ہفتہ, مئی 10, 2014

اسلام میں انسانیت کی نجات ہے

شیخ نبیل عوضی

ایک روز میں IPC میں بیٹھا تھا، گرمی کا موسم تھا، ایک آدمی اسلام قبول کرنے کے لیے آیا، اس کا حال ان دیگرلوگوں کا سا تھا جو بحمداللہIPC میں داخل ہوکر اسلام کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ آدمی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ....
داعی نے پوچھا: آخر آپ اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قبول اسلام کے بعد آپ کو سکون کا احساس ہورہا ہے ؟۔
آدمی کا جواب تھا: معاملہ اس سے بھی بڑا ہے، ....میرے ماں اور باپ ....“ ؟ 
داعی نے پوچھا: آپ کے ماں اورباپ کا کیا ہوا ؟
آدمی نے کہا: میرے والدین اسلام میں داخل ہونے سے پیشر فوت پاگئے، ان کا انجام کیا ہوگا؟ میں نے الحمدللہ اسلام تو قبول کرلیا اورمجھے میرے رب نے گمراہی سے بچا لیا تاہم میرے والدین اسلام کا تعارف حاصل کرنے سے پہلے ہی راہی ملک عدم ہوگئے ۔
نومسلم روتا رہا اورہم سب سے پوچھتا رہا کہ ”بھائیو! خدارا مجھے بتاؤ کہ میرے ماں اورباپ کا ذمہ دار کون ہو گا جو اس دنیا سے چلے گئے لیکن ان تک اسلام نہ پہنچ سکا، اللہ پاک نے مجھے تو نجات دے دی لیکن میرے والدین .... اس کا کیا حل ہے ؟ ان کے لیے میں کیا کرسکتا ہوں؟
سوال بڑا سخت تھا....اس حالت میں مجھے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی وہ حدیث یاد آگئی جب کہ آپ نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کرتے ہوئے کہا تھا: میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے لیے استغفار کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہیں ملی تاہم میں نے ان کی قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت مل گئی “۔
انسان متاثر ہوتا ہے اور اپنے ماں باپ کے بارے میں سوچتا ہے....آج اربوں انسان اسلام سے کوسوں دور ہیں، انسانوں کے رب کی نہیں انسانوں کی عبادت کرتے ہیں، مسلمان دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہیں، بقیہ پانچ حصے دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہیں، کتنے بتوں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے گایوں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے پتھروں کی پوجا کرتے ہیں، کتنے اللہ کے وجود کے منکر ہیں۔ ہم نے ان کے لیے کیا کیا اور ان کے تئیں کیا ذمہ داری نبھائی؟ اللہ تعالی نے اس امت کی بابت فرمایا ہے : ”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے برپا کئے گئے ہو، نیکی کا حکم دیتے ہواوربُرائی سے روکتے ہو“۔ جی ہاں ! تم بہترین امت ہو....کس کے لیے برپا کئے گئے ہو....؟ لوگوں کے لیے برپا کئے گئے ہو۔ ہم مسلمانوں کو غیروں پر فضیلت اس وجہ سے حاصل ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔
میں اس نومسلم کے آنسوؤں کا منظر بھول نہیں سکتا ....اس کے سوال کی آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔
آخر ان ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کا ذمہ دار کون ہے جو روزانہ مر رہے ہیں، جن کی اکثریت اللہ پر ایمان نہیں رکھتی؟ اللہ تعالی نے فرمایا:
”جوشخص اسلام کے علاوہ کسی اوردین کا متلاشی ہوگا وہ اس سے قبول نہ کیا جائے گا “ ۔
 بروزقیامت چند لوگ آئیں گے اورکہیں گے : ”اے ہمارے پروردگار!میرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا“۔ اگر ہم نے ان تک اسلام کی دعوت پہنچائی ہوگی تو ہم پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا:
” اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”امّتِ وَسَط “بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو “۔
 یہ اس وقت جبکہ ہم تبلیغ کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے ہوں گے ....لیکن اگر کسی شخص نے اسلام کی تبلیغ نہیں کی، نصیحت نہیں کی اور لوگوں کو اللہ کا دین نہیں سکھایا تو آخر ان پر کیسے گواہ بن سکے گا۔  کل قیامت کے دن وہی لوگ کہیں گے :
 میرے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا....میرے پاس کوئی داعی نہیں آیا....میرے پاس کوئی مبلغ نہیں آیا....میرے پاس کوئی ناصح نہیں آیا.... میرے پاس کوئی معلم نہیں آیا....میرے پاس نیکی کا حکم دینے والایا بُرائی سے روکنے والا نہیں آیا....کوئی ایسا انسان نہیں آیاجو ہمیں کلمہ توحید سکھا سکے ۔
یہ آدمی ....اپنے ماں اورباپ پر حسرت سے رو رہا ہے، اورآج کتنے ایسے انسان ہیں جو اپنے والدین پر حسرت سے روتے ہیں ؟ ہم اگرچاہیں تو.... ہر منٹ میں ایک انسان کو کفرپر مرنے سے بچا سکتے ہیں۔
توآئیے !ہماری منزل ہے.... رسالت محمدیہ کی آفاقی تعلیمات جملہ انسانوں تک پہنچانا تاکہ ان کو انسانوں کی عبادت سے نکال کرانسانوں کے رب کی عبادت کرنے والوں میں شامل کیا جاسکے ۔ ( مترجم: صفات عالم ، ماہنامہ ’البشری ‘ شمارہ اکتوبر سے ترجمہ )
مکمل تحریر >>

جنت کی راہ

جودة الفارس

بابول ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہندومذہب کا پیروکارتھا، ڈرائیور کی حیثیت سے ایک کویتی گھرانے میں کام کرنے کے لیے آیا، اور IPC کی زیارت کرکے اسلام کا تعارف حاصل کیا۔ بالآخر اللہ پاک نے اس کا دل اسلام کے لیے کھول دیا چنانچہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا اوراپنا نام بلال رکھا۔
پھرحسب روایت IPC میں نومسلموں کے لیے مختص دروس میں حاضر ہونے لگا۔ اس نے دین سیکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کی اور اپنی ذات سے عہد لیا کہ برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے خود کو تیار کرے گا، اس طرح اس کی خواہش رنگ لائی اور وہ IPC میں معاون داعی کی حیثیت سے کام کرنے لگا، مسلسل محنت جاری رکھی یہاں تک کہ IPC کے امتیازی دعاة میں اس کا شمار ہونے لگا۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
 ”اگر اللہ تعالی تمہارے ذریعہ کسی ایک شخص کو راہِ راست پر لادے تو تمہارے لیے سرخ اونٹ سے بہتر ہے “ اوردوسری روایت میں ہے ”....دنیا وما فیہا سے بہتر ہے “ ۔
اس داعی کا قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ IPC میں اس کی ملازمت کے پانچ سال کے اندر ایک ہزار لوگوں نے اس کے ہاتھ پراسلام کی سعادت حاصل کی ۔ مبارک ہو‘ اسے یہ بے پناہ اجروثواب۔
شیخ بلال کا قصہIPC کے ہزاروں نومسلموں کے قصوں میں سے ایک ہے جو ہمیں عہد نبوی، عہد صحابہ اور ان کے ما بعد سنہرے ادوار کی یاد دلاتے ہیں، اور کیوں نہ دلائیں کہ آپ دیکھیں گے کہ ایک شخص IPC میں داخل ہوتا ہے پھر کلمہ شہادت کی گواہی دینے کے بعد نمازیوں کے بیچ سے نکلتا ہے تو خوشی کے آنسو اس کے چہرے پر چھلک رہے ہوتے ہیں۔
امسال IPC کا شعار ہے : الدعوة مسئولية...بلغها معنا. ’تعارف اسلام.... ہماری ذمہ داری ہےاس کے فروغ میں ہمارا ساتھ دیجیے‘۔ جی ہاں! اللہ کی قسم اس سے بڑھ کر ذمہ داری اور کیا ہوسکتی ہے، دعوت‘ انبیاء و رسل اور صالحین کا طریقہ کار رہا ہے۔ اور یہ علی الاطلاق ساری ملازمتوں میں سب سے افضل ملازمت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 ”اس شخص کی بات سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے ....“۔
برادرعزیز! اگر آپ کسی غیرمسلم کو جانتے ہیں تو فوراً ہم سے رابطہ کریں ہمارے پاس غیرمسلموں کی زبان میں مختلف دعوتی وسائل اور ان کی زبان میں بات کرنے والے دعاة موجود ہیں ۔ (ترجمہ : صفات عالم تیمی ) 
مکمل تحریر >>

نومسلموں کے جذبات کا خیال کیجئے

 کل شام ایک گارڈن میں کچھ فیملی کے ساتھ تفریح کے لیے گئے تھے ، تلگو زبان کے ایک قدیم نومسلم بلال بھائی جن کے ہاتھ پر ہزار سے زائد غیرمسلموں کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ”نومسلموں اورمسلمانوں کے بیچ موجود کھائی “ کے حوالے سے عرض کررہے تھے :
  •  میں اپنے دوست کی شادی میں اس کی دعوت پر مع اہم خانہ شریک ہوا ، میں نے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ ميرے بیوی بچے تلگوزبان میں بات کرتے ہیں اردوزبان نہیں جانتے، گھرکی عورتوں نے ایک جگہ ميرے بچوں کو بٹھا دیا، وہاں بیٹھی دیگرخواتین اردو زبان میں ان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے آپس میں ہنس مذاق كر رہی تھیں کہ دیکھو نا تلگو زبان کی عورت مسلمان ہوئی ہے کچھ تعلق رہا ہوگا ان دونوں کا آپس میں۔ جب طنز حد سے زیادہ ہوا تو میری بیوی نے اس عورت پر ہاتھ اٹھا دیا ۔ اب کیا تھا شادی کی ساری خوشی پھیکی پڑگئی ۔
  • دیپاولی کا دن تھا، سماج کے سارے بچے پٹاخے پھوڑ رہے تھے، میرے دو کم عمر بچے پٹاخے خریدنے کے لیے بضد تھے، اور رو رہے تھے، میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹے! یہ ہمارا تہوار نہیں ہے، لیکن وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے اوراصرار بڑھتا گیا تو بالآخر بازار جاکر میں نے انہیں پٹاخے خریدا دئیے لیکن تاکید کی کہ آج نہیں کل بجانے ہیں ۔ بچے مان گئے، لیکن اسی وقت ايک دينى جماعت کے ذمہ دار کا فون آیا کہ میرا ایک لڑکا ڈاکٹر کے ہاں اڈمٹ ہے، میں اپنے بچوں کے ساتھ ملنے گیا ، تو انہوں نے كہا كہ پٹاخے سے اس نے اپنے دونوں ہاتھ جلا لیا ہے ۔ میرے بچے سن رہے تھے، کہنے لگے : وہ مسلمان ہیں پھر بھی پٹاخے پھوڑتے ہیں اورہمیں آپ منع کیوں کر رہے ہیں ۔ وہاں مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔
  • میں اپنے بڑے بیٹے عمر کی شادی اردو زبان جاننے والی کسی مسلم لڑکی سے کرنے کا خواہشمند ہوں تاکہ گھر کا ماحول بدل جائے لیکن تلاش بسیار کے باوجود مجھے رشتہ اس لیے نہیں مل رہا ہے کہ میری فیملی تلگو زبان سے تعلق رکھتی ہے، لوگ مجھے لڑکی دینے سے جھجھک محسوس کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ وہ نومسلم ہے ہم کیسے اس پر اعتماد کریں ۔
  • میرے ایک استاذ میرے تعلق سے کسی کے سامنے کہہ رہے تھے کہ بلال اگر ٹھیک ہوتا تو کم ازکم اپنے بچوں کو بلاکر عمرہ بھی تو کراسکتا تھا ، سوال یہ ہے کہ کیا وہ میری پریشانی کو جانتے ہیں، میرے سارے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ابھی تو ان کے اخراجات صحیح طریقے سے مکمل نہیں ہوپا رہے ہیں ایسے میں ہم فیملی کو آخر عمرہ کے لیے کیسے بلا سکتے ہیں۔ میری اہلیہ ہمیشہ کہتی ہے کہ جب بچے تعلیم مکمل کرلیں گے تو ہم سب حج کو جائیں گے ۔

میں نے ان کے جذبات کی قدر کی اوراسلام اورمسلم سماج کے فرق کو واضح کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم نے مسلمانوں کا دین نہیں اپنایا ہے اللہ کا دین اپنایا ہے، اگر آپ مسلم سماج کی طرف دیکھیں گے تو واقعی آپ کو مایوسی ہوگی، ہمیں مسلمانوں کو نہیں دیکھنا ہے، اسلامی تعلیمات کو دیکھنے ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سارے مسلمانوں سے بدظن ہوجائیں، الحمد لله آج بھی مسلمان دوسری قوموں کی بنسبت اخلاق وکردار میں اچھے ہیں۔ رہی بات مسلمانوں اورنومسلموں کے بیچ دوری کی تو صدحیف کہ مسلم سماج کی اکثریت نے اسلام کو اپنی جاگیر سمجھ ركها ہے جس کے باعث نومسلموں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے باوجود معاملات میں سوتیلاپن کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں نومسلموں کی تربیت کی ضرورت ہے وہیں مسلم سماج کے بعض خاندانی مسلمانوں کی ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ مسلم سماج میں ضم ہونے والے نومسلموں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں ۔
 اسلام کا شعوررکھنے والے مسلمان ایسے خاندانی مسلمانوں کو دیکھ کر بآسانی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ان کی جہالت کا نتیجہ ہے تاہم نومسلموں کو اس کا اندازہ نہیں ہوپاتا، اس لیے قبول اسلام کے شروع ایام میں مسلم سماج کے باشعور لوگوں سے ہی نومسلموں کا تعارف کرانا چاہیے ۔اوردیندار لوگوں کے بیچ ہی ان کو رکھنا چاہیے تاکہ وہ کچھ حد تک اسلام کو عملی شکل میں دیکھ سکیں ۔ جب وہ اسلام کو اچھی طرح سمجھ لیں گے تو خود انہیں” اسلام اورمسلمان “ کا فرق سمجھ میں آجائے گا ۔
ہم نے بلال بھائی کو سمجھایا کہ اسلام قربانی چاہتا ہے، قدم قدم پر قربانی کی ضرورت ہے، دعوت کی راہ اگر خاردار ہے تو اس کے بعد کا مرحلہ صبر کا متقاضی ہے، اور صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے، کبھی بھی آپ اسلام کو مسلمانوں میں کھوجنے کی کوشش نہ کریں چاہے وہ کتنا بڑا عالم ہی کیوں نا ہو۔اوراگر کوئی آپ کی غیبت کرتا ہے یا آپ کی عیب جوئی کررہا ہے تو وہ اصل میں آپ کو اپنی نیکیاں دے رہا ہے اس سے آپ کو خوش ہونا چاہیے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک دن حسن بصری رحمہ اللہ کی کسی نے غیبت کی تو انہوں نے ایک طبق کھجور ان کی خدمت میں بھیجا اور عرض کیا کہ :
میں نے سنا ہے کہ آپ نےمجھے اپنی نیکیوں کا ہدیہ دیا ہے میری خواہش ہوئی کہ بدلے میں کچھ پیش کروں، اس لیے میرا یہ ہدیہ قبول کیجئے گوکہ یہ ان کا متبادل نہیں بن سکتے ۔
راقم سطورکا ذاتی تجربہ ہے کہ میں نے ایک نومسلم ڈاکٹر کی کئی سرکردہ شخصیات سے ملاقات کرائی، ہر مجلس میں زیادہ تر جماعتی اختلافات پر گفتگو اور ذمہ داران کی عیب جوئی ہوتی رہی، ایک بارملاقات کے بعد نومسلم ڈاکٹر نے اپنے دل کی بات بتادی کہ کہ مجھے اکثرمجلسوں میں زیادہ تر اختلافات سننے کو ملے ایسا کیوں؟ میں نے اپنے انداز سے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ۔ 
بہرکیف نومسلموں کے جذبات کی رعایت بہت ضروری ہے اوران کی زندگی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل تیار کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ پچھلے دنوں عمرہ کے سفرمیں مدینہ منورہ جانے کا شرف حاصل ہوا، ایک روز ڈاکٹر معراج عالم تیمی کے ہمراہ ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے ان کے دولت خانہ پر گئے، دعوت کے موضوع پر گفتگو چل رہی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ آج دعوتی مراکز کے سب سے اہم کام کرنے کے یہ ہیں کہ وہ نومسلموں کے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی طرف دھیان دیں، جب تک ان کے معاشرتی مسائل حل نہیں ہوتے دعوت کا کام ناقص رہے گا۔


مکمل تحریر >>

بلند ہمتی

صفات عالم محمدزبیرتیمی 


عن حسین بن علی رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان اللہ تعالی یحب معالی الامور واشرافھا ویکرہ سفسافھا  صحیح الجامع للالبانی ،حدیث رقم 1890
ترجمہ: حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی بلند اورمعززکاموں کو پسند فرماتا ہے اورگھٹیا کاموں کو ناپسند کرتا ہے ۔
تشریح : ایک مومن بلندہمت ہوتا ہے،وہ پست ہمتی سے کوسوں دور رہتا ہے ،اس کی نظر اعلی اوراشرف کاموں پر ہوتی ہے،وہ گھٹیاکاموں کے پیچھے نہیں لگتا، وہ بیکار اور لایعنی کاموں میں اپنے اوقات ضائع نہیںکرتا، وہ کم پر راضی نہیں ہوتا جبکہ زیادہ کا حصول ممکن ہو، ہمارے لیے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اولوالعزمی اوربلندہمتی کا بہتریں نمونہ ہے جنہوں نے کفروشرک کی شب تاریک میں تنہا دعوت کا آغاز کیا تھا ،ہرطرف سے مخالفت ہوئی،ہرطرح سے مشق ستم بنایاگیا لیکن آپ کی ہمت مزید دوبالا ہوتی گئی یہاں تک کہ جان جان آفریں کو سپردکردی ۔
ایک انسان کا حقیقی امتیاز اس میں نہیں ہے کہ اس نے کس قدر عمریںپائیں بلکہ حقیقی امتیاز اس میں ہے کہ اس نے اس مدت میںدین کے لیے کتنا کام کیا اورکس حدتک دین کی خدمت انجام دی۔بندہ مومن کامطمح نظر دنیاکے بجائے آخرت ہوتاہے،اس لیے وہ دنیا کے معاملے میں کم پرقناعت کرسکتا ہے لیکن آخرت کے معاملے میں اس کی نگاہ ہمیشہ بلند ہوتی ہے،یہی وہ نکتہ تھا جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:” جب تم اللہ پاک سے جنت کاسوال کروتو جنت الفردوس مانگو“….چنانچہ آپ کے عالی ہمت اصحاب نے اس نکتہ کو بخوبی اپنی عملی زندگی میں جگہ دی۔
٭ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ محض ڈھائی سال تک حکومت کرتے ہیں لیکن اس مختصر مدت میں فتنہ ارتداد کی سرکوبی اورقرآن کریم کو یکجا کرکے دوبارہ امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیتے ہیں۔
٭  حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ساڑھے دس سال کی مدت ِخلافت میںشمال سے لے کر جنوب تک اورمشرق سے لے کر مغرب تک اسلام کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی دو سپرپاور طاقتیں روم وایران اسلامی خلافت کے زیرنگیں ہوجاتی ہیں۔
٭ سعدبن معاذرضی اللہ عنہ جو 30سال کی عمر میں اسلام قبول کرتے ہیں اور36سال کی عمرمیں وفات پاجاتے ہیں ،محض چھ سال کی مدت میں انہوں نے آخر کونسی نیکی کرلی کہ ان کی موت پرعرش الہی لرزنے لگتا ہے۔
٭ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے صرف ڈھائی سال تک حکومت کی لیکن اس مدت میں انہوں نے حکومت کے نظم ونسق کوایسا مثالی بنادیا کہ خلفائے راشدین کی یاد تازہ ہونے لگی ۔
جی ہاں! ایک مسلمان اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،اسے انسانوں کے لیے وجودمیں لایاگیا ہے ،اب اگروہ سستی کرنے لگ جائے اورکاہلی کا شکارہوجائے تو انسانیت کی رہبری کون کرے گا ؟ افسوس کہ آج ہماری نئی نسل پست ہمت اور کام چور بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے اعلی کردارکے حامل اورنمایاں کارکردگی انجام دینے والے افراد مسلم معاشرے میں کم ہوتے جارہے ہیں۔
آج ضرورت ہے کہ زیر نظر حدیث کے مطابق مسلم معاشرے کے افراد کی ذہن سازی کی جائے تاکہ وہ زندگی کے ہرمیدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں ۔

مکمل تحریر >>

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟

                                     صفات عالم محمدزبیر تیمی
ہدایت کا مالک اللہ پاک ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے ،کتنے ایسے لوگ ہیں جو اسلام کے کٹر دشمن تھے ،اسلام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگادی تھی لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات نے بالآخر انہیں موم بنادیا،جبکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو سنِ شعورکوپہنچتے ہی اپنے آبائی مذہب سے بیزارہوگئے ، اورایک دن فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کو گلے لگانے میں سعادت محسوس کی۔انہیں سلیم الفطرت افراد میں نیپال کے’ محمدنور‘ صاحب بھی ہیں جن کے قصے میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے ،پیغام ہے۔ تولیجئے ان کے قبول اسلام کا قصہ ذیل کے سطورمیں بیان کیا جارہا ہے :

 سوال:سب سے پہلے ہم چاہیں گے کہ قارئین سے اپنا تعارف کرادیں؟:
جواب: میرا نام ’محمدنور‘ہے ، نیپال کا باشندہ ہوں ، میری پیدائش ہندو گھرانے میں ہوئی،میرا تعلق ہندوؤں کی نچلی ذات سے تھا ۔مجھے گذشتہ ماہِ رمضان میں اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ، اس طرح میں الحمدللہ ’نربہادور‘ سے ’محمدنور‘بن چکاہوں۔
 سوال: اسلام تک پہنچنے کا سفر آپ نے کیسے طے کیا؟
جواب: سن شعور سے ہی مجھے ہندودھرم سے نفرت سی ہونے لگی تھی جس کا بدلہ مجھے الحمدللہ اسلام کی شکل میں ملا ۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب میں اسکول میں پڑھنے جاتا تو برہمنوں کے بچے پائپ پر بآسانی حاضر ہوکر پانی پی لیتے لیکن ہم سب کو دور رکھا جاتا یہاں تک کہ لائن میں لگاکر ہمارے ہاتھ پر پانی رکھ دئیے جاتے کہ مبادا پائپ اچھوت ہوجائے ۔
میرے والد اپنے خاندان میں ایک باوقار شخصیت کے مالک ہیں اس کے باوجود جب وہ برہمنوں کے گھر جاتے ہیں تو ان کے گھروںمیںمیرے والد کو بیٹھنے تک کی اجازت نہیں ہوتی ، ہمارے علاقے کے اونچی ذات کے ہندووں میں چھوت چھات کی بیماری اورنسلی تعصب کا رجحان تاہنوز برقرارہے ۔ اوراس میںکمی آتی دکھائی نہیں دیتی ۔یہ وہ پہلا معاملہ ہوا جس کی وجہ سے میں ہندودھرم کو دل سے ناپسند کرنے لگا ۔
 ایک دوسری وجہ جو ہندوازم سے میری نفرت کا سبب بنی وہ ہے ہندودھرم میںروزانہ کے حساب سے تہواروں کا پایاجاناجو واقعی مضحکہ خیزامرہے ،تہوار کی مناسبت سے سب کومختلف قسم کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں،خاص کر بچوں کے لیے نئے کپڑے بنوانا اور بازاروں سے خورد ونوش کی مختلف اشیاءخریدناتاکہ تہوار بحسن وخوبی منایاجاسکے ۔ مالداروں کا توکوئی مسئلہ نہیںکہ وہ جب اور جتنا چاہیں تہوار کے لوازمات خریدکرگھرلے آئیں‘رہے غرباءومساکین توہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اس مناسبت سے پس کر رہ جاتے ہیں ،بچوں کے تقاضے پر والدین ساہوکاروں سے سود پر پیسے لیتے ہیں تاکہ انہیں تہوار کی خوشی میں شریک کیاجاسکے لیکن جب مقررہ مدت پر سود کے ساتھ پیسے کی ادائیگی نہ ہوسکی اورسود در سود کا معاملہ ہوگیا تو یہ ساہوکار ایسے لوگوں کوبندھوا غلام بناکر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں ان سے کام لیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ذلت ورسوائی دھرم کے رسم ورواج کو اپنانے کی بنیاد پر ہی نصیب ہوئی ہے ۔
ایک تیسری وجہ جومجھے اسلام سے قریب کرنے میں معاون بنی وہ یہ کہ میں روزگار کے غرض سے چار سال تک قطر میں رہا جہاں پر میرے چچا نے اسلام کی سعادت حاصل کی ، میں نے قبول اسلام کے بعد ان کے اندر بڑی تبدیلی دیکھی اوران کی باتیں بھی مجھے سننے کا موقع ملا جس کی وجہ سے میں اسلام کو پسند کرنے لگا۔ اس کے بعدسے جب کبھی مجھے فرصت ملتی ٹیلیویژن پر اسلامی چینلزکامشاہدہ کرنے لگتا ۔کویت آنے کے بعددیندارمسلمانوں کے ساتھ رہنے اوران کی عبادتوںکوقریب سے دیکھنے کاموقع ملا، اس طرح اسلام سے میری دلچسپی بڑھتی گئی بالآخر میں نے کئی مسلمان ساتھیوں سے قبولِ اسلام کے موضوع پر گفتگو کی لیکن کسی نے کوئی رہنمائی نہ کی،اچانک ایک دن میں نے اپنے ایک ساتھی سے عرض کیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ،اس نے مجھے الحمدللہ IPCمیں پہنچا دیا ، جہاں مجھے اسلام کی بابت معلومات فراہم کی گئیں۔ اس طرح میں نے وہیں پر اسلام قبول کرلیا ۔
سوال: قبول اسلام کااثرآپ کے اہل خانہ پرکیسا پڑا اورآپ کے ساتھ فی الحال ان کا رویہ کیسا ہے ؟
جواب: میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی اس کا تذکرہ اپنے والدین اور بیوی سے کیا کیونکہ میں خود جانتا تھا کہ وہ ہندومذہب کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے۔ بیوی پر اسلام پیش کیا تو وہ بلا پس وپیش اسلام قبول کرنے کے لیے رضامند ہوگئی اورکلمہ پڑھ کراسلام کو گلے لگالیا البتہ والدین کو دعوت دی تو ان کے اندر ابھی جھجھک ہے ،میری کوشش جاری ہے ، اورمجھے قوی امید ہے کہ میرے والدین بھی اسلام قبول کرلیں گے ۔
میرے پاس دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ،بڑی لڑکی ۶۱سال کی ہے جو نرس کی تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ میں نے اسے بھی اسلام کی دعوت دی ہے ،قریب ہے کہ وہ اسلام قبول کرلے ۔
سوال : زندگی میں آپ کی دلی خواہش کیا ہے ؟
جواب :زندگی میں میری دلی خواہش یہ ہے کہ میں ایک داعی بنوں،میںچاہتاہوںکہ اسلام کو پوری طرح سیکھو ں، اسلام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دوں، اوران سارے لوگوںتک اللہ کا پیغام پہنچاؤں جو اب تک گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔
 سوال : مسلمانوں کو آپ کیا پیغام دیناچاہیں گے ؟
جواب : مسلمان بھائیوں اوربہنوں سے ہم کہنا چاہیں گے کہ اسلام بہت بڑی نعمت ہے جس پر وہ پیدا ہوئے ہیں، اس کی اہمیت کو پہچانیں، آج کتنے ایسے مسلمان ہیں جو اسلام سے کوسوں دور ہیں ، اگرانہیں اسلام کی حقیقی قیمت کا اندازہ ہوتا تواس قدربے فکری کی زندگی نہ گذارتے۔انہیںچاہیے کہ خوداسلام کواپنی زندگی میں عملاً برتنے کی کوشش کریں ،اپنے گھر میں اسلامی ماحول بنائیں اوراسلام کے پیغام سے ان قوموں کو روشناس کرائیں جن تک اسلام کی تعلیمات اب تک نہ پہنچ سکی ہیں۔  

مکمل تحریر >>

بالآخر وہ داعی بن گئی

        فضیلة الشیخ نبیل العوضی

وہ ایک عیسائی خاتون تھی، اس نے اپنی ایک مسلمان سہیلی جو اسلامی اخلاق کی پابند تھی کو عیسائیت کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا،لیکن خود مسلم سہیلی کے اخلاق اور کردار سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کے دین کو گلے لگالیا ۔
کہتی ہے : ”میں اپنی سہیلی کے اخلاق سے بیحد متاثر ہوئی اوراسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیالیکن اہل خانہ کا خوف مجھے کھائے جارہا تھا جس کی وجہ سے اسلام کا اعلان تو نہ کیا تاہم دل میں اسلام چھپائے رکھی ۔
ملازمت کے غرض سے کویت آئی تو مجھے  IPCکا پتہ چلا جس نے خواتین کے لیے باضابطہ الگ سے خاص شعبہ قائم کر رکھا ہے جو نو مسلم خواتین کی دینی ،اجتماعی اور نفسیاتی تربیت کا اہتمام کرنے کے ساتھ غیرمسلم خواتین کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں ہمہ وقت مشغول ہے ۔
میں بیتابانہ IPCپہنچ گئی تاکہ اسلام سیکھ سکوں،کلاس میں حاضر ہوکر اسلام کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے لگی،بالآخر اس قابل ہوگئی کہ اپنے اہل خانہ کو اسلام کی طرف دعوت دے سکوں، چنانچہ میں نے اپنی ماں، اپنی بہن اور گھر کے افراد کو اسلام کی دعوت دی اور الحمدللہ انہوں نے اسلام قبول بھی کر لیا ….کیاآپ جانتے ہیں….میں اسلام میں کیسے آئی ؟ سہیلی کے اخلاق اورکردار کی بنیاد پر
جی ہاں! ہمارا دین‘ اسلام حسن اخلاق کا پیکر ہے،اللہ کے رسول ا نے فرمایا: انما بعثت لأتمم مکارم الاخلاق ” مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں “۔ ہم لوگوں سے عمدہ اخلاق، اچھے رویہ سے معاملہ کرتے ہیں، انہیں دل پذیر اسلوب میں اسلام کی دعوت دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ”آخراس شخص کی بات سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا،نیک عمل کیا اورکہا کہ میں مسلمان ہوں“۔
 فی الواقع اس خاتون کا معاملہ عجیب ہے ….اس نے اپنی مسلمان سہیلی کو دین کی دعوت دینے کے لیے پلاننگ کی جبکہ کتنے ایسے مسلمان ہیں جو اسلام کو وراثت میں ملی ہوئی جائداد سمجھ رہے ہیں، کبھی انہیں توفیق نہ ہوئی کہ غیرمسلموں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے روشناس کرائیں ۔

مکمل تحریر >>

جمعہ, مئی 02, 2014

آپ اعتدال پسند نہیں

سوشل میڈیا فیس بک پر"حرف اعتدال"              نام کے ایک صارف نے مندرجہ ذیل تبصرہ کیا      ہے:
بعض جانوروں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بڑےلاڈ پیار سے پالتے ہیں اور پھر ایک دن اسے کھا جاتے ہیں،انسانوں میں بھی ایسے درندے پائے جاتےہیں جن کی خبریں اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ادارے بچوں کے مانند ہوتے ہیں اور بانیان ان کے ماں باپ۔وہ بانی کس قدر بد نصیب ہوگا جس نے زندگی کا سارا سرمایہ اس ادارے کو سینچنے میں صرف کردیا ہو لیکن اپنی بے بصیرتی اورحماقت پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے اپنےحین حیات اس ادارے کو زوال کے دلدل میں دھکیل دیا ہو اور اس کا مشاہدہ کے باوجود احساس زیاں نہ ہو۔کیا یہ اپنے بچوں کو خود کھانا نہیں ہے ۔دینی اداروں کا یہ بہت بڑا المیہ ہے ۔اللہ بانیوں اور موسسین کو بصیرت اور چشم بینا دے۔آمین
حرف اعتدال صاحب ! آپ جو بھی ہوں، تاہم اعتدال پسند نہیں ،آپ کا تبصرہ تعصب پر مبنی ہے ،بانیان کو کوسنے سے پیشتر اگر اپنے دامن میں جھانک لیے ہوتے کہ ہماری ذات سے اب تک قوم کو کیا فائدہ پہنچا ہے تو میں سمجھتاہوں زبان اس قدر لمبی نہ ہوتی ، انسان کو حق کا ساتھ دینا چاہیے ۔ خامیوں کو کریدنے کی بجائے خوبیوں پر نگاہ  رکھنی چاہیے ، اگر آپ کسی ادارے سے فارغ ہیں تو یاد کریں اس ادارے کے ذمہ دار کو جس نے آپ کو ہر طرح سے سکون فراہم کیا، علمی ماحول عطاکیاجس میں آپ نے اپنی جہالت کا علاج کیا اور جینے کا سلیقہ سیکھا ، اگر کسی کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے تو وہ قطعا ”اپنے بچوں کو خود کھانے “ کی اصطلاح وضع نہیں کرسکتا ۔بلکہ وہ بے حس ہوگا جو اس طرح کی بات کرے گا ۔ 
ہمارے سامنے مادرعلمی کی خدمت سے پہلے اپنا مفاد ہوتا ہے جس کی قربانی کے لیے چنداں تیار نہیں ہوتے اور جب تبصرے کی بات ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر لمبے چوڑے تبصرے کرتے ہیں ،کیا ہماری ذمہ داری نہیں تھی کہ ہم آگے بڑھ کر مادرعلمی کی خدمت کے لیے تیار ہوں، بس اپنی ’انا‘کا مسئلہ ہے اورکچھ نہیں ۔ اخیرمیں ہم آپ سے گذارش کریں گے کہ براہ کرام اس قبیل کا تبصرہ فیس بک پر نہ کریں ۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, مئی 01, 2014

شیخ ارشد بشیر مدنی اور ان کی اہلیہ کے خطابات کویت میں

اسلام ہی عالمی دین ہے اورابدی بھی :   شیخ ارشد بشیر مدنی
آسک اسلام پیڈیا کے بانی اور سرپرست اورہندوبیرون ہند کے مختلف ٹی وی چینلوں پر ظاہر ہونے والے معروف عالم دین شیخ ارشد بشیر مدنی کی کویت تشریف آوری کے موقع سے مختلف کمیٹیوں نے ان کے تربیتی اور دعوتی پروگرام رکھے ، اور کویت میں اپنے دس روزہ قیام کے دوران مختلف سرکردہ شخصیات اورکمیٹیوں کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کیں ۔ شانتی سندیشم ٹرسٹ کے زیراہتمام11اپریل کو بروزجمعہ مالیہ کی مسجد یوسف العدسانی میں ”اسلام ہی عالمی دین ہے اور ابدی بھی “ کے موضوع پر آپ کا عام خطاب ہوا ،جس میں آپ نے فرمایاکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس کی تعلیم ہر زمانے اورہرجگہ کے لیے بالکل مناسب اورقابل عمل ہے ۔17 اپریل کو IPC کے ٹائز سینٹرمیں دعاة اورداعیات کے لیے ”اسالیب دعوت “ کے موضوع پر ایک پروگرام رکھا گیاجس میں آپ نے اپنے تجربات کی روشنی میں عیسائیوں اورہندوؤں میں دعوت کے طریقہ کار کی وضاحت فرمائی ،اخیر میں آپ نے حاضرین کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دئیے ۔ اس پروگرام میں تقریبا70 دعاة اورداعیات نے شرکت فرمائی ۔کویت میں قیام کے دوران مالیہ کی مسجد یوسف العدسانی اورصباح السالم کی مسجد صالح الکندری میں آپ کے دو جمعہ کے خطبات ہوئے ،اس کے علاوہ فحاحیل اورسالمیہ میں آپ کے عوامی خطابات ہوئے ۔
شیخ ارشد مدنی کی اہلیہ  نسرین فاطمہ کے خطابات کویت میں
شیخ ارشد بشیر مدنی کی اہلیہ بہن نسرین فاطمہ خواتین کے بیچ ایک سنجیدہ اورتجربہ کارسپیکر کی حیثیت سے معروف ہیں اورشیخ مدنی کے ساتھ زی سلام ٹی وی پردینی پروگرام میں شرکت کرچکی ہیں، یوٹیوب پر آپ کے مختلف بیانات موجود ہیں،آپ کی کویت آمد کی مناسبت سے خواتین کے لیے کویت کے مختلف علاقوںمیں مختلف پروگرام رکھے گئے، فحاحیل میں برادرم بلیغ صاحب کے زیرانتظام چار دن کا ٹریننگ کورس رکھاگیا جس میں تقریبا40 خواتین شریک ہوئیں ، یہ چار دن کا کورس تھا جو چار مختلف موضوعات کے تحت ہر روز صبح میں چار گھنٹے تک چلتا رہا ، دعوت کے اسالیب، اولاد کی تربیت،نماز اوراس کے فوائد اور توحید کی اہمیت وفضیلت اورمعاشرے پر اس کے اثرات جیسے اہم موضوعات پر بہن نسرین فاطمہ نے خواتین کو خطاب کیا ۔ مالیہ کی مسجد مرزوق البدر میں اولاد کی تربیت کے موضوع پرعلیحدہ پر وگرام منعقد ہوا جس میں 60 سے زائد خواتین نے شرکت فرمائی، آپ نے اپنے لیکچر میں تربیت اولاد کی اہمیت اوراس کے تئیں والدین کی لاپرواہی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کچھ رہنما اصول کی وضاحت فرمائی جن کی روشنی میں ہماری اولاد نیک اوربلندکردار کی حامل بن سکتی ہے ۔    IPCکے سالمیہ برانچ میں خواتین کے لیے آپ کے دو دروس ہوئے ،اسی طرح فلپینی شعبہ KPCC  میں خواتین کے لیے 18 اپریل کوجمعہ کی شام ”قرآن اور ماڈرن سائنس“ کے موضوع پرآپ کا ایک لیکچر ہوا جس سے فلپینی خواتین نے استفادہ کیا ۔ 
مکمل تحریر >>