ہفتہ, مئی 10, 2014

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟

                                     صفات عالم محمدزبیر تیمی
ہدایت کا مالک اللہ پاک ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے ،کتنے ایسے لوگ ہیں جو اسلام کے کٹر دشمن تھے ،اسلام کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگادی تھی لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات نے بالآخر انہیں موم بنادیا،جبکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو سنِ شعورکوپہنچتے ہی اپنے آبائی مذہب سے بیزارہوگئے ، اورایک دن فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کو گلے لگانے میں سعادت محسوس کی۔انہیں سلیم الفطرت افراد میں نیپال کے’ محمدنور‘ صاحب بھی ہیں جن کے قصے میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے ،پیغام ہے۔ تولیجئے ان کے قبول اسلام کا قصہ ذیل کے سطورمیں بیان کیا جارہا ہے :

 سوال:سب سے پہلے ہم چاہیں گے کہ قارئین سے اپنا تعارف کرادیں؟:
جواب: میرا نام ’محمدنور‘ہے ، نیپال کا باشندہ ہوں ، میری پیدائش ہندو گھرانے میں ہوئی،میرا تعلق ہندوؤں کی نچلی ذات سے تھا ۔مجھے گذشتہ ماہِ رمضان میں اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ، اس طرح میں الحمدللہ ’نربہادور‘ سے ’محمدنور‘بن چکاہوں۔
 سوال: اسلام تک پہنچنے کا سفر آپ نے کیسے طے کیا؟
جواب: سن شعور سے ہی مجھے ہندودھرم سے نفرت سی ہونے لگی تھی جس کا بدلہ مجھے الحمدللہ اسلام کی شکل میں ملا ۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ جب میں اسکول میں پڑھنے جاتا تو برہمنوں کے بچے پائپ پر بآسانی حاضر ہوکر پانی پی لیتے لیکن ہم سب کو دور رکھا جاتا یہاں تک کہ لائن میں لگاکر ہمارے ہاتھ پر پانی رکھ دئیے جاتے کہ مبادا پائپ اچھوت ہوجائے ۔
میرے والد اپنے خاندان میں ایک باوقار شخصیت کے مالک ہیں اس کے باوجود جب وہ برہمنوں کے گھر جاتے ہیں تو ان کے گھروںمیںمیرے والد کو بیٹھنے تک کی اجازت نہیں ہوتی ، ہمارے علاقے کے اونچی ذات کے ہندووں میں چھوت چھات کی بیماری اورنسلی تعصب کا رجحان تاہنوز برقرارہے ۔ اوراس میںکمی آتی دکھائی نہیں دیتی ۔یہ وہ پہلا معاملہ ہوا جس کی وجہ سے میں ہندودھرم کو دل سے ناپسند کرنے لگا ۔
 ایک دوسری وجہ جو ہندوازم سے میری نفرت کا سبب بنی وہ ہے ہندودھرم میںروزانہ کے حساب سے تہواروں کا پایاجاناجو واقعی مضحکہ خیزامرہے ،تہوار کی مناسبت سے سب کومختلف قسم کے انتظامات کرنے پڑتے ہیں،خاص کر بچوں کے لیے نئے کپڑے بنوانا اور بازاروں سے خورد ونوش کی مختلف اشیاءخریدناتاکہ تہوار بحسن وخوبی منایاجاسکے ۔ مالداروں کا توکوئی مسئلہ نہیںکہ وہ جب اور جتنا چاہیں تہوار کے لوازمات خریدکرگھرلے آئیں‘رہے غرباءومساکین توہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ اس مناسبت سے پس کر رہ جاتے ہیں ،بچوں کے تقاضے پر والدین ساہوکاروں سے سود پر پیسے لیتے ہیں تاکہ انہیں تہوار کی خوشی میں شریک کیاجاسکے لیکن جب مقررہ مدت پر سود کے ساتھ پیسے کی ادائیگی نہ ہوسکی اورسود در سود کا معاملہ ہوگیا تو یہ ساہوکار ایسے لوگوں کوبندھوا غلام بناکر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں ان سے کام لیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ذلت ورسوائی دھرم کے رسم ورواج کو اپنانے کی بنیاد پر ہی نصیب ہوئی ہے ۔
ایک تیسری وجہ جومجھے اسلام سے قریب کرنے میں معاون بنی وہ یہ کہ میں روزگار کے غرض سے چار سال تک قطر میں رہا جہاں پر میرے چچا نے اسلام کی سعادت حاصل کی ، میں نے قبول اسلام کے بعد ان کے اندر بڑی تبدیلی دیکھی اوران کی باتیں بھی مجھے سننے کا موقع ملا جس کی وجہ سے میں اسلام کو پسند کرنے لگا۔ اس کے بعدسے جب کبھی مجھے فرصت ملتی ٹیلیویژن پر اسلامی چینلزکامشاہدہ کرنے لگتا ۔کویت آنے کے بعددیندارمسلمانوں کے ساتھ رہنے اوران کی عبادتوںکوقریب سے دیکھنے کاموقع ملا، اس طرح اسلام سے میری دلچسپی بڑھتی گئی بالآخر میں نے کئی مسلمان ساتھیوں سے قبولِ اسلام کے موضوع پر گفتگو کی لیکن کسی نے کوئی رہنمائی نہ کی،اچانک ایک دن میں نے اپنے ایک ساتھی سے عرض کیا کہ میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں ،اس نے مجھے الحمدللہ IPCمیں پہنچا دیا ، جہاں مجھے اسلام کی بابت معلومات فراہم کی گئیں۔ اس طرح میں نے وہیں پر اسلام قبول کرلیا ۔
سوال: قبول اسلام کااثرآپ کے اہل خانہ پرکیسا پڑا اورآپ کے ساتھ فی الحال ان کا رویہ کیسا ہے ؟
جواب: میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی اس کا تذکرہ اپنے والدین اور بیوی سے کیا کیونکہ میں خود جانتا تھا کہ وہ ہندومذہب کا کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے۔ بیوی پر اسلام پیش کیا تو وہ بلا پس وپیش اسلام قبول کرنے کے لیے رضامند ہوگئی اورکلمہ پڑھ کراسلام کو گلے لگالیا البتہ والدین کو دعوت دی تو ان کے اندر ابھی جھجھک ہے ،میری کوشش جاری ہے ، اورمجھے قوی امید ہے کہ میرے والدین بھی اسلام قبول کرلیں گے ۔
میرے پاس دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ،بڑی لڑکی ۶۱سال کی ہے جو نرس کی تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ میں نے اسے بھی اسلام کی دعوت دی ہے ،قریب ہے کہ وہ اسلام قبول کرلے ۔
سوال : زندگی میں آپ کی دلی خواہش کیا ہے ؟
جواب :زندگی میں میری دلی خواہش یہ ہے کہ میں ایک داعی بنوں،میںچاہتاہوںکہ اسلام کو پوری طرح سیکھو ں، اسلام کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دوں، اوران سارے لوگوںتک اللہ کا پیغام پہنچاؤں جو اب تک گمراہی میں بھٹک رہے ہیں۔
 سوال : مسلمانوں کو آپ کیا پیغام دیناچاہیں گے ؟
جواب : مسلمان بھائیوں اوربہنوں سے ہم کہنا چاہیں گے کہ اسلام بہت بڑی نعمت ہے جس پر وہ پیدا ہوئے ہیں، اس کی اہمیت کو پہچانیں، آج کتنے ایسے مسلمان ہیں جو اسلام سے کوسوں دور ہیں ، اگرانہیں اسلام کی حقیقی قیمت کا اندازہ ہوتا تواس قدربے فکری کی زندگی نہ گذارتے۔انہیںچاہیے کہ خوداسلام کواپنی زندگی میں عملاً برتنے کی کوشش کریں ،اپنے گھر میں اسلامی ماحول بنائیں اوراسلام کے پیغام سے ان قوموں کو روشناس کرائیں جن تک اسلام کی تعلیمات اب تک نہ پہنچ سکی ہیں۔  

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔