بدھ, مارچ 13, 2013

تحفہ معراج

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کى نبوت کے12سال ہوچکے تھے ،بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیاتھا،اسلام اورمسلمانوں کے لیے مکہ کی زمین گویا بنجر ہوچکی تھی ،ہر طرح سے ستایاگیا، لیکن آپ کام میں لگے رہے، پھر وہ وقت بھی آیا کہ آپ کی چہیتی بیوی خدیجہ اور آپ کے چچا ابوطالب دونوں دنیا سے چل بسے، یہ سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتنا کربناک تھا کہ غم کا سال کہلایا،مکہ کے لوگوں کی شرارت اور زیادہ ہونے لگی ،طائف گئے اس امید سے کہ وہا ں کے لوگ اسلام قبول کرلیں گے تو سہارا بن سکتے ہیں  تاہم  اہل طائف نے آپ پر پتھر برسایا اور لہولہان کردیا ،بالآخر بیہوش ہوکر گرگئے، ہوش آنے پر پہاڑوں کے فرشتے نے اجازت مانگی کہ اگر آپ کا حکم ہوتو ان کمبختوں کو دو پہاڑوں کے بیچ پیس دیاجائے لیکن قربان جائیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم وکرم پر کہ آپ نے جواب دیا :نہیں ایسا مت کرو، مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ان سے ایسی نسل نکالے گا جو اللہ کی عبادت کرنے والی ہوگی ،پھر جب مکہ کا رخ کیا تو مکہ میں جان کا خطرہ ہے ،بالآخر مطعم بن عدی کی پناہ میں آکر مکہ میں داخل ہوسكے ، ایسے نازك حالات تهے جس میں اللہ پاک نے اپنے نبی کو اپنے پاس بلایا ،مکہ سے رات کے ایک حصے میں مسجد اقصی کی سیر کرائی ،اسی رات آپ کو بیت المقدس سے آسمان دنیا پھر وہاں سے یکے بعد دیگرے ساتوں آسمان پر لے جایاگیا ،اس کے بعد آپ سدرة المنتہی تک لے جائے گئے، پھر آپ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالی سے پردے کی اوٹ میں ملاقات ہوئی ، یہیں پر اللہ تعالی نے آپ کو نہایت اہم تحفہ دیا ،یعنی پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں ،موسی علیہ السلام کے مشورے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں تخفیف کرایا ،یہاں تک کہ اللہ پاک نے پانچ نمازیں باقی رکھیں ۔ اس کے بعد پکار ا گیا :
"اے محمد ! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی ، ان پانچ نمازوں کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہے."
اسرا ومعراج کے اس واقعے میں سب سے پہلا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے ۔ زمین والوں نے جب اپنے نبی کے ساتھ بدسلوکی کی تو اللہ پاک نے اپنے پاس بلالیا اور انسانوں کو یہ سبق دیا کہ تم نے اپنے حبیب کی قدر نہیں پہچانی ،تم کیا ہو ،اِن کا وہ مقام ہے کہ ان کا استقبال تو آسمان والے کرتے ہیں.
 دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ اسلام ساری انسانیت کے لیے آیا  ہے، تب ہی تو اللہ پاک نے سارے انبیائے کرام کو اکٹھا کرکے آپ کی امامت میں ان کو نمازپڑھوائی، اس سے آپ کی سارے انبیاء پر افضیلت بھی ثابت ہوئی اوریہ بھی ظاہر ہوا کہ اب دین محمدی ہی غالب رہے گا-

اسی طرح آپ کو جنت اور جہنم کا سیر کرایا گیا ،جنت وجہنم کے نظارے دکھائے گئے، اور سدرة المنتہی کی زیارت کرائی گئی ،یہ سب اس لیے تاکہ آپ غیبی امور کو اپنی پیشانی کی آنکھوں سے دیکھ لیں اورآپ کو علم الیقین حاصل ہوجائے ۔ 
مکمل تحریر >>

اگر عطر میں الکحل ملا ہوا ہو تو اسے استعمال کرنا حرام ہے یا حلال ؟

سوال:

 اگر عطر میں الکحل ملا ہوا ہو تو  اسے استعمال کرنا حرام ہے یا حلال ؟ (واجد آفریدی-  حولی ، كويت )

جواب:

عطر میں الکحل کی مقدار چونکہ بالکل کم ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کا  اثر بھی اس میں نہیں ہوتا ، اس لیے علماء نے ایسے عطر کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے، ہاں! اگر کسی عطر میں الکحل کی مقدار زیادہ ہو تو اس کا استعمال جائز نہ ہوگا-
مکمل تحریر >>

کیا مطلقہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے؟

سوال:

 اگر کوئی آدمی کسی عورت کے عشق میں پھنس کر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو کیا مطلقہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرسکتی ہے؟  (احمد ، فروانیہ)

جواب: 

جی ہاں ! یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی تازہ گوشت  چھوڑ کر سڑا  اور متعفن گوشت کھانے کی ناپاک جسارت کرے ظاہر ہے کہ ایسا کام دانا نہیں کر سکتا، بہر کیف مطلقہ کے ليے اجازت ہے كہ عدت گزرنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے۔ اور یقین رکھے کہ  اللہ کے ہر فیصلے میں بہتری ہی ہوتی ہے اور مطلقہ کی عدت  كى مدت تین حيض ہے ۔ الله تعالى نے فرمايا : 
 وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (سورة البقرة 228)  
" طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں ".
مکمل تحریر >>

اگر نماز کی حالت میں کسی کا وضوٹوٹ جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

سوال:
اگر نماز کی حالت میں کسی کا وضوٹوٹ جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ 
جواب:
اگردوران نماز کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ناک پر ہاتھ رکھے ، اورجماعت سے نکل جائے، پھر وضو کرکے آئے اورجماعت میں شامل ہو، اس حالت میں اس نے پہلے جو نمازیں پائیں تھی انہیں وہ شمار نہیں کرسکتا کہ وضوٹوٹ جانے کی وجہ سے وہ رکعتیں باطل ٹھہریں۔ سنن ابوداؤد کی حدیث ہے :
 إذا فسا أحدکم فی الصلاة فلینصرف ولیتوضأ ولیعد الصلاة (ابوداؤد)
"جب تم میں کسی کو نماز میں ہواخارج ہوتو اسے چاہیے کہ لوٹ جائے، وضوکرکے آئے اورپھر سے نماز کو لوٹائے" ۔

مکمل تحریر >>

درگاہ پر کوئی جاکر ان سے مانگتا نہیں ہے بلکہ اُن کو سفارشی بناتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے ولی ہیں

سوال:

میں جمعہ کے دن مالیہ کی مسجد میں گیا وہاں مولانا خطبہ میں فرمارہے تھے کہ جو مانگنا ہے اللہ سے براہ راست مانگو نہ کہ کسی درگاہ پر جاکر۔ کیونکہ قبرمیں مدفون مردے اور بے جان ہیں ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ درگاہ پر کوئی جاکر ان سے مانگتا نہیں ہے بلکہ اُن کو سفارشی بناتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے ولی ہیں ۔ آپ بتائیے کہ انہوں نے صحیح کہا یا غلط ؟  (ایقان احمد)

جواب:

امام صاحب نے بالکل صحیح کہا تھا اور آپ غلط فہمی میں مبتلا ہيں۔ آپ ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہی ہوں گے اِس میں ایک بندہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین اے اللہ ہم تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے اور تیرے علاوہ کسی سے مدد طلب نہیں کرتے ۔ بلکہ کلمہ لا الہ الا اللہ کا مفہوم بھی تو یہی ہے كہ اللہ کے علاوہ ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے ۔ عبادت کیا ہے ؟ نماز ، روزہ ، قربانی ، نذر ونیاز، دعا ، یہ سب عبادات ہيں جو اللہ کے لیے خاص ہونے چاہئيں ، اگر یہ کام اللہ کے علاوہ دوسروں کے لیے کرنے لگیں تو یہی شرک ہے۔
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی قبر پر آکر مردے سے مانگتا نہیں بلکہ اُن کو سفارشی بناتا ہے تو کیا اس کی اجازت ہے ؟
 اسلام میں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ آپ کسی نیک آدمی سے دعا کرائیں جو زندہ ہو،تو اللہ پاک اس کو ضرور سنیں گے ۔ اسی طرح نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگیں یا اس کے اسماءوصفات کے ذریعہ اللہ سے مانگیں تو اللہ پاک سنتے ہیں،لیکن جو مرچکے اُن کے اندر سننے کی صلاحت نہیں رہی ،قبرمیں مردے سنتے نہیں ،یہ بات میں نہیں کہتا بلکہ اللہ پاک نے قرآن کریم میں دوجگہ صراحت کے ساتھ کہہ دی ہے سورہ فاطر آیت نمبر 22  
وما أنت بمسمع من فی القبور
"اے (نبی ا ) آپ ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں مدفون ہیں" ۔ اسی طرح اللہ پاک نے سورہ نحل آیت نمبر 80 میں فرمایا :
 إنک لاتسمع الموتی 
"(اے محمد صلى الله عليه وسلم) آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے" ۔  یہ خطاب پیارے نبی سے ہے ، اگر ہمارے آقا مردوں کو نہیں سناسکتے تو ہم کس کھیت کی مولی ہوتے ہیں کیونکہ اگر سنیں گے تو بولیں گے بھى-
پھر آپ نے سفارشی بنانے کی جو بات کہی ہے کہ ہم مردے سے مانگتے نہیں بلکہ سفارشی بناتے ہیں کیوں کہ وہ اللہ کے ولی ہیں توجب وہ سنتے ہی نہیں تو پھر سنانا کس کو ؟  دوسری بات یہ کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے کسی واسطے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ وہ تو خود کہتا ہے کہ :
نحن أقرب الیہ من حبل الورید (سوره ق 16 )
"ہم انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں" ۔
وإذا سالک عبادی عنی فإنی قریب (البقرة 186 )
"جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو آپ بتا دیجئے کہ میں قریب ہوں "۔
اس لیے ہم اللہ کی ذات کو بادشاہوں اور رعایا کے جیسے قیاس نہیں کرسکتے کہ جس طرح بادشاہ کے پاس پہنچنے کے لیے واسطے کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح اللہ تک پہنچنے کے لیے واسطے کی ضرورت ہوگی ۔ چونکہ بادشاہ کو آپ کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی اس لیے آپ واسطہ سے اُس تک پہنچتے ہیں لیکن اللہ تعالی تو آپ کو پوری طرح جان رہا ہے ۔ وہ آپ کو دیکھ بھی رہا ہے ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے کسی کی توجہ دلانے کی ضرورت ہو ، تب ہی وہ کسی کے معاملے پر غور کرے گا ،اور کل قیامت کے دن بھی اللہ کے پاس سفارش دو شرطوں کے ساتھ ہی چل سکتی ہے ۔
الا من اذن لہ الرحمن ورضی لہ قولا ۔ ( سورة طه 109)
"سفارش کرنے والے کو سفارش کرنے کی اجازت- دوسرے جس کے لیے سفارش کی جارہی ہے اُس سے اللہ راضی بھی ہو ۔"

یہ تو ایک رہا پھرآپ اللہ کے نبی کے زمانہ میں بھی دیکھیں کہ مکہ کے کفار سے جب پوچھا جاتا کہ تمہیں روزی کون دیتا ہے ؟ تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ؟ مردے کو زندہ اور زندے کو مردہ کون کرتا ہے ؟ کائنات کی تدبیر کون کررہا ہے ؟ اِن سوالات کے جواب میں جھٹ کہتے تھے ”اللہ “ ۔  ( سورة يونس 31 ) پھر اُن کی اصل غلطی کیا تھی ؟ قرآن نے اس کا جواب دیا ۔ وہ کہتے تھے :
مانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفا ( سورة الزمر 3)  
"ہم تو اُن کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں" ۔ دوسری جگہ اللہ پاک نے سورہ یونس آیت نمبر 18میں فرمایا: 
ویقولون ھولاء شفعاءنا عنداللہ 
"یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں "۔خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی ہی نفع ونقصان کا مالک ہے ۔ اس تک پہنچنے کے لیے کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ وہی مشکل کشا ، حاجت روا اور غوث اعظم ہے ۔ اس لیے درگاہوں پر جاکر وہاں پر دعا کرنا یا ان سے مانگنا  شرک  ہے  ۔   

مکمل تحریر >>

منگل, مارچ 12, 2013

کیا مرد اور عورت کی نمازوں میں کوئی فرق ہے ؟

سوال: 

کیا مرد اور عورت کی نمازوں میں کوئی فرق ہے ؟ 

جواب:

مرداورعورت کی نمازوں میں بنيادى فرق یہ ہے کہ
  • نمازمیں عورت کا پردہ سر سے پاؤں تک ہوناچاہیے جبکہ مردکے لیے ایسی پابندی نہیں ہے۔
  • دوسرے نمبر پر :جب عورت عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے آگے نہیں بلکہ درمیان میں کھڑی ہوگی۔
  •  تیسرے نمبرپر: جب امام بھول جائے تو عورت امام کو متنبہ کرنے کے لیے تالی بجائے گی ۔ جبکہ مرد سبحان اللہ کہہ کر امام کو خبر دار کریں گے ۔
 یہ ہے موٹا سا فرق مرد اور عورت کی نماز میں ۔ البتہ ہمارے ہاں جو یہ فرق کیاجاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھاے اورعورت کندھوں تک، اسی طرح عورت سینے پر ہاتھ باندھے اورمرد ناف کے نیچے، یاعورت سجدہ کی حالت میں اپنے بازوؤں کو زمین پر بچھادے۔ اس طرح کی تفریق احادیث میں کہیں نہیں ملتی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلوا کما رأیتمونی أصلی (بخارى ومسلم)
 " ایسے ہی نماز ادا کروجیسے تم نے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے"۔

مکمل تحریر >>

بدھ, مارچ 06, 2013

اگر کسی کو اولاد نہ ہو تی ہو تو کیا وہ اپنى سگی بہن کی بیٹی یا کسی کے بیٹے کو گود لےسکتی ہے ؟

سوال:  

اگر کسی کو اولاد نہ ہو تی ہو تو کیا وہ اپنى سگی بہن کی بیٹی یا کسی کے بیٹے کو گود  لےسکتی ہے ۔ اور اگربچی ہوتو کیا شوہر اس بچی کے جوان ہونے کے بعداس کے ساته  اپنی بچی  کا  سا  برتاؤ کرسکتا ہے ؟ (عمر- كويت)

جواب :

لے پالک بنانا یا دوسروں کے بچے کو اپنے پاس رکھنا دو مفہوم میں استعمال ہوتاہے
ایک تو یہ کہ اس کی تربیت کی جائے ،اس کا خیال رکھا جائے ،بچہ نہ ہونے کی وجہ سے شوق کی بھرپائی کی جائے اور دلی سکون حاصل کیا جائے ، البتہ بچے کی نسبت اس کے اصلی باپ کی طرف  ہو ،تو اس کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں ۔ بلکہ یہ افضل عمل ہے ، اور بے حساب اجروثواب کا باعث ہے ، کہ اس طرح کسی غریب اورمسکین بچے کی تربیت ہو جاتى ہے  ۔
 دوسری شکل یہ ہے کہ بچے کو اپنے نسب میں شامل کرلیا جائے ،اسے صلبی بیٹے کا درجہ دے دیا جائے ، یہاں تک کہ وارث بھی بنایا جائے ،تو یہ طریقہ شروع اسلام میں جائز تھا ۔ زمانہ جاہلیت میں رائج تھاکہ لوگ لے پالک بنالیتے اور وہ صلبی بیٹے کے جیسے وراثت کا بھی حقدار ٹھہرتا تھا ، اسی لیے جب زید بن حارثہ کو خدیجہ رضى الله عنها نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی تحویل میں کیا،اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم حضرت زید کی دیکھ بھال کرنے لگے تو لوگوں نے زید کو زید بن محمد کے نام سے پکارنا شروع کردیا ، اسی پر نکیر کرتے ہوئے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ:
 ادعوھم لآباءھم ھو أقسط عند اللہ (سورة الأحزاب 5)
کہ ان کو ان کے باپ کی طرف نسبت کرکے پکارو، یہ اللہ تعالی کے پاس زیادہ انصاف کی بات ہے ۔ اسی دن سے تاکید کردی گئی کہ زید کو زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جائے ۔ کیونکہ لے پالک ہونے سے حکم نہیں بدلتا ۔
اللہ تعالی  لے پالک کا پوری طرح خاتمہ کردینا چاہتا تھا،اور یہ اس وقت ہوتا جب کہ عملی نمونہ سامنے آجائے ،چنانچہ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے حضرت زينب رضى الله عنها سے شادى كرلى ،اور عملى شكل میں لے پالک كا خاتمہ ہوگيا ،   اس طرح  تعدد ازدواج کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت لے پالک کا خاتمہ بھی ہے.
اس لیے کسی بچے یا بچی کو گود لینے سے حکم نہیں بدلتا ، پہلے اگر بچہ محرم تھا تو بعد میں بھی محرم رہے گا ، اگر پہلے محرم نہیں تھاتو بعد میں بھی محرم نہیں رہے گا ، اسی سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ منہ بولے بیٹے کے جوان ہونے کے بعد اگر وہ پہلے اس کا محرم نہیں تھا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، اسی طرح منہ بولی بیٹی شوہر کى محرمات میں سے نہیں تھی تو اس کے جوان ہونے کے بعد اس کے شوہر سے پردہ کرنا ضروری ہے ۔ البتہ حلت کی ایک شکل رضاعت ہے كہ منہ بولے بچے یا بچی کو دودھ پلادينے سے حرمت جاتى رہےگى ۔

مکمل تحریر >>

کیا ایک مسلمان ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے منتر سیکھ سکتا ہے ؟

سوال:

کیا ایک مسلمان ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے منتر سیکھ سکتا ہے ؟

جواب: 

 اگر مذہبی روادار ی کے نام پر سیکھنا چاہتے ہوں تو پھر جائز نہیں ۔ ( ایک دن ) حضرت عمررضى الله عنہ تورات کا ایک نسخہ لے کر رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ!یہ تورات کا ایک نسخہ ہے ۔ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم خاموش رہے۔ حضرت عمر رضى الله عنہ  نے اس کو پڑھنا شروع کردیا ، ادهر رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم کا چہرہ مبارك متغير ہونے لگا ( حضرت عمر رضى الله عنہ صورتحال سے بے خبر اس نسخے کو پڑھتے رہے ) تب حضرت ابوبکر رضى الله عنہ  (نے ان کو ڈانٹا اور ) فرمایا : کتنے افسوس کی بات ہے كہ تم حضور صلى الله عليہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت نہیں دیکھ رہے ہو ۔ حضرت عمر رضى الله عنہ  نے حضور صلى الله عليہ وسلم کے چہره مبار ک کی طرف نظر کی اور فورا  بولے ”اللہ کی پناہ ! اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليہ وسلم کے غصے سے ۔ ہم راضی ہیں اللہ کو رب مان کر اور اسلام کو اپنا دین بنا کر اور حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم کو نبی و رسول مان کر“ ۔ اس پر رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا : ( سنو ) اگر موسی عليہ السلام  زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے ( وہ میری لائی ہوئی شریعت پر ہی عمل کرتے )“۔ ( مسند دارمی(
ہاں اگر دعوتى مقصد  کے تحت  اور توحید ،رسالت اور یوم آخرت کی باتیں اُن کو اپنی مذہبی کتابوں سے بتانے کے لیے اُن کی کتابوں کے کچھ منتر یاد کریں تو ایسا جائز ہے ۔ بشرطيكہ اس ميں مبالغہ  آميزى  نہ پائى  جائے،  الله تعالى نے فرمايا: 
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( سورة النحل 125)
 اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے ۔
مکمل تحریر >>

بیوی کی بہن میری اہلیہ کی دیکھ ریکھ کر رہی ہے، کیا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے ؟

سوال:

گھر میں میری بیوی بیمار ہے اور کوئی دیکھ  بھال کرنے والی عورت نہیں ہے، میری بیوی کے کہنے کی وجہ سے میں نے ان کی بہن کو بلالیاہے جو میری اہلیہ کی دیکھ ریکھ کر رہی ہے، کیا اس میں کوئی شرعی قباحت ہے ؟ 

 جواب: 

اہلیہ کی بہن بیوی کی وجہ سے آپ کی رشتے دار ضرور ہے لیکن ان کے لیے ضروری ہے کہ آپ سے پردہ کریں، اورآپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ آپ ان سے کبھی یا کسی بھی حالت میں تنہائی اختیار کریں، ابھی آپ کے پاس ضرورت کے تحت آئی ہیں توان کو شرعی دائرے میں رکھنا آپ کے لیے ضروری ہے، ان کے ساتھ بے تکلفی بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اورضرورت پوری ہونے کے فوری بعد ان کو اپنے گھر لوٹا دینا مناسب ہے ۔
عام طورپر ہمارے معاشرے میں بہنوئی سے پردہ نہیں کیاجاتا، بلکہ اسے عیب سمجھا جاتا ہے، کہیں کہیں تو پردہ کرنے پر بہنوئی صاحب ناراض ہوجاتے ہیں، یہ سب جہالت کا نتیجہ ہے، سالیوں کو چاہیے کہ وہ بہنوئی سے پردہ کریں، اورشرعی دائرہ میں رہیں ۔ اسی میں عزت وعصمت کی حفاظت ہے ۔

مکمل تحریر >>

منگل, مارچ 05, 2013

کیا صلاة القیام نماز فجر سے پندرہ منٹ پہلے تک پڑھ سکتے ہیں اور کیا موزے پر مسح کرنا جائز ہے ؟

سوال:

کیا صلاة القیام نماز فجر سے پندرہ منٹ پہلے تک پڑھ سکتے ہیں اور کیا موزے پر مسح کرنا جائز ہے ؟

جواب:

جی ہاں! صلاة القیام فجر کی اذان سے پہلے پہلے ادا کرسکتے ہیں ۔ اذان ہونے کے بعد صلاة القیام کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔ اور موزه خواه چرمى ہو يا غير چرمى  اس پر مسح کرنا  جائز ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا:
إن اللہ يحب أن تؤتی رخصہ کما یکرہ أن تؤتی معصیتہ  ( رواه احمد وصححہ ابن خزيمہ وابن حبان )
 "اللہ تعالی اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کی رخصت قبول کی جائے جیسا کہ اس بات کو ناپسند فرماتا ہے کہ اُس کی نافرمانی کاكوئى کام کیا جائے "۔
مکمل تحریر >>

جمعہ, مارچ 01, 2013

کتنے دنوں تک ایک آدمی اپنی بیوی سے دور رہ سکتا ہے ؟

سوال:

کتنے دنوں تک ایک آدمی اپنی بیوی سے دور رہ سکتا ہے ؟ (شریف- كويت )

جواب : 

شوہر کے لیے جائز ہے کہ کام کرنے  یا تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے یا دوسری شرعی مصلحت کے تحت اپنی بیوی سے دوری اختیار کرے ، جس کی مدت چھ مہینہ ہے ، اور بعض علماءنے  چار مہینہ كى تحديد كى ہے ۔ اگر اس مدت سے زیادہ رہنے کی نوبت آجائے تو بیوی سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا ۔اس سلسلے میں مصنف عبد الرزاق میں آیا ہے کہ :
عمر فاروق رضى الله عنه ایک مرتبہ رعایا کی خبرگیری کے لیے رات میں دیہاتوں کا چکر لگا رہے تھے کہ ایک عورت کو چند اشعار پڑھتے ہوئے سنا جس میں شوہر کی جدائی کا اظہار کیا گیا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا شوہر حکومت کی طرف سے کسی مہم پر گیا ہے ، اسی وقت آپ نے گھر آکراپنی بیٹی حفصہ رضى الله عنها سے اس سلسلے میں بات کی کہ ایک عورت اپنے شوہر سے دوری کو کتنے دنوں تک برداشت کرسکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار مہینے : چنانچہ عمر فاروق رضى الله عنه  نے یہ نظام نافذ کردیا کہ کوئی بھی حکومت کا اہلکار چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دور نہیں رہ سکتا ۔
جبکہ فقہ کی کتاب " المغنی " میں آیا ہے کہ عمرفاروق رضى الله عنه نے مجاہدین کے لیے چھ مہینے کا وقت مقررکیا  تھا،ایک مہينہ چلیں گے ،چار مہینے ٹہریں گے پھر ایک مہینہ میں چل کر لوٹیں گے ۔
اس سلسلے میں اصولی بات شیخ ابن عثیمین نے عرض کردی ہے آپ فرماتے ہیں:
 ” اگر شوہر کو بیوی کے تئیں بالکل اطمینان ہے ، اور محفوظ جگہ پررہائش پذیر ہے ، تو چھ مہینہ تک اس سے دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ اگر اپنے حق کا مطالبہ کرے اور شوہر سے طلب کرے کہ وہ آجائے تو اسے چاہئے کہ چھ مہینہ سے زائد اپنی بیوی سے دور نہ رہے ۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو جیسے بیماری کا علاج کرا رہا ہے یا اس جیسے دوسرے اعذار ۔ اس لیے کہ ضرورت کے خاص احکام ہوتے ہیں ، بہرکیف اس سلسلے میں حق بیوی کا ہے ، اگر اس نے دور رہنے کی اجازت دے دی ہے ، اور وہ محفوظ جگہ پر ہے تو دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ گرچہ زیادہ دنوں تک ہی شوہر کیوں نہ غائب رہے ۔“ (فتاوی العلماءفی عشرة النساء)  
ظاہر ہے کہ ہر آدمی معاشی ضرورت کے تحت ہی اپنی بیوی سے دوری اختیار کرتا ہے ، اس لیے جہاں بیوی کو چاہیے کہ شوہر سے دوری پر صبر کرے اور یہ خیال رکھے کہ جس طرح ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ رہیں اسی طرح ہمارے شوہر کی بھی خواہش ہے کہ ہمارے ساتھ رہے ، اس لیے اسے انگیز کرلینا چاہیے ۔ لیکن دوسری طرف شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ مال ودولت جمع کرنے کے دھن میں اپنی بیوی کی نفسیات کو نظر انداز نہ کرے ، اس سے ہمیشہ بات کرتا رہے ، اُسے تنہا نہ رہنے دے ، ایسی جگہ پر رکھے جہاں اس کے محرم رہتے ہوں ۔ اور جب کبھی موقع ملے سفر پر چلا جائے آخر پیسہ کس کے لیے کما رہا ہے ۔

اور اگر بیوی کی اجازت سے آپ باہر رہ رہے ہیں تو اپنی  اور اپنے اہل خانہ كی دینی تربیت بہت ضروری ہے ، دینی تربیت سے مراد روحانی  غذا حاصل كرنا ہے ، اگر ایک شخص بیوی سے دور رہ کر نماز کی پابندی کرتا ہے ، نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہے ، صبح وشام کے اذکار پر دھیان رکھتا ہے ۔ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرتا ہے چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو ،تو وہ بیوی سےدور رہ کر بھی یک گونہ سکون پائے گا ، اگر نہیں تو ہمیشہ ذہنی الجھن ، پریشانی ، قلق واضطراب کا شکار رہے گا ، اس کے ساتھ ساتھ بُرائیوں میں بھی پھنستا جائے گا ۔ یہی حال بیوی کا بھی ہوسكتاہے ۔ اگرذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے فحش فلموں کا سہارا لیاجیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں تو سمجھ لیں کہ اس سے سکون نہیں ملے گا بلکہ ٹینشن میں مزید اضافہ ہوگا ، ہمیشہ قلق واضطراب دامن گیر رہے گا، جسے سکون کی تلاش ہے وہ روحانی زندگی گزار کر دیکھ لے ۔ زندگی میں کیسی تبدیلی آتی ہے ۔

مکمل تحریر >>