منگل, جولائی 09, 2019

کیا یہ ثابت ہے کہ تین دن تک اللہ کے رسول ﷺ نے ایک آدمی کا انتظار کیا ؟

یہ روایت سنن أبی داود  میں عبداللہ بن ابی الحمساء سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ 

 بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعٍ ، قَبْلَ أَنْ يُبْعَثَ ، وَبَقِيَتْ لَهُ بَقِيَّةٌ ، فَوَعَدْتُهُ أَنْ آتِيَهُ بِهَا فِي مَكَانِهِ، فَنَسِيتُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَجِئْتُ فَإِذَا هُوَ فِي مَكَانِهِ، فَقَالَ: يَا فَتًى لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُكَ (ابوداؤد: 4996)

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خرید و فروخت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ چیزیں باقی رہ گئیں، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں یہاں لے کر آتا ہوں، میں بُھول گیا، یہاں تک کہ آج اور آئندہ کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا: ’’ تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔  

یہ حدیث ضعیف ہے، امام ابن الجوزی نے  "العلل المتناهية" (2/ 239)  میں لکھا ہے: " یہ حدیث صحیح نہیں ہے" ، اور امام البانی رحمہ اللہ نے بھی "ضعيف أبي داود" میں اسے ضعیف قرار دیا ہے.ضعف کی علت حدیث میں ایک مجہول راوی عبدالکریم کا وجود ہے . (دیکھیے : "تهذيب التهذيب" (6/ 373)، "لسان الميزان" (7/ 290)

جیسے اللہ کے رسول ﷺ ایفائے عہد میں شہرت رکھتے تھے ویسے ہی آپ ﷺ کے اصحاب بھی تھے، اس لیے یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے ایک صحابی سے وعدہ کریں اور وہ آپ کے وعدہ کو بھول جائے صحابہ کی طبیعت سے یہ بات بہرحال میل نہیں کھاتی ہے۔ 

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔