منگل, جولائی 16, 2019

سورج گرہن اور چاند گرہن

 

آج کی شب چاند گرہن ہونے والا ہے، کچھ لوگ سورج گرہن  اور چاند گرہن کو محض طبعی معاملہ سمجھتے ہیں اور گرہن دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، حالانکہ چاند گرہن اور سورج گرہن سامان تسلی نہیں اور نہ طبعی معاملہ سمجھ کر نظر انداز کردینے والی شے  ہے بلکہ اس میں  بہت بڑاسبق ہے، درس ہے، عبرت ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں سورج گرہن اور چاند گرہن ہوتا تو لوگ سمجھتے کہ یہ کسی کی موت یا زندگی کا کرشمہ ہے۔ جس دن اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا  اتفاق سے اسی دن آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی، کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات کے باعث سورج گرہن ہوا ہے ،  آپ ﷺ نے  اس جاہلی روایت کا قلع قمع کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ ( البخاري: 1044 ومسلم :901) 

"سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانی ہے کسی کی موت اور کسی کی زندگی کی وجہ سے اسے گہن نہیں لگتا"۔


سورج گرہن یا چاند گرہن کیوں ہوتا ہے؟
سورج گرہن اور چاند گرہن کا ایک حسی سبب ہے اور ایک شرعی سبب ہے۔ حسی سبب یہ ہے کہ سورج گرہن اس وقت ہوتا ہے جب چاند گردش کرتے ہوئے سورج اور زمین کے درمیان میں آجاتا ہے، اس کے بعد زمین سے سورج کا کچھ یا پورا حصہ نظر نہیں آتا۔ اس طرح اس کی روشنی مدھم پڑ جاتی یا دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اسے سورج گرہن کہتے ہیں۔  اور چاند گرہن تب  ہوتا ہے جب زمین کا سایہ گردش کے دوران چاند اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے تویہ سایہ چاند کی سطح پر پڑتا ہے اب  چاند تاریک نظر آنے لگتا ہے، اسے چاند گرہن کہتے ہیں۔
خلاصہ یہ سمجھیں کہ جب سورج اور زمین کے بیچ چاند حائل ہوجائے تو سورج گرہن ہوتا ہے اور جب چاند اور سورج کے بیچ زمین حائل ہوجائے تو چاند گرہن ہوتا ہے۔ 
اور شرعی سبب کو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے اس فرمان میں بیان کر دیا ہے:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِمَا عِبَادَهُ ، وَإِنَّهُمَا لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ ( البخاري: 1041 ومسلم :911)
"بیشک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانی ہے، ان کے ذریعہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، ان دونوں کو کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا، چنانچہ اگر تمہیں اس قسم کی کوئی نشانی نظر آئے تو فوری طور پر نماز پڑھو، اور دعا کرو یہاں تک کہ تم پر آئی ہوئی مصبیت ٹل جائے"۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانی ہے، اس  کے ذریعہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہذا جب سورج گرہن یا  چاند گرہن ہو تو بندہ مومن کو اللہ سے لو لگانا چاہیے، بکثرت توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور  نماز کی طرف لپکنا چاہیے۔

سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز کب پڑھی جائے گی؟
سورج گرہن یا چاند گرہن دیکھتے ہی نماز شروع کر دینی چاہیے اور اس وقت تک پڑھتے رہنا چاہیے جب تک گرہن دور نہ ہوجائے۔  کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا:
إذا رأيتم شيئاً من ذلك فصلوا حتى ينجلي (صحیح  مسلم: 904)  
اگر تم اس (سورج گرہن یا چاند گرہن ) میں سے کچھ بھی دیکھو تو نماز پڑھو، یہاں تک کہ آسمان صاف ہوجائے۔  گویا  مکمل گرہن دکھائی دینے کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ بلکی سی گرہن دکھائی دیتے ہی نماز کی طرف جلدی کرنی چاہیے۔ اور گرہن ختم ہونے تک بدستور نماز جاری رکھنا چاہیے، اگر گرہن ختم ہونے سے پہلے نماز ختم ہوگئی تو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بکثرت اللہ کا ذکر کیا جائے اور دعا کی جائے،اور اگر گرہن ختم ہوجائے اور نماز جاری ہو تو نماز کو ہلکی کرکے سلام پھیر دینا چاہیے۔ اگر کسی کو گرہن ختم ہونے کے بعد سورج یا چاند گرہن کی اطلاع ملی تو وہ نماز نہیں پڑھے گا کیونکہ وقت ختم ہوچکا ہے۔

سورج یا چاند گرہن کی نماز کہاں پڑھی جائے گی؟
سورج یا چاند گرہن کی نماز مسجد میں پڑھی جائے گی، اور افضل یہ ہے کہ جامع مسجد میں ادا کی جائے، البتہ محلے کی مسجد میں پڑھنے کی گنجائش ہے، خواتین کے لیے بھی افضل ہے کہ مسجد جاکر اس نماز میں شرکت کریں جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں صحابیات نے سورج گرہن کی نماز میں  شرکت کیا تھا ، لیکن عورتوں کے لیے گھر میں پڑھ لینے کی بھی گنجائش ہے، بلکہ مردوں کے لیے بھی گھر میں پڑھنے کی اجازت ہے لیکن مسجد میں پڑھنا افضل ہے۔

سورج گرہن یا چاند گرہن کی نماز کیسے  پڑھی جائے گی؟
سب سے پہلے لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ نماز کسوف کی ادا ئیگی کی جانے والی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا تو نماز کے لیے اعلان کرایا گیا کہ الصلاۃ جامعۃ نماز کسوف پڑھی جانے والی ہے، البتہ اس کے لیے نہ اذان دی جائے گی اور نہ اقامت کہی جائے گی۔
سورج گرہن اور چاند گرہن کی نماز دو رکعت پڑھی جائے گی، ہر رکعت میں دو قیام، دو قراءت، دو رکوع اور دو سجدہ ہوگا۔ پہلی رکعت میں  انسان تکبیر تحریمہ کہے، ثناء پڑھے، تعوذ اور تسمیہ کے بعد بآواز بلند چاہے رات ہو یا دن ہو سورہ فاتحہ پڑھے اور اس کے ساتھ کسی دوسری سورت کو ملاتے ہوئے لمبی قراءت کرے۔ پھر لمبا رکوع کرے۔ پھر رکوع سے سر اٹھا کر: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہے پھر حالت قیام میں دوبارہ سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کو ملا کر لمبی قراءت کرے، البتہ اس بار کی قراءت پہلی قراءت سے قدرے کم ہو گی۔ پھر دوسری بار لمبا رکوع کرے  لیکن یہ رکوع پہلے رکوع سے قدرے کم لمبا ہو گا۔ پھر رکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ  کہے۔ پھر دو لمبے لمبے سجدے کرے، اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیاں دیر تک بیٹھے۔ پھر دوسری رکعت کیلیے کھڑا ہو اور بالکل پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بھی ادا کرے لیکن دوسری رکعت کا ہر عمل پہلی رکعت کے اعمال سے قدرے چھوٹا ہو گا، پھر اس کے بعد تشہد کے لیے بیٹھے اور اخیر میں سلام پھیر دے۔  
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد چلے گئے اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور پھر لمبی قراءت فرمائی، پھر آپ نے تکبیر کہہ کر لمبا رکوع کیا، پھر آپ نے " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ۔۔۔" کہا اور کھڑے رہے سجدہ نہیں کیا ، پھر آپ نے دوبارہ  لمبی قراءت فرمائی لیکن یہ پہلی قراءت سے قدرے کم تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ تکبیر کہتے ہوئے لمبا رکوع کیا تاہم یہ پہلے رکوع سے کم  لمبا تھا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ "  کہا۔ پھر آپ سجدے میں چلے گئے اور پھر دوسری رکعت بھی اسی انداز سے پڑھائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز میں چار رکوع اور چار سجدے فرمائے "( صحیح بخاری: 1046 مسلم: 2129)
خطبہ
نماز کے بعد امام کو چاہیے کہ خطبہ دے جس میں لوگوں کو توبہ و استغفار کی دعوت دے، غفلت کے انجام سے آگاہ کرے، صدقہ و خیرات پر ابھارے، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے نماز کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا تھا:
إنَّ الشَّمْسَ والقَمَرَ آيَتانِ مِن آياتِ اللَّهِ، لا يَخْسِفانِ لِمَوْتِ أحَدٍ ولا لِحَياتِهِ، فإذا رَأَيْتُمْ ذلكَ، فادْعُوااللَّهَ، وكَبِّرُوا وصَلُّوا وتَصَدَّقُوا( صحیح البخاری: 1044)
"بیشک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے اسے گرہن نہیں لگتا، جب تک اسے دیکھو تو اللہ سے دعا کرو ، اللہ اکبر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو"۔

مسبوق کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ امام کو پہلے رکو ع میں پالیتا ہے تو اس کی رکعت شمار کرلی جائے گی، لہذا اگر مسبوق امام کو دوسرے رکوع میں پاتا ہے تو وہ رکعت اس کی شمار نہیں کی جائے گی۔ اور چھوٹی ہوئی رکعات کو مسبوق ویسے ہی دو قراءت، دو رکوع اور دو سجدے کے ساتھ ادا کرے گا، اور اگر گرہن بدستور قائم ہوتو اسے لمبی کرے گا البتہ  اگر گرہن ختم ہو چکا ہو تو ہلکی کرکے سلام پھیر  سکتا ہے۔   

مکمل تحریر >>

منگل, جولائی 09, 2019

کیا یہ ثابت ہے کہ تین دن تک اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کا انتظار کیا ؟

یہ روایت سنن أبی داود  میں عبداللہ بن ابی الحمساء سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ 

 بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعٍ ، قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ ، فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: يَا فَتًى لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ (ابوداؤد: 4996)

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ چیزیں باقی رہ گئیں، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لے کر آتا ہوں، میں بُھول گیا، یہاں تک کہ آج اور آئندہ کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا: ’’ تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔  

یہ حدیث ضعیف ہے، امام ابن الجوزی نے  "العلل المتناهية" (2/ 239)  میں لکھا ہے: " یہ حدیث صحیح نہیں ہے" ، اور امام البانی رحمہ اللہ نے بھی "ضعيف أبي داود" میں اسے ضعیف قرار دیا ہے.ضعف کی علت حدیث میں ایک مجہول راوی عبدالکریم کا وجود ہے . (دیکھیے : "تهذيب التهذيب" (6/ 373)، "لسان الميزان" (7/ 290)

جیسے اللہ کے رسول ﷺ ایفائے عہد میں شہرت رکھتے تھے ویسے ہی آپ ﷺ کے اصحاب بھی تھے، اس لیے یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے ایک صحابی سے وعدہ کریں اور وہ آپ کے وعدہ کو بھول جائے صحابہ کی طبیعت سے یہ بات بہرحال میل نہیں کھاتی ہے۔ 

مکمل تحریر >>