بدھ, نومبر 10, 2010

شوہر کا بیوی سے دوری کی مدت


سوال :

 ایک شوہر اپنی بیوی سے کتنے دنوں تک دور رہ سکتا ہے ؟ (محمد شریف ۔ کویت )

جواب : 

شوہر کے لیے جائز ہے کہ کام کرنے کے مقصد سے یا تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے یا دوسری شرعی مصلحت کے تحت اپنی بیوی سے دوری اختیار کرے ، جس کی مدت چھ مہینہ ہے ، اور بعض علماءنے کہا کہ چار مہینہ ہے۔ اگر اس مدت سے زیادہ رہنے کی نوبت آجائے تو بیوی سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔
اس سلسلے میں مصنف عبد الرزاق میں آیا ہے کہ عمر فاروق ص ایک مرتبہ رعایا کی خبرگیری کے لیے رات میں دیہاتوں کا چکر لگا رہے تھے کہ ایک عورت کو چند اشعار پڑھتے ہوئے سنا جس میں شوہر کی جدائی کا اظہار کیا گیا تھا ۔

معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا شوہر حکومت کی طرف سے کسی مہم پر گیا ہواہے ، اسی وقت آپ نے گھر آکراپنی بیٹی حفصہ سے اس سلسلے میں بات کی کہ ایک عورت اپنے شوہر سے دوری کتنے دنوں تک برداشت کرسکتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ چار مہینہ : چنانچہ عمر فاروق صنے یہ نظام نافذ کردیا کہ کوئی بھی حکومت کا اہلکار چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دور نہیں رہ سکتا۔

جبکہ فقہ کی کتاب ”المغنی“میں آیا ہے کہ سیدنا عمرفاروق ص نے مجاہدین کے لیے چھ مہینے کا وقت مقررکیا تھا، ایک مہینہ چلیں گے چار مہینہ ٹھریں گے پھر ایک مہینہ میں چل کر لوٹیں گے۔

اس سلسلے میں اصولی بات علامہ محمدبن صالح العثیمین نے عرض کردی ہے آپ فرماتے ہیں:

” اگر شوہر کو بیوی کے تئیں بالکل اطمینان ہے ، اور محفوظ جگہ پررہائش پذیر ہے ، تو چھ مہینہ تک اس سے دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ اگر اپنے حق کا مطالبہ کرے اور شوہر سے طلب کرے کہ وہ آجائے تو اسے چاہئے کہ چھ مہینہ سے زائد اپنی بیوی سے دور نہ رہے۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو جیسے بیماری کا علاج کرا رہا ہے یا اس جیسے دوسرے اعذار۔ اس لیے کہ ضرورت کے خاص احکام ہوتے ہیں ، بہرکیف اس سلسلے میں حق بیوی کا ہے ، اگر اس نے دور رہنے کی اجازت دے دی ہے ، اور وہ محفوظ جگہ پر ہے تو دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ گرچہ زیادہ دنوں تک ہی شوہر کیوں نہ غائب رہے“۔ (فتاوی العلماء فی عشرة النساء 106)

البتہ شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ مال ودولت جمع کرنے کے دھن میں اپنی بیوی کی نفسیات کو نظر انداز نہ کرے، اس سے ہمیشہ بات کرتا رہے ، اُسے تنہا نہ رہنے دے ، ایسی جگہ پر رکھے جہاں اس کے محرم رہتے ہوں۔ اور جب کبھی موقع ملے سفر پر چلا جائے آخر پیسہ کس کے لیے کما رہا ہے۔

آخری بات یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر بیوی کی اجازت سے آپ باہر رہ رہے ہیں توخود اپنی اور اپنی بیوی کی دینی تربیت بہت ضروری ہے ، دینی تربیت سے مراد روحانی غذاحاصل کرنا ہے اگر ایک شخص بیوی سے دور رہ کر نماز کی پابندی کرتا ہے ، نفلی روزوں کا اہتمام کرتاہے ، صبح وشام کے اذکار پر دھیان رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرتا ہے چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو .... تو وہ بیوی سے دور رہ کر بھی یک گونہ سکون پائے گا .... اگر نہیں تو ہمیشہ ذہنی الجھن ، پریشانی ، اور قلق واضطراب کا شکار رہے گا .... اس کے ساتھ ساتھ برائیوں میں بھی پھنستا جائے گا۔ یہی حال بیوی کا بھی ہے .... اس لیے اگر آپ بیوی بچوں سے دور ہیں توپریشانیوں کے علاج اور ذہنی سکون کے لیے روحانی غذا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرذہنی سکون کے لیے فحش فلموں کا سہارا لیا....جیسا کہ بعض لوگوںکا خیال ہے تو سمجھ لیں کہ اس سے سکون نہیں ملے گا بلکہ ٹینشن میں مزید اضافہ ہوگا ، ہمیشہ قلق واضطراب دامن گیر رہے گا، جسے سکون کی تلاش ہے وہ روحانی زندگی گزار کر دیکھ لے‘ زندگی میں کیسی تبدیلی آتی ہے۔
مکمل تحریر >>

جمعہ, اکتوبر 08, 2010

بابری مسجد اراضی ملکیت : حقائق اور ہماری ذمہ داریاں


 شدت سے انتظار کرتے کرتے بالاخر وہ دن آہی گیا جس دن بابر کی تاریخی یادگاربابری مسجد کی قسمت کا فیصلہ سنادیا گیا ، اورمسجد کی اراضی قانون ،اصول اورتاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض آستھا کی بنیاد پر تین حصوں میں بانٹ دی گئی ،دوحصہ کے مالک ہندو ٹھہرائے گئے تو ایک حصہ مسلمانوں کی تحویل میں کیا گیا گویا یہ کسی جائیدادکی تقسیم کا معاملہ تھا جس کے ذریعہ دوفریق کو منانا مقصود ہو ،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلہ نے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،ایک عام آدمی کو نفسیاتی کرب اور ذہنی الجھن میں مبتلا کردیا ہے،مسلمان تومسلمان انصاف پسند ہندومؤرخین اور دانشور بھی اس فیصلہ پر انگشت بدنداں ہیں،ہندوستان کی مشہور مؤرخ رومیلا تھاپر نے اس فیصلہ کو سیاسی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں،جب کسی زمین کو ہڑپ لینا ہوتو فسطائی تنظیمیں اسے کسی مقدس شخصیت کا جنم استھان قرار دیں گی ، اس طرح فیصلہ ان کے حق میں چلا جائے گا۔
یہ تبصرہ ہے ایک غیرمسلم مؤرخ کا ،اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈال کر دیکھئے، توسیعی ذہنیت کے علمبردار یہ فرقہ پرست عناصر اسلام اور اہل اسلام کوایک لمحہ کے لیے دیکھنا نہیں چاہتے ،کیونکہ ان کی جڑ یہودیت سے ملنے لگی ہے ، یہ صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ نہیں ہے‘ وشوہندوپریشد نے کاشی اور متھراسمیت تین ہزار مسجدوں کی لسٹ تیار کررکھی ہے جن کے بارے میں وہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیںکہ تمام مساجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 3 اکتوبر کے اخبارات میںمذکورہ تنظیم نے بیان دیا ہے کہ مسلمان متھرا اور بنارس کی مساجد سے دستبردار ہوجائیں۔ اس کے لیے انہوں نے باضابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اورادھر ہمارے بعض بھولے بھالے دانشور ہیں جوہندومسلم اتحاد، قومی یکجہتی اور نام نہاد حب الوطنی کے نام پر مسجد سے دست برداری کا راگ الاپ رہے ہیں، کچھ منافقین نے تو رام مندر کی تعمیر کے لیے پندرہ لاکھ روپئے کے عطیہ کا اعلان بھی کرڈالا تھا، مسلمانوں کے آستین میں چھپے ہوئے یہ سانپ ہیں جو اس طرح کی ہذیان گوئی کرتے رہتے ہیں،ہمیں کہنے دیا جائے کہ اگر ہم نے فرقہ پرست عناصر کی بروقت نوٹس نہ لی ، اوران کے ہر فیصلے پر ایسے ہی سر جھکاتے گئے تو ہندوستان میں ہمارا عرصہءحیات تنگ کردیا جائے گا ،صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ رہتا تو ہم اسے انگیز کرلیتے لیکن اب مسائل پہ مسائل اٹھیں گے ،یہ ہندوستان میں ہمارے مستقبل کا مسئلہ ہے،ہمارے تشخص کا سوال ہے، مسلمان عزت کی زندگی گزارتا ہے ذلت کی نہیں ، اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ ہم اپنے مقدسات کو غیروں کے حوالے کردیں ،اورہم کون ہوتے ہیں ان کے حوالے کرنے والے ،یہ تو اللہ کے گھر ہیں ،یہ توحید اور شر ک کا مسئلہ ہے ۔ حالات بہت نازک ہیں،یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب حل وعقد مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اوردانشمندانہ طریقے سے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں،انصاف پسند غیرمسلم ماہرین قانون سے بھی مشورہ کریں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔
پھر اگر اس دستبرداری کی کوئی قانونی حیثیت ہو تی تو ایک بات تھی، جس رام کی جائے پیدائش کے نام پر فسطائی طاقتوں نے 6دسمبر1992ء میںبابری مسجد کوشہید کیا تاریخی حقائق سے کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام کی کوئی نشانی تھی۔ گذشتہ دنوں جب بابری مسجد کا معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ میں تھا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے روزنامہ منصف میں ایک مضمون لکھا تھا”ایک مظلوم عدالت کے کٹہرے میں “ جس میں انہوں نے تاریخی شواہد اور حقائق کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ بابری مسجد کا رام کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں،اور بابر کو ظالم وجابر ٹھہرانا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ کیسے ؟ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود بھی تھا یا نہیں، تو بڑے بڑے ہندو دانشوروں نے کہا ہے کہ رام جی دراصل ایک افسانوی اور دیومالائی کردار ہے کسی حقیقی شخصیت کانام نہیں ہے ، اگرمان لیاجائے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود تھا اور وہ اجودھیا میں پیدا ہوئے تو سوال یہ ہے کہ اجودھیا سے کون سا علاقہ مراد ہے، آثارقدیمہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایم وی کرشنا راؤ نے ثبوتوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ اصل اجودھیا ہریانہ کا مقام ”بناؤلی“ ہے جبکہ دوسری طرف رامپور کے ایک پنڈت جی نے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ دعوی کیا ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے،بعض مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ رام کی سلطنت کی جگہ اجودھیا کے بجائے بنارس ہے ،ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں اجودھیا کا ذکر ملتا ہے لیکن اجودھیا کس مقام پر تھی اور رام جی کہاں پیدا ہوئے بالمیکی کے رامائن کے مطابق اجودھیا ساڑھے تیرہ میل کے فاصلے پر تھی اور مشرقی سمت میں تھی جبکہ آج کا اجودھیا لب سمندر اور مغربی سمت میں واقع ہے ۔ پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ1902 ء میں رام جی کی جائے پیدائش کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کافی تحقیق کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایاکہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو ، ان میں سے ایک کانام رام جنم استھل اور دوسرے کا نام رام جنم بھومی ہے اور یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں ۔ بابری مسجد پانچ سو سال سے وہاں موجود ہے ،تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے بڑے مؤرخین گذرے ہیں ،بڑے بڑے رام بھکت پیداہوئے لیکن کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ پھرجس کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے اس کا مزاج بھی تو ویسا ہونا چاہیے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بابر مذہبی رواداری کا قائل تھا ،ہندو پنڈتوں سے بہت عقیدت سے پیش آتاتھا ،یہاں تک کہ بابر نے اپنے وصیت نامہ میں گاؤکشی سے منع کیا ہے تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ۔ پروفیسر سری واستو نے اپنی پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ بابر پر الزامات اس کی شخصیت اور کردار سے قطعی میل نہیں کھاتے ۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج کادور آیاجنہوں نے پھوٹ ڈالوحکومت کروکی پالیسی کے تحت جہاں اپنے بطن سے مرزاغلام احمد قادیانی کو جنم دیا تودوسری طرف تاریخی حقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا جس میں مسلم سلاطین پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہندوقوموں کو جبراً مسلمان بنایا اور ان کی مذہبی یادگاروں کومسجد میں تبدیل کردی تاکہ ایک طرف دنیا کوباور کرایا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر سیاست کی کرسی پر براجمان رہیں۔
بہرکیف یہ چند حقائق تھے جنہیں اس مناسبت سے پیش کرنانہایت ناگزیر تھا تاکہ ہماری نئی نسل تاریخی شواہداور موجودہ حالات سے باخبر رہے ،جہاں تک پیش آمدہ مسئلے سے نمٹنے کا سوال ہے تو اس کے لیے ملت کے قائدین موجود ہیں جو اپنی دور اندیشی سے مناسب فیصلہ کریں گے البتہ انفرادی طور پر ہرمسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ حالات سے سبق سیکھے اور مساجد سے ہماری اکثریت کاجو تعلق ٹوٹ چکا ہے اسے مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے دعوی میں سچے ثابت ہوسکیں ۔اسی طرح غیرمسلموں میں دعوت کرنے کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ گم کردہ راہ انسانیت کو بتایاجاسکے کہ انہوں نے جس شاخ نازک پراپنا آشیانہ بنارکھا ہے ہوا کا ایک جھونکا اسے زمین بوس کرنے کے لیے کافی ہے ۔
مکمل تحریر >>

جمعہ, اکتوبر 01, 2010

مجلس کا سب سے لذیذ گوشت

وَلَا یَغتَب بَّعضُکُم بَعضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُم ان یَاکُلَ لَحمَ اَخِیہِ مَیتاً فَکَرِہتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ تَوَّاب رَّحِیم ( الحجرات 12 )

ترجمہ: اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے‘ تمہیں تو گھن آئے گی۔ اللہ سے ڈروبیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
تشریح : زیرنظر آیت کریمہ میں اللہ پاک نے زبان کی آفات میں سے ایک خطرناک آفت غیبت سے منع کیا ہے ۔ غیبت کیا ہے ؟ ایک مرتبہ نبی پاک صلى الله عليه وسلم  نے اپنے اصحاب سے پوچھا: تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جو اسے برا لگے، لوگوں نے پوچھا : اگرمیرے بھائی میں وہ عیب ہے جو میں بیان کررہاہوں تو؟ آپ نے فرمایا:اگراس کے اندر واقعتاً وہ عیب پایا جاتا ہے تب ہی توغیبت ہے ، اگراس کے اندر وہ عیب پایا ہی نہیں جاتا تب تویہ بہتان ہے“۔ (مسلم)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ پاک نے غیبت سے روکتے ہوئے اس کی قباحت اس انداز میں بیان کی ہے جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ایک ایسے انسان کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو، مردارکاگوشت کھاناخود ہی گھناونی بات ہے جس سے ہر انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے ، پھر گوشت بھی کسی مردار جانور کا نہیں بلکہ انسان کا اور انسان بھی کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا بھائی ، تصور کریں کہ کسی کاسگا بھائی اسکے سامنے مرا پڑا ہو اوروہ اس کے گوشت کو نوچ نوچ کرکھا رہا ہو ‘ دل دہلا دینے والی مثال بیان کرکے اللہ تعالی نے اس جرم کی قباحت کی طرف اشارہ کیا ہے   
لیکن صد حیف آج ہماری مجلسو ں کا سب سے لذیذ گوشت یہی سمجھا جاتا ہے ،مزے لے لے کر اپنے سگے اورمردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کرکھاتے اور ڈکار لگاتے ہیں، ہمیں اس میں اتنا لطف ملتاہے کہ باربارکھانے کے باوجود طبیعت نہیں اکتاتی،منہ سے مردے کا خون ٹپک رہا ہوتا ہے ، گھناونی بدبو آرہی ہوتی ہے لیکن خمارایسا کہ اترنے کانام نہیں لیتا۔ العیاذ باللہ ۔ اورظاہر ہے جس کی دنیا میں ایسا ذائقہ دار گوشت کھانے کی عادت بن گئی ہو ‘آخرت میں اس سے کیونکرمحروم رکھا جائے گا لیکن وہاں تو کوئی انسان ملے گا نہیں کہ اس پر حملہ کرے ، اس لیے اپنا ہی چہرہ نوچتا پھرے گا اس حدیث پرغورکیجیے :
”معراج کی شب میرا گذر ایک ایسی قوم سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، میں نے جبریل امین سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی غیبت کرتے تھے “۔(ابوداود)
حضرت صفیہ رضي الله عنها  پست قد تھیں ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضي الل عنها  نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے کہہ دیاکہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لیے کافی ہے۔( مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے)نبی کریم نے فرمایا: 
لقد قلت کلمة لو مزجت بماء البحر لمزحتہ۔ (ترمذی)
”تونے ایسی بات کہہ دی کہ اگر اسے سمندرکے پانی میں ملادیا جائے توساراپانی گدلا ہوجائے “۔
توآئیے آج ہی سے یہ عہد کریں کہ ہم سب کسی صورت میں اپنے مردہ بھائی گا گوشت نہ کھائیں گے یعنی کسی کی غیبت ہرگز نہ کریں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین
مکمل تحریر >>

بدھ, ستمبر 08, 2010

نبی رحمت صلى الله عليہ وسلم کی توہین آمیزفلم اور ہماری ذمہ داری


آج مغرب سمیت پوری دنیا اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوچکی ہے ، کبھی وہ مسلمات دین پر کیچڑ اچھالتے ہیں ، توکبھی قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں ،کبھی صدیقہ بنت صدیقؓ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں تو کبھی حرمین شریفین کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی مسلمانوں کو رجعت پسند اورکٹرپنتھی کا نام دیتے ہیں تو کبھی ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلم  کے اہانت آمیز خاکے شائع کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں یوٹیوب پر14منٹ کی ایک فلم نشر ہوئی ہے ، یہ فلم سام باسلے نے بنائی ہے ، جس نے خودکو اسرائیلی یہودی کے طورپر متعارف کرایا ہے ، اوردعوی کیاہے کہ اس فلم کی تیاری کے لیے اس نے100یہودیوں سے5 ملین ڈالراکٹھا کئے ہیں ۔ اس توہین آمیزفلم میں اس نے اسلام اور نبی رحمتصلى الله عليه وسلمکودہشت گردی کا علمبردار باور کرایاہے ، برصغیرپاک وہند سمیت پوری دنیامیں اس فلم کی مذمت کی گئی ہے ،اوراس کے ردعمل میں لیبیا میں امریکی سفیر جے کرسٹوفرسمیت تین امریکی اہلکار ہلاک کردئیے گئے ہیں ، مصر میں مشتعل عوام نے امریکی سفارخانے کو آگ لگادی ہے ۔

ظاہر ہے کیا کوئی برداشت کرے گا کہ اس کی ماں کو کوئی گالی دے یا سخت سست کہے ، ایک غیرتمندانسان قطعاً اسے برداشت نہیں کرسکتا ،اورممکنہ حدتک اپنی ماں کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا ،جب ماں کی اہانت پرہرانسان کے اندرغیرت جاگ اٹھتی ہے تو ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلم ہمیں اپنے ماں باپ سے بھی عزیز ہیں بلکہ ہماری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، ان کے ساتھ گستاخی کو ہم کیوں کر برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن ہرایک مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کوئی بھی اقدام شریعت محمدی سے ہٹ کرنہ کرے، جذبات میں آکر بے گناہوں کو قتل کرنا یا آباد جگہوں کو برباد کرنا اسلامی تعلیم کے منافی عمل ہے، خود ہم اپنے نبی کی زندگی میں جھانک کردیکھ سکتے ہیں کہ مخالفین کی مخالفت سے آپ کے اخلاق حمیدہ میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہا، اورجذباتی اقدام ہمیشہ مثبت اورہمہ گیر اثرات سے خالی ہوتا ہے پھر ہمیں اس طرح کی کاروائیوں کے پیچھے اسلام دشمن عناصر کے اہداف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ وہ اصل میں اسلام کی آفاقیت اوراسکے فروغ سے بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں، انہیں مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسسی ترقی اوران کی یکجہتی ویگانگت ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے، اس لیے وہ ایسی مجرمانہ کاروائی میں مشغول ہیں ۔ورنہ کتنے انصاف پسند مغربی مفکرین نے اعتراف کیا ہے کہ انسانیت میں اگرکوئی عظمت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ محمد صلى الله عليه وسلم  ہیں، آپ وہ عظیم انسان ہیں جن کے جیسے اس دھرتی پر نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ قیامت کے دن تک پیدا ہوسکتا ہے ،آخر اس سے بڑھ کر عظیم انسان کون ہوسکتا ہے جو ایک دن اور دو دن نہیں 23 سال تک انسانیت کی خیرخواہی کے لیے تڑپتا رہا ، پھروہ دن بھی آیا کہ جن لوگوں نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگائی تھی اپنے کئے پر پشیماں ہوئے اور آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں لے کر پھیل گئے۔ کیونکہ ان کویقین ہوگیاتھا کہ آپ ساری انسانیت کے لیے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں، کیااس انسان سے بڑھ کر رحم وکرم کا پیکر کوئی ہوسکتا ہے کہ جن کی خیرخواہی کی تھی انہوں نے ہی ان پر پتھر برسائے تھے، یہاںتک کہ خون آلود ہوکرزمین پر گرگئے تھے، جب ہوش آیا اورفرشتے نے ظالموں کو جرم کا انجام چکھانے کی اجازت چاہی تویہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ان میں سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔ اس یہودی عورت کو دیکھیں جس نے رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کے سامنے شدت عناد میں اس ارادہ سے زہرآلود کھانا پیش کیا تھا کہ اس نبی سے چھٹکارا حاصل کرلیں، لیکن اسے بھی معاف کردیا۔ پھر جن لوگوں نے 21 سال تک آپ کا اورآپ کے اصحاب کا جینا دوبھر کردیا تھا فتح مکہ کے موقع پر سارے مجرمین آپ کے قبضہ میں تھے ، ایک ایک سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن قربان جائیے رحمت عالم کی رحمت وشفقت پر کہ سب کی عام معافی کا اعلان کررہے ہیں ۔ آپ کی رحمت انسانوں توکجا حیوانوں تک کو شامل تھی جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ آج ایسے نبی رحمت کو دہشت گرد باورکرایا جارہا ہے تو یہ دراصل اس کشمکش اورمعرکہ آرائی کا شاخسانہ ہے جو حق وباطل کے بیچ روزاول سے جاری ہے اورتاقیامت جاری رہے گا ۔ یہ مجرمانہ حرکت جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی کہ اللہ پاک نے خود آپ کی شان بڑھائی ہے ، آپ کے ذکرکوبلند کیا ہے، آپ کے مخالفین کے لیے ذلت ورسوائی مقدرکی ہے، تمسخراڑانے والوں کواللہ پاک نے اپنے انجام تک پہنچایا ہے،اس لیے جب کوئی گستاخ ہمارے نبی صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کرے گا تواس سے ہمارے نبی کی تنقیص نہیں ہوگی بلکہ ان کے مقام اورمرتبہ میں اضافہ ہوگا ۔ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمکی اہانت کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے سورج پر تھوکنے کی جرأت کی تو تھوک ان کے چہرے ہی پر آگرا، تجربات بھی شاہد ہیں کہ اس طرح کی نازیبا حرکتوں کا انجام ہمیشہ بہتر ی کی شکل میں سامنے آیا ہے ،ہمیں اللہ پاک کے اس فرمان پر یقین رکھنا ہے کہ : لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیرلكم ”اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے “۔ البتہ ہمیں اس مناسبت سے اپنے حبیب کے دفاع کے لیے کمرہمت باندھتے ہوئے ذیل کے چندکام کرنے ہیں:
C اللہ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کریں ،دوستی اور دشمنی کا معیاراللہ اوراس کے رسولصلى الله عليه وسلمکی ذات ہونی چاہیے کہ مومنوں کواللہ کے دشمنوں سے محبت نہیں ہوتی ۔
 Cدشمن کا اقتصادی بائیکاٹ کریں ،ان کی مصنوعات کی ناکہ بندی کرکے ہم انہیں سخت خسارے سے دوچار کرسکتے ہیں کہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔
  Cاگر ہمارے اندر کسی طرح کی دینی کوتاہی پائی جاتی ہے تو اپنامحاسبہ کریں ،دین سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں ،اپنی سوچ میں فکرآخرت کو جگہ دیں ،سیرت نبوی کا گہرائی سے مطالعہ کریں،سیرت پر مشتمل کتابیں اپنے گھروںمیں لائیں اوربیوی بچوں کو پڑھ کر سنائیں، اپنے معاشرے میں سنت نبوی کو عام کریں۔ اس طرح اپنے نبی کی سنت کو نمونہ بناکر دنیا کوبتادیں کہ ہم اپنے نبی کے حقیقی محب ہیں ۔
  Cہرشخص اپنے اپنے میدان میں اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  کی طرف سے دفاع کرے ، اصحاب قلم اپنی نگارشات کے ذریعہ، خطباء اورائمہ مساجد خطبات جمعہ کے ذریعہ، اصحاب ثروت سیرت پر مشتمل کتابیں شائع کرکے، اور عام لوگ سیرت کا مطالعہ کرکے اورسیرت کے پیغام کو غیرمسلموں تک پہنچاکر دین کی خدمت انجام دیں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے ۔

           
مکمل تحریر >>

مولانا طاہر مدنی کے نام

گرامی قدر مولانا طاہر مدنی صاحب مہتمم جامعة الفلاح بلیریاگنج ، یوپی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

امید کہ حالات بخیر ہوں گے ۔

آپ کی کویت آمدکی مناسبت سے کئی مرتبہ آپ کے پاکیزہ خیالات سننے کا موقع ملا،کئی مجلسوںمیں آپ سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ،آپ جامعہ الفلاح کے مہتمم ہونے کے باوجود سیاست سے دلچسپی رکھتے ہیں،اورمسلمانوں کی نمائندگی کے لیے آپ نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ،یہ پہل میرے نزدیک قابل ستائش ہے ۔ اس اقدام پر آپ کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت کرتا ہوں، دل کی گہرائی سے آپ کی محنتوں کا قدرداں ہوں،میری دعا ہے کہ اللہ پاک قوم وملت کے لیے آپ کی ذات کو بہترین سرمایہ بنائے۔
 آج علماءطبقہ کی ذمہ داری تھی کہ قوم کی قیادت کا فریضہ انجام دیں ،دین کا صحیح شعور رکھنے والے علماءسیاست کے میدان میں آئیں ،آج وطن عزیزمیں قوم مسلم کا المیہ یہ ہے کہ جولوگ مسلمانوں کی نمائندگی کررہے ہیں وہ سیاست کی روٹی سینکنے یا اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لیے مسلمانوںکی صحیح نمائندگی کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں ، مسلمانوں کے مسائل کو حکمرانوں تک پہنچانے کے لیے ہی قوم کسی کو اپنا نمائندہ منتخب کرتی ہے ،خالص دینی رحجان رکھنے والے لوگ بھی اگر مسلم مسائل کی صحیح نمائندگی نہ کرسکیں اورتحفظات کے شکار ہوجائیں تو ظاہر ہے قابل افسوس معاملہ ہوگا ۔ہمیں قوی امید ہے کہ آپ کے سیاسی کردار سے قوم کوفائدہ پہنچے گا۔ یہی جذبات ہم آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں ،جب ماہنامہ مصباح میں آپ کا انٹر ویوشائع ہوا تھا ،تب ہی سے آپ کے تعلق سے مجھے پوری معلومات حاصل ہوئی ہے ۔
ابھی ایک دوست کے توسط سے آپ کا ای میل دستیاب ہوا ،خیال آیاکہ آپ کے تئیں میرے ذہن میں جو نیک جذبات ہیں آپ تک پہنچادوں،اس طرح برجستہ یہ چند سطور قلمبند ہوگئے ،دعاؤں میں یاد رکھیں گے ۔ زندگی رہی تو آئندہ رابطہ ہوگا۔

والسلام
آپ کا عزیز
صفات عالم محمدزبیرتیمی

مکمل تحریر >>

جمعرات, مئی 13, 2010

نمازمیں بُرے خیالات کا آنا


سوال:
جب میں نماز شروع کرتا ہوں تو نماز میں بُرے خیالات آنے لگتے ہیں ،اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ میری نمازیں بھی چھوٹنے لگی ہيں حالانکہ پہلے میں پنجوقتہ نمازوں کا پابند تھا ؟    (عبدالعلیم ۔ اندلس، کویت )

جواب:
سب سے پہلے آپ یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ آپ کی نمازوں کے فوت ہونے کی بنیادی وجہ گناہوں اور معاصی کاارتکاب کرناہے یہ ایساہتھیار ہے جس کے ذریعہ شیطان بندے کو بآسانی اپنا یرغمال بنا لیتا ہے اور اسے شعور بھی نہیں ہوتا ، اسی طرح ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ کے فحش پروگرام دین سے دوری پیدا کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں ۔ اور جب ایک آدمی گناہ کرتا ہے تواس کا براہ راست اثر دل پر پڑتا ہے جوانسانی جسم کا مرکزی عضو ہے، اگر یہ ٹھیک رہا تو جسم کی ساری کارگزاریاں ٹھیک رہتی ہیں اور اگر یہ خراب ہوگیا تو جسم کی ساری کارگزاریاں خراب ہو جاتی ہیں ۔
اور ہرشخص اپنے دل کا حال بذات خود اچھی طرح جانتا ہے، اس لیے ہم آپ کو ناصحانہ مشورہ دیںگے کہ پہلی فرصت میں اپنے دل کا جائزہ لیں اس میں جو بُرے خیالات بیٹھے ہیں انہیں کھرچنے کی کوشش کریں،نماز اللہ تعالی سے مناجات اور سرگوشی ہے اورسرگوشی کی لذت آخر گنہگار بندے کو کیوں کر نصیب ہوسکتی ہے ۔کیا یہ ممکن ہے کہ آگ اور پانی دونوں ایک ساتھ اکٹھا ہوجائے ....؟
اگر ہم گناہوں سے باز آجائیں ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگیںاور موت کو ہروقت ذہن میں تازہ رکھیں توکوئی وجہ نہیں کہ ہماری یہ حالت برقرار رہے جس سے فی الوقت دوچار ہیں۔پھر اس کے بعد نماز کی ادائیگی بے حد آسان ہوجائے گی اور ذہن میں بُرے خیالات بھی راہ نہ پائیں گے ۔

بہرکیف نماز میں بُرے خیالات سے بچنے کے لیے تین باتیں دھیان میں رکھیں :
(1) جب نماز کے ليے کھڑے ہوں تو اللہ کی عظمت وجلال کو دل پرطاری کرلیںکہ ہم ایک عظیم ہستی کے سامنے کھڑے ہیں، جب بندہ اللہ اکبر کہتا ہے تو آخر یہی اعتراف کرتا ہے نا کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں ۔
(2) نماز کے اذکار واوراد، سورتوں اور دعاو ¿ں کے معانی کو ذہن میں ازبر رکھیں اور پڑھتے وقت ان کے معانی پر بھی غورکریں ۔
(3) اس کے باوجود بھی اگر وسوسہ بدستورقائم ہے تو اللہ کے رسول انے اس کا خاص علاج بتادیا ہے کہ نماز کی حالت میں اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دیں اور شیطان رجیم سے پناہ مانگیں ۔حضرت عثمان بن ابی العاص ص کا بیان ہے میں نے کہا: یا رسول اللہ ا شیطان میرے اور میری نماز کے بیچ حائل ہوجاتا ہے اور میری قرأ ت کومجھ پر خلط ملط کردیتا ہے ، آپ نے فرمایا : ذَاکَ شَیطَان یُقَالُ لَہ خَنزَب فَاِذَا أحسَستَہ فَتَعَوَّذ بِاللّٰہِ مِنہ وَاتفِل عَلیٰ یَسَارِکَ ثَلاثاً ”یہ شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے ، جب ایسا احساس پیدا ہو تو اس (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنے بائیں جانب تین بار تھوک دو “ حضرت عثمان بن ابی العاص ص کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ اللہ تعالی نے میری شکایت دور کردی ۔ (صحیح مسلم)


مکمل تحریر >>

گناہ کرنے سے پہلے سوچ لو

 صفات عالم 

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔

آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔

آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟

آدمی نے کہا : بالکل نہیں ....دوسری خصلت بتائیے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔

آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ....؟

ابراہیم بن ادہم رحمه الله  نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرمانی کرے؟

آدمی نے کہا : بالکل نہیں ....تیسری خصلت بتائیے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: ”جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو “۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو‘ جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟

آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔

آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا....

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ....؟

آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا

آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔

آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔

آدمی نے کہا: وہ تو سب کودیکھ رہا ہے ،اس سے ہم کہاں چھپ سکتے ہیں۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے پھر اسی کی نافرمانی کرے ‘جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟

آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔

آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قطعاًقبول نہ کرے گا۔

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ‘ تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ....؟

آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیںتو ان کے ہمراہ مت جانا

آدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گے

ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: پھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔

آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوںاوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزار دی ۔
مکمل تحریر >>

جمعرات, اپریل 15, 2010

مسجد اقصی کی پکار


   دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضابے اذاں
کون سی وادی میں ہے ، کون سی منزل میں ہے
عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں

٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض وسماءنے بابرکت قرار دیا ہے (سورة الاسراء 1)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایاہے ۔ (بخاری ومسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک صلى الله عليه وسلم کو معراج کرايا گيا تھا ۔ (مسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد صلى الله عليه وسلم کی اقتداء میں جملہ انبیائے کرام نے نماز ادا فرمائی ۔ (مسنداحمد:صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں ايک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ۔ (حاکم، بیہقی : صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس ميں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔ (احمد: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی ”دوسری مسجد“ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ (بخاری ،مسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے ۔ (بخاری ومسلم)
٭ میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ (گناہوںسے دھلاہوا) ایسے لوٹتاہے گویا کہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔ (ابن ماجہ: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کوبھی قتل کریں گے۔ (ترمذی: صحیح)
٭ میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروزقیامت ”ارض محشر“ ہوگی ۔ (احمد،ابوداؤد: صحیح)


آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنايرغمال بنارکھاہے ۔
آئے دن میرے تقدس کو پامال جارہا ہے۔
میری آبادکاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنالی گئی ہے ۔
میرے دامن میں مسلسل سرنگ کھودے جارہے ہیں تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑدوں اور میری جگہ ہیکل ”سلیمانی نام“ کا شیطانی بت نصب کردیا جائے۔
مکمل تحریر >>

پیر, اپریل 12, 2010

رشوت دے کر نوکری لینے والے کو قرض دینا


سوال: میرے ایک دوست رشوت دے کر نوکری لینا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ مجھ سے قرض مانگ رہے ہیں۔ کیا میں انہیں قرض دے سکتا ہوں ؟ ۔ (محمد بطریق۔ کویت)

جواب: رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ”ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو ‘ نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا مال ظلم وستم سے اپنا کر لیا کرو ‘حالانکہ تم جانتے ہو“۔ (سورہ بقرہ 188) اور رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے (ابوداوؤد، ترمذی) البتہ اگروہ ملازمت کے حقدار ہیں، ساری اہلیت ان کے اندر پائی جاتی ہے اوررشوت دینے کے نتیجہ میں کسی دوسرے کے حق پر زیادتی نہیں ہوتی ، یا ان کے جیسے یا ان سے بہتر شخص کو ملازمت سے محروم نہیں کیا جاتا اور ان کو یہ حق رشوت دیے بغیر نہیں مل سکتا توپھر اس حالت میں ان کے لیے رشوت دے کر ملازمت حاصل کرنی جائز ہے ۔ اگرچہ لینے والے کے لیے یہ حرام ہی ہے ۔

اگر یہ سارے شروط آپ کے دوست کے اندر پائے جارہے ہیں اور پھر آپ سے قرض مانگتے ہیں تو آپ ان کو قرض دے کران کا تعاون ضرور کریں ۔اگر نہیں تو پھر آپ کے لیے بھی قرض دینا جائز نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ”نیکی اور بھلائی کے کام میں ایک دوسرے کی مدد کرو ، بُرائی اورگناہ کے کام میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو “۔ (سورہ المائدہ : 2 )

مکمل تحریر >>

سبق

ایک مرتبہ ایک چھوٹے شہر کا طالب علم ہائی اسکول میں فیل ہوگیا۔ دوسرے سال اس نے پھر امتحان دیا، مگر وہ دوبارہ فیل ہوگیا۔ اس کے بعد جب اس کا تیسرے سال کا نتیجہ آیا اور اس نے دیکھا کہ وہ اب بھی فیل ہے تو اس کو سخت دھکا لگا اور اتنا بیزار ہوا کہ گھر سے بھاگ نکلا۔ چلتے چلتے وہ ایک گاﺅں پہنچا۔ اسے پیاس لگ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ کنواں ہے، جس پر کچھ عورتیں اور بچے پانی بھر رہے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ گاﺅں کے لوگ جو پانی بھر نے کے ليے کنویں پر آتے ہیں ۔عام طورپر ان کے ساتھ دو عدد مٹی کے گھڑ ے ہوتے ہیں۔ ایک گھڑے کو وہ کنویں کے قریب ایک پتھر پر رکھ دیتے ہیں اوردوسرے گھڑے کو کنویں میں ڈال کر پانی نکالتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ جس پتھر پر گھڑا رکھا جاتاہے،وہ گھڑا رکھے رکھے گھس گیا ہے۔ گھڑا ” مٹی کی ایک چیز ہے “ اس نے سوچامگر جب وہ باربار بہت دنوں تک ایک جگہ رکھا گیا تو اس کی رگڑ سے پتھر گھس گیا۔ استقلال کے ذریعہ مٹی نے پتھر کے اوپر فتح حاصل کرلی۔ مسلسل عمل نے کمزور کو طاقتور کے اوپر غالب کردیا۔ پھر اگر میں برابر محنت کروں تو کیا میں امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکتا ؟ یہ سوچ کر بھاگتے ہوئے طالب علم کے قدم رک گئے، وہ لوٹ کر اپنے گھر واپس آگیا اوردوبارہ تعلیم میں اپنی محنت شروع کردی۔
 اگلے سال وہ چوتھی بار ہائی اسکول کے امتحان میں بیٹھا۔ اس بار نتیجہ حیرت انگیز طور پر مختلف تھا۔ اس کے پرچے اتنے اچھے ہوئے کہ وہ اول درجے میں پاس ہوگیا۔ تین بار ناکام ہونے والے نے چوتھی کوشش میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ پتھر کا یہ سبق نوجوان کی زندگی کے لےے اتنا اہم ثابت ہوا کہ اس کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ جو طالب علم ہائی اسکول میں مسلسل ناکام ہوکر بھاگا تھا، اس کے بعد مسلسل فرسٹ آنے لگا، یہاں تک کہ ایم اے میں اس نے ٹاپ کیا۔ اس کے بعد وہ ایک اسکالر شپ پراعلی تعلیم کے لےے بیرون ملک گیا اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

یہ کوئی انوکھاواقعہ نہیں کہ جو صرف ایک گاﺅں میں پیش آیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ ہر جگہ ایسے ” پتھر “ موجود ہیں جو آدمی کو زندگی کا سبق دے رہے ہیں۔ جو ناکامیوں سے کامیاب بن کر نکلنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر نصیحت قبول کرنے کا مزاج ہوتو وہ اپنے قریب ہی ایسا ایک ”پتھر“ پالے گا جو خاموش زبان میں اس کو وہی پیغام دے گا جو مذکورہ نوجوان کو ایک پتھر سے ملا ہے۔
( وحید الدین خان)
مکمل تحریر >>

باپ کا احترا م


  •  باپ کا احترام کرو....تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔
  •  باپ کی عزت کرو.... تاکہ اس سے فیض یاب ہو سکو۔
  •  با پ کا حکم مانو.... تاکہ خوشحال ہو سکو۔
  •  باپ کی باتیں غور سے سنو.... تاکہ دوسروں کی نہ سننی پڑ یں۔
  •  باپ کی سختی برداشت کرو.... تاکہ باکمال ہو سکو۔
  •  باپ کے سامنے اونچا نہ بولو.... ورنہ اللہ تعالیٰ تم کو نیچاکر دے گا۔
  •  باپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو.... اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں بلند کر دے گا
  •  باپ ایک کتاب ہے.... جس پر تجربات تحریر ہوتے ہیں۔
  •  باپ ایک ذمہ دار ڈرائیور ہے.... جو گھر کی گاڑ ی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔
  •  باپ ایک مقدس محافظ ہے....جو ساری زندگی خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔
  •  باپ کے آنسو تمہارے دکھ دینے سے نہ گریں.... ورنہ خدشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو جنت سے گرا دے گا۔
  •  باپ کی عزت کرنے والے کو ہی کامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔                               (محمد عثمان ) 
مکمل تحریر >>

بچوں سے گفتگو

بچو! تم تعلیم کے حصول کے لیے پڑھنے لکھنے میں اس طرح مائل ہوجاؤ ، ایسے گم ہوجاؤاور اپنے وجود کو ایسے پڑھنے لکھنے میں گم کردو جیسے دانہ مٹی میں مل کر اپنے وجود کو گم کردیتا ہے ۔ پھر اس کے بعد اگتا ہے اور زمین کے اوپر آکر گل وگلزار ہوتا ہے ، پھر ہرا بھرا ہوکر چھوٹے سے پودے کی شکل اختیار کرتا ہے ، لوگ اُسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ محبت اور پیار سے اسے پانی پہنچاتے ہیں ، اس کی نشونما کرتے ہیں ، پھر پودا بڑا ہوتا ہے ، بڑا ہوکر جھاڑ کہلاتا ہے ۔ اس کے بعد درخت کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ پھول کھلتے ہیں، پھل لگتے ہیں ، لوگ اس کی چھاؤں میں سکون وآرام محسوس کرتے ہیں اور وہی درخت برسو ں انسانوں کی خدمت کرتا رہتا ہے ۔ اچھے درخت کو جب پھل لگتے ہیں تو وہ جھک جاتا ہے تاکہ لوگ اس سے اور فائدہ اٹھائیں ۔ برسوں اسی طرح ہر موسم میں پھول اور پھل دیتا رہتا ہے ۔ لوگ اس سے اور اس کے سائے دونوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی پودے کی طرح اپنے وجود کو مٹاکر اپنی زندگی میں گل وگلزار ہوجائے اور انسانیت کے کام آئے ۔

( ایم اے نعیم )
مکمل تحریر >>

جمعرات, مارچ 18, 2010

طبع آزاد پر نماز ِفجر بھاری ہے

عن جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ إن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم قال: من صلی الصبح فھو فی ذمة اللہ ....(مسلم )

ترجمہ :حضرت عبداللہ بن جندب رضى الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی امان میں آجاتاہے.... “۔ ( مسلم) 

تشریح: نماز اسلام کا ستون اور اسکی اساس ہے جو شب وروز میں پانچ بار فرض ہے ، پنجوقتہ نمازوں میں سب سے زیادہ اہمیت نماز فجر کی ہے جس وقت ایک آدمی نیند کی آغوش میں ہوتا ہے،بستر کو چھوڑنا اس پر گراں گزرتاہے ، تاہم ایک بندہ مومن جب اپنے بستر پر جاتا ہے تو اس احساس کے ساتھ کہ اپنے پالنہار کی بندگی کے لیے صبح میں بیدار ہونا ہے چنانچہ اُسے توفیق الہی نصیب ہوتی ہے اور عین اس وقت جبکہ مؤذن”نماز نیند سے بہترہے ‘ نماز نیند سے بہترہے“ کی پکار لگا رہا ہوتا ہے‘ یہ نرم نرم بستر کو بالائے طاق رکھتاہے ،نیند کی لذت اور طبیعت کے آرام کو خیرباد کہتا ہے،باوضومسجد کا رخ کرتا ہے اورجماعت سے نماز ادا کرتا ہے ۔ چنانچہ رحمت الہی اسے ڈھانپ لیتی ہے ،وہ اپنے مالک کی پناہ میں آجاتا ہے اور پورا دن اللہ کی نگہبانی میں گذارتا ہے۔ سبحان اللہ !کیا مقام ہے اس بندہ مومن کا کہ دن کا آغاز اپنے رب کی نگہبانی میں کررہا ہے ، پھروہ تازہ دم ہوتا ہے ، چست اور پاکیزہ طبیعت بن جاتا ہے ۔

اس کے برعکس جوشخص ٹی وی کے فحش پروگراموں کا مشاہدہ کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے، نہ اللہ کا نام لیا نہ سوتے وقت کے اذکار کا اہتمام کیا‘ نتیجہ ظاہر ہے کہ شیطان اس پر قابو پا لیتاہے ، تھپکیاں دے دے کر سورج نکلنے تک سلائے رکھتاہے۔ چنانچہ جب وہ طلوع آفتاب کے بعدبیدار ہوتا ہے توخبیث طبیعت اور سست وکاہل بن جاتا ہے ۔اللہ کو بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اوردن بھراللہ کی امان سے محروم رہتا ہے ۔
 اب ہمیں اپنامحاسبہ کرنا ہے کہ ہم کس حد تک نماز فجر کی محافظت کررہے ہیں ،جس نماز سے اللہ کی امان حاصل ہوتی ہے ،طبیعت کو شادابی ملتی ہے ،جس نماز پرجنت میں داخلہ اورجہنم سے نجات موقوف ہے ، جس نماز سے دیدار الہی نصیب ہوگی،ایسی نماز سے اکثریت کی لاپرواہی المیہ نہیں تواورکیاہے....جب انسان کی پکار ہوتی ہے ،اور ڈیوٹی کا وقت آتا ہے تو ہم پوری مستعد ی کے ساتھ سڑکوںپر پر پِل پڑتے ہیںخواہ چاربجے صبح ہی کیوں نہ ہو ،تاہم جب اللہ کی پکار ہوتی ہے تو ہم بے پروا ہ خواب خرگوش میں مست رہتے ہیں ،ایسا کیوں؟
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
 ظاہر ہے کہ یہ فکرآخرت میں کمی کا نتیجہ ہے ،اللہ کی گرفت سے جب انسان مطمئن ہوجاتا ہے تو اس کے احکام کو پامال کرنے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتا ، اس لیے سب سے پہلے اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ہم سے بہت بڑی کوتاہی ہو رہی ہے پھر ہلکی سی عزیمت درکار ہے ،نمازِ فجر کی پابندی آسان ہوجائے گی ۔
 سوتے وقت مسنون اذکار کا اہتمام کرلیں ،سونے سے قبل نمازفجر کے لیے بیداری کا پختہ ارادہ ہو ، رات کو سویرے سونے کی عادت ڈالیں، بیدار کرنے کے لیے الارم گھڑی کا استعمال کریں یا کسی ساتھی کو جگانے کی تاکید کردیں اور گناہوں سے دوری اختیار کریں۔
 اللہ تعالی ہم سب کو نمازِفجر کا پابند بنائے ۔ آمین یا رب العالمین
مکمل تحریر >>

انسان خسارے میں ہے

والعصر إن الإنسان لفي خسر إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر  (سورة العصر)

ترجمہ :زمانے کی قسم !بے شک انسان گھاٹے میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور ایک دوسرے کو ( ایمان اور عمل صالح کی ) نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “ ۔

تشریح : یہ سورہ بے پناہ اہمیت کی حامل اور عظمت والی سورہ ہے ۔ امام شافعی رحمه الله  فرماتے ہیں” اگر لوگ اس سورہ کوبغورپڑھیں اور سمجھیں تو ان کے لیے یہی سورہ کافی ہے“۔
 امام ابن قیم رحمه الله  مفتاح دار السعادة میں اس سورہ کی تشریح کرتے ہوے فرماتے ہیں :
 ” یہ سورہ چار باتوں پر مشتمل ہے ۔ سب سے پہلی بات علم ، جس سے حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے ، مومن جانتا ہے کہ اللہ حق ہے ، اس کا وعدہ حق ہے ، اس کا رسول حق ہے ، اس کی ملاقات حق ہے ، فرشتے حق ہیں، انبیاءحق ہیں، جنت حق ہے، جہنم حق ہے ، پھر اس کے مطابق عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہے اور علم عمل اور تعلیم پر صبر کرتا ہے ۔ یہ (علم ،عمل،تعلیم اورصبر) چارچیزیں ہوئیں ‘ جب انسان ان کو مکمل کرلیتا ہے تو وہ اپنی ذات کی تکمیل کرلیتا اور دوسروں کوبھی مکمل کرنے والا بن جاتا ہے “۔
 چنانچہ اللہ پاک نے اس سورہ میں زمانے کی قسم کھاکر کہاکہ اس دنیا میں سارے انسان گھاٹے ،خسارے اور ٹوٹے میں ہيں۔ زمانہ تین طرح کا ہوتا ہے ماضی حال اور مستقبل ‘ گویا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ سارے انسان خسارے میں تھے ،خسارے میں ہیں اور خسارے میں رہیں گے ۔ تاہم اس خسارے اور گھاٹے سے صرف وہی لوگ محفوظ ہیں جو ان چار صفات کے حامل ہیں۔
 (۱) (۲) اللہ پر پختہ ایمان ، اوراس ایمان کے مطابق عمل صالح : ایمان کے ساتھ عمل ہرانسان سے مطلوب ہے ، ایمان اور عمل دونوں کا بہت گہرا تعلق ہے ،ایمان کی تصدیق عمل ہی کرتا ہے،اور عمل کی قبولیت کے لیے ایمان لازم ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مختلف مقامات پر دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ” جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیا، وہی لوگ جنتی ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے“ ( البقرة : ۲۸) اس معنی کی متعدد آیات آئی ہیں-
 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی     
یہ خاکی اپنی فطرت میںنہ نوری ہے نہ ناری ہے
 (۳)حق کی وصیت :ایمان وعمل کے بعد اس امت کی بنیادی صفت ایمان وعمل کی طرف دعوت ہے،اوراسی بنیاد پر اس امت کو خیرامت کا لقب دیا گیا ہے کہ یہ امت محض اپنی اصلاح پراکتفانہیں کرتی بلکہ افراد اورمعاشرے کی اصلاح کی بھی فکرمند ہوتی اوراس کے لیے بے چین رہتی ہے۔ ( آل عمران :110 )
 (۴)صبر کی وصیت : دعوت واصلاح کا کام بڑا صبرآزماہوتا ہے ،اس راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ کانٹوں سے مقابلہ کرنا پڑتاہے ،اس لیے دعوت کی راہ میں آنے والی مصیبتوں اورپریشانیوں کوخندہ پیشانی سے انگیز کرنابندہ  مومن سے مطلوب ہے ۔ جس شخص کے اندر یہ چار صفات پیدا ہوگئے حقیقت میں وہی کامیاب ہے ۔
مکمل تحریر >>

کھانا کھاتے وقت سلام کا جواب دینا


سوال: کیا کھانے کے بیچ سلام کرنا جائز ہے اور اگر کوئی سلام کرے تو کیا اس کا جواب دینا چاہیے ؟ ۔ (سید انتظار۔ کویت)

جواب: جی ہاں! کھانا کھاتے وقت سلام کرنا جائز ہے اور اگر کوئی سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب بھی دینا چاہیے ۔ کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ بعض لوگوں کی زبانوں پر یہ جومشہور ہے کہ لا سلام ولا کلام علی الطعام کہ” کھاتے وقت سلام یا کلام نہیں ہونا چاہیے“ تو یہ کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ مقولہ ہے جو لوگوں میں رائج ہوگیا ہے ۔

اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کھانے کے بیچ بات کرناثابت ہے ۔ ایک مرتبہ آپ صلى الله عليه وسلم  کے پاس گوشت پیش کیا گیا آپ نوچ نوچ کرتناول فرمانے لگے ، اسی اثناء فرمایا : ”میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا “ پھر آپ نے شفاعت کی طویل حدیث بیان کی ۔ (بخای ومسلم)

اس کے علاوہ بھی کئی احادیث سے کھانے کے بیچ بات کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔جب اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم  سے کھانے کے بیچ بات کرنا ثابت ہے تو سلام کرنا بدرجہ اولی صحیح ہونا چاہیے۔ بلکہ احادیث میں نماز پڑھنے والے شخص کو بھی سلام کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور بحالت نماز سلام کا جواب دینے کا طریقہ یہ بتا یا گیاکہ اس کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیا جائے گا ۔

بعض فقہاء نے کھانے کے بیچ سلام کرنے سے جو منع کیا ہے وہ اس صورت میں جبکہ لقمہ منھ میں ہو‘ مبادا کہ جواب دینے سے نقصان پہنچ جائے ۔اگرکوئی ایسی حالت میں سلام کرتا ہے تو جواب دینا فوراً ضروری نہیں ۔ ہاں اگر وہ کھانا کھا رہا ہے لیکن لقمہ منھ میں نہیں ہے توسلام کیا جائے گا او رجواب دینا بھی ضروری ہوگا ۔


مکمل تحریر >>

بدھ, مارچ 10, 2010

ایڈیٹر ماہنامہ مجلہ طوبی کے نام


برادرگرامی قدر جناب ظل الرحمن التیمی حفظہ اللہ
ایڈیٹر ماہنامہ مجلہ طوبی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج عالی بخیر ہوگا
مادرعلمی میں کانفرنس کی بابت سنا ، لیکن اس کی رپورٹ نیٹ سے متعلقہ اخبار وغیرہ میں پڑھنے کو نہ مل سکی ، اگر رپورٹ دستیاب ہو تو مجھے صرف ای میل کردیں ۔ نوازش ہوگی ۔آج ایک اہم بات آپ سے یہ عرض کرنی ہے کہ آپ نے طوبی کے دائرہ کو اتنا محدود کررکھا ہے کہ ملک سے باہر رہنے والے افراد اس سے استفادہ کرہی نہیں سکتے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ جامعہ کا ویب سائٹ تیار ہے ، نیٹ پر صفحہ خریدا جا چکا ہے، اور سالانہ رقم کی ادائیگی بھی ہو رہی ہے، پھر رسالے کا مادہ ساراکا سارا آپ کے پاس تیار بھی ہے توپتہ نہیں دقت کیا ہوتی ہے ۔ ہرماہ اپلوڈ کرنا ہے اور بس ، ہندوستانی مدارس بالعموم اس سمت میں توجہ نہیں دے رہے ہیں ،حالانکہ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ، آج تعلیم یافتہ طبقہ اپنے اکثر اوقات نیٹ پر گزار رہا ہے، ایسے لوگوں کو ہم کیوں محروم کریں-
ایک دوسری بات یہ کہ پی ڈی ایف کا سسٹم اب نہیں چل رہا ہے، اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ آرٹیکل نیٹ پر موجود ہونے کے باوجود وہ گوگل یا سرچنگ کى سروس میں نہیں آتا جس کی وجہ سے اس کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ، افسوس کہ اب تک اردو روزنامے بھی نیٹ پر اسی طریقے سے ڈالے جا رہے ہیں، روزناموں کی بات کچھ دیر کے لیے چل بھی سکتی ہے کہ ان کی افادیت وقتی ہوتی ہے جبکہ دینی مجلات کا معاملہ ایسا نہیں ہے ،ان کی افادیت ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے،اس لیے یونی کوڈ میں آنے چاہئیں ۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک آدمی سرچ کرکے متعلقہ موضوع تک بآسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے جبکہ پی ڈی ایف میں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ان پیج ٹو یونیکوڈ کی سروس آج دستیاب ہے ،اگر ٹائیپنگ صحیح طریقے سے کی جائے تو ہوبہواسے یونیکوڈ میں بدلا جاسکتاہے ۔ میں بھی توکویت سے اردومیں ماہنامہ مصباح نکالتا ہوں ‘الحمدللہ اسے یونی کوڈ میں نیٹ پر بھی ڈالا جارہا ہے ،اس میں کوئی خاص وقت بھی نہیں لگتا ہے ۔ اس کے جو مادے میرے پاس تیار ہوتے ہیں ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے اندر خود سے سب کو نیٹ پر ڈال دیتا ہوں ۔ آپ دیکھیے دارالعلوم دیوبند والوں نے اچھی خاصی پیش رفت فرمائی ہے ، ان کے سارے فتاوے،اور ماہنامے یونی کوڈ میں دستیاب ہیں، آج المیہ یہ ہے کہ شیعوں ،قادیانیوں اور قبرپرستوں نے نیٹ پر دین کی خدمت کے نام سے زہر اگل رکھا ہے اور ہم ہیں کہ حق بات کو مٹھی میں بند کیے ہوئے ہیں ، جب میں اردو میں کسی موضوع سے متعلق سرچ کر رہاہوتا ہوں تو اکثر گمراہ فرقوں کے مقالات سامنے آجاتے ہیں ، گویانیٹ پر باطل کاپرچار حق کے نام سے ہورہا ہے ۔
ممکن ہےکسی بھائی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ آپ لوگوں کے پاس وقت ہے اس لیے آپ لوگ ایسا کرلیتے ہیں ،ہم سب کی ذمہ داریاں الگ ہیں نیٹ پرجانے کا موقع نہیں،نیٹ کی سہولت بھی دستیاب نہیں، اس کے لیے مادی تعاون بھی درکارہے ....یہ سارے اشکال اپنی جگہ بجا ہيں لیکن اگر نیٹ کی اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو ہم ضرور اس کی طرف پیش رفت فرمائیں ۔ الحمدللہ میرے پاس روم میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، لیکن میرا بهى وقت بہت تنگ ہوتاہے، آفس کی پوری ڈیوٹی نبھانا ، تن تنہا رسالے کا پورا کام کرنا، دروس کی تیاری کرنی ، ریڈیو کے ہفتہ وار  پروگرام کی تیاری ....اسے وہی سمجه سکتا ہے جس نے عملی طور پر برتا ہو۔ خلیج میں لوگ صرف رسمی ڈیوٹی سے پریشان رہتے ہیں جبکہ میرے ساتھ یہ ساری ذمہ داریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سونے کا بہت کم وقت ملتا ہے،لیکن سوچتاہوں کہ مشغولیت ہی سے تو شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے لگا ہوا ہوں۔ جہاں تک مادی تعاون کا مسئلہ ہے تو اگر عزم محکم ہو تو یہ بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔
 میں بنیادی طور پر بذریعہ نیٹ غیرمسلموں میں کام کررہا ہوں ،ٹیم ورک کی اہمیت کے پیش نظر میں نے کوشش کرکے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد جمع کرلی ہے جو نیٹ پر اچھا خاصا کام کررہے ہیں ،ایک وقت تھا کہ ہندی میں نیٹ پر دعوتي آرٹيكل  لکھنے والا ایک بھی نہیں پایا جاتا تھا آج الحمدللہ درجنوں نوجوان ہمارے ملک میں موجود ہیں ،اس تعلق سے میں سے ہندوستان کے کتنے لوگوں سے رابطہ کیا تو اکثر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ وقت نہیں ہے ......، بھئی ! آپ جو کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ تو سب کے پاس پہنچ نہیں رہی ہیں....اور آج نیٹ پر غیرمسلموں کا تعلیم یافتہ طبقہ ہروقت موجود رہتا ہے ، بیک وقت لاکھوں اشخاص تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، جبکہ اسلام کے دشمن اسلام کے خلاف روزانہ لکھ رہے ہیں ۔ ہم سب نے پچھلے سالوں سے جو کام شروع کیاہے اس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں،غیرمسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے جس نے ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیموں کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔اب ان کو احساس ہونے لگا ہے کہ ہماری گرفت کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ورنہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اردو میں خود لکھتے ہیں اور خود پڑھتے ہیں۔
معاف کیجیے گا، بات ذرا طول پکڑ گئی بلکہ موضوع سے ہٹ گئی ....میں عرض یہ کررہا تھا کہ آج اردو زبان میں نیٹ پر کام کرنے کی بے حد ضرورت ہے، اس لیے مجلہ طوبی کا تازه شماره نیٹ پر بروقت لانے کی کوشش کریں اور یہ یونیکوڈ میں ہونا چاہیے اس کے لیے جس طرح کا تعاون درکار ہو مجھے میل کردیں ....
اللہ تعالی آپ کو، آپكے اہل خانہ اور تمام احباب کو صحیح سلامت رکھے آمین

آپ کا خیراندیش بھائی
صفات عالم محمدزبیرتیمی
مکمل تحریر >>

ہفتہ, فروری 20, 2010

قادیانیوں کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے کا قبول اسلام


قادیانی ، مرزائی اور احمدی یہ وہ نام ہیں جن کی نسبت مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف ہوتی ہے ، جس نے انگریز کے دورحکومت میں اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ،پھر مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا تو کبھی امام مہدی ہونے کا ، غرض امت کو گمراہ کرنے کا ہرایک طریقہ اپنایا بالآخر انجام اس کا یہ ہوا کہ اپنی زندگی کے آخری دور میں بیت الخلا میں قضائے حاجت کرتا ہوا اس دنیا سے ہلاک ہوگیا ۔ قادیانیت کے کفریہ عقائد کی بنیاد پرعلمائے امت نے اسے ملت اسلامےہ سے خارج قرار دیا ہے، آج یہ فتنہ دشمنان اسلام کی پشت پناہی سے عالمی شکل اختیار کرگیا ہے اور ہرجگہ اس کی ارتدادی سرگرمیاں جاری ہیں ،اس فتنے کے تدارک اور اس سے منسلک افراد کو تباہی اور بے دینی کی لعنت سے بچانے کے لیے کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ الحمداللہ اسلام کی روشنی اب مرزا قادیانی کے گھرانے تک پہنچ چکی ہے۔ قادیانی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے اور خلیفہ سوئم مرزا ناصر کے بیٹے مرزا احمد بلال نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ جسے قادیانی مبلغ بنانے کے لےے روسی اور اطالوی زبانیں سکھائی گئی تھیں۔ ذیل کے سطور میں مرزا احمد بلال کے قبول اسلام کی داستان پیش کی جا رہی ہے
۔

سوال : آپ نے بتایاکہ آپ کا تعلق مرزا خاندان سے ہے اور آپ مرزا غلام احمد قادیانی کے پڑپوتے ہیں۔ قادیانیت سے اسلام تک کا سفر اور قادیانوںکے ہاتھوں اغوا اور تشدد کی کہانی کیا ہے ؟

جواب : جی ہاں ! میں مرزا ناصر الدین کا بیٹا ہوں، ہم کل تین بھائی او رایک بہن ہیں۔ ایک بھائی جو مجھ سے بڑا ہے اس کا نام مرزا فرید، میرا پرانا نام مرزا احمد بلال اور مجھ سے چھوٹے بھائی کا نام مرزا انس ہے۔ لیکن میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنا نام بدل کر عبد الرحمن رکھ لیاہے بلکہ اب مرزا کا لفظ بھی نام کے ساتھ نہیں لکھتا۔ اسلام کی طرف آنے کی تفصیل یہ ہے کہ گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ سے میٹرک اور گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج سے بی اے کرنے کے بعد مجھے بھی ربوہ کی روایت کے مطابق مشنری مقاصد کے لےے تیار کرنے کی غرض سے اطالوی اور روسی زبانیں سکھائی گئیں۔ اسی دوران میں ربوہ میں قائم قادیانی خلافت لائبریری کا ناظم مقرر ہواتو مجھے حقیقی اسلام کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملا۔

یہ1998ءکی بات ہے جب مجھے لائبریری میں علامہ احسان الہی ظہیر کی دو کتب ”قادیانیت “ اور ” مرزائیت اور اسلام “ پڑھنے کا موقع ملا۔ ابتداء میرا خیال یہی تھا کہ یہ کتب بھی روایتی تعصب پر مبنی ہوںگی جو ہمارا تصور تھا کہ مسلمان علماءغلام احمد قادیانی کے بارے میں خواہ مخواہ تعصب اور بغض رکھتے ہیں لیکن میں نے ان کتابوں کے چند صفحات پڑھے تو مجھے دلچسپ اور حقیقت افروز محسوس ہوئیں ۔ان کتب میں جو حوالے دئےے گئے تھے وہ سو فیصد درست تھے۔ یوں میرا دل قادیانیت سے اچاٹ ہونے لگا۔ میں نے قادیانیت کے مربین سے سوال وجواب کرنا چاہا، وہ مجھے روایتی جوابات تو دے سکے لیکن مطمئن نہ کر سکے۔ ان کتب کے پڑھنے کے بعدمجھے سمجھ آئی کہ مرزا قادیانی نے کس طرح اللہ پر بہتان باندھے اور انبیاءاور ان کی امہات کے بارے میں نازیباپیرائے میںمن گھڑت قصے اپنی کتب میں شامل کئے۔ مجھے مرزا قادیانی کی ذہنی صحت کے بارے میں بھی شبہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے مرزا بشیرالدین کی تحریروںمیںپڑھ رکھا تھا کہ:

” مرزا غلام احمد قادیانی “ کو اندازہ نہ تھا کہ پاﺅںمیں ایک جوتا پہننا ہے یا دو جوتے پہننے ہیں “۔

پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ ۳۸۸۱ ءمیں مرزا قادیانی نے خود کو مح ©ض مجدد قرار دیا۔ ۱۹۸۱ ءمیں امام مہدی قرار دینے لگا اور ۵۹۸۱ءمیں نبوت کا دعوی کرنے لگا کہ :

” اللہ نے مجھے خواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر دکھائی ہے جو کشمیر کے علاقے ” خانیار “ میں ہے، چونکہ حضرت عیسی علیہ السلام انتقال کر گئے ہیں، اس لیے اللہ نے ایک رات میری جنس تبدیل کی اور میرے ساتھ رجولیت کا اظہار کیاجس کے نتیجہ میں مجھے حمل ٹھہرگیا “ ۔

یہ سب باتیں اب میرے ليے سوالیہ نشان بن کر کھڑی ہوگئیں کہ غلام احمد نے اللہ پر کس طرح بہتان باندھ دیا ۔ میں نے مربین جن میں حافظ مظفر اور عزیز بھامری شامل تھے ان سے دریافت کیا کہ اللہ نے قوم لوط کو تو اس عمل پر سزادی اور خود ”معاذ اللہ“ وہی کام کرنے لگا ۔ یہ بہتان نہیں تواور کیا ہے ؟ اب میں نے اپنے آپ کو عملاً قادیانیت سے دور کرلیا لیکن اسلام قبول کرنے کا اعلان نہ کیا کہ ربوہ جو ریاست کے اندر ایک ریاست کا درجہ رکھتاہے وہاں یہ اعلان ممکن نہ تھا ۔

سوال : یہ صورت حال کب تک رہی ؟

جواب: میں تقریباً ایک سال تک اسی کشمکش میں رہا، گھر والوں سے بھی بات ہوتی رہی ۔ گھر والوں کا کہنا تھا کہ وہ مجھے ربوہ سے باہر جانے دیںگے نہ قادیانیت سے ۔ میرے گھر والوںنے کہا کہ وہ مجھے زنجیروںسے باندھ دیں گے اور اگر مرگیا تو میرا جنازہ قادیانیت کے مطابق ہوگا ۔

سوال : کیا واقعی زنجیروں سے باندھا گیا ؟

جواب : جی ہاں! مجھے ایوان محمود میں قائم قادیانیوں کی نجی جیل میں تین ماہ تک زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تاکہ میں قادیانیت کے بارے میں اپنے تبدیل شدہ خیالات سے رجوع کرلوں ۔

سوال : کیا آپ کے علاوہ بھی کچھ لوگ اس نجی عقوبت خانے میں تھے ؟

جواب: میرے علاوہ بھی چار پانچ افراد تھے تا ہم انہیں مجھ سے الگ رکھا گیا تھا ۔ ربوہ میں پولیس قادیانیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ۔ قادیانی انتظامیہ نے اپنی عدالت خود بنا رکھی ہیں اور یہ خود ہی لوگوں کو سزا دیتے ہیں، خود ہی گرفتار کرتے ہیں اور اپنے نجی طور پر بنائے گیے قید خانوں میں رکھتے ہیں ۔

سوال : آپ کیسے بچ کے نکل آئے ؟

جواب : تین ماہ تک رہنے کے بعد ایک دن میں نے سوچا کہ ساری عمر اس قید خانے میں گزاردینے سے بہتر ہے کوشش کی جائے ،لہذا میں نے اپنی زنجیر کو فرش پر مسلسل رگڑتے رہنے کا فیصلہ کیا ۔ خدا کاکرنا یہ ہوا کہ پانچ دن تک رگڑتے رہنے سے میری زنجیر ٹوٹ گئی۔ لیکن یہ شام کا وقت تھا جو قید خانہ سے فرار کے لےے مناسب وقت نہ تھا ۔ اس لےے میں نے اگلی صبح تک فرار ملتوی کردیا ۔ اگلی صبح دوسرے فلور سے نیچے چھلانگ لگا کر ربوہ کی حدود سے باہر آگیا۔ میرے پاﺅں پر سخت چوٹیں آئیں تاہم تازہ چوٹ کا درد کم تھا ، میں کسی طرح لاہور پہنچ گیا جب یہاں پہنچا تو میرے پاﺅں میں زنجیر کا ایک حصہ موجود تھا اور پاﺅں زخمی تھے ۔

سوال :آپ نے بتایا کہ ربوہ سے فرار اور اسلام قبول کرنے کا واقعہ ۹۹۹۱ ءکا ہے ۔اب آپ قادیانیوں کے ہتھے کیسے چڑھ گیے ؟

جواب : اس میں شک نہیں کہ میں نے ربوہ سے فرار کے بعد لاہور میں پناہ لی لیکن میں اپنے ضروری علاج و معالجے کے بعدگوادر چلاگیا جہاں میں نے ایک چینی کمپنی میں بطور مترجم ملازمت اختیار کرلی ۔ اس دوران گاہے بگاہے میں لاہور آتا رہا رواں سال کے دوران میں نے فریضہ ¿ حج کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو حج کے لےے درخواست دی لیکن میرا ایڈریس ربوہ کا ہونے کی وجہ سے سعودی حکومت نے اعتراض لگا دیا ۔ اپنا ایڈریس تبدیل کرنے کے لےے میں لاہور میں مقیم تھا کہ شادمان کی رہائشی ایک خاتون کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کناڈامیں قیام کے دوران قادیانیت سے متاثر ہوگئی ہے ۔ اس کے اہل خانہ نے مجھے کہا کہ میں اس سے ملوں اور اسے قادیانیت کی حقیقت سے آگاہ کروں ۔ میں اس خاتون سے ملا اور اس سے اگلے ہی روز جب میں گنگارام کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑا تھا تو ایک ویگن میرے پاس آکر رکی اور ویگن سے اتر نے والے ایک فرد نے کہا:”تم ربوہ کے رہنے والے ہو“ ۔ میں نے کہا پہلے رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوںنے مجھے اٹھاکر وین میں ڈالااور گڑھی شا ہوکے دار الذکر کے عقب میں ایک گھر میں لے گئے ۔ راستے میں بھی مجھ پر تشدد کرتے رہے اورا س گھر میں جہاں کئی مزید افراد تھے، انہوںنے مجھ پر تشدد شروع کردیا۔ ڈنڈوںسے میری ٹانگوں کی پنڈلیوں اور رانوں پر ضربیں لگاتے رہے ۔ یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور اس کے بعد تین بجے سہ پہر نیلا گنبد چوک پر پھینک کر چلے گئے۔

سوال : آپ نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کرائی ؟

جواب : اس سلسلے میں ایف آئی آر تو درج کرادی تھی لیکن ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔ ایف آئی آر کی کاپی بھی ہمیں تھانے کی طرف سے فراہم نہیں کی ، جب تھانے والوںسے پوچھتے ہیں کہ کاروائی کیوں نہیں کر رہے تو کہا جاتا ہے کہ اوپر سے حکم ہے ۔

سوال : ربوہ میں پولیس کاروائی کی صورت کیا ہوتی ہے ؟

جواب : ربوہ کا معاملہ تو بہت مختلف ہے وہ تو ریاست کے اندر ایک ریاست ہے ۔ ۳۷۹۱ءمیں ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے ربوہ کو کھلا شہر قرار دیا تھا ۔ لیکن آج تک ربوہ کھلا شہر نہیں بن سکا ۔ حد یہ ہے کہ کوئی غیر قادیانی ربوہ میں رہائش اختیار نہیں کر سکتا ۔ پولیس صرف ربوہ سے باہر کی چیزوں پر نظر رکھتی ہے ۔ ربوہ میں قادیانی انتظامیہ نے نجی سیکورٹی قائم کر رکھی ہے ۔

سوال :قادیانیت کے عمومی زندگیوں پر ربوہ میں کیا اثرات نظر آتے ہیں ؟

جواب : ربوہ میں کوئی بندہ آپ کو مطمئن نظر نہیں آتا ۔ ہر کوئی بے چینی کا شکار ہے ، مضطرب اور پریشان ہے ، حتی کہ مرزا خاندان کے اندرونی حالات بھی سخت اضطراب اور خرابی کی زد میں ہیں ۔ ڈکیتیاں ہوں تو بھی پولیس مداخلت نہیں کر سکتی ۔ قتل کے واردات ہوں پھر بھی پولیس دخل نہیں دے سکتی ۔

سوال : آپ کب کی بات کر رہے ہیں ؟

جواب : میں قصر خلافت میں ڈکیتی کیس کی بات کر رہاہوں جو ۸۹۹۱ءمیں ہوئی ۔ اس میں مرزا داﺅ د کے کزن کی گردن میں گولی بھی لگی تھی، اسی طرح بریگیڈیئر اصغر کی پراپرٹی کے معاملہ پر کئی افراد قتل ہوگئے لیکن پولیس ریکارڈ میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔

سوال : کیا وجہ ہے لوگ کیوں بولتے نہیں ؟

جواب : مرزا نے ۲۵۹۱ءمیں ربوہ کے لےے حکومت سے لیز پر زمین لی تھی ۔ اس لےے ربوہ میں رہنے والوں کی زمین ان کی ذاتی ملکیت نہیں بن سکی ۔ اگر ربوہ میں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق دے دےے جائیں تو وہ بآسانی قادیانیت کے چنگل سے نکل آئیںگے ۔ ایسے ایک دو افراد نہیں ہزاروں میں ہیں جو اپنے مالی مستقبل سے خوف زدہ ہیں، اس لےے ربوہ میں چپ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اگرا نہیں مالکانہ حقوق مل گئے تو ربوہ کھلا شہر بن جائے گا ۔

سوال : مرزا خاندان کے اندر کا کلچر آپ کو کیسا لگتا تھا ؟

جواب : مرزا خاندان کی زندگی تو شہزادوں جیسی ہے ۔ صرف ربوہ میں ہی نہیں راجن پور، میر پور ہاص ( سندھ ) احمد نگر اور لاریاں میں ان کی زرعی زمینوں نے انہیں بڑے زمینداروں میں شامل کردیا ہے، اسی طرح لندن میں Tilfordمیں حال ہی میں قادیانی مرکز بنانے کے لےے حاصل کی گئی زمین کا بڑا حصہ بھی مرزا خاندان کے ذاتی استعمال میں ہے۔ ربوہ میں قصر خلافت کے اصطبل میں مختلف ملکوںسے لائے گئے گھوڑوں کی شاہانہ دیکھ بھال کا ماحول ہے ۔ ربوہ میں مرزا فیملی کے دو ڈھائی سو افراد ہیں جس علاقے میں مرزا خاندان کے لوگ رہتے ہیں وہاں عام قادیانی بھی رہائش نہیں رکھ سکتا ۔ ایک شاہانہ اندازِ زندگی ہے جس کی زد میں قریبی دیہات سے کام اور مزدوری کے لےے آنے والے مرد اور خواتین بھی آتے رہتے ہیں ۔ مرزا خاندانوں کے گھرانوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جو ظلم ہوتاہے اس پر زبان کھولنا ممکن نہیں ۔ یہ کہانیاں وہاں کے دروبام میں ہی دب جاتی ہیں ۔

سوال : جو منظر نامہ آپ نے ربوہ کا بیان کیا ہے یہ تو میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے ؟

جواب : میڈیا وہاں تک رسائی نہیں کر سکتا ۔ میڈیا والوںنے بھی شاید کوشش ہی نہیں کی ہے کیونکہ میڈیاکو اندازہ ہے کہ یہ اس کے لےے آسان ہدف نہیں ہے ۔

سوال : قادیانیوں کے ترجمان الفضل میں آپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ مرزا ناصر الدین کے بیٹے نہیں اور آپ کا دعوی غلط ہے ؟

جواب: میں اس کو ہر طریقے سے ثابت کرنے کو تیار ہوں ، اگر ڈی ین اے ٹیسٹ کی ضرورت ہے، میں وہ بھی کروانے کو تیار ہوں ۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے پہلے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن اب انہوںنے جس طرح پر تشدد کاروائی کی ہے میں ان کے خلاف پوری کوشش کرکے انہیں بے نقاب کروںگا اب میں نہ صرف مسلمانوںکوان کے کرتوتوںسے باخبر کروںگا بلکہ قادیانیوں کو بھی پیغام دوںگا کہ وہ اپنا ایمان مکمل کریں اور خود کو جہنم سے بچائیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان کے ساتھ قادیان کا تعلق ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں قادیانیوں کو اور بھی بہت ساری مراعات حاصل ہیں ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان نے انہیں غیر مسلم قرار نہیں دیا ۔ ہندوستان میں ان کا نیٹ ورک بہت م ©ضبوط ہے ۔ اسی طرح اسرائیل، تل ابیب میں قادیانی مرکز ہے۔ اسرائیلی فوج میں بھی قادیانی شامل ہیں اور مسلمانوںکے خلاف اسرائیلی کار وائیوں میں حصہ لیتے ہیں ۔

سوال : بر صغیر ہند وپاک میں قادیانیوں کے تبلیغی اہداف اور طریقے کیا ہے ؟

جواب: ہر سال ربوہ سے تقریبا چار سو مبلغ تیار ہوکر نکلتے ہیں کچھ ملک کے اندر اور کچھ بیرون ملک بھجوائے جاتے ہیں پاکستان کے اندر اور باہر ان کے آسان ٹارگٹ غربت زدہ علاقوں کے مسلمان ہوتے ہیں ۔ پنجاب کا اسرائیلی بیلٹ، سندھ کے پسماندہ علاقے ملک کے اندر ان کا خصوصی ہدف ہیں جب کہ افریقی ممالک کے غریب مسلمانوں پر بھی یہ کام کر رہے ہیں ۔

مکمل تحریر >>