بدھ, نومبر 07, 2012

فرض اورسنت نمازوں کی ادائیگی میں فرق


سوال :

کیا  فرائض اورسنتوں کی ادئیگی میں کوئی فرق ہے ؟ مثلاًجب ہم ظہر کی چاررکعت فرض ادا کرتے ہیں تودو رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ ملاتے ہیں جبکہ باقی دورکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھتے ہیں ،اب اگرہمیں ظہر میں فرض سے قبل چاررکعت سنت کی ادائیگی کرنی ہو تو کیا پہلی دورکعت میں سورة فاتحہ کے بعد سورة ملائیں گے اور آخری دو رکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھیں گے ۔براہ کرم بالتفصیل جواب دیں ۔ 

                                                         (آفتاب عالم ندوی ۔ کٹکو، صبحان (

جواب :

افضل یہ ہے کہ رات اوردن کی سنتیںاورنوافل دو دو رکعت کرکے ادا کئے جائیں کیوںکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  کا فرمان ہے : صلاة اللیل والنھار مثنی مثنی ”رات اور دن کی نمازیں دو دو رکعت کرکے ادا کی جائیں“ (احمد، ابوداود، ترمذی،نسائی ، ابن ماجہ) اور ایسی حالت میں دونوں رکعتوںمیںسورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ بھی پڑھنی چاہیے ۔

البتہ ظہر کی چار رکعات کو ایک سلام میں بھی ادا کرنے کی گنجائش ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پرکہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم زوال کے بعد چاررکعت پڑھتے تھے اورآخری رکعت میں ہی سلام پھیرتے تھے ۔ “۔ (ترمذی۔ وقال الالبانی : اسنادہ صحیح (

 لہذا اگرکوئی ایک ہی ساتھ چار رکعات ادا کررہا ہوتو اس میں بعض علماءتشہد کرنے کے قائل ہیں اوراس صورت میں دوسری آخری رکعتوںمیں سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ نہیں پڑھی جائے گی جبکہ دوسرے علماءتشہد کے بغیر ایک ہی سلام میں چاررکعت ادا کرنے کے قائل ہیں اوراس صورت میں چاروںرکعتوںمیں سورہ فاتحہ کے بعد سورتیں پڑھی جائیں گی ۔بہرکیف اس مسئلہ میں وسعت اورگنجائش ہے ۔


مکمل تحریر >>

احمد ”لوسيو“ کے قبولِ اسلام کی داستان

 ميرا نام احمد فہد (لوسيو سی ڈو ريگو ) ہے، ميں ہندوستان کی معروف رياست گوا کا رہنے والا ہوں، ميری پيدائش عيسائی گھرانے ميں ہوئی تاہم اللہ تعالی نے مجھے اسلام کی توفيق بخشی اور ميں نے اسلام کو گلے لگاليا ، مسلم گھرانے کی ايک ديندار لڑکی سے دوسال قبل شادی کی ہے اور فی الحال ہندوستان ميں اہل خانہ کے ہمراہ خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں ۔
 جب ميں کويت ميں تھا تواسی وقت اللہ تعالی ٰ نے مجھے اسلام کی دولت سے مالامال کيا ۔ ميں عيسائی مذہب کا کوئی خاص پابند تو نہيں تھا اور نہ ہی ميں نے کوئی خاص عيسائيت کا مطالعہ ہی کيا تھا تاہم اِتنا ضرور ہے کہ ہر ہفتہ چرچ جايا کرتا تھا اور سمجھتا تھا کہ ميں عيسائی ہوں لہذا کسی دوسرے مذہب سے مجھے کوئی سروکار نہيں ۔ ايک مرتبہ ميرا ايک ساتھی جو ميرے بازو فليٹ ميں رہتا تھا ipc کی کچھ کتابيں لايا اور ميرے ٹيبل پر رکھ ديا نيز تاکيد کی کہ ميں ان کتابوں کا مطالعہ کروں ۔ ميں نے برجستہ اسے جواب ديا کہ:
” ميں عيسائی ہوں، اسلام کی بابت قطعا کچھ نہيں پڑھ سکتا“۔
کئی بار ميں نے ان کتابوں کو اپنے ٹيبل سے ہٹايا اور وہ تھا کہ بڑے اخلاق سے ملتا اور وہی کتابيں ميرے غائبانہ ميں ميرے ٹيبل پر رکھ ديتا۔ ايک دن کی بات ہے، ميں اپنے روم ميں بيٹھا ہوا تھا، ميرے ساتھی نے حسب معمول انگريزی ميں کچھ اسلامی کتابيں ميرے ٹيبل پر رکھ چھوڑاتھا، جب ميں نے ان ميں سے ايک کتاب اٹھا کرپڑھاتومجھے بہت اچھی لگی، اسی وقت ميرا ذہن بدل گيا،ميں نے اس کا مطالعہ شروع کرديا، جب ميرے اس ساتھی سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو ميں نے اسے کہا کہ ميں مزيد کچھ  کتابيں پڑھنا چاہتا ہوں،يہ طلب کيا تھا،گويا اس کے پورے جسم ميں خوشی کی لہر دوڑ گئی، 

اس نے فرط مسرت سے مجھے دبوچ ليا، اور اسی روز ipc سے کتابيں لاکر ميرے حوالے کردی ۔ ميں نے جب اسلام کا مطالعہ کيا تو اسلام کی حقانيت ميرے دل ميں بيٹھتی گئی اور عيسائيت کے پول کھلتے گئے بالآخر ايک دن ميں ipc آيا ، ميرے چند اشکالات تھے ان کا بھی تشفی بخش جواب دے ديا گيا ۔ چنانچہ ميں نے اسی دن اسلام قبول کرنے کا فيصلہ کيا اور کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے خالق ومالک کا ہو رہا الحمدللہ علی ذلک“۔ 
مکمل تحریر >>

منگل, نومبر 06, 2012

خطبہ کے دوران تلوار، نیزے یا لاٹھی کا سہارا لینا


اس سلسلے میں علماء کا دو قول ہے جمہور علماء نے اسے مستحب قرار دیا ہے جبکہ محققین کے نزدیک وہ روایت جس میں ٹیک لگانے کا ذکر آیا ہے کمزور ہے.
شيخ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
”اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ نے منبر بنانے کے بعد کسی چیز کا سہارا لیا ہو ۔ اب اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ سہارا لینا ضرورت کے تحت ہوگا، اگر خطیب کو سہارا ضرورت ہے تو اسے ٹیک لگانے میں کوئی حرج نہیں" ۔ الشرح الممتع

مکمل تحریر >>

جمعرات, نومبر 01, 2012

دل سے دل تک

ماہنامہ مصباح نومبر2012ء کا شمارہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ،اس کا پہلا شمارہ نومبر 2008 ء میں منظرعام پرآیا تھا جب سے ہرماہ مسلسل پابندی کے ساتھ شائع ہورہا ہے ،اس طرح اب تک ہم نے مصباح کے4 سال مکمل کرلیے ہیں، چارسال کی اس طویل مسافت میں ایک ہی مقصد ہمارے پیش نظررہا جس کا اعادہ ہم نے باربار اپنے اداریہ میں کیاہے کہ قوم مسلم کے اندر اپنی ذات کا عرفان آجائے، وہ اپنے مقام اورمنصب کوپہچان لے، اسکے اندرآفاقی شعور پیدا ہوجائے، اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوجائے کہ وہ لینے والی قوم نہیں بلکہ دینے والی قوم ہے کہ اس دھرتی پر مسلمانوں کا وجود پوری انسانیت کے لیے نیک فال ہے،کیونکہ انسانیت کی بقا اور تحفظ کے لیے جس نسخہ کیمیا کی ضرورت ہے وہ مسلمانوںہی کے پاس ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں نے بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری نبھائی ، چنانچہ وہ جہاں گئے وہاں کے لوگ ان کے ہمنوا بنتے گئے ،ان کے اخلاق ، ان کے کردار اور ان کے قول وفعل سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہے ،اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ جس دین کے ماننے والے ایسی خوبیوں کے حامل ہوں وہ دین آگ اورپانی کے جیسے ہر انسان کی میراث ہے ۔
اس رسالے کے توسط سے جب ہم اپنی کوششوںکا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ کہنے میں بجاطورپرفخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے بہت حدتک اپنی قوم کی ذہن سازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،کیا یہ کم ہے کہ رسالہ کے قارئین کویت کے کونے کونے میں پائے جاتے ہیںجوتازہ شمارہ کے لیے بے تاب رہتے ہیں،دیگرگلف کنٹریز اور برصغیرپاک وہند کے لوگ نیٹ پراس کا مطالعہ کررہے ہیں، ہمیں بیرون ممالک کے مختلف اداروں سے رسالے کے لیے خطوط موصول ہوئے ہیں لیکن اب تک ہم نے رسمی طورپر کویت سے باہربھیجنا شروع نہیں کیاہے،اس لیے ہمیں ان سے معذرت کرنی پڑی، لیکن آئندہ کے لیے ہماراعزم ضرورہے کہ پاک وہند کے مرکزی اداروں کورسالہ بھیجا جائے، کویت میں دس ہزار کی تعداد میں چھپنے والے اس رسالے کو تقسیم کرنے کے لیے ہمارے پاس ایسے افراد تیار ہوچکے ہیں جورسالہ آنے سے پہلے کئی بار فون کرچکے ہوتے ہیں، پھر وہ اسے اپنے کندھوں پرلاد کر آپ تک پہنچاتے ہیں،وہ اچھے تعلیم یافتہ ہیں،وہ خوشحال اورفارغ البال ہیں،وہ رضاکارانہ خدمت انجام دیتے ہیں،ان کواس کام پرکوئی معاوضہ نہیں ملتا، لیکن دین اورقوم کی خدمت کے جذبہ سے یہ کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،ہم نے ایسے قلمکاران کی بھی سہولت حاصل کرلی ہے جوہمہ وقت مفت خدمت کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، اپنی بے شمارمصروفیات کے باوجود ہمیں پابندی کے ساتھ اپنی نگارشات روانہ کرتے رہتے ہیں، ہمارے پاس کتنے ایسے نوجوان ہیں جودعوت کی راہ میں وقت لگا رہے ہیں، تعطیل کے ایام میں دعوتی سرگرمیوں میں لگے ہوتے ہیں، ایسے نوجوانوں کو دیکھ کرہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔
 ہم مالک عرش بریں کے حضور اپنے ان تمام احباب کے لیے دعا گو ہیں کہ ا لہ العالمین توان سب کی قربانیوںکو اپنی رضا کے لیے قبول فرمالے ،ان کی لغزشوں کو معاف فرمادے ،ان کی روزی میں برکت عطا فرما،ان کی اولاد کونیک اورصالح بنا اورانہیں ہمیشہ صحتباب اور شادکام رکھ ،آمین ۔

یہ تو ہماری کاوشوں کا روشن پہلو تھا لیکن ابھی بھی ہمارے پیچھے ایک بہت بڑی جماعت ہے جو اپنی خول میں بند ہے، ہم کویت جیسے خوشحال ملک میں برسرروزگار ہیں ، ہماری مالی حالت بحیثیت مجموعی پہلے سے بہت اچھی ہے ،ہمارے بچے آرام وآسائش سے جی رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی اس عظیم نعمت سے اپنی ذات کو کس حدتک فائدہ پہنچا یااور ہم سے ہماری قوم اورمعاشرے کو کیاملا ؟ افسوس کہ آج بھی ہماری اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ صبح سویرے اٹھتے ہیں، ڈیوٹی پر جاتے ہیں،ڈیوٹی سے آنے کے بعد ضروری تقاضے پوری کرتے ہیں، ساتھیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتے ہیں یا ٹیلیویژن کے سکرین پر نشرہونے والے پروگرامز کامشاہدہ کرتے ہوئے محوخواب ہوجاتے ہیں۔ تقریباً یہی ہمارے روزانہ کا معمول بن چکا ہے، دس سال پہلے ہماری جو سوچ وفکرتھی تاہنوز وہی سوچ برقرار ہے ، ہمارے معاملات جوں کا توں ہیں، نہ ہم نے اپنی شخصیت سازی پر دھیان دیا اور نہ قوم کے مفاد کے بارے میں سوچا ۔ حالانکہ یہ بڑے عیب کی بات ہے اورایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے کہ مسلمان اپنی ذات کے لیے پیدا نہیں ہوابلکہ اسے انسانیت کی خاطر وجودمیں لایا گیا ہے ،مسلمان حرکت ، جوش ، لگن اورشعورکا نام ہے ،آج باطل ادیان ومذاہب کے علمبردار چست اور سرگرم ہیں اورہم سست اور تن آسان بنے ہوئے ہیں، دشمن متحد ہوکر اسلام کے خلاف منظم پلاننگ کررہا ہے اورہم ہیں کہ خواب خرگوش میں پڑے ہوئے ہیں ، ہم آئے دن انتشار کا شکارہوتے جارہے ہیں، ایک دوسرے کو مطعون کرنے میں لگے ہوئے ہیں، قرآن اورحدیث کو اپنا دستورحیات بناکر ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونے کے لیے تیار نہیں، کتنے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اسلام کے خلاف زہرافشانی کے لیے وقف ہیں،اورہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر ہماری ایسی حالت کب تک رہے گی ؟کب ہمیں اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوگا ؟کب ہم آفاقی سوچ کے علمبردار بنیں گے ؟
اس لیے موجودہ حالات میں ہمیں اپنا احتساب کرنا ہے اورفوری قدم اٹھاناہے کہ اب انتظار کاموقع نہیں رہا ۔

مکمل تحریر >>