ہفتہ, اکتوبر 20, 2012

ابراہیم عليه السلام کون تھے ؟

 پیارے بچو!
چند دنوں میں حج کاموسم آرہا ہے، انہیں ایام میں غیرحاجی عید قرباں منا تے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں حج اور عید قرباں کس کی یادگار ہے ؟ یہ دونوں اس عظیم انسان کی یادگار ہے جسے ابراہیم عليه السلام کہا جاتا ہے ۔ آئيے آج ہم آپ کو ایسی عظیم ہستی کی کہانی سناتے ہیں :
ابراہیم عليه السلام عراق کے قدیم شہر ار میں پیدا ہوئے۔ اس شہر کے لوگ بت پرست تھے۔ خود آپ کا باپ نہ صرف بت پرست بلکہ بت گر اور بت فروش بھی تھا۔ ابراہیم عليه السلام نے سب سے پہلے اپنے باپ کو سمجھایا کہ ابوجان! آپ ایسی چیزوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں جو نہ آپ کو نفع پہنچا سکتے اور نہ نقصان ....لیکن باپ نے ایک نہ سنی اور دھتکار دیا .... تب قوم کے لوگوں کو بتوں کی پوجا سے روکا .... جب یہاں بھی نا کامی ہوئی تو ایک دن منصوبہ بند طریقے سے جبکہ شہر کے لوگ کہیں باہر گيے ہوئے تھے آپ نے معبد میں جا کر سارے بت توڑ د یے۔ اس پر بادشاہ نمرود نے آپ کو بھڑکتے ہوئے الاومیں پھنکوا دیا۔ لیکن خدا کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہوگئی اور آپ کا بال تک بیکا نہ ہوا۔
جب آپ اپنے باپ اوراپنی قوم کے لوگوں سے نا امید ہوگيے تووطن کو چھوڑ کر فلسطین ہجرت کر گيے اور اپنے دین کی تبلیغ کے لیے دو مقام منتخب کیے۔ ایک بیت المقدس اور دوسرا مکہ۔ آپ کی دو بیویاں تھیں۔ ھاجرہ اور سارا۔ ہاجرہ علیہاالسلام کے بطن سے اسماعیل عليه السلام پیدا ہوئے اور سارا علیہاالسلام سے اسحاق عليه السلام پیدا ہوئے۔اسماعیل عليه السلام ابھی بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام اللہ پاک کا حکم پاکر ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی ویران جگہ پر جب ننھے اسماعیل بھوک پیاس سے تڑپنے لگے تواللہ پاک نے ان کے ليے زمزم کا چشمہ جاری کیا، جو آج تک دنیا کے سارے پانیوں سے بہتر اور ہر مرض وغرض کے ليے مفید ہے ۔ جب ننھے اسماعیل ہوشیار ہوگيے تو اللہ پاک نے ان کے ابو ابراہیم عليه السلام کو خواب میں دکھایا کہ تم اپنے بیٹے کو میرے نام پر قربان کردو۔ ابراہیم عليه السلام نے حضرت اسماعیل عليه السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم بتاؤکہ تمہاری کیا رائے ہے؟ فرماں بردار بیٹا بلاجھجھک جواب دیتا ہے :
” ابو جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے کر گزريے بلاشبہ آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے“ ۔
جب حضرت ابراہیم عليه السلام نے ننھے اسماعیل کو منھ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم ! تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ پھر خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم عليه السلام نے ذبح کیا۔
پیارے بچو!حضرت ابراہیم عليه السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال سارے مسلمان عیدالاضحی مناتے ہیں۔
حضرت اسماعیل عليه السلام جوان ہوئے تو حضرت ابراہیم عليه السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور اس طرح دنیا میں اللہ کا پہلا گھر تیار ہوا۔ پھر اللہ کے حکم سے حج کا اعلان کیا، صحرا سے نکلنے والی یہ صدا پوری دنیا میں پہنچی، چنانچہ آج مسلمان موسم حج میں دنیا کے گوشہ گوشہ سے اس مرکز رشد وہدایت کی طرف کھینچے آتے ہیں ۔ حضرت محمد صلي الله عليه وسلم، اسماعیل عليه السلام کی اولاد میں سے ہیں اور اسی نسبت سے مسلمان ملت ابراہیمی کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔



مکمل تحریر >>

بدھ, اکتوبر 17, 2012

دوران خطبہ امام کی دعاپر ہاتھ اٹھا کرآمین کہنا

 

سوال:

جمعہ کے دن جب امام دوران خطبہ دعا کررہا ہوتا ہے تو لوگ ہاتھ اٹھاکر آمین کہتے ہیں ، کیا ہاتھ اٹھانے کی مشروعیت حدیث سے ثابت ہے ؟ ( شیخ عبدالرشید، وفرہ (

جواب :

یہ مسئلہ جب شیخ ابن عثیمین ؒ سے پوچھا گیا کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کا حکم کیا ہے ؟ توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا: جمعہ کے دن دوران خطبہ ہاتھ اٹھانا مشروع نہیں، جب بشر بن مروان نے خطبہ جمعہ میں دعاءکے لیے ہاتھ اٹھایا تو صحابہ نے ان پرنکیر کیا تھا.

لیکن اس سے بارش کے لیے دعاءکو مستثنی مانا جاتا ہے، کیونکہ نبی کریم انے بارش کے لیے دعاءکرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ہاتھ اٹھایا تھا، اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہاتھ اٹھائے. اس کے علاوہ خطبہ جمعہ میں دعاءکے وقت ہاتھ نہیں اٹھانے چاہئیں۔. (فتاوی ارکان اسلام392 (


شیخ عبدالرووف بن عبدالحنان الأشرفی نے اس موضوع پرحکم رفع الایدی فی دعاءخطبة الجمعة کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں انہوں نے دوران خطبہ امام کی دعا پر ہاتھ اٹھاکر آمین کہنے کو بدعت قراردیا ہے ۔

مکمل تحریر >>

جمعرات, اکتوبر 04, 2012

محترم عبد الصبور عبدالنور الندوى صاحب كے نام

محترم عبد الصبور الندوى صاحب

السلام علیكم ورحمة اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامى ؟ 
آپ کا میل ملا ، بے حد خوشی ہوئی ، ایک عرصہ سے آپ کا مجھے غائبانہ تعارف حاصل ہے ،آپ زیرتعلیم ہوتے ہوئے بھی بلوگنگ سسٹم جاری رکھے ہوئے ہیں یہ امر قابل ستائش ہے، آپ نے جو دینی مجلات کا ذکر کیا ہے مجهے تو ايسا لگتا ہے كہ  آپ نے ميرے دل كى بات چھن لى ہے ، واقعی دینی مجلات کا حال عجیب ہے ،آج کے ڈیٹ میں کتنے رسالے ہیں جو چھپ کر منظر عام پر آرہے ہیں ….لیکن ان کا فائدہ کس قدر محدود ہے اس کا احساس ذمہ داروں کو نہیں ہے ،اس وجہ سے کہ انٹرنیٹ کی ہلکی سی معلومات بھی اكثرذمہ داران نہیں رکھتے ۔ صحیح منہج کے حاملين آج بهى اس ميدان میں بہت پیچھے ہیں ،جبکہ گمراہ فرقوں کو دیکھیے کہ وه نیٹ كے ذريعه اپنے كهوٹے سكوں كو دين كے بازار ميں عام كرنے ميں كس قدر چست اور نشيط  دكها ئى دے رہے ہیں ،
کچھ اداروں کے صفحات نیٹ پر موجود بهى ہیں تو پرانے مواد جو ڈيزائننگ كے وقت اپلوڈ كيے گيے تهے وهى وہاں مليں گے، سالوں سال سے اس کی طرف ان کا دهيان نہیں گيا ، کچھ لوگ سال میں ایک مرتبہ جب اس کی فیس جمع کرنے کا موقع ہوتا ہے اپڈیٹ کردیتے ہیں، اب آپ تصور كيجيے كہ اس نیٹ كا کیا فائدہ ….اور وہ بھی مواد كو یونیکوڈ میں نہیں بلکہ پی ڈی ایف كى شكل میں اپلوڈ کرتے ہیں جس کا فائدہ نہایت محدود ہوتا ہے ۔
بہرکیف آج ضرورت ہے کہ ارباب مدارس کى توجہ اس طرف مبذول كرائى جائے ….الحمد للہ پاکستان کی جماعت اہل حدیث اس معاملہ میں بہت حد تک بہتر ہے ….اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ، اور اللہ تعالی آپ کو اپنى تعليم میں کامیابی سے سرفراز فرمائے …. میری ناقص رائے ہوگی کہ ان دنوں آپ اپنے تخصص پر دھیان دیں اور ماجسترکی ابھی سے تیاری جاری رکھیں
مکمل تحریر >>

دواحادیث کے بیچ تطبیق کی صورت

 

سوال :

سنجیدگی یا مذاق میں نکاح ،طلاق اور رجعت معتبر سمجھی جاتی ہے ۔جبکہ حدیث میں آتا ہے کہ بغیرولی اور دو گواہوں کے نکاح نہیں۔ان دونوںمیں تطبیق کی کیا صورت ہوسکتی ہے دلائل کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔؟         (شعیب رومی، وفرہ (

جواب :

جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ مذاق یا سنجیدگی کی طلاق ،نکاح اوررجعت معتبر سمجھی جائے گی جیسا کہ حدیث ہے: ”تین چیزیں سنجیدگی میں بھی حقیقت ہیں اورمذاق میں بھی حقیقت ہیں‘ نکاح ،طلاق اوررجوع کرنا“۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ وحسنہ الالبانی فی الارواء1826 (

اورمنطقی ناحیہ سے بھی طلاق واقع ہوجانی چاہیے ورنہ لوگ دل لگی کرنے کا بہانا بناکر شریعت کے ساتھ کھلواڑکرنے لگیںگے کہ میرا ارادہ طلاق کا تو نہیں تھا۔ رہی دوسری حدیث کہ” بغیرولی اوردو گواہ کے نکاح صحیح نہیں ہوتا“ تویہ بھی صحیح ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں:لا نکاح الابولی وشاھدی عدل (صحيح الجامع 7557) ”ولی اوردومنصف گواہ کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔ 


 اوردونوں احادیث میں اصلاً کوئی تعارض نہیں،کیونکہ ولی اوردو گواہوں کی موجودگی ہر حالت میں ضروری ہے ،جب سنجیدگی میں نکاح ہورہا ہوتو وہاں صحت نکاح کے لیے ولی اور دو گواہ کی ضرورت پڑتی ہے تو مذاق میں یہ لفظ بولتے وقت بدرجہ اولی ولی اور دوگواہ کی موجودگی ضروری ہوگی،خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص ولی اوردومنصف گواہ کے سامنے سنجیدگی یا مذاق میں نکاح کے الفاظ بول دیتا ہے تو اس کا نکاح معتبرمانا جائے گا۔

مکمل تحریر >>

غیرمسلم کا ترجمہ قرآن چھو نا

سوال :

میرے پاس قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ دستیاب ہے کیا اسے کوئی غیر مسلم چھو سکتا ہے ؟


جواب :

غیرمسلم کے لیے ترجمہ قرآن کو چھونے میں کوئی حرج نہیں، چاہے ترجمہ انگریزی زبان میں ہو یا کسی اور زبان میں، اگر اسے غیرمسلم چھوتا ہے یا ایسا آدمی چھوتا ہے جو باوضو نہیں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ترجمہ‘ قرآن کاحکم نہیں رکھتا بلکہ تفسیر کے حکم میں ہے، اورتفسیر کی کتابوں کو غیرمسلم اور جو طہارت سے نہ ہوں سب چھو سکتے ہیں یہی حکم حدیث، فقہ اورعربی زبان کی کتابوں کا ہے ۔

مکمل تحریر >>