ہفتہ, فروری 20, 2010

قادیانیوں کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے کا قبول اسلام


قادیانی ، مرزائی اور احمدی یہ وہ نام ہیں جن کی نسبت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف ہوتی ہے ، جس نے انگریز کے دورحکومت میں اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ،پھر مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو کبھی امام مہدی ہونے کا ، غرض امت کو گمراہ کرنے کا ہرایک طریقہ اپنایا بالآخر انجام اس کا یہ ہوا کہ اپنی زندگی کے آخری دور میں بیت الخلا میں قضائے حاجت کرتا ہوا اس دنیا سے ہلاک ہوگیا ۔ قادیانیت کے کفریہ عقائد کی بنیاد پرعلمائے امت نے اسے ملت اسلامےہ سے خارج قرار دیا ہے، آج یہ فتنہ دشمنان اسلام کی پشت پناہی سے عالمی شکل اختیار کرگیا ہے اور ہرجگہ اس کی ارتدادی سرگرمیاں جاری ہیں ،اس فتنے کے تدارک اور اس سے منسلک افراد کو تباہی اور بے دینی کی لعنت سے بچانے کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ الحمداللہ اسلام کی روشنی اب مرزا قادیانی کے گھرانے تک پہنچ چکی ہے۔ قادیانی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے اور خلیفہ سوئم مرزا ناصر کے بیٹے مرزا احمد بلال نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ جسے قادیانی مبلغ بنانے کے لےے روسی اور اطالوی زبانیں سکھائی گئی تھیں۔ ذیل کے سطور میں مرزا احمد بلال کے قبول اسلام کی داستان پیش کی جا رہی ہے
۔

سوال : آپ نے بتایاکہ آپ کا تعلق مرزا خاندان سے ہے اور آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے ہیں۔ قادیانیت سے اسلام تک کا سفر اور قادیانوںکے ہاتھوں اغوا اور تشدد کی کہانی کیا ہے ؟

جواب : جی ہاں ! میں مرزا ناصر الدین کا بیٹا ہوں، ہم کل تین بھائی او رایک بہن ہیں۔ ایک بھائی جو مجھ سے بڑا ہے اس کا نام مرزا فرید، میرا پرانا نام مرزا احمد بلال اور مجھ سے چھوٹے بھائی کا نام مرزا انس ہے۔ لیکن میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنا نام بدل کر عبد الرحمن رکھ لیاہے بلکہ اب مرزا کا لفظ بھی نام کے ساتھ نہیں لکھتا۔ اسلام کی طرف آنے کی تفصیل یہ ہے کہ گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ سے میٹرک اور گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج سے بی اے کرنے کے بعد مجھے بھی ربوہ کی روایت کے مطابق مشنری مقاصد کے لےے تیار کرنے کی غرض سے اطالوی اور روسی زبانیں سکھائی گئیں۔ اسی دوران میں ربوہ میں قائم قادیانی خلافت لائبریری کا ناظم مقرر ہواتو مجھے حقیقی اسلام کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملا۔

یہ1998ءکی بات ہے جب مجھے لائبریری میں علامہ احسان الہی ظہیر کی دو کتب ”قادیانیت “ اور ” مرزائیت اور اسلام “ پڑھنے کا موقع ملا۔ ابتداء میرا خیال یہی تھا کہ یہ کتب بھی روایتی تعصب پر مبنی ہوںگی جو ہمارا تصور تھا کہ مسلمان علماءغلام احمد قادیانی کے بارے میں خواہ مخواہ تعصب اور بغض رکھتے ہیں لیکن میں نے ان کتابوں کے چند صفحات پڑھے تو مجھے دلچسپ اور حقیقت افروز محسوس ہوئیں ۔ان کتب میں جو حوالے دئےے گئے تھے وہ سو فیصد درست تھے۔ یوں میرا دل قادیانیت سے اچاٹ ہونے لگا۔ میں نے قادیانیت کے مربین سے سوال وجواب کرنا چاہا، وہ مجھے روایتی جوابات تو دے سکے لیکن مطمئن نہ کر سکے۔ ان کتب کے پڑھنے کے بعدمجھے سمجھ آئی کہ مرزا قادیانی نے کس طرح اللہ پر بہتان باندھے اور انبیاءاور ان کی امہات کے بارے میں نازیباپیرائے میںمن گھڑت قصے اپنی کتب میں شامل کئے۔ مجھے مرزا قادیانی کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی شبہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے مرزا بشیرالدین کی تحریروںمیںپڑھ رکھا تھا کہ:

” مرزا غلام احمد قادیانی “ کو اندازہ نہ تھا کہ پاﺅںمیں ایک جوتا پہننا ہے یا دو جوتے پہننے ہیں “۔

پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ ۳۸۸۱ ءمیں مرزا قادیانی نے خود کو مح ©ض مجدد قرار دیا۔ ۱۹۸۱ ءمیں امام مہدی قرار دینے لگا اور ۵۹۸۱ءمیں نبوت کا دعوی کرنے لگا کہ :

” اللہ نے مجھے خواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر دکھائی ہے جو کشمیر کے علاقے ” خانیار “ میں ہے، چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام انتقال کر گئے ہیں، اس لیے اللہ نے ایک رات میری جنس تبدیل کی اور میرے ساتھ رجولیت کا اظہار کیاجس کے نتیجہ میں مجھے حمل ٹھہرگیا “ ۔

یہ سب باتیں اب میرے ليے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوگئیں کہ غلام احمد نے اللہ پر کس طرح بہتان باندھ دیا ۔ میں نے مربین جن میں حافظ مظفر اور عزیز بھامری شامل تھے ان سے دریافت کیا کہ اللہ نے قوم لوط کو تو اس عمل پر سزادی اور خود ”معاذ اللہ“ وہی کام کرنے لگا ۔ یہ بہتان نہیں تواور کیا ہے ؟ اب میں نے اپنے آپ کو عملاً قادیانیت سے دور کرلیا لیکن اسلام قبول کرنے کا اعلان نہ کیا کہ ربوہ جو ریاست کے اندر ایک ریاست کا درجہ رکھتاہے وہاں یہ اعلان ممکن نہ تھا ۔

سوال : یہ صورت حال کب تک رہی ؟

جواب: میں تقریباً ایک سال تک اسی کشمکش میں رہا، گھر والوں سے بھی بات ہوتی رہی ۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ربوہ سے باہر جانے دیںگے نہ قادیانیت سے ۔ میرے گھر والوںنے کہا کہ وہ مجھے زنجیروںسے باندھ دیں گے اور اگر مرگیا تو میرا جنازہ قادیانیت کے مطابق ہوگا ۔

سوال : کیا واقعی زنجیروں سے باندھا گیا ؟

جواب : جی ہاں! مجھے ایوان محمود میں قائم قادیانیوں کی نجی جیل میں تین ماہ تک زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تاکہ میں قادیانیت کے بارے میں اپنے تبدیل شدہ خیالات سے رجوع کرلوں ۔

سوال : کیا آپ کے علاوہ بھی کچھ لوگ اس نجی عقوبت خانے میں تھے ؟

جواب: میرے علاوہ بھی چار پانچ افراد تھے تا ہم انہیں مجھ سے الگ رکھا گیا تھا ۔ ربوہ میں پولیس قادیانیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ۔ قادیانی انتظامیہ نے اپنی عدالت خود بنا رکھی ہیں اور یہ خود ہی لوگوں کو سزا دیتے ہیں، خود ہی گرفتار کرتے ہیں اور اپنے نجی طور پر بنائے گیے قید خانوں میں رکھتے ہیں ۔

سوال : آپ کیسے بچ کے نکل آئے ؟

جواب : تین ماہ تک رہنے کے بعد ایک دن میں نے سوچا کہ ساری عمر اس قید خانے میں گزاردینے سے بہتر ہے کوشش کی جائے ،لہذا میں نے اپنی زنجیر کو فرش پر مسلسل رگڑتے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ خدا کاکرنا یہ ہوا کہ پانچ دن تک رگڑتے رہنے سے میری زنجیر ٹوٹ گئی۔ لیکن یہ شام کا وقت تھا جو قید خانہ سے فرار کے لےے مناسب وقت نہ تھا ۔ اس لےے میں نے اگلی صبح تک فرار ملتوی کردیا ۔ اگلی صبح دوسرے فلور سے نیچے چھلانگ لگا کر ربوہ کی حدود سے باہر آگیا۔ میرے پاﺅں پر سخت چوٹیں آئیں تاہم تازہ چوٹ کا درد کم تھا ، میں کسی طرح لاہور پہنچ گیا جب یہاں پہنچا تو میرے پاﺅں میں زنجیر کا ایک حصہ موجود تھا اور پاﺅں زخمی تھے ۔

سوال :آپ نے بتایا کہ ربوہ سے فرار اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ ۹۹۹۱ ءکا ہے ۔اب آپ قادیانیوں کے ہتھے کیسے چڑھ گیے ؟

جواب : اس میں شک نہیں کہ میں نے ربوہ سے فرار کے بعد لاہور میں پناہ لی لیکن میں اپنے ضروری علاج و معالجے کے بعدگوادر چلاگیا جہاں میں نے ایک چینی کمپنی میں بطور مترجم ملازمت اختیار کرلی ۔ اس دوران گاہے بگاہے میں لاہور آتا رہا رواں سال کے دوران میں نے فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو حج کے لےے درخواست دی لیکن میرا ایڈریس ربوہ کا ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت نے اعتراض لگا دیا ۔ اپنا ایڈریس تبدیل کرنے کے لےے میں لاہور میں مقیم تھا کہ شادمان کی رہائشی ایک خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کناڈامیں قیام کے دوران قادیانیت سے متاثر ہوگئی ہے ۔ اس کے اہل خانہ نے مجھے کہا کہ میں اس سے ملوں اور اسے قادیانیت کی حقیقت سے آگاہ کروں ۔ میں اس خاتون سے ملا اور اس سے اگلے ہی روز جب میں گنگارام کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑا تھا تو ایک ویگن میرے پاس آکر رکی اور ویگن سے اتر نے والے ایک فرد نے کہا:”تم ربوہ کے رہنے والے ہو“ ۔ میں نے کہا پہلے رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے مجھے اٹھاکر وین میں ڈالااور گڑھی شا ہوکے دار الذکر کے عقب میں ایک گھر میں لے گئے ۔ راستے میں بھی مجھ پر تشدد کرتے رہے اورا س گھر میں جہاں کئی مزید افراد تھے، انہوںنے مجھ پر تشدد شروع کردیا۔ ڈنڈوںسے میری ٹانگوں کی پنڈلیوں اور رانوں پر ضربیں لگاتے رہے ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس کے بعد تین بجے سہ پہر نیلا گنبد چوک پر پھینک کر چلے گئے۔

سوال : آپ نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرائی ؟

جواب : اس سلسلے میں ایف آئی آر تو درج کرادی تھی لیکن ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ ایف آئی آر کی کاپی بھی ہمیں تھانے کی طرف سے فراہم نہیں کی ، جب تھانے والوںسے پوچھتے ہیں کہ کاروائی کیوں نہیں کر رہے تو کہا جاتا ہے کہ اوپر سے حکم ہے ۔

سوال : ربوہ میں پولیس کاروائی کی صورت کیا ہوتی ہے ؟

جواب : ربوہ کا معاملہ تو بہت مختلف ہے وہ تو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے ۔ ۳۷۹۱ءمیں ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا تھا ۔ لیکن آج تک ربوہ کھلا شہر نہیں بن سکا ۔ حد یہ ہے کہ کوئی غیر قادیانی ربوہ میں رہائش اختیار نہیں کر سکتا ۔ پولیس صرف ربوہ سے باہر کی چیزوں پر نظر رکھتی ہے ۔ ربوہ میں قادیانی انتظامیہ نے نجی سیکورٹی قائم کر رکھی ہے ۔

سوال :قادیانیت کے عمومی زندگیوں پر ربوہ میں کیا اثرات نظر آتے ہیں ؟

جواب : ربوہ میں کوئی بندہ آپ کو مطمئن نظر نہیں آتا ۔ ہر کوئی بے چینی کا شکار ہے ، مضطرب اور پریشان ہے ، حتی کہ مرزا خاندان کے اندرونی حالات بھی سخت اضطراب اور خرابی کی زد میں ہیں ۔ ڈکیتیاں ہوں تو بھی پولیس مداخلت نہیں کر سکتی ۔ قتل کے واردات ہوں پھر بھی پولیس دخل نہیں دے سکتی ۔

سوال : آپ کب کی بات کر رہے ہیں ؟

جواب : میں قصر خلافت میں ڈکیتی کیس کی بات کر رہاہوں جو ۸۹۹۱ءمیں ہوئی ۔ اس میں مرزا داﺅ د کے کزن کی گردن میں گولی بھی لگی تھی، اسی طرح بریگیڈیئر اصغر کی پراپرٹی کے معاملہ پر کئی افراد قتل ہوگئے لیکن پولیس ریکارڈ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔

سوال : کیا وجہ ہے لوگ کیوں بولتے نہیں ؟

جواب : مرزا نے ۲۵۹۱ءمیں ربوہ کے لےے حکومت سے لیز پر زمین لی تھی ۔ اس لےے ربوہ میں رہنے والوں کی زمین ان کی ذاتی ملکیت نہیں بن سکی ۔ اگر ربوہ میں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق دے دےے جائیں تو وہ بآسانی قادیانیت کے چنگل سے نکل آئیںگے ۔ ایسے ایک دو افراد نہیں ہزاروں میں ہیں جو اپنے مالی مستقبل سے خوف زدہ ہیں، اس لےے ربوہ میں چپ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اگرا نہیں مالکانہ حقوق مل گئے تو ربوہ کھلا شہر بن جائے گا ۔

سوال : مرزا خاندان کے اندر کا کلچر آپ کو کیسا لگتا تھا ؟

جواب : مرزا خاندان کی زندگی تو شہزادوں جیسی ہے ۔ صرف ربوہ میں ہی نہیں راجن پور، میر پور ہاص ( سندھ ) احمد نگر اور لاریاں میں ان کی زرعی زمینوں نے انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کردیا ہے، اسی طرح لندن میں Tilfordمیں حال ہی میں قادیانی مرکز بنانے کے لےے حاصل کی گئی زمین کا بڑا حصہ بھی مرزا خاندان کے ذاتی استعمال میں ہے۔ ربوہ میں قصر خلافت کے اصطبل میں مختلف ملکوںسے لائے گئے گھوڑوں کی شاہانہ دیکھ بھال کا ماحول ہے ۔ ربوہ میں مرزا فیملی کے دو ڈھائی سو افراد ہیں جس علاقے میں مرزا خاندان کے لوگ رہتے ہیں وہاں عام قادیانی بھی رہائش نہیں رکھ سکتا ۔ ایک شاہانہ اندازِ زندگی ہے جس کی زد میں قریبی دیہات سے کام اور مزدوری کے لےے آنے والے مرد اور خواتین بھی آتے رہتے ہیں ۔ مرزا خاندانوں کے گھرانوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جو ظلم ہوتاہے اس پر زبان کھولنا ممکن نہیں ۔ یہ کہانیاں وہاں کے دروبام میں ہی دب جاتی ہیں ۔

سوال : جو منظر نامہ آپ نے ربوہ کا بیان کیا ہے یہ تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے ؟

جواب : میڈیا وہاں تک رسائی نہیں کر سکتا ۔ میڈیا والوںنے بھی شاید کوشش ہی نہیں کی ہے کیونکہ میڈیاکو اندازہ ہے کہ یہ اس کے لےے آسان ہدف نہیں ہے ۔

سوال : قادیانیوں کے ترجمان الفضل میں آپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ مرزا ناصر الدین کے بیٹے نہیں اور آپ کا دعوی غلط ہے ؟

جواب: میں اس کو ہر طریقے سے ثابت کرنے کو تیار ہوں ، اگر ڈی ین اے ٹیسٹ کی ضرورت ہے، میں وہ بھی کروانے کو تیار ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے پہلے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن اب انہوںنے جس طرح پر تشدد کاروائی کی ہے میں ان کے خلاف پوری کوشش کرکے انہیں بے نقاب کروںگا اب میں نہ صرف مسلمانوںکوان کے کرتوتوںسے باخبر کروںگا بلکہ قادیانیوں کو بھی پیغام دوںگا کہ وہ اپنا ایمان مکمل کریں اور خود کو جہنم سے بچائیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان کے ساتھ قادیان کا تعلق ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں قادیانیوں کو اور بھی بہت ساری مراعات حاصل ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان نے انہیں غیر مسلم قرار نہیں دیا ۔ ہندوستان میں ان کا نیٹ ورک بہت م ©ضبوط ہے ۔ اسی طرح اسرائیل، تل ابیب میں قادیانی مرکز ہے۔ اسرائیلی فوج میں بھی قادیانی شامل ہیں اور مسلمانوںکے خلاف اسرائیلی کار وائیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔

سوال : بر صغیر ہند وپاک میں قادیانیوں کے تبلیغی اہداف اور طریقے کیا ہے ؟

جواب: ہر سال ربوہ سے تقریبا چار سو مبلغ تیار ہوکر نکلتے ہیں کچھ ملک کے اندر اور کچھ بیرون ملک بھجوائے جاتے ہیں پاکستان کے اندر اور باہر ان کے آسان ٹارگٹ غربت زدہ علاقوں کے مسلمان ہوتے ہیں ۔ پنجاب کا اسرائیلی بیلٹ، سندھ کے پسماندہ علاقے ملک کے اندر ان کا خصوصی ہدف ہیں جب کہ افریقی ممالک کے غریب مسلمانوں پر بھی یہ کام کر رہے ہیں ۔

مکمل تحریر >>

اسلام کے نظام وراثت کواپنالیاجائے تو جہیز کا رسم بد خود بخود دم توڑ دے گا

محمد طفیل طوفی

اللہ تعالی نے انسانیت کے لیے قرآن پاک کو تھیوری کے طور پرنازل کیا اور محمدا کواس کی تعبیر وتشریح کے لیے عملی نمونہ بنادیا۔اورانہیں دونوں کو زندگی کا نصب العین بنانے میں انسانیت کی دنیوی واخروی کامیابی کا راز مضمر رکھا گیا ۔ لیکن افسوس کہ اسلام کے ماننے والوں نے اپنے مختلف شعبہ حیات میںغیراسلامی قانون کو جگہ دی جس کی وجہ سے اس امت کوذلت وخواری نصیب ہوئی۔مسلم معاشرے میںبہت تیزی سے فروغ پارہے غلط رسوم میں سے ایک جہیز کی رسم بد بھی ہے۔ جوہندوتہذیب کی دین ہے، اس ناسور نے جہاں ایک طرف لاکھوں لڑکیوں کی عزت وناموس کا خون کیا،کتنی دوشیزاؤں کوموت کی نیند سلایا،تو دوسری طرف عورتوںکو اسلام کے نظام وراثت سے بھی محروم کیا ہے ۔ اسلام میں نظام وراثت کا ٹھوس قانون موجود ہے ، سورئہ نساءآیت ۱۱ تا ۴۱ میں اس نظام کو ”حدود اللہ“ قرار دیا گیا ہے۔ وراثت اللہ کا نظام ہے جبکہ اس کے بالمقابل جہیز ہندوتہذیب سے مستعار ہے۔

یہ کیسی بے حسی ہے کہ آج ہم اسلام کے نظام کو بالائے طاق رکھ کر ہندوتہذیب کومعاشرے میںرواج دے کر فخر محسوس کر رہے ہیں ۔
مکمل تحریر >>

آخرت پر ایمان کے باوجود بے عملی کیوں ؟

افادات : امام ابن قیم

آج اگر کسی انسان کو یقین ہوجائے کہ فلاں جگہ جانے سے کوئی دنیاوی بڑی منفعت حاصل ہوگی تو سب کچھ چھوڑکروہاںکے لےے نکل پڑے، خواہ وہ جگہ کتنی ہی دو ر کیوں نہ ہو۔ راستے کی پریشانیاں، سفر کی صعوبات اور زندگی کے دوسرے مسائل اس کے ارادہ اور منزل مقصود کے درمیان کبھی حائل نہ ہوں۔ کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ وہاں پہنچ کو اس کے مسائل حل ہوجائیںگے اور یہ ایمان اس قدر پختہ ہے کہ رکاوٹوںکے طوفان اسے متزلزل نہیں کر سکتے اور نہ مشکلات کی تیز وتند ہوائیں اس کا کچھ بگاڑسکتی ہیں۔

اسی طرح اگر کسی کو دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنادی جائے اور وہ سزا آئندہ کل سے نافذہونے والی ہو ۔ پھر اسے ایک آرام دہ خوابگاہ میں داخل کردیا جائے تاکہ کم از کم اس رات آرام کی نیند سولے تو کیا وہ پوری رات چین وسکون سے گزار پائے گا ؟!ہر گزنہیں، بلکہ خوف و دہشت کا وہ عالم ہوگاکہ زبان و بیان کا دامن جس کی وضاحت سے تنگ اور قلم اس کی کیفیت رقم کرنے سے عاجز ہے ۔

قرآن وحدیث کے بیان کے مطابق جنت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ، اور جہنم سے بڑھ کر کوئی عذاب یا سزا نہیں ، ان دونوں میں سے کسی ایک کو پانے کے لےے کوئی وقت بھی درکار نہیں۔ جہاں اس دنیاسے آنکھیں بند ہوئیں جنت یا جہنم کے آثار وہیں سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پھر بھی انسان غافل ہے۔

یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ انسان دنیاوی امور کے حاصل کرنے میں خوب نقل وحرکت کرتاہے۔ تاہم کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان آخرت پر ایمان کے باوجود اس کے لےے عمل نہیں کرتا ؟!

اس عظیم سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن قیم نے ” الداءوالدواء“ میں لکھا ہے کہ اس کے کئی ایک اسباب ہوسکتے ہیں :

(۱) علم کی کمی اور یقین کی کمزوری : انسان کا علم جتنا گہرا ہوگا، اسی قدر اس کا دل خوف الہی سے سرشار ہوگا، اور اس کا علم جتنا سطحی ہوگا اتناہی وہ غافل اور لا پرواہ ہوگا۔ اسی یقین میں پختگی لانے کے لےے ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے مردوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ جب کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اللہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ لیکن یہ معلومات یقینی تھی، آنکھوںسے دیکھ لینے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خبر مشاہدہ کی طرح نہیں ہو سکتی“ ۔

(۲) ضعف علم کے ساتھ جب آخرت فراموشی مل جائے یا دنیاوی مشاغل اور معاصی کی وجہ سے دل سے آخرت کی یاد جاتی رہے تو بھی انسان بے عمل بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ :

(۳) خواہشات نفسانی کا غلبہ (۴) شیطان کا مکر و فریب (۵) لمبی تمنائیں رکھنا اور آخرت کو بعید سمجھنا (۶) دنیا کی محبت (۷) غفلت و لا پرواہی (۸) تاویل پسندی بھی عمل کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے۔

یہ مذموم صفات جوں جوں ایک مسلمان کے اندر سرایت کرتی جاتی ہیں توںتوں وہ ایمان و عمل سے دور ہوتا چلا جاتاہے۔ دنیا اسے ہر چہار جانب سے اس قدر گھیر لیتی ہے کہ آخرت کو یکسر فراموش کرجاتاہے۔ وہ کس لےے دنیا میں آیا تھا ؟ اسے کیا کرنا چاہےے اور کیا نہیں کرنا چاہےے، سب اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتاہے ۔ اسی ماحول کا شکوہ کرتے ہوئے شیفتہ نے کہا تھا

کس واسطے ہم آئے ہیں دنیا میں شیفتہ

اس کا جو دیکھئے تو بہت کم خیال ہے

اللہ تعالی ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین

بشكريه ماهنامه مصباح 
مکمل تحریر >>

کتا اگر بدن سے لگ جائے


سوال: بعض کویتی کتے پالتے ہیں اور جب ہم کام کرتے ہیں تو ہمارے بدن سے ان کا جسم بھی لگتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز کے وقت ہم اسی حالت میں مسجد جا سکتے ہیں یا ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ ( عمر ۔ کویت )

جواب: سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ ایک مسلمان کے لیے کتا پالنا جائز نہیں سوائے تین مقاصد کے :

رسول اللہ  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: من اتخذ کلبا الا کلب ماشیة او صید او زرع نقص من عملہ کل یوم قیراط ”جس نے کتا رکھا اس کے اجروثواب میں سے روزانہ ایک قیراط کمی ہو جاتی ہے۔ البتہ جانوروںکی حفاظت ،یا شکار کے لیے یا کھیتی کی رکھوالی کے لیے رکھے گئے کتے کی بنا پراجروثواب میں کمی نہیں آتی“ ( صحیح مسلم)

اب سوال یہ ہے کہ گھروں کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کا کیا حکم ہے ؟ تو اس سلسلے میں امام نووی نے علمائے کرام کا دو قول ذکر کیا ہے ایک جواز کا اور دوسرا عدم جواز کا۔ پھر جواز کے قول کی ترجیح کی ہے کیونکہ علت اس میں بھی حفاظت پائی جا رہی ہے۔ گویا کہ اگر کوئی گھر کی حفاظت کی خاطر کتا پالتا ہے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ اور اور بعض اہل کویت کا کتا پالنا مذکورہ مقاصد میں سے کسی ایک مقصد کے تحت ہوتا ہے ۔

رہاسوال کتا کے بدن کاانسانی جسم سے لگنے کا‘ تواگرکتے کاظاہری حصہ لگا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ اس کے ظاہری حصہ میں نجاست نہیں البتہ اگر اس کا لعاب وغیرہ بدن یا کپڑا یا زمین پرلگ جائے تواسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول ا کا فرمان ہے اذا ولغ الکلب فی اناءاحدکم فلیغسلہ سبعا اولاھن بالتراب ”جب تم میں سے کسی کے پیالے میں کتا منہ ڈال دے تو اسے چاہیے کہ اسے سات مرتبہ دھوئے پہلی مرتبہ مٹی سے“۔
اگر کتّاکے بدن کی رطوبت کپڑے یا بدن سے لگ گئی ہے تو اس جگہ کو دھل لیں پھر مسجد جائیں، کتّا کے چھونے سے نہ وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، محض رطوبت کو دھل لینا کافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب


مکمل تحریر >>

جمعرات, فروری 11, 2010

ديار غير ميں عيد


 آپ ترک وطن کی صعوبتيں انگيز کر رہے ہيں، تہوار اورخوشيوں کے موقع پر اجنبيت کا احسا س مزيد دوبالا ہوجاتاہے، ہرشخص کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عيد گھر کے سائبان تلے، اہل خانہ کے درميان گذرے:
 عيد کی سچی خوشی تو دوستوں کی ديد ہے
جو وطن سے دور ہو اس کی بھی کوئی عيد ہے
ليکن کيا کريں گے؟ عيد کے دن اپنے دل کو بہلائيں کہ ہم نے رزق حلال کی طلب ميں پرديسی زندگی اختيارکی ہے، ايک لقمہ جو اپنی بيوی کے منہ ميں ڈاليں گے وہ بھی صدقہ شمار ہوگا،  پھراس دن اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اجتماعی عيد منائيں، دوست واحباب مل کرکہيں سيرو تفريح کے ليے نکل جائيں اورممکنہ حدتک عيد کا لطف اٹھانے کی کوشش کريں، اہل خانہ اور متعلقين سے بھی باتيں کريں اور انہيں عيد کی مبارکباد پيش کريں۔ 

مکمل تحریر >>

جمعرات, فروری 04, 2010

کیاہم نے موسم گرما کے پیغام پر غورکیا ؟

ہمیں اپنی زندگی کے سارے معاملات کوشرعی نقطہ نظرسے دیکھنا چاہيےاور ملکوں اورقوموں کے حالات میں جو تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں اُن کا جائزہ لینا چاہيے کیونکہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا میں بسایا گیا ہے اُس کی یا دہانی ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح کی کچھ تبدیلیاں تو فطری ہوتی  ہیں جیسے رات ودن کا تغیراورموسموں کی تبدیلی وغیرہ اور کچھ انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں الٹی میٹم کےطور پر نمایاں ہوتی ہیں جیسے اقتصادی بحران ، سوائن(خنزیر) فلو ، برڈ فلو ، زلزلے اور ایڈس وغیرہ ، تاکہ انسان سدھر جائے ، سنبھل جائے اور اپنے مقصدحیات کی تکمیل میں لگ جائے۔
ابھی ہم موسم گرما سے گزر رہے ہیں، یہ بھی ہمارے ليے ایک پیغام لے کر آیا ہے ،گرچہ آج ہماراذہن اُس کی طرف نہیں جاتا، اِس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر میں یہ سوال کروں کہ گرمی میں شدت کیوںکر آتی ہے ؟ تواکثر لوگ یہی کہیں گے کہ یہموسموں کی تبدیلی ، ملک کے محل وقوع اور آسمانی برجوں کا نتیجہ ہے لیکن جب ہم اِس مسئلے پر شرعی نقطہ نظر سے غور کرتے ہیں تو ایک دوسری حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے....؟ آج سے چودہ سوسال پہلے صادق ومصدوق صلى الله عليه وسلم نے فرمایاتھا  جہنم نےاپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصہ کو کھا رہا ہے ،  اس ليے تو مجھے سانس لینے کی اجازت عطا فرما ، چنانچہ اللہ تعالی نے جہنم کو دو سانس لینے کی اجازت دے دی ۔ایک سانس موسم سرما میں لینے کی اور ایک سانس موسم گرما میں چھوڑنے کی۔ لہذا (موسم گرما میں ) تم جو سخت گرمی پاتے ہو( اس کے سانس چھوڑنے کی وجہ سے ہے ) اور موسم سرما میں جو سخت ٹھنڈی پاتے ہو، اس کے سانس (لینے ) کے اثر سے ہے“ ۔ (بخاری ومسلم)
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق نبی امی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :” جب گرمی کی شدت ہو تو اُس وقت ٹھنڈے وقت میں نماز ادا کرو ( یعنی انتظار کرلیا کرو کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہوجائے ) کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس کی لپیٹ سےپیدا ہوتی ہے “ ۔
شاید آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ گرمی میں شدت کیوں کر آتی ہے ؟ یعنی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے .... آج ہم جس گرمی کی شدت اور تپش کا احساس کرتے ہیں اس کا مصدر اور سر چشمہ در اصل جہنم ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم سائنسی تحقیقات کا انکار کرتے ہیں ، سائنس اپنی جگہ پرمسلم ہے ‘ اگر سائنسی معلومات تحقیق اور تجربے سے سامنے آتی ہیں تو شرعی اسباب قرآن وسنت سے ثابت ہوتے ہیں اور یہ اُن سے زیادہ قوی ہيں ۔
عرض مدعا یہ ہے کہ جب گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے توہم موسمِ گرما کی آمدپرجہنم کو یا دکریں۔ آج ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آرام وراحت سے رکھنے کی کوشش کرتاہے، انکے لےے ٹھنڈی اور گرمی سے بچاکے وسائل کا بند وبست کرتاہے، کوئی ایر کنڈیشن روم میں رہتاہے،کوئی دنیا کے ٹھنڈے مقامات کی طرف منتقل ہوجاتاہے، کوئی کولر اور بجلی پنکھا کے ذریعہ گرمی سے بچاؤ اختیار کرتاہے جبکہ کچھ لوگ ہاتھ کے پنکھا سے ہی گرمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انہیں لوگوں کو آتش جہنم سے بچنے کی کوئی فکر نہیں، اپنے آپکو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالی نے بنده مومن کو جہنم سے ڈرایا ہے اور اس سے بچنے کی ان لفظوں میں تاکید کی ہے ۔”اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیاجائے بجا لاتے ہیں“۔
آج ہم معمولی گرمی کی شدت سے پریشان ہوجاتے ہیں لیکن جہنم میں کیا حال ہوگا جہاں آگ کا بستر ہوگا، آگ کا لباس ہوگا ،پیپ کا کھانا ہوگا، اور آگ میں جلنا ہوگا، جو آگ گوشت، رگوں،پٹھوں اور چمڑے تک کو کھاجائے گی، پھر ان جلے ہوے اعضاءکےبدلے نئے اعضاءدیے جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے ليے چلتا رہے گا ، وہاں کبھی موت نہیں آسکتی۔
لہذا اگر ہم آتشِ جہنم سے بچنا چاہتے ہیں اورجنت کی پرکیف نعمتوں کےمتمنی ہیں توہمیں محاسبہ نفس اور فکرآخرت کے ليے شب وروز کی مشغولیات میں سے ذرا وقت نکالنا ہوگا، طبیعت پر شاق گزرنے والے اعمال انجام دینے ہوں گے اور شہوات کو قابومیں رکھنا ہوگا کیونکہ حضورپاک صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے ”جنت کو طبیعت پر گراں گزرنے والی چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپ دیا گیا ہے “ ۔اللہ تعالی ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے۔ آمین


مکمل تحریر >>

لذت آہ سحرگا ہی

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ينزل ربنا تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر ، فيقول : من يدعوني فأستجيب له ، من يسألني فأعطيه ، من يستغفرني فأغفر له . ( متفق عليه ) 

ترجمہ :
”اللہ تبارک وتعالی ہر شب جب رات کا سہ پہر باقی رہتا ہے تو سماء دنیا پر اُترتا ہے ، اور پکارتا ہے ،کون ہے جو دعا کرے کہ ہم اس کی دعا قبول کریں ، کون ہے جو ہم سے مانگے اور ہم اُسے عطا کریں ، کون ہے جو ہم سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور ہم اس کے گناہوں کو معاف کردیں“ ۔ بخاری ومسلم

تشریح :
اگر کسی شہر میں وزیر کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ شب میں فلاں وقت سے فلاں وقت تک حاضر ہونے والا ہے جس میں وہ ہم وطنوں کے حاجات کی تکمیل کرے گا اور اُن کے مشکلات حل کرے گا ۔ اگر آپ اس شہر کے باشندہ ہوں تو خدارا مجھے بتائیں کیا آپ وقت مقررہ پر وزیر سے ملنے نہ پہنچ جائیں گے ، کیا آپ کے اندر وزیر سے ملنے کی کھلبلی نہ مچی ہوگی ؟
جی ہاں! ضرور ۔ حالانکہ یہ پکار موقع محل کے اعتبار سے بسااوقات ہوتی ہے ، اور وہ بھی عام نہیں ہوتی ،جبکہ دوسری پکار ہرروز ہوتی ہے ، اور ہرخاص وعام کے لےے ہوتی ہے ، یہ پکار ہمارے رب ذوالجلال کی پکار ہے جو رات کے سہ پہر میں سماءدنیا پر ہوتی ہے ۔ پیش نظر حدیث میں اِسی پکار کی خبر دی گئی ہے ، ظاہر ہے یہ کسی ادیب ، کسی فلسفی ، یا کسی نجومی کے الفاظ نہیں بلکہ اس دانائے راز پیغامبر کے الفاظ ہیں جن کے نطق سے وحی کے مقدس پھول جھڑا کرتے تھے ۔اب ہمیں جواب دیجےے ! کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب شہر میں وزیر کی پکار ہوتی ہے تو ہم راتوں کی نیند قربان کرکے اس کی خدمت میں وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں جبکہ وہ ہمارے کسی چیز کا مالک نہیں لیکن روزانہ جب ہمارے خالق ومالک کی پکار ہوتی ہے تو ہم خواب خرگوش میں پڑے رہتے ہیں حالانکہ ہماری سعادت ، ہماری شقاوت، ہماری تونگری، ہماری تنگ دستی ، ہماری زندگی اور ہماری موت اُسی کے ہاتھ میں ہے ۔ جب بات یہ ٹھہری تو ہم اپنے رب کی پکار پر لبیک کہیں ، ابھی رمضان کا آخری عشرہ باقی ہے ، رات کے سہ پہر میں بیدار ہوکر اپنے رب کے سامنے گرگرائیں ، روئیں ،اور مغفرت کے طلبگار ہوں، اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کی قربت حاصل کرنے سے بہتر سعادت آخر کیا ہوسکتی ہے ، اےسے وقت میں جبکہ سحر کی بھینی بھینی ہوائیں چل رہی ہوں ، نسیم صبح کے جھونکے عطربیزیاں کررہے ہوں ، ہرسوسناٹا چھایا ہوا ہو ایسے پُرلطف وقت میں رب کریم کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور گرگرانے کی لذت کا کیا کہنا اور پھرایسے وقت میں شب بیداری کامیابی کی کنجی ، محبت الہی کا سبب ، دنیوی واخروی مصالح کے حصول کا ذریعہ اور کمال شخصیت کا راز ہے ، علامہ اقبال نے کہا تھا
 عطار ہو رومی ہورازی ہو غزالی ہو
 کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحرگا ہی
اس ليے خالق دوجہاں سے شب بیداری کی توفیق کا سوال کرتے ہوئے دعا کریں کہ
پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے

 رونا میرا وضو ہو نالہ میری دعا ہو
مکمل تحریر >>