جمعہ, مارچ 01, 2013

کتنے دنوں تک ایک آدمی اپنی بیوی سے دور رہ سکتا ہے ؟

سوال:

کتنے دنوں تک ایک آدمی اپنی بیوی سے دور رہ سکتا ہے ؟ (شریف- كويت )

جواب : 

شوہر کے لیے جائز ہے کہ کام کرنے  یا تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے یا دوسری شرعی مصلحت کے تحت اپنی بیوی سے دوری اختیار کرے ، جس کی مدت چھ مہینہ ہے ، اور بعض علماءنے  چار مہینہ كى تحديد كى ہے ۔ اگر اس مدت سے زیادہ رہنے کی نوبت آجائے تو بیوی سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہوگا ۔اس سلسلے میں مصنف عبد الرزاق میں آیا ہے کہ :
عمر فاروق رضى الله عنه ایک مرتبہ رعایا کی خبرگیری کے لیے رات میں دیہاتوں کا چکر لگا رہے تھے کہ ایک عورت کو چند اشعار پڑھتے ہوئے سنا جس میں شوہر کی جدائی کا اظہار کیا گیا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا شوہر حکومت کی طرف سے کسی مہم پر گیا ہے ، اسی وقت آپ نے گھر آکراپنی بیٹی حفصہ رضى الله عنها سے اس سلسلے میں بات کی کہ ایک عورت اپنے شوہر سے دوری کو کتنے دنوں تک برداشت کرسکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار مہینے : چنانچہ عمر فاروق رضى الله عنه  نے یہ نظام نافذ کردیا کہ کوئی بھی حکومت کا اہلکار چار مہینے سے زیادہ اپنی بیوی سے دور نہیں رہ سکتا ۔
جبکہ فقہ کی کتاب " المغنی " میں آیا ہے کہ عمرفاروق رضى الله عنه نے مجاہدین کے لیے چھ مہینے کا وقت مقررکیا  تھا،ایک مہينہ چلیں گے ،چار مہینے ٹہریں گے پھر ایک مہینہ میں چل کر لوٹیں گے ۔
اس سلسلے میں اصولی بات شیخ ابن عثیمین نے عرض کردی ہے آپ فرماتے ہیں:
 ” اگر شوہر کو بیوی کے تئیں بالکل اطمینان ہے ، اور محفوظ جگہ پررہائش پذیر ہے ، تو چھ مہینہ تک اس سے دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ اگر اپنے حق کا مطالبہ کرے اور شوہر سے طلب کرے کہ وہ آجائے تو اسے چاہئے کہ چھ مہینہ سے زائد اپنی بیوی سے دور نہ رہے ۔ الا یہ کہ کوئی عذر ہو جیسے بیماری کا علاج کرا رہا ہے یا اس جیسے دوسرے اعذار ۔ اس لیے کہ ضرورت کے خاص احکام ہوتے ہیں ، بہرکیف اس سلسلے میں حق بیوی کا ہے ، اگر اس نے دور رہنے کی اجازت دے دی ہے ، اور وہ محفوظ جگہ پر ہے تو دور رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ گرچہ زیادہ دنوں تک ہی شوہر کیوں نہ غائب رہے ۔“ (فتاوی العلماءفی عشرة النساء)  
ظاہر ہے کہ ہر آدمی معاشی ضرورت کے تحت ہی اپنی بیوی سے دوری اختیار کرتا ہے ، اس لیے جہاں بیوی کو چاہیے کہ شوہر سے دوری پر صبر کرے اور یہ خیال رکھے کہ جس طرح ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ رہیں اسی طرح ہمارے شوہر کی بھی خواہش ہے کہ ہمارے ساتھ رہے ، اس لیے اسے انگیز کرلینا چاہیے ۔ لیکن دوسری طرف شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ مال ودولت جمع کرنے کے دھن میں اپنی بیوی کی نفسیات کو نظر انداز نہ کرے ، اس سے ہمیشہ بات کرتا رہے ، اُسے تنہا نہ رہنے دے ، ایسی جگہ پر رکھے جہاں اس کے محرم رہتے ہوں ۔ اور جب کبھی موقع ملے سفر پر چلا جائے آخر پیسہ کس کے لیے کما رہا ہے ۔

اور اگر بیوی کی اجازت سے آپ باہر رہ رہے ہیں تو اپنی  اور اپنے اہل خانہ كی دینی تربیت بہت ضروری ہے ، دینی تربیت سے مراد روحانی  غذا حاصل كرنا ہے ، اگر ایک شخص بیوی سے دور رہ کر نماز کی پابندی کرتا ہے ، نفلی روزوں کا اہتمام کرتا ہے ، صبح وشام کے اذکار پر دھیان رکھتا ہے ۔ قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرتا ہے چاہے ایک صفحہ ہی کیوں نہ ہو ،تو وہ بیوی سےدور رہ کر بھی یک گونہ سکون پائے گا ، اگر نہیں تو ہمیشہ ذہنی الجھن ، پریشانی ، قلق واضطراب کا شکار رہے گا ، اس کے ساتھ ساتھ بُرائیوں میں بھی پھنستا جائے گا ۔ یہی حال بیوی کا بھی ہوسكتاہے ۔ اگرذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے فحش فلموں کا سہارا لیاجیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں تو سمجھ لیں کہ اس سے سکون نہیں ملے گا بلکہ ٹینشن میں مزید اضافہ ہوگا ، ہمیشہ قلق واضطراب دامن گیر رہے گا، جسے سکون کی تلاش ہے وہ روحانی زندگی گزار کر دیکھ لے ۔ زندگی میں کیسی تبدیلی آتی ہے ۔

0 تبصرہ:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مذكورہ مضمون آپ نے کیسا پایا ؟ اپنے گرانقدر تاثرات اورمفید مشورے ضرور چھوڑ جائیں، یہ ہمارے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔