بدھ, جون 13, 2012

موسم گرما کی تعطیل اور سمر کورسیز کی اہمیت


ابھی ہم موسم گرما کی تعطیل سے گزر رہے ہیں، گوکہ ہم میں سے اکثر لوگوں کے معمولاتِ زندگی اس سے متاثر نہ ہوئے ہوں گے مگر اتنا توضرور ہے کہ ہمارے بچے چھٹیاں منا رہے ہیں، تعطیل کے ایام میں بچے درسگاہوں سے دور ہوجاتے ہیں اور ان کے سارے اوقات گھر پر گزرتے ہیں ، اس مناسبت سے بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری والدین کے سر آجاتی ہے۔ اکثر بچے اپنی چھٹیوں کو کھیل کود میں ضائع کردیتے ہیں، کتنے انٹرنیٹ کیفوں میں وقت گزاری کرتے ہیں، کتنے ٹیلیویژن چینل کے دیوانے بن جاتے ہیں، کتنے بُرے دوستوں کی صحبت اختیار کرلیتے ہیں، اس طرح تعطیل ان کے لیے ذہنی تفریح کا سبب بننے کی بجائے وبال جان بن جاتی ہے ۔
دوسرے ناحیہ سے جب ہم عصری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم پرغورکرتے ہیں توکلیجہ منہ کو آتاہے،ہمارے بچوں کو جو نصاب پڑھایاجاتا ہے اس میں مادیت کو سب کچھ گردانا گیا ہے، اسے پڑھ کر بچہ یہی سیکھتا ہے کہ دنیا کماؤ چاہے جیسے بھی ہو، آج مسلمانوں کے اندر تعلیمی شعور ضرور پیدا ہوا ہے ، اپنے بچوں اوربچیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلارہے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعلی تعلیم کے ذوق نے مسلم معاشرے کو شریعت سے بیگانہ کردیا ہے ، مخلوط تعلیم نے ایسی فحاشی اور عریانیت پھیلائی ہے کہ ہماری مسلم لڑکیاں اپنی پہچان کھونے لگی ہیں، کتنی مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکو ں سے شادیاں کررہی ہیں، کتنے مسلم بچے رواداری اور روشن خیالی کے نام پر ٹویٹر، فیس بک اور بلوگز پر اسلام کے تعلق سے معذرت خواہانہ باتیں لکھ رہے ہیں اورکچھ تو صراحت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ قتل اولاد کا یہ وہ مہذب طریقہ ہے جس پر آج والدین شرمندہ نہیں بلکہ فخرمحسوس کررہے ہیں ، اکبر الہ آبادی نے اسی دور کی ترجمانی کی تھی
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا 
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

جی ہاں! یہ قتل ہی ہے جس پر فخر کیا جارہا ہے ، لیکن یہ کوئی جسمانی قتل نہیں ہے بلکہ روحانی قتل ہے ، ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ پہلے مسلمانوں کے اندر اپنے بچوں کو مکاتب ومدارس میں دینی تعلیم دلانے کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے کم ازکم بچے بچپن میں دین کے مبادیات سے آگاہ ہوجاتے تھے لیکن اب انگلش میڈیم سکولوں کے عام ہونے کی وجہ سے بچے اللہ اور رسول کا نام تک نہیں جان پاتے، وہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے ، وہاں بے حجابی اور بے پردگی کو تہذیب کا نام دیا جاتا ہے ، وہاں پردہ کو رجعت پسندی کی علامت سمجھاجاتا ہے، وہاں اسلامی تہذیب کی تضحیک کی جاتی ہے، ایسے ماحول میں جب ہمارے بچے پڑھیں گے تو ظاہر ہے اسی تہذیب کے دلدادہ بنیں گے ،اسی ماحول کا گن گائیں گے ،اسى کی بولیاں بوليں گے

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

یادرکھیں! بچے ہماری امانت ہیں ،اورکل قیامت کے دن ان کے تئیں ہم سے بازپرس ہونے والی ہے ۔ اگراس سمت میں غفلت برتی گئی تو نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوں گے ، ہمارے معاشرے میں کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین پیدا ہوسکتے ہیں ۔ آخر اس علم سے کیا فائدہ جس سے انسان عارضی دنیا توکما لے ،لیکن خالق حقیقی کا عرفان نہ حاصل کرسکے ، اس علم کا کیا حاصل جس سے مسلم معاشرہ میں لادینیت پھیلے ، ہماری باتوں سے کوئی یہ نتیجہ نہ نکالے کہ ہم عصری تعلیم کے مخالف ہیں، نہیں، بلکہ ہم عصری تعلیم کی ہمت افزائی کرتے ہیں، آج مسلمانوں میں ڈاکٹرس ،انجینیرس اور سائنسدانوں کی بیحد ضرورت ہے، اور اگر اللہ پاک نے ہمیں مالی وسعت دے رکھی ہے تو ہم اپنے بچوں کواعلی سے اعلی تعلیم دلائیں، لیکن دین کو نظر انداز کرکے نہیں ….اس مناسبت سے قوم کے سربرآوردہ اشخاص کے نام ہمارا پیغام ہوگا کہ جس طرح ارباب مدارس بچوں اوربچیوں کی دینی تعلیم کے لیے الگ ادارے قائم کررہے ہیں اسی طرح بچے اوربچیوں کی عصری تعلیم کے لیے بھی الگ الگ ادارے قائم کئے جائیں جن میں دینی ماحول فراہم کیاگیا ہو ، الحمدللہ بعض مقامات پر اس قبیل کی کوششیں ہورہی ہیں، جن کے نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں، ایسے اداروںکی ملک کے کونے کونے میں ضرورت ہے، اوریہ کام ہماری فوری توجہ کا مستحق ہے ۔
اسی کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج کے اس دورمیں جدید ٹکنالوجی کی بدولت دنیا ایک گھرکی شکل اختیار کرچکی ہے ، ایسے حالات میں مغربی تہذیب کے اثرات سے ہم اپنے بچوں کو بالکلیہ نہیں بچا سکتے ، الکٹرونک میڈیا کے اپنے اثرات ہیں ، ماحول کے اپنے اثرات ہیں ، درسگاہوں کے اپنے اثرات ہیں اورنصاب تعلیم کے اپنے اثرات ہیں۔ اس لیے موسم گرما کی تعطیلات تربیت کے ناحیہ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں، بالخصوص وہ بچے جو عصری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں ان کی دینی تربیت کے لیے سنہری فرصت ہے، اس لیے والدین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعطیل کو ان کی دینی تربیت کے لیے کارآمد بنائیں۔ گھرمیں دینی ماحول ہو، ٹیلیویژن اورانٹرنیٹ کااستعمال سرپرست کی نگرانی میں ہو، دینی محفلوں اور دروس میں بچوں کو شریک کریں، مساجد کے ائمہ وخطباءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مناسبت سے لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں، مسلم کمیونٹیزاورسماج کے سربرآوردہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے سمرکیمپ کا اہتمام کریں جس میں بچوں کے لیے دینی تربیت کے ساتھ ذہنی وفکری تفریح کا سامان فراہم کیا گیا ہو۔ 


الحمدللہ کویت میں مختلف دینی کمیٹیاں دینی ماحول میں سمر کیمپ کا اہتمام کرتی ہیں ،بچوں کے سرپرست کوچاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسے کیمپ سے استفادہ کرنے کا بھرپورموقع فراہم کریں اوراس سلسلے میں کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہی بچے مستقبل میں قوم کے رکھوالے اورمعمار بننے والے ہیں اور ان کی نیکی کا فائدہ خود ہمیں دنیا اورآخرت میں ملنے والا ہے۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, جون 07, 2012

برما کے مسلمانوں کی حالت زاراور ہماری ذمہ داریاں


ملک شام اورفلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ درندگی کے مظاہر ے ہوہی رہے ہیں کہ اسی بیچ ایک دوسرا زخم ہرا ہوگیا یعنی اراکان کے مسلمان بودھسٹوں کے ظلم وستم کی چکی میں بُری طرح پسنے لگے، اوربرما حکومت اوربدھ مت کی دہشت گردانہ کاروائی میں 3 جون سے 12جون تک پچاس ہزارسے زائد مسلمان جان بحق ہوگئے ۔
اراکان وہ سرزمین ہے جہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہدِ خلافت میںمسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا ، اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی،اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثرہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اورایسی قوت کے مالک بن بیٹھے کہ 1430ءمیں سلیمان شاہ کے ہاتھو ں اسلامی حکومت کی تشکیل کرلی، اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسجدیں بنائی گئیں ، قرآنی حلقے قائم کئے گئے ، مدارس وجامعات کھولے گئے ، ان کی کرنسی پر’ لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ ‘کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے ابوبکر عمرعثمان اور علی نام درج ہوتا تھا ۔ اس ملک کے پڑوس میں برما تھا جہاں بدھسٹوں کی حکومت تھی ، مسلم حکمرانی بودھسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784ءمیں اراکان پر حملہ کردیا، بالآخر اراکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، اسے برما میں ضم کرلیااوراس کا نام بدل کر میانمار رکھ دیا۔
1824ء میں برما برطانیہ کی غلامی میں چلا گیا، سوسال سے زائدعرصہ غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد1938ءمیں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی، آزادی کے بعدانہوں نے پہلی فرصت میں مسلم مٹاؤپالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی، دعاة پر حملے کئے ، مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا ،چنانچہ پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے،کتنے لوگ پڑوسی ملک بنگلادیش ہجرت کرگئے، مسلمانوں کی حالت زاردیکھ کر ملک فہد نے ان کے لیے ہجرت کا دروازہ کھول دیا، اس طرح ان کی اچھی خاصی تعداد نے مکہ میں بودوباش اختیارکرلی ،آج مکہ کے باشندگان میں 25فیصد اراکان کے مسلمان ہیں ۔ اس طرح مختلف اوقات میں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا گیا، جولوگ ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی شروع کردی گئی،دعوت پر پابندی ڈال دی گئی ، دعاة کی سرگرمیوں پرروک لگادی گئی، مسلمانوں کے اوقاف چراگاہوں میں بدل دئیے گئے ، برما کی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی مسجدوں کی بے حرمتی کی،مساجدومدارس کی تعمیر پر قدغن لگا دیا ،لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی ،مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے ،1982میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیا گیا، اس طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی ، ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال عمر کی تحدید کی گئی ، شادی کی کاروائی کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیا گیا ، خانگی زندگی سے متعلقہ سخت سے سخت قانون بنائے گئے۔ ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں،ان کے بچے ننگے بدن ،ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی عورتیں مردوںکے ہمراہ کھیتوں میں رزاعت کا کام کرکے گذربسر کرتی ہیں ۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے سنگین اورروح فرسا حالات میں بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے متعلق بھی یہ رپورٹ نہ ملی کہ دنیاکی لالچ میں اپنے ایمان کا سودا کیاہو۔
جون کے اوائل میں10دعاة مسلم بستیوںمیں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے اور مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے کہ بودھسٹوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی ،انہیں مارا پیٹا ، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے ،ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے ، مسلمانوں نے اپنے دعاة کی ایسی بے حرمتی دیکھی تواحتجاج کیا، پھر کیا تھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا،انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا،پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا۔ جان کے خوف سے 9ہزار لوگوںنے جب بری اور بحری راستوں سے بنگلادیش کا رخ کیا تو بنگلادیشی حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا ۔
یہ ہیں وہ حالات جن سے اراکان کے مسلمان حالیہ دنوں گذر رہے ہیں،مظلوموںکی آہیں، یتیموں اور بیواؤں کی چینخ وپکار،اورخانہ بدوش مسلمانوں کی سسکیاں آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں اورضمیر کو کچوکے لگاتی ہیں کہ کہاں ہے غیرت مسلم ….؟ کہاں ہے ہمارے مسلم حکمراں کا سیاسی رول…. ؟ کہاں ہے رفاہی اداروں اورعالمی تنظیموں کی دادرسی ….؟
ہماری بات اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی ،عالمی تنظیموں کوجھنجھوڑنہیں سکتی لیکن آپ کے سمندغیرت کو تازیانہ ضرورلگاسکتی ہے ، آپ کے احساس کوضروربیدار کرسکتی ہے کہ آپ تک مظلوم مسلمانوں کی حالت زارپہنچ چکی ہے ۔

 توآئیے !رحمت ومغفرت اورمواسات وغم خواری کے اس ماہ مبارک میں اراکان کے مظلوم مسلمانوں کے لیے گڑگڑاکراللہ کے حضورمخلصانہ دعائیں کریں ، اوراپنے پاکیزہ مالوں کی زکاة وصدقات سے ان کی داد رسی کریں کہ یہ دینی اخوت کا ادنی تقاضا ہے۔
مکمل تحریر >>

بدھ, جون 06, 2012

ایمان کیا ہے ؟


ایمان وہ بنیاد ہے جس پر دین قائم ہوتا ہے، اوراعمال کی قبولیت کے لیے بھی ایمان کا صحیح ہونا ضروری ہے، جس طرح انسانی جسم میں سر کو اوردرخت میں تنے کواہمیت حاصل ہے کہ اگر سر نہیں تو انسانی جسم کا وجود نہیں اورتنا نہیں تو درخت کا وجود نہیں اسی طرح اگر انسان کے اندر ایمان نہیں تو اسلام کا وجود ہی نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سارے انبیاء ورسل نے اپنی اپنی قوم کوسب سے پہلے ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی اورغیراللہ کی عبادت سے منع کیا، خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک لگاتارلوگوں کوتوحید اوراصلاح عقیدہ کی طرف بلاتے رہے ۔ اسی طرح ہرزمانے میں دعاة اورمصلحین نے لوگوں کو توحید کی طرف بلایا اوراصلاح عقیدہ کی دعوت دی ۔
ایمان ایک ایسا مضبوط قلعہ ہے جو مسلمان کو شکوک وشبہات اورگمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ انسان کے اندر جو گمراہی پیدا ہوتی ہے، انسان جو الگ الگ گروہوں میں بٹ جاتا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے شروع میں عقیدہ کو بیس نہیں بنایا۔ اگرعقیدہ ٹھیک ہوجائے تو انسان کے اندر انحرا ف نہیں آسکتا ۔ کجی نہیں آسکتی ۔ گمراہی نہیں آسکتی ۔
ایمان ایک زلزلہ ہے جو انسان میں داخل ہوتے ہیں اتھل پتھل مچا دیتا ہے، اس کی زندگی میں ایسا انقلاب پیدا کردیتا ہے جس سے اس کی زندگی صحیح سمت میں لگ جاتی ہے ۔ اب وہ بالکل آزاد نہیں رہتا ، اس کا کوئی قدم غلط نہیں اٹھتا، اس کی آنکھ ، اس کا کان، اس کا ہاتھ ، اس کا پیر، اس کا دماغ سب اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوجاتا ہے ۔
ایمان ایک سدا بہاردرخت ہے جو کبھی مرجھاتا نہیں، ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے، اللہ پاک نے فرمایا: ضرب اللہ مثلا کلمة طیبة کشجرة طیبة اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء توتی اکلھا کل حین باذن ربھا ۔ "ایمان ایک ایسے پھلدار درخت کی مانند ہے جس کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں"، صحیح مسلم کی روایت میں ہے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سب سے افضل لاالہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے ادنی راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اورحیا وشرم بھی ایمان کی شاخ ہے ۔
یہ ایمان ہے جس کی بنیاد پر اللہ رب العالمین بلندی عطا فرماتا ہے اللہ پاک نے فرمایا: وانتم إلاعلون ان کنتم مومنین (آل عمران 139) "تم ہی سربلند رہوگے اگر تم صحیح معنوں میں مومن رہے ۔اگر تمہارے اندر صحیح ایمان رہا تو اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ زمین کی خلافت کے حقدار تم ہی ہوگے ،حکومت کے مالک تم ہی ہوگے ،دنیا کی قسمتوں کا فیصلہ تم ہی کرو گے ، دنیا تمہارے نام سے لزر اٹھے گی ،تم کسی سے خائف اورمرعوب نہ ہوگے ۔
لیکن آج معاملہ اس کے بالکل اپوزٹ ہوچکا ہے، آج ہم دنیا سے ڈرتے ہیں، دنیا ہم سے نہیں ڈرتی، جنہیں ہم سے کل آنکھیں ملانے کی ہمت نہ تھی آج وہ ہمارے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، وجہ کیا ہے ؟ ہم نام کے مسلمان رہ گيے ہیں کام کے نہیں …. جب ہم کام کے مسلمان تھے تو انسان تو انسان درندے بھی ہم سے ڈرتے تھے ۔ ( ايمان وعمل: مولانا عبد الروؤف رحماني )
جی ہاں! ایمان سے ہی ہمیں دنیا میں پرسکون زندگی مل سکتی ہے اورآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں اللہ پاک نے سورہ نحل میں فرمایا:
 من عمل صالحا من ذکر أوأنثی وھو مومن فلنحیینہ حیاة طیبة ولنجزینھم أجرھم بأحسن ما کانوا یعملون (النحل 97)
”جوشخص نیک عمل کرے، مرد ہویاعورت یشرطیکہ ایمان والا ہوتواسے ہم بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے، اوران کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے وعدہ کیا ہے کہ جو مرد وعورت نیک عمل کرے اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی عطاکریں گے اورآخرت میں ان کے اعمال کا بہتر بدلہ دیں گے لیکن شرط یہ رکھی کہ عمل کرنے والا ایمان والا ہو ۔ اس سے پتہ یہ چلا کہ دنیا اورآخرت دونوں جگہ کی کامیابی کے لیے ایمان بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔
اگر ایک انسان ایمان والا ہو، اس کے ساتھ  ساتھ  کبیرہ گناہوں کا بھی ارتکاب کرتا ہو، اوراسی حالت میں اس کی موت ہوگئی، توبہ نہ کرسکا، تو اگر اللہ نے چاہا تو اس کے گناہوں کی اسے سزادے گا اور پھر اسے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی ایمان ہوگا تو اسے بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ سبحان اللہ !یہ ایمان کی اہمیت ہے کہ رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان رکھنے والا شخص ایک دن جہنم سے ضرور نکلے گا ۔

ایمان اورعمل لازم ملزوم ہے:

ایمان تین چیزوں کا نام ہے قول باللسان واعتقاد بالجنان وعمل بالارکان زبان کا اقرار، دل کی تصدیق اور اعضاء کا عمل ۔ یعنی زبان سے ایمان کے تمام ارکان کا اقرارکرنا، دل سے ان کی تصدیق کرنا مثال کے طورپر زبان سے اقرار کرنا کہ اللہ تعالی ہی اکیلا رب ہے، اس کے اسماء وصفات میں اس کا کوئی شریک نہیں اور ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے اسی طرح دل میں بھی یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالی ہی خالق ومالک اورعبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اوروہ اپنے اسماء وصفات میں بھی یکتا ہے ۔
اورچوں کہ ایمان کے ضمن میں عمل بھی داخل ہے اس لیے نیک عمل کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور نافرمانی کرنے سے ایمان میں کمی آتی ہے ۔ إنماالمومنون الذین إذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم وإذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً (سورہ انفال2 سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیاجاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اورجب انہیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اوروہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
 ایمان صرف دل کے اقراراور زبان کی تصدیق کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے ، بغیرعمل کے ایمان ایسی کنجی ہوگی جس میں دندانے نہ ہوں، جس طرح بغیر دندانے والی کنجی سے تالا نہیں کھلتا ہے، اسی طرح ایسا ایمان جو عمل سے خالی ہو اس سے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا 
زبان سے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
بلکہ اللہ تعالی نے سورہ العصر میں قسم کھاکر کہاہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے، والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر " قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، اورنیک عمل کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کرتے رہے "۔
قرآن نے ایمان اورعمل کے درمیان جو ربط قائم کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، دیکھيے قرآن کریم میں کم وبیش 38 جگہوں پر یہ الفاظ آئے ہیں آمنوا وعملوا لصالحات ایمان لائے اوراعمال صالحہ کيے، ایک صحابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما دیجئے جس پرعمل کرکے میں جنت پالوں۔ آپ نے فرمایا: قل آمنت باللہ ثم استقم یوں کہو!میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کرو، استقامت کہاں ہوتی ہے ؟ دعوے میں نہیں ہوتی، عمل میں ہوتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الذین المعاملة معاملات کے درست ہوجانے کا نام دین ہے ۔ ایمان صرف دعوے کا نام نہیں ایمان رویے (Attitude) کا نام ہے، ایک سلوک اورایک مسلسل عمل کا نام ہے ۔ ایمان سنی سنائی چیز کا نام نہیں، ایمان وراثت میں ملی ہوئی چیز کانام نہیں، وراثت میں مکان، دکان، پلاٹ، زمین پیسے مل جائیں گے مگر وراثت میں ایمان نہیں ملے گا ۔ ہم اتفاقیہ مسلمان ہیں، لیکن اصل مسلم وہ ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے مسلمان ہوا ہو ۔Muslim by choise not by chance۔اس لیے اگر ایمان صحیح ہے تو اس میں عمل بھی آجائے گا ۔( چار

ایمان کی خصلتیں:

ایمان جب ٹھیک ہوتا ہے تواس کا اثر زندگی کے سارے معاملات پر پڑتا ہے، اورعمل کے طورپر ایمان کی خصلتیں ظاہرہوتی ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ ایمان کی خصلتیں کیا ہیں ؟ ایمان کی خصلتوں میں سے ہے :
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کے لڑکے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوں۔
مومنوں سے محبت : صحیح مسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آواورتم ایمان اس وقت تک نہیں لاسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرو، کیا میں تم کوایسی چیز نہ بتاوں جسے اگرتم کروگے توآپس میں محبت بڑھے گی تم آپس میں خوب سلام کیا کرو۔
اوردوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔
ہمسایہ کی عزت کی جائے، مہمان کا احترام کیا جائے اورصرف اچھی بات کہی جائے : بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ بھلی بات کرے یا خاموش رہے، اورجوشخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کی عزت کرے، اورجوشخص اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے “۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا: واللہ لایومن واللہ لایومن واللہ لایومن ! اللہ کی قسم کھا کرکہتاہوں کہ وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں، وہ شخص مومن نہیں، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ !کون مومن نہیں ؟ فرمایا: الذی لایامن جارہ بوائقہ ۔وہ شخص جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: مومن وہ نہیں ہے جو پیٹ بھر کرکھائے اوراس کے برابرمیں اس کا پڑوسی بھوکاہو ۔
ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھے کردار کا حامل ہو، چوری نہ کرے، شراب نہ پئے، زنا نہ کرے ، خیانت نہ کرے، کسی کو دھوکہ نہ دے، رشوت نہ لے، تب ہی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق فرمایا: کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تواس وقت مومن نہیں ہوتا، چور جب چوری کرتا ہے تو اس وقت مومن نہیں ہوتا ۔
ایمان کی خصلت یہ بھی ہے کہ آدمی اچھائی کاحکم دے اوربُرائی سے روکے: صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جوشخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اگراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں براجانے اوریہ ایمان کا ادنی درجہ ہے “۔

ایمان کی چاشنی:

0جب ایمان کی خصلتیں انسان کے اندرپیدا ہونے لگتی ہیں تو اسے ایمان کا مزہ ملنے لگتا ہے، ایمان کی چاشنی نصیب ہونے لگتی ہے، جانتے ہیں ایمان کی چاشنی کیا ہے ؟ صحیح مسلم کی روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذا ق طعم الایمان من رضی باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللہ علیہ وسلم رسولا ”اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوا اوراسلام کو اپنا دین بنانے پر راضی ہوا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول ماننے پر راضی ہوا ۔

اورجب ایک بندہ مومن اللہ کو اپنا رب مان لیتا ہے، اسلام کو اپنا دین تسلیم کرلیتا ہے اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان لیتا ہے تو وہ ایمان کی لذت پانے کے ساتھ  ساتھ ایمان کی حلاوت اوراس کی مٹھاس بھی پاتا ہے ۔ جانتے ہیں ایمان کی مٹھاس کیا ہے ؟ بخاری ومسلم کی روایت ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوة الایمان جس کے اندرتین چیزیں ہوں وہ ایمان کی مٹھاس پاتا ہے، ایک یہ کہ اس کے نزدیک اللہ اوراس کے رسول ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں، دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کی خاطر محبت رکھے، تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسے ہی ناپسند ہو جیسے آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے ۔
مکمل تحریر >>