کر پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ اپنی قیمتی زندگی کے جانے پر انسان کو افسوس ہونا چاہئے کہ اس کی زندگی کا ایک حصہ گزرگیا۔ وہ ایک سال اپنی زندگی سے دور ہوا ہے اورقبر سے قریب ہوا ہے، پھر اسے یہ بھی سوچنا چاہيے کہ جو وقت گزرا ہے اس میں اُس نے کیا کیا ؟ کیا کھویا ….کیا پایا؟ کہیں اس کی زندگی کے قیمتی لمحات ، ایام اور مہینے یوں ہی تو نہیں گزرگئے ، کہیں ان ایام میں اس نے کسی کو ستایا دبایا تو نہیں ، کسی کا حق تو نہیں مارا ، کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچائی ، اپنے خالق کی نافرمانی تو نہیں کی، جس مقصد کے ليے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا اس کو بھلا تو نہیں بیٹھا!….ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک شخص اس طرح سے اپنی بیتی ہوئی ساعتوں کے بارے میں سوچے گا تو یقینا وہ شرمندہ ہوگا، اپنے عملوں پر افسوس کرے گا۔ کیونکہ ہر انسان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں …. وہ سوچے گا کہ اس نے اس حالت میں دوچار دن نہیں، دوچارہفتے یا دوچار مہینے نہیں بلکہ پورا سال گزاردیا جواچھا خاصا وقت ہے۔ پچھلے سال جنوری کے مہینہ سے دسمبر تک وہ یوں ہی غفلت میں رہا اور پھر اسے معلوم ہوا کہ اچانک نیا سال آگیا ….ایسے میں اس کے سامنے نئے سال کا منظر نہیں ہوگا بلکہ دیر تک گزرے ہوئے سال کے کربناک مناظر اس کی نگاہوں میں گھومتے رہیں گے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کیفیت اِس طرح کی ہوگی تو پھر نئے سال کی آمد پر خوشی کیسی ؟ پارٹیاں کیسی ؟ ناچ گانا کیسا ؟ موج مستی کیسی ؟

پھراگر نیا سال منانے کے پس منظر میں مسلمانوں کی بات کی جائے توان کے لئے کسی بھی لحاظ سے نئے سال کو منانا مناسب نہیں ہے کیونکہ جنوری سے شروع ہونے والے نئے سال کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلاشک و شبہ اس کا تعلق شمسی یا عیسوی کیلنڈر سے ہے جب کہ اسلامی کیلنڈر قمری ہے، جس کے ساتھ اسلام کا نظام زندگی جڑا ہوا ہے۔ اسلام کے بہت سے احکام کا نفاذ محض قمری کیلنڈر سے ہوتا ہے، شمسی یا عیسوی کیلنڈر کے مطابق اسلام کے کسی بھی حکم کا نفاذ نہیں ہوتا۔ اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے نئے سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ جنوری سے نہیں ۔….یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ محرم سے بھی اگر اسلامی کلینڈر کی شروعات ہورہی ہے تو اُس میں جشن منانے کی اجازت نہیں۔ اسلام قطعا اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ نئے سال پر یا کسی بھی موقع پر آپے سے باہر ہوجائیں ، گولے پٹاخیں چھوڑیں، آتش بازی کریں ، ہواﺅں میں غبارے اڑائیں ، رقص وسرود کی محفلیں سجائیں، عریانیت کا مظاہرہ کریں یا عریاں پروگراموں میں حصہ لیں۔ اسلام سادہ مذہب ہے، سادگی کو پسند کرتا ہے، خرافات ، لغویات اور بے جا حرکتوں کے لیے اسلامی معاشرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کے نزدیک بہترین عمل وہ ہے جو اللہ کی عبادت و فرمانبرداری اور مخلوق الهى کی خدمت پر مبنی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سوسائٹیوں ، محلوں اور مسلم آبادیوں کو اس طرح کی تقریبات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں ملت کے ذمہ دار وحساس افراد اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, دسمبر 15, 2011

ايڈيٹر روزنامہ قومی تنظیم كے نام

محترم ايڈيٹر روزنامہ قومی تنظیم ! تسلیمات 

بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب آپ نے روزنامہ "قومی تنظیم" کو نیٹ پر اپلوڈ كرنا شروع کردیا ہے ۔ بہار سے تعلق رکھنے والے گلف ممالک میں مقیم تاركين وطن کی ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ قومی تنظیم پڑھنے کو نہیں ملتا ہے، جوشکایت اب الحمد للہ دور ہوگئی ہے ۔ اس کے لیے ہم آپ کو دل کی گہرائی سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ روزنامہ " قومی تنظیم" قوم کو منظم کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کرتا رہے ۔ایں دعا ازمن وازجملہ جہاں آمین باد
مکمل تحریر >>

جمعرات, دسمبر 08, 2011

حافظ امداد صاحب كے نام

محترم حافظ امداد صاحب
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ حالات بخیر ہوں گے
آپ نے ایک عرصہ پہلے حدود کے موضوع پر طویل مقالہ ارسال کیا تھا لیکن چونکہ وہ اس قدرمبسوط ہے کہ رسالے کا حجم اسے برداشت نہیں کرسکتا جس کی وجہ سے ہم نے اس کی اشاعت کو مؤخر کیا ہے ۔ رہے دوسرے مقالات تو کبھی بروقت نہ ملنے کی وجہ سے بھی شامل اشاعت نہیں ہوپاتے اور کبھی اختلافی چیزیں بھی اشاعت میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ ہم اس رسالے میں کسی فکر کی نمائندگی نہیں کرنا چاہتے ۔ ہمارا ہدف اسلام کی آفاقیت کو عام کرنا اور معاشرے کی اصلاح ہے اور بس ۔ ہمارے پاس جو کوئی بھی اپنی تخلیق روانہ کرتا ہے ہم اسے شامل اشاعت کرتے ہیں ۔ بشرطیکہ مجلہ کے ہدف پر اترتا ہو۔ آپ کی شکایت کا ہمیں احساس ہے ، اور آپ کی شکایت بجا ہے ، تاہم ہمیں معذور سمجھتے ہوے آئندہ اپنا قلمی تعاون پیش کریں گے ۔
مولانا سراج سے میں اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے ان سے بھی گذارش کی تھی کہ وہ ہمیں اپنے قیمتی مقالات سے نوازیں ۔انہیں میر اسلام عرض کریں ۔
محترم ! ہمارے پاس کسی طرح کے ذہنی تحفظات نہیں ہیں ۔ آپ تو خود بھی مصباح کو پڑھتے ہی ہوں گے، ہر طرح کے قلمکاران اس میں شرکت کرتے ہیں ۔ آپ کی شرکت بھی ہمارے لیے فخر کا باعث ہوگی ۔
والسلام


مکمل تحریر >>

بدھ, دسمبر 07, 2011

برادرم علاء الدین عين الحق مكى کے نام

راقم سطور کے نام برادرم علاء الدین عين الحق مكى کا ارسال کردہ مکتوب اور اس کا جواب ذیل میں ملاحظہ  فرمائیں :

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ بخیر ہوں گے،آپ اپنے اب تک کے دعوتی اور تعلیمی تجربات کی روشنی میں ایک احصائیہ پیش کیجیے کہ اب تک دعوتی اور اسلامی اشاعتی اور نشریاتی میدان میں ویب سائٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں ہندی اور اردو زبان میں کیا کچھہ ہورہا ہے اور مزید کس چیز کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ جو کام ہورہا ہے اس کا منفی پہلو کیا ہے تاکہ آئندہ اس کے تدارک کے لئے مثبت طور پہ اقدام کرنے میں آسانی ہو۔ کیا اردو اور ہندی میں ایک جامع اور اطمینان بخش ویب سائٹ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے؟
وجزاکم اللہ خیرا،
علاء الدین عین الحق مکی
مرکز وذکر

برادرگرامی قدر شیخ علاءالدین عین الحق مکی صاحب
و عليكم السلام ورحمة الله وبركاته
آپ کا ای میل موصول ہو ا، تاخیر کے لیے معذرت خوا ہوں، لیکن ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیربھی تھا بہرکیف میں آپ کے نیک جذبات کی قدرکرتا ہوں کہ آپ نے اسلامی ویب سائٹس کی ضرورت محسوس کی
آج المیہ یہ ہے کہ شیعوں، قادیانیوں اور قبرپرستوں نے نیٹ پر دین کی خدمت کے نام سے زہر اگل رکھا ہے اور ہم ہیں کہ حق بات کو مٹھی میں بند کیے ہوئے ہیں ، جب میں اردو میں کسی موضوع سے متعلق سرچ کر رہا ہوتا ہوں تو اکثر گمراہ فرقوں کے مقالات سامنے آجاتے ہیں ، گویا نیٹ پر باطل کا پرچار حق کے نام سے ہورہا ہے ۔ افسوس کہ ہم اس معاملہ میں بہت پیچھے ہیں ۔
جس حدتک اردو اورہندی ویب سائٹس تک ہماری پہنچ ہوسکی ہے،ان میں سے اردو ویب سائٹس میں اسلام ہاوس ، الاسلام سوال جواب ، کتاب وسنت ڈاٹ کوم، صراط الھدی قابل ذکر ہیں ۔ اور ہندی میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا ہے ۔ معتبر ویب سائٹس میں اسلام ہاوس اور الاسلام سوال جواب ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ اکثر ویب سائٹس کی زیارت کرنے والے عصری تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، جن کی معلومات اسلام کے تئیں سطحی ہوتی ہیں۔ جو شہوات اورشبہات کے نرغے میں بھی گھرے ہوتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں ان دو زبانوں میں ایک ایسے معیاری سلفی ویب سائٹ کی بیحد ضرورت ہے جس میں :
(1) اسلامی تعلیمات کو سہل انداز میں پیش کیا گیا ہو-
(2)
عقیدہ کے موضوعات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہو،اورانہیں پیش کرنے کا انداز مثبت ہو منفی نہ ہو۔
(3)
اصلاحی موضوعات کے لیے عربی زبان میں دستیاب فولڈرس اور فلایرز کے ترجمے کیے گئے ہوں۔
(4)
اسلام کے محاسن اوراس کی آفاقیت کو بیان کرنے والے موضوعات کو ترجیح دی گئی ہو۔
(5)
فروعی اختلافات پرمبنی موضوعات سے صرف نظر کیا گیا ہوکہ انہیں موضوعات کے ذریعہ ہماری پہچان ہورہی ہے اوریہی برصغیر میں اختلاف کی بنیادی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
(6)
آن لائن فتاوی کے لیے ایک کالم خاص کیاگیا ہوجس میں برصغیر کے کسی عالم دین کی خدمت حاصل کی گئی ہو۔ اوراس کام کے لیے میری رائے میں شیخ صلاح الدین مقبول احمد بہت مناسب ہیں ۔
(7)
اسلام اوراہل اسلام کے تئیں پیش آمدہ عصری مسائل کا شرعی ناحیہ سے تجزیہ پیش کرنے کے لیے ایک تجربہ کار عالم دین کی خدمت حاصل کی گئی ہو ۔ جیسا کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کرتے ہیں ۔
(8)
ویڈیوز پرمشتمل اچھے خاصے مواد فراہم کیے گئے ہوں، جس میں اگرعرب خطباء کی تقاریر کی بھی ڈبلنگ کی جائے تو بہت مناسب ہوگا ۔
والسلام
مکمل تحریر >>