جمعرات, اگست 08, 2013

وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے


وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے. جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے، اپنی زندگی کے رات اور دن بتاتا ہے، جہاں اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں، جہاں اسکے دوستوں، والدین، دادا دادی کا پیار پایا جاتا ہے۔ وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے، وہاں کی گلی ، وہاں کے درو دیوار، وہاں کے پہاڑ، گھاٹیاں، چٹان، پانی اور ہوائیں، ندی نالے، کھیت کھلیان غرضیکہ وہاں کی ایک ایک چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہیں
.
تارک وطن ہونے کی حیثیت سے ہم سب کو اس کا صحیح تجربہ ہوگا،کسی کو اگر اپنے ملک کے کسی کونے میں کمانے کے لیے جانا ہوتا ہے تو اس کا اتنا دل نہیں پھٹتا جتنا ایک تارك وطن کا پھٹتا ہے جب بیرون ملک جا رہا ہوتا ہے کیوں؟ وجہ صرف یہی ہے کہ وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں داخل ہے ،اِسی لیے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں انہیں کبھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیاجاتا، اِس کے برعکس جو لوگ ملک کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ ہوتے ہیں ۔ وطن سے محبت کے اس فطری جذبہ کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایسا پرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنے وطن کی اچھی خدمت کر سکے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے جنہوں نے زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی فرمادی، یہاں تک کہ وطن سے محبت کرکے بھی یہ پیغام دیا کہ مسلمان سب سے پہلے اپنے وطن سے محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ سنئیے یہ الفاظ
اے مکہ تو کتنی مقدس سرزمین ہے … کتنی پیاری دھرتی ہے میری نظر میں …. اگر میری قوم نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں یہاں سے نہ نکلتا. “(ترمذی(
یہ الفاظ نکلے ہوئے ہیں اس عظیم شخصیت کی مقدس زبان سے ….جنہیں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں اور اس وقت نکلے تھے جبکہ انہیں نکالا جا رہا تھا اپنے وطن سے. محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نہ نکلتے اگرانہیں نکالا نہ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی ایذیتیں جھيلیں پر اپنے وطن میں رہنے کوترجیح دی، لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا تومرتے کیا نہ کرتے، نہ چاہتے ہوئے بھی مکہ سے نکلتے ہیں، نکلتے وقت دل پر اداسی چھائی ہوئی ہے. اور زبان پرمذكورہ جملہ جارى تھا، جس کا لفظ لفظ دل میں وطن سے بھرپورمحبت اور لگاؤ کا احساس پیدا کرتا ہے، پھرجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آتے ہیں اورمدینہ کی آب وہوا موافق نہیں ہوتی ہے تو بلال رضی اللہ عنہ کی زبان سے مکہ والوں کے حق میں بد دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ اس وقت آپ سرزمين مدینہ کے ليے دعا فرماتے ہیں:
”اے اللہ ہمارے دل میں مدینہ سے ویسے ہی محبت ڈال دے جیسے مکہ سے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ. “(بخاری، مسلم(
اسلام نے ملک کے امن وامان کو غارت کرنے والوں کے ليے سخت سے سخت سزا سنائی ہے، صرف اس ليے کہ کسی کو ملک میں دہشت پھیلانے کی جرأت نہ ہو، قرآن نے کہا :
"جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد مچاتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے، یا ان کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے یا ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاوں کاٹ دیا جائے، یا انہیں ملک بدر کر دیا جائے". (المائدہ 33)
اسلام ہر اس کام کا حکم دیتا ہے جس سے ریاست کے لوگوں کے درمیان تعلق مضبوط رہے. اسلام نے وطن سے محبت کے تحت ہی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے. اسے بہت بڑی نیکی قرار دیا ہے اورقطع رحمی کوفساد کا موجب بتایا ہے، تعلق قائم کرنے کی حد اس قدر وسیع ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 " تم میں کا ایک شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے ليے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" ( بخارى و مسلم) 
 بلکہ اسلام نے عالمی برادری کا تصور پیش کرتے ہوئے سارے انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد قرار دیا اور ان کے درمیان ہر قسم کے بھید بھاؤ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا شخص وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ خوف رکھنے والا ہو، اسی ليے محمد صلی اللہ علیہ وسلم. نے حکم دیا کہ “جس کسی نے کسی امن سے رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا، یا اس کے حق میں کسی قسم کی کمی کی، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر کام کا بوجھ ڈالا، یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز لے لی تو میں کل قیامت کے دن اس کا حریف ہوں گا.
بلکہ اسلام نے جانوروں، پودوں اور پتھروں کے ساتھ بهى اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ :
 " اگر قیامت ہونے ہونے کو ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہو تو اسے لگا دو کہ اس میں بھی ثواب ہے" ( صحيح الجامع 1424 )
یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ مسلمان محب وطن ہوتا ہے وطن پرست نہیں، کتنے ہندو مسلمانوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ اپنے ملک سے زیادہ محبت کرتے ہیں یا اپنے مذہب سے …؟ ایسے لوگوں کوآپ جواب دیں کہ یہ سوال ایسا ہی ہے گویا کسی سے کہا جائے : تم پہلے اپنے باپ کا بیٹا ہو یا ماں کا، اس کا جواب یہ ہے کہ میں اپنے باپ کا بھی بیٹا ہوں اور ماں کا بھی۔ مسلمان ہونے کے ناطے میرا مذہب اسلام ہے اور ہندوستانی ہونے کے ناطے میرا ملک ہندوستان ہے ۔ایک مسلمان اپنے وطن سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ اس کی راہ میں جان دینے کے لیے بھی تیار ہوسکتا ہے، چنانچہ جب ہندوستان پر تن کے گوروں اورمن کے کالوں نے استعماری پنجہ جمایا تو سب سے پہلے ہندوستانی علماءنے آزادی کی تحریک چلائی اور 1857 سے پہلے تک تنہا میدان میں رہے ، پھربعد میں ہندوستان کی تمام قوموں کوساتھ لیا اورتحریک کوآگے بڑھایا یہاں تک کہ ان سورماؤں کی قربانیاں رنگ لائیں اور 1947 ء میں ہمارا ديش ہندوستان آزاد ہوا ۔
وطن سے محبت صرف جذبات تک محدود نہیں ہوناچاہیے بلکہ ہمارے گفتاراورکردار میں بھی آ جائے، ہمیں سب سے پہلے اپنے وطن کے امن و سلامتی کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہئے کیونکہ دعا میں دل کی سچائی کا مظاہرہ ہوتا ہے. اس میں جھوٹ، اورنمائش نہیں ہوتی ،بلکہ اللہ کے ساتھ براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ پھر ہمیں اللہ اوراس کے رسول کے حکم کو اپنے ہاں رواج دینا چاہیے کہ اطاعت اللہ اوراس کے رسول کی ہی ہوسکتی ہے ۔ وطن کی سلامتی اِس امر میں ہے کہ لوگوں کے مال، جان،عزت اورخون کی حفاظت کی جائے ،ملک کے مفادات کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں اور ملک کو ہر طرح کے کرپشن اور بدعنوانی سے پاک رکھیں ۔ معاشرے میں امن وامان کو پھیلانے کی کوشش کریں، ظلم وزیادتی کے ہر عمل سے خودکو بچائیں اور معاشرے کے امن کو غارت کرنے والوں کو معاشرے کے لیے ناسور سمجھیں اورانہیں کیفرکردار تک پہنچانے میں جماعت کا ساتھ دیں۔ اب ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اب تک اپنے ملک کے لئے کیا کیا ہے. ملک کی ترقی میں کتنا حصہ لیا ہے. عوامی بہبود کے لیے کیا کیا ہے. عوامی بیداری مہم میں کس حد تک حصہ لیا ہے،آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ بھارت کی ترقی کے لئے تعلیم اور عوامی بہبود کے میدان میں جو بھی قربانیاں ہو سکتی ہوں دینے کاوعدہ کریں۔
عزیزقاری ! جس طرح ہمارا اپنا وطن جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں ہماری نظرمیں پیار اہے وہیں کویت ہمارا دوسرا وطن ہے جہاں ہم برسرروزگار ہیں، ہمیں اس دھرتی سے بھی پیار ہونا چاہیے۔ لیکن محض روزگار ملنے کے سبب نہیں بلکہ اس لیے کہ آج اِس دھرتی کا خیر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے، اسلام اورمسلمانوں کوفائدہ ہورہا ہے ۔ کویت کے ہرعلاقے میں آپ کو دینی کمیٹیاں ملیں گی جو دین کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں ، اس چھوٹے سے ملک میں معاش کی تلاش میں آنے والوں میں سے آدھے سے زیادہ لوگ برصغیر ہندو پاک کے ہیں ، لہذا ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کویت کے امن وامان میں ہمارا بھی کردار ہو، کویت کا مفاد ہمارا بھی مفاد ہو، ہم بھی ان کی خوشی اورغم میں برابر کے شریک ہوں ، ان کی خوشی ہماری خوشی ہواوراُن کا غم ہمار اغم ہو۔
دعا ہے کہ اللہ پاک کویت کی حفاظت فرمائے ،امیر کویت کو سلامت رکھے، اہل کویت کو خیر کا پیغامبر بنائے ،اورکویت میں امن وامان کو بحال رکھے آمین یا رب العالمین ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔